Tag: british

  • لندن:خواتین گینگ کا نسل پرستی کی بنیاد پرہسپانوی دوشیزہ پرتشدد

    لندن:خواتین گینگ کا نسل پرستی کی بنیاد پرہسپانوی دوشیزہ پرتشدد

    لندن: برطانیہ میں دوران سفر خواتین گینگ نے ٹرین میں انگلش نہ بولنے پر ہسپانوی دوشیزہ کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا، متاثرہ لڑکی کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں خواتین کے ایک نسل پرست گروہ نے دن دیہاڑے ٹرین میں سفر کرتے ہوئے 24 سالہ ہسپانوی لڑکی کو تعصب کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

    میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی ٹرین کے اندر اپنی ساتھی سے ہسپانوی زبان میں محوِ گفتگو تھی، کہ اچانک گینگ کی خواتین نے چلا کر ’انگلینڈ میں ہو، صرف انگلش بولو‘ کہتے ہوئے زدو کوب کرنا شروع کردیا۔

    برطانوی ٹرانسپورٹ پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے متاثرہ لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر ٹرین کے فرش پر گرا کر تشدد کیا تھا، تشدد کے نتیجے میں متاثرہ لڑکی کو سر اور چہرے پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ حملہ آور خواتین کی عمر 20 سے 25 سال تھی جن میں سے ایک نے کالی اور ایک نے براؤن جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔

    دوسری جانب لندن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پولیس تاحال حملے کے شواہد اکھٹے کررہی ہے اور عینی شاہدین سے بھی حملے کی تفصیلات لینے کی کوشش کررہی ہے۔


    مزید پڑھیں:پولیس کی کم نفری برطانیہ میں پرتشدد واقعات میں اضافے کا باعث ہے: وزیر داخلہ


    خیال رہے کہ گذشتہ ماہ سے اب تک متعدد افراد کو فائرنگ اور چاقو زنی کے واقعات میں زخمی اور ہلاک کیا جاچکا ہے، پولیس نے کئی جرائم پیشہ افراد کو ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے کارروائی کررہی ہے۔

    دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن نے جرائم کی شرح میں امریکی شہر نیویارک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، برطانوی میڈیا کے مطابق نوجوان گینگ کلچر کا شکار ہورہے ہیں جس کے باعث لندن میں رواں سال چاقو زنی کی وارداتوں میں اب تک 50 افراد قتل ہوچکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانوی وزیراعظم پارلیمنٹ کوجوابدہ ہیں، نہ کہ امریکی صدر کو، جیریمی کوربن

    برطانوی وزیراعظم پارلیمنٹ کوجوابدہ ہیں، نہ کہ امریکی صدر کو، جیریمی کوربن

    لندن : برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تھریسا مے کو ارکان پارلیمان نے منتخب کیا ہے اس لیے وہ امریکی صدر کے سامنے نہیں بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں.

    تفصیلات کے مطابق امریکا، فرانس، اور برطانیہ کی جانب سے شام میں مبینہ کیمیائی حملوں کے جواب میں کی جانے والی فوجی کارروائی کے خلاف برطانوی رکن پارلیمنٹ اور لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن نے برطانیہ کی وزیراعظم کو کھلا خط لکھا ہے۔

    برطانوی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی خط میں لکھتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ برطانیہ کی وزیر اعظم پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے جوابدہ ہیں تو انہیں شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے سے پہلے اراکین پارلیمان سے مشورہ کرکے ووٹنگ کروانی چاہیے تھی‘۔

    جیریمیی کوربن کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کی وزیر اعظم کو برطانوی پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہے اس لیے وہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں نہ کہ امریکی صدر کی خواہشات و مرضی کی‘۔

    انہوں نے خط میں لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ شام کے خلاف کی جانے والی برطانیہ، فرانس اور امریکا کی تازہ کارروائیاں قانونی طور پر مشکوک ہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس بات کی طرف نشاندہی کی تھی کہ تمام ممالک عالمی قوانین کے چارٹر کے مطابق چلیں‘۔

    جیریمی کوربن نے خط میں برطانوی وزیراعظم سے کہا کہ ’آپ نے مجھے یقن دہانی کروائی تھی کہ اٹارنی جنرل نے شام پر حملے کے حوالے واضح مشورہ دیا تھا، میں چاہوں کا گا کہ آپ آج اس منظوری کو شائع کردیں‘۔

