Tag: بزنس

  • ٹماٹر – چترال میں سماجی تبدیلی کا ذریعہ

    ٹماٹر – چترال میں سماجی تبدیلی کا ذریعہ

    چترال: بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں آباد ‘ قدرتی مناظر سے مالامال وادی کریم آباد کے گاؤں درونیل کے گاؤں میں مقامی کاشتکار اپنی مدد آپ کے تحت ٹماٹر اگارہے ہیں‘ جو ان کی سماجی حالت بہتر کرنے میں مدد کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وادی کریم آباد کے درونیل گاؤں میں کاشتکار غیر موسمی ٹماٹر کاشت کرتے ہیں جو بیس اگست سے لے کر دسمبر کے خاتمے تک ٹماٹر کی فصل دیتا ہے۔

    اس علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ رواں سال جب پورے ملک میں ٹماٹر کی قلت پیدا ہوئی تو ان کا ٹماٹر چترال سے سفر کرکے کراچی کی منڈیوں تک گیا۔

    ٹماٹر کی یہ شاندار فصل یہاں اگانے کا سہرا مقامی آبادی کے سر بندھتا ہے جہاں مردوزن سبنے شانہ بشانہ اپنی مدد آپ کے تحت یہ فصل اگانا شروع کی ہے‘ اس کے لیے وہ آٹھ کلومیٹر دور سے اپنے کھیتوں تک پانی لانے کے لیے ندی ازخود بناتے ہیں۔

    علاقے کے معروف سماجی کارکن اسرار الدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس علاقے کے لوگوں میں شعور پیدا کیا کہ وہ ایسی فصل کاشت کریں ‘ جس سے فوری طور پر ان کو مالی فائدہ ہو تو ان لوگوں نے گندم کی جگہ ٹماٹر کاشت کرنا شروع کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جس کھیت میں گندم کی فصل بونے سے دس ہزار روپے کا آمدنی ہوتا تھا‘ اب اسی کھیت سے پانچ لاکھ روپے کا آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس پورے وادی میں حکومت نام کا کوئی چیز نہیں ہے‘ یہاں محکمہ آبپاشی کی کوئی نہر نہیں ہے ‘ محکمہ زراعت کو تو لوگ جانتے بھی نہیں ہیں‘ نہ ان کا کوئی کردار ہے۔

    اسرار الدین کا کہنا تھا کہ آب پاشی کے نظام کی طرح یہاں کی سڑکیں بھی حکومتی بے توجہی کا شکار ہیں ‘ سڑکوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ گاڑی میں ٹماٹر منڈی تک لے جاتے وقت توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک شخص کو گاڑی کے ایک کنارے پر لٹکنا پڑتا ہے۔

    کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہوئے خاتون رحیمہ بی بی کا کہنا ہے کہ وہ ان ٹماٹروں کو بیچ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس علاقے کے لیے پانی کا بندوبست ہوا ‘ تو اس وادی سے دس گنا زیادہ ٹماٹر کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے جو نہ صرف مقامی افراد کی معاشی حالت بہت کرے گی بلکہ حکومت کو بھی معیشت میں مدد کرے گی۔

    صابر خان نامی ایک مقامی کاشتکار کا کہنا ہے کہ ہماری زمین نہایت زرخیز ہے مگر پانی کی قلت کی وجہ سے ہم صرف بیس فیصد زمین کاشت کرتے ہیں‘ ہماری اسی فی صد زمین بنجر پڑی ہے۔

    مدیحہ عثمان نامی خاتون کراچی کی رہائشی ہیں‘ جن کی شادی درونیل کریم آباد میں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں پانی نہ ہونے کے سبب بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تین مہینے پہلے سے ہم مرد و خواتین مل کر کھدائی کرتے ہیں اور پانی کا نالہ خود بناتے ہیں مگر پھر بھی پانی بہت کم آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی حالت نہایت خراب ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے سے ٹماٹر، مٹر، آلو اور محتلف پھل دوسرے علاقوں کو با آسانی فراہم نہیں کیے جاسکتےکہ سڑکوں پر حادثات کی وجہ سے گاڑیاں بہت کم چلتی ہیں۔

