Tag: Budget 2018

  • حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی: خورشید شاہ

    حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی: خورشید شاہ

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر  خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی، حکومت کو 4 ماہ سے زیادہ کا بجٹ نہیں دینا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ کسی پارٹی سے ورکر نکل جائے تو افسوس ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔

    انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کی نا اہلی سے خوش نہیں ہوں، نواز شریف سے بار بار اس قانون کے خاتمے کا کہا لیکن انہوں نے تعاون نہیں کیا۔ ’ججز کو بھی سیاسی معاملات کو سیاسی رکھنا چاہیئے۔ بہتر ہوتا خواجہ آصف کا معاملہ پارلیمنٹ بھیج دیا جاتا‘۔

    خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست پارلیمانی ہونی چاہیئے۔ خواجہ آصف کی نااہلی قانونی نقطہ نظر سے ہوئی ہے۔ نااہلی پارلیمانی نظام کے تحت ٹھیک نہیں۔

    انہوں نے آج پیش کیے جانے والے بجٹ کے حوالے سے کہا کہ حکومت کو 4 ماہ سے زیادہ کا بجٹ نہیں دینا چاہیئے۔ حکومت سال کا بجٹ پیش کر کے نئی روایت ڈال رہی ہے۔ ’حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی‘۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں نئی سرمایہ کاری نہیں آئی۔ حکومت نے قرضوں کا بوجھ بڑھا دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • وفاقی حکومت کا ایک ارب 73 کروڑ روپے کے رمضان پیکج کا اعلان

    وفاقی حکومت کا ایک ارب 73 کروڑ روپے کے رمضان پیکج کا اعلان

    اسلام آباد : وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایک ارب 73 کروڑ روپے کے رمضان پیکج کا اعلان کردیا جس کے تحت رمضان میں عوام کو رعایتی نرخ پراشیائے خوردونوش فراہم کی جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت گزشتہ روز وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ایک ارب 73 کروڑ روپے کے رمضان پیکج کی منظوری دی گئی۔

    وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ہدایت کی رمضان پیکج کے تحت روزمرہ استعمال کی اشیاء مارکیٹ سے کم نرخوں پرفراہم کی جائیں۔

    وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز پرجن اشیاء پرسبسڈی فراہم کی جائے گی ان میں آٹا، گھی، چینی، خوردنی تیل، دالیں، کھجوریں، چاول، مشروبات، دودھ اور چائے کی پتی سمیت دیگر اشیاء شامل ہیں۔

    ای سی سی نے اجلاس میں 660 کلوواٹ ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ (ایچ وی ڈی سی) مٹیاری- لاہور ٹرانسمیشن لائن کی مالیاتی بندش کی تاریخ، پرفارمنس گارنٹی کی رقم دگنا کیے بغیر 7 ماہ یعنیٰ یکم دسمبر تک توسیع کی بھی منظوری دی گئی۔

    وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے یہ فیصلہ تھر اور کراچی کے قریب کوئلے سے چلنے والے بجلی کے آئندہ منصوبوں اور کراچی میں 1100 میگا واٹ کے ٹو پراجیکٹ کی الاٹمنٹ کے لیے کیا گیا۔

    اجلاس میں توانائی سیکٹر کو بحران سے نکالنے کے لیے کمرشل بینکوں سے 100 ارب قرض لینے کی بھی منظوری دی گئی، اس رقم کو بجلی فراہم کرنے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور بجلی بنانے والی کمپنیوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور فیول کی مد میں خرچ کیا جائے گا۔

    ای سی سی نے اجلاس میں مالی سال 18-2017 کے لیے تمباکو سیس ریٹس پرنظرثانی کی بھی منظوری دی گئی، اس کے علاوہ پاسکو کو سمندری راستے کے ذریعے 1155 ڈالرفی ٹن کے ری بیٹ پر5 لاکھ ٹن فصل گندم برآمد کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • مسلم لیگ ن کی حکومت اپنا چھٹا اور آخری بجٹ آج پیش کرے گی

    مسلم لیگ ن کی حکومت اپنا چھٹا اور آخری بجٹ آج پیش کرے گی

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کی حکومت آج اپنا آخری اور چھٹا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، بجٹ کا حجم 56 کھرب جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4435 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دو سو سے زائد اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کیے جانے کا بھی امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پہلی جمہوری حکومت اپنی مدت کے دوران چھٹا بجٹ آج پیش کرے گی، مفتاع اسماعیل بجٹ پیش کریں گے، بجٹ کا حجم56کھرب مختص کیےجانےکاامکان ہے جبکہ آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی بجٹ کا حجم ایک ہزار تیس ارب روپے رکھا گیا ہے۔

    بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے معاشی ترقی کا ہدف چھ اعشاریہ دوفیصد تک بڑھانے، زرعی ترقی کا ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

    مہنگائی چھ فیصد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ درآمدات کیلئے ساڑھے تیرپین ارب ڈالر اور برآمدات کو بڑھا کر ستائیس ارب تیس کروڑ تک لایا جائے گا۔

    بجٹ خسارہ 2029 ارب روپے مقرر کیے جانے اور آئندہ مالی سال کے دوران 2300 ارب روپے کے قرضے لئے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔

    آئندہ بجٹ میں عوام کیلئے بڑا ریلیف متوقع ہے، ٹیکس ریفامز کے بعد انکم ٹیکس چھوٹ سے سو ارب روپے اور دوسو سے زائد درآمدی اشیا پر ریگیولیٹری ڈیوٹی خاتمے کا بھی امکان ہے، ان میں اے سی، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹر، ایل سی ڈی، ٹی وی سمیت الیکٹرانکس کی مصنوعات شامل ہیں جبکہ گاڑیوں کے اسپئیر پارٹس پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کیےجانےکا اعلان متوقع ہے۔

    سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ جبکہ کم از کم پینشن بڑھا کر بارہ ہزار کرنے کی تجویز ہے۔

    عام انتخابات کیلئے بجٹ میں گیارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    آئندہ مالی سال کےترقیاتی بجٹ سے متعلق تجاویز


    آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں وفاقی بجٹ 930 اور  نجی شعبے کا 100 ارب  ، انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے 575 ارب روپے ، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے 400 ارب ، ہائی ویزاورموٹر وے کی تعمیرو مرمت پر310 ارب ، آب پاشی کے نظام کے لیے 65 ارب روپے اور ریلوے پر39 ارب اورتوانائی پر 80 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    گوادرپروجیکٹس اور ایئرپورٹس کی ترقی کے لیے 10 ارب ، فزیکل پلاننگ کے لیے 30 ارب روپے، کیڈٹ کالج خاران کے لیے 56 کروڑ روپے، سوئی اور اوچ میں سڑک کی تعمیر کے لیے 30 کروڑ روپے، لہری سانگلہ سڑک کے لیے54 کروڑ روپے اور حیدرآباد پیکج کےتحت سیوریج کےلیے23 کروڑکا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    ہاربر کی سہولتوں سے متعلق گوادر کےلیے6 کروڑ ،گوادرڈویلپمنٹ اتھارٹی کےلیے10 ارب، گوادر میں پانی کے ٹریٹمنٹ کے لیے87 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز  دی گئی ہے۔

    ملتان میں کینسراسپتال بہتر بنانے کے لیے 34 کروڑ ، لیاری ایکسپریس وے متاثرین کے لیے 46 کروڑ اور کارپوریشن، این ایچ اے ، واپڈا، پاور ڈویژن کے لیے 266 ارب  روپے بجٹ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    وفاق کے خصوصی پروگرامز نئے بجٹ سےباہر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ نئے میں دیرپا ترقی کے اہداف کیلئے اور وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے بھی خاطر خواہ رقم مختص کرنے کی تجویزنہیں۔

    انرجی فار آل پروگرام میں وفاق کی جانب سے رقم مختص کرنےکی تجویزنہیں جبکہ پینے کےصاف پانی پروگرام سے متعلق بھی بجٹ میں تجویزنہیں۔


     خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • بجٹ 19-2018، عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ مطالبات سامنے آگئے

    بجٹ 19-2018، عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ مطالبات سامنے آگئے

    کراچی: وفاقی حکومت آج آئندہ مالی سال 19- 2018 کے لیے بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، عوام حکومت سے کیا ریلیف چاہتے ہیں؟ اس ضمن میں اے آر وائی نیوز نے صارفین کی آراء حاصل کیں۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت کل چھٹا اورآخری بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس پر اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی جانب سے تنقید بھی جاری ہے کیونکہ بعض سیاسی رہنماؤں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومتی مدت آئندہ ماہ ختم ہورہی ہے، ایسے میں مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

