اسلام آباد: آئندہ مالی سال 22-2021 کے بجٹ کے خدوخال سامنے آگئے، سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 506 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال 22-2021 کے بجٹ کے خدوخال سامنے آگئے، وفاقی بجٹ میں 24 فیصد گروتھ کے ساتھ خالص ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 829 ارب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ براہ راست ٹیکس انکم ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 182 ارب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں سے سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 506 ارب ہے۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف 356 ارب روپے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف 785 ارب، انکم ٹیکس وصولیوں کے لیے گروتھ کا ہدف 22 فیصد اور سیلز ٹیکس وصولیوں میں گروتھ کا ہدف 30 فیصد رکھا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں گروتھ کا ہدف 29 فیصد رکھا جائے گا، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں گروتھ کا ہدف 12.1 فیصد مقرر کرنے، اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں 2 ہزار 503 ارب 39 کروڑ وصول کرنے کا ہدف مقرر کرنے اور سروسز پر سیلز ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2 ارب 61 کروڑ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بیوریجز سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 5 ارب 13 کروڑ 50 لاکھ، بیوریجز کنسٹریٹ سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 33 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ، سیمنٹ سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 1 کھرب 2 ارب 41 کروڑ 50 لاکھ جبکہ ٹوبیکو سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 1 کھرب 34 ارب 54 کروڑ 10 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قدرتی گیس سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 11 ارب 97 کروڑ 20 لاکھ روپے، پیٹرولیم مصنوعات سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 4 ارب 32 کروڑ 80 لاکھ روپے، درآمدی اشیا سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 2 ارب 17 کروڑ روپے اور سروسز سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 14 ارب 95 کروڑ 50 لاکھ روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ہماری 90 فیصد سپلیمنٹری گرانٹس کا تعلق کرونا وائرس سے ہے، بجٹ میں صحت کے لیے مختص رقم مزید بڑھائی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن نے سوا 400 ارب سے ریگولر سپلیمنٹری بجٹ دیا تھا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ہیلتھ سیکٹر کی ایلوکیشن مزید بڑھائی گئی ہے، وزیر اعظم آفس اخراجات میں این ڈی ایم اے کے اخراجات بھی شامل ہیں، ہماری 90 فیصد سپلیمنٹری گرانٹس کا تعلق کرونا وائرس سے ہے، ایف بی آر کے اپنے ریونیو میں کرونا کی وجہ سے کمی آئی۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو اسی لیے پیسوں کا اجرا سپلیمنٹری کے ذریعے کیا گیا، این ایف سی کے پیسے روکنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے۔ صوبے ضلعی سطح پر رقم کے اجرا پر بھی غور کریں۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر جتنا ٹیکس جمع کرتی ہے اور جتنا ایف بی آر پر خرچ ہوتا ہے وہ کم ہے، ایف بی آر میں مزید بہتری کی گنجائش ہے اس میں کوئی شک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے ذریعے کروڑوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں، پورے سال میں ہم نے کوئی ریگولر سپلیمنٹری گرانٹ دی ہی نہیں۔
مظفر آباد: آزاد جموں و کشمیر کا 1 کھرب 39 ارب 50 کروڑ روپے کا بجٹ 21-2020 پیش کردیا گیا، صحت عامہ کے لیے 10 ارب 27 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں اسپیکر شاہ غلام قادر کی زیر صدارت بجٹ اجلاس ہوا، وزیر خزانہ ڈاکٹر نجیب نے آئندہ مالی سال کا بجٹ 21-2020 پیش کیا۔