    اپنی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم علاقے کے لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس وادی میں سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان کو پینے اور آبپاشی کے لیے بھی پانی فراہم کیاجائے ‘تاکہ اس علاقے سے ملک بھر کو ٹماٹر ، آلو اور مٹر فراہم کیا جاسکے۔

    یاد رہے کہ اس علاقے میں اگر آب باشی کا بندوبست کردیا جائے تو یہاں سے کئی گنا زیادہ فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔ ابھی ان نامساعد حالات میں بھی اس وادی سے سال میں دس کروڑ روپے کا ٹماٹر، اور ایک ارب روپے کا آلو باہر بھیجا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے  لیے سب سے کم رقم

    بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے لیے سب سے کم رقم

    اسلام آباد: پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 2 سال سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کے لیے مختص کی جارہی ہے۔

    تاہم پاکستان کو کلائمٹ چینج کے حوالے سے جن نقصانات کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ رقم نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں اور پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے 4 منصوبوں کے لیے 1 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم رواں برس کے اقتصادی جائزے کے مطابق وزارت برائے کلائمٹ چینج نے اس میں سے صرف 58 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

    اس امر کو وزارت کی نا اہلی کہیں یا غفلت، البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس شعبے میں (حکومت کی حد تک) ماہرین کی بے حد کمی ہے جو صورتحال کا درست جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرسکیں، اور جو ماہرین پاکستان میں موجود ہیں، حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتی۔

    پاکستان کا کلائمٹ چینج ’445 الفاظ‘ پر مشتمل

    سنہ 2015 میں 2 سال قبل جب دنیا کے بہت سے ممالک کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم لیے پیرس میں جمع تھے (کوپ 21 کانفرنس کے لیے) اور دنیا کو بچانے کے لیے ایک تاریخ ساز معاہدہ اپنی تشکیل کے مراحل میں تھا تب اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہر ملک نے ایک حکمت عملی کی دستاویز جمع کروائی تھی جسے آئی این ڈی سی کا نام دیا گیا۔

    اس دستاویز میں ہر ملک نے کلائمٹ چینج سے ہونے والے اپنے داخلی نقصانات اور ان کے ممکنہ سدباب کا تفصیلی ذکر کیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں کون سا ملک اپنے کاربن اخراج پر کس قدر قابو پائے گا۔

    مختلف ممالک نے ضغیم آئی این ڈی سی جمع کروا کر کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کے لیے یہ معاہدہ کس قدر اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔

    اس وقت پاکستان کا آئی این ڈی سی فقط 445 الفاظ یعنی بہ مشکل ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں اس یک صفحی دستاویز کی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ پاکستان کے صنعتی شعبہ کو ابھی پھلنا پھولنا ہے، لہٰذا ابھی یہ کہنا کہ، ہم اپنے کاربن اخراج میں کتنی کمی کریں گے، قبل از وقت ہوگا۔

    شجر کاری اور کوئلے کے بجلی گھر ۔ متضاد ترقیاتی منصوبے

    یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ صرف چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا افتتاح کر چکے ہیں جو کاربن کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ سال وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کا تحفظ کیا جانا ہے۔

    ایک طرف تو گرین پاکستان پروگرام اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کا منصوبہ، اور دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کی تکمیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ایسے مشیران کی ضرورت ہے جو ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پائیداری، تحفظ ماحول، اور صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھیں جو اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بجلی گھر چین کے مشترکہ تعاون سے بنائے جارہے ہیں جو اس وقت دنیا میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے۔

    چین اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے۔ کوئلے کے اس بے تحاشہ استعمال کے باعث چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار چینیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔

    موجودہ بجٹ میں ماحول کے لیے کیا ہے؟

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بچوں کے ڈائپرز اور سگریٹ کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تو ضرور بتایا، تاہم انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کو لاحق دہشت گردی سے بھی بڑے خطرے کلائمٹ چینج کا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔

    بعد میں جاری کی گئی بجٹ دستاویز تفصیلات کے مطابق رواں برس موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 81 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    جیومیٹرک سینٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے: 3 کروڑ 38 لاکھ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2019 تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

    خشک سالی کے سدباب کے لیے پائیدار زمینی انتظام (سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ): ڈھائی کروڑ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2020 تک مکمل ہوگا۔

    وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر شروع کیا گیا گرین پاکستان پروگرام: اس منصوبے کے تحت جنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے 60 کروڑ 51 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا طے کردہ ہدف سنہ 2021 تک حاصل کرلیا جائے گا۔

    تحفظ جنگلی حیات: گرین پاکستان پروگرام ہی کے تحت اس ضمن میں 10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

    اسلام آباد میں نباتاتی و حیاتیاتی گارڈن: 1 کروڑ 50 لاکھ روپے۔

    زولوجیکل سروے آف پاکستان: 3 کروڑ 60 لاکھ روپے۔ یہ سروے پاکستان کی خطرے کا شکار جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

    دیگر منصوبے

    ان منصوبوں کے علاوہ تحفظ ماحولیات کے نام سے بھی کچھ رقم بجٹ میں شامل ہے جو 11 کروڑ سے زائد (1141 ملین) ہے جو ویسٹ واٹر مینجمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔

    ایک خصوصی پروگرام ‘پینے کا صاف پانی ۔ سب کے لیے’ کی مد میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔ یہ رقم ملک بھر میں پینے کے پانی کو صاف کرنے کے اقدامات اور دور دراز علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کی تقریر میں وزیر اعظم کے ایک پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا جو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    علاوہ ازیں تحفظ ماحول کے لیے بجٹ میں کچھ اور وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے مطابق

    حکومت تمام بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا پانی زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    صنعتوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ پانی کا کم سے کم اخراج کریں۔ یاد رہے کہ کافی عرصہ قبل امریکا سمیت اکثر ممالک میں صنعتوں کو مختلف قوانین کے تحت پابند کیا جاچکا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل یعنی دوبارہ سے استعمال کریں تاکہ پانی کی بچت ممکن ہوسکے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کلائمٹ چینج کا مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر شہری حدود میں توسیع کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے تاکہ شہروں کو ایک حد تک پھیلایا جائے اور بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔

    رواں سال بجٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کلائمٹ چینج کو منصوبہ بندی اور مالیات کے شعبہ سے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر شعبہ میں کسی بھی منصوبہ کے آغاز اور اس کی تکمیل میں کلائمٹ چینج (کے نقصانات) کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ صرف 1 سے 2 سال کے اندر پاکستان کو کلائمٹ چینج کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ دہشت گردی کے نقصانات کے تخمینہ سے بھی تجاوز کرجائے گا۔

    اگر صرف مذکورہ بالا وعدوں کو ہی پورا کرلیا جائے، اور مختص کی گئی رقم کو دانش مندی اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو ہم کلائمٹ چینج کے نقصانات سے خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔

  • صرف 10 ہزار روپے میں پوری دنیا کی سیاحت کریں

    صرف 10 ہزار روپے میں پوری دنیا کی سیاحت کریں

    کیا آپ سیاحت کے شوقین ہیں اور دنیا بھر میں گھومنا پھرنا چاہتے ہیں؟

    لیکن ظاہر ہے یہ کوئی کم قیمت کام نہیں۔ اس کے لیے آپ کو بہت سی رقم اور فراغت چاہیئے۔ تاہم اگر آپ نہایت کم قیمت میں اپنے پسندیدہ مقام کا سفر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس غیر ملکی کمپنی کی یہ پیشکش آپ ہی کے لیے ہے۔

