Tag: budget 2018-19

  • ایک ماہ کی مہمان حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا

    ایک ماہ کی مہمان حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا

    بجٹ عمل کا تجزیہ


    آج قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مسلم لیگ ن نے اپنا چھٹا اور آخری بجٹ پیش کرکے اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے سبک دوشی کی طرف آخری اہم قدم اٹھالیا۔ تاہم صرف ایک ماہ کی مہمان حکومت کی طرف سے پورے سال کا بجٹ پیش کرنے سے یہ واضح تاثر ملا کہ اس کا یہ عمل سراسر بدنیتی پر مشتمل ہے۔

    سیاسی حلقوں میں پہلے ہی سے اس متوقع سالانہ بجٹ کے حوالے سے خدشات کا اظہار ہورہا تھا یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن احتجاج کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔ جیسے ہی بجٹ پیش ہوا، اسمبلی اور ملک کے طول و عرض میں سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کا شدید ترین سلسلہ شروع ہوگیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ سب نے متفقہ طور پر اسے غیر اخلاقی عمل قرار دیا۔

    مجھے یاد نہیں کہ قومی اسمبلی میں کسی جمہوری حکومت کی طرف سے کوئی بجٹ پیش ہوا ہو اور اسے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسترد نہ کیا گیا ہو، تاہم اس بار معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جب حکومت محض ایک مہینے کی مہمان ہے اور اس کی جانب سے وزیر خزانہ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں روسٹرم پر آئے۔ معاملہ اس وقت مزید سنگین نوعیت اختیار کرگیا جب حکومت نے بجٹ سے چند گھنٹے قبل اقتصادی امور کے لیے وزیر اعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز کردیا۔

    مسلم لیگ ن نے 2013 کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی تھی جس کی مدت تیس مئی کو ختم ہورہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان میں جمہوریت کے مقدر کے عین مطابق عدالتی فیصلے کے ذریعے تاحیات نااہل قرار دے کر فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد ن لیگ کی جانب سے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم مقرر ہوئے۔

    اپنے آخری بجٹ میں موجودہ حکومت نے جس بدنیتی کا اظہار کیا ہے، اس پر سیاسی حلقوں سے شدید رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ن لیگ کو یقین ہو کہ اگلی باری بھی وہی لے گی، اس لیے اس نے اپوزیشن کے متوقع احتجاج اور تنقید کو نظرانداز کرکے بجٹ کی تیاری پر سسٹم کو لگایا۔ اگلی حکومت کسی اور جماعت کے ہاتھ میں آتی ہے تو ن لیگ کی اس پریکٹس کی لایعنیت مزید واضح ہوجائے گی جب وہ بجٹ کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں کرنے بیٹھے گی۔

    بجٹ عمل پر رد عمل


    خورشید شاہ

    قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بجٹ کو واضح طور پر غیر اخلاقی عمل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے آنے والی حکومت کا حق چھینا۔

    شاہ محمود قریشی

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج ن لیگ نے نئی منفی اور غیر اخلاقی روایت ڈال دی ہے۔ انھوں نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چار ماہ کے لیے بھی قانونی طور پر بجٹ پیش کیا جاسکتا ہے۔

    تفصیل کے لیے یہ پڑھیں۔۔۔ موجودہ حکومت کے بجٹ کا کوئی اخلاقی جواز نہیں: شاہ محمود قریشی

    سراج الحق

    امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بجٹ کو معاشی زبوں حالی کی تصویر قرار دیا۔ ان کا یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ن لیگ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کا مظاہرہ کیا ہے۔

    آصف علی زرداری

    پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بجٹ کو ن لیگ کی لالچ کا عکس قرار دیا۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت نے پبلک سروس ڈیولپمنٹ پروگرام کے منصوبوں میں کمیشن کے لیے بجٹ پیش کیا ہے۔

    مصطفیٰ کمال

    پاکستان سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بھی کراچی سے بجٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اگلی حکومت کے حق پر شب خون قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کے اعداد و شمار غلط ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں۔۔۔ موجودہ حکومت آنے والی حکومت کا حق چھین رہی ہے: خورشید شاہ

    قمر زمان کائرہ

    پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی ن لیگ کی بدنیتی کی طرف اشارے دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت تیس جون تک پہلے ہی بجٹ منظور کرچکی تھی، پھر سالانہ بجٹ کیوں۔ یہ اہم نکتہ بھی بیان ہوا کہ بجٹ تبدیل کرنے پر کیا آئندہ اسمبلی ہائی جیک نہیں ہوگی؟

    بلاول بھٹو

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کے ذریعے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگلی حکومت کا حق چھن گیا، اب وہ چار بجٹ پیش کرسکے گی۔ بلاول بھٹو کے ایک اہم نکتے کے مطابق یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ بجٹ انتخابات سے قبل دھاندلی کی ایک صورت نہیں ہے؟

    اسے بھی ملاحظہ کریں۔۔۔ سراج الحق نے بجٹ کو معاشی زبوں حالی کی تصویر قرار دے دیا

    شیری رحمان

    پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ حکومت تو چھٹا بجٹ پیش ہی نہیں کرسکتی، وہ کھربوں کا قرض آنے والی حکومت کے کاندھوں پر چھوڑ کر جارہی ہے۔

    رضا ربانی

    سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی بجٹ پیش کرنے کے معاملے کو بدنیتی پر مبنی عمل قرار دیا جس کا واضح ثبوت یہ بھی تھا کہ اسے ایک غیر منتخب شخص نے پیش کیا۔

    فواد چوہدری

    پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بھی کہا کہ یہ بجٹ دراصل انتخابات پر اثرانداز ہونے کا ایک حیلہ ہے۔

  • مالی سال19-2018 کے لیے وفاقی حکومت نے 59.32 کھرب کا بجٹ پیش کردیا

    مالی سال19-2018 کے لیے وفاقی حکومت نے 59.32 کھرب کا بجٹ پیش کردیا

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کی حکومت  نے اپنا آخری بجٹ پیش کردیا، بجٹ کا حجم 59 کھرب 32 ارب جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4435 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، دفاع کے لیے 1100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نومنتخب وزیرخزانہ مفتاع اسماعیل  نے آج قومی اسمبلی میں سال 19-2018 کابجٹ پیش کیا، بجٹ کا حجم59.32  روپےکھرب مختص کیا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ کا حجم ایک ہزار تیس ارب روپے رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت  نے اپنی آئینی مدت کے دوران چھٹا بجٹ پیش کیا ہے۔

    اس موقع پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کاکہنا تھا کہ چھٹا بجٹ پیش کرنا قوم اور ملک کےلئے تاریخی لمحہ ہے ، آج کا بجٹ نوازشریف کے ویژن کا عکاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ حکومت کواختیار ہوگابجٹ ترجیحات میں تبدیلیاں کرسکے،مدت پوری ہونےسےپہلےبجٹ پربحث ،منظوری پارلیمنٹ پرلازم ہے۔

    بجٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مفتاح اسماعیل کے ذریعے بجٹ پیش کرانے پر احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کرنے کا فیصلہ کیا ، جبکہ تحریک ِ انصاف کے اراکین نے بجٹ تقریر کے دوران شدید احتجاج کرتے رہے۔

    بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف چھ اعشاریہ دوفیصد تک بڑھانے، زرعی ترقی کا ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ مہنگائی چھ فیصد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ درآمدات کے لیےساڑھے ترپن ارب ڈالراوربرآمدات کو بڑھا کر ستائیس ارب تیس کروڑ تک لایا جائے گا۔

    وفاقی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ مالی سال برآمدات کاشعبہ دباؤ کا شکار رہا۔9ماہ میں برآمدات میں 9فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اس عرصے میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 12ارب ہو گیا ہے اور پاکستان تیزی سےترقی کرنےوالےملکوں میں شامل ہوگیاہے۔رواں سال شرح نمو5.8فیصدرہی جو گزشتہ13سال میں بلند ترین سطح ہے۔

    مفتاح اسماعیل کے مطابق 2013میں ترسیلات13.9ارب تھیں جو کہ رواں سال 30ارب ہوجائیں گی۔حکومت سنبھالی تو زرمبادلہ کے ذخائر 6.3ارب ڈالر تھے جبکہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت 11ارب ڈالر کے قریب ہیں، سال کے آخر تک ان میں مزید اضافہ ہوگا۔

    تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ معیشت کاحجم34ہزارارب سےبڑھ چکاہے، حالیہ سال زرعی شعبےمیں ترقی کی شرح3.58فیصدرہی۔سیاسی ہل چل کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں مندی دیکھی گئی۔

    ٹیکسز


    ان کا کہنا تھا کہ 5سال میں 33ہزار 285نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں ، امن وامان کی بہتر صورتحال سے سرمایہ کار پاکستان آرہے ہیں اورٹیکس وصولوں کاہدف3935ارب روپےہے۔ طویل المدت قرضوں پرسود کی شرح11فیصدکم ہوکر5سے6فیصدہوگئی۔

    ٹیکس کی شرح کوکم کیاگیا ہے ،12لاکھ تک سالانہ آمدن پرکوئی ٹیکس نہیں، 12سے24لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 5فیصد ٹیکس ہوگا۔ افراط زرکی شرح3.8فیصدجبکہ اشیاخوردونوش میں شرح2فیصدرہی۔ 5 سال میں ٹیکس وصولوں میں2ہزارارب روپےکااضافہ کیا گیا۔ زرعی شعبےکو800ارب روپےکےقرضےدےرہےہیں۔

    صرف ٹیکس فائلرزہی فارن ایکس چینج اکاؤنٹ میں رقم جمع کراسکیں گے اور ایک لاکھ روپے سے زائد کی ترسیلات پر ایف بی آر کو آگاہ کرنا ہوگا۔ یکم جولائی سےنائن فائلر 40لاکھ سےزائد جائیدادنہیں خریدسکےگا۔یکم جولائی سےایف بی آرپراپرٹی ریٹس ختم کررہاہے۔ ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 4ہزار435ارب روپے مقرر کیاگیاہے۔

    بجٹ 2018


    بجٹ اہداف


    دفاعی بجٹ


    دفاعی بجٹ میں کل180 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے جس کے بعد پاکستان کا دفاعی بجٹ 1100.3 ارب روپے ہوجائے گا

     

    ترقیاتی منصوبے


    وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی کاموں کے لیے 20 کھرب 43 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ میں وفاق کے لیے 10 کھرب 30 ارب روپے جب کہ صوبوں کے لیے 10 کھرب 13 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    توانائی


    جامشورو میں کوئلے سے چلنے والے 600 میگا واٹ کے پلانٹ کے لیے 27.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ داسو ہائڈرو پراجیکٹ کے لیے 76 ارب روپے ، نیلم جہلم کے لیے 32.2 روپے اور تربیلا فور تھ ایکسٹنشن کے لیے 13.9 روپے روکھے گئے ہیں۔

    اعلیٰ تعلیم


     ملک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے بجٹ میں 57 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

    صحت


     صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے 37 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    زراعت


     زراعت کے لیے رواں سال سبسڈی کا فیصلہ صوبوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے جبکہ زرعی قرضوں کا ہدف 1100ارب روپے رکھا گیا ہے۔ زرعی مشینری پر جی ایس ٹی 7سے کم کرکے 5فیصد کردی گئی۔یوریاکھادمیں سیلزٹیکس کی شرح 5فیصدہوگی جبکہ ڈیری اورلائیواسٹاک پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ ہوگی۔زرعی شعبےکو800ارب روپےکےقرضےدےرہےہیں، حالیہ سال زرعی شعبےمیں ترقی کی شرح3.58فیصدرہی۔

    سگریٹ نوشی کرنے والوں کے لیے بری خبر


    تمباکو نوشی کے رجحان کو کم کرنے کے لیے حکومت نے سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز دے دی ہے، ٹیئر ون سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 3ہزار964 روپے، ٹیئر ٹو سگریٹ پر ایک ہزار770 روپے جب کہ ٹیئر تھری سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 848 روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    ریلوے کی رفتار بڑھے گی


    بجٹ تقریر میں کہا گیا ہے کہ ریلوے کی پرفارمنس مزید بہتر بنانے کے لیے 39 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ کراچی سےپشاورتک ٹرینوں کی رفتارکو3گنابڑھانےکامنصوبہ شروع کیاجائے گا اورٹرینوں کی رفتار55کلومیٹرسےبڑھاکر160کلومیٹرتک لےجائیں گے۔

    کراچی کے لیے خصوصی پیکج


    شہرقائد کراچی کے لیے بجٹ میں 5ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ وزیراعظم کی جانب سے 25 ارب کے خصوصی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے۔کراچی ایکسپوسینٹرکے لیے بھی فنڈزمختص کیے گئے ہیں۔وفاق حکومت نے سندھ کو کراچی کے لیے بسیں فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی ہے۔

    دوسری جانب کراچی کے شہریوں کو درپیش پانی کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئےسمندری پانی کا قابل استعمال بنانے کے لیے کراچی میں واٹر اسکیم کا اعلان گیا ہے جس کے تحت لگنے والا سمندری پانی کاپلانٹ 55ہزارگیلن پانی کوقابل استعمال بنائےگا۔

    فاٹا کے لیے پیکج


    فیڈرل ایڈمنسٹریٹو قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کے لیے 100 ارب کے خصوصی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ رواں سال فاٹا کےلئے 24ارب اور50کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں

    تنخواہیں اورپنشن


    آئندہ مالی سال کے لئے حکومت نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن کے لیے 342 ارب روپے سے زائد رکھے ہیں۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور تمام پنشنرز کے لیے 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی 50 فیصد جب کہ پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر10ہزار روپے کردی گئی ہے۔ 75 سال کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لیے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    ان تمام تجاویز کا مجموعی تخمینہ 70 ارب روپے کے قریب ہے۔

    گوادر


    گوادرمیں انفرااسٹرکچرکے لیے 137ارب روپےمختص کیے گئے ہیں جن سے گوادرمیں ایئرپورٹ،بندرگاہ،روڈنیٹ ورک،اسپتال تعمیر ہوں گے۔گوادرکے31منصوبوں کے لیے137ارب روپےخرچ کیےجائیں گے، سی پیک کے تحت مختلف شعبوں میں وسیع سرمایہ کاری ہورہی ہے۔

    فلمی صنعت کے لیے اچھی خبر


    وفاقی حکومت نے فلم انڈسٹری کی بحالی کےلیےمالی پیکیج کااعلان کرتے ہوئے فلمی آلات کی درآمدپرکسٹم ڈیوٹی کی شرح 3فیصدکرنےکی تجویز ہے جبکہ فلمی آلات کے لیے سیلزٹیکس کم کرکے5فیصدکرنےکی تجویز دی گئی ہے۔فلم،ڈرامہ کےفروغ کےلئےگردشی فنڈقائم کرنےکی تجویز بھی دی گئی ہے۔

     

  • بجٹ 19-2018، عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ مطالبات سامنے آگئے

    بجٹ 19-2018، عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ مطالبات سامنے آگئے

    کراچی: وفاقی حکومت آج آئندہ مالی سال 19- 2018 کے لیے بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، عوام حکومت سے کیا ریلیف چاہتے ہیں؟ اس ضمن میں اے آر وائی نیوز نے صارفین کی آراء حاصل کیں۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت کل چھٹا اورآخری بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس پر اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی جانب سے تنقید بھی جاری ہے کیونکہ بعض سیاسی رہنماؤں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومتی مدت آئندہ ماہ ختم ہورہی ہے، ایسے میں مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

    اے آر وائی نیوز نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اور عوام کو پلیٹ فارم فراہم کیا کہ وہ اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچائیں، عوام نے جہاں حکومت سے مختلف مطالبات کیے وہیں مفت تعلیم، لوڈ شیڈنگ، پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتوں کے نئے، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے ساتھ ضروریات زندگی فراہم کرنے پر زور دیا۔

    مزید پڑھیں: حکومتی اقتصادی سروے 2017-18 جاری، ترقی کی شرح 5.8 فیصد، غربت میں کمی

    جن صارفین نے مطالبات پیش کیے انہیں اے آر وائی نیوز حکمرانوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ جمہوری حکومت عوامی مسائل کو حل کرسکے۔

    عائشہ ظہیر نامی صارف کا کہناتھا کہ ’ٹیکس کم اور غریبوں کو تعلیم کی سہولت آسان و یقینی بنائی جائے، بے روزگار افراد کو مواقع فراہم کیے جائیں اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کو بھی برابر کے حقوق ملنے چاہیں‘۔

    عبدالوہاب نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’بجٹ جون میں بنتا ہے اور حکومت کی مدت مئی میں ختم ہورہی ہے، موجودہ حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں کیونکہ چار ماہ کا منی بجٹ پیش کرنا نگراں حکومت جبکہ آئندہ مالی سال کا بجٹ نئی حکومت کی
    ذمہ داری ہے‘۔

    تکنیکی طور پر مطلوبہ صارف کے مطالبے پرعمل درآمد ممکن نہیں کیونکہ عبوری حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کا اختیار نہیں ہوتا(ادارہ)۔

    اسٹیفن اختر نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’میری ایک پاکستانی ہونے کے ناطے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ غریب لوگوں پر رحم کیا جائے، اُن کے بچوں کا بھی دودھ اور روٹی پر اُتنا ہی حق ہے جتنا کسی امیر کا ہے، خدارا اس بجٹ میں غریبوں کا خاص خیال رکھا  جائے‘۔

    صغریٰ قریشی کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے اور خصوصاً سندھ کے غریب باصلاحت طالب علموں کو اسکالر شپ فراہم کی جائیں تاکہ پاکستان کا مستقبل سنور سکے‘۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’نوجوانوں کو مستقبل ملازمتیں فراہم کی جائیں‘۔

    ملک یعقوب نامی صارف کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں موجود کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے، نظام تعلیم کو جدید سلیبس سے بہتر بنایا جائے اور اسکولوں میں موجود اساتذہ کی کمی کے ساتھ فرنیچر، چوکیدار کی سہولیات بھی فراہم کی جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کو فوری طور پر ختم کیا جائے‘۔ اُن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ’صحت کا بجٹ بڑھایا جائے اور ہر یونین کونسل کی سطح پر کم از کم 20 بستروں پر مشتمل جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال بنائے جائیں‘۔

    مہک خان نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی یافتہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جائیں اور سرکاری و پرائیوٹ ملازمین کی تنخواہوں کو برابر کیا جائے‘۔

    آسیہ علی نے مطالبہ کیا کہ ’بجٹ میں پینشنرز کا ضرور خیال رکھا جائے‘

    دلاور راجپوت نامی صارف کا کہناتھا کہ ’زراعت، صحت اور تعلیم کے لیے بہتر اقدامات کیے جائیں‘

    فیض فیضی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’ بینک میں پیسے نکلوانے اور جمع کروانے، موبائل بیلنس اور کالز پر عائد ٹیکس کم کردیں، شعبہ تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے‘۔

    محمد افسر علی نے مطالبہ کیا کہ 55 سال سے زائد عمر کے ہر پاکستانی (مرد، عورت) کو اولڈ ایج بینفٹ دیا جائے۔

    چوہدری لیاقت نے مطالبہ کیا کہ ’اولڈ ایج بینیفٹ کی نوکری کی معیاد 15 سال سے کم کی جائے اور عمر کی حد 50 سال مقرر کی جائے‘۔

    غلام عباس نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’مزدور کی تنخواہ کم از کم 20 ہزار کی جائے کیونکہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے تنخواہیں بہت کم ہیں‘۔

    خادم حسین قادری نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے گریجویٹ و نان گریجویٹ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع، اعلیٰ تعلیم، شعبہ صحت میں اے گریڈ میڈیسن کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے‘۔

    معصوم نیازی نے مطالبہ کیا کہ  محکمہ پولیس کی تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافہ کیا جائے۔

    ابوہوا نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’عوام کو مفت شناخت اور مفت قبر مہیا کی جائے‘۔

    اقصیٰ نیازی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’کنٹریکٹ ڈاکٹرز کو مستقل نوکری فراہم کی جائے‘۔

    محمد طیب مغل نامی صارف نے مطالبہ کیا کہ ’غریبوں کو بالکل مفت طبی سہولیات دی جائیں‘۔

    ٹویٹر پر بھی صارفین نے مطالبات پیش کیے

     


    نوٹ: فیس بک پوسٹ پر سیکڑوں صارفین نے کمنٹس کیے تاہم ادارے نے قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ معیار اور تہذیب و اخلاق کے دائرے میں کیے گئے کمنٹس کو اسٹوری میں شامل کیا ہے، عوامی سنجیدگی اور اُن کی آراء کو حکمرانوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔

  • آئندہ مالی سال تنخواہ دارطبقےکو67ارب ٹیکس ریلیف دینے کا امکان

    آئندہ مالی سال تنخواہ دارطبقےکو67ارب ٹیکس ریلیف دینے کا امکان

    اسلام آباد : آئندہ مالی سال بجٹ میں تنخواہ دار  طبقے کیلئے سرسٹھ ارب روپے کا ریلیف دیئے جانے کا امکان ہے جبکہ بجٹ میں انکم ٹیکس کی شرح میں کمی متوقع ہے۔

    وزارت خزانہ زرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے تنخواہ دار طبقے کیلئے سرسٹھ ارب کا ٹیکس ریلیف متوقع ہے جبکہ انکم ٹیکس سے مستثنی آمدنی کی سالانہ کو حد چار لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ کیے جانے کا امکان ہے۔

    تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح کو بیس فیصد کیے جانے کا امکان ہے۔

    معاشی ماہرین کے مطابق ٹیکس ریلیف سے کم آمدنی والے افراد پر ٹیکس کا بوجھ نوے فیصد جبکہ زائد آمدن والے افراد پر ٹیکس ریٹ میں تینتالیس فیصد کمی ہوگی۔

    ٹیکس ریلیف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر کی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تنخواہ دارطبقےکو100 ارب تک کاٹیکس ریلیف دینا چاہتے ہیں جبکہ مشیرخزانہ اورایف بی آرحکام ٹیکس ریٹ میں زائد کمی کے حق میں نہیں۔


    مزید پڑھیں:  آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری


    اس سے قبل وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ آئندہ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد ایڈ ہاک ریلیف، الاﺅنس اور پنشن میں 20 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔ سرکاری ملازمین کا لیٹ سٹنگ اور میڈیکل الاﺅنس بھی بڑھانے کی تجویز زیر غور ہے۔

    یاد رہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ امور مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال کا بجٹ 27 اپریل کو پیش کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت کی مدت 31 مئی کو ختم ہو جائے گی ، اس لئے حکومت کی کوشش ہے کہ وفاقی بجٹ جلد پیش کرکے اپنی ہی دور حکومت میں منظور کروالیا جائے۔

    خیال رہے کہ یہ ن لیگ حکومت کا آخری بجٹ ہے ، اس لئے امید کی جارہی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