Tag: Brexit

  • بریگزٹ ڈیل: یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات بےسود

    بریگزٹ ڈیل: یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات بےسود

    لندن: بریگزٹ ڈیل سے متعلق یوپین یونین اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات ناکام رہے، کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین اور برطانوی رہنماؤں نے وفود کی سطح پر مذاکرات کیے جس میں کوئی خاطرخواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے برطانيہ کے انخلاء کے لیے جاری بریگزٹ مذاکرات بےسود ثابت ہوئے، فریقین کے درمیان پیچیدہ اختلافات ہیں۔

    یورپی یونین کے بریگزٹ کے لیے مقرر خصوصی مذاکرات کار مشیل بارنیئر نے برطانیہ کے ساتھ رواں ہفتے کے دوران بریگزٹ ڈیل طے پانے کو مناسب برطانوی حکومتی تجاویز سے جوڑا تھا۔

    آج سے یورپی یونین کی سمٹ شروع ہوگی اس کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا، ابھی تک برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑ دینے کی تاریخ اکتیس اکتوبر طے ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں بریگزٹ معاہدے پر صورت حال واضح ہوسکتی ہے یا کم ازکم برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے التوا کی وجوہات بھی سامنے آجائیں گی۔

    بریگزٹ ڈیل کی ممکنہ ناکامی پر برطانیہ نے اپنا ہی منصوبہ پیش کردیا

    یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے کہا کہ کمیشن طے کرے گا کہ ممکنہ طور پر راستہ کیا ہوگا کیونکہ یہ ایک اچھا موقع ہے، تاہم مذاکرات میں کیا طے پایا اس حوالے سے دونوں فریقین نے کچھ نہیں بتایا۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں برطانیہ کے وزیرا عظم بورس جانسن نے آئرلینڈ کی سرحد کو کھولے رکھنے سے متعلق اپنا ہی بریگزٹ منصوبہ پیش کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ متبادل راستہ صرف یہ ہی ہے کہ معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے 31 اکتوبر تک علیحدہ ہوجائیں گے۔

  • بریگزٹ ڈیل: کیا بورس جانسن نے ملکہ برطانیہ سے جھوٹ بولا؟

    بریگزٹ ڈیل: کیا بورس جانسن نے ملکہ برطانیہ سے جھوٹ بولا؟

    لندن: بریگزٹ ڈیل سے متعلق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ملکہ برطانیہ سے جھوٹ بولنے کی تردید کردی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اس بات کی تردید کی ہے انہوں نے ملکہ برطانیہ کو ملک کی پارلیمان کو پانچ ہفتے تک معطل رکھنے کا مشورہ دیتے وقت جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق جب بورس جانس سے سوال ہوا کہ آیا انہوں نے پارلیمان کی معطلی کی وجوہات بیان کرتے وقت ملکہ سے جھوٹ بولا تھا تو ان کا جواب تھا بالکل نہیں۔

    بورس جانسن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب سکاٹ لینڈ کی اعلی ترین عدالت نے پارلیمان کو معطل کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے پارلیمان کی معطلی کے حوالے سے ملکہ برطانیہ کو گمراہ کیا تھا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ انگلینڈ کی ہائی کورٹ واضح طور پر ہم سے متفق ہے، تاہم آخری فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہوگا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے ملکہ برطانیہ نے نوڈیل بریگزٹ کو روکنے کے بل کی منظوری دے دی ہے، بل منظوری کے بعد برطانیہ بغیر ڈیل کے 31 اکتوبر کو یورپ سے انخلا نہیں کرپائے گا۔

    ملکہ برطانیہ نے نوڈیل بریگزٹ روکنے کے بل کی منظوری دے دی

    واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ بریگزٹ ڈیل پر یورپی یونین سے مزید توسیع لینے سے بہتر ہے کہ میں گہری کھائی میں گر کر خودکشی کرلوں۔

    تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں اشیا خورد ونوش کی قلت کا انتباہ جاری

    بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں اشیا خورد ونوش کی قلت کا انتباہ جاری

