Tag: Budget 2017-18

  • سندھ کے بجٹ میں ماحولیات کا شعبہ نظر انداز

    سندھ کے بجٹ میں ماحولیات کا شعبہ نظر انداز

    کراچی: پاکستان کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) سے پہنچنے والے تباہ کن نقصانات کے باجود صوبہ سندھ کے مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں ایک بار پھر شعبہ ماحولیات کو نظر انداز کردیا گیا۔

    رواں سال کے بجٹ میں شعبہ ماحولیات کے لیے صرف 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو سالانہ ترقیاتی پروگرام کی رقم کا صرف 0.11 فیصد حصہ ہے۔

    المیہ یہ ہے کہ ماحولیات کے شعبہ کو نظر انداز کرتا ہوا یہ بجٹ ماحولیات کے عالمی دن یعنی 5 جون کو ہی پیش کیا گیا۔

    گزشتہ برس مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں ماحولیات کے لیے 40 کروڑ 55 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا جس میں سے 10 کروڑ 55 لاکھ روپے ماحولیاتی ترقیاتی پروگرام جبکہ 30 کروڑ روپے ساحلی علاقوں کی ترقی و بحالی کے لیے رکھے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    رواں سال نہ صرف اس رقم میں مزید کمی کردی گئی بلکہ بجٹ میں تحفظ ماحول سے متعلق کسی پروگرام کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔

    یہی نہیں گزشتہ سال جن ماحولیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا وہ بھی تاحال ادھورے ہیں۔

    ماہرین ماحولیات نے اس امر کو حکومت کی غیر سنجیدگی قرار دیتے ہوئے تحفظ ماحول کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر زور دیا ہے۔

    پنجاب میں تحفظ ماحول

    دوسری جانب صوبہ پنجاب کے مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں ماحولیات کا بجٹ گزشتہ برس کے 10 کروڑ 85 لاکھ سے بڑھا کر 50 کروڑ 40 لاکھ روپے کردیا گیا۔

    صوبے میں تحفظ ماحول اور پائیدار ترقی کے حوالے سے 7 نئی اسکیموں کا آغاز بھی کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    علاوہ ازیں پنجاب میں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے کئی نئے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جن میں ایجنسی برائے تحفظ ماحول کے اہلکاروں کی استعداد میں اضافے کے پروگرام، صنعتی آلودگی کی نگرانی، عوامی شعور و آگاہی اور ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس وفاقی بجٹ 18-2017 میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 81 کروڑ 50 لاکھ روپے کا بجٹ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 18-2017: سندھ حکومت کا 10.04 کھرب کا بجٹ پیش

    بجٹ 18-2017: سندھ حکومت کا 10.04 کھرب کا بجٹ پیش

    کراچی: سندھ حکومت نے نئے مالی سال کے لیے 10 کھرب 4 ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا، ترقیاتی اخراجات کی مد میں 254 ارب اور تعلیم کے لیے 202 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آج بروز پیر صوبے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ‘ بجٹ میں وسائل کا سب سے زیادہ حصہ تعلیم کے لیے رکھا گیا ہے‘ تعلیمی بجٹ میں رواں سال 24 فیصد اضافہ کیا گیا ہے‘ تعلیم کا کل بجٹ 202 ارب روپے ہیں۔

    تعلیم

    یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے لئے 5ارب روپے کی گرانٹ مختص جبکہ تعلیم کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 17ارب 23 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کیڈٹ کالج گڈاپ کو ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔

    آئندہ مالی سال کے دوران 50اسکولز کی اسکیمیں مکمل کی جائیں گی۔ طلبا کو 2ارب روپے کی لاگت سے درسی کتابیں بلا معاوضہ دی جائیں گی۔ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈیڑھ روپے کے وظائف دے گئے ہیں۔

    اسکول انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لئے 2ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں، سندھ یونیورسٹی جام شورو کےانفرااسٹرکچر کیلئے 15کروڑ 10لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے انفرااسٹرکچر فیز1 کیلئے 12 کروڑ 90 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے جبکہ 13کروڑ 10 لاکھ روپے داؤد یونیورسٹی کیلئے رکھنے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

    اسکالر شپ کی مد میں75کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور 8ارب 8 کروڑ روپے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔

    توانائی بحران

    توانائی بحران کے حوالے سے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بجلی نہ دے کرصوبے کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے‘ سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والے صوبے میں آج بجلی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ 70 فیصد توانائی پیدا کرتا ہے‘ وفاق بجلی کی پیداوار بڑھانے پر غلط بیانی نہ کرے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حیسکو کو 27 ارب روپے بل کی مد میں ادا کیے تاہم ادائیگیوں کے بعد بھی بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے جس سے صوبے میں عذاب کی سی صورتحال ہے۔

    صحت

    صوبے میں صحت سے متعلق صورتحال کو بہت بنانے کے لیے صحت کا بجٹ 100 ارب 32 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘ رواں مالی سال کی مختص رقم 80ارب روپے تھی۔

    صحت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے15ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ ایمونائزیشن سپورٹ پروگرام کی مجموعی لاگت 8ارب9 کروڑ روپے مختص ہیں جبکہ لیڈی ہیلتھ ورکر ز پروگرام کے لئے 2ارب 40 کروڑ روپے اضافی رقم مختص کی گئی ہے۔2100لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دور دراز علاقوں میں تعینات کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

    صحت مند سندھ پروگرام کے لئے 2ارب 40 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ صحت کے شعبے میں 25ہزارنئی اسامیاں تخلیق کی جائیں گی۔

    ایس آئی یو ٹی کی گرانٹ 4ارب سے بڑھا کر ساڑھے 4ارب روپے کرنے اور انڈس اسپتال کراچی کی گرانٹ کو دگنا کرکے ایک ارب روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

    ویکسی نیٹرز کی2118اضافی اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں، تمام بڑے اسپتالوں میں میمو گرافک مشینیں فراہم کی جائیں گی، اسپتالوں میں 400ملین روپے سے ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔

    وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ سندھ میں اس سال پولیو کاکوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

    کراچی میں امن امان کا بجٹ

    امن وامان کے لئے 92ارب 91کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ شہدااور زخمیوں کے خاندانوں میں 1ارب روپے تقسیم کئے ۔

    پاک فوج نے نئے بھرتی ہونے والے 3000پولیس اہلکاروں کو تربیت دی اور سندھ پولیس میں 10ہزار مزید نئی اسامیاں تخلیق کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔

    سندھ پولیس کو ٹرانسپورٹ کی خریداری کے لئے 2ارب روپے دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ سندھ پولیس کی فرانزک لیب کی تعمیر کے لئے 2ارب 60 کروڑ روپے کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

    سندھ پولیس کے لئے انٹیلی جنس اورڈیٹا سینٹر کے قیام کے لئے 28 کروڑ روپے مختص اورسی پیک سے متعلق منصوبوں کی سیکیورٹی کے لئے3000اسامیوں کی تجویز دی گئی ہے۔

    اعلیٰ معیارکےہتھیاروں کی خریداری کیلئے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی‘ بڑے شہروں میں سیکیورٹی کیمروں کی تنصیب کے لئے 20کروڑ روپے مختص دی گئی ہے۔

    کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے رقم مختص

    کراچی والوں کیلئے پانی، سیوریج اور سڑکوں کے لئے بھی بجٹ میں کچھ رقم رکھ دی گئی ہے۔ بجٹ میں کراچی کیلئے اسپیشل پیکج دیتے ہوئے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، شاہراہ فیصل کی توسیع، اسٹارگیٹ اور پنجاب چورنگی پر انڈر پاس کی تعمیر اور شاہین کمپلیکس کے قریب فلائی اوور بنائے جائیں گے۔

    اس کے علاوہ کراچی میں سڑکوں کی تعمیر کیلئے تین ارب روپے رکھ دیئے گئے۔ سندھ بجٹ میں کے فور واٹر سپلائی پروجیکٹ کے لئے سولہ ارب مختص کر دیئے گئے۔

    کراچی میں تیرہ نئے اسپتال بنائے جائیں گے۔ بجٹ میں یلیو، ریڈ اور بلیو بس ٹرانزٹ سسٹم کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ کراچی آپریشن کیلئے جدید ہتھیار اور بکتر بند گاڑیاں خریدنے کیلئے سوا پانچ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

     علاوہ ازیں دریائے سندھ سے کینجھر جھیل کو پانی فراہم کرنے والی نہر کیلئے بیس ارب روپے کی تجویز دی گئی ہے۔ منچھر جھیل کی بحالی بھی بجٹ میں شامل ہے۔

    تنخواہ

    سندھ حکومت کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

  • پنجاب:1970 ارب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں‌ میں‌ 10 فیصد اضافہ

    پنجاب:1970 ارب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں‌ میں‌ 10 فیصد اضافہ

    لاہور: پنجاب اسمبلی میں مالی سال برائے 18-2017 کے لیے ایک ہزار 970 ارب  روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا، سرکاری ملازمین کی  تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا، اورنج لائن کے لیے 93 ارب روپے، تعلیم کے لیے 355 اور سڑکوں کے لیے 245 ارب مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی میں اسپیکر رانا اقبال کی زیر صدارت بجٹ اجلاس ہوا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب، حکومتی وزراء اور اراکین اسمبلی نے شرکت کی۔ وزیر خزانہ پنجاب عائشہ غوث نے آئندہ مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کیا۔ اپوزیشن ارکین اجلاس میں بازوؤں پر گو نواز گو پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے اور اجلاس کے دوران شوشرابہ کرتے رہے۔

    بجٹ خطاب

    عائشہ غوث نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ 2008 میں شروع ہونے والا دور آئندہ بھی جاری رہے گا، پاکستان کو 2 دہائیوں سے شدید مسائل کا سامنا تھا مگر جمہوریت کی وجہ سے آج اور کل کے پاکستان میں واضح فرق ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی معیشت کا حجم 300 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، رواں سال پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 5.28فیصد رہی، ہماری فی کس آمدنی 1623 ڈالر تک پہنچ گئی۔

    عائشہ غوث نے کہا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ دنیا کی بہترین مارکیٹوں میں شمار ہوتی ہے جس کی ایک اہم وجہ سی پیک بھی ہے جو خطے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ سی پیک پاک چین دوستی کی علامت ہے، سی پیک سمیت تمام منصوبے شفافیت اور میرٹ کی مثال ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی جذبے اور سچی لگن سے صوبے کی خدمت کی جس کا پھل آج سب کو مل رہا ہے۔

    وزیرخزانہ پنجاب نے کہا کہ تمام مسائل کے باوجود متوازن بجٹ تیار کیا، موجودہ حکومت کا پانچوں بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز ہے، رواں سال مختلف منصوبوں میں 220 ارب روپے کی بچت ہوگی جبکہ 57 غیرملکی سرمایہ کاروں سے معاہدے کیے گئے ہیں۔

    بجٹ

    عائشہ غوث نے ایوان کو بتایا کہ آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ کا حجم 1970 ارب 70 کروڑ روپے ہے، جس میں  ترقیاتی بجٹ  کا حجم 635 ارب روپے محصولات کا تخمینہ 1502 ارب روپے جبکہ وفاق سے پنجاب کو 1154 ارب روپے ملیں گے جبکہ صوبائی ریونیو کی مد میں348 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ ٹیکسوں کی مد میں 230ارب روپے کی آمدن کا امکان ہے۔

    وزیر خزانہ پنجاب نے کہا کہ  شعبہ تعلیم کے لیے 345 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ تعلیم صحت، واٹر سپلائی پر 201 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے اسکول ایجوکیشن پروگرام کے لئے53ارب36کروڑ روپے مختص اور ضلعی تعلیم کے لئے 230ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

    تعلیم

    اُن کا کہنا تھا کہ آج صوبے میں زیور تعلیم پروگرام سے 4 لاکھ 62 ہزار بچیاں مستفید ہورہی ہیں جبکہ 2لاکھ60ہزارطالبعلم حکومتی وظائف پرتعلیم حاصل کررہے ہیں،

    انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبے کو اہمیت دیتے ہوئے اسکولوں کی تعمیر ومرمت کے لئے 28ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کی ہے جبکہ پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے 6ارب50کروڑمختص کرنے کی تجویز اور پنجاب ایجوکیشن اتھارٹی کے لئے 7ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کی ہے۔

    وزیر خزانہ پنجاب نے بتایا کہ آئندہ مالی سال تعلیم کے لئے ساڑھے 6ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، خادم اعلیٰ پنجاب پروگرام کے تحت3412 اسکولوں میں 6519 کمرے تعمیر کرنے کاہدف ہے جبکہ 1200 مخدوش اسکولوں کی تعمیر کےلیے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

    عائشہ غوث نے کہا کہ اسکولوں میں دیگر سہولتوں کے لئے 4ارب روپے مختص کرنے کی تجویزہے جبکہ وزیراعلی لیپ ٹاپ اسکیم کے لئے 7 ارب روپے، محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے لئے 18 ارب 3 کروڑ جب کہ خصوصی تعلیم کے لیے ایک ارب 6 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

    زراعت

    عائشہ غوث نے کہا کہ اس سال  گندم کی پیداوار 22 ملین ٹن رہی، اہم فصلوں کی شرح نمو 4.12 فیصد رہی، اس سال کپاس کی بوائی کا ہدف حاصل کرلیا اور ٹیکسٹائل کے شعبے کو ایک بار پھر اُس کے قدموں پر کھڑا کردیا۔

    انہوں نے کہا کہ رواں سال کھادکی قیمتوں میں جوکمی کی گئی تھی وہ برقرارہے گی جبکہ زراعت کے شعبے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ٹیوب ویلوں پر لگایا جانے والا 6 ارب کا سیلز ٹیکس پنجاب حکومت ادا کرے گی، گندم کی بوری فی من 1300 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    صحت

    وزیرخزانہ پنجاب نے کہا کہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف  کریک ڈاون جاری ہے، غیر معیاری ادویات بنانے والی 84 مینوفیکچررز کے خلاف ایکشن ہوچکا ہے،انہوں نے کہا کہ صحت کےلئے 253 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،جس کے تحت صوبے بھر کے  اسپتالوں میں 10 ارب کی ادویات فراہم کی جائیں گی اور صوبے کے تمام بڑے اسپتالوں میں 1700 بستروں کااضافہ کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ضلعی ہیلتھ اتھارٹی کے لئے 63ارب روپے مختص کرنے کی تجویزہے۔

    ترقیاتی کام

    پنجاب کی وزیر خزانہ نے کہا کہ اورنج لائن کے لیے 93 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پنجاب رورل روڈ پروگرام کے لئے 17 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

    پنجاب حکومت نے صنعتی شعبے کی ترقی کے لئے 15ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی جبکہ پنجاب فوڈ اتھارٹی توسیع پروگرام کے لئے 2ارب سے زائد کی رقم مختص اور محکمہ جنگلی حیات کے لئے80 کروڑ، فشریز کے لئے 85 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی۔

     انھوں نے مزید کہا کہ ہمارا حق اپنی جگہ موجود ہے، اپنے آئینی اور قانونی حق کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • پنجاب’ بجٹ سے قبل حکومت اور اپوزیشن کا علیحدہ علیحدہ اجلاس

    پنجاب’ بجٹ سے قبل حکومت اور اپوزیشن کا علیحدہ علیحدہ اجلاس

    لاہور: پنجاب اسمبلی میں بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ایوان پہنچ گئے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اجلاس طلب کیا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت آج آئندہ مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، اجلاس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس جاری ہے جس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔

    پڑھیں: آئندہ مالی سال کیلئے صوبے پنجاب کا بجٹ آج پیش کیا جائے گا

    دوسری جانب اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی میں بجٹ کے دوران احتجاج کا فیصلہ کیا ہے، میاں محمودالرشید کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ بجٹ اجلاس میں اراکین بازوؤں پر گو نواز گو کی پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شرکت کریں گے اور بجٹ اجلاس کے دوران شدید احتجاج کریں گے۔

    یاد رہے آج پنجاب حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جارہا ہے، بجٹ کا حجم 19 کھرب متوقع ہے، آئندہ مالی سال کے لیے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے لیے 635 ارب، تعلیم کے لیے 52 ارب، صحت کے لیے 30 ارب رکھے جانے کا امکان ہے۔

  • بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے  لیے سب سے کم رقم

    بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے لیے سب سے کم رقم

    اسلام آباد: پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 2 سال سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کے لیے مختص کی جارہی ہے۔

    تاہم پاکستان کو کلائمٹ چینج کے حوالے سے جن نقصانات کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ رقم نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں اور پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے 4 منصوبوں کے لیے 1 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم رواں برس کے اقتصادی جائزے کے مطابق وزارت برائے کلائمٹ چینج نے اس میں سے صرف 58 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

    اس امر کو وزارت کی نا اہلی کہیں یا غفلت، البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس شعبے میں (حکومت کی حد تک) ماہرین کی بے حد کمی ہے جو صورتحال کا درست جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرسکیں، اور جو ماہرین پاکستان میں موجود ہیں، حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتی۔

    پاکستان کا کلائمٹ چینج ’445 الفاظ‘ پر مشتمل

    سنہ 2015 میں 2 سال قبل جب دنیا کے بہت سے ممالک کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم لیے پیرس میں جمع تھے (کوپ 21 کانفرنس کے لیے) اور دنیا کو بچانے کے لیے ایک تاریخ ساز معاہدہ اپنی تشکیل کے مراحل میں تھا تب اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہر ملک نے ایک حکمت عملی کی دستاویز جمع کروائی تھی جسے آئی این ڈی سی کا نام دیا گیا۔

    اس دستاویز میں ہر ملک نے کلائمٹ چینج سے ہونے والے اپنے داخلی نقصانات اور ان کے ممکنہ سدباب کا تفصیلی ذکر کیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں کون سا ملک اپنے کاربن اخراج پر کس قدر قابو پائے گا۔

    مختلف ممالک نے ضغیم آئی این ڈی سی جمع کروا کر کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کے لیے یہ معاہدہ کس قدر اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔

    اس وقت پاکستان کا آئی این ڈی سی فقط 445 الفاظ یعنی بہ مشکل ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں اس یک صفحی دستاویز کی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ پاکستان کے صنعتی شعبہ کو ابھی پھلنا پھولنا ہے، لہٰذا ابھی یہ کہنا کہ، ہم اپنے کاربن اخراج میں کتنی کمی کریں گے، قبل از وقت ہوگا۔

    شجر کاری اور کوئلے کے بجلی گھر ۔ متضاد ترقیاتی منصوبے

    یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ صرف چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا افتتاح کر چکے ہیں جو کاربن کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ سال وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کا تحفظ کیا جانا ہے۔

    ایک طرف تو گرین پاکستان پروگرام اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کا منصوبہ، اور دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کی تکمیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ایسے مشیران کی ضرورت ہے جو ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پائیداری، تحفظ ماحول، اور صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھیں جو اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بجلی گھر چین کے مشترکہ تعاون سے بنائے جارہے ہیں جو اس وقت دنیا میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے۔

    چین اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے۔ کوئلے کے اس بے تحاشہ استعمال کے باعث چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار چینیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔

    موجودہ بجٹ میں ماحول کے لیے کیا ہے؟

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بچوں کے ڈائپرز اور سگریٹ کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تو ضرور بتایا، تاہم انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کو لاحق دہشت گردی سے بھی بڑے خطرے کلائمٹ چینج کا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔

    بعد میں جاری کی گئی بجٹ دستاویز تفصیلات کے مطابق رواں برس موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 81 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    جیومیٹرک سینٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے: 3 کروڑ 38 لاکھ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2019 تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

    خشک سالی کے سدباب کے لیے پائیدار زمینی انتظام (سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ): ڈھائی کروڑ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2020 تک مکمل ہوگا۔

    وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر شروع کیا گیا گرین پاکستان پروگرام: اس منصوبے کے تحت جنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے 60 کروڑ 51 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا طے کردہ ہدف سنہ 2021 تک حاصل کرلیا جائے گا۔

    تحفظ جنگلی حیات: گرین پاکستان پروگرام ہی کے تحت اس ضمن میں 10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

    اسلام آباد میں نباتاتی و حیاتیاتی گارڈن: 1 کروڑ 50 لاکھ روپے۔

    زولوجیکل سروے آف پاکستان: 3 کروڑ 60 لاکھ روپے۔ یہ سروے پاکستان کی خطرے کا شکار جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

    دیگر منصوبے

    ان منصوبوں کے علاوہ تحفظ ماحولیات کے نام سے بھی کچھ رقم بجٹ میں شامل ہے جو 11 کروڑ سے زائد (1141 ملین) ہے جو ویسٹ واٹر مینجمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔

    ایک خصوصی پروگرام ‘پینے کا صاف پانی ۔ سب کے لیے’ کی مد میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔ یہ رقم ملک بھر میں پینے کے پانی کو صاف کرنے کے اقدامات اور دور دراز علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کی تقریر میں وزیر اعظم کے ایک پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا جو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    علاوہ ازیں تحفظ ماحول کے لیے بجٹ میں کچھ اور وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے مطابق

    حکومت تمام بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا پانی زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    صنعتوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ پانی کا کم سے کم اخراج کریں۔ یاد رہے کہ کافی عرصہ قبل امریکا سمیت اکثر ممالک میں صنعتوں کو مختلف قوانین کے تحت پابند کیا جاچکا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل یعنی دوبارہ سے استعمال کریں تاکہ پانی کی بچت ممکن ہوسکے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کلائمٹ چینج کا مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر شہری حدود میں توسیع کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے تاکہ شہروں کو ایک حد تک پھیلایا جائے اور بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔

    رواں سال بجٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کلائمٹ چینج کو منصوبہ بندی اور مالیات کے شعبہ سے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر شعبہ میں کسی بھی منصوبہ کے آغاز اور اس کی تکمیل میں کلائمٹ چینج (کے نقصانات) کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ صرف 1 سے 2 سال کے اندر پاکستان کو کلائمٹ چینج کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ دہشت گردی کے نقصانات کے تخمینہ سے بھی تجاوز کرجائے گا۔

    اگر صرف مذکورہ بالا وعدوں کو ہی پورا کرلیا جائے، اور مختص کی گئی رقم کو دانش مندی اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو ہم کلائمٹ چینج کے نقصانات سے خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔

  • یومیہ اخراجات: وزیراعظم ہاؤس 25 لاکھ، ایوان صدر کے لیے 12.5 لاکھ مختص

    یومیہ اخراجات: وزیراعظم ہاؤس 25 لاکھ، ایوان صدر کے لیے 12.5 لاکھ مختص

    اسلام آباد: نئے مالی سال کے بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کی مد میں یومیہ 25 لاکھ اور ایوان صدر کے لیے یومیہ ساڑھے 12 لاکھ روپے مختص کردیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحق ڈار نے نئے مالی سال 2017-18 کا وفاقی بجٹ پیش کیا جس میں دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے یومیہ اخراجات کی مد میں مختص رقم میں اضافہ کردیا گیا۔

    بجٹ دستاویزات کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کے گزشتہ مالی سال کے یومیہ اخراجات 24 لاکھ 30 ہزار 584 روپے تھے سالانہ حساب سے یہ رقم 88 کروڑ 95 لاکھ 94 ہزار روپے بنتی تھی تاہم اس رقم پر نظر ثانی کی گئی تھی اور یہ رقم بڑھ کر 95 کروڑ 6 لاکھ 13 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

    اس بجٹ میں یہ رقم 24 لاکھ یومیہ سے بڑھا کر 25لاکھ روپے یومیہ کردی گئی ہے جو کہ سالانہ اعتبار سے 91 کروڑ 67 لاکھ 22 ہزار روپے بنتے ہیں۔

    امکان ہے کہ اس بار بھی مالی سال کے اختتام پر ان اخراجات پر نظر ثانی کردی جائے گی اور یہ اخراجات ایک ارب روپے تک پہنچ جائیں گے۔

    اسی طرح ایوان صدر کے لیے مختص یومیہ رقم میں اضافہ کردیا گیا ہے اور اب ایوان صدر کے لیے یومیہ ساڑھے بارہ لاکھ روپے مختص کردیے گئے ہیں جو کہ سالانہ 45 کروڑ 75 روپے بنتے ہیں۔

    اسی سے متعلق: پانچ ہزار 310 ارب کا بجٹ پیش، تنخواہ و پنشن میں‌ 10 فیصد اضافہ

  • انتخابات سے قبل میثاق معیشت پر متفق ہونا ضروری ہے: وزیر خزانہ

    انتخابات سے قبل میثاق معیشت پر متفق ہونا ضروری ہے: وزیر خزانہ

    اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ آئندہ سال چھٹا بجٹ پیش کر کے تاریخ رقم کریں گے۔ انتخابات سے قبل میثاق معیشت پر متفق ہونا ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کی۔

    پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ آئندہ سال کا بجٹ موجودہ بجٹ سے 11 فیصد زیادہ ہے۔ اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی کی گروتھ 6 فیصد رکھی ہے۔ افراط زر 6 فیصد سے کم رکھی جائے گی۔ بجٹ خسارے سے زیادہ ترقیاتی بجٹ ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش

    اسحٰق ڈار نے کہا کہ قرض لے کر ترقیاتی کام کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ تجارتی اور بجٹ خسارے کے باوجود ترقیاتی کاموں کا بجٹ زیادہ رکھا۔ پانچویں بجٹ میں دفاع کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔

    ان کے مطابق جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح 60 فیصد سے نیچے رکھی جائے گی۔ بجلی کی فراہمی بہتر اور لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے گی۔ غربت کے خاتمے کے لیے بجٹ میں 121 ارب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں 14 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

    اسحٰق ڈار نے کہا کہ غیر ترقیاتی بجٹ کو افراط زر کی شرح سے کم رکھا جائے گا۔ زراعت، روزگار، سرمایہ کاری کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ آئی ٹی کے شعبہ میں 2 لاکھ نوجوان کام کر رہے ہیں۔ 10 لاکھ افراد کو آئی ٹی ٹریننگ دی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زراعت کے لیے اسپیشل اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ کسانوں کو سستے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ قرض کی فراہمی اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔ کسانوں کے لیے رواں سال کھاد کا پیکج بھی جاری رکھا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ٹیوب ویل کی سستی بجلی کے لیے 27 ارب کی سبسڈی دی جائے گی۔ پولٹری کے لیے بھی مراعات دی گئی ہیں۔ تعمیرات کے لیے بھی اسکیمز دی جائیں گی۔

    مزید پڑھیں: مالی سال 17-2016 کا اقتصادی جائزہ

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 500 ارب کے ٹیکسز لگانے کا تاثر غلط ہے، 120 ارب کے ٹیکس لگائے ہیں۔ ڈیویڈنڈ پر ٹیکس میں اضافہ اس لیے ہے کیونکہ مارکیٹ میں ٹریڈنگ بڑھ گئی ہے۔ نان فائلر کی زندگی مشکل کی ہے اور ضرور کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ دودھ پر نیا ٹیکس لگانے کا تاثر غلط ہے۔ برآمدات اور ٹیکسائل کے لیے رواں سال کا پیکج جاری رہے گا۔ ہاؤسنگ کے شعبے کے لیے مراعات ہیں جبکہ پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ کو فعال کردیا گیا ہے۔ اس سال 125 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں دیا جائے گا۔

    اسحٰق ڈار کے مطابق اسلام آباد میں تارکین وطن کے لیے زمین مختص کی گئی ہے۔ تارکین وطن براہ راست اسٹیٹ بینک کو ادائیگی کریں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے سال 18-2017 کا 5 ہزار 310 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے۔


  • سیاسی جماعتوں‌ نے وفاقی بجٹ‌ مسترد کردیا

    سیاسی جماعتوں‌ نے وفاقی بجٹ‌ مسترد کردیا

    ایم کیو ایم پاکستان نے وفاقی بجٹ کو مسترد کردیا، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس بڑھادیا گیا، کسانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، جاگیرداروں پر ٹیکس لگنا چاہیے،غریب پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے قرضوں کی کوئی اسکیم نہیں دی گئی، پرائیویٹ سیکٹر کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ فاروق ستار نے کہا کہ حکومت کا آخری بجٹ میں عوام کے لیے اعلان کرنا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہیں کیا گیا۔

    امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بجٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آخری بجٹ میں بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو توقعات تھیں کہ حکومت خصوصی ریلیف دے گی، مگر ایسا نہ ہوا، بجٹ کا خسارہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا، تعلیم اور صحت میں کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا گیا، کشکول توڑنے کے دعوے داروں نے قرض نہ لینے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

    مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار کا بجٹ عوام دشمن ہے،حکومت کسانوں سمیت تمام طبقات کو تکلیف دے رہی ہے،تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیگی حکمرانوں کے جھوٹے کسان پیکیج پٹواری پیکیج ہیں،پُرامن کسانوں پر ظلم کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف بھارت کے کسانوں کو خوش کرنا چھوڑ دیں۔

    انہوں نے کہا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم اضافہ کیاگیا،کراچی کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جانا چاہیے تھا، کراچی میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کے لیے خصوصی رقم دی جاتی۔

    جماعت اسلامی کے امیر نعیم الرحمان نے کہا کہ بجٹ میں کراچی کو حصہ نہیں دیا گیا، نئے سرچارجز لگا کر بجلی مزید مہنگی کی جارہی ہے، بجٹ میں غریب کو ریلیف نہیں دیا گیا۔

    تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا کہ 30 سال میں سب سے کم سرمایہ کاری موجودہ حکومت کے دور میں ہوئی، پاکستان کی معیشت دنیا کی بہ نسبت پیچھے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں پیداواری سیکٹر پر سب سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا، بجٹ میں کسانوں کو ریلیف دینا اچھی بات ہے۔ حکومت شخصیت وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری نے کہا ہے کہ حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیا۔

     دوسری جانب تاجروں نے بھی بجٹ کو مسترد کردیا ہے۔

    خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے صدر حاجی افضل نے کہا کہ وفاقی بجٹ لفظوں کا ہیر پھیر ہے،دہشت گردی سے متاثرہ صوبے کی انڈسٹری کے لیےے کچھ نہیں کیا گیا۔

    حاجی افضل نے مزید کہا کہ وفاق بجٹ واپس لے اور عوام دوست کا بجٹ تیار کرے۔

    چیئرمین لاہور چیمبر آف کامرس عبدالباسط نے کہا کہ بجٹ بظاہر متوازن نظر آرہا ہے، بجٹ میں کالاباغ ڈیم کا ذکر تک نہیں کیا گیا، ٹرن اوور ٹیکس میںں اضافہ نا انصافی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے چھاپے،ریکارڈ اٹھا کر لےجانا ناانصافی ہے، برآمدات میں کمی کی بڑی وجہ ایف بی آر کا رویہ ہے، سیمنٹ اور سریے پرر ٹیکس میں اضافہ معیشت کے لیے سود مند نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ پر آنے کے باوجود نان فائلرز کو نظر انداز کیا جارہا ہے، کارپوریٹ ٹیکس میں ایک فیصد کمی خوش آئند ہے، حکومت غیر ضروریی چیزوں کی درآمد پر پابندی لگائے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں تبدیلی لائی جائے، غریبوں کو بھیک دینے کے بجائے خود انحصار بنایا جائے۔

    دوسری جانب پاکستان فیڈریشن چیمبر آف کامرس نے بجٹ کو متوازن قرار دے دیا، صدرایف پی سی سی آئی زبیر طفیل نے کہا کہ اگست تک سیلز ریفنڈ دینےے کا اعلان خوش آئند ہے،اگست تک ریفنڈ ادا نہیں کیے تو تاجر اسلام آباد جائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ پیداواری لاگت بڑھتی جارہی ہے، بجلی قیمت کم ہو تو برآمدات دوبارہ 25 ار ب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، ایف بی آر کے محصولات میںں اضافہ نہیں ہورہا، 500 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کہیں نہ کہیں بوجھ ضرور بنیں گے۔

  • بجٹ معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لیے موبائل ایپ متعارف

    بجٹ معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لیے موبائل ایپ متعارف

    پشاور: پاکستانی انجینئرز نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک اور کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے بجٹ ایپ متعارف کروادی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں امن اور ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے سی پی ڈی آئی کی جانب سے پیش کردہ موبائل بجٹ ایپ اپنی نوعیت کی پہلی ایپ ہے۔

    بجٹ ٹریکر نامی اس موبائل ایپ میں وفاقی حکومت اور تمام صوبوں کے بجٹ کی تفصیلات عوام کے ساتھ شیئر کی جائیں گی، کوئی بھی صارف مذکورہ صوبے میں مختص ہونے والے کسی بھی بجٹ کو با آسانی دیکھ سکے گا۔

    پروگرام مینیجر نے نجی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایپ اپنی نوعیت کی پہلی ایپ ہے، اب عوام آسانی سے سب کچھ جان سکیں گے جس سے وہ اب تک لاعلم رہے ہیں‘‘۔

    منتظمین کا کہنا ہے کہ موبائل ایپ میں ابھی فی الحال پرانے بجٹ کا ڈیٹا اپ لوڈ نہیں کیا گیا تاہم آج پیش ہونے والے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تفصیلات دو روز کے اندر فراہم کردی جائیں گی۔

    منتظمین کا مزید کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر ایپ انگریزی زبان میں لانچ کی گئی ہے تاہم اس کی کامیابی کے بعد ایپ کو مقامی زبانوں میں بھی لانچ کیا جائے گا، یہ ایپ اینڈرائیڈ اسمارٹ فون میں بالکل مفت آسانی سے ڈالی جاسکتی ہے۔

    ویڈیو دیکھیں

  • کسانوں پر تشدد: اپوزیشن کا بجٹ سیشن سے علامتی بائیکاٹ

    کسانوں پر تشدد: اپوزیشن کا بجٹ سیشن سے علامتی بائیکاٹ

    اسلام آباد: بجٹ پیش ہونے سے قبل اپوزیشن لیڈر نے کسانوں پر ہونے والے تشدد پر بجٹ سیشن سے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس پر اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایوان سے باہر چلی گئیں تاہم حکومتی اراکین کے منانے پر اپوزیشن نے علامتی بائیکاٹ ختم کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں وفاقی بجٹ وزیر خزانہ اسحق ڈار پیش کیا، اس موقع پر ایوان میں وزیراعظم نواز شریف سمیت تمام ارکان اسمبلی موجود تھے۔ یہ ن لیگی حکومت کا پانچواں اور آخری بجٹ ہے۔

    اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولﷺ سے شروع ہوا،نعت ختم ہوتے ہی چند ارکان نے بات کرنے کی کوشش کی تاہم اسپیکر نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ ملکی روایت کے بر خلاف ہے اور اگر یہ کام آج ہوا تو آئندہ روایت پڑ جائے گی، درخواست ہے سب بیٹھ جائیں، بجٹ کے بعد بات کریں۔

    پڑھیں: بجٹ سیشن کے لیے اپوزیشن کی جارحانہ حکمت عملی تیار

    اسحق ڈار نے اسپیکر سے درخواست کی کہ صرف اپوزیشن لیڈر کو بات کرنے دی جائے وہ چند منٹ بات کریں گے بقیہ دیگر نہیں، ان کے بصد اصرار پر اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو چند جملوں کی اجازت دی۔

    خورشید شاہ نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کسانوں پر ہونے والے تشدد کی مذمت کی اور حکومتی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کسان ریڈزون سے بھی باہر تھے مگران پرتشدد کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ کسانوں کے مطالبات پورے ملک کے لیے ہیں، ان کے پورا کرنے میں کسی ایک کسان کا فائدہ نہیں، کسانوں نے جی ایس ٹی ختم کرنے کا مطالبہ کیا، ہمارے دورِ حکومت میں بھی کسان احتجاج کے لیے آتے تھے مگر پیپلزپارٹی نے کبھی اُن پر تشدد نہیں کیا۔

    مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ نے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اب یہ رواج پڑ گیا کہ جو بھی ڈی چوک آئے اُس کے خلاف ریاستی مشینری کا استعمال کیا جائے اور تشدد کیا جائے، اگر حکومت کو یہی سب کرنا ہے تو جمہوری حکومت اور آمریت میں موئی فرق نہیں رہے گا، عوام نے قربانیاں اس لیے نہیں دیں کہ کمزوروں پر جبر و ظلم کیا جاتا ہے، کسانوں پر تشدد کے معاملے پر اجلاس سے واکس آؤٹ کریں گے۔

    کسانوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے اپوزیشن ارکین بجٹ اجلاس میں بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے ہیں۔ اپوزیشن نے ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کردیا جس میں تمام اپوزیشن جماعتیں شامل ہیں، ارکان ایوان سے باہر چلے گئے اور انہوں نے بجٹ دستاویز پھاڑ دیں، حکومتی ارکان انہیں منایا تو تمام اراکین واپس ایوان میں واپس آگئے۔