Tag: Brexit

  • بریگزٹ: تھریسا مے نئی منڈیوں کی تلاش میں افریقی ممالک کے دورے پر

    بریگزٹ: تھریسا مے نئی منڈیوں کی تلاش میں افریقی ممالک کے دورے پر

    کیپ ٹاؤن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ کے بعد افریقہ میں برطانوی سرمایہ کاری بڑھانے کا اعلان کیا ہے، ان کی خواہش ہے برطانیہ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے ان دنوں افریقہ کے دورے پر ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد یہ ا ن کا براعظم افریقہ کا پہلا دورہ ہے، انہوں افریقی ممالک میں چار بلین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔

    کیپ ٹاؤن میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ 4 بلین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری سے افریقی معیشتوں کی مدد کی جائے گی ، تاکہ وہ نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرسکیں۔

    انہوں نے زور دیا کہ اب امداد کو محدود مدت کے غربت مٹانے والے منصوبوں کے بجائے طویل المعیاد معاشی منصوبوں میں استعمال کیا جائے تاکہ معاشی صورتحال اور سیکیورٹی ایک ساتھ بہتر کی جاسکے۔

    تھریسا مے اپنے اس تین روزہ تجارتی مشن میں نائجیریا اور کینیا کا بھی دورہ کریں گی۔ اپنے جنوبی افریقا کے دورے پر روانگی کے وقت انہوں نے ان تمام وارننگز کو بھی رد کردیا جو کہ بریگزٹ کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کے حوالے سے تھیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بری ڈیل کرنے سے ڈیل نہ کرنا بہتر ہے۔

    اپنے اس سہہ روزہ دورے میں تھریسا مے جنوبی افریقہ ، کینیا اور نائجریا کے صدور سے مالقات کریں گی جس کا مقصد افریقی ممالک سے مضبوط تجارتی روابط قائم کرنا ہے ۔ انہیں نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ سنہ 2022 تک برطانیہ ، افریقی ممالک میں امریکا سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک بن جائے۔

  • فرانسیسی صدر 3 اگست کو برطانوی وزیراعظم سے ملاقات کریں گے

    فرانسیسی صدر 3 اگست کو برطانوی وزیراعظم سے ملاقات کریں گے

    پیرس: فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے 3 اگست کو ملاقات کریں گے، اس دوران بریگزٹ معاملے پر خصوصی گفتگو ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ معاملے پر خصوصی گفتگو کے لیے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے ملاقات کریں گے، یہ ملاقات فرانس کے شہر تولوں کے قریب صدارتی سیاحتی مرکز میں ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مذکورہ ملاقات سے متعلق کسی سرکاری ایجنڈے کا بظاہر اعلان نہیں کیا گیا لیکن گفتگو میں بریگزٹ معاملے کو فوقیت حاصل رہے گی۔

    قبل ازیں 31 جولائی منگل کو برطانوی وزیر خارجہ جریمی ہنٹ اپنے فرانسیسی ہم منصب ژاں ایو لیدریاں سے بھی پیرس میں اسی معاملے پر بات چیت کر چکے ہیں۔


    تھریسامے بریگزٹ منصوبے پرحمایت حاصل کرنے آسٹریا پہنچ گئی


    علاوہ ازیں برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے گذشتہ ماہ 27 جولائی کو بریگزٹ ڈیل سے متعلق معاملات طے کرنے کے لیے آسٹریا پہنچی تھیں، جہاں انہوں نے آسٹرین چانسلر اور وزیراعظم سے ملاقات بھی کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسا مے نے آسٹریا میں چانسلر کرز اور چیک ری پبلک کے وزیر اعظم اینڈریج بابس سے بھی بریگزٹ ڈیل کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔

    یاد رہے کہ اس پیش رفت سے ایک روز قبل برطانیہ کی وزیر اعظم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے مذاکرات خود کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ وزیر برائے بریگزٹ کو بریگزٹ کے حوالے سے ملک کے داخلی معاملات پر توجہ دینے کی ذمہ دی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تھریسامے بریگزٹ منصوبے پرحمایت حاصل کرنے آسٹریا پہنچ گئیں