    لندن:برطانیہ نے اگر کسی سمجھوتے کے بغیر یورپی یونین کو خیرباد کہا تو اس کو خوراک ، ایندھن اور ادویہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا،اس کی بندرگاہیں اور زمینی گذرگاہیں جام ہوجائیں گی اور آئرلینڈ کے ساتھ سخت سرحدکا نظام لاگو کرنے کی ضرورت ہوگی۔ان خدشات کا اظہاربرطانوی حکومت کی افشا ہونے والی خفیہ دستاویزات میں کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کابینہ دفتر نے ان دستاویزات میں کسی ڈیل کے بغیر بریگزٹ کی صورت میں تمام امکانی حالات کا احاطہ کیا ہے، ان میں کہا گیا ہے کہ بڑی گذرگاہوں سے گذرنے والی 85 فی صد لاریاں شاید فرانسیسی کسٹمز کے لیے تیار نہ ہوں۔اس طرح پورٹس پر درہم برہم ہونے والے نظام کے سدھار میں کم سے کم تین ماہ لگیں گے۔

    اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اس بات میں بھی یقین رکھتی ہے کہ برطانوی صوبے شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سخت سرحد کا نظام نافذ ہوگا۔

    اسی لیے حزب اختلاف کی جماعتیں کسی ممکنہ اتھل پتھل اور بڑے بحران سے بچنے کے لیے یورپی یونین سے کسی سمجھوتے کے تحت انخلا پر زور دے دہی ہیں،کابینہ دفتر نے اسی ماہ ”آپریشن زرد ہتھوڑا“ کے نام سے یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔

    اس میں حکومت کی بریگزٹ کے بعد ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے خفیہ جامع منصوبہ بندی کی مکمل تفصیل بیان کی گئی ہے تاکہ قومی ڈھانچے کے دھڑم تختے سے بچا جاسکے۔

    رپورٹ کے مطابق ”اس فائل کو ”سرکاری حساس“ کا نام دیا گیا ہے،یہ بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں کسی ڈیل کے بغیر بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی تیاریوں کا ایک جامع جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ کا کوئی سمجھوتا طے نہیں پاتا تو وہ اکتیس اکتوبر کو اس کے بغیر بھی تنظیم کو خیرباد کہہ دیں گے جبکہ یورپی یونین برطانیہ کے ساتھ انخلا کے سمجھوتے کو دوبارہ کھولنے اور اس پر مذاکرات سے انکار کرچکی ہے۔

    بورس جانسن کی پیش رو برطانوی وزیراعظم تھریزا مے نے گذشتہ سال نومبر میں یورپی یونین سے انخلا کا یہ سمجھوتا طے کیا تھا لیکن آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان واقع سرحد کے انتظام اور کسٹم سمیت دیگر محصولات کے بارے میں ابھی تک کوئی سمجھوتا طے نہیں پاسکا ہے۔

    برطانیہ اور یورپی یونین کے باقی رکن ممالک کے درمیان آئرلینڈ کے ذریعے ہی زمینی رابطہ ہوسکتا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا یورپی یونین سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ آئرش بارڈر کا معاملہ برطانیہ کے انخلا کے سمجھوتے سے باہر ایک اور ڈیل کے تحت طے کیا جائے لیکن آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ممالک اس تجویز پر نالاں ہیں اور وہ اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ برطانیہ خود بھی سخت بارڈر نہیں چاہتا ہے۔

    یورپی یونین کے لیڈروں نے حالیہ دنوں میں کہا ہے کہ وہ برطانیہ کے نئے لیڈر کے ساتھ بریگزٹ پر بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن وہ بالاصرار یہ بھی کہہ رہے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ پہلے سے طے شدہ انخلا کے سمجھوتے کو دوبارہ نہیں کھولیں گے اور وہ ا س پرمزید بات چیت کے لیے ہرگز بھی تیار نہیں۔

    تاہم جانسن کا کہنا تھا کہ وہ کسی ڈیل کے بغیر برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا نہیں چاہتے ہیں لیکن برطانیہ کو نو ڈیل بریگزٹ کی تیاری کرنا ہوگی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس صورت میں سرمایہ کار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس سے عالمی مارکیٹ میں ’جھٹکے کی لہریں‘ دوڑ جائیں گی اور دنیا کی معیشت متاثر ہوگی،اس تناظر میں آئرلینڈ سرحد کو بریگزٹ کے کسی بھی حل میں بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

