Tag: CAMEL

  • گوگل میپ نے حیران کن قدم اٹھا لیا

    گوگل میپ نے حیران کن قدم اٹھا لیا

    ابوظبی: گوگل میپ نے حیران کن قدم اٹھاتے ہوئے اپنی سروس میں اونٹ کو بھی شامل کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ابوظبی کے لیوا نخلستان کی 360 ڈگری کی تصاویر حاصل کرنے کے لیے گوگل نے غیر معمولی حل تلاش کر لیا۔ لیوا نخلستان میں کار کے ذریعے رسائی ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے گوگل کو اپنا ٹریکر کیمرہ وہاں لے جانے کے لیے اونٹ کا انتخاب کرنا پڑا۔

    جن مقامات کی تصاویر کھینچنے کے لیے گوگل کی Street View کاریں نہیں پہنچ پاتیں، تو عام طور پر وہاں انسان ہی ٹریکر کیمرے لے کر جاتے ہیں، تاہم لیوا نخلستان میں یہ بھی ممکن نہ تھا، جس پر گوگل نے اونٹ کو استعمال کیا۔

    جس اونٹ سے یہ خدمت لی گئی ہے، اس کا نام رافع بتایا جا رہا ہے، یہ پہلا جانور ہے جو اس طریقے میں استعمال کیا گیا ہے، گوگل کی ترجمان مونیکا باز کا کہنا تھا کہ لیوا نخلستان کی بدلتی ریت کو دستاویز کرنے کے لیے اونٹ کا استعمال سب سے مناسب طریقہ ہے۔

    انٹرویو میں گوگل ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹریکر کیمرہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اونٹ اسے لے کر صحرا میں مستند تصاویر کھینچ سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ گوگل کی ’اسٹریٹ ویو‘ ٹیکنالوجی نے صارفین کو مشہور لینڈ مارکس، دور دراز مقامات اور یہاں تک کہ سمندروں کی گہرائیوں کو بھی حقیقتاً دریافت کرنے کے قابل بنایا ہے۔

  • اونٹ نے بچے کو سر سے دبوچ لیا، دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل

    اونٹ نے بچے کو سر سے دبوچ لیا، دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل

    ترکیہ : چڑیا گھر میں اونٹ نے بچے کو سر سے دبوچ لیا تاہم والد نے لپک کر اونٹ کے شکنجے سے بیٹے کو بچایا، دل دہلا دینے والے واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے شہر ڈینیزلی کے چڑیا گھر میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا، جہاں ایک بچہ اونٹ کے حملے سے بال بال بچ گیا، چونکا دینے والا واقعہ کیمرے میں قید ہوگیا۔

    ڈینیزلی کے چڑیا گھر میں لی گئی دل دہلا دینے والی فوٹیج میں ایک چھوٹے بچے کو اونٹوں کے قریب آتے دکھایا گیا ہے، جیسے ہی بچہ قریب آتا ہے، اونٹ آگے بڑھ کر بچے کو گردن سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تاہم خوش قسمتی سے باپ فورا لپک کر بچے کو بچا لیتا ہے۔

    اونٹ کے حملے میں بچے کے سر اور گردن پر زخم آئے تاہم زخمی بچے کو اسپتال لے جایا گیا ، جہاں بچے کی حالت بہتر بتائی جاتی ہے۔

    واقعے کے بعد ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو چڑیا گھر کی حفاظت اور چھوٹے بچوں کے ساتھ ایسی سہولیات کا دورہ کرتے وقت چوکس نگرانی کی ضرورت کے بارے میں بحث شروع ہوگئی۔

    خیال رہے چڑیا گھر میں زائرین اور جانوروں دونوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عموماً رکاوٹیں، باڑیں اور نشانیاں ہوتی ہیں تاکہ دونوں کے درمیان محفوظ فاصلہ رکھا جا سکے۔ زائرین کو ان ہدایات پر عمل کرنا چاہیے اور خطرناک حالات سے بچنے کے لیے جانوروں سے احترام کے ساتھ فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔

  • اونٹ خریداری کرنے سنار کی دکان جا پہنچا

    اونٹ خریداری کرنے سنار کی دکان جا پہنچا

    صنعا: یمن میں ایک اونٹ سنار کی دکان میں جا گھسا جس سے دکاندار نہایت خوفزدہ ہوگئے، واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔

    عربوں کے خیمے میں اونٹ کے داخلے سے متعلق کہاوت تو سب ہی نے سن رکھی ہوگی، تاہم گذشتہ دنوں اس قدیم کہاوت میں جدید اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک اونٹ یمن کے دارالحکومت صنعا میں سنار کی دکان میں جا گھسا۔

    اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں اونٹ کو سنار کی دکان میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    اونٹ کو اس طرح اچانک اندر آتے دیکھ کر دکاندار خوف زدہ ہو گئے اور انہوں نے اونٹ سے بچنے کے لیے شوکیس کے پیچھے پناہ لی۔

    اونٹ نے اندر آنے کی بار بار کوشش کی مگر دکان میں جگہ تنگ ہونے کے باعث وہ مزید اندر داخل نہ ہو سکا، جس کے بعد وہ ناکام ہو کر وہاں سے چلا گیا۔

    ایک شہری نے وائرل ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دکانداروں کے لیے اونٹ کوئی غیر مانوس جانور نہیں مگر اچانک دیکھ کر شاید انہیں لگا کہ شیر گھس آیا ہے۔ اس لیے وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔

  • سعودی عرب: نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ

    سعودی عرب: نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ

    سعودی عرب میں نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا ہے جس کا مقصد ان کی نسل اور شجرہ نسب کا تحفظ کرنا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں کیمل کلب اور کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال کے اہلکاروں نے نایاب نسل کے 12 اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل حاصل کرلیے۔

    جن اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل لیے گئے وہ شہزادہ سلطان بن محمد بن سعود الکبیر اور شہزادہ ترکی بن محمد بن سعود الکبیر کے ہیں۔

    کیمل کلب اور کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال نایاب اونٹوں کی نسل کے تحفظ کے لیے ان کے ڈی این اے جمع کر رہے ہیں۔

    اونٹوں کے معائنے اور میڈیکل لیبارٹری میں اندراج کی کارروائی میں 5 روز صرف ہوئے، ڈی این اے جمع کرنے کے بعد اونٹوں کی نسل سے متعلق تمام معلومات محفوظ کی جائیں گی۔

    یاد رہے کہ جن اونٹوں کے ڈی این اے لیے گئے ہیں وہ غرنوق، الشامخ، الحاکم، شقران، شامان، العالی، نوفان، الکاید، خزام الشعل، ورقان اور الفاخر ہیں، ان کے بچوں کے ڈی این اے بھی لیے گئے ہیں۔

    اس مہم کا مقصد نایاب نسل کے اونٹوں کا شجرہ نسب محفوظ کرنا ہے، شہزادہ سلطان بن محمد اور شہزادہ ترکی بن محمد کے اونٹوں کے ڈی این اے کے بعد دیگر نایاب نسل کے اونٹوں کے دیگر 17 مالکان سے بھی رجوع کیا جائے گا اور ان کے اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل بھی لیے جائیں گے۔

  • سعودی عرب: شدید سردی میں اونٹ کے آنسو جم گئے

    سعودی عرب: شدید سردی میں اونٹ کے آنسو جم گئے

    سعودی شہر طریف میں اونٹ کی آنکھوں سے نکلتے آنسو منجمد ہونے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، صارفین نے اس منظر کو ناقابل یقین قرار دیا ہے۔

    طریف میں درجہ حرارت منفی 5 تک جاچکا ہے، شدید سردی کے باعث اونٹ کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو بہنے کے بجائے جم رہے ہیں۔

    دوسری جانب قومی مرکز موسمیات نے ریاض اور قصیم کے باشندوں کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ جمعہ اور ہفتے کے روز جنگلات کا رخ نہ کریں، ان دنوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے تین ڈگری نیچے ہوگا۔

    مرکز موسمیات کا کہنا ہے کہ شمالی مملکت میں شدید سردی کی لہر ابھی جاری رہے گی اور درجہ حرارت تدریجی طور پر بڑھنا شروع ہوگا۔

    مرکز کا مزید کہنا ہے کہ سردی کی شدید لہر مملکت کے مشرقی اور وسطی علاقوں کا رخ کرے گی، ہفتے اور اتوار کے روز سے مملکت کے جنوبی علاقے اس لہر کی لپیٹ میں ہوں گے۔

  • سعودی عرب میں شروع ہوا انوکھا مقابلہ حسن

    سعودی عرب میں شروع ہوا انوکھا مقابلہ حسن

    سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری دنیا میں اونٹوں کے سب سے بڑے میلے کنگ عبدالعزیز فیسٹیول میں اونٹنیوں کے مقابلہ حسن شروع ہوگیا ہے۔

    مقابلہ حسن تو آپ نے بہت دیکھے ہوں گے جس میں ریمپ پر خوبصورت حسینائیں‌ اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی ہیں لیکن اگر آپ سعودی عرب میں ہیں تو آپ کو مقابلہ حسن تو ملے گا لیکن نازک اندام حسیناؤں کا نہیں بلکہ ریگستانوں کے جہاز اونٹنیوں کا۔

    اونٹ سعودی عرب کا قومی جانور اور ثقافتی پہچان ہے، ہر سال یہاں اونٹوں کا سب سے بڑا میلہ کنگ عبدالعزیز فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے، جس میں ملک بھر سے اونٹ لائے جاتے ہیں اور لاکھوں افراد اس فیسٹیول میں شرکت کرتے ہیں۔

    فیسٹیول کے شرکا کی سب سے زیادہ دلچسپبی اونٹنیوں کے مقابلہ حسن میں ہوتی ہے جو اب شروع ہوچکا ہے۔

    مقابلہ حسن میں شرکت کا معیار جان کر حیران نہ ہوں، یہاں مقابلے میں شرکت کا معیار گلاب کی پنکھڑی جیسے نازک ہونٹ، ستواں ناک اور بل کھاتی کمر نہیں بلکہ لمبے اور لٹکے ہوئے ہونٹ، بڑی ناک اور کوہان کی شکل ہے۔

    مقابلہ جیتنے والی خوبصورت اونٹنی کے مالک کو 6 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا بھاری انعام دیا جاتا ہے، اس بھاری انعام کے لالچ میں اب اونٹنیوں کے مالکان جعلسازی بھی کرنے لگے ہیں۔

    لیکن مصنوعی طریقوں سے اونٹنیوں کے حسن میں اضافے کے انکشاف کے بعد منتظمین بھی ہوشیار ہوگئے ہیں  جس کے بعد  مقابلہ حسن میں شرکت کرنا اتنا آسان نہیں رہا، اب کڑی جانچ پڑتال کے بعد اونٹنیوں کو اس مقابلے میں شرکت کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔

    امسال بھی مقابلے میں شرکت سے قبل ماہرین نے اونٹنیوں کا ان کی شکل وصورت اور چلنے کے انداز کا معائنہ کیا، جدید ایکسرے، تھری ڈی الٹراساؤنڈ سے سر، گردن اور دھڑ کے عکس لیے اور جنیاتی معائنے سمیت خون کے ٹیسٹ کیے گئے اور 40 کے قریب اونٹنیوں کو خوبصورتی کے لیے بوٹوکس انجکشن لگانے پر نااہل قرار دیا گیا۔

  • اونٹنی کے دودھ کا حیران کن فائدہ سامنے آگیا

    اونٹنی کے دودھ کا حیران کن فائدہ سامنے آگیا

    اونٹنی کے دودھ کو نہایت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ اس میں کم چکنائی (فیٹ) اور بنیادی غذائی اجزا کی کثرت ہے۔ ایسے افراد میں جن کا جسم لیکٹوز قبول نہیں کرتا ان کے لیے اونٹنی کا دودھ عام دودھ کی نسبت زیادہ آسانی سے قابل ہضم ہے۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں میں اونٹنی کے دودھ کے انسانی صحت اور غذائیت پر فائدہ مند اثرات پر یقین رکھا جاتا ہے۔

    متعدد تحقیقی رپورٹس میں اس دودھ کو سپر فوڈ قرار دیا گیا ہے جو جراثیم کش، اینٹی آکسائیڈنٹ اور اینٹی ہائپر ٹینسو (فشار خون کی روک تھام کرنے والا) ہوتا ہے۔

    مگر محققین کی توجہ جس چیز نے اپنی توجہ مرکوز کروائی، وہ جانوروں اور انسانوں پر کلینکل تحقیقی رپورٹس میں اونٹنی کے دودھ سے ذیابیطس سے جڑے عناصر جیسے بلڈ شوگر کنٹرول سے لے کر انسولین کی مزاحمت کے حوالے سے فوائد کا ثابت ہونا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اونٹوں کو 3 سے 4 ہزار سال پہلے انسانوں نے پالتو بنایا تھا، یہ جانور متعدد منفرد خصوصیات کا مالک ہے، جیسے اپنے کوہان میں 36 کلو تک چکنائی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت، 100 میل تک چلنے اور 49 ڈگری درجہ حرارت میں بغیر پانی کے لگ بھگ ایک ہفتے تک زندہ رہنے کی صلاحیت وغیرہ۔

    اونٹ ان جانوروں میں شامل ہے جو غذا کو ہضم کرنے سے قبل خمیر بناتے ہیں اور بہت کم سے بھی بہت زیادہ حاصل کرتے ہیں۔

    یہ متعدد اقسام کے پودوں کو کھاتے ہیں اور ان کو گائے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے ہضم کرتے ہیں۔

    اونٹنی کے دودھ پر تحقیق کا سلسلہ 3 سے 4 دہائی قبل شروع ہوا تھا اور بظاہر گائے اور اس دودھ میں چکنائی، پروٹین، لیکٹوز اور کیلشیئم کی سطح قابل موازنہ ہے مگر زیادہ گہرائی میں جانے سے اس دودھ کے منفرد فوائد سامنے آئے جیسے وٹامن سی کی بہت زیادہ مقدار، اہم غذائی منرلز اور زیادہ آسانی سے ہضم ہونے کی صلاحیت وغیرہ اسے گائے کے دودھ سے زیادہ بہتر بناتے ہیں۔

    کچھ ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ جن بچوں کو گائے کے دودھ سے الرجی ہوتی ہے وہ اونٹنی کا دودھ بغیر کسی مسئلے کے استعمال کرسکتے ہیں۔

    تحقیقی رپورٹس کے مطابق اجزا کے لحاظ سے اونٹنی کا دودھ ماں کے دودھ سے کافی ملتا جلتا ہے، دونوں میں پروٹین ہوتی ہیں اور وہ اجزا نہیں ہوتے جو دودھ سے الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

    یو اے ای میں امپرئیل کالج لندن ڈائیبیٹس سینٹر کے ماہرین نادر لیسان اور ایڈم بکلے نے بتایا کہ غذائی معیار سے قطع نظر اونٹنی کا دودھ ذیابیطس سے بچاؤ کی خصوصیات سے بھی لیس ہوتا ہے۔

    ان دونوں نے انