Tag: brexit deal

  • برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں: تھریسامے

    برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں: تھریسامے

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی قوم سے خطاب کرتے ہوئے تھریسامے کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعظم میری ذمےداری ہے کہ عوامی خواہش پرعمل کراؤں، تمام جماعتوں کو دعوت دیتی ہوں کہ آئیں مل کر مسئلے کا حل نکالیں۔

    انہوں نے کہا کہ بریگزٹ پر ریفرنڈم میں عوامی خواہشات کا احترام کیا جائے گا، اپوزیشن کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے ہیں، آئیں بریگزٹ کا معاملہ ممکن بنائیں۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں، کل سے مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں گی، ہم متحد ہوکر برطانیہ کے مستقبل کے لیے کام کریں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ لیبر پارٹی کے رویئے سے مایوسی ہوئی، حالات سے کس طرح مقابلہ کرنا ہے اسی بابت سوچ رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ آج روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، تحریک عدم اعتماد پر اراکین پارلیمنٹ کی ووٹنگ میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی حمایت میں 325 اور مخالفت میں 306 ووٹ آئے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل  مسترد کردی۔۔

    تفصیلات کے مطابق  بریگزٹ ڈیل پر ہاؤس آف کامنز میں رائے شماری ہوئی جس میں حکومت کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے کی  جانے والی بریگزٹ ڈیل کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا۔

    بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے کے بعد حکومتی جماعت کے وائس چیئرمین ٹام پرسگلو نے استعفیٰ دے دیا، اپوزیشن نے تھریسامے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    دوسری جانب تھریسامے کا کہنا ہے کہ غیریقینی میں گزرنے والا ہر دن برطانیہ کو نقصان دے رہا ہے، اب بھی حکومت کو پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکمت عملی 29 مارچ تک وقت گزارنا نہیں، 2 سال تک بریگزٹ ڈیل پر کام کیا، مستقبل کے متعلق سوچ رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانوی ارکان پارلیمان نے رواں ماہ 9 تاریخ کو ہونے والی قرارداد کو 297 کے مقابلے میں 308 ووٹوں کی اکثریت سے مسترد کردیا تھا جس میں بریگزٹ ڈیل پر ہونے ہونے والی پارلیمانی ووٹنگ ممکنہ طور پر ناکام رہنے کے بعد پارلیمانی فیصلہ سازی کا طریقہ کار بدلنے کی بات کی گئی تھی۔

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    چند روز قبل برطانیہ میں پیلی جیکٹ پہنے مظاہرین سڑکوں پر آگئے تھے اور وزیراعظم ہاؤس کے باہر بریگزٹ کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تھا۔

    علاوہ ازیں اپوزیشن رہنما جریمی کوربن کے حامی بھی احتجاج میں شریک ہوئے تھے اور برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    خیال رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    لندن : برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے بریگزٹ ڈیل کو پارلیمنٹ سئے منظور کروانے کے لیے کوئی راستہ نکال لیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے بدھ کے روز دورہ سنگاپور کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے شہری اپنے ملک کی یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

    وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ اب اگر برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ نہ ہوا تو یہ جمہوریت کےلیے نقصان دہ ہوگا، بریگزٹ ڈیل کو ترک کرنے سے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔

    جیریمی ہنٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم تھریسا مے یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والے بریگزٹ معاہدے کی اراکین پارلیمنٹ سے منظوری کےلیے جلد کوئی راستہ نکالیں۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے 2018 دسمبر میں بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے پارلیمنٹ میں رائے شماری کروانی تھی جسے اچانک ملتوی کردیا تھا جو رواں ماہ کے وسط میں کرائی جائے گی۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے، لیبر کارکنان کا قیادت پر دباؤ

    واضح رہے کہ سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر کی جانب زور دیا جا رہا ہے کہ اگر ایم پیز معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے مطابق دوبارہ ریفرنڈم ’ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا‘ اور ’آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا‘۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اگر اختلافات بھلا کر بریگزٹ معاہدے کی حمایت کرے تو برطانیہ کے لیے یہ نئے دور کا آغاز ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے سال نو کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ نئے سال میں آگے دیکھنے کا وقت ہے، 2019 وہ سال ہوسکتا ہے جس میں ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھیں۔

    یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر منظوری کے باوجود تھریسامے کا بریگزٹ معاہدے کا مسودہ تاحال برطانوی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے۔

    بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے، لیبر کارکنان کا قیادت پر دباؤ

    سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر کی جانب زور دیا جا رہا ہے کہ اگر ایم پیز معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے مطابق دوبارہ ریفرنڈم ’ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا‘ اور ’آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا‘۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    لندن: برطانیہ کی ڈپلومیٹک یونینسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل سے یورپی یونین ، برطانیہ کو سزا دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ سے متعلق ڈی یو پی کے ترجمان اور بریگزٹ کے کٹر حامی سیمی ولسن نے خبردار کیا ہے کہ یورپین یونین برطانوی عوام کے جمہوری فیصلے کا احترام نہیں کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ’’ میرا خیال ہے کہ برطانوی عوام اب محسوس کررہے ہیں کہ یورپی یونین برطانیہ کے منتخب نمائندوں کی رائے کی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یورپی یونین نے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ نہ ہماری وزیراعظم کی عزت کرتے ہیں، نہ ہی ہمارے اداروں کی، نہ ان کی نظر میں ہمارے جمہوری فیصلوں کی اہمیت ہے اور نہ ہی ہمارے عوام کی جنہوں نے ایک جمہوری عمل سے یہ فیصلہ لیا ہے‘‘۔

    انہوں نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں کسی دوستانہ معاہدے پر پہنچنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    سیمی ولسن نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے خواہش ظاہر کی جارہی ہے کہ وہ ہمیں بطور پارٹنر رکھنے کے خواہش مند ہیں ، لیکن یہ ڈیل ظاہر کررہی ہے کہ وہ ہمیں یورپین یونین سے علیحدگی کی سزا دیناچاہتے ہیں اور اس معاہدے سے انہیں ایسا کرنے میں آسانی رہے گی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نے بریگزٹ ڈیل پر ممبران ِ پارلیمنٹ کے اعتراض کے بعد برسلز کا دورہ کیا تھااور یورپی یونین سے آئرش تنازعے کے مجوزہ حل پر قانونی معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ ناکام رہی تھی۔

    یورپی یونین کی جانب سے واضح کردیا گیا تھا کہ اب اس معاہدے کی کسی بھی شق پر مزید مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے اور برطانیہ کو من و عن اس پر عمل کرنا ہوگا۔ یادر ہے کہ آئندہ سال مارچ میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونا طے شدہ ہے، جس کے لیے برطانوی عوام کی اکثریت نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپی حکمرانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، ملاقاتوں کا مقصد معاہدے کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت اکھٹی کرنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپ سے مزید یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے یورپی سربراہوں سے ملاقات کے سلسلے میں پہلی ملاقات ڈچ وزیراعظم مارک روٹ اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے کی ہیں۔

    برطانوی وزیراعظم نے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بریگزٹ ڈیل پر ہاؤس آف کامنز میں ہونے والی ووٹنگ ملتوی ہونے کے بعد کیا ۔ ان ملاقاتوں کو مقصد شمالی آئرلینڈ کے بارڈر تنازعے کے حل کے لیے زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان معاہدہ بہت اچھا تھا لیکن وہ معاہدے سے متعلق یورپی یونین سے دوبارہ بات کر کے معاہدے کو مزید مؤثر بنانے کی کوشش کریں گی۔ وہ اس سلسلے میں لیگل گارنٹی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ شمالی آئرلینڈ بارڈر تنازعے پر برطانیہ کو پھنسایا نہیں جائے گا۔

    دوسری جانب بریگزٹ پر ووٹنگ ملتوی ہونے پر یورپی یونین کے صدر جین کلاؤڈ جنکر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیل پر اب برطانیہ سے دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور معاہدے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، تاہم معاہدے کی شقوں کی مزید وضاحت کی جاسکتی ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے عوام نے ریفرنڈم کے نتیجے میں یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ایک طویل پراسس کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین ایک معاہدے پر پہنچے ہیں تاہم برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو اس معاہدے پر ہاؤس آف کامنز کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کاشکار ہیں۔یورپی یونین سے برطانیہ کا باقاعدہ اخراج آئندہ برس 19 مارچ کو ہونا طے ہے۔