    تھریسامے بریگزٹ منصوبے پرحمایت حاصل کرنے آسٹریا پہنچ گئیں

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے بریگزٹ ڈیل سے متعلق معاملات طے کرنے کےلیے آسٹریا پہنچ گئیں جہاں آسٹرین چانسلر اور  وزیر اعظم چیک ریپبلک سے ملاقات بھی کریں گییں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے اپنی سرکاری چھٹیوں پر جانے سے قبل آج یورپی یونین کے رکن ملک آسٹریا کے شہر سالسبرگ میں آسٹرین چانسلر سے ملاقات کریں گی جس میں بریگزٹ ڈیل سے متعلق گفتگو کی جائے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے آسٹرین چانسلر کی مہمان کے طور پر سالسبرگ میں منعقد ہونے والے میوزیکل فیسٹول میں شرکت بھی کریں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسا مے آسٹریا میں چانسلر کرز اور چیک ری پبلک کے وزیر اعظم اینڈریج بابس سے بھی بریگزٹ ڈیل کے حوالے سے بات چیت کریں گی،

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کا خیال ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے بنائے گئے منصوبے پر آسٹریا اور چیک ریپبلک کی حمایت حاصل کرلیں گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کے چیف جین کلاؤڈ جنکر نے تھریسا مے کے بریگزٹ منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔

    برطانوی حکام اور یورپی یونین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رواں برس اکتوبر تک بریگزٹ سے متعلق حتمی معاہدہ طے کرلیا جائے، کیوں کہ مارچ 2019 میں برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ ڈیل کے حوالے یورپی یونین اور برطانوی حکام کی تیاری مذاکرات کے اختتام جاری رہے گی چاہیے معاہدہ نہ بھی ہوسکے۔

    خیال رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کی وزیر اعظم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے مذاکرات خود کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ وزیر برائے بریگزٹ کو بریگزٹ کے حوالے سے ملک کے داخلی معاملات پر توجہ دینے کی ذمہ دی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بریگزٹ مذاکرات خود کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا تھا، جب وفاقی کابینہ میں بیشتر وزراء استعفے دے رہے ہیں اور بریگزٹ ڈیل میں مسلسل تاخیر کے باعث عوام میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • یورپی یونین سے اخراج کا معاملہ، برطانیہ اہم تفصیلات آج جاری کرے گا

    یورپی یونین سے اخراج کا معاملہ، برطانیہ اہم تفصیلات آج جاری کرے گا

    لندن: برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے اخراج سے متعلق اہم تفصیلات آج جاری کی جائیں گی، جس میں مستقبل کا لائحہ عمل زیر غور ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین سے اخراج (بریگزٹ) کے حوالے سے اہم تفصیلات آج 24 جولائی کو برطانوی حکام کی جانب سے جاری کر دی جائیں گی جس میں مستقبل کی حکمت موضوع ہوگا۔

    برطانیہ کے جونیئر بریگزٹ وزیر مارٹن کالانن کی جانب سے جارہ کردی بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین سے اخراج کے حوالے سے منصوبے کی مزید تفصیلات منگل کو جاری کر دی جائیں گی۔

    مارٹن کالانن کا کہنا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے کس طرح نکلے گا، کیا کیا تجاویز ہیں اور ان تجاویز پر کس طرح عمل کیا جائے گا، اس بابت تفصیلات بتائی جائیں گی۔


    بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی نئی پالیسی پر مشتمل دستاویز جاری


    خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات کے بارے میں اپنی حکومتی ترجیحات پر مشتمل ایک تحریری دستاویز شائع کی تھی۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہی سابق وزیر خارجہ بورس جانسن بریگزٹ کے معاملے پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس کے بعد سے ہی برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی حکومت بحران کی زد میں ہے۔

    یاد رہے کہ بورس جانسن کے مستعفی ہونے پر جیریمی ہنٹ کا بطور وزیر خارجہ تقرر کیا گیا ہے، بورس جانسن بریگزٹ معاملے پر اختلافات کے باعث وزارت سے مستعفی ہوئے تھے وہ یورپی اتحاد سے برطانیہ کے اخراج کی تحریک کے پُرزور حامی تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی مشکلات میں اضافہ، ایک اور وزیر مستعفی

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی مشکلات میں اضافہ، ایک اور وزیر مستعفی

    لندن: برطانوی کی یورپی یونین سے علیحدگی کے اعلان کے بعد برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، بورس جانسن کے بعد ایک اور برطانوی وزیر مستعفی ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ کے وزیر مملکت برائے دفاع جوٹو بیب نے بھی وزارت کے عہدے سے استعفی دے دیا، بیب کی جانب سے استعفیٰ کسٹم سے متعلق بل میں ترمیم کے خلاف رائے شماری پر دیا گیا۔

    بل میں ترمیم کے خلاف رائے شماری برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے منصوبے کا حصہ ہے، وزیر مملکت برائے دفاعی پیداوار نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا۔

    واضح رہے کہ یہ قانون بریگزٹ کے بعد برطانیہ کو یورپی یونین کی مصنوعات پر کسٹم ٹیکس لاگو کرنے سے روک دے گا، گزشتہ روز برطانوی پارلیمنٹ میں ترمیم کے حق میں ہونے والی رائے شماری میں معمولی اکثریت کے ساتھ ترمیم منظور کرلی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے کے لیے مقرر کردہ وزیر ڈیوڈ ڈیوس اور سابق وزیر خارجہ بورس جانسن بھی برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی بریگزٹ کے بعد یورپی یونین سے مضبوط اقتصادی تعلقات برقرار رکھنے پر بطور احتجاج استعفی دے چکے ہیں۔

    بورس جانسن کے استعفیٰ کے بعد برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے جیریمی ہنٹ کو برطانیہ کا نیا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے عوام نے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تھا، اب برطانیہ کو یورپی یونین سے انخلاء کے عمل کو 29 مارچ 2019 تک مکمل کرنا ہے تاہم یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے لائحہ عمل پر تاحال اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بریگزٹ کی مہم چلانے والے گروپ پر جرمانہ عائد

    بریگزٹ کی مہم چلانے والے گروپ پر جرمانہ عائد

    لندن: بریگزٹ کے لیے ’چھوڑ دو کو ووٹ‘ مہم چلانے والے گروپ پر انتخابی قواعد کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کردیا گیا ہے۔

    بریگزٹ کے حق میں مہم چلانے والا ’بی لیو‘ نامی یہ گروپ مہم کے لیے حد سے زیادہ اخراجات کرچکا ہے۔

    مہم کے سربراہ ڈیرن گرمز 20 ہزار یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے جبکہ پولیس میں بھی ان کی شکایت درج کردی گئی ہے۔

    ڈیرن گرمز کا کہنا ہے کہ ان پر سراسر الزام عائد کیا گیا ہے جس کا محرک سیاسی ہے۔

    مذکورہ گروپ کو سنہ 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں آفیشل مہم چلانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر دوبارہ ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

    لندن کے میئر صادق خان کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے الیکشن کا انعقاد کروائیں یا پھر بریگزٹ سے متعلق اپنی ڈیل کو شہریوں کے سامنے پیش کریں اور اس پر ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے لیں۔

    صادق خان نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تھا، ’میں چاہتا ہوں کہ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ اچھا معاہدہ طے کرے، کیوں کہ میں یورپی شہریوں کے لیے اچھی ضمانت چاہتا ہوں، مگر یورپی یونین میں موجود برطانوی شہریوں کی ضمانت اولین ترجیج ہے‘۔

    سابق برطانوی وزیر جسٹن گرینگ کے مطابق بریگزٹ کے معاملے میں برطانیہ کے پاس 3 راستے ہیں۔ یورپی یونین سے علیحدگی، یورپی یونین میں رکنا یا پھر وزیر اعظم تھریسا مے کی ڈیل جس میں جزوی طور پر یورپی یونین سے علیحدگی شامل ہے تاہم اس ڈیل پر عوام کی رائے لینی ضروری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانوی وزیر ڈومینک راب بریگزٹ امور کے نئے وزیر مقرر

    برطانوی وزیر ڈومینک راب بریگزٹ امور کے نئے وزیر مقرر

    لندن : بریگزٹ امور کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ ڈیل بعد بھی یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر عمل پیرا رہنے کے متنازعے فیصلے پر استعفیٰ دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر برائے بریگزٹ امور ڈیوڈ ڈیوس نے دو روز وفاقی کابینہ کے بریگزٹ کے بعد بھی یورپی یونین کے ساتھ اقتصادی روابط قائم رکھنے کے فیصلے پر استعفیٰ دے دیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ امور کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس برطانوی وزیر اعظم کے بریگزٹ کے معاملے پر نرم مؤقف اختیار کرنے پر کئی مرتبہ مستعفی ہونے کی دھمکیاں دے چکے تھے تاہم اس مرتبہ وہ سچ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے کو گذشتہ روز خط ارسال کیا، جس میں تحریر تھا کہ ’میں ملکی وزیر اعظم کے ڈیفنس کیڈٹ کی حیثیت سے امور کی انجام دہی نہیں کرسکتا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ ڈیوس کے برطانوی وزیر اعظم کے بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے ساتھ معاملات کے حوالے فیصلہ کرنے کے محض 48 گھنٹے بعد ہی استعفے نے تھریسا میں کا بطور وزیر اعظم مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    خیال رہے کہ تھریسا مے اور ان کی کابینہ چاہتی ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین بریگزٹ کے بعد بھی آزاد تجارتی معاہدوں پر عمل پیرا رہیں۔ لیکن وزیر اعظم کی متنازعہ تجویز پر ڈیوڈ ڈیوس نے مہر ثبت کردی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم نے بریگزٹ امور کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس کی جانب سے اچانک استعفیٰ دینے کے بعد برطانیہ کے وزیر برائے ہاوسنگ ڈومینک راب کو بریگزٹ امور کا نیا وزیر مقرر کردیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 44 برس کے ڈومینک راب پیشے سے وکیل ہیں، جنہوں نے سنہ 2010 میں برطانوی سیاست میں قدم رکھا اور ایم پی منتخب ہوئے۔ ڈومینک راب سنہ 2015 سے برطانیہ کی وفاقی کابینہ میں وزیر انصاف اور وزیر ہاوسنگ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • بریگزٹ: کیا برطانوی پارلیمنٹ عوامی ریفرنڈم کے خلاف فیصلہ کرسکتی ہے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی پارلیمنٹ عوامی ریفرنڈم کے خلاف فیصلہ کرسکتی ہے؟

    برطانیہ کے سیکرٹری برائے بریگزٹ ڈیویڈ ڈیس نے قدامت پسند پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو متنبہ کیا ہے کہ بریگزٹ بل میں کی جانے والے ترامیم سے یورپین یونین سے اس معاملے پر ہونے والے مذاکرات کو نقصان پہنچے گا۔

    برطانیہ ان دنوں یورپ سے علیحدگی کے عمل سے گزر رہا ہے ، 2016 کے عوامی ریفرنڈم میں برطانیہ کی عوام نے یورپ سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تھا ۔ ہاؤس آف کامن اس بات پر ووٹنگ کرے گا کہ آیا ممبرانِ پارلیمنٹ کو یورپ سے آئندہ موسمِ خزاں میں ہونے والی حتمی ڈیل میں فیصلہ کن پوزیشن دی جائے یا نہیں۔

    ڈیوڈ ڈیوس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اس عمل میں شامل ہوگی لیکن وہ سنہ 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم کو کالعدم نہیں کرسکتی۔

    خیال رہے کہ بریگزٹ پر حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے ۔ جسٹس منسٹر فلپ لی نے اس معاملے پر استعفیٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو ایک جانب کردیا گیا ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ وہ بریگزٹ کی حکمت عملی کے سبب مستعفی ہورہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح سے ہمارا ملک یورپین یونین سے نکل رہا ہے یہ عمل مناسب نہیں ۔

    ممبران پارلیمنٹ آئندہ دوروز تک ہاؤس آف لارڈز کی جانب سے یورپین یونین سے انخلا کے بل میں کی گئی تبدیلیوں پر ووٹنگ کریں گے۔ ان میں سب سے زیادہ مقابلہ پارلیمنٹ کے اس اختیار پر ہوگا کہ اگر یوکے ای یو بریگزٹ ڈیل عمل پذیر نہیں ہوتی تو آگے کیا ہوگا ؟ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔

    دوسری جانب برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اس اہم قانون سازی میں شکست ہوتی ہے تو اس سے یورپین یونین کے ہیڈکوارٹر برسلز میں انتہائی غلط پیغام جائے گا۔

    برطانیہ کی آبادی کم ہوگی


    برطانیہ کے سرکاری سطح پر شماریات کرنے والے ادارے کے مطابق اگر یورپی ممالک سے لوگوں کے آنے پر پابندی عائد کردی گئی تو آئندہ 20سالوں میں اسکاٹ لینڈ، ویلز، اور شمالی آئرلینڈ کی آبادی میں واضح کمی واقع ہوگی۔

    برطانوی کمپنیوں کے مالکان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے ملازمت کی غرض سے آئے ہوئے افراد ملازمت کے لیے زیادہ اہل اور مناسب ہوتے ہیں جو کم اجرت میں زیادہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔

    جبرالٹر کا تنازعہ


    جبرالٹر کے علاقے پر اسپین طویل عرصے سے ملکیت کا دعویٰ کرتا آرہا ہے۔ فی الحال یہ برطانیہ کے زیر تسلط ہے، اسپین جبرالٹر ائیرپورٹ کے مشترکہ انتظام کا خواہاں ہے، جو کہ ایک متنازعہ پٹی پر واقع ہے اور جبرالٹرکو اسپین کی مرکزی سرزمین سے جوڑتا ہے۔