بجٹ کا تخمینہ 1 کھرب 39 ارب 50 کروڑ روپے ہے، آمدن کا تخمینہ 1 کھرب 13 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے، غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 1 کھرب 15 ارب لگایا گیا ہے۔
بجٹ میں تعلیم کے لیے 28 ارب 88 کروڑ مختص کیے گئے ہیں، جبکہ صحت عامہ کے لیے 10 ارب 27 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
گزشتہ برس کے اہداف میں کرونا وائرس کے باعث 3 ارب روپے کا شارٹ فال آیا۔
اجلاس سے قبل کابینہ نے بجٹ 21-2020 کی منظوری دی تھی، کابینہ اجلاس وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ آزاد کشمیر کے سینٹرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی شاندار رہی۔
اجلاس میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کو معاشی خود کفالت کی جانب گامزن کردیا، آزاد کشمیر کو رول ماڈل بنائیں گے۔
اسلام آباد: مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ بجٹ میں 10 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکسز کو ختم کیا جا رہا ہے، 2 سال میں 5 ہزار ارب روپے کی قرضوں کی ادائیگی کی۔
تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ مالی سال سے متعلق آگاہ کرنا چاہتا ہوں، بجٹ کرونا وائرس سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہے، 9 ماہ کے دوران حکومت نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت میں آئے تو قرضوں کا حجم 30 ہزار ارب تھا، 2 سال میں 5 ہزار ارب روپے کی قرضوں کی ادائیگی کی۔ صوبوں کو دینے کے بعد وفاق کی آمدن 2 ہزار ارب بنتی ہے، تحریک انصاف حکومت نے اس سال 27 سو ارب روپے کے قرضے واپس کیے۔ حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کے سخت اقدامات کیے، اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا، کسی ادارے کو کوئی گرانٹ نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کی وبا سے پہلے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو رہا تھا، ہمارے پاس ٹیکس کے بڑھنے کی شرح 27 فیصد تھی، حکومت آئی تو زر مبادلہ کے ذخائرختم ہو چکے تھے، تحریک انصاف کو 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کرنے پڑے ہیں، ماضی میں لیے گئے قرضوں کے سود کی مد میں 27 سو ارب دینے پڑے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے مطابق پوری دنیا میں آمدن 4 فیصد گرے گی، کرونا سے ہماری معیشت میں 3 ہزار ارب کی کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ 1 کروڑ 60 لاکھ افراد میں سے 1 کروڑ کو نقد رقوم فراہم کردی گئیں، 280 ارب روپے کی گندم کی خریداری کی گئی، کاشتکاروں کی بہتری کے لیے 280 ارب کی خریداری کی گئی، چھوٹے کاروباری افراد کے 3 ماہ کے بجلی کے بل دیے گئے، زرعی شعبے کو بہتری کے لیے 50 ارب دیے گئے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کوشش کی کہ جتنا فائدہ عوام کو دے سکتے ہیں دیں، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی گئی، حکومت نے احساس ایمرجنسی کیش گرانٹ اور گندم خریداری کے لیے فنڈز مختص کیے، زرعی شعبے کی ترقی کے لیے بھی خصوصی پروگرام شروع کیا گیا، عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کومنتقل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم قرض وزیر اعظم ہاؤس کے لیے نہیں لے رہے، نئے قرض ماضی کے قرضوں کی ادئیگی کے لیے لے رہے ہیں، اس کے باوجود ہم نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا، ہم حکومتی اخراجات کم کریں گے اور ترقیاتی بجٹ بڑھائیں گے، احساس پروگرام کے لیے مزید رقم مختص کریں گے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے حالات میں اب آگے کی طرف دیکھنا ہے، اس سال 29 سو ارب روپے پھر قرضوں کی مد میں دینے ہیں، واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں کمی ممکن نہیں، یہ رقوم عوام پرخرچ کرنے کے خواہاں ہیں، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ ہم اخراجات کو کم کر رہے ہیں اور کیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 10 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکسز کو ختم کیا جا رہا ہے، امپورٹ پر ڈیوٹی کو ساڑھے 5 سے کم کر کے ڈیڑھ فیصد کیا جا رہا ہے، تعمیراتی شعبے کے لیے تاریخی پیکج دیا، کیپٹل گین ٹیکس کم کیا جا رہا ہے، سیمنٹ پر 15 روپے فی بیگ کمی کی جارہی ہے۔ ریلیف کے لیے 40 سے 50 ارب کی ڈیوٹیز واپس لے رہے ہیں، ٹیکس ریلیف کے لیے 40 سے 50 ارب کی ڈیوٹیز واپس لے رہے ہیں۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کی جیبوں میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں جو اقدام بھی کریں وہ عوام کی بھلائی کے لیے ہو، ہماری سیونگز ٹیکسوں کی طرح ہدف سے کم رہتی ہیں، ہمارے لیے سیونگز کو بڑھانا ایک چیلنج ہے۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کے بجٹ میں اضافہ کر دیا۔
بجٹ دستاویز کے مطابق وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نیب کے لیے 5 ارب 8 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کیے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال 20-2019کےبجٹ میں نیب کیلئے4ارب42کروڑمختص تھے، نئے مالی سال کے لیے نیب کے بجٹ میں 65 کروڑ سے زائد کا اضافہ کیا گیا۔
دوسری جانب حکومت نے بجٹ میں کھیلوں کے لیے 929،492 ملین روپے مختص کردیے، مختص کیا جانے والا بجٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کے تحت کھیلوں کے مختلف منصوبوں کو جاری کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں وزارت بین الصوبائی رابطہ ڈویژن کے منصوبوں کیلئے929.492ملین روپے مختص کیے گئے، جس سے 5 جاری اور دو نئے منصوبوں کا آغاز ہوگا۔
پی ایس ڈی پی رپورٹ کےمطابق5منصوبوں کیلئے333.920ملین روپے، پی ایس بی کوچنگ کراچی باکسنگ جمخانہ کی تعمیرکیلئے15.281ملین روپےنیشنل اسپورٹس سٹی نارووال کی تعمیرکےلیے5.000ملین روپے، پاکستان اسپورٹس کمپلیکس اسلام آبادمیں بائیو مکینیکل لیب کیلئے 126.292ملین روپے، گلگت میں ہاکی ٹرف بچھانےکیلئے102.183ملین روپےمختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق 7شہروں اسلام آباد، فیصل آباد، واہ کینٹ، پشاور، کوئٹہ اور ایبٹ آباد میں ہاکی ٹیرف کی تبدیلی کیلئے85.164ملین روپے کا بجٹ مختص کیا گیا جبکہ دو نئے منصوبوں کے لیے 595.572 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اسلام آبادمیں پی ایس بی میں ساؤتھ ایشین گیمزکی تیاری کیلئے300.000ملین روپے اور پی ایس بی کوچنگ سینٹرپشاورمیں ساتھ ایشین گیمزکی تیاری کیلئے295.572ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2021-2020 کے لیے 72 کھرب 94 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
بجٹ کا مجموعی حجم
بجٹ کا مجموعی حجم71 کھرب 30 ارب روپے رکھا گیا ہے، آمدن کا مجموعی تخمینہ 63 کھرب 14 ارب روپے رکھا گیا ہے، محاصل سے آمدن کا تخمینہ 36 کھرب 99 ارب 50 کروڑ روپے ہے، بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 70 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ کو بڑھا کر 12 کھرب 89 ارب روپے کردیا گیا، اسی طرح تعمیراتی شعبے میں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ٹیکسوں میں آسانی اور سیمنٹ کی پیداوار پر عائد ڈیوٹی ختم کرنے کی سفارش کی گئی۔
حکومتی آمدنی کا تخمینہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی جانب سے محصولات کی صورت میں 4963 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدنی کی مد میں 1610 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے مالی سال برائے 2020-21 کا بجٹ پیش کردیا، حکومت نے آئندہ مالی سال میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جبکہ کچھ چیزوں پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے آئندہ مالی سال 2020-2021 کے لیے 72 کھرب 94 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں گیارہ فیصد کم ہے۔
سستی ہونے والی اشیاء
حکومت کی جانب سے بجٹ میں دودھ، دہی، کریم، پنیر، مکھن، دیسی گھی سستا کیا گیا ہے جبکہ چاول، پھل، خشک میوے، مچھلی، پولٹری، جانوروں کا کھانا، انڈے، شہدم کافی، مٹھائی میں ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔
اسی طرح سبزیاں، تیل، مصالحہ جات، چینی، سویابین پر بھی ریلیف دیا گیا ہے، ایل ای ڈی لائٹس کی پاور سپلائی اور لینس پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، زچہ بچہ کے فوڈ سپلیمنٹس سستا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ٹیکس میں کمی
بجٹ میں پروجیکٹر، گھریلو الیکٹرک آلات، کاغذ، وال پیپر، کھیلوں کا سامان، زرعی آلات، کھاد، ربڑ، فضائی سفر، کمپیوٹر، دفتری آلات پر ٹیکس میں کمی گئی ہے۔
وفاقی وزیر حماد اظہر کے مطابق پاکستان میں موبائل فون بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے، پاکستان میں موبائل فون بنانے کیلئے سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی جارہی ہے۔
حماد اظہر نے بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آٹورکشہ، موٹرسائیکل رکشہ، 200سی سی تک کی موٹرسائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔
ٹیکس ڈیوٹی میں اضافہ
مالی سال 2020-21 کے بجٹ میں درآمدی سگریٹ پر ایف ای ڈی 65 فیصد بڑھا کر 100 فیصد کرنے جبکہ ای سیگریٹ فلٹر راڈز پر بھی ایف ای ڈی کی شرح بڑھائی جارہی ہے۔
کیفی نیٹڈ انرجی ڈرنک پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے، مقامی تیار ڈبل کیبن پر 7.5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے جبکہ درآمدی ڈکبل کیبن پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز عائد کی گئی ہے۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2021-2020 کے لیے 72 کھرب 94 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔
وفاقی وزیر نے اپنے تقریر کے آغاز پر رواں مالی سال کے بجٹ اور گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی پر تبصرہ کیا، بعد ازاں انہوں نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔
تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا بجٹ
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا دوسرا بجٹ پیش کیا جسے تاجروں نے ٹیکس فری قرار دیا، بجٹ کا مجموعی حجم 71 کھرب 30 ارب روپے سے زائد رکھا گیا ہے، جس میں سے 32کھرب قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔
آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ کو بڑھا کر 12 کھرب 89 ارب روپے کردیا گیا، اسی طرح تعمیراتی شعبے میں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ٹیکسوں میں آسانی اور سیمنٹ کی پیداوار پر عائد ڈیوٹی ختم کرنے کی سفارش کی گئی۔
حکومت نے آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کا ہدف دو اعشاریہ ایک فیصد مختص کیا ہے۔
بجٹ کا خلاصہ
حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں ٹیکس دہندگان کو خصوصی ریلیف اور نان فائلر کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے، فائلرکےلیےاسکول فیس پرٹیکس کی شرط ختم جبکہ شناختی کارڈ کے بغیر خریداری کی حد کو بڑھا کر ایک لاکھ روپے کردیا گیا۔
کرونا کے پیش نظر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کی کٹس پر ٹیکس ختم، میڈیکل سپلائز پر ڈیوٹی ختم کرنے کی مدت کو مزید تین ماہ تک بڑھا دیا گیا۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کی ہنگامہ آرائی
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین نے شدید نعرے بازی کی اور ایوان میں پلے کارڈز لہرائے، اراکین کی بدتمیزی اور نعرے بازی پر اسپیکر اسمبلی کو بار بار مداخلت کرنا پڑی۔
حماد اظہر کی اہم تقریر کو اپوزیشن اراکین نے سُنا ان سُنا کردیا، بعد ازاں اراکین اجلاس کا بائیکاٹ کر کے ایوان سے چلے گئے۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے آئندہ مالی سال 2021-2020 کا بجٹ پیش کردیا ، حکومت نے آئندہ مالی سال میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہوا جس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی، وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے آئندہ مالی سال 2020-2021 کے لیے 72 کھرب 94 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں گیارہ فیصد کم ہے۔
حماد اظہر نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فیصد کمی ہوئی، پی ٹی آئی حکومت نے تجارتی خسارہ 31 فیصد کمی کی، 9 ماہ میں تجارتی خسارے میں 21 فیصد کمی کی گئی، تجارتی خسارہ 21 ارب ڈالر سے کم ہو کر 15 ارب ڈالر رہ گیا، ایف بی آر کے ریونیو میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔
حکومت نے 6 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی ادائیگی کی، پچھلے 2 سال میں 5 ہزار ارب سود کی مد میں ادا کیے، ماضی کے قرضوں پر ہم نے 5 ہزار ارب روپے سود ادا کیا، 10 لاکھ پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک ملازمت کے مواقع پیدا ہوئے، 9 ماہ میں ترسیلات زر 17 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، ہماری حکومت میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے 10 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کیے۔
ملک میں براہ راست سرمایہ کاری 2.15 ارب ڈالر بڑھی، موڈیز نے ہماری معیشت کی درجہ بندی بہتر کرتے ہوئے بی پازیٹو کی، حکومتی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں مالیاتی استحکام پیدا ہوا، بلوم برگ نے ہماری اسٹاک مارکیٹ کو بہترین مارکیٹس میں شمار کیا، پی ٹی آئی کی حکومت نے اسٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا۔ قرضوں کے انتظامات کو بہتر کیا گیا، 40 ارب روپے بچائے۔
بجٹ کا مجموعی حجم
بجٹ کا مجموعی حجم71 کھرب 30 ارب روپے رکھا گیا ہے، آمدن کا مجموعی تخمینہ 63 کھرب 14 ارب روپے رکھا گیا ہے، محاصل سے آمدن کا تخمینہ 36 کھرب 99 ارب 50 کروڑ روپے ہے، بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 70 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
اداروں میں اصلاحات کیں، جہاں ضروری تھا وہاں نجکاری کی گئی، میڈ ان پاکستان کے نام سے پاکستانی مصنوعات عالمی منڈیوں میں متعارف کرائیں، کاروباری طبقے کو 254 ارب روپے کے ریفنڈ جاری کیے گئے، پنشن کے نظام میں اصلاحات لائی گئیں، 35 اداروں کو دیگر اداروں میں ضم کرنے کی سفارش آئی ہے، احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کے لیے اصلاحات لائی گئیں، 8لاکھ 20 ہزار جعلی افراد کو احساس پروگرام سے نکالا گیا۔
کاروبار اور صنعت کو ترقی دینے کے لیے اقدامات کیے، جون 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا، ایز آف ڈوئنگ انڈیکس میں پاکستان 190 ممالک میں سے 108 ویں نمبرپر آگیا، ٹاسک فورس نے 43 اداروں کی نجکاری 8 میں اصلاحات کی سفارش کی، آسان کاروبار انڈیکس میں پاکستان 136 سے بہتر ہو کر 108 پر آیا۔
اہم نکات:
دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویز
ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویز
نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویز
این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
وفاقی حکومت ریونیو تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے
اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے
بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے تجویز
وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے کرنے کی تجویز
سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز
پینشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز
صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے جبکہ دیگر کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز
آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز
نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
قابل تقسیم محصولات میں صوبوں کا حصہ
بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ سال صوبوں کومجموعی طورپر2ہزار874 ارب روپےمنتقل کیےجانےکاتخمینہ ہے، قابل تقسیم محصولات میں سے پنجاب کو ایک ہزار 439 ارب روپے، سندھ کو 742 ارب روپے جبکہ خیبرپختونخوا کو 478 ارب روپے اور بلوچستان کو 265 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ ہے۔
رواں مالی سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے ، کسانوں کو 50 ارب کی رقم دی گئی، وفاقی حکومت کے اخراجات میں مختلف پیکجز دینے کی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرونا وائرس کے اثرات
بد قسمتی سے کرونا وائرس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، ترقی پذیر ممالک کے لیے کرونا بڑا مسئلہ ہے، پاکستان بھی کرونا وائرس کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، کرونا کے باعث جی ڈی پی میں 33 سو ارب روپے کی کمی ہوئی، ایف بی آر کوٹیکس وصولی میں 900 ارب روپے کی کمی رہی، حکومت کو نان ٹیکس ریونیو میں 102 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
کرونا متاثرین کے لیے پیکج
حکومت نے کرونا کے تدارک کے لیے 1200 ارب روپے سے زائد کے پیکج کی منظوری دی ہے، حکومت نے طبی شعبے کے لیے 75 ارب روپے کی منظوری دی، یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے سہولت دینے کے لیے 50 ارب روپے رعایتی اشیا کے لیے مختص کیے، بجلی اور گیس کے مؤخر بلوں کے لیے 100 ارب روپے رکھے، کسانوں کو سستی کھاد اور قرضوں کی معافی کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، 200 ارب روپے روزانہ اجرت کمانے والوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں، چھوٹے کاروبار کی بہتری کے لیے 50 ارب روپے بلوں کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے، کرونا فنڈ کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، میڈیکل سپلائیز میں 15 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی۔
کرونا اثرات کے بعد معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات
حماد اظہر نے بتایا کہ معیشت کی بہتری کے لیےتعمیراتی شعبے کو ریلیف دیا گیا، لاک ڈاون کے اثرات کے ازالے کیلئے اسٹیٹ بینک نے صنعت کاروں اور تاجروں کو خصوصی ریلیف دیا، اسٹیٹ بینک نے انفرادی قرضوں کیلئے بینکوں کو 800 ارب روپے فراہم کیے۔
حماد اظہر نے کہا کہ عوام کوریلیف پہنچانے کیلئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، کرونا اخراجات اور مالیاتی اخراجات کو بیلنس رکھنابجٹ کی ترجیحات میں شامل ہے، فاٹا اور گلگت بلتستان کیلئے آئندہ مالی سال میں خصوصی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آزادجموں کشمیرکیلئے 72 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 32 ارب مختص کیے گئے ہیں، کے پی کے میں ضم ہونے والے اضلاع کیلئے 56 ارب، سندھ کیلئے 19 ارب، بلوچستان کیلئے 10 ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔
نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور بلین ٹری سونامی
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بلین ٹری سونامی اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے رقم مختص کی ہے، احساس پروگرام کی رقم کو 187 سے بڑھاکر 208 ارب کردیا گیا ہے، توانائی اور خوراک سمیت دیگر شعبوں میں سبسڈی کیلئے 180 ارب کی رقم مختص کیے گئے ہیں۔
مختلف شعبوں کو ٹیکس چھوٹ اور قرض
کسانوں کو 980 ارب روپے گندم کی خریداری کے لیے ادا کیے گئے، تعمیراتی شعبے میں تیزی کے لیے آسان ٹیکس متعارف کرائے، سیمنٹ سیکٹر کو وِد ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی گئی، سستے رہائش گاہوں کے لیے 90 فی صد ٹیکس چھوٹ دی گئی، تعمیرات کو صنعت کا درجہ دیا گیا، کاروبار میں تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 4 فیصد کم ریٹ پر قرض دیا، 7 لاکھ 75 ہزار قرض داروں کو بنیادی رقم کی ادائیگی کے لیے 3 ماہ چھوٹ دی گئی ہے، انفرادی اور کاروباری قرضوں کے لیے 800 ارب روپے سہولت دی، طویل المدتی قرضوں کی شرائط میں نرمی کی گئی ہے، درآمد کنندگان کے لیے پیشگی ادائیگی کی حد بڑھا دی گئی ہے۔
ٹیکس ڈیوٹی میں اضافہ
حماد اظہر نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں درآمدی سیگریٹ پرایف ای ڈی 65فیصد سے بڑھا کر100فیصد کرنے جبکہ ای سیگریٹ فلٹرراڈز پر بھی ایف ای ڈی کی شرح بھی بڑھائی جارہی ہے۔
ودھ ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آسان کاروبار کیلئے 9 فیصد ودھ ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز سامنے آئی جبکہ ٹیکس دینے والے شادی ہالز اور بچوں کی اسکول یا تعلیمی فیسوں پر والدین پر عائد ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔
ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے والدین کے لیے اسکولوں کی فیس پر ٹیکس کی شرط ختم کردی گئی جبکہ نادہندگان کے لیے اسکول فیس پر ٹیکس کی شرط کو برقرار رکھا گیا ہے۔ آٹو رکشہ،موٹرسائیکل رکشہ،200سی سی موٹرسائیکل پرایڈوانس ٹیکس ختم جبکہ نان ریزیڈینٹ شہریوں کے لئے آف شور سپلائیز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔
بغیر شناختی کارڈ ٹرانزیکشن کی حد بڑھا دی گئی
حماد اظہر نے بتایا کہ بغیرشناختی کارڈ تاجروں کے لئے ٹرانزیکشن کی حد میں اضافہ کر کے اسے پچاس لاکھ سے ایک لاکھ روپے کردیا گیا، ایک سال میں ترسیلات زر کی بینک ٹرانزیکشن پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ ایک سال میں ترسیلات زر کی بینک ٹرانزیکشن پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔
صنعت کاروں کے لیے ٹیکس چھوٹ اور مختلف درآمدی اشیا کی ڈیوٹی میں کمی
صنعت کاروں کے لئے خام مال کی درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح ساڑھے 5 فیصد سے ایک فیصدکرنے کی تجویز، ٹیکس ریفنڈ میں شفافیت کیلئے مرکزی ٹیکس ریفنڈ قائم کرنے کی تجویز ، سیمنٹ کی پیداوار میں ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز شامل کی گئی، 2ہزار ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح اور ربڑ، گھریلو اشیا، خام مال پرڈیوٹی میں بڑی کمی کردی گئی۔
مختلف منصوبوں کے لیے رقم مختص کرنے کی تجویز
نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کیلئے 1.5ارب روپے رکھنے کی تجویز، سی پیک کے منصوبوں کیلئے118ارب روپے مختص، ای گورننس کیلئے ایک ارب روپے سےزائد مختص، آبی وسائل کی بہتری کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے۔
دفاعی بجٹ
افواج پاکستان کےبجٹ میں61ارب74کروڑ60لاکھ کااضافہ کیا گیا، نئے مالی سال کادفاعی بجٹ 1289.134ارب روپے مختص، ملازمین کے اخراجات کی مد میں 745.657 ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ آپریٹنگ اخراجات کی مدمیں 301.109ارب روپےرکھےگئے ہیں۔ سول ورکس کی مد میں 157-478 ارب روپے جبکہ فزیکل اثاثوں کا تخمینہ 357-75 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
زراعت ، سماجی شعبے، مواصلاتی اور تعلیمی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم
آئندہ مالی سال میں زراعی شعبے کے لیے ریلیف اور ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے ے 10 ارب روپے کے مختص کیے، مواصلاتی منصوبوں کے لیے 37 ارب، تعلیمی منصوبوں، مدارس کا نصاب اور ای اسکولز کے قیام کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ کے نمایاں خدوخال
عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کوئی آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا
ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا
معاشی نمو کے مقاصد اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا
ٹیکسز میں غیر ضروری رد و بدل کے بغیر محصولات کی وصولی میں بہتری لانا
فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز مختص کرنا
تعمیراتی شعبے میں مراعات، نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ کے لیے رقم مختص
کامیاب جوان پروگرام، صحت کارڈ، بلین ٹری سونامی ، صحت کارڈ سمیت دیگر خصوصی پروگرامز کا تحفظ
کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کو یقینی بنانا
معاشرے کے مستحق طبقے کو سبسڈی دینے کے لیے نظام بہتر کرنا
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کی بجٹ تقریر
پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل فونز پر سیلز ٹیکس میں کمی
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماز اظہر نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پاکستان میں بنائے جانے والے موبائل فون پر سیلز ٹیکس میں کمی کی جائے گی۔
اسلام آباد: آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی و صوبائی ترقیاتی بجٹ میں 18 فی صد کمی ہوگی، سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 1413 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے اضافی 100 اور 630 ارب مختص کرنے کی تجویز ہے، جب کہ صوبوں کے ترقیاتی بجٹ 14 فی صد کمی کے ساتھ 783 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں مجموعی ترقیاتی فنڈز کا حجم 1600 ارب تھا۔
آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف 2.3 تجویز کیا گیا ہے، رواں سال جی ڈی پی گروتھ 3 فی صد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.4 رہی، زرعی شعبے کا ہدف 2.9، صنعتی شعبے کا ہدف 0.1 فی صد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
سروس سیکٹر کا ہدف 2 اعشاریہ 8 فی صد رکھنے، تجارتی خسارے کا ہدف 7.1 فی صد مقرر کرنے، کرنٹ اکاوٴنٹ خسارے کا ہدف 1.6 فی صد کرنے کی تجویز ہے، آئندہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی رفتار میں کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، مہنگائی 11 سے کم ہو کر 6.5 فی صد ہو جائے گی، حکومتی غیر ترقیاتی اخراجات بھی کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
آئندہ مالی سال سبسڈی کو مزید ٹارگٹڈ بنانے کی تجویز بھی دی گئی ہے، وسائل کی قلت کے باعث رواں سال 1200 ارب تک خرچ ہونے کا امکان ہے، متعدد اداروں کے ترقیاتی فنڈ میں کمی کی تجویز بھی دی گئی ہے، وفاقی ڈویژن اور وزارتوں کے ترقیاتی بجٹ 50 ارب کمی سے 371 ارب کیا جائے گا، ریلوے کے لیے 24 ارب، پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے لیے 23 ارب کی تجویز دی گئی ہے۔
وزارت خزانہ کا ترقیاتی بجٹ 84 ارب سے کم کر کے 50 ارب مختص کرنے، کابینہ ڈویژن کا ترقیاتی بجٹ 40 ارب سے کم کر کے 37.5 ارب کرنے، اعلیٰ تعلیم کمیشن اور آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے لیے بجٹ موجودہ سطح پر برقرار رکھنے، وزارت صحت کا بجٹ 30 کروڑ اضافے سے 14 ارب مختص کرنے کی تجویز ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے لیے بجٹ 7.6 ارب سے کم کر کے 5 ارب کرنے، وزارت تحفظ خوراک کے لیے 12 ارب مختص کرنے، وزارت صنعت کے لیے 80 کروڑ روپے مختص کرنے، اراکین پارلیمنٹ کی اسکیموں کے لیے 24 ارب مختص کرنے، سابق قبائلی علاقوں کے لیے مجموعی طور پر 50 ارب مختص کرنے، داسو ڈیم کے لیے 80 ارب، دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے 21 ارب مختص کرنے، این ایچ اے کا بجٹ 155 ارب سے کم کر کے 110 ارب اور بجلی کے منصوبوں کے لیے پیپکو کو 35 ارب دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
لاہور : وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بجٹ اورترقیاتی پروگرام حقیقت پسندانہ رکھنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا پوری کوشش ہے عام آدمی کو زیادہ سےزیادہ ریلیف دیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیر صدارت خصوصی اجلاس ہوا، جس میں آئندہ بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کا جائزہ لیا گیا اور بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں چیئرمین منصوبہ بندی و ترقیات نے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر اور سیکرٹری خزانہ کی آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے بریفنگ دی۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بجٹ اورترقیاتی پروگرام حقیقت پسندانہ رکھنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا حالات کے تناظر میں ترجیحات کا تعین کیا جائے گا اور وباکےباعث شعبہ صحت کے لیےزیادہ وسائل رکھے جائیں گے۔
عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ تعلیم،انفراسٹرکچر،ٹرانسپورٹ،پانی او رسماجی شعبوں کوترجیح دیں گے، پوری کوشش ہے عام آدمی کو زیادہ سےزیادہ ریلیف دیا جائے، عام آدمی کوسہولتیں فراہم کرنے کےٹھوس اقدامات کیےجائیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ بجٹ میں اعدادوشمارکی جادوگری کی بجائے حقیقی صورتحال رکھی جائے اور معاشی سرگرمیوں کیلئے نئے اقدامات متعارف کرائے جائیں۔
انھوں نے کوروناوبا کےباعث محکموں کو غیرضروری اخراجات میں مزیدکمی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کفایت شعاری، بچت اورفنانشل ڈسپلن پر پوری توجہ ہونی چاہیے، پبلک پرائیویٹ پارنٹر شپ منصوبوں کوفروغ دیناوقت کاتقاضاہے، ترقیاتی پروگرام پرپبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پرتوجہ دی جائے۔