Tag: budget 2024-25

  • بجٹ : فائدے میں کون رہا اور نقصان کس کا ہوا؟

    بجٹ : فائدے میں کون رہا اور نقصان کس کا ہوا؟

    حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کردیا، اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس بار تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا لیکن اس کے برعکس ہوا۔

    بجٹ پیش کرنے سے قبل یہ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ ٹیکس صرف ان پر لگے گا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے لیکن بد قسمتی سےان پر ہی مزید بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے سے ہی ٹیکس کی ادائیگی کررہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے اس سارے معاملے پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ملک میں ٹیکس کون دیتا ہے؟ اور موجیں کس کی ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال تنخواہ دار طبقے نے 234 ارب روپے ٹیکس دیا، اس کے مقابلے میں ریئل اسٹیٹ نے صرف 8 ارب روپے جبکہ زرعی شعبے نے بھی 8 ارب روپے ادا ئیگی کی۔

    اس کے علاوہ ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز نے کُل ملا کر 175 ارب روپے ٹیکس دیا جس سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ ان سب کو ملاکر بھی دیکھا جائے تو تنخواہ دار طبقہ ان سے زیادہ ٹیکس ادا کررہا ہے۔

    حالیہ بجٹ میں قوی امید تھی کہ بہت سخت قسم کے ٹیکس عائد کیے جائیں گے آیئے ان ٹیکسز پر نظر ڈالتے ہیں۔

    موجودہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر کم سے کم اور 5 اور زیادہ سے زیادہ 35 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس طبقے پر 75 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔

    رئیل اسٹیٹ پر 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی لگائی گئی ہے جبکہ ٹریڈرز پر صرف 1 فیصد سے سوا دو فیصد لگایا گیا اور ایگریکلچر پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں فائدے میں کون ہے اور نقصان کس کا ہوا؟ سب سے پہلے سرکاری ملازمین بہت فائدے میں ہیں ان کی تنخواہ 25فیصد بڑھی ہے۔ پینشنرز کی پینشن میں بھی 15 فیصد اضافہ کیا گیا، ٹریڈرز بھی بہت فائدے میں رہے۔

    اس بجٹ سے نقصان میں کون ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، ان کا ٹیکس سلیب بڑھا دیا گیا ہے، اب کم از کم 50 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ لینے والے کو ٹیکس دینا ہوگا۔

    ماریہ میمن نے انکشاف کیا کہ جو لوگ بجٹ بناتے ہیں ان کو تین مہینے کی اضافی تنخواہ ادا کی جاتی ہے، اس موقع پر انہوں نے تیمور سلیم جھگڑا کا ایک بیان بھی نشر کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ فنانس ڈویژن کے 5ہزار ملازمین کو اضافی تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ کام صرف 10 سے 12لوگ کرتے ہیں۔

  • ملک چلانا ہے تو مزید ٹیکس لگانا ہوں گے، وزیرخزانہ

    ملک چلانا ہے تو مزید ٹیکس لگانا ہوں گے، وزیرخزانہ

    اسلام آباد : وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ساڑھے9فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح سے ملک چلانا ہے تو ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگانا ہونگے۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر مہر بخاری کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے موجودہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسز سے بچا کر دونوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

    وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ بی آئی ایس پی کیلئے فنڈز کہاں سے اٹھا کر کہاں لے گئے ہیں، پہلی مرتبہ کیپسٹی بلڈنگ اور اسکل ڈیویلپمنٹ پرکام کرینگے، ہمیں معیشت سےمتعلق ایک مستحکم راستے پر چلنا ہوگا۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا نفاذ بطور ہنگامی اقدام رکھا گیا ہے، جہاں ریونیو شارٹ فال ہوگا تو تب پی ڈی ایل کا اطلاق ہوگا۔

    محمد اورنگزیب نے کہا کہ ساڑھے9فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح سے یہ ملک نہیں چل سکتا،اگر اسی شرح سے ملک چلانا ہے تو ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگانا ہونگے، ہم نے رواں سال تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز نہیں لگائے۔

    نان فائلرز ہونے ہی نہیں چاہئیں

    نان فائلر سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ نان فائلرز کو جس طرف لے کر جارہے ہیں انہیں فائلر بننا ہوگا، بڑے فیصلے نہیں کریں گے تو معیشت کو بہتر کرنا مزید مشکل ہوجائے گا،
    ملک میں نان فائلرز ہونے ہی نہیں چاہئیں۔

    وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ اسٹرکچرل سائٹ پر انکم ٹیکس، سیلزٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ایک سمت میں لے جانا ہے، ریونیو کے حصول کیلئے ہمیں یہ اقدامات لازمی کرنا ہوں گے،

    محمد اورنگزیب کے مطابق تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کا استثنیٰ6 لاکھ پر برقرار رکھا گیا ہے،
    غیر تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس45فیصد کرنے کی تجویز ہے، ہمیں محدود مدت کیلئے کچھ اقدامات کرنا تھے۔

    عوام کی قوت خرید بڑھائیں گے

    انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح12فیصد پر آچکی ہے،ہم عوام کی قوت خرید بڑھائیں گے، مہنگائی کا ہمیں بھی ادراک ہے، کابینہ ارکان نے کہا ہے کہ ہم تنخواہ نہیں لیں گے۔

    تمام چیزیں پرائیویٹ سیکٹر کو دے دینی چاہئیں

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو ہر کاروبار سے نکالنا ہے، ہماری کوشش ہے کہ تمام چیزیں پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھ میں دے کر اسی سیکٹر کو آگے رکھا جائے، جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ وزیراعظم نے پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔

    غیر ضروری محکمے بند کرنے کی تجویز

    انہوں نے کہا کہ کچھ ماہ دے دیں، وزیراعظم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو بااختیار بھی ہوگی، کمیٹی غیر ضروری محکموں اور اداروں کو بند کرنے کی تجاویز دے گی، دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سے ادارے پرفارم کررہے ہیں اور کون سے نہیں۔

    محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے صوبوں سے مشاورت شروع کردی ہے سب اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، ایک ہی کشتی میں ہم سب سوار ہیں ایسا نہ ہو پوری کشتی ہی ڈوب جائے۔

    ٹیکس روینیو مزید بڑھائیں گے

    وزیر خزانہ کے مطابق فیصلہ ہوگیا ہے کہ ڈسکوز کے بورڈ ممبران پرائیویٹ سیکٹر سے ہوں گے، رواں سال30فیصد ریونیو بڑھادیا، آئندہ سال38فیصد تک بڑھائیں گے۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبائی معاملات میں خود سے فیصلے نہیں لیے جا سکتے، ان مشاورت ضروری ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا ہوگا، صوبوں کیساتھ مشاورت شروع کی ہے اور اسی کو آگے لے کر چلیں گے۔

    جاری منصوبوں کیلئے ترقیاتی بجٹ میں رقم رکھی گئی ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی سندھ کی پالیسی سے وفاق کو سیکھنا چاہیے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پرسندھ حکومت کی تعریف کرتا ہوں۔

    سرکاری ملازمین کی پنشن

    سرکاری ملازمین کی پنشن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پر کام کررہے ہیں، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی جاری ہے، پنشن کھربوں روپے میں ہے اسے درست کرنے کی ضرورت ہے، کوشش کریں گے پنشن کو فنڈڈ کیا جائے۔

  • نیا بجٹ : عوام ہوشیار، مزید ٹیکسزعائد کرنے کی تیاریاں

    نیا بجٹ : عوام ہوشیار، مزید ٹیکسزعائد کرنے کی تیاریاں

    آئندہ مالی سال پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا ریلیف عوام کو منتقل نہ کیے جانے کا قوی امکان ہے، اس کے علاوہ بجٹ میں مزید نئے ٹیکسز بھی عائد کیے جائیں گے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’خبر مہر بخاری کے ساتھ‘ میں اینکر  نے اپنا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا۔

    انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ پیش کیے جانے سے دو دن قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مسسل چھ بار شرح سود کو 22 فیصد تک برقرار رکھنے کے بعد شرح سود میں بالآخر ڈیڑھ فیصد کمی کا اعلان کردیا۔

    شرح سود

    آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی دیکھنے میں آئی، جس کے بعد کے ایس ای ہینڈرڈ انڈیکس 501پوائنٹ کی کمی کے ساتھ 73252 پوائنٹ پر بند ہوا۔

    اس حوالے سے مانیٹری پالیسی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی کی وجہ سے شرح سود کم کی گئی ہے، جس کے بعد بنیادی شرح سود 22 فیصد سے کم ہوکر 20اعشاریہ5فیصد پر آگئی ہے۔

    وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ پلان کا جائزہ لیے جانے کے علاوہ 13ویں 5سالہ منصوبے کی منظوری دی گئی اس کے علاوہ معاشی ترقی کا ہدف اوسطاً 5اعشاریہ ایک فیصد رکھا گیا ہے۔

    مہر بخاری کے مطابق ترقیاتی بجٹ میں پیسہ ایسے وقت میں رکھا گیا ہے جب آئی ایم ایف ترقیاتی بجٹ میں کمی کا مطالبہ کررہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا اس پر کیا ردعمل ہوگا؟

    آئی ایم ایف مذاکرات میں جانے سے قبل حکومت نے سابقہ ٹیکس چھوٹ برقرار رکھتے ہوئے ٹیکس اہداف میں اضافہ کیا ہے، ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کیلئے ٹیکس ہدف 12ہزار9سو ارب روپے رکھا جائے گا جو پہلے کی نسبت 40فیصد زیادہ ہے یعنی عوام کو مزید 40فیصد ٹیکس زائد ادا کرنا ہوگا مذکورہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے کی جیبوں سے نکالا جائے گا۔

    اس کے علاوہ ذرائع کے مطابق حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر ابتدائی مراحل میں 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم لیوی پر فی لیٹر 20 روپے اضافہ کرسکتی ہے۔

    مہر بخاری کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال میں فنانس بل میں تمام سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی بھی تجویز ہے، سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے سے تقریباً 550ارب روپے اضافی آمدن متوقع ہے۔
    اضافی ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے سیلز ٹیکس کی شرح 18 سے بڑھاکر 19 فیصد کرنے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے کی بھی توقع کی جارہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان اقدامات کے علاوہ حکومت کمرشل امپورٹرز پر عائد ڈیوٹی کو مزید ایک فیصد بڑھانے سے 50 ارب رپے اکھٹے کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ تمام اقدامات آئی ایم کے طویل مدتی پروگرام کے حصول کیلیے کررہا ہے لیکن تاحال مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔

    یاد رہے کہ کسی بھی حکومت کو اپنے محاصل کو بڑھانے کے لیے مختلف شعبوں میں ٹیکس لاگو کرنا پڑتا ہے اور اگر اس سے بھی گزارا نہ ہو تو ٹیکس کی شرح کو بڑھانا پڑتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی دولت یعنی جی ڈی پی کا محض 10 فی صد سے بھی کم ٹیکس کی مد میں جمع ہو پاتا ہے۔ جس کا بڑا حصہ تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے۔

  • عوام ہو جائیں ہوشیار، بجٹ ہے تیار، 7 ہزار اشیا پر اضافی سیلز ٹیکس لگانے کا فیصلہ

    عوام ہو جائیں ہوشیار، بجٹ ہے تیار، 7 ہزار اشیا پر اضافی سیلز ٹیکس لگانے کا فیصلہ

    آئندہ مالی سال 25-2024 کے لیے وفاقی بجٹ کل پیش کیا جائے گا جس میں ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس ہدف رکھا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کو ذرائع سے ملنے والے اطلاعات کے مطابق آئندہ مالی سال 25-2024 کے لیے کل پیش ہونے والے وفاقی بجٹ میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا ہے اور ٹیکس ہدف میں 3440 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیلیے 12 ہزار 900 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا جائے گا۔

    ذرائع ایف بی آر کے مطابق آئندہ بجٹ میں 2 ہزار ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے کیلیے نئے ٹیکسز لگانے، سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز ہے۔ 7 ہزار اشیا پر اضافی سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، جس کے نتیجے میں چینی، چاول، دالیں، دودھ، آٹا، چائے کی پتی، تیل، گھی، بچوں کے ڈائپر سمیت ضرورت زندگی کی ہر چیز مہنگی ہونے کا امکان ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات پر ابتدائی مراحل میں 6 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر 6 فیصد سیلز ٹیکس سے تقریباً 600 ارب روپے ریونیو متوقع ہے جب کہ آئندہ مالی سال کیلیے فنانس بل میں تمام سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز بھی تیار کی جا رہی ہے۔

    آئندہ بجٹ میں ڈبے میں بند دودھ پر سیلز ٹیکس لگانے کا امکان ہے۔ سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے سے تقریباً 550 ارب روپے اضافی آمدن کا امکان ہے جب کہ اضافی ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلیے سیلز ٹیکس شرح مزید ایک فیصد مزید بڑھانے کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

