Tag: by elections

  • ضمنی الیکشن این اے 247: صدر پاکستان کی چھوڑی ہوئی نشست کی دل چسپ تاریخ

    ضمنی الیکشن این اے 247: صدر پاکستان کی چھوڑی ہوئی نشست کی دل چسپ تاریخ

    کراچی: کل کراچی کے حلقے این اے 247 پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے، یہ وہی سیٹ ہے، جوعارف علوی کے صدر  پاکستان بننے کے بعد خالی ہوئی۔

    نئی حلقہ بندیوں کے بعد اب این اے 247 ڈیفنس، کلفٹن، دہلی اور ٹی این ٹی کالونی، صدر، بزنس روڈ ،کراچی کینٹ، سول لائنز، کھارادر، لائٹ ہاؤس، کالا پل، گورا قبرستان پر مشتمل ہے۔ 2018کے انتخابات میں اس حلقے سے تحریک انصاف کے عارف علوی فاتح ٹھہرے۔

    این اے 247 کراچی کا سب سے بڑا حلقہ ہے، یہاں ووٹرز کی تعداد ساڑھے پانچ کے لگ بھگ ہے۔ ماضی میں ڈیفنس، کلفٹن، صدر ،دہلی ٹی این ٹی کالونی، بزنس روڈ پر محیط تھا اور این اے 250 کہلاتا ہے۔

    ایئرمارشل اصغر خان، کیپٹن حلیم احمد صدیقی، عبدالستار افغانی اور خوش بخت شجاعت

    اِسے 2002 کی حلقہ بنیادوں میں یہ نام دیا گیا، البتہ گذشتہ انتخابات سے قبل  اس میں این اے 248 اور این اے 247کے اولڈ سٹی ایریا  کے  حصے  شامل کیے گئے۔

    1970 میں اس حلقہ کیا  نام تھا؟

    اگر ماضی میں جھانکیں، تو سن 70 سے کراچی ساﺅتھ کے اس حلقے کو شہر کی سیاست میں نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ اس وقت یہ NW133کہلاتا تھا۔ یہاں پیپلزپارٹی کے بیرسٹر کمال اظفر کافی سرگرم تھے، مگر انتخابی سیاست میں وہ خود کو منوانا نہ سکے۔ 1970 میں انھیں آزاد امیدوار مولانا ظفر احمد انصاری کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    یہ بڑا دل چسپ پہلو ہے کہ 2013 اور  2018 میں یہاں سے الیکشن جیتنے والے پی ٹی آئی کے عارف علوی ان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔

    نو ستارے بہ مقابلہ بھٹو

    1977 میں ذوالفقار علی بھٹو اور نو ستاروں کا مقابلہ تھا۔ مجموعی طور پر توپیپلزپارٹی نے کامیابی اپنے نام کی، البتہ کراچی ساﺅتھ کے اس حلقے میں، جو اب NA190 ہوگیا تھا، پاکستان نیشنل الائنس کے ممتاز لیڈر ایئر مارشل ا صغر خان نے معرکہ سر کیا، پی پی کے بیرسٹر کمال اظفر  دوسرے نمبر پر رہے۔ البتہ یہ الیکشن مارشل لا لے کر آئے۔ ضیا دور میں غیرجماعتی انتخابات ہوئے۔

    1988 اور 1990 میں اس حلقے میں کیا ہوا؟

    اب اس حلقے کا نام این اے 191ہوگیا تھا۔ 1988 اور 1990 کے عام انتخابات میں یہاں سے سید طارق محمود کامیاب ہوئے، جو پہلے آزاد اور بعد ازاں حق پرست پینل سے اترے۔ دونوں بار انھیں ایم کیو ایم کی سپورٹ حاصل تھی۔ 

    مسلم لیگ ن کی برتری

    آنے والے دو انتخابات میں مسلم لیگ ن کراچی ساﺅتھ میں چھائی رہی۔کیپٹن حلیم احمد صدیقی نے 1993 اور 1997 میں این اے 191 کا معرکہ اپنے نام کیا۔ دو سال بعد ملک میں پرویز مشرف کا مارشل لا لگ گیا۔ بعد میں کیپٹن حلیم مسلم لیگ ق کا حصہ بن گئے۔

    جب یہ حلقہ این اے 250ہوا

    2002کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 250 کہلایا۔ متحدہ مجلس عمل کے عبدالستار افغانی نے اس حلقے میں نسرین جلیل کو شکست دی، مگر کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد ایم کیو ایم کے کیپٹن اخلاق حسین عابدی نے ادھر سے کامیابی حاصل کی۔

    اِسی حلقے سے 2002 میں ممنون حسین بھی نواز لیگ کے امیدوار رہے، وہ کام یاب تو نہ ہوئے، لیکن 11 سال بعد وہ صدر بن گئے۔

    2008 کے انتخابات میں ادھر ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت اور مرزا اختیار بیگ میں کانٹے کا مقابلہ ہوا، جو خوش بخت شجاعت کے نام ہوا۔

    مستقبل کے صدر پاکستان کی کامیابی

    2013 میں این اے 250شہر قائد میں قومی اسمبلی کی واحد سیٹ تھی، جو تحریک انصاف نے جیتی، مگر اس پر خاصا ہنگامہ ہوا۔الیکشن والے روز اس حلقے میں انتخابی سامان اور عملے کی عدم موجودگی کے سبب پولنگ تاخیر کا شکار ہوئی۔

    بعد میں مخصوص علاقوں میں دوبارہ پولنگ ہوئی، متحدہ نے پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا، جو نہیں مانا گیا، جس پر ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کر دیا۔ یوں عارف علوی اس نشست پر فاتح ٹھہرے۔

    نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کا یہ حلقہ 247 کہلایا۔ اس بار عارف علوی نے 90 ہزار 907 ووٹ لیے، جو کراچی میں عمران خان کے 91 ہزار 373 ووٹوں کے بعد سب سے زیادہ بنتے ہیں۔

    حروف آخر

    21اکتوبر 2018کو عارف علوی کی چھوڑی ہوئی اس نشست پر انتخاب ہونے جارہا ہے، اس روز دو صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر بھی الیکشن ہوگا۔ بہ ظاہر پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط ہے، البتہ حتمی فیصلہ الیکشن والے دن ووٹرز ہی کریں گے۔

  • لودھراں :40ہزار کا جرمانہ صدقہ سمجھ کردے دیں گے،علی ترین

    لودھراں :40ہزار کا جرمانہ صدقہ سمجھ کردے دیں گے،علی ترین

    لودھراں : حلقہ این اے 154 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کا کہنا ہے کہ عوام نےماضی میں الیکشن میں کامیابی دی آج بھی دینگے، 40ہزارکاجرمانہ صدقہ سمجھ کردے دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی ترین نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جرمانہ عائد کرنے پر درعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہفتےمیں 3دن لودھراں میں گزارتااورعوام کےمسائل سنتاہوں، 40ہزارکاجرمانہ صدقہ سمجھ کردےدیں گے۔

    علی ترین کا کہنا تھا کہ عوام نے ماضی میں الیکشن میں کامیابی دی آج بھی دینگے، مسلم لیگ ن کےامیدوارکوتوکوئی جانتاتک نہیں، لوکل باڈی میٹنگ میں میرا انتخاب کیا گیا تھا۔

    پی ٹی آئی امیدوار نے کہا کہ پارٹی کی میٹنگ میں مجھے ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا تھا اورکسی نے اس فیصلے پراعتراض نہیں کیاتھا، میرا پارٹی میں کبھی کوئی عہدہ نہیں تھا، دیگرجماعتوں کی بھی دوسری نسل سیاست میں موجود ہے۔


    مزید پڑھیں : این اے 154میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی‘ پی ٹی آئی امیدوار پرجرمانہ


    خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 میں پولنگ کا عمل جاری ہے, ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے علی خان ترین اور مسلم لیگ ن کے پیر سید اقبال شاہ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، ضمنی انتخاب میں 4 لاکھ 31 ہزار ووٹرز اپنے حق رائے دہی استعمال کریں گے، جن کے لیے 338 پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں جن میں سے 6 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے۔

    ضمنی انتخاب میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار پر 40 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کردیا تھا۔

    امیدوار نے انتخابی مہم کے لیے پارلیمنٹرینز کو بلاکر ضابطہ اخلاف کی خلاف ورزی کی، علی ترین پر الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت جرمانہ عائد کیا گیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی کے نتیجے کے بعد نشت این اے 154 خالی ہوئی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • بلدیاتی انتخابات ، حلقہ بندیوں کا نیا شیڈول جاری

    بلدیاتی انتخابات ، حلقہ بندیوں کا نیا شیڈول جاری

    پنجاب: سال رواں کے آخر میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن پندرہ مئی کو جاری کر دے گا۔

    کنٹونمنٹس کے بلدیاتی الیکشن کی وجہ سے رکا ہوا کام دوبارہ شروع ہوگیا ہے، الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے لئے نیا شیڈول جاری کردیا ہے، اس سلسلے میں پندرہ مئی کوابتدائی فہرست تیار کی جائےگی۔

    الیکشن کمیشن کے مطابق ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات سولہ سے بیس مئی تک داخل کرائے جاسکتے ہیں۔

    اعتراضات یکم جون سے آٹھ جون تک نمٹائے جائیں گے اور فیصلہ گیارہ جون کو ہوگا۔

    حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹیفکیشن پندرہ جون کو جاری کیا جائے گا، اس سے قبل الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کو عمل تیس مئی تک مکمل کرنے کا اعلان تھا۔