  • برطانوی عوام کا تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج

    برطانوی عوام کا تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج

    لندن : برطانوی شہریوں نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف شدید احتجاج کیا، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر حکومت مخالف نعرے درج تھے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ رواں برس کے اختتام پر یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا، برطانیہ اور یورپی یونین حکام کے درمیان بریگزٹ معاہدے کی منظوری ہوچکی ہے اور اب برطانوی پارلیمنٹ نے بل منظور کرنا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج کرنے والے برطانوی شہریوں نے وزیر اعظم کے بریگزٹ پلان کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے معاہدے کا مسودہ کل اراکین پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدہ مسترد کیے جانے کا امکان ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کی کابینہ کے ارکان بھی بریگزٹ معاہدے کے مسودے کے خلاف ہیں کئی وزراء معاہدے کی مخالفت میں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ لیگل ایڈوائس: تھریسا مےکے لیے نیا محاذ کھل گیا

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نےممبرانِ پارلیمنٹ سے معاہدے کی قانونی پوزیشن کی سمری دکھانے کا وعدہ کیا ہے تاہم اپوزیشن جماعتیں ایڈوائس تک مکمل رسائی چاہتی ہیں۔ کچھ ممبران کا خیال ہے کہ شمالی آئرلینڈ کے معاملے پر پیدا ہونے والا تعطل حتمی شکل اختیار کرلے گا۔

    دوسری جانب مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سترہ ممبران پارلیمنٹ نے میڈیا میں شائع کردہ ایک لیٹر کے ذریعے ایوان سے مطالبہ کیا ہے کہ جلداز جلد ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ‘ برطانوی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوگی

    خیال رہے کہ برطانوی وزیرِ سیکیورٹی نےخبردار کیا ہےکہ بریگزٹ پر کوئی معاہدہ نہ ہونا برطانیہ اور یورپی یونین کے سیکورٹی تعلقات پر نہ صرف اثر انداز ہوگا بلکہ عوام کی حفاظت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرار داد لارہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔

  • بریگزٹ ڈیل ناکام ہوگئی تو تھریسا مے کو عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑ سکتا ہے: برطانوی رہنما

    بریگزٹ ڈیل ناکام ہوگئی تو تھریسا مے کو عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑ سکتا ہے: برطانوی رہنما

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی پارٹی کے ایک سابق رہنما نے خبردار کیا ہے کہ اگر مے کی بریگزٹ ڈیل ووٹنگ میں ناکام ہوگئی تو انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ سکتا ہے۔

    ڈیلی ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے آئن اسمتھ کا کہنا تھا کہ مے اور ان کی کابینہ کا اس ڈیل پر جمے رہنا صورتحال کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ووٹنگ کے بعد تھریسا مے کیا رویہ اختیار کرتی ہیں۔ اگر وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ہار گئے لیکن ہم اسے دوبارہ کریں گے‘ تو قیادت کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں کئی رکن پارلیمنٹ بھی مے کو خبردار کرچکے ہیں کہ اگر تھریسا مے کی ڈیل ناکام ہوجاتی ہے اور وہ یورپی یونین سے اچھے تعلقات استوار کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں تو انہیں اپنا عہدے سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔

    ورک اور پنشن کی سیکریٹری امبر رڈ کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ تھریسا مے کی ڈیل کی حمایت کرتی ہیں تاہم اگر ان کی یہ ڈیل ناکام ہوجاتی تو ناروے پلس آپشن پر غور کیا جائے جس کے تحت ناروے دو اہم تنظیموں یورپین فری ٹریڈ ایسوسی ایشن اور یورپین اکنامک ایریا کا رکن ہے۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد لارہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔

  • بریگزٹ : تھریسا مے نے معاہدے کے متبادل مسترد کردئیے

    بریگزٹ : تھریسا مے نے معاہدے کے متبادل مسترد کردئیے

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش کردہ بریگزٹ معاہدے کے تمام متبادل معاہدوں کو مسترد کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی ٹوری پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے تھریسامے کو دئیے گئے ناروے کی مانند یورپی یونین سے اخراج کے مشورے کو فروغ دے رہے ہیں۔

    برطانوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ مشورہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ یہ آزادی کی تحریک کو جاری گا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی نے موجودہ معاہدے سے بہتر معاہدہ تیار کیا تھا لیکن وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے مناسب متبادل آگے نہیں بڑھایا۔