    مزید پڑھیں: مختلف ممالک کی سیر کے دوران ان چیزوں کا خیال رکھیں

    ٹرسٹڈ ہاؤس سٹرز نامی یہ کمپنی دراصل ان لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے جو کاروباری دوروں یا سفر و سیاحت کے عادی ہیں تاہم سفر پر جانے سے قبل وہ اپنے پالتو جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے پریشان رہتے ہیں۔

    انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنی واپسی تک اپنے پالتو جانوروں کو کہاں رکھیں۔

    تب یہ کمپنی ان جانوروں کی دیکھ بھال کی پیشکش کرتی ہے اور اس کے لیے دنیا بھر سے سیاحت کے شوقین افراد کو ان کے پسندیدہ مقام پر بلوا کر یہ جانور ان کے حوالے کردیتی ہے۔

    اس کمپنی میں سیاحت کے شوقین اور جانوروں کی دیکھ بھال کے منتظر افراد اپنے آپ کو رجسٹر کرواتے ہیں۔

    اگر آپ اس کمپنی کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو آپ کو کرنا یہ ہے کہ اپنے آپ کو یہاں رجسٹر کروائیں اور اپنے پسندیدہ شہر اور وہاں کے کسی مقام کا نام درج کردیں۔

    مزید پڑھیں: سیاحت کرنے کے فوائد

    جب آپ کے پسندیدہ شہر سے کوئی شخص اپنے جانوروں کو چھوڑ کر جانا چاہے گا تو یہ کمپنی اس شخص کے جانور اور آپ کو، آپ کے پسندیدہ مقام پر بلوا لے گی۔

    اب آپ اپنی پسند کے مقام (کسی ہوٹل یا ریزورٹ) پر قیام کرسکتے ہیں اور قیام و طعام کی تمام ذمہ داری اس کمپنی کی ہوگی۔

    گویا آپ کو اپنے پسندیدہ مقام پر قیام کی قیمت صرف وہاں موجود چند جانوروں کی دیکھ بھال کر کے ادا کرنی ہے۔

    اور ہاں اس کمپنی کی سالانہ فیس 100 ڈالر یعنی پاکستانی لگ بھگ 10 ہزار روپے ہے۔ تو 10 ہزار روپے میں دنیا کے کسی بھی خوبصورت اور مہنگے ترین مقام پر قیام کرنا کوئی مہنگا سودا نہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث آم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ

    کلائمٹ چینج کے باعث آم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ

    لاہور: موسم گرما میں آموں کی سوغات پاکستان کی پہچان ہے لیکن ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ رواں سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی وجہ سے آموں کی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق رواں برس ملک کے لیے کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک بدترین سال رہا اور کلائمٹ چینج سے بے شمار نقصانات ہوئے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کے غیر معمولی تغیر نے ملک کی بیشتر غذائی فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈالا ہے اور انہیں نقصان پہنچایا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا ضروری

    ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج نے اس بار جنوبی پنجاب کے ان حصوں کو شدید متاثر کیا ہے جہاں آموں کے باغات ہیں۔

    ان علاقوں میں خانیوال، ملتان، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان شامل ہیں۔

    ان کے مطابق اس حوالے سےصوبہ سندھ نسبتاً کم متاثر ہوا ہے تاہم پنجاب کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس آم کی مجموعی پیداوار 17 لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی تھی جس میں سے دو تہائی پیداوار پنجاب اور ایک تہائی سندھ میں ہوئی۔

    سید فخر امام کے مطابق سندھ میں تو نہیں، البتہ پنجاب میں رواں سال آموں کی پیداوار شدید متاثر ہوجائے گی۔

    پاکستان آم کا اہم برآمد کنندہ

    پاکستان دنیا بھر میں آموں کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کل پیداوار کا 7 فیصد حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔

    یہ برآمدات یورپ سمیت 47 ممالک کو کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال ان برآمدات میں 16 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ اس سال آم کی برآمدات ممکن نہیں ہوسکے گی۔