    سیلزٹیکس کی شرح 18 فیصد سے بڑھ کر 19 فیصد تک پہنچ جائے گی اور ذرائع کے مطابق سیلز ٹیکس شرح بڑھنے سے تقریباً 100 ارب روپے اضافی ریونیو متوقع ہے۔

    ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سیلز ٹیکس کا ایک فیصد اضافہ مختلف برانڈ کی 7 ہزار مصنوعات پر ہو سکتا ہے۔ کمرشل درآمد کنندگان کیلیے درآمدی ڈیوٹیز ایک فیصد بڑھانے کی تجویز زیرغور ہے جب کہ کمرشل درآمد کنندگان پر ڈیوٹیز کی شرح بڑھانے سے 50 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

    ذرائع ایف بی آر کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس کی شرح بڑھنے  سےمہنگائی کی شرح آئندہ مالی سال بھی بڑھنے کا خدشہ ہوگا جب کہ آئندہ بجٹ کیلیے تمام ٹیکس تجاویز آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کر دی گئی ہیں۔ بجٹ میں 700 ارب روپے مزید حاصل کرنے کیلیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی پر سیلز ٹیکس 18 سے 19 فیصد ہونے سے چینی فی کلو 5 روپے تک مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ ایک فیصد سیلز ٹیکس بڑھنے سے گھی 5 سے 7 روپے کلو مہنگا، خوردنی تیل بھی 5 سے 7 روپے لیٹر مہنگا، صابق 2 سے 5، شیمپو 15 سے 20 روپے تک مہنگا ہونے کا امکان ہے۔

    اسی طرح ایک فیصد سیلز ٹیکس بڑھنے سے ٹوتھ پیسٹ کی قیمت میں 5 سے 7 روپے اضافہ، ٹوتھ برش 5 سے 7 روپے مہنگا، پالش 3 سے 5 روپے اضافے کا امکان ہے۔

    سیلز ٹیکس 18 سے 19 فیصد کیے جانے کے بعد مشروبات کی فی لیٹر بوتل 5 سے 7 روپے مہنگی ہونے، لاش شربت بھی 5 سے 7، کاربونیٹڈ ڈرنکس بھی 5 سے 7 اور شربت پاؤڈر 5 سے 7 روپے پیکٹ، باتھ روم دھونے کی لیکوڈ بوتل 10 سے 15 روپے مہنگی ہونے کا امکان ہے۔

    ایک فیصد سیلز ٹیکس میں اضافہ دہی کو بھی 7 سے 10 روپے مہنگا، پاؤڈر دودھ کو 20 سے 30 روپے فی پیکٹ مہنگا، ’فیٹ ملک‘ 5 سے 7 روپے لیٹر مہنگا ہو سکتا ہے۔

    اس کے علاوہ الیکٹرانکس، میک اپ، بال رنگنے والی اشیا، کپڑے، مختلف برانڈز کے ملبوسات، چمڑے کی مصنوعات میں بھی اضافہ ہوگا۔

    مسالہ جات کے درجنوں آئٹمز مہنگے ہوں گے جب کہ چائے اور قہوہ سمیت درجنوں برانڈ کے بیکنگ آئٹمز، نوڈلز، اسپگیٹی، پاستہ مصنوعات، بچوں کے ناشتے کے درجنوں سیریلز، دلیہ، جام جیلی، مارملیڈ، ٹشو، پیپر نیپ کن، بچوں کے ڈائپر بھی مہنگے ہو سکتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک فیصد ٹیکس کے بڑھنے سے برتنوں کی سیکڑروں اشیا مہنگی ہونے کا امکان ہے جب کہ لوشن، کریم، مصنوعی زیورات، پرفیوم، باڈی اسپرے، کیمرہ، اسمارٹ واچ اور گھڑیاں بھی مزید مہنگی ہو سکتی ہیں۔

  • سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے لیے بری خبر

    سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے لیے بری خبر

    اسلام آباد: سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے لیے بری خبر ہے، آئندہ وفاقی بجٹ میں سگریٹ مزید مہنگے ہونے کا امکان ہے۔

    ذرائع وزارت صحت کے مطابق سگریٹ کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق سفارشات مرتب ہو رہی ہیں، جب کہ این جی اوز کی جانب سے سگریٹ پر ٹیکسز سے متعلق مرتب شدہ سفارشات وزارت صحت کو مل چکی ہیں۔