    برطانیہ کی لیبر پارٹی نے 11 دسمبر کو کامنز معاہدے کی منظوری کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں تھریسا مے کے معاہدے کی مخالفت میں ووٹ دینے کی دھمکی دی ہے۔

    تھریسا مے کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی برطانیہ کا یورپی یونین سے بغیر کسی معاہدے سے اخراج کی وکالت بہت موثر طریقے سے کر رہی ہے۔

    مقامی میڈیا کے مطابق لیبر پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ کراس پارٹی کی بغیر معاہدے کے یورپ سے اخراج کی ترمیم کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔

    لیبر پارٹی لہ قیادت کا کہنا ہے کہ کراس پارٹی کی ترمیم تھریسامے مے کو پابند نہیں کرسکتی لیکن اگر پارلیمنٹ نے اس ترمیم کو منظور کرلیا تو وزیر اعظم کے لیے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔

     یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے ان دنوں دنیا کے امیر ترین ممالک کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاطینی امریکا کے ملک ارجنٹینا میں موجود ہیں۔

    بریگزٹ معاہدہ نہ ہونا سیکورٹی کےلیے خطرناک ہوگا، برطانوی وزیر

    خیال رہے کہ برطانوی وزیرِ سیکیورٹی نےخبردار کیا ہےکہ بریگزٹ پر کوئی معاہدہ نہ ہونا برطانیہ اور یورپی یونین کے سیکورٹی تعلقات پر نہ صرف اثر انداز ہوگا بلکہ عوام کی حفاظت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ان کا کہنا تھا کہ موثر سیکیورٹی کے لیے باہمی روابط بہت اہم ہیں۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرار داد لارہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔

  • بریگزٹ معاہدہ، تھریسامے کے قریبی ساتھی مائیکل فالن نے معاہدے کو بدترین قرار دے دیا

    بریگزٹ معاہدہ، تھریسامے کے قریبی ساتھی مائیکل فالن نے معاہدے کو بدترین قرار دے دیا

    لندن : امریکا اور برطانیہ کے درمیان تجارت میں رکاوٹ پیدا ہونے کی ٹرمپ کی دھمکی پر برطانوی وزیر اعظم کے ایک اور وزیر نے بریگزٹ ڈیل کی مخالفت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں 27 ممالک کے سربراہوں کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کے مسودے پر منظوری پر امریکی صدر نے کہا ہے کہ بریگزٹ ڈیل امریکا اور برطانیہ کی تجارتی ڈیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے انتباہ کے بعد تھریسا مے کے قریبی ساتھی اور سابق وزیر دفاع مائیکل فالن نے بھی برہگزٹ معاہدے کے مسودے کو معاہدے کے حوالے سے بد ترین قرار دیتے ہوئے مسودے کی مخالفت میں آواز بلند کردی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کے قریبی ساتھی کی جانب سے مسودے کی مخالفت کے بعد برطانوی پارلیمنٹ سے مسودے کی منظوری مشکل کا شکار ہوگئی ہے۔

    برطانوی وزیر مائیکل فالن کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ماہ بریگزٹ معاہدے کی منظوری کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں معاہدے کے خلاف حق رائے دہی استعمال کروں گا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے معاہدے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بیلفاسٹ کا سفر اختیار کرنے والی تھیں لیکن اب وہ ویلز میں سیاست دانوں اور کسانوں سمیت دیگر افراد سے خطاب کریں گی۔


    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل سے امریکا اوربرطانیہ کی تجارت ختم ہوسکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ


    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک روز قبل برطانیہ اور یورپین یونین کے درمیان ہونے والے متوقع بریگزٹ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے امریکا اور برطانیہ کی تجارتی ڈیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ان کا خیالات کا اظہار واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کیا ان کا کہنا تھا کہ کہ بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے کہ بریگزٹ معاہدہ یورپین یونین کے لیے تو کئی فوائد لیے ہوئے ہے لیکن اس کے بعد شاید برطانیہ ہمارے ساتھ تجارت نہ کرسکے۔

    امریکی صدر کے مطابق معاہدے کی شق نمبر 10 کے تحت برطانیہ کو دنیا بھر کےممالک سے نئے تجارتی معاہدے کرنے ہوں گے ۔