    مزید پڑھیں: پاکستان سے موسم بہار ختم ہونے کا خدشہ؟

    ان کے مطابق رواں برس مطابق پنجاب میں آم کی اوسط پیداوار میں نصف کمی ہوجائے گی جس کے بعد اسے برآمد کرنا ناممکن ہوجائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ رواں سال مارچ کا مہینہ نسبتاً ٹھنڈا تھا اور اس کے بعد شدید گرد و غبار کے طوفان اور اچانک گرمی میں غیر معمولی اضافہ، وہ وجوہات ہیں جنہوں نے آم سمیت کئی غذائی فصلوں کو متاثر کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آم کی پیداوار اور برآمدات متاثر ہونے سے نہ صرف قومی معیشت کو دھچکہ پہنے گا بلکہ ان ہزاروں افراد کا روزگار بھی متاثر ہوگا جو اس پیشے سے وابستہ ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بڑھاپے تک ارب پتی بنانے والی عادات

    بڑھاپے تک ارب پتی بنانے والی عادات

    کچھ لوگ ساری زندگی محنت کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بہت دولت مند بھی بننا چاہتے ہیں، لیکن ایسے افراد جب بوڑھے ہو کر ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ انہوں نے ساری زندگی اتنا بھی نہیں کمایا کہ وہ سکون سے اپنا بڑھاپا گزار سکیں۔

    دراصل یہ افراد اپنی ملازمتوں اور کام کے عرصے کے دوران پیسوں کے معاملے میں اس ذہانت کا مظاہرہ نہیں کرتے جو آگے چل کر انہیں معاشی خوشحالی دے سکتا ہو۔

    دنیا کے دولت مند ترین افراد بشمول مارک زکر برگ کچھ ایسی عادات بتاتے ہیں جنہیں ہر اس شخص کو اپنانا چاہیئے جو دولت مند بننا چاہتا ہے۔

    اگر ان عادات کو ابھی سے اپنا معمول بنا لیا جائے تو یقیناً ریٹائرمنٹ تک آپ خود کو اس قابل بنا لیں گے کہ بڑھاپے کی فراغت کے دور میں آپ پیسوں کے لیے کسی کے محتاج نہ رہیں۔

    اخراجات پر نظر رکھیں

    ہمیشہ کسی بھی چیز پر پیسے خرچ کرتے ہوئے پہلے تو یہ سوچیں کہ وہ شے آپ کے لیے کتنی ضروری ہے۔ اگر آپ کسی غیر ضروری اور مہنگی شے پر خرچ کرنے جارہے ہیں تو یقیناً یہ ایک دانش مندانہ اقدام نہیں ہے۔

    ہنگامی صورتحال کے لیے تیار رہیں

    ہر ماہ کچھ رقم کسی جگہ محفوظ کر دینے کی عادت اس وقت آپ کے کام آئے گی جب اچانک آپ کسی ہنگامی صورتحال سے دو چار ہوں، آپ کی ملازمت چلی جائے یا کاروبار میں گھاٹا ہوجائے۔

    جمع شدہ رقم کو ایک علیحدہ اکاؤنٹ میں محفوظ رکھیں اور اس اکاؤنٹ کو بالکل بھول جائیں۔

    آمدنی میں اضافے کی صورت میں

    اگر آپ کی تنخواہ یا آمدنی میں اضافہ ہوا ہے تو اپنی سیونگ کی مقدار بھی بڑھا دیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی جائز خواہشات کی تکمیل یا تفریحات نہ کریں، بلکہ دونوں میں توازن رکھیں۔

    ایک ہی جگہ سرمایہ کاری سے گریز

    اپنی تمام جمع پونجی کو ایک ہی جگہ محفوظ رکھنے، یا ایک ہی جگہ پر سرمایہ کاری کرنے سے گریز کریں۔ اگر آپ نے کسی ایک ہی کاروبار میں بہت ساری سرمایہ کاری ہے تو نقصان کی صورت میں آپ اپنی تمام جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

    ذہانت سے سرمایہ کاری کریں

    پیسے کو محفوظ رکھنے کا آسان طریقہ سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کی اصل رقم محفوظ رہتی ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اضافی رقم بھی حاصل ہوتی ہے۔

    لیکن سرمایہ کاری کرتے ہوئے ذہانت سے کام لیں۔ کسی بھی جگہ سرمایہ کاری کرنے سے قبل اس کاروبار کے پھیلاؤ اور مستقبل کے بارے میں تحقیق کریں اور پڑھیں۔ ان افراد سے گفتگو کریں جو پہلے سے اس کاروبار میں سرمایہ کاری کر چکے ہوں۔ اس کے بعد ہی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کریں۔

    آمدنی میں اضافہ کریں

    بعض لوگ جب معاشی بحران کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اپنے اخراجات کو کم کر کے غربت میں زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ یہ ایک غلط نقطہ نظر ہے۔ اس کے برعکس ان ذرائع پر غور کریں جہاں سے آپ جائز طریقے سے اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔

    اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں، محنت کریں، کام سے ایمانداری اور مخلصی کا مظاہرہ کریں تو یقیناً آپ بھی معاشی طور پر خوشحال ہوجائیں گے۔

  • عالمی ادارہ تجارت کا ماحول دوست مصنوعات بنانے کا فیصلہ

    عالمی ادارہ تجارت کا ماحول دوست مصنوعات بنانے کا فیصلہ

    جینیوا: عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    گزشتہ ہفتے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ہونے والی میٹنگ میں ادارے کے امریکی، چینی اور جاپانی نمائندوں نے ان مصنوعات کی فہرست مرتب کی جو ماحول دوست اور کم خرچ ہوسکتے ہیں۔

    ان اشیا میں بجلی فراہم کرنے والے شمسی پینلز، ہوا کے معیار کا اندازہ لگانے والے آلات اور ہوا کی طاقت سے چلنے والے ٹربائن شامل ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ان مصنوعات سے ماحول کی بہتری کے لیے طے کیے گئے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔

    * دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    ادارے کی اگلی میٹنگ میں یورپی یونین کے نمائندے کی بھی شرکت کا امکان ہے۔

    عالمی ادارہ تجارت کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں 300 ماحول دوست مصنوعات کے بارے میں غور کیا جارہا ہے۔ اس بارے میں اگر کوئی حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے تو ادارہ اگلے سال سے رکن ممالک کو ماحول دوست مصنوعات کی تیاری میں مدد فراہم کرے گا۔

  • موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کا تعاون

    موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کا تعاون

    اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی نے پاکستان کے 3 شہروں کے لیے ایک ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی ہے جس کے تحت ان شہروں میں موسمیاتی تغیرات کے نقصانات کی بحالی کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے منظوری دیے جانے والے اس منصوبے میں تکنیکی معاونت شہروں میں موسمیاتی تغیر کے نقصانات سے بحالی کے ٹرسٹ یو سی سی آر ٹی ایف کے حوالے کی گئی ہے۔

    اس منصوبے کے تحت ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ اور ان کی بحالی کی جائے گی۔ ان نقصانات میں کلائمٹ چینج کے باعث وقوع پذیر ہونے والے واقعات جیسے سیلاب، ہیٹ ویو، یا غذائی قلت سے ہونے والے نقصانات شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    منصوبے میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھارت، انڈونیشیا، میانمار، اور ویتنام کے شہروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    اے ڈی بی کے مطابق جن 3 پاکستانی شہروں کو اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے وہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے نہایت شدید خطرات کا شکار ہیں۔

    منصوبے کے تحت ان شہروں میں مقامی رہائشیوں کے ساتھ مل کر دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ایسے انفراسٹرکچر کے قیام پر کام کیا جائے گا جو موسمیاتی  تبدیلیوں کی صورت میں ہونے والے نقصانات کو برداشت کرسکے۔

    اس سے قبل ایشیائی ترقیاتی بینک ہی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 1951 سے ان شہروں کی آبادی میں سالانہ 4 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں آبادیوں میں اضافے کا سبب

    اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ سنہ 2060 تک پاکستان کی 60 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوجائے گی جس سے ان شہروں کو انفرا اسٹرکچر، ماحول، معیشت اور امن و امان کے حوالے سے بے پناہ دباؤ اور سنگین خطرات کا سامنا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 30 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور

    اے ڈی بی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اربنائزیشن (گاؤں، دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت) کا عمل ایک بدترین صورتحال میں بدل چکا ہے جس کی وجہ مناسب حکمت عملیوں اور منصوبہ بندی کا فقدان، کمزور قوانین، اور سہولیات کی عدم فراہمی ہے۔

    اے ڈی بی کے منصوبے میں شامل خیبر پختونخوا کے 3 شہر بھی اسی صورتحال کا شکار ہیں اور وہاں رہائش پذیر بیشتر آبادی کو گھر، روزگار اور بنیادی سہولیات کا عدم فراہمی کا سامنا ہے۔

  • نیا کاروبار کرنے والے افراد کے لیے 6 مشورے

    نیا کاروبار کرنے والے افراد کے لیے 6 مشورے

    پرانے وقتوں کے لوگ ملازمت سے زیادہ کاروبار کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہم ملازمت کے لیے جتنی بھی محنت کریں، جتنا بھی خون پسینہ ایک کریں اس کا فائدہ مالکان کو ہوگا اور ہمیں مہینہ کے آخر میں ایک مقررہ رقم ہی ملے گی۔

    اس کے برعکس اپنے کاروبار پر محنت کرنے سے مکمل فائدہ کاروبار کرنے والے کو ہی حاصل ہوگا اور وہ رت جگوں اور ان تھک محنت کا صلہ صحیح معنوں میں وصول کر سکے گا۔

    su-4

    ماہرین کے مطابق ہر شخص کو چھوٹا موٹا ہی سہی کاروبار ضرور کرنا چاہیئے۔ اسے ایک بیک اپ کے طور پر رکھنا چاہیئے تاکہ اگر کساد بازاری کا دور ہو، ملازمتیں ملنی مشکل ہوں یا مالی بحران چل رہا ہو تو ملازمت جانے کی صورت میں آپ سڑک پر نہ آئیں۔

    ایک معروف ماہر تجارت کے مطابق اگر آپ اپنا کاروبار شروع کرنے جارہے ہیں اور اس سے پہلے آپ نے کبھی کوئی کاروبار نہیں کیا تو ان طریقوں پر عمل کریں۔

    :توجہ مرکوز رکھیں

    نوجوان ہر نئے موقع کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مواقع حاصل کرنا اچھی بات ہے لیکن اس سے آپ کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ اپنے مقصد پر فوکس کریں اور لگاتار اسی کے لیے کام کریں۔

    :صرف 30 سیکنڈز میں اپنی بات کہیں

    کسی انویسٹر کو متاثر کرنے کے لیے آپ کے پاس صرف 30 سیکنڈز کا وقت ہوتا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ کار اور دولت مند افراد کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے لہٰذا وہ کم وقت میں کسی چیز کے بارے میں اپنا تاثر قائم کرلیتے ہیں۔ آپ کی پہلی 30 سیکنڈز کی گفتگو کے دوران ہی وہ آپ کو سرمایہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

    su-5

    :کم وسائل رکھیں

    اگر آپ اپنا کاروبار شروع کرنے جا رہے ہیں تو وسیع و عریض خوبصورت آفس، شاندار فرنیچر اور سہولتوں کو فی الحال بھول جائیں۔ آغاز میں پیسہ بچائیں اور کم وسائل میں گزارہ کرنے کی کوشش کریں۔

    :فوری فیصلہ کریں

    ضروری نہیں کہ آپ جو منصوبہ بنائیں وہ پورا ہو۔ ہمیشہ پلان بی کو ذہن میں رکھیں۔ عین موقع پر اگر حالات میں تبدیلی ہو تو ان حالات کے مطابق فوراً فیصلہ کرنے کی عادت ڈالیں۔