    جیریمی کوربن نے لکھا ہے کہ ’اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے ’او پی سی ڈبلیو‘ نے تاحال ڈوما میں کیمیائی حملوں کی نہ ہی تحقیق کی ہے اور نہ ہی حملوں کی تصدیق کی ہے، اس لیے یہ بات تو واضح ہے کہ تمام سفارتی اور غیر فوجی ذرائع کا مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے‘۔

    لیبر پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’یہ بات بہت ضروری ہے کہ تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار(او پی سی ڈبلیو) کے تفتیش کار جو ڈوما پہنچیں گے، پہلے انہیں ان کا کام کرنے دیا جائے اور کیمیائی حملوں سے متعلق مرتب کردہ رپورٹ کو شائع کرنے دیا جائے‘۔

    جیریمی خط میں کہتے ہیں کہ ’میں آپ کی جانب سے کروائی گئی یقین دہانی کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ جب تک او پی سی ڈبلیو کے تحقیق کار شام میں موجود ہیں مزید بمباری نہیں کی جائے گی۔ انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے دیا جائے‘۔

    جیریمی کوربن نے خط میں لکھا کہ ’مجھے یقین کہ برطانیہ اقوام متحدہ کے ذریعے اس بدترین تنازعے کو روکنے کے لیے اہم سفارتی کردار ادا کرے گا، جس میں لاکھوں افراد قتل کردیئے گئے اور کروڑوں شامی شہریوں کو بے گھر ہونا پڑا‘۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے جیریمی کوربن کو جمعے کی رات بلا کر شام پر کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی تھی۔

    لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے اس خط سے یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ وہ شام پر حملے کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم کی بریفنگ سے مطمئن نہیں ہیں۔


    شام میں حملے کا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنا تھا‘ برطانوی وزیراعظم


     

    واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے تعاون کے ساتھ شام میں کیمیائی تنصیبات پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں شامی دارالحکومت دمشق دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شام پرامریکی حملہ دو ملکوں کےدرمیان جنگ کی چنگاری بھڑکا سکتا ہے، روس

    شام پرامریکی حملہ دو ملکوں کےدرمیان جنگ کی چنگاری بھڑکا سکتا ہے، روس

    ماسکو : روس نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے شام پر کیمیائی حملوں کے جواب میں فضائی حملے کرنا دو ملکوں کے درمیان جنگ کی چنگاری لگا سکتا ہے.

    تفصیلات کے مطابق شام میں کیمیائی حملوں کے بعد روس اورامریکا کے درمیان قائم کشیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے، روس نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ شام پر فضائی حملے دو ملکوں کے درمیان جنگ کا سبب بنے گے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات روس کے مستقل مندوب وسیلی نیبنزیا نے کہا ہے کہ ’پہلی ترجیج جنگ کے خطرات کو دور کرنا ہے‘۔

    وسیلی نبینزیا کا کہنا تھا کہ مغربی قوتیں شام پر حملے کی تیاری کررہی ہیں لیکن روس ان حملوں کی مخالفت کررہا ہے، انہوں نے واشنگٹن پر الزام عائد کیا ہے کہ ’امریکا عالمی امن کو خطرے ڈال رہا ہے، موجودہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے‘۔

    وسیلی نیبنزیا کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شام پر امریکی حملے سے عالمی امن کو خطرہ ہوگا کیوں کہ روسی افواج کی شام میں موجود ہیں اور وہ امریکی حملوں کا جواب دیں گی، جو کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث ہوسکتی ہے، ’ہماری بد قسمتی ہے کہ کسی بھی امکان کو خارج نہیں کرسکتے‘۔

    روسی افواج کے سربراہ سمیت دیگر اعلیٰ عہدے داروں نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ ’امریکا کی جانب سے شام پر فائر کیے جانے والے میزائل روس مار گرائے گا، اور اگر روسی اہلکاروں کو خطرہ ہوا تو امریکا جس جگہ سے میزائل فائر کرے گا، اسے نشانہ بنایا جائے گا۔

    روسی سفیر کا کہنا تھا کہ شام کے خلاف مغربی افواج کی کارروائی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری سے دوبارہ ملاقات ہوگی۔

