Tag: Budget 2017-18

  • بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ آیا ہی چاہتا ہے اور ہر بار امیدیں پوری نہ ہونے کے باوجود عوام نے ایک بار پھر سے امیدیں لگا لی ہیں کہ شاید اس بار بجٹ میں عوام کا بھی خیال رکھا جائے۔

    لوگوں کی مسیحائی کا مقدس فریضہ انجام دینے والے لاکھوں ڈاکٹرز بھی پر امید ہیں کہ اس بار بجٹ میں نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ شعبہ طب کی بہتری پر بھی توجہ دی جائے گی اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی طب میں کی جانے والی نئی ایجادات اور ٹیکنالوجیز کو متعارف کروایا جائے گا تاکہ معمولی بیماریوں کے ہاتھوں مرنے والے لاکھوں افراد کی جانیں بچائی جاسکیں۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ایسوسی ایشن طویل عرصے سے کوشش کر رہی ہے کہ بجٹ میں صحت کے لیے اعشاریوں پر مبنی بجٹ کے بجائے کل بجٹ کا 6 فیصد حصہ مختص کیا جائے۔

    انہوں نے کہا، ’لوگوں کی صحت، معاشروں اور ملکوں کی ترقی کی ضامن ہے۔ اگر لوگ صحت مند نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے‘؟

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ صحت جیسے اہم شعبے کے لیے بجٹ کا معقول حصہ مختص کرنا، اور اس رقم کو دانش مندی سے استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔

    انہوں نے اچانک پھیلنے والے وبائی امراض جیسے ڈینگی اور چکن گونیا کو صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے اقدامات پر زور دیا۔ ’ہم نے کئی سال پہلے خبردار کردیا تھا کہ ڈینگی کا مرض پاکستان میں پھیلے گا، تاہم اس وقت اس بات پر توجہ نہیں دی گئی‘۔

    ڈاکٹر قیصر نے دل دہلا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں زیکا وائرس بھی موجود ہے۔ یہ اچانک ایسے ہی ابھر کر سامنے آئے گا جیسے ڈینگی یا چکن گونیا سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے ان جان لیوا امراض کے درست طریقے سے سدباب کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا۔ ’اب جبکہ چکن گونیا پھیل گیا ہے، تو خطیر رقم خرچ کر کے اس کی کٹ منگوائی جارہی ہے۔ جبکہ مرض کی جڑ پر کسی کی توجہ نہیں‘۔

    ڈاکٹر قیصر کے مطابق ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس مچھر کی ایک ہی قسم سے ہوتے ہیں تو بجائے ان تینوں امراض پر بے تحاشہ رقم خرچ کرنے کے، اگر اس مچھر کے خاتمے پر توجہ دی جائے تو یہ تینوں خطرناک امراض خود ہی ختم ہوجائیں گے۔

    ڈاکٹرز کو سہولیات کی فراہمی

    اقوام متحدہ کی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ طب سے وابستہ افراد کو سہولیات کی فراہمی اور مراعات میں اضافہ سب سے زیادہ ضروری ہے اور ہمارے دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ یہی ہے۔

    انہوں نے کہا، ’ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تنخواہیں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے ڈاکٹرز کے برابر ہونی چاہئیں‘۔

    ان کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں لیبارٹریز اور مختلف امراض کے تشخیص کی مشینوں کی بھی ازحد ضرورت ہے۔ ’کئی امراض کو غلط تشخیص کیا جاتا ہے جس کے باعث بعض اوقات معمولی مرض بھی، جس کا بآسانی علاج کیا جاسکتا ہے، بڑھ کر جان لیوا صورت اختیار کرلیتا ہے‘۔

    انہوں نے ایک اور امر کی طرف اشارہ کیا کہ چھوٹے علاقوں، قصبوں اور گاؤں دیہاتوں میں صرف ڈسپنسریز بنانا کافی نہیں جہاں معمولی سر درد اور بخار کی ادویات موجود ہوں۔ بلکہ مختلف امراض کی باقاعدہ اسپیشلائزڈ ویکسین اور ادویات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

    خواتین اور بچے مختلف امراض کا آسان ہدف

    ڈاکٹر سارہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کی صحت کسی بھی ملک کی اول ترجیح ہونی چاہیئے کیونکہ یہ دونوں صحت مند ہوں گے تو ہی نئی نسل معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے گی، ’لیکن ہمارے یہاں صورتحال الٹ ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں بچوں کی پیدائش میں خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن پر دانش مندانہ حکمت عملی اپنا کر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ان کے مطابق گاؤں دیہاتوں میں سرگرم عمل دائیوں، مڈ وائفس اور نرسز کی درست تربیت ضروری ہے تاکہ ان کے ہاتھوں کسی کی زندگی برباد نہ ہو۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق طب کے شعبے میں خواتین اور بچوں کے لیے مندرجہ ذیل خصوصی اصلاحات کی جانی بے حد ضروری ہیں۔

    حمل شروع ہونے سے لے کر بچے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد تک خواتین کے لیے خصوصی طبی سہولیات کی فراہمی اور دیکھ بھال۔

    نومولود بچوں کی تربیت یافتہ نرسز کے ہاتھوں دیکھ بھال۔

    ڈیلیوری کے لیے آسان اور کم قیمت پیکجز۔

    سرکاری اسپتالوں میں ماہر اطفال کی تعیناتی۔

    پیدائش سے قبل ماں کے لیے اور پیدائش کے بعد نومولود بچے کے لیے ضروری تمام ویکسین اور ٹیکوں کی دستیابی۔

    دور دراز گاؤں دیہاتوں میں موجود سرکاری اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے لیے تمام ضروری سہولیات جیسے مطلوبہ ادویات، الٹرا ساؤنڈ مشینوں اور پیدائش کی بعد کسی پیچیدگی کی صورت میں وینٹی لیٹرز کی موجودگی۔

    صفائی ستھرائی کا فقدان

    ڈاکٹر سارہ نے مختلف پیچیدگیوں کے بڑھنے کی اہم وجہ صفائی ستھرائی کے فقدان کو قرار دیا۔

    ان کا کہنا تھا، ’گھروں میں اسپتال کھول لیے گئے ہیں جہاں ڈیلیوریز کروائی جارہی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں قائم سرکاری ڈسپنسریوں میں بھی صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا‘۔

    ان کے مطابق، ’چونکہ دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان ہے، لہٰذا ایک کم عمر لڑکی جس کا جسم کمزور ہو، اور جس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی کمزور ہو، مختلف جراثیموں کا آسان ہدف بن سکتے ہیں جو جان لیوا انفیکشنز پیدا کرسکتے ہیں‘۔

    شعور و آگاہی بھی ضروری

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق صحت سے متعلق بڑے پیمانے پر شعور و آگاہی کے پھیلاؤ کی بھی ضرورت ہے اور اس ضمن میں خصوصی پروگرامز بنا کر حکومت اور عوام دونوں اپنا کردار ادا کریں۔

    انہوں نے کہا، ’دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل ایک کم عمر لڑکی کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے کیونکہ کم عمری میں بچوں کی پیدائش نہ صرف ماں بلکہ بچے کی صحت کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے‘۔

    ان کے مطابق کم عمری کی شادیاں بے شمار امراض میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ بعض اوقات نو عمر لڑکیاں بچوں کی پیدائش کے دوران جان کی بازی بھی ہار جاتی ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے میں بسنے والے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں‘۔

    ذہنی امراض کا سدباب اولین ترجیح

    ملک کے بدلتے حالات، دہشت گردی، غربت، بے روزگاری اور مختلف معاشرتی مسائل کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہی ہے اور ماہرین کے مطابق ان امراض کے سدباب کو اولین ترجیح دینی ضروری ہے۔

    کراچی میں ذہنی امراض کے اسپتال کاروان حیات کے ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے، ’یوں تو صحت ویسے ہی ایک نظر انداز شدہ شعبہ ہے لہٰذا باوجود اس کے، کہ ذہنی امراض کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے، یہ توقع کرنا بے فائدہ ہے کہ حکومت اس شعبے کی طرف خصوصی توجہ کرے‘۔

    انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے جو سب سے عام ذہنی مرض ہے۔ اس شعبے میں ہنگامی طور پر اصلاحات کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت جلد یہ دنیا کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بن جائے گی۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق ذہنی امراض پر کام شروع کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی کا فروغ ہے۔ ’آج بھی کسی سے کہا جائے کہ کسی ماہر نفسیات کے پاس جاؤ، تو وہ ناراض ہوجاتا ہے کہ کیا تم مجھے پاگل یا نفسیاتی سمجھتے ہو‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض کے حوالے سے بڑے پیمانے پر لوگوں میں شعور پھیلانے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی ہوا نہیں، عام اور قابل علاج مرض ہے۔ ’آج بھی اگر کوئی شخص کسی دماغی بیماری کا شکار ہوجائے تو اسے جن بھوت کا اثر سمجھ کر جعلی پیر فقیروں کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو علم ہی نہیں کہ دماغی امراض بھی اب ایسے ہی عام ہوگئے ہیں جسیے نزلہ، زکام یا بخار‘۔

    ان کے مطابق جس طرح حکومت خاندانی منصوبہ بندی، ایڈز یا ڈینگی سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہمات چلاتی ہے، اسی طرح ذہنی امراض کے بارے میں بھی معلومات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ اگر ابتدائی مرحلے میں ذہنی امراض کی تشخیص کرلی جائے تو باآسانی ان کا علاج ہوسکتا ہے جس کے بعد مریض صحت مند ہو کر معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔ ’لیکن بات وہی کہ ذہنی مرض کو عام مرض کی طرح سمجھ کر ڈاکٹر کے پاس جایا جائے‘۔


    ماہرین طب کو امید ہے کہ اگر حکومت شعبہ صحت کو اہم خیال کرتے ہوئے نہ صرف بجٹ کا ایک خطیر حصہ اس مد میں مختص کرے، بلکہ اس بجٹ کے استعمال میں ذہانت، دور اندیشی اور ایمانداری سے بھی کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ شعبہ بہتری کی طرف گامزن ہوجائے۔

  • آئندہ بجٹ میں نان فائلرزپر ٹیکس کی شرح میں اضافے کا امکان

    آئندہ بجٹ میں نان فائلرزپر ٹیکس کی شرح میں اضافے کا امکان

    اسلام آباد : ٹیکس نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے آئندہ بجٹ میں حکومت نے حکمت عملی تیار کر لی ہے، نان فائلرزپر ٹیکس کی شرح میں اضافے کا امکان ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ 26 مئی کو پیش کیا جائے گا، ٹیکس دائرہ کار میں اضافے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں گے، آئندہ مالی سال میں نان فائلرزپر لگے ودہولڈنگ ٹیکس دوگنے کئے جانے کا امکان ہے۔

    اس کے علاوہ ڈیویڈنڈ انکم پر بھی پچیس فیصد تک ٹیکس عائد کئے جانے کا امکان ہے جبکہ ٹیکس نا دہندگان سے گزشتہ دس برسوں کا حساب لینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

    ملکی آبادی 19 کروڑ سے زیادہ لیکن ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے صرف 10 لاکھ 60 ہزار ہے جس کے باعث آئندہ بجٹ میں نان فائلرز کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    بینک ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھا کر 0.6 فیصد ہو سکتا ہے، گھر، گاڑی اور جائیداد کی خریداری پر بھی زیادہ ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے ، نان فائلرز کیلئے مشینری اور خام مال کی درآمد بھی مہنگی ہو گی ۔

    اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ قرضوں میں اضافے کے پیش نظر آمدن بھی بڑھانا ہوگی، اس کیلئے معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے ۔

    ایف بی آر حکام کے مطابق اس سال جون تک مجموعی طور پر تین لاکھ ٹیکس نادہندگان کو نوٹس جاری کیے جائیں گے ۔

    دوسری جانب ٹیکس دہنددگان ملازمت پیشہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے قابل ٹیکس آمدنی کی حد میں اضافہ کے جانے کا امکان ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • آئندہ بجٹ میں سگریٹ کے پیکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز

    آئندہ بجٹ میں سگریٹ کے پیکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز

    اسلام آباد : وزارت قوم صحت نے وزارت خزانہ کو سگریٹ ڈبیہ مہنگی کرنے کی تجویز ارسال کر دی، جس میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں سگریٹ پیکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بارہ روپے اضافہ کیا جائے۔

    ذرائع کے مطابق وزارت قومی صحت کی جانب سے وزارت خزانہ کو بجٹ 2017-18 سے متعلق بھجوائے گئے مراسلے میں تجویز دی گئی ہے کہ حکومت فی سگریٹ پیکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں بارہ روپے دو پیسے اضافہ کرے ۔

    وزارت خزانہ کو تجویز دی گئی ہے کہ سگریٹ پیکٹ پر ایف ای ڈی کی موجودہ شرح 32روپے 98پیسے کو بڑھا کر 44 روپے کیا جائے، تمباکو مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے سے آمدن میں ساڑھے انتالیس ارب روپے سالانہ اضافہ ہوگا۔


    مزید پڑھیں : آئندہ بجٹ، سرکاری ملازمین کو اوور ٹائم دینے اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں اضافے کا امکان


    مراسلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمباکو مصنوعات کی ٹیکس محصولات کا دو فیصد ملک میں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ کرے، ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے سے ملک میں تمباکو نوشی میں تیرہ فیصد کمی آئیگی۔

    وزارت قومی صحت کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ حکومت صدر پاکستان و آزاد کشمیر ،چاروں گورنرز اور انکے خاندان کے افراد اور مہمانوں سمیت پاکستان نیوی کو تمباکو کی مصنوعات پر د ی جانے والی ٹیکس چھوٹ کا فوری خاتمہ کر ے۔

  • آئندہ بجٹ، سرکاری ملازمین کو اوور ٹائم دینے اور ریٹائرڈ  ملازمین کی پینشن میں اضافے کا امکان

    آئندہ بجٹ، سرکاری ملازمین کو اوور ٹائم دینے اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں اضافے کا امکان

    اسلام آباد : بجٹ 18-2017تکیمل کے مراحل میں ہے، آئندہ بجٹ میں ریٹائرڈ افراد کی پینشن میں اضافے اور سرکاری ملازمین کو اوور ٹائم دینے کی تجویز زیر غور ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ کی تیاری زوروں پر ہے، سال دوہزار سات سے پہلے ریٹائر ڈ ملازمین کیلئے پینشن میں بیس فیصد اضافہ متوقع ہے۔

    زرائع کے مطابق دفتر میں اوقات کار سے زائد وقت دینے پر ملازمین کو اوور ٹائم دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

    دوسری جانب ایف بی آر کو تارکین وطن کے بارے میں مزید معلومات مل سکیں، اس کیلئے تارکین وطن کی تعریف میں تبدیلی کابھی امکان ہے۔

    وزیر اعظم کے مشیر ہارون اختر کا کہنا ہے کہ سال میں ایک سو تراسی دن سے کم پاکستان میں گزارنے والے کو نان ریزیڈنٹ کہا جاتا ہے، جس کو تبدیل کیا جائے گا، زرعی شعبے کو ریلیف دینے کیلئے کھاد کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیئے جانے کی تجویزبھی زیر غور ہے تاہم کھاد پر دی گئی سبسیڈی ختم کر دی جائے گی۔


    مزید پڑھیں : آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ متوقع


    اس سے قبل  رواں برس بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی بھی تجویز زیر غور ہے جبکہ نیم سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کے لیے بھی قابل ٹیکس آمدنی کی حد میں اضافہ کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی حد میں بھی بتدریج کمی کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔

    رواں سال بجٹ میں قابل ٹیکس آمدنی کی حد میں تبدیلی کے لیے ٹیکس سلیبز میں بھی رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا امکان

    آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا امکان

    اسلام آباد: آئندہ مالی سال کے بجٹ 18-2017 میں سرکار ی ملازمین کے لیے تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ ساتھ ہی کم از کم تنخواہ 15 ہزار کیے جانے کے بھی امکانات ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بجٹ کی تیاری آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہے۔ رواں مال سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے متوقع ہیں۔

    ذرائع کے مطابق تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مختص رقم 45 فیصد اضافے کے ساتھ 395 ارب روپے تک ہوسکتی ہے۔

    پنشن کی رقم 30 ارب روپے اضافے کے ساتھ 275 ارب روپے متوقع ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کے الاؤنسز بھی بڑھائے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سالانہ ترقیاتی بجٹ میں بھی اضافے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ترقیاتی بجٹ ساڑھے 8 سو ارب تک ہوسکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے زیادہ فنڈز توانائی سیکٹر کے لیے مختص کیے جانے کی امید ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 2017: بجٹ خسارہ 15 کھرب تک پہنچنے کا خدشہ

    بجٹ 2017: بجٹ خسارہ 15 کھرب تک پہنچنے کا خدشہ

    اسلام آباد: رواں سال بجٹ کی تیاری پر آئندہ سال آنے والے انتخابات اثرانداز ہوں گے، آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ خسارہ شرح نمو کے تناسب سے چارفیصدتک رکھے جانے کا امکان ہے۔

    حکومت اس سال بھی ٹیکس وصولی کے اہداف مکمل نہیں کرپائی اور اوپر سے پاناماکیس کا دباؤ بھی موجود ہے اوران حالات میں آئندہ سال انتخابات کا سال ہے۔ عوام کی ضروریات پوری کرکے انہیں خوش کرنے کے لئے حکومت کو پیسے چاہیے لیکن نیاٹیکس لگاتےہیں تو ووٹ بنک متاثرہوگا لہذابجٹ خسارہ بڑھا دینے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

    آئندہ مالی سال کا بجٹ 26 مئی کوپیش کیا جائےگا


    حکومت اگر معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو اس کا ازالہ قرض سے جاتا ہے جس کے سبب بجٹ خسارہ بڑھتاہے جس کے نتائج عوام کو بھگتنا ہوں گے۔

    معاشی ماہرین کے مطابق آئندہ مالی سال 2017- 2018 میں بجٹ خسارہ چودہ کھرب چالیس ارب روپے تک پہنچنےکاخدشہ ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بجٹ خسارہ مزید مقامی اور بیرونی قرضےلےکرپوراکرناپڑےگا۔

    عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال بھی حکومت ٹیکس آمدنی کاہدف حاصل نہ کرسکی‘ ٹیکس وصولیوں میں ایک کھرب ساٹھ ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے جبکہ خدشہ ہے کہ رواں مالی سال بجٹ خسارہ پندرہ کھرب تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

  • آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ متوقع

    آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ متوقع

    اسلام آباد: آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ رواں برس بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں میں 10 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔

    آئندہ مالی سال 18-2017 کے بجٹ کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ رواں برس بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں اور پینشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز زیر غور ہے۔

    نیم سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کے لیے بھی قابل ٹیکس آمدنی کی حد میں اضافہ کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی حد میں بھی بتدریج کمی کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: 1276 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش

    رواں سال بجٹ میں قابل ٹیکس آمدنی کی حد میں تبدیلی کے لیے ٹیکس سلیبز میں بھی رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔

    ذرائع کے مطابق رواں ماہ کے آخر یا مئی کے پہلے ہفتے میں ان تجاویز کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