    برطانیہ اور اسپین اس علاقے بالخصوص یہاں کے ایئرپورٹ کے مشترکہ انتظام کے معاہدے پر کام کررہے ہیں، معاہدہ اکتوبر سے قبل ہونے کی امید ہے، جب برطانیہ اور یورپ کے درمیان بریگزٹ ڈیل ہونے کا امکان ہوگا۔

    اسپینی وزیر خارجہ  کا کہنا ہے کہ ’’ ہم اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن ہم اکتوبر سے قبل باہمی معاہدے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔

    الفانسو داسٹس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ صرف ہم ہی نہیں یقیناً برطانیہ کی جانب سے بھی معاہدے تک پہنچنے کے لیے کام ہورہا ہے اور رواں برس دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان تین یا چار بار ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور باہمی گفتگو خاصی تعمیری رہی۔

    بریگزٹ کیا ہے؟


    خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کا آغاز مارچ 2019 سے ہوگا اور دسمبر 2020 تک جاری رہے گا، اس دوران برطانیہ میں رہنے والے 45 لاکھ یورپی شہریوں کو برطانیہ جبکہ 12 لاکھ برطانوی شہریوں کو یورپی یونین میں آنے کی اجازت ہوگی۔

    یاد رہے کہ برطانیہ میں 23 جون 2016 کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم ہوا تھا جس میں 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور تھریسامے برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔

  • برطانیہ اور یورپی یونین کےدرمیان بریگزٹ پرعمل درآمد کا معاہدہ طےپاگیا

    برطانیہ اور یورپی یونین کےدرمیان بریگزٹ پرعمل درآمد کا معاہدہ طےپاگیا

    برسلز : برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ پرعمل درآمد کا معاہد طے پاگیا ہے، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل مارچ 2019 سے شروع ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین سے انخلا کے معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے برطانیہ اور یورپی یونین نے عبوری انتظامات کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل پر مذاکرات کرنے والے مائیکل بارنیئر اور ڈیوڈ ڈیوس نے بریگزٹ معاہدے پرعمل درآمد کو فیصلہ کن قرار دیا ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کا آغاز مارچ 2019 سے ہوگا اور دسمبر 2020 تک جاری رہے گا، اس دوران برطانیہ میں رہنے والے 45 لاکھ یورپی شہریوں کو برطانیہ جبکہ 12 لاکھ برطانوی شہریوں کو یورپی یونین میں آنے کی اجازت ہوگی۔


    بریگزٹ مذاکرات میں پیش رفت ایک اہم قدم ہے‘ برطانوی وزیراعظم


    دوسری جانب برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے مطابق دونوں فریقین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ طے پائے جانے والے اقدامات سب کے لیے قابل قبول ہیں۔

    برطانوی ویزاعظم ٹریزامے کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین کی جانب سے پر خلوص نے اس بات کو یقینی بنایا کہ طے پانے والے اقدامات ہر کسی کے لیے قابل قبول ہیں۔


    برطانوی عوام کا یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ


    یاد رہے کہ برطانیہ میں 23 جون 2016 کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم ہوا تھا جس میں 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور تھریسامے برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • روس کا بھی برطانوی سفیروں کو ملک بدرکرنے کا فیصلہ

    روس کا بھی برطانوی سفیروں کو ملک بدرکرنے کا فیصلہ

    ماسکو: برطانیہ کی جانب سے روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کے بعد روس نے بھی برطانوی سفارتکاروں کی ملک بدری کا فیصلہ کرلیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لارروف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی سفارتکاروں کی ملک بدری کو یقینی قراردے دیا۔

    روسی وزیر خارجہ نے برطانوی الزامات کو انتہائی احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی حکومت کا یہ اقدام بریگزٹ کے بعد اس کو درپیش مسائل کی وجہ سے ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق جب روسی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ برطانوی سفارتکاروں کو کب ملک بدر کیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ بہت جلد اور یہ میرا وعدہ ہے۔

    یہ پڑھیں: برطانیہ نے 23 روسی سفارت کاروں کو ملک بدرکرنے کا حکم جاری کر دیا

    واضح رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے 23 روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور سفارتکاروں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایک ہفتے میں برطانیہ چھوڑ کر چلے جائیں۔

    یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے روسی سفارتکاروں کی ملک بدری کو درست عمل قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی گئی تھی، ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ روس کے حالیہ اقدام سے ثابت ہوا ہے کہ وہ عالمی قوانین کی نفی کرتا ہے، روس دنیا بھر کے ممالک کی حاکمیت اور سلامتی کو کمزور کرتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