    وائٹ ہاوس کا کہنا تھا کہ امریکا مسلسل اپنی ایجنسیوں اور اتحادیوں سے رابطے میں ہے کہ شام کے خلاف کارروائی کس طرح کی جائے۔

    مغرب شام کے خلاف فوجی کاررائی کیوں کرنا چاہتا ہے؟

    اس دوران کیمیائی ہتھیاروں کی پابندی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ماہرین ہفتے کو شام جاکر مبینہ کیمیائی حملے کی تحقیقات کریں گی‘۔

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں شام میں کیمیائی بموں سے حملہ کیا گیا تھا، امداری سرگرمیاں انجام دینے والے اہلکاروں، حزب اختلاف اور ڈاکٹروں کے مطانق کیمیل اٹیک میں درجنوں شہری ہلاک ہوئے تھے۔

    روس کے حمایت یافتہ شامی صدر بشار الااسد نے دوما میں کیمیل اٹیک کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیمیائی بم حملوں کے ذریعے شامی حکومت کو بدنام کیا جارہا ہے۔

    وائلیشن ڈاکیومنٹیشن سنٹر کے مطابق شام میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے‘ کہا جارہا ہے کہ لاشوں کے منہ میں جھاگ بھرا ہوا تھا اور ان کی جلد نیلی پڑگئی تھی جبکہ آنکھوں کے قرنیے بھی جل چکے تھے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز امریکی عہدے داران کا کہنا تھا کہ دوما میں کیے گئے حملے میں متاثرہ افراد کے معائنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ شام میں کلورین اوراعصاب متاثر کرنے والے کیمیلز شامل تھے۔

    اسی طرح فرانسیسی صدرامینیول مکرون کا کہنا تھا کہ ’یہ ثابت ہوچکا ہے کہ شامی حکومت نے تفصیلات سے آگاہ کیے بغیر دوما میں کیمیائی ہھتیاروں حملہ کیا ہے۔

    دوسری جانب برطانوی وزیراعظم کی وفاقی کابینہ نے بشار الاسد کے خلاف کیمیائی حملوں میں ملوث ہونے پر فوجی کارروائی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

     اجلاس سے قبل امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا تھا جس میں دونوں رہنماؤں نے شامی حکومت کے خلاف کارروائی پر رضامندی کا اظہارکیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • برطانوی پارلیمینٹ نے بشارالاسد کے خلاف کارروائی پررضامندی ظاہرکردی

    برطانوی پارلیمینٹ نے بشارالاسد کے خلاف کارروائی پررضامندی ظاہرکردی

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی وفاقی کابینہ نے ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں کیمیکل اٹیک روکنے کے لیے  شامی صدر بشار الاسد کے خلاف  ایکشن لینے کی ضرورت ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق حالیہ دنوں شام کے شہر دوما پر ہونے والے کیمیائی میزائل حملوں کے بعد عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے نے گذشتہ روز شام پر امریکی حملوں کی دھمکی کے بعد اپنی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔

    اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ نے شام میں کیمیائی حملوں پر ردِعمل دیتے بشار حکومت کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہےتاکہ آئندہ شام کے شہریوں کو کیمیائی حملوں سے بچایا جاسکے۔

    اعلامیے کے مطابق برطانوی وزراء نے معصوم شہریوں پراعصاب شکن گیس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مبینہ کیمیل میزائل داغے جانے کا ذمہ دار بشارالااسد کی حکومت کو ٹہرایا ہے۔ اعلامیے میں شام میں فوجی آپریشن کےحوالے سے تاحال برطانیہ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی  تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ کے وزیرٹرانسپورٹ جو جونسن نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’برطانیہ کو شام کے خلاف حملے کی نوعیت جانے بغیر کسی قسم کی فوجی کارروائی میں شامل نہیں ہونا چاہیے‘۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم پارلیمنٹ سے اجازت لیے بنا ہی شام پر فوجی کارروائی کا فیصلہ کرچکی ہیں۔

    تھریسا مے نے اپوزیشن پارٹیوں اور قدامت پسند رہنماؤں کی پارلیمنٹ میں میٹنگ بلائی ہے تاکہ شام پر فوجی کارروائی کے حوالے سے ووٹنگ کروائی جاسکے۔

    تھریسا مے نے کہا ہے کہ شامی شہر دوما میں باغیوں پر کیے گئے مبینہ کیمیائی حملوں کے تمام شواہد صدر بشار الااسد کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔

    دوسری جانب اجلاس میں برطانیہ کے لیبر پارٹی  کے رہنما جیرمی کوربائن کا کہنا تھا کہ ’مزید جنگ، قتل و غارت، اور بم حملے، کسی صورت انسانی جانوں کی حفاظت کرنے کے بجائے جنگ اورقتل عام کومزید پھیلائے گا‘۔

    برطانوی وزیراعظم کے خلاف یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ بشار کے خلاف کارروائی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اشارے کا انتظار کررہی ہیں ، خیال رہے کہ اجلاس سے قبل امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا تھا جس میں دونوں رہنماؤں نے شامی حکومت کے خلاف کارروائی پر رضامندی کا اظہارکیا تھا۔


    شام پرحملہ کب کریں گے، ٹائم فریم نہیں دے سکتے، ڈونلڈ ٹرمپ


    گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ روس سے ہمارے تعلقات بدتر ہوتے جارہے ہیں، روس کا دعویٰ ہے کہ وہ شام کی طرف آنے والے میزائل مار گرائے گا، روسی صدر ہمارے جدید اور اسمارٹ میزائل کے لیے تیار ہوجائے۔

    خیال رہے کہ شامی صوبے مغری غوطہ کے شہر دوما میں کیمیائی بموں سے حملہ کیا گیا تھا، جس میں کمسن بچوں اور عورتوں سمیت درجنوں افراد لقمہ اجل بن گئ.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ: مسیحی پیشوا کو بچوں سے زیادتی کے جرم میں 9 سال قید کی سزا

    برطانیہ: مسیحی پیشوا کو بچوں سے زیادتی کے جرم میں 9 سال قید کی سزا

    لندن : اسکاٹ لینڈ کی عدالت نے 82 سالہ کیتھولک پادری کو سن 1977 سے 1996 تک کمسن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے جرم میں 9 سال کی سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز برطانیہ کی ریاست اسکاٹ لینڈ کی عدالت نے کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی پیشوا کو بچوں سے جنسی زیادتی کے جرم میں 9 سال کے لیے قید بامشقت کی سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

    82 سالہ پاؤل مورے نے عدالت کے سامنے سن 1977 سے 1996 تک مختلف جگہوں پر متعدد بچوں کے ساتھ بد فعلی کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔

    اسکاٹ لینڈ کی عدالت کے مطابق کیتھولک پادری نے سن 1970 میں ایک اسکول میں یہ مکروہ فعل انجام دیا۔ بعد کے برسوں میں اس نے مختلف مقامات پر بچوں کا زیادتی کا نشانہ بنایا۔


    برطانیہ میں جنسی زیادتی کا مرتکب بھارتی شہری دہلی سے گرفتار


    اسکاٹ لینڈ کورٹ کی خاتون جج کا کہنا تھا کہ مجرم پہلے بچوں کو بہانے سے کسی خفیہ جگہ لے جاتا، جہاں وہ انھیں زیادتی کا نشانہ بناتا تھا۔ پادری کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بننے والے پہلے پانچ بچے پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھے۔

    مذکورہ مجرم کو عدالت میں متاثرہ خاندانوں نے فرانسس مورے کے نام سے شناخت کیا تھا، لیکن مجرم کو پریسٹ پاؤل کے نام سے جانا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • پولیس کی کم نفری برطانیہ میں پرتشدد واقعات میں اضافے کا باعث ہے: وزیر داخلہ

    پولیس کی کم نفری برطانیہ میں پرتشدد واقعات میں اضافے کا باعث ہے: وزیر داخلہ

    لندن: برطانوی حکام کی ایک دستاویز کے مطابق لندن میں رواں سال رونما ہونے والی فائرنگ اور چاقو زنی کی متعدد وارداتوں اور جرائم کی شرح میں اضافے کا باعث پولیس نفری میں کمی کی وجہ ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق برطانوی محکمہ داخلہ کی ایک لیک ہونے والی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران کی تعداد میں کمی پرتشدد واقعات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں رواں سال کے اوائل سے اب تک فائرنگ اور چاقو زنی کی متعدد وارداتوں میں 50 سے زائد شہریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

    لیک شدہ دستاویز کے مطابق برطانوی وزارت داخلہ کو سیکیورٹی کے سلسلے میں نئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