    :صحت کا خیال رکھیں

    نیا بزنس ہمیشہ ان تھک محنت مانگتا ہے۔ اگر آپ صحت مند نہیں ہوں گے تو آپ کام نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ آپ خود کو صحت مند رکھیں۔

    su-3

    :کسی کا شکار مت بنیں

    کسی کا شکار بننے یا کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے منصوبوں کو خفیہ رکھیں، اپنے وسائل کا تذکرہ مت کریں اور اپنے تعلقات کو چھپا کر رکھیں۔ آپ کے آئیڈیاز ہوا کی طرح اڑ سکتے ہیں اور آپ صرف وسائل کی کمی کی وجہ سے ان پر عمل کرنے میں ناکام ہوجائیں گے۔

  • گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے 2030 تک کم از کم 2 کھرب پاؤنڈز کے نقصان کا اندیشہ ہے۔

    یہ رپورٹ اقوام متحدہ، اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی میں اضافے کی وجہ سے کھلی فضا میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا جس کے باعث دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثر پڑے گا۔

    lanour-new

    رپورٹ کے مطابق مشرقی ایشیائی ممالک میں خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافے کے بعد سالانہ اوقات کار میں 20 فیصد تک کمی ہوجائے گی۔

    جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 43 ممالک جن میں زیادہ تر ایشیائی ممالک ہیں، کو اپنی کل مجموعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہوگا۔

    ان 14 سالوں میں چین اور بھارت کو سالانہ تقریباً 340 بلین پاؤنڈز جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کو 188 بلین اور تھائی لینڈ کو 113 بلین پاؤنڈز کا نقصان اٹھانا ہوگا۔

    کلائمٹ چینج کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ *

    رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر ٹورڈ کیلسٹورم کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہماری روزمرہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہوگا۔ ’جتنی زیادہ گرمی ہوگی، ہمارے کام کرنے کی رفتار اتنی ہی کم ہوجائے گی۔ کئی ممالک میں صرف چند روز کے لیے ہیٹ ویو آئی اور اس سے ان ممالک کی معیشتوں کو اربوں کا نقصان پہنچا‘۔

    global-warming

    تاہم دیگر ماہرین کی طرح انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اگر ہم ہنگامی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کریں تو ہم اس نقصان میں کسی حد تک کمی کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر وہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے مطمئن نہیں۔ ’یہ اقدامات ابھی بھی کم ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اب سے 40 سال بعد اس کے لیے اقدامات کریں گے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں‘۔

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج اور اس کے باعث ہونے والی گلوبل وارمنگ کو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اس وقت دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

    گلوبل وارمنگ: شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کرچکا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

  • کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    ورلڈ بینک نے متنبہ کیا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت دنیا کے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں خطرناک کمی کرسکتی ہے۔

    ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    جن علاقوں میں پانی کی کمی موجود ہے وہاں صورتحال زیادہ خراب ہوجائے گی۔ ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو زبردستی ہجرت کرنی پڑ سکتی ہے۔

    migration

    یاد رہے کہ پینے کی پانی کی گھٹتی ہوئی مقدار، توانائی کے منصوبوں اور زراعت کے لیے پانی کا زیادہ استعمال کئی شہروں میں پانی کی قلت پیدا کر چکا ہے۔

    ورلڈ بینک کے صدر جم یونگ کم کے مطابق پانی کی قلت مستقبل میں کئی ممالک کی معیشت اور امن و امان کے استحکام کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوگی، اور کلائمٹ چینج ان خطرات کو مزید بڑھا رہا ہے۔

    انہوں نے تجویز دی کہ دنیا کو اپنے آبی ذخائر کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

    cliamte-change

    جن خطوں کو مستقبل قریب میں پانی کی کمی اور معاشی بدحالی کا سامنا کرنا ہوگا، ورلڈ بینک کے مطابق ان میں وسطی ایشیا، مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر آبی پالیسیوں، آبی ذخائر کے دانشمندانہ بچاؤ اور پائیدار ماحولیاتی فیصلوں کے ذریعے ان خطرات کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