    یادرہے کہ بیک اسٹاپ ایک انشورنس پالیسی تھی جو آئر لینڈ اور برطانیہ کے صوبے شمالی آئرلینڈ کے درمیان پانچ سو کلومیٹر طویل سرحد پر کنٹرول سے بچنے کے لیے وضع کی گئی تھی۔

    یہ پالیسی 1998 میں گڈ فرائیڈے امن سمجھوتے کے تحت ختم کردی گئی تھی لیکن یورپی یونین نے بعد میں اسی بیک اسٹاپ کے نام سے اس کو جاری رکھا تھا اور اس کے تحت’سخت سرحد‘ کے قواعد وضوابط سے بچنے کے لیے یورپی یونین کی کسٹم یونین کے بعض پہلووں کا نفاذ کیا گیاتھا۔

    آئرش وزیراعظم لیو واردکر کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ اکتیس اکتوبر کو طلاق کےکسی سمجھوتے کے بغیر ہی یورپی یونین کو خیرباد کہہ دیتا ہے تو پھر آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان ادغام کا ایک مرتبہ پھر سوال پیدا ہوگا لیکن ہم دوستی اور تعاون کے جذبے سے اس مسئلے کوحل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    برطانیہ کی تمام سیاسی جماعتیں وزیراعظم بورس جانسن پر یہ زور دے رہی ہیں کہ وہ یورپی یونین کو کسی سمجھوتے کے بعد ہی خیرباد کہیں۔

    بالخصوص حزب اختلاف کے لیڈر جیریمی کاربائن نے اسی ہفتے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بریگزٹ میں تاخیر کے لیے ستمبر کے اوائل میں بورس جانسن کی حکومت کو گرادیں گے۔

  • یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    لندن : یورپی یونین کے رہنماؤں نے برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کو خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے اگلے وزیراعظم کے لیے بورس جانسن اور وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کے درمیان سخت مقابلہ ہے جن میں سے کوئی ایک مستقبل میں بریگزٹ کی ذمہ داری نبھائے گا اس حوالے سے بورس جانسن اور جیریمی ہنٹ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ تھریسا مے کی جانب سے برسلز سے کیے گئے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ تھریسا مے کی جانب سے کیے گئے معاہدے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے 3 مرتبہ مسترد کیا تھا۔

    برسلز میں سربراہان کے اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ویسٹ منسٹر میں جاری سیاسی ڈرامے کے باوجود یورپی یونین صبر کا مظاہرہ کرے گا۔

    ڈونلڈ ٹسک نے صحافیوں کو بتایا کہ لندن میں کچھ فیصلوں کی وجہ سے بریگزٹ کا عمل پہلے کے مقابلے میں زیادہ پرجوش ہونے کا امکان ہے تاہم اس حوالے سے ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دیگر 27 یورپی یونین رہنما اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے قانونی معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائےگی۔

    ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ اگر برطانیہ چاہتا ہے تو ہم لندن اور یورپی یونین کے مستقبل پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

    یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ، جنہوں نے بریگزٹ پر بات چیت کےلئے یورپی یونین کی سربراہی کی تھی نے کہا کہ رہنماؤں نے اتفاق رائے سے بارہا کہا تھا کہ علیحدگی کے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے۔برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن نے تھریسا مے کے بعد ملک کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے تاہم ان امیدواروں میں بورس جانسن انتہائی متنازع شخصیت ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ وہی ہیں جو برسلز سے جیت سکتے ہیں جبکہ ناقدین ان کے طریقہ کار اور عدم توجہ پر تنقید کرتے ہیں۔

    بورس جانسن سے حالیہ خطرات یہ ہیں کہ وہ برطانیہ کا 3 کروڑ 90 لاکھ پاؤنڈز (4 کروڑ 40 لاکھ یورو، 5 کروڑ ڈالر) مالیت کا قانون اس وقت روک دیں گے جب تک یورپی یونین بہتر شرائط پر آمادہ نہیں ہوتا۔

    واضح رہے کہ بریگزٹ 2 مرتبہ تاخیر کا شکار ہوچکا ہے، جیریمی ہنٹ اور بورس جانسن کہتے ہیں کہ برطانیہ کو موجودہ ڈیڈلائن 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجانا چاہیے، چاہے کسی معاہدے کے بغیر ایسا ہو تاہم جیریمی ہنٹ نے تجویز دی ہے کہ اگر برسلز کے ساتھ معاہدے کے قریب ہو تو بریگزٹ میں تاخیر ہوسکتی اور بورس جانسن نے 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدگی کی ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے 24 مئی کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    تھریسا مے استعفے کے باوجود نئے سربراہ کے انتخاب تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گی جو جولائی کے اواخر میں منتخب ہوں گے، لیکن وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر فیصلے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

  • برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد وزارت ِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا ہے، استعفے کا سبب بریگزٹ پر ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت حاصل نہ کرسکنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7 جون کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی، ساتھ ہی ساتھ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کا منصب بھی چھوڑدیں گی۔

    برطانوی وزیراعظم کوبریگزٹ ڈیل میں ناکامی پرتنقیدکاسامناتھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام نے2016میں یورپی یونین سےنکلنےکاانتخاب کیا، تاہم میں بطور وزیراعظم بریگزٹ ڈیل پرارکان کوقائل کرنےکی کوشش میں ناکام رہی ہوں۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ بطورجمہوری لیڈرعوام کی رائےکااحترام اورنفاذان کی ذمہ داری تھی، لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکتا لہذا بہتر ہے کہ وہ وزارت ِ عظمیٰ کا منصب کسی ایسے شخص کو سونپ دیں جو ان سے زیادہ اس عہدے کا اہل ہو۔

    وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کےلیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن اسے برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری نہ مل سکی۔

    منظوری نہ ملنے کے سبب یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان ایک بار پھر مذاکرات ہوئے جن میں بریگزٹ سے متعلق طویل مدتی توسیع پراتفاق ہوگیا، یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے 31 اکتوبر تک بریگزٹ میں لچک دار توسیع پر اتفاق کیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ نے 29 مارچ کو یورپین یونین سے نکلنا تھا۔

    یادر ہے کہ آج سے تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    اس وقت ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور وہ بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے جس کے سبب انہوں نے عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔ استعفیٰ دیتے وقت ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کا انعقاد پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، چھ سال تک برطانیہ کا وزیر اعظم بنے رہنے پر فخر ہے، برطانیہ کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہے اور سرمایہ کاروں کو یقین دلاتا ہوں کہ برطانوی معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہوگا، جس کے لیے سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی ایئر لینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے ابتداء میں مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا۔

  • برطانیہ کا یورپی پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان

    برطانیہ کا یورپی پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان

    لندن: برطانیہ نے یورپی پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا، الیکشن رواں ماہ 23 مئی کو ہوں گے۔

    تفصیلات کے مابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے نائب ڈیوڈ لیڈنگٹن نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے ایک رکن ملک کے طور پر برطانیہ کو تئیس مئی کو ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینا پڑے گا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کیبنٹ آفس کے وزیر لیڈنگٹن نے منگل کے روز کہا کہ چونکہ اب اتنا وقت نہیں بچا کہ بریگزٹ کے کسی معاہدے کو ملکی پارلیمان سے منظور کروا کر لندن یورپی یونین سے نکل جائے۔

    ان کے مطابق اس لیے برطانیہ کو اب اسی مہینے ہونے والے یورپی پارلیمانی الیکشن میں حصہ لینا ہی پڑے گا۔

    لیڈنگٹن کا مزید کہنا تھا کہ توقعات کے برعکس تھریسامے کی حکومت اور اپوزیشن کی لیبر پارٹی کے مابین بریگزٹ سے متعلق مذاکرات جمود کا شکار ہو چکے ہیں۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے ملکی پارلیمان کو اب تک بریگزٹ ڈیل پر قائل نہیں کرسکی ہیں، جبکہ حکومتی جماعت سے بھی مے کو اختلافات کا سامنا ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر یورپی رہنماوں سے مہلت حاصل کرنے میں رواں ماہ کامیاب ہوئیں، جس کے بعد انہیں امید ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ اس معاملے میں منطقی انجام تک پہنچ سکے گی۔

    بریگزٹ ڈیل، یورپی رہنما نے رواں ہفتہ اہم قرار دے دیا

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • بریگزٹ پرحکومت اوراپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا

    بریگزٹ پرحکومت اوراپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا

    لندن : ایسٹر کے تہوار کے بعد حکومت برطانیہ اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان بریگزٹ سے متعلق مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی حکومت کے اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا تاکہ اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل کی جاسکے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کا مقصد ایسا حل تلاش کرنا ہے کہ جس کے ذریعے یورپی یونین سے عدم سمجھوتہ کے بعد ہونے والی بدنظمی سے بچا جا سکے۔

    تھریسامے نے رواں ماہ 12 اپریل کو قانون سازوں سے اپیل کی تھی کہ وہ بریگزٹ ڈیل پر کسی سمجھوتے پر متفق ہونے میں تعاون کریں۔

    بریگزٹ ڈیل: تھریسا مے نے ارکانِ پارلیمنٹ سے تعاون کی اپیل کردی

    برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ کے التویٰ میں کامیابی کے بعد اب فوری طور پر نو ڈیل بریگزٹ کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ اب برسلز نے لندن کو بریگزٹ کے لیے اکتیس اکتوبر کی تاریخ دی ہے۔ اس طرح اب برطانیہ مئی میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لے سکے گا۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کے لیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانوی وزیراعظم کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن اسے پارلیمنٹ سے منظوری نہیں مل سکی جس کے سبب اس معاملے میں تعطل پیدا ہوا۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • بریگزٹ ڈیل: تھریسا مے نے ارکانِ پارلیمنٹ سے تعاون کی اپیل کردی

    بریگزٹ ڈیل: تھریسا مے نے ارکانِ پارلیمنٹ سے تعاون کی اپیل کردی

    لندن :برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے قانون سازوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بریگزٹ ڈیل پر کسی سمجھوتے پر متفق ہونے میں تعاون کریں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مشکل مذاکراتی عمل کے بعد برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر یورپی رہنماوں سے مہلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں ہیں جس کے بعد انہیں امید ہےکہ برطانوی پارلیمنٹ اس معاملے میں منطقی انجام تک پہنچ سکے گی ۔

    برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ کے التویٰ میں کامیابی کے بعد اب فوری طور پر نو ڈیل بریگزٹ کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ اب برسلز نے لندن کو بریگزٹ کے لیے اکتیس اکتوبر کی تاریخ دی ہے۔ اس طرح اب برطانیہ مئی میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لے سکے گا۔

    گزشتہ روز برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء سے کی تاریخ میں توسیع کےلیے برسلز میں مسلسل 5 گھنٹے تک یورپی سربراہوں کا اجلاس جاری رہا،اس موقع پر یورپی یونین کےسربراہ ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ ’میرا پیغام برطانوی دوستوں کیلئے ہے کہ برائے مہربانی اس بار وقت ضائع مت کیجیئے گا‘۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹسک کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے یا بریگزٹ اور آرٹیکل پچاس کو ایک ساتھ منسوخ کردے۔

    اس حوالے سے برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے کہا تھا کہ برطانیہ کا ابھی بھی مقصد جلد از جلد یورپی یونین سے انخلاء ہے۔اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ،یورپی یونین سے انخلاء کی تاریخ میں 03 جون تک توسیع چاہتا ہے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کےلیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانوی وزیر اعظم کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن اسے پارلیمنٹ سے منظوری نہیں مل سکی جس کے سبب اس معاملے میں تعطل پیدا ہوا۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ میں اکتوبر تک توسیع پر رضامند

    یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ میں اکتوبر تک توسیع پر رضامند

    لندن: یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان بریگزٹ سے متعلق طویل مدتی توسیع پراتفاق ہوگیا، یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے 31 اکتوبر تک بریگزٹ میں لچک دار توسیع پر اتفاق کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء سے کی تاریخ میں توسیع کےلیے برسلز میں مسلسل 5 گھنٹے تک یورپی سربراہوں کا اجلاس جاری رہا، ڈونلڈ ٹسک کا کہنا ہے کہ ’میرا پیغام برطانوی دوستوں کیلئے ہے کہ برائے مہربانی اس بار وقت ضائع مت کیجیئے گا‘۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹسک کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے یا بریگزٹ اور آرٹیکل پچاس کو ایک ساتھ منسوخ کردے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے کہا کہ برطانیہ کا ابھی بھی مقصد جلد از جلد یورپی یونین سے انخلاء ہے۔

    اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ،یورپی یونین سے انخلاء کی تاریخ میں 03 جون تک توسیع چاہتا ہے۔

    اس حوالے سے شمالی آئرلینڈ کے وزیراعظم لیو واراڈکرکا کہنا تھا کہ برطانیہ لازمی طور پر مئی میں یورپی یونین کے انتخابات منعقد کرائے یا یکم جون کو بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے نکل جائے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کےلیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا۔

    بریگزٹ ڈیل: برطانوی وزیراعظم آج اہم ملاقاتیں کریں گی

    یاد رہے کہ ملکی ارکان پارلیمنٹ یورپی یونین سے ڈیل کے ذریعے علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں جبکہ یورپی ممالک کی جانب سے برطانیہ کو عندیہ دیا گیا تھا کہ اگر 12 اپریل تک بریگزٹ معاہدہ منظور ہوگیا تو ٹھیک ورنہ برطانیہ کو بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • بریگزٹ تنازعے کو اب ختم ہونا چاہیے، فرانسیسی وزیر خارجہ

    بریگزٹ تنازعے کو اب ختم ہونا چاہیے، فرانسیسی وزیر خارجہ

    پیرس : فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں ایو لیدریاں نے یورپی یونین سے برطانوی انخلاء پر کہا ہے کہ بریگزٹ سے منسلک تنازعے کو اب ختم ہونا چاہیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی فرانسیسی شہر دینارد میں جی سیون کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد لیدریاں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ صورتحال تبدیل ہو اور یہ موضوع یورپی یونین کے معاملات پر مزید حاوی نہیں ہو۔

    انہوں نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد سے جلد اس مسئلے کا حل پیش کرے۔

    یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کی جانب سے تجویز دی گئی تھی کہ یورپی ممالک کے سربراہان بریگزٹ کی تاریخ میں ایک برس کی لچکدار توسیع کردیں لیکن یورپی ممالک برطانیہ کو مزید وقت دینے کےلیے تیار نہیں۔

    یورپی یونین کے رکن ممالک کا کہنا ہے کہ اگر بریگزٹ کی تاریخ میں 30 جون تک توسیع کی گئی تو برطانیہ یورپی یونین کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی بحیثیت رکن ملک استعمال کرسکتا ہے۔

    یورپی ممالک کی جانب سے برطانیہ کو عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر 12 اپریل تک بریگزٹ معاہدہ منظور ہوگیا تو ٹھیک ورنہ برطانیہ کو بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔

    خیال رہے کہ یورپ کی سب سے مضبوط معیشت جرمنی کو بھی کسی باقاعدہ ڈیل کے بغیر برطانیہ کے یونین سے اخراج کے صورت میں شدید معاشی نقصان پہنچنے کے خدشات ہیں۔

    بریگزٹ ڈیل: یورپی کمیشن کے صدر کی برطانیہ کو تنبیہ

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں تھریسامے نے تیسری مرتبہ بریگزٹ ڈیل کے مسودے کو اراکین پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی کوشش کی تھی تاہم انہیں تیسری مرتبہ بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    برطانوی وزیر اعظم کے تیار کردہ مسودے کے حق میں 286 اور مخالفت میں 344 ووٹ پڑے تھے جس کے بعد جیریمی کوربن نے تھریسامے سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