    دوسری جانب حکام نے مذکورہ دستاویز کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہوئے اس امکان کی تردید کی ہے کہ پولیس نفری میں کمی پرتشدد واقعات میں اضافے کا سبب ہے۔

    دستاویز میں کہا گیا کہ برطانیہ میں بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی کے واقعات اور دیگر جرائم کے پیش نظر سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بڑھای گئی، تاہم وسائل میں کمی اور مجرموں پر لگائی جانے والی دفعات میں نرمی کے باعث سیکیورٹی عملہ شدید دباؤ کا شکار ہوگیا، جو شرپسند عناصر کے حوصلوں میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔

    سیکریٹری داخلہ امبر رڈ نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے ثابت ہو کہ پولیس کی نفری میں کمی پرتشدد واقعات اور جرائم میں اضافے کا سبب بن رہی ہو۔


    لندن:فائرنگ اور چاقو زنی کے پیش نظر اضافی نفری تعینات


    خیال رہے کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران 17 سالہ لڑکی تانیشا اور 16 سالہ امان شکور کو فائرنگ کرکے ہلاک کرکے کردیا گیا تھا، جس کے الزام میں پولیس نے 30 سالہ شخص کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

    اس سے قبل گزشتہ ماہ 16 مارچ کو برطانیہ میں خواتین گینگ کے سرعام تشدد سے شدید زخمی ہونے والی مسلمان طالبہ مریم مصطفیٰ جان کی بازی ہار گئی تھی۔ جبکہ ایک اور حملے میں 20 سالہ نوجوان کو چاقو کے وار سے قتل کردیا گیا تھا۔

    دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن نے جرائم کی شرح میں امریکی شہر نیویارک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، برطانوی میڈیا کے مطابق نوجوان گینگ کلچر کا شکار ہورہے ہیں جس کے باعث لندن میں رواں سال چاقو زنی کی وارداتوں میں اب تک 50 افراد قتل ہوچکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ: 2 روز قبل نوجوان کو قتل کرنے والا ملزم جیل منتقل

    برطانیہ: 2 روز قبل نوجوان کو قتل کرنے والا ملزم جیل منتقل

    لندن: اندرون لندن میں واقع علاقے ہیکنی میں دو روز قبل قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والا 18 سالہ نوجوان اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا۔ پولیس نے قتل میں ملوث 17 سالہ نوجوان کو گرفتار کر کے جیل منتقل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، دو روز قبل ہیکنی میں زخمی حالت میں ملنے والا نوجوان اسرائیل اوگُن سولا اسپتال میں زندگی کی بازی ہار گیا۔

    لندن پولیس کا کہنا تھا کہ ہیکنی میں بُری طرح زخمی ہونے والے 18 سالہ نوجوان اسرائیل پرقاتلانہ حملے کے شبے میں 17 سالہ برطانوی نوجوان کو سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتارکرکے قتل کا مقدمہ درج کردیا ہے۔

    پولیس کے ترجمان انسپکٹرپاؤل کا کہنا تھا کہ 17 سالہ افریقی نژاد برطانوی شخص مشکوک حالت میں جائے حادثہ پرپایا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے اسے حراست میں لے لیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہیکنی کی عمارت کے قریب نوجوان کے زخمی ہونے کے بعدعلاقہ مکینوں نے پولیس کو فون کرکے واقعے سے آگاہ کیا تھا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ سات دنوں میں مشرقی لندن میں 6 افراد کو فائرنگ اور چاقو زنی کی متعدد وارداتوں میں قتل اور زخمی کیا جاچکا ہے۔

    پولیس کا مزید کہنا تھا کہ ملزم کو مجسٹریٹ عدالت نے قتل کی دفعات کے تحت قید کی سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ روس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈاکرکے آگ سےکھیل رہا ہے،روسی سفیر

    برطانیہ روس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈاکرکے آگ سےکھیل رہا ہے،روسی سفیر

    ماسکو : روس اور برطانیہ کے کشیدگی مزید بڑھنے لگی، روسی سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ کیا برطانیہ روس کے خلاف اس سے بہتر کہانی نہیں بناسکتا تھا؟

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں روسے کے سفیر نے برطانیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ برطانیہ روس پر بے بنیاد الزامات لگا کر ہمیں رسوا اور ہماری ساکھ کو خراب کرنا چاہتا ہے۔

