Tag: Budget 2017-18

  • پانچ ہزار 310 ارب کا بجٹ پیش، تنخواہ و پنشن میں‌ 10 فیصد اضافہ

    پانچ ہزار 310 ارب کا بجٹ پیش، تنخواہ و پنشن میں‌ 10 فیصد اضافہ

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے 5 ہزار 310 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا، جس میں آمدنی  کا تخمینہ 4 ہزار 681 ارب روپے لگایا گیا ہے، سالانہ ترقیاتی فنڈ کے لیے 1001 ارب، دفاع 920 ارب، تعلیم 133 ارب اور صحت کی مد میں 49 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کردیا گیا۔

    قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں وفاقی بجٹ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بجٹ پیش کیا، یہ مسلم لیگ ن حکومت کا پانچواں اور آخری بجٹ ہے۔

    اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولﷺ سے ہوا،نعت ختم ہوتے ہی چند ارکان نے بات کرنے کی کوشش کی تاہم اسپیکر نے منع کردیا اور کہا کہ یہ روایت بن جائے گی آج تک ایسا نہ ہوا، درخواست ہے سب بیٹھ جائیں، بجٹ کے بعد بات کریں۔

    اپوزیشن ارکان اجلاس میں بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے، وزیر خزانہ اسحق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان شور مچاتے رہے بعض ارکان نے جوتے اٹھا کر بھی احتجاج کیا۔

    اسحق ڈار نے اسپیکر سے درخواست کی کہ محض اپوزیشن لیڈر کو بات کرنے دی جائے وہ چند منٹ بات کریں گے بقیہ دیگر نہیں، ان کے بصد اصرار پر اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو مختصر خطاب کی اجازت دی۔

    اسحاق ڈار کا بجٹ خطاب


    وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت مسلسل اپنا پانچواں بجٹ پیش کررہی ہے‘ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرنا مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ جون 2013 میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، تونائی کا بحران شدید ترین تھا ‘ 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، اسحاق ڈار کا کہناتھا کہ آئندہ سال ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی معاشی اعشارئیے مثبت جارہے ہیں اور 2030 تک پاکستان  تیز ترین ترقی کرتے ہوئے جی 20 ممالک میں شامل ہوجائے گا۔

    ٹیکس وصولیاں

    وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجٹ کا کل حجم 5104 ارب روپے جس میں آمدنی کا تخمینہ 4ہزار 681 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4013 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، براہ راست ٹیکس کی مد میں 1595 ارب روپے اور ان ڈائریکٹ بلاواسطہ ٹیکسوں کا ہدف 2418 ارب روپے کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے۔

    معاشی کارکردگی کا جائزہ


    بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ معاشی ترقی کی رفتار گزشتہ 10 سال میں تیز ترین ہے‘ گزشتہ 4 سال کےدوران ٹیکس محصولات میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔

    مالی خسارہ  8فیصد سے کم ہو کر 4.2 فیصد رہ گیا ہے اور فی کس آمدنی 22 فیصد اضافے کے ساتھ 1629 ڈالر ہوگئی ہے۔

    مشنیری کی درآمدات میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ زرعی پیداوارمیں3 اعشاریہ 46 فیصد اضافہ ہواہے جبکہ نجی شعبےکوقرضے کی فراہمی میں 5 گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر سے زائد ہوگیا ہے جو کہ تاریخ ساز کامیابی ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر 21ارب ڈالر کے قریب  ہیں۔

    اسحاق ڈار نے اعتراف کیا کہ برآمدات میں7.8 فیصد کمی ہوئی برآمد کنندگا ن کے لیے مراعات دی گئی ہیں۔

    گزشتہ 4سال میں ٹیکس وصولوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا، اس سال ٹیکس وصولوں کا ہدف 3521 ارب روپے ہے‘ پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہے۔


     بجٹ 


    تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ
    سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کردیا گیا حکومت نے 10 فیصد ایڈ ہاک ریلیف الاؤنس تنخواہ میں ضم کردیا ہے جس سے بنیادی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ ہوگا۔

    اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کردیا گیا جب کہ گریڈ پانچ تک کے ملازمین کو ہاؤس رینٹ کی کٹوتی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔

    اسحق ڈار نے کہا کہ تنخواہوں میں اضافے سے مجموعی طور پر 125 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے، ڈیلی الاؤنس میں اضافے کی شرح 60 فیصد ہے جب کہ پاکستان بحریہ کے الاؤنسز میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

    دریں اثنا ایف سی کے جوانوں کو 8 ہزار روپے کا اضافی فکس الاؤنس دیا جائے گا۔

    کم از کم اجرت

    مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 14 ہزار روپے فکس تھی جس میں حکومت نے صرف ایک ہزار روپے کا اضافہ کیا ہے، کم از کم تنخواہ اب 15 ہزار روپے کردی گئی۔

     زراعت

    حکومت نے 507 ارب روپے کے نئے زرعی قرضے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ان قرضوں کا ہدف 700 ارب روپے تک رکھا گیا ہے۔

    ڈی اے پی کھاد پر فکس سیلز ٹیکس 400 سے کم کرکے 100 روپے کیا جارہا ہے،امونیا کھاد کی بوری 300 روپے سستی کردی گئی، زرعی مشنیری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔

    بجلی

    بجلی پر حکومت نے 118 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا، 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو دی گئی سبسڈی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    پولٹری

    پولٹری مشنیری پر ٹیکس 17 سے گھٹا کر 7 فیصد کردیا گیا جب کہ مرغی کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

    سگریٹ

    حکومت نے ایک بار پھر سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جس میں الیکٹرک سگریٹ بھی شامل ہیں، الیکٹرک سگریٹ کی درآمد پر بیس فیصد ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔

    سی پیک

    سی پیک منصوبے کے لیے 180 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    سمندر پار پاکستانی

    سمندرپارپاکستانیوں کی جانب سے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے لیےعلیحدہ سیکٹربنانےکااعلان کیا گیا۔

    شہدا کے لیے اسکیم

    شہداکے خاندانوں کےلئے فلاحی اسکیم متعارف کرانےفیصلہ کیاگیا ہے اورپاکستان بیت المال کےبجٹ کو4ارب سےبڑھاکر6ارب روپے کردیا گیا ہے۔

    بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام

    بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 121ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے ذریعے 55 لاکھ خاندانوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔

    فاٹا

    فاٹا کی ترقی کے لیے 26.9ارب روپے مختص کیے گئے

    داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ

    داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں

    گاڑیاں

    گاڑیوں کے لیے اعلان کیا گیا کہ 1300 سی سی گاڑیوں پر ٹیکس 30 ہزار سے کم  کرکے 25 ہزار روپے کیا جارہا ہے، گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کا اطلاق ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہوگا۔

    ٹیکس گزاروں کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن پرود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی تجویز دی گئی اس مد میں 850 سی سی گاڑیوں کی رجسٹریشن  پر ود ہولڈنگ ٹیکس 10 ہزار سے کم  کرکے 7500 ارب روپے ، ہزار سی سی گاڑیوں پر ٹیکس کم کر کے 15 ہزار روپے کر دیا گیا۔

    الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے 3 ماہ میں پیکج کا اعلان کیا جائے گا جب کہ ہائبرڈ  گاڑیوں پر ٹیکسوں کی رعایتی شرح برقراررکھی گئی ہے۔

    کپڑا

    حکومت نے بیرون ملک سے کپڑا منگانے پر 6 فیصد ٹیکس عائد کردیا۔

    الیکٹرونک اشیا

    الیکٹرنک اشیا پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

    آئی ٹی
    ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر میں یکساں شرح سے 9 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ ہوگی جب کہ آئی ٹی سروسز کی ایکسپورٹ پر سیلز ٹیکس معاف کیا جا رہا ہے۔

    نئی قائم ہونے والی آئی ٹی کمپنیز کو پہلے 3سال انکم ٹیکس سے چھوٹ دی جائےگی، اسلام آباد اور دیگر وفاقی علاقہ جات سے آئی ٹی سروسز کی برآمد پرسیلز ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔

    اسمارٹ فونز اور موبائل فون کالز پر ٹیکس میں کمی

    وزیر خزانہ نے موبائل کالز پرود ہولڈنگ ٹیکس 14 سے کم کرکے 12.5 فیصد کرنے کا اعلان کیا، موبائل کالز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 18 اعشاریہ 5 فیصد سے کم کرکے 17 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی

    اسمارٹ فونز پر کسٹم ڈیوٹی 1ہزار  سے کم کر کے 650 کی جا رہی ہے۔

    ریلوے

    اسحق ڈار نے بتایا کہ پشاور کراچی ریلوے لائن کے لیے چین کے ساتھ ایم او یو پر دستخط ہوگئے ہیں، محکمہ ریلوے کے لیے 42.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

    ہائر ایجوکیشن کمیشن

    ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔

    سیمنٹ

    سیمنٹ پر ڈیوٹی ایک روپیہ فی کلو گرام سے بڑھا کر 1.25 روپے فی کلو کردی گئی۔

    بے بی ڈائپرز

    حکومت نے بچوں کے ڈائپرز کی مانگ میں اضافے کے پیش نظر انہیں سستا کرنے کا اعلان کیا۔

    فش فیڈ

    مچھلیوں کی فیڈ پر عائد 20 فیس درآمد ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی۔

    پان اور چھالیہ

    پان اور چھالیہ پر عائد ٹیکس دس فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا اعلان کردیا گیا

    دفاع


    بجٹ2017-2018 میں دفاع کے لیے کل920 ارب روپےمختص کیے گئے ہیں جب کہ افواج پاکستان کا ایڈ ہاک الاونس  تنخواہ میں ضم کردیا گیا ہے۔

    دفاع کےشعبے میں گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

    بجٹ2016-2017 میں دفاع کے لیے کل860 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2015-2016 میں دفاع کے لیے کل780 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2014-2015 میں دفاع کے لیےکل700 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2013-2014 میں دفاع کے لیے کل627 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    توانائی


    اس بجٹ میں توانائی کے منصوبوں کی مد میں 404 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں

    توانائی کےشعبے میں گزشتہ چار برس میں مختص کی جانے والی رقم

    بجٹ2016-2017 میں توانائی کے لیے کل130 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2015-2016 میں توانائی کے لیے کل248 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2014-2015 میں توانائی کے لیےکل205 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2013-2014 میں توانائی کے لیے کل225 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    صحت


    بجٹ2017-2018 میں صحت کے مد میں 49 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں جس میں نیشنل ہیلتھ پروگرام کے لیے 10ارب روپے مختص ہوں گے۔

    صحت کےشعبے میں گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

    بجٹ2016-2017 میں صحت کے لیے کل22.4 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2015-2016 میں صحت کے لیے کل20 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2014-2015 میں صحت کے لیے26.8 ارب کروڑ روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2013-2014 میں صحت کے لیے کل21 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    اعلیٰ تعلیم


    رواں بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا

    اعلیٰ تعلیم کےشعبے میں گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

    بجٹ2016-2017 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کل79.5 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2015-2016 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کل71.5 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2014-2015 میں اعلیٰ تعلیم کے لیےکل63 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2013-2014 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کل57 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    ترقیاتی منصوبے


    بجٹ 2017-2018 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل 1001 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین ترقیاتی بجٹ ہے۔

    ترقیاتی منصوبوں کے لیے گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

    بجٹ2016-2017 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل800 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2015-2016 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل700ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2014-2015 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیےکل525ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

    بجٹ2013-2014 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل540 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔


    اقتصادی جائزہ برائے معاشی سال 2016-2017


    وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار گزشتہ روز مالی سال 17-2016 کا اقتصادی جائزہ پیش کیاتھا۔ان کے مطابق رواں مالی سال کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی۔

    وزیر خزانہ نے بتایا کہ عالمی بینک پاکستان کی غیر جانب دار اسٹڈی کرے گا۔ پاکستان کی شرح نمو 20 فیصد انڈر اسٹیٹ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار شرح نمو 5.28 فیصد کی سطح پر آئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلی بار پاکستان کی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر رہا۔ جی ڈی پی میں اضافے کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

    ان کے مطابق ملک میں گنے کی پیداوار 73.61 ملین ٹن رہی۔ کاٹن جیننگ کی ترقی 5.59 فیصد رہی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں کا 700 ارب کا ہدف جلد حاصل کر لیا جائے گا۔ زرعی قرضوں کی مد میں 473 ارب روپے جاری کیے گئے۔

    پڑھیں: مکمل اقتصادی جائزہ

    انہوں نے بتایا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ گزشتہ سال 2.5 ارب ڈالر تھا۔ اس سال جاری کھاتوں کا خسارہ 7.25 ارب ڈالر رہا۔ رواں سال کے اختتام تک جاری کھاتوں کا خسارہ 8.15 ارب ڈالر ہوجائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ حکومتی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 59.3 فیصد ہوگیا ہے۔ زیادہ تر قرضوں کی ادائیگیاں طویل مدت میں کرنی ہے۔ رواں سال ٹیکس ریونیو 13.1 فیصد رہا۔ اس سال مارچ تک بیرونی قرضوں کا حجم 41.9 ارب ڈالر ہے۔

    وزیر خزانہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا۔ نقصانات کا حجم تین سال میں 100 ارب روپے سالانہ رہا ہے۔

  • وفاقی کابینہ نے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی

    وفاقی کابینہ نے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی

    اسلام آباد: وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم نوز شریف کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے فنانس ڈویژن کی کارکردگی سے متعلق بریفنگ دی۔

    بعد ازاں وفاقی کابینہ نے بجٹ 18-2017 کی منظوری دے دی۔

    اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت کے لیے طریقہ کار کی منظوری دی گئی جبکہ مقدمات نمٹانے سے متعلق کابینہ کمیٹی کی سفارشات کی بھی توثیق کردی گئی۔

    شرکا نے پرائیوٹ پاور انفرا اسٹرکچر کے ایکٹ 2010 میں ترمیم کی منظوری دی، جبکہ توانائی کے بارے میں کابینہ کمیٹی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق بھی کی گئی۔

    تجاویز میں مجموعی ترقیاتی بجٹ 2113 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ سالانہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 1001 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1112 ارب روپے ہے جبکہ 168 ارب روپے غیر ملکی امداد سے حاصل کیے جائیں گے۔

    وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پارلیمنٹ میں بجٹ 18-2017 پیش کریں گے۔

    وفاقی کابینہ کے اجلاس سے قبل وزیر اعظم نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی بھی صدارت کی تھی جس میں حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے آخری بجٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ میں سبسڈی کے لیے کسانوں کا ڈی چوک پر احتجاج

    بجٹ میں سبسڈی کے لیے کسانوں کا ڈی چوک پر احتجاج

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بجٹ میں کسانوں کو سبسڈی دینے کے لیے پاکستان کسان اتحاد کی جانب سے ریلی نکالی گئی جس پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے، جس کے بعد ڈی چوک میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کسان اتحاد کی جانب سے منعقد کی گئی احتجاجی ریلی میں کسانوں نے مطالبہ کیا کہ بلوں اور کھاد میں سبسڈی دی جائے۔ کسانوں نے گو نواز گو کے نعرے بھی لگائے۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کی وزیراعظم سے ملاقات کروائی جائے بصورت دیگر وہ کسی دوسرے لائحہ عمل پر غور کریں گے۔

    احتجاج کے دوران مظاہرین نے پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال شروع کردیا۔

    جواباً کسانوں نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا جس سے 3 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔

    پتھراؤ کے بعد پولیس نے مظاہرین کی گرفتاری بھی شروع کردی۔ اب تک 20 سے 22 مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

    اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی شریک

    اس سے قبل اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ بھی کسان اتحاد کے مظاہرے میں پہنچے۔

    ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کے 70 فیصد لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے۔ کسان ہماری معیشت کو بہتر کرتے ہیں۔ غریب محنت کرتا ہے اور ہم ایوانوں میں بیٹھ کر مزے لیتے ہیں۔

    انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی جب بھی برسر اقتدار آئی غریبوں اور کسانوں کی حمایت کی۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ حکمرانوں آنکھیں کھولو، ورنہ اس ملک کی معیشت ختم ہو جائے گی۔ حکمران نہیں چاہتے کہ پاکستان کا غریب خوشحال ہو۔

    عمران خان کی کسانوں پر تشدد کی مذمت

    چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کسانوں پر تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حقوق کے لیے سڑکوں پر آنے والے کسانوں پر تشدد آمرانہ سوچ کا مظہر ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان شہریوں کو پر امن احتجاج کا پورا حق دیتا ہے۔ طاقت کے استعمال کے بجائے حکومت کسانوں کو ان کے حقوق دے۔

    آصف زرداری کی پارلیمنٹ میں احتجاج کی ہدایت

    سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کسانوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔

    انہوں نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے کسانوں پر تشدد کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کرنے کی ہدایت کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسان حق مانگ رہے ہیں رعایت نہیں۔ سبسڈی دینے سے ملک خوراک میں خود کفیل ہوگا۔

    رضا ہارون کی گرفتاریوں کی مذمت

    دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کے سیکریٹری جنرل رضا ہارون نے کسان رہنماؤں اور مظاہرین کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ جائز حقوق کے لیے احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے۔ معاملہ افہام و تفہیم اور مذاکرات سے حل ہوسکتا تھا۔

    انہوں نے مطالبہ کیا کہ گرفتار کسان رہنماؤں کی فوری رہائی کو ممکن بنایا جائے۔

    یاد رہے کہ بجٹ 18-2017 آج پیش کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت اس سال بھی معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟

    بجٹ کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟

    بجٹ وہ مالی منصوبہ بندی ہے جسے حکومت ٹیکس کی مد میں حاصل رقوم اور حکومتی اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سال کے لیے مرتب کرتی ہے۔

    پاکستان میں حکومتی بجٹ وفاقی وزیر خزانہ ہر سال جون میں پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہیں جس پر اراکین اسمبلی بھی تجاویز پیش کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے اسمبلی سے منظور کرایا جاتا ہے۔


    بجٹ تین طرح کے ہوتے ہیں


    1-یونین بجٹ

    وہ بجٹ جو پورے ملک کے لیے ہو اور وفاقی یا مرکزی حکومت اسے پیش کرے یونین بجٹ کہلاتا ہے تاہم ایسے ممالک میں صوبائی بجٹ نہیں ہوتے۔

    2-ریاستی یا صوبائی بجٹ

    کئی ممالک مختلف ریاستوں پر مشتمل ہوتے ہیں ایسے ممالک میں ہر ریاست اپنا علیحدہ بجٹ پیش کرنے کا حق رکھتی ہے ایسے بجٹ کو ریاستی بجٹ کہا جاتا ہے۔

    3-پروجیکٹ اور ضمنی بجٹ

    اس قسم کے بجٹ کسی خاص پروجیکٹ یا منصوبے کے لیے بنائے جاتے ہیں اس میں اندورنی سے زیادہ بیرونی ذارئع آمدن پر انحصار کیا جاتا ہے


    بجٹ کے بنیادی عناصر


    بجٹ کے بنیادی عناصر محصولات اور حکومتی اخراجات ہیں اور انہی دونوں کے اعداد و شمار کو مد نظررکھ کربجٹ ترتیب دیا جاتا ہے لہذا بے حد ضروری ہے کہ محصولات اور اخراجات کے درست اعداد و شمار دستیاب ہوں۔

    حکومت اپنے اخراجات اور ترقیاتی منصوبے محصولات اور زرمبادلہ سے حاصل رقم سے پورا کرتی ہے اور اگر محصولات اور حکومتی آمدنی اخراجات سے کم ہوں تو کارِ مملکت چلانے کے لیے قرضہ لیا جاتا ہے

    ٹیکس ، زر مبادلہ اور دیگر ذرائع آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم سے حکومتی اخراجات اور ترقیاتی پروجیکٹس مکمل کیے جاتے ہیں اس لیے ان دونوں عناصر کی بنیاد پر بجٹ کی تین اقسام سامنے آتی ہیں


    بجٹ کی اقسام


    متوازن بجٹ

    اگر محصولات سے حاصل رقوم اور اخراجات برابر ہوں تو ایسے بجٹ کو متوازن کہا جاتا ہے یعنی جتنی رقم ریاست کو ٹیکسوں کی صورت میں ملی اتنی ہی اخراجات اور دیگر میں خرچ ہوجاتی ہیں اورملک کو چلانے کے لیے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔

    خسارے کا بجٹ

    اگرریاست اپنی آمدنی سے اخراجات مکمل نہ کر پائے تو ایسے میں پیش کیا گیا بجٹ خسارے کا بجٹ کہلاتا ہے جس میں ملک کے معمولات چلانے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے یا ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی ہے اور یا پھرغیرترقیاتی بجٹ پرقابو پایا جاتا ہے۔

    سرپلس بجٹ

    ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب حکومت کی آمدنی اخراجات سے زیادہ ہو جائے تو ایسی نادر ونایاب صورت حال میں پیش کیے گئے بجٹ کو سرپلس بجٹ کہا جاتا ہے تاہم ایسی صورت حال خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔


    حکومتی آمدن کے ذرائع


    حکومت کی آمدنی کاسب سے بڑا ذریعہ ٹیکس ہے جس کے لیے حکومت اپنی عوام کو مختلف سہولیات فراہم کرتی ہیں اور اس پر ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے جب کہ زرمبادلہ بھی ریونیو میں اپنا حصہ ڈالتا ہے

    ٹیکس کی اقسام

    حکومت اپنا ریونیو بڑھانے کے لیے مختلف قسم کے ٹیکس لاگو کرتی ہے جو کہ درج ذیل ہیں

    کیپیٹل ٹیکس

    یہ ٹیکس عمومی طور پر سرمایہ پر لگایا جاتا ہے جیسے اسٹاک ایکسچینج، بانڈز، قیمتی و نادر اشیاء کی خرید و فروخت اور بلاواسطہ پراپرٹی پر بھی عائد ہوتا ہے.

    کارپوریٹ ٹیکس

    یہ ٹیکس کسی فرد پر نہیں بلکہ کسی کمپنی، گروپ یا ادارے پر عائد کیا جاتا ہے جو کمپنی کے مجموعی منافع پر عائد ہوتا ہے

    آمدنی ٹیکس

    یہ ٹیکس کسی فرد کی سالانہ آمدنی پر عائد کیا جاتا ہے جو عمومی طور پر تنخواہ دار طبقے یا چھوٹے کاروباری حضرات سے لیا جاتا ہے اور اس ٹیکس کا نفاذ مخصوص آمدنی پر ہوتا ہے اس سے کم آمدنی رکھنے والے مستثنیٰ ہوتے ہیں

    ٹیرف ٹیکس

    یہ بھی ٹیکس ہی کی ایک صورت ہے جو بین الاقوامی تجارت کرنے والوں سے لیا جاتا ہے تاہم اسے ٹیرف کا نام دیا جاتا ہے جو کہ حکومتی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے

    جنرل سیلز ٹیکس

    روزمرہ زندگی کے استعمال میں آنے والی اشیاء پر جنرل ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تاہم کمپنیاں یہ ٹیکس صارف سے وصول کرتے ہیں جس کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے

    ٹول ٹیکس

    یہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے استعمال ہونے والی قومی شاہراہ پر وصول کیا جاتا ہے عام شہریوں کی بہ نسبت تجاری اشیاء لے جانے والے ذرائع نقل وحمل پر زیادہ ٹیکس عائد ہوتا ہے

    سرچارج

    کبھی کبھی حکومت کسی چیز میں پہلے سے عائد دیگر ٹیکس کے باوجود ایک نیا ٹیکس بھی شامل کر دیتی ہے اسے سرچارج ٹیکس کہا جاتا ہے یہ عمومی طور پر اس صورت میں لگایا جاتا ہے جب حکومت کو شدید خسارے کا سامنا ہو

    ویلیو ایڈٹ ٹیکس

    پر تعیش اشیاء یا خدمات پر لگائے جانے والا ٹیکس ویلیو ایڈ ٹیکس کہلاتا ہے یعنی اضافہ شدہ مالیت پر مبنی محصول جو اس مقصد سے لگایا جاتا ہے کہ اس کا بار بالآخر صارفین کو برداشت کرنا پڑے۔


    بجٹ بناتے ہوئے ان چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے


    یقینی طور پرپہلی ترجیح درست اعداد و شمار کی دستیابی ہے جس کے ایک علیحدہ ادارہ شماریات قائم ہے جو حکومت کی معاونت کرتا ہے جب کہ نادرا کے ریکارڈ سے بھی مدد لی جاتی ہے تاکہ درست تخمینہ لگایا جا سکے۔

    افراط زر (Inflation) زری معاشیات کی اہم اصطلاح ہے۔ تعریف کے مطابق کسی معیشت میں موجود اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہتے ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے تاہم ہر معیشت میں کم و بیش افراط زر کی موجودگی قدرتی امر ہے۔ یہ اوسطاً 5 سے 6 فیصد سالانہ رہتا ہے تاہم دیوالیہ معیشتوں میں افراط زر ہزار فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے اسے معقول حدود میں رکھنا مرکزی بینک کا بنیادی وظیفہ ہے۔

    جی ڈی پی

    جی ڈی پی دراصل گروس ڈومیسٹک پراڈکٹس کا مخفف ہے جس سے ملک میں تیار کردہ اشیاء اور خدمات کے عوض ایک معین مدت میں حاصل ہونے والی آمدنی کا پتا لگایا جاتا ہے جو کہ پاکستان میں نہایت کم ہے جس کے باعث پاکستان کا نمبر 140 واں ہے

    سبسڈی

    کئی ادارے اور شعبے زبوں حالی کا شکار ہوتے ہیں جنہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت کچھ امدادی رقم مختص کرتی ہے اسے سبسڈی کہا جاتا ہے

    سرکلر ڈیٹ

    رقم یا خدمات ایک سائیکل کے ذریعے ایک شعبے سے دوسرے شعبے یا ایک صارف سے دوسرے صارف تک پہنچتی ہے یہ گردشی رقم یا خدمات سائیکل کو پورا کرتے ہوئے اپنے پہلے مقام یعنی حکومت تک نہ پہنچ پائے تو اسے سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضے کہا جاتا ہے یہ وہ رقم ہوتی ہے جو نظام کا حصہ تو ہوتی ہے لیکن حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہوتی


    بجٹ 2017-18


    کل اگلے مالی سال کے لیے بجٹ پیش کیا جا رہا ہے جو اس حکومت کا آخری بجٹ ہوگا جس کے باعث عوام کا گمان ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی شرح میں کمی ، مہنگائی پر قابو پانے اور تنخواہوں میں اضافہ کرے گی تاکہ بھوک پیاس اور بجلی کو ترستی عوام کو کچھ ریلیف مل سکے

  • بجٹ 18-2017: مختلف عوامی مطالبات سامنے آگئے

    بجٹ 18-2017: مختلف عوامی مطالبات سامنے آگئے

    اسلام آباد: وفاقی حکومت کل آئندہ مالی سال 18- 2017 کے لیے بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، عوام  بجٹ میں حکومت سے کیا چاہتے ہیں اس ضمن میں اے آر وائی نیوز نے لوگوں کی آراء حاصل کی ہیں۔

    مسلم لیگ ن کی دورِ حکومت کے پانچویں اور آخری بجٹ پر عوام نے حکومت سے جہاں مختلف مطالبے کیے وہیں مفت تعلیم ، لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے اور نوکریوں کے نئے مواقع فراہم کرنے پر زور دیا۔

    عظیم خان تنولی نے کہا کہ بجلی کہ منصوبے بروقت پایہ تکمیل کو پہنچا دیں اور غریب عوام کے لیے  200 یونٹ تک سبسڈی دیں, پانی کی قلت تقریبا ہر شہر میں ہے تو پانی کہ منصوبوں کےلیے ہنگامی بنیادوں پر وفاق اور صوبے فنڈ مختص کرکے ان منصوبوں کو حقیقت کا روپ دیں۔

    شہری حق نواز بابر نے کہا کہ ملک سے رشوت، لاقانونیت اور پولیس کلچر ختم ہونا چاہیے تاکہ ہر آدمی کو انصاف جلد از جلد مل سکے اور جو غلط کام کرے یا قانون کی خلاف ورزی کرے تو اسے غریب امیر کے فرق سے ہٹ کر سزا دی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ اسکول کالج اور اسپتالوں کا عملہ سرکاری ڈیوٹی اوقات میں پرائیوٹ جاب کرتا ہے اور حکومت سے پوری تنخواہ لیتا ہے، ایسے لوگوں کو پابند کیا جائے تاکہ تعلیمی ادارے اور اسپتالوں کا نظام بہتر ہوسکے اور چیزوں میں ملاوٹ کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔

    حق نواز نے مشورہ دیا کہ محکمہ لینڈ کو درست کیا جائے کیونکہ افسران کاشت کاروں سے ہر کام کی رشوت طلب کرتے ہیں، سرکاری محکموں میں ہونے والی کرپشن ختم ہوگی تو مہنگائی کو قابو کیا جاسکے گا، چیزیں ذخیرہ کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے اور سگریٹ سمیت دیگر مضر صحت اشیا پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ نوجوانوں میں سے نشے کی لت کو دور کیا جاسکتے۔

    روحین جان نامی صارف کا کہنا ہے کہ گریجویشن کرنے والے طلبہ و طالبات کا ماہانہ وظیفہ اُن کی صلاحیتوں کی بنیاد پر مقرر کیا جائے تاکہ نوجوان بیرون ملک جانے کے بجائے ملک کی خدمت کریں، غربت کے باعث ہزاروں خودکشی کرتے ہیں افراد بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ایسے افراد کو سرکاری ملازمت دی جائے۔

    ناصر اعوان کا کہنا تھا کہ مزدور کی کم از کم اُجرت 20 ہزار روپے مقرر کی جائے، حکومت نے گزشتہ بجٹ میں پرائیوٹ انڈسٹریز میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہوں میں 1 ہزار روپے بڑھانے کا اعلان کیا تھا تاہم اُس پر بھی عمل نہیں ہوسکا جبکہ وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔

    یوسف رضا کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں حکومت اراکین اسمبلی کی تنخواہوں، ہاؤسنگ اسکیمز کے لیے منظور ہونے والے پیسوں کو عوامی ریلیف کے لیے استعمال کرے اور عوام کو 15 فیصد تک ریلیف دے۔

    ملک عامر نامی صارف نے کہا کہ حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے اقدامات کرے تاکہ پاکستان کے وہ طالب علم جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سافٹ وئیر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے وہ ڈگری حاصل کریں اور عالمی سطح پر دیگر ممالک کے لوگوں کا مقابلہ کریں۔

    نفیس محمود کا کہنا تھا کہ ہر سال تنخواہوں میں اضافہ فیصد کے حساب سے ہوتا ہے، اس بار تنخواہوں میں اضافہ  بجٹ کے حساب سے کیا جائے، جتنی مہنگائی ہو اُسی حساب سے تنخواہوں میں بھی اضافہ لازم ہے۔

    آصف رضا نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ سرکاری ملازمین کی طرح نجی ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافے کا اعلان کرے اور اُس پر عمل درآمد بھی کروائے۔

    اشتیاق احمد خان نے اے آر وائی کی کاوش کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت مہنگائی کے حساب سے تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کرے۔

    بلال جتوئی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نوجوانوں کو پیلی ٹیکسی، قرضہ اسکیم کی نہیں بلکہ نوکریوں کی ضرورت ہے، اس وقت ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے جنہیں نوکریاں دینے کی ضرورت ہے۔

    احمد علی نے کہا کہ کنٹریکٹ اور ٹھیکے کے نظام کو ختم کیا جائے اور عوام کو مستقل ملازمتیں فراہم کی جائیں۔

    محمد اشتیاق نے کہا کہ حکومت فوری طور پر ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرے۔

    حافظ طلال احمد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بجٹ میں تعلیم کو بالکل مفت کیا جائے۔

    ارج مانو نامی صارف کا کہنا تھاکہ حکومت پراپرٹی لین دین پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہ کرے۔


    صارفین کی جانب سے جہاں سنجیدہ تجاویز دی گئیں وہی کچھ لوگوں نے غیر سنجیدہ کمنٹس بھی کیے۔


    ایک صارف نے کہا کہ ہم نے حکومت کو معاف کردیا اب وہ ہمیں معاف کرے اور وزیراعظم استعفاء دیں۔

    الحاج ذوالفقار علی نامی صارف نے کہا کہ حکمران قانون پاس کریں کہ جو پاکستانی 10 ہزار تنخواہ پہ کام کرے اسے گولی مار دیں کیونکہ وہ ادھ موا ھوتاھے، بہت ملیں گے اور پھر ان پیسوں سے۔

    اسحاق گجر نے کہا کہ حکومت عوام سے جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور سچ بولے۔

     


    نوٹ: فیس بک پوسٹ پر سیکڑوں صارفین نے کمنٹس کیے تاہم ادارے نے قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ معیار اور تہذیب و اخلاق کے دائرے میں کیے گئے کمنٹس کو اسٹوری میں شامل کیا ہے، عوامی سنجیدگی اور اُن کی آراء کو حکمرانوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔

  • رواں مالی سال شرح نمو 5.28 فیصد رہی: اقتصادی جائزہ پیش

    رواں مالی سال شرح نمو 5.28 فیصد رہی: اقتصادی جائزہ پیش

    اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 17-2016 کا اقتصادی جائزہ پیش کردیا۔ اسحٰق ڈار کے مطابق رواں مالی سال شرح نمو 5.28 فیصد رہی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 17-2016 کا اقتصادی جائزہ پیش کردیا۔ حکومت ایک بار پھر شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی جو 5.7 تھا۔

    اسحٰق ڈار کے مطابق رواں مالی سال کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی۔

    وزیر خزانہ نے بتایا کہ عالمی بینک پاکستان کی غیر جانب دار اسٹڈی کرے گا۔ پاکستان کی شرح نمو 20 فیصد انڈر اسٹیٹ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار شرح نمو 5.28 فیصد کی سطح پر آئی ہے۔

    مزید پڑھیں: 4 سالوں کے بجٹ میں عوام کو کیا ملا؟

    انہوں نے کہا کہ پہلی بار پاکستان کی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر رہا۔ جی ڈی پی میں اضافے کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

    اسحٰق ڈار کے مطابق بڑی صنعتوں کی ترقی میں بہتری کا رجحان دیکھا گیا اور شرح 5.06 رہی۔ گیس ڈسٹری بیوشن، بجلی کی پیداوار میں ترقی کی شرح میں 3.4 فیصد اضافہ ہوا۔

    وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ سال زراعت کی شرح نمو منفی جو 0.25 فیصد رہی۔

    انہوں نے کہا کہ آئندہ سال کے لیے شرح نمو کا ہدف 6 فیصد سے اوپر رکھا ہے۔ اہم فصلوں کی ترقی کی شرح 4.1 فیصد رہی۔ گندم کی پیداوار 25.75 ملین ٹن رہی۔ مکئی کی پیداوار 6.13 ملین ٹن رہی۔ کپاس کی پیداوار 10.7 ملین بیلز رہی۔

    ان کے مطابق ملک میں گنے کی پیداوار 73.61 ملین ٹن رہی۔ کاٹن جیننگ کی ترقی 5.59 فیصد رہی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں کا 700 ارب کا ہدف جلد حاصل کر لیا جائے گا۔ زرعی قرضوں کی مد میں 473 ارب روپے جاری کیے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ پیکچز دینے کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں ترقی ہوئی۔

    مزید پڑھیں: بجٹ 18-2017، صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    وزیر خزانہ نے کہا کہ ایکسپورٹ سیکٹر کو مراعات دی جاتی رہیں گی۔ رواں برس شرح سود 5.75 فیصد ہے۔ رواں سال برآمدات کا حجم 45 ارب ڈالر تک ہوجائے گا۔ 40 فیصد درآمدات پلانٹ اور مشینری کی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ گزشتہ سال 2.5 ارب ڈالر تھا۔ اس سال جاری کھاتوں کا خسارہ 7.25 ارب ڈالر رہا۔ رواں سال کے اختتام تک جاری کھاتوں کا خسارہ 8.15 ارب ڈالر ہوجائے گا۔

    وزیر خزانہ کے مطابق مئی تک اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 16.15 ارب ڈالرز ہیں۔ جون میں 2 بانڈز کی ایک ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگی کرنی ہے۔

    اسحٰق ڈار نے بتایا کہ افراط زر کی شرح 4.6 فیصد رہی۔ سروسز سیکٹر کی شرح نمو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ 5 سال کے اختتام پر ٹیکس ریونیو دگنا ہوجائیں گے۔

    رواں سال مالی خسارہ 4.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ بینکنگ کے شعبہ میں 16.2 فیصد اضافہ ہوا۔ ٹیوب ویل کی بجلی کا فکسڈ ریٹ دیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومتی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 59.3 فیصد ہوگیا ہے۔ زیادہ تر قرضوں کی ادائیگیاں طویل مدت میں کرنی ہے۔ رواں سال ٹیکس ریونیو 13.1 فیصد رہا۔ اس سال مارچ تک بیرونی قرضوں کا حجم 41.9 ارب ڈالر ہے۔

    مزید پڑھیں: رواں سال 950 ارب کا دفاعی بجٹ

    وزیر خزانہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا۔ نقصانات کا حجم تین سال میں 100 ارب روپے سالانہ رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مالی سال18-2017 : 950ارب کا دفاعی بجٹ مختص کرنے کا امکان

    مالی سال18-2017 : 950ارب کا دفاعی بجٹ مختص کرنے کا امکان

    اسلام آباد : آئندہ مالی سال کا بجٹ کل پیش کیا جائے گا، جس میں دفاع کیلئے 950 ارب تک مختص کرنے کا امکان ہے۔

    زرائع کے مطابق اگلے مالی سال میں دفاعی بجٹ کیلئے 950ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے، آپریشن رد الفساد اور آپریشنل اپ گریڈنگ کے تناظر میں اضافہ کیا جارہا ہے، نئے مالی سال میں دفاعی بجٹ میں 10سے 12فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

    وزارت دفاع نے دفاعی بجٹ میں ایک سو چالیس ارب روپے اضافے کا مطالبہ کیا تھا، رواں مالی سال کا دفاع کیلئے 860 ارب روپے مختص کئے گئے تھے، رواں مالی سال بھی دفاعی اخراجات مختص رقم سے40ارب زائد رہنے کا امکان ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال دفاع کی مد میں اخراجات 9سو ارب روپے تک پہنچ جائیں گے ، نئے مالی سال میں 450 ارب روپے فراہم کئے جانے کاامکان ہے، پاک فوج کو رواں مالی سال کے دوران 409 ارب روپے ملے تھے۔

    نئے مالی سال میں پاک فضائیہ کو 200ارب روپے ملنے کا امکان ہے جبکہ پاک فضایہ کیلئے رواں مالی سال 182 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔

    پاک بحریہ نے نئے مالی سال میں 100ارب روپے کا مطالبہ کیا جبکہ پاک بحریہ کو رواں مالی سال 93 ارب روپے ملے تھے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • وفاقی بجٹ: چار سالوں میں عوام کو کیا ملا

    وفاقی بجٹ: چار سالوں میں عوام کو کیا ملا

    مسلم لیگ ن کی حکومت اپنا پانچواں اور آخری بجٹ پیش کرنے جارہی ہے‘ وفاقی وزیرِ خزانہ ہر بجٹ میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں اور آخر میں اعلان کرتے ہیں کہ یہ بجٹ خسارے کا بجٹ ہے۔

    امید کی جارہی ہے کہ آئندہ سال الیکشن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن اس سال ایک متوازن اور عوام دوست بجٹ پیش کرے گی لیکن پچھلے چار سالوں میں پیش کیے جانے والے معاشی میزانیے کوئی مثبت معاشی اعداد وشمار پیش نہیں کررہے۔

    معاشی سال 2017 -2018 کا بجٹ جمعے کی شام پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا‘ اس سے قبل ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ گزشتہ چار سالوں میں وفاقی حکومت نے پاکستان میں دفاع‘ تعلیم ‘ صحت‘ توانائی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے کتنی رقم مختص کی تھی۔

    ان اعداد و شمار سے آپ کو آئندہ مالی سال کے بجٹ کا اندازہ لگانے میں آسانی پیش آئے گی اور بجٹ کے آنے کےبعد آپ از خود جائزہ لے سکیں گے کہ پانچ سال میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے ملک کی معیشت کیسے چلائی۔


    بجٹ 2016 – 2017


    مالی سال 2016-2017 کےلیے حکومت کی جانب سے43.9 کھرب روپے کا مالیاتی بجٹ پیش کیا۔

    دفاع کے لیے 860ارب 20کروڑ روپے رکھےگئے
    اعلیٰ تعلیم کےلیے79ارب 50کروڑ روپے مختص کیے گئے۔


    صحت کے منصوبوں کے لیے 22ارب 40کروڑ روپے رکھے گئے۔
    توانائی کے شعبے کے لیے وفاقی بجٹ میں 130ارب روپے مختص کیے گئے۔
    بجٹ میں وفاقی ملازمین کی پنشنزمیں 10فیصد اضافہ
    ترقیاتی پروگرام کا حجم 800ارب روپے مختص کیا گیا۔


    بجٹ 2015 – 2016


    مالی سال 2015-2016 کے لیےوفاقی حکومت کی جانب سے 43کھرب روپے کا بجٹ پیش کیاگیا۔
    دفاع کے اہم شعبے کے لیے بجٹ میں 780ارب روپے مختص کیے گئے۔
    بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 16ارب 42کروڑ روپے رکھے گئے۔
    تعلیم کےلیے71ارب 5کروڑ روپے رکھے گئے۔


    وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لیے 700ارب روپے مختص کیے گئے ۔
    سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں ساڑھے 7فیصداضافہ ہوا۔
    میڈیکل الاؤنس میں25فیصد اضافہ کیاگیا۔


    بجٹ 2014 – 2015


    مالی سال 2014-2015 کے لیےوفاقی حکومت کی جانب سے 39کھرب اور 45ارب روپے کا بجٹ پیش کیاگیا۔

    دفاع کےشعبے کے لیے 700ارب روپے رکھے گئے۔
    ترقیاتی کاموں کے لیے 525ارب روپے مختص کیے گئے۔
    بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے64ارب


    صحت کے شعبے میں ترقی کے لیے 10ارب 17کروڑ روپے رکھے۔
    سرکاری ملازمین کی کم ازکم پنشن کو 5000سے بڑھاکر6000روپےکردی گئی۔
    توانائی کے شعبے کے منصوبوں کے لیے دو سو پانچ ارب روپے رکھے گئے۔


    بجٹ 2013 – 2014


    نوازشریف حکومت کی تشکیل کے سات دن کے اندر اندر پیش کیا گیا 34کھرب 78ارب کا پہلا بجٹ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پیش کیاتھا۔

    دفاع کے لیے 627ارب روپے مختص کیے گیے۔
    جنرل سیلز ٹیکس میں 16سے بڑھا کر 17فیصد کردیا۔
    پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت 540ارب روپےمختص
    توانائی کے لیے225ارب روپے مختص کیے۔


    اعلیٰ تعلیم کےلیے59ارب روپے مختص کیے ہیں۔
    صحت کے لیے 9ارب 86کروڑ 30لاکھ روپے۔
    سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا۔
    تعلیم وریلوے کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے31ارب روپے رکھے گئے۔
    ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے پانچ ارب روپے رکھے۔
    پنشن میں 10فیصداضافہ کیا گیا۔


    بجٹ 2016 – 2017


    مالی سال 2016-2017 کےلیے حکومت کی جانب سے43.9 کھرب روپے کا مالیاتی بجٹ پیش کیا۔

    دفاع کے لیے 860ارب 20کروڑ روپے رکھےگئے
    اعلیٰ تعلیم کےلیے79ارب 50کروڑ روپے مختص کیے گئے۔


    صحت کے منصوبوں کے لیے 22ارب 40کروڑ روپے رکھے گئے۔
    توانائی کے شعبے کے لیے وفاقی بجٹ میں 130ارب روپے مختص کیے گئے۔
    بجٹ میں وفاقی ملازمین کی پنشنزمیں 10فیصد اضافہ
    ترقیاتی پروگرام کا حجم 800ارب روپے مختص کیا گیا۔

    ان اعداد وشمار کو دیکھتے ہوئے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ تمام شعبے جو کہ براہ راست عوام کو سہولیات فراہم کرنے سے متعلق ہیں ان میں حکومت کی کتنی دلچسپی ہے اور آئندہ بجٹ میں حکومت پچھلے اقتصادی میزانیوں کی نسبت عوام کی بہتری کے لیے کس حد تک کمربستہ ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • بجٹ 18-2017 ، سندھ حکومت کا 42 ہزار ملازمتیں دینے کا فیصلہ

    بجٹ 18-2017 ، سندھ حکومت کا 42 ہزار ملازمتیں دینے کا فیصلہ

    کراچی: سندھ حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں 42 ہزار ملازمتیں دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان بجٹ پیش کرنے کے دوران کیا جائے گا۔

    نمائندہ اے آر وائی کے مطابق سندھ حکومت نے صوبے کے لیے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں شروع کردیں، عوام کو ریلیف دینے کے لیے مختلف سمریاں وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ چکی ہیں۔

    وزیر اعلیٰ سندھ نے صحت، تعلیم اور پولیس کے شعبوں میں ملازمتیں دینے کی منظوری دے دی ہے تاہم اس کا باقاعدہ اعلان بجٹ پیش کرنے کے دوران کیا جائے گا۔

    پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان نے شیڈو بجٹ پیش کردیا

    یاد رہے 26 مئی کو وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال  18-2017 کا بجٹ پیش کیا جائے گا، مسلم لیگ ن کی حکومت کا یہ آخری بجٹ ہوگا۔

    قبل ازیں پیپلزپارٹی اور متحدہ پاکستان نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے شیڈو بجٹ پیش کیا، ایم کیو ایم پاکستان نے بجٹ کا تیس فیصد ترقیاتی کاموں میں صرف کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ تعلیم اور صحت کا بجٹ بھی بڑھا نے کی تجویز دی۔

  • ایم کیو ایم پاکستان نے شیڈو بجٹ پیش کردیا

    ایم کیو ایم پاکستان نے شیڈو بجٹ پیش کردیا

    اسلام آباد: وفاقی بجٹ کی آمد سے پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے بھی شیڈو بجٹ پیش کردیا، ایم کیو ایم پاکستان نے بجٹ کا تیس فیصد ترقیاتی کاموں میں صرف کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ تعلیم اور صحت کا بجٹ بھی بڑھا نے کی تجویز دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سربراہ ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار نے شیڈو بجٹ پیش کردیا، ایم کیو ایم پاکستان کا شیڈو بجٹ بجٹ کا 30 فیصد ترقیاتی کاموں پر صرف کرنے کی تجویز، امیروں پر ٹیکس بڑھانے اور تعلیم اور صحت کیلئے زیادہ فنڈز رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    فاروق ستار کا کہنا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس ختم کرنے کا بجٹ پیش کیاہے، ٹیکس چوری کو روکنا ہے، سیلز ٹیکس 9 فی صد پر لایا گیا، غریب کسان پر نہیں، وڈیروں اورجاگیر داروں پرانکم ٹیکس لگایا جائے۔

    سربراہ ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ سالانہ 10لاکھ روپے کی زرعی آمدن پر ٹیکس لگایا گیا ہے، پٹرولیم لیوی، بجلی، گیس پر سیلز ٹیکس بھتہ ہے اس کو ختم کیا جائے، ٹیکس دینے کے بعد بھی دیہی علاقوں میں18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہے۔

    فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہم نے قرض لینے کو آدھا کیا جبکہ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ حب میں کوئلہ کے پلانٹ کو ایم کیوایم مسترد کرتی ہے ،پلانٹ لگا تو کراچی 5 سال بعد رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