    اے آر وائی نیوز نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اور عوام کو پلیٹ فارم فراہم کیا کہ وہ اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچائیں، عوام نے جہاں حکومت سے مختلف مطالبات کیے وہیں مفت تعلیم، لوڈ شیڈنگ، پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتوں کے نئے، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے ساتھ ضروریات زندگی فراہم کرنے پر زور دیا۔

    مزید پڑھیں: حکومتی اقتصادی سروے 2017-18 جاری، ترقی کی شرح 5.8 فیصد، غربت میں کمی

    جن صارفین نے مطالبات پیش کیے انہیں اے آر وائی نیوز حکمرانوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ جمہوری حکومت عوامی مسائل کو حل کرسکے۔

    عائشہ ظہیر نامی صارف کا کہناتھا کہ ’ٹیکس کم اور غریبوں کو تعلیم کی سہولت آسان و یقینی بنائی جائے، بے روزگار افراد کو مواقع فراہم کیے جائیں اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کو بھی برابر کے حقوق ملنے چاہیں‘۔

    عبدالوہاب نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’بجٹ جون میں بنتا ہے اور حکومت کی مدت مئی میں ختم ہورہی ہے، موجودہ حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں کیونکہ چار ماہ کا منی بجٹ پیش کرنا نگراں حکومت جبکہ آئندہ مالی سال کا بجٹ نئی حکومت کی
    ذمہ داری ہے‘۔

    تکنیکی طور پر مطلوبہ صارف کے مطالبے پرعمل درآمد ممکن نہیں کیونکہ عبوری حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کا اختیار نہیں ہوتا(ادارہ)۔

    اسٹیفن اختر نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’میری ایک پاکستانی ہونے کے ناطے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ غریب لوگوں پر رحم کیا جائے، اُن کے بچوں کا بھی دودھ اور روٹی پر اُتنا ہی حق ہے جتنا کسی امیر کا ہے، خدارا اس بجٹ میں غریبوں کا خاص خیال رکھا  جائے‘۔

    صغریٰ قریشی کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے اور خصوصاً سندھ کے غریب باصلاحت طالب علموں کو اسکالر شپ فراہم کی جائیں تاکہ پاکستان کا مستقبل سنور سکے‘۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’نوجوانوں کو مستقبل ملازمتیں فراہم کی جائیں‘۔

    ملک یعقوب نامی صارف کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں موجود کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے، نظام تعلیم کو جدید سلیبس سے بہتر بنایا جائے اور اسکولوں میں موجود اساتذہ کی کمی کے ساتھ فرنیچر، چوکیدار کی سہولیات بھی فراہم کی جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کو فوری طور پر ختم کیا جائے‘۔ اُن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ’صحت کا بجٹ بڑھایا جائے اور ہر یونین کونسل کی سطح پر کم از کم 20 بستروں پر مشتمل جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال بنائے جائیں‘۔

    مہک خان نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی یافتہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جائیں اور سرکاری و پرائیوٹ ملازمین کی تنخواہوں کو برابر کیا جائے‘۔

    آسیہ علی نے مطالبہ کیا کہ ’بجٹ میں پینشنرز کا ضرور خیال رکھا جائے‘

    دلاور راجپوت نامی صارف کا کہناتھا کہ ’زراعت، صحت اور تعلیم کے لیے بہتر اقدامات کیے جائیں‘

    فیض فیضی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’ بینک میں پیسے نکلوانے اور جمع کروانے، موبائل بیلنس اور کالز پر عائد ٹیکس کم کردیں، شعبہ تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے‘۔

    محمد افسر علی نے مطالبہ کیا کہ 55 سال سے زائد عمر کے ہر پاکستانی (مرد، عورت) کو اولڈ ایج بینفٹ دیا جائے۔

    چوہدری لیاقت نے مطالبہ کیا کہ ’اولڈ ایج بینیفٹ کی نوکری کی معیاد 15 سال سے کم کی جائے اور عمر کی حد 50 سال مقرر کی جائے‘۔

    غلام عباس نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’مزدور کی تنخواہ کم از کم 20 ہزار کی جائے کیونکہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے تنخواہیں بہت کم ہیں‘۔

    خادم حسین قادری نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے گریجویٹ و نان گریجویٹ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع، اعلیٰ تعلیم، شعبہ صحت میں اے گریڈ میڈیسن کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے‘۔

    معصوم نیازی نے مطالبہ کیا کہ  محکمہ پولیس کی تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافہ کیا جائے۔

    ابوہوا نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’عوام کو مفت شناخت اور مفت قبر مہیا کی جائے‘۔

    اقصیٰ نیازی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’کنٹریکٹ ڈاکٹرز کو مستقل نوکری فراہم کی جائے‘۔

    محمد طیب مغل نامی صارف نے مطالبہ کیا کہ ’غریبوں کو بالکل مفت طبی سہولیات دی جائیں‘۔

    ٹویٹر پر بھی صارفین نے مطالبات پیش کیے

     


    نوٹ: فیس بک پوسٹ پر سیکڑوں صارفین نے کمنٹس کیے تاہم ادارے نے قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ معیار اور تہذیب و اخلاق کے دائرے میں کیے گئے کمنٹس کو اسٹوری میں شامل کیا ہے، عوامی سنجیدگی اور اُن کی آراء کو حکمرانوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔

  • حکومتی اقتصادی سروے 2017-18 جاری، ترقی کی شرح 5.8 فیصد، غربت میں کمی

    حکومتی اقتصادی سروے 2017-18 جاری، ترقی کی شرح 5.8 فیصد، غربت میں کمی

    اسلام آباد: حکومت نےاقتصادی سروے17-2018جاری کردیا جس کے مطابق ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح 5.8 فیصد رہی اور غربت میں کمی ہوئی، وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ 2013 میں پاکستان کی معیشت اور ریاست کئی بحرانوں کا شکار تھی جسے موجودہ حکومت نے ختم کیا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2013 میں 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول تھی جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہوئیں اور سیکڑوں مزدور بے روز گار ہوئے، ماہرین پانچ سال قبل خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ توانائی بحران کی وجہ سے خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ 2013میں پاکستان کی معیشت اور ریاست کئی بحرانوں میں مبتلا تھی، ملک توانائی کے بحران نے بری طرح گھیرا ہوا تھا، کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ معمول تھی جس کی وجہ سے سرمایہ کار ملک چھوڑ کر گئے۔

    احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2008سے2012کےدرمیان شرح نمو 3فیصد تک تھی، بدقسمتی سے14سال پہلے پاکستان کے پاس معاشی حکمتِ عملی سے متعلق کوئی فریم نہیں تھا تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ کام شروع کیا جس کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی انفرااسٹریکچر اکانومی بن گیا۔

    مزید پڑھیں: اقتصادی سروے رپورٹ: معاشی ترقی کی شرح پونے چھ فیصد سے زائد

    اُن کا کہنا تھا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کو300سے 1000ارب روپےپر لائے،  پاکستان میں 11ہزار میگاواٹ بجلی 4 سالوں کے دوران سسٹم میں شامل ہوئی جس کی وجہ سے ملک میں لوڈ شیڈنگ بہت کم ہوئی علاوہ ازیں انتہاپسندی کےخاتمےکیلئےسیکیورٹی آپریشن کو اپنے بجٹ سے شروع کیا اور حکومت نے ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔

    [bs-quote quote=”مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ کام شروع کیا جس کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی انفرااسٹریکچر اکانومی بن گیا۔” style=”default” align=”center” author_name=”احسن اقبال” author_job=”وفاقی وزیر داخلہ” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/04/ahsan-iqbal-60×60.jpg”][/bs-quote]

    وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ خوشی ہےرواں سال جی ڈی پی گروتھ ریٹ 5.8فیصد پرآچکا گزشتہ سال سیاسی بحران نے ملک میں بےیقینی پیدا کی تھی اگر سیاسی بحران نہ ہوتا تو جی ڈی پی کو 6.1 فیصد پر لے جاچکے ہوتے، پانچ سال پہلے پاکستان کی اوسط شرح 3فیصد تھی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ چھالیس ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے میں مختصر مدت میں 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوچکی جو آسان کام نہیں، حکومت نے ساڑھے1700کلومیٹر موٹروے کی تعمیر شروع کی اس کے علاوہ 2025 تک 15 ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے بھی بنائے کیونکہ ترقیاتی منصوبوں میں پاور پراجیکٹس ہماری اولین ترجیح ہے۔

    اس موقع پر مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ گذشتہ چار برسوں کے دوران زراعت میں 3.81 فیصد اضافہ ہوا اور مہنگائی کی شرح 13سال کی کم ترین سطح پر آئی کیونکہ اس کی شرح ماضی میں 7.38فیصد تھی جو اب کم ہوکر 3.8فیصد ہوگئی، سن 2013 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 1946 ارب روپے حاصل کیے تھے مگر اب ایف بی آر کا ہدف 3900 ارب روپے سے زائدہے، موجودہ مالی سال میں3900ارب روپےسےزائدکاریونیو اور جی ڈی پی 11فیصد رہی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ  حکومت نےتمام وعدےپورےکیے، برآمدات میں بھی اضافہ ہوا تاہم تین سالوں کے دوران ملکی برآمدات میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے جاری کھاتے کا خسارہ بھی 2 سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگیا۔

    مفتاح اسماعیل کا کہنا تھاکہ 3ماہ کے لیے عبوری بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں اس لیے وفاقی حکومت ایک سال کا ہی بجٹ پیش کرے گی اور صوبے بھی اس پر عمل کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کریں گے۔ مشیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم کسی کےچوری کے پیسے کے لیے نہیں لائے بلکہ ٹیکس ریٹ کم کر کے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ اپنی سرمایہ کاری واپس لائے ۔

    سوال کا جواب دیتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم 1990اور 1960 میں 2کیچ ڈراپ کرچکے ہیں جس کی وجہ سے معیشت کو دھچکا بھی لگا،  اب سی پیک کے ذریعے ہمیں تیسری بار موقع ملا اگر ہم نے فائدہ اٹھا لیا تو پاکستان دنیا کی بڑی معیشتوں میں جلد شامل ہوجائے گا۔

    ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10سال میں غربت کی شرح میں کمی آئی ہے، سیاسی استحکام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس لیے ہمیں سیاسی ایڈونچر سے پرہیز کرنا ہوگا۔

    Card

     


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • حکومت چار ماہ کے مینڈیٹ سے آگے نہ بڑھے، خورشید شاہ

    حکومت چار ماہ کے مینڈیٹ سے آگے نہ بڑھے، خورشید شاہ

    اسلام آباد: اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ چار ماہ کے مینڈیٹ سے آگے نہ بڑھے، حکومت صرف روزمرہ اخراجات کا بجٹ پیش کرے۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما نے عوامی نمائندوں سے سیکورٹی واپس لینے کے معاملے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، بے نظیر واقعہ بھی اسی وجہ سے ہوا تھا۔ کسی سیاست دان کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو الزام عدالت پر آئے گا۔

    انھوں نے کہا کہ میں ہر جگہ اور ہروقت ایک ہی بات کہتا ہوں کہ اداروں کا ٹکراؤ خطرناک ہے، حکومت اور عدلیہ خطرناک موڑ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    میں ایک سیاسی ورکر ہوں اس لیے اس صورت حال پر فکرمند ہوں، کہیں نظام ہی ریزہ ریزہ نہ ہوجائے۔ معافی چاہتا ہوں نواز شریف کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیئں لیکن عدالت کو بھی ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

     

    حکومت اور عدلیہ کا ٹکراؤ خطرناک موڑ کی جانب بڑھ رہا ہے: خورشید شاہ

    سیکوٹی ہٹانے کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اسفند یار ولی اور فضل الرحمان پر بھی حملے ہوئے، پرویز مشرف نے بے نظیر کی سیکورٹی ہٹادی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سیاست نہیں کرتی، دعا ہے اللہ میری بہن کلثوم نوازکو صحت دے، وہ جمہوریت کے لیے لڑیں۔

    نگراں وزیراعظم کیلئے غیرجانبدار شخص کا انتخاب کیا جائے گا، خورشید شاہ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اقتصادی سروے رپورٹ: معاشی ترقی کی شرح پونے چھ فیصد سے زائد

    اقتصادی سروے رپورٹ: معاشی ترقی کی شرح پونے چھ فیصد سے زائد

    اسلام آباد: رواں مالی سال کی اقتصادی سروے رپورٹ آج جاری کی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی کی شرح پونے چھ فیصد سے زائد رہی۔

    تفصیلات کے مطابق اقتصادی سروے کے اعداد و شمار اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلیے۔

    سروے کے مطابق اقتصادی ترقی کی شرح 5.4 فیصد رہی، شرح نمو مقررہ ہدف سے کم رہی تاہم ترقی کی شرح 11 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔

    سروے کے مطابق خدمات میں ترقی کی شرح 6.43 رہی۔ گزشتہ سال ترقی کی شرح 6.4 فیصد رہی تھی۔ فنانس اور انشورنس میں ترقی کی شرح 6.13 فیصد رہی جبکہ رواں سال کا ہدف 9.5 فیصد تھا۔

    اقتصادی سروے کے مطابق ہاؤسنگ شعبے میں ترقی کی شرح 4 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے ٹرانسپورٹ میں ترقی کی شرح 3.58 فیصد رہی۔ کمیونیکشن میں 5.1 فیصد ترقی کی شرح رہی جبکہ ہول سیل ریٹ ٹریڈ میں 7.51 فیصد اضافہ ہوا۔

    اے آر وائی نیوز کو موصول دستاویز کے مطابق فی کس آمدنی 1 لاکھ 80 ہزار 204 روپے رہی۔ گزشتہ سال فی کس آمدنی 1 لاکھ 62 ہزار 230 روپے تھی۔

    زرعت میں 3.81 فیصد اضافہ ہوا، فصلوں کی پیداوار میں اضافے کی شرح 3.57 فیصد رہی۔ رواں سال زراعت کا ہدف 2 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔

    سروے کے مطابق چاول کی پیداوارمیں 8.7، گنے کی پیداوار میں 7.4 فیصد، کپاس میں 11.8 اور گندم کی پیداوار میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا۔

    دوسری جانب مکئی کی پیداوار میں 7.1 فیصد کمی ہوئی اور لائیو اسٹاک میں ترقی کی شرح 3.7 فیصد رہی۔

    اقتصادی سروے کے مطابق فشری میں ترقی کی شرح 1.63 اور صنعتی سیکٹر میں ترقی کی شرح 5.8 فیصد رہی۔ مینو فیکچرنگ میں ترقی کی شرح 6.13 اور سیمنٹ سیکٹر میں ترقی کی شرح 12 فیصد رہی۔

    پیٹرولیم مصنوعات میں 10.26 فیصد، گیس اور بجلی میں 1.84 فیصد اضافہ ہوا جبکہ تعمیرات میں ترقی کی شرح 9.13 فیصد رہی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حکومت کا بجٹ پیش کرنا الیکشن سے پہلے دھاندلی ہے، بلاول بھٹو زرداری

    حکومت کا بجٹ پیش کرنا الیکشن سے پہلے دھاندلی ہے، بلاول بھٹو زرداری

     اسلام آباد : پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جانے والی حکومت کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کاحق نہیں یہ پری پول ریگنگ ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ موجودہ حکومت صرف 3یا 4ماہ کا بجٹ پیش کرسکتی ہے، صرف عوام کے ووٹ سے آنے والی حکومت کو ہی بجٹ پیش کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

    جانے والی حکومت کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کاحق نہیں، اس حکومت کی جانب سے بجٹ کا پیش کیا جاناپری پول ریگنگ کے مترادف ہے۔ ن لیگ کی حکومت کو آنے والی پارلیمنٹ کا بجٹ کھانے کا کوئی حق نہیں ہے، حکومت کوئی بھی قدم ذاتی مفاد کے لئے نہیں اٹھاسکتی۔

    پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ملک میں عوام کے مسائل کے حل کی بات نہیں ہورہی، کسی ادارے کے قانون کو اپنے مفاد کیلئے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

    پیپلز پارٹی کو خیر باد کہنے والے ندیم افضل چن کی تحریک انصاف میں شمولیت سے متعلق بلاول بھٹو نے ان کا نام لیے بغیر کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ کافی لوگ پیپلزپارٹی سے الگ ہوئے ہیں، پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کو کبھی وہ مقام نہیں ملا جو وہ چاہتے ہیں۔

    لوٹا ازم جمہوریت کے لئےٹھیک نہیں ہے، سیاست میں آنیوالی نوجوان نسل سے میں یہ توقع نہیں رکھتا، پلی بارگین سمیت دیگر معاملات کو دیکھنا ہوگا۔

    بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی حکومت میں آکر نیب قوانین کو مزید مضبوط کریگی، میں عمران خان یا نوازشریف کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا، فی الحال میری توجہ اس پر ہے کہ پیپلزپارٹی الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں لے کرکامیاب ہو۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیاپر شیئر کریں۔

  • کچھ صوبے ترقیاتی اسکیمیں وفاقی بجٹ میں شامل کرانا چاہتے ہیں، احسن اقبال

    کچھ صوبے ترقیاتی اسکیمیں وفاقی بجٹ میں شامل کرانا چاہتے ہیں، احسن اقبال

    اسلام آباد : وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل بجٹ کی منظوری نہیں دیتی، کچھ صوبے ترقیاتی اسکیمیں وفاقی بجٹ میں شامل کرانا چاہتے ہیں۔

    یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ فنانس بل کا حصہ ہوتا ہے، بجٹ فنانس بل کی منظوری قومی اسمبلی سے لی جاتی ہے۔

    قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے واک آؤٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تین وزرائے اعلیٰ کا مؤقف تھا کہ بجٹ3ماہ کا بنایا جائے جبکہ وفاقی بجٹ پورے سال کیلئے بنانا ضروری ہے اور قومی اقتصادی کونسل بجٹ کی منظوری نہیں دیتی، وفاقی حکومت 3ماہ کیلئے ٹیکس اور پالیسی نہیں لاگو کرسکتی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ18ویں ترمیم کےبعد صوبائی اسکیمیں وفاق کے دائرہ کار سے نکل چکی ہیں، وفاقی ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ اب قومی انفراسٹرکچر تک محدود ہے۔

    کچھ صوبے ترقیاتی اسکیمیں وفاقی بجٹ میں شامل کرانا چاہتے ہیں، احسن اقبال نے کہا کہ پسماندہ صوبوں کیلئے ہمیشہ خصوصی فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، وفاق نے بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کیلئے ریکارڈ فنڈز جاری کیے۔

    علاوہ ازیں مشیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ تینوں وزرائے اعلیٰ کا اجلاس سے واک آؤٹ محض سیاست تھی۔

    صوبائی حکومتوں سے مشورے کے بعد پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، پی ایس ڈی پی میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں لا رہے، بجٹ لانے کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا اسی لئے صوبائی حکومتوں کو بھی بجٹ پیش کرنے کا کہا۔

    مزید پڑھیں: نئے سالانہ بجٹ پر اختلافات، تین صوبوں کا قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے واک آؤٹ

    واضح رہے کہ نئے سالانہ بجٹ پر اختلافات کے باعث تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے  احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

    مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  ان کا مؤقف تھا کہ وفاقی حکومت اگلے سال کے لیے پی ایس ڈی پی نہ بنائے، اس میں چھوٹے صوبوں کا خیال نہیں رکھا گیا نہ ہم سے سفارشات لی گئیں۔

    پوچھنے پر وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے لیے آپ کی اجازت کی ضرورت نہیں، جب ہماری ضرورت ہی نہیں تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نئے سالانہ بجٹ پر اختلافات: تین صوبوں کا قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے واک آؤٹ

    نئے سالانہ بجٹ پر اختلافات: تین صوبوں کا قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے واک آؤٹ

    اسلام آباد: بجٹ اور ترقیاتی پروگراموں پر وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آگیا، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے وزرائے اعلیٰ نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس سے واک آؤٹ کے بعد تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ پریس کانفرنس کیا۔

    مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا پی ایس ڈی پی (پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) موجودہ حکومت نہیں بنا سکتی کیوں کہ یہ مئی میں ختم ہوجائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اگلے سال کے لیے پی ایس ڈی پی نہ بنائیں، اس میں چھوٹے صوبوں کا خیال نہیں رکھا گیا نہ ہم سے سفارشات لی گئیں، وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے لیے آپ کی اجازت کی ضرورت نہیں، جب ہماری ضرورت ہی نہیں تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت غیر آئینی کام کررہی ہے اس لیے کونسل میں آج پی ایس ڈی پی منظور نہیں کیا گیا، ہم سندھ میں ضمنی بجٹ پاس کریں گے سالانہ بجٹ نہیں۔

    بجٹ منظوری کے لئے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس آج ہوگا

    مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ ہم کسی بھی صورت میں حکومت کا بجٹ نہیں مانیں گے، ہماری سفارشات کو رد کرکے ترقیاتی بجٹ میں من مرضی کے منصوبے شامل کیے جارہے ہیں۔

    پرویز خٹک نے کہا کہ ہم سب کا یہی نقطہ نظر تھا کہ ’وزیر اعظم آپ انصاف نہیں کر رہے ہیں، اگر ہمارا حق نہیں ہے تو پھر ہمیں نہ بلایا کریں۔‘

    وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ہم نے اجلاس میں کہا کہ دو تین مہینے باقی ہیں، صرف اس کا بجٹ پیش کریں اور باقی بجٹ آنے والی حکومت کو بنانے دیا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