    سلامتی کونسل کا اجلاس روس کی خصوصی درخواست پر بلایا گیا تھا جس میں روسی سفیر وسیلی نیبنزیا کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ برطانوی حکومت روس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہا ہے اور ہم پر لگائے گئے الزامات انتہائی خطرناک اور غیر مصدقہ ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ سابق جاسوس اسکریپال اور اس کی بیٹی کو اعصاب متاثر کرنے والے زہر کا نام روسی ضرور ہے لیکن یہ کیمیکل روس کے علاوہ بھی دنیا کے دیگر ممالک میں تیار کیا جاتا ہے۔ برطانیہ یاد رکھے کہ ’وہ روس کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلا کر ’آگ سے کھیل رہا ہے‘۔

    روسی سفیر نے کہا کہ چار مارچ کو برطانوی شہر سالسبرے میں سرگئی اسکریپال اور یویلیا اسکریپال کے زخمی حالت میں ملنے کے بعد سے ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ جبکہ برطانیہ سمیت دنیا کے 23 ملکوں نے سابق جاسوس کو زہر دینے کے الزامات پر روس کے سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا تھا، روس مسلسل ان بے بنیاد الزامات کو مسترد کررہا ہے۔

    Former Russian Spy
    سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپال اور ان کی بیٹی یویلیا اسکریپال

    روسی سفیر وسیلی نیبنزیا نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں برطانوی اقدامات کے خلاف قانونی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کو ان سوالات کے جواب دینے ہوں گے۔

    انہوں نے سوال کیا کہ کیا برطانیہ کے پاس روس پر الزامات لگانے کے لیے کوئی بہتر کہانی نہیں تھی؟ روسی حکام کسی بھی شخص کو قتل کرنے کے لیے ایسے خطرناک طریقے کا استعمال کیوں کرے گا؟

    اقوام متحدہ میں تعینات برطانیہ کے سفیر کیرن پائرس نے برطانوی حکام کی جانب سے روس کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے روس پرالزام لگایا کہ روس دوسری جنگ عظیم کے بعد سے برطانیہ کی حفاظت کرنے والے اداروں کو مسلسل کمزور کر رہا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ روس پر شکوک اورالزامات کی بہت سی وجوہات ہیں، ملک خفیہ سے معلومات لے کر فرار ہونے یا ملک سے غداری کرنے والے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے ثبوت ریاست کے پاس موجود ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اب سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپال اور ان کی بیٹی کی حالت خطرے سے باہر ہے تاہم ابھی وہ مکمل صحت یاب نہیں ہوئے لیکن پہلے سے بہتر ہیں۔


    سابق روسی ایجنٹ پر حملہ برطانیہ کے مفاد میں‌ تھا: روسی وزیر خارجہ کا الزام



    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ میں پھر اسلام مخالف پمفلٹ تقسیم

    برطانیہ میں پھر اسلام مخالف پمفلٹ تقسیم

    بلفاسٹ : شمالی آئرلینڈ کے مسلم اکثریتی علاقے میں برطانوی شدت پسند تنظیم ’جنیریشن سپارٹا‘ کی جانب سے اسلام مخالف پمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی آئرلینڈ میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت پر مبنی پمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں، جس میں اسلام دشمن عناصر نے پیغام دیا ہے کہ برطانیہ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکا جائے۔

    اسلام مخالف پمفلٹ برطانیہ کی نسل پرست تنظیم ’جنیریشن سپارٹا‘ کے کارندوں نے ریون ہل نامی مسلم اکثریتی علاقے میں پیر کے روز تقسیم کیے تھے، جس کے ذریعے تنظیم نے اسلام کے بڑھتے اثر کی جانب نشان دہی کی۔

    ریون ہل کے کونسلر کرس مک گمپسی کا کہنا تھا کہ علاقے میں ‘بسنے والے مکینوں میں ایک بڑی تعداد تارکین وطن کی ہے، یہ انتہائی غیرمناسب رویہ ہے، جو علاقے کی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نفرت انگیز پمفلٹ کی تقسیم کے باعث علاقہ مکینوں میں شدید خوف پایا جاتا ہے، پمفلٹ وصول کرنے والی ایک خاتون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ پمفلٹ نفرت انگیز مواد پر مبنی ہے اور اس میں درج تحریر کو پڑھ کر وہ سہم گئی تھیں۔