    این جی اوز نے سگریٹ پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ سگریٹ ایف ای ڈی میں 26.6 فی صد اضافہ کیا جائے۔ وزارت صحت این جی اوز اور ٹی سی سی کی سفارشات پر غور کر رہی ہے، ٹوبیکو کنٹرول سیل نے اس پر اپنی سفارشات تیار کر لی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت صحت سگریٹ قیمتوں سے متعلق سفارشات کو رواں ہفتے حتمی شکل دے کر وزارت خزانہ کو بھجوا دے گی، سگریٹ پیکٹ پر ایف ای ڈی میں 15 سے 19 فی صد تک اضافے کا امکان ہے، حکومت نے سگریٹ پیکٹ کی کم سے کم قیمت 127 روپے مقرر کی ہے، جب کہ حکومت ایک سگریٹ پیکٹ پر 120 روپے 44 پیسے ٹیکسز لے رہی ہے۔

    ملک میں لوکل انڈسٹری کا سگریٹ پیکٹ 90 روپے میں فروخت ہو رہا ہے، ملٹی نیشنل سگریٹ ساز کمپنیوں نے گزشتہ سال 173 ارب ٹیکس دیا تھا، جب کہ لوکل سگریٹ ساز کمپنیوں نے گزشتہ سال 240 ارب ٹیکس چوری کیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق ایکسائز ڈیوٹی بڑھنے سے غیر قانونی سگریٹ کی فروخت میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

  • ایف بی آر کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں ٹائلز سیکٹر کو شامل کرنے کا فیصلہ

    ایف بی آر کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں ٹائلز سیکٹر کو شامل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: حکومت کی جانب سے بجٹ 25-2024 میں ٹریک اینڈ ٹریس کا دائرہ کار بڑھائے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے آئندہ بجٹ میں تمام کاروبار کے لیے سنگل سیلز ٹیکس ریٹرن متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ سیلز ٹیکس میں غیر رجسٹرڈ کاروباری افراد کی سپلائی مانیٹرنگ کی جائے گی، آئندہ بجٹ میں اہم کاروبار کی سپلائی چین کو دستاویزی بنایا جائے گا۔

    ٹائلز کے شعبے میں ٹریک اینڈ ٹریس لگانے کی تجویز دی گئی ہے، ایف بی آر کی جانب سے ڈی جی ڈیجیٹل انوائسز کو مزید اختیارات دینے کا امکان ہے، پوائنٹ آف سیلز میں ایف بی آر کی ہر رسید پر فیس 1 روپے سے بڑھائی جا سکتی ہے۔

    ذرائع کے مطابق پوائنٹ آف سیل سسٹم نہ لگانے والے ریٹیلرز کا خصوصی آڈٹ کیا جائے گا، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں ٹائلز سیکٹر کو شامل کیا جائے گا، اور کمپنیوں کی پیداوار کو سیل ٹیکس ریٹرن سے لنک کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔

  • آنے والا بجٹ کیسا ہوگا؟ شبر زیدی نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    آنے والا بجٹ کیسا ہوگا؟ شبر زیدی نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    آئی ایم ایف کی جانب سے وفاقی حکومت سے سرکاری ملازمین کی پنشن اور مراعات سے متعلق قوانین میں ترامیم اور دیگر مطالبات کے بعد آئندہ بجٹ کیسا ہوگا؟

    وفاقی حکومت متعدد معاشی چیلنجز کے درمیان مالی سال 2024-25کے لیے اپنے پہلے بجٹ کا اعلان اگلے ماہ جون میں کرنے جا رہی ہے۔

    سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 سے 15 فیصد تک اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم حتمی فیصلہ حکومت وزارت خزانہ کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے؟ اس حوالے سے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اہم انکشافات کیے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی نے بتایا کہ اگر آئی ایم ایف نے ہم سے کہا کہ آپ بڑی مالیت کا ٹیکس اکٹھا کریں تو یہ یقیناً تباہی کا راستہ ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آج جو لوگ بھی پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہے ہیں ان کی یا چیئرمین ایف بی آر کی ہمت نہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے کسی فیگر کو ٹچ کرسکیں۔

    پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق شبر زیدی نے بتایا کہ خریداری میں جن 7پارٹیوں نے حصہ لیا ان میں کوئی بھی انٹرنیشنل پارٹی نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ان سات میں سے کوئی بھی خریداری میں سنجیدہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بجٹ آنے میں محض کچھ دن رہ گئے اور تعجب کی بات ہے کہ جو ایڈوائزری کونسل بنائی گئی اس میں وزیر خزانہ ہی موجود نہیں تو پھر گھوڑے کی لگام کس کے ہاتھ میں ہے۔

    بجٹ میں نئے ٹیکسز سے متعلق سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر تو اتنا ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا تاہم قوی امکان ہے کہ امپورٹ پر ٹیکس بڑھا دیا جائے گا جس کا براہ راست نقصان انڈسٹریز کو ہوگا۔

  • بجٹ 25-2024: صنعتی شعبے کے لیے ریلیف سے متعلق اچھی خبر

    بجٹ 25-2024: صنعتی شعبے کے لیے ریلیف سے متعلق اچھی خبر

    اسلام آباد: بجٹ 25-2024 کی تیاریاں جاری ہیں، جس میں صنعتوں کے لیے ریلیف پر غور کیا جا رہا ہے۔

    ذرائع وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق آئندہ بجٹ میں صنعتی شعبے کے لیے پیکج کی تیاریاں عروج پر ہیں، حکومت نے بجلی پر صنعتی شعبے کو 240 ارب روپے ریلیف دینے کی تجویز دی ہے۔

    وزارتِ صنعت و پیداوار کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتی شعبے کے لیے پاور ٹیرف میں کمی کا امکان ہے، برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتی شعبے کے لیے پیکج دیا جا سکتا ہے، برآمدی صنعتی شعبے کے لیے پاور ٹیرف میں کمی کے لیے مختلف تجاویز تیار کی جا رہی ہیں۔

    مالی سال 25-2024 کا وفاقی بجٹ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان

    ذرائع کے مطابق گھریلو صارفین کو سبسڈی فراہم کرنے کے لیے صنعتی شعبے کو اضافی ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں، اور صنعتی صارفین گھریلو صارفین کے لیے 240 ارب روپے بجلی پر اضافی ادا کرتے ہیں، صنعتی شعبے کے لیے ٹیرف ریشنلائزیشن کی تجاویز آئی ایم ایف سے بھی شیئر کی گئی ہیں۔

    ایک ماہ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کتنی کمی آئی؟

    برآمدی شعبے کو آئندہ بجٹ میں تقریباً 100 ارب تک کے اثرات کا پیکج مل سکتا ہے، وزیر اعظم کی حتمی منظوری کے بعد صنعتی شعبے کو بجٹ سے منظور کرایا جائے گا۔

  • تاجر دوست ایپ نہ لینے والے ہوشیار ہو جائیں، کتنا جرمانہ لگ سکتا ہے؟

    تاجر دوست ایپ نہ لینے والے ہوشیار ہو جائیں، کتنا جرمانہ لگ سکتا ہے؟

    اسلام آباد: بجٹ 25-2024 کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، آئندہ بجٹ میں تاجر دوست ایپ میں شامل نہ ہونے والوں کے خلاف بھی کارروائیوں کا امکان ہے۔

    وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئندہ بجٹ میں تاجر دوست ایپ میں شامل نہ ہونے والوں کو نوٹس بھیجے جائیں گے، جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ کاروبار کے خلاف انکم ٹیکس آرڈیننس سیکشن 182 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، تاجر دوست ایپ نہ لینے والے غیر رجسٹرڈ کاروبار پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔

    آئندہ بجٹ میں نان فائلرز کے بینکوں سے کیش نکلوانے پر مزید ٹیکس لگانے کی تجویز بھی ہے، نان فائلرز کے بینکوں سے 50 ہزار روپے سے زائد رقم نکالنے پر 0.6 فی صد ایڈوانس ٹیکس عائد ہے، آئندہ بجٹ میں کیش نکالنے پر ٹیکس کی شرح 0.9 فی صد کرنے کی تجویز ہے۔

    آئی ایم ایف کا بڑا مطالبہ ، پاکستانی عوام تیاری کرلیں!

    ذرائع کے مطابق نان فائلرز کے کیش نکالنے پر ایڈوانس ٹیکس کی مد میں مزید 15 ارب روپے سے زائد جمع کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، آئندہ بجٹ میں غیر ضروری اور لگژری اشیا کی امپورٹ پر ٹیکس بڑھانے کی بھی تجویز ہے۔

    1300 سی سی سے زائد کی امپورٹ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھنے کا امکان ہے، 850 سی سی سے زائد کی تمام نئی گاڑیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے، غیر ضروری اور لگژری آئٹمز پر ڈیوٹی بڑھائے جانے کا امکان ہے، اور چھٹے شیڈول میں موجود ٹیکس رعایتیں کم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