    برطانیہ میں تقسیم کیے گئے اسلام مخالف پمفلٹ کا عکس

    واضح رہے کہ تقسیم کیے جانے والے پمفلٹ کے ذریعے مذکورہ شدت پسند تنظیم شہر میں بسنے والے غیر مسلموں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔

    پولیس کے ترجمان ڈیوڈ موُر کا کہنا تھا کہ ‘پولیس و شہری حکومت اس عمل کو نفرت انگیزی پر مبنی جرم تصور کر رہی ہے اور پمفلٹ تقسیم کیے جانے کی تفتیش جاری ہے، شہر میں نفرت کی بنیاد پر کیا گیا ہر جرم ناقابل معافی ہوگا۔’

    شمالی آئر لینڈ کے دارالحکومت بیلفاسٹ میں واقع اسلامی مرکز کے ترجمان واصف نعیم کا کہنا تھا کہ مذکورہ پمفلٹ بھیجنے والے افراد اقلیت میں ہیں اور ان کا مقصد فقط کمیونٹی میں ڈر  خوف پھیلانا ہے‘۔


    مسلمانوں سے نفرت نہیں، محبت کریں: باشعور برطانوی شہریوں کی انوکھی مہم



    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سابق روسی ایجنٹ پر حملہ برطانیہ کے مفاد میں‌ تھا: روسی وزیر خارجہ کا الزام

    سابق روسی ایجنٹ پر حملہ برطانیہ کے مفاد میں‌ تھا: روسی وزیر خارجہ کا الزام

    ماسکو:روسی وزیر خارجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق روسی ایجنٹ پر حملہ برطانیہ کے مفاد میں‌ تھا، یہ حملہ بریگزٹ کے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے پیر کے روز روس اور برطانیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’برطانوی حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ ممالک مسلسل غیر مناسب رویہ اختیار کرتے ہوئے سفید جھوٹ اور غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔

    سرگئی لاروف نے پریس کانفرنس ک دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کے اوائل میں برطانیہ کے شہر سالسبری میں ڈبل ایجنٹ پر اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل سے قاتلانہ حملہ خود برطانوی حکومت کے مفاد میں ہے۔

    برطانیہ اس وقت خود بریگزٹ کے وعدے پورے نہ کرنے کے باعث مشکلات کا ہے اس لیے انہوں نے اس طرح کے اوچھے ہھتکنڈوں کے ذریعے بریگزٹ میں پیش آنے والے مسائل سے عوام کے توجہ ہٹانا چاہی ہے۔

    انہوں نے صحافی کی جانب سے سرد جنگ کی نسبت حالیہ دنوں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے حوالے سے کیے گئے سوال پر کہا کہ ’ سرد جنگ میں کچھ اصول و قوانین ہوتے تھے اور مناسب رویہ اختیار کیا جاتا تھا‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’مغربی دنیا برطانیہ اور امریکا کے پیچھے چلنے والے ممالک تمام قابل قبول رویوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابھی بچوں کا کھیل رہے ہیں لیکن ہم بچوں کا کھیل نہیں کھلتے‘۔

    روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ سابق ڈبل ایجنٹ سرگئی سکریپال اور ان کی بیٹی کو زہر دینے کا واقعہ برطانیہ کی خصوصی فورسز کے مفاد میں بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ قتل کے لائسنس کی حامل ہیں اور اپنی ان صلاحیتوں کے لیے معروف ہیں۔

    لاروف نے اس امر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ حملہ روس نے نہیں کیا کیوں کہ ’’اگر ایسا ہوتا تو متاثرین فوری طور پر مرچکے ہوتے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسے پراسرار اور پیچیدہ حملوں میں فوری طور پر موت واقع ہوجاتی ہے‘‘۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس واقعے کی دیگر بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے بھی امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ برطانیہ کے شہر سالسبری میں سابق روسی جاسوس اور اس کی بیٹی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس کا الزام برطانیہ نے روس پر عائد کرتے ہوئے 23 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے حکم دیاتھا۔

    تاہم برطانیہ کی حمایت میں امریکا سمیت کئی مغربی ممالک نے بھی اس سرد جنگ میں حصّہ لیتے ہوئے روسی سفارت کاروں کو جاسوس قرار دے کر نکال دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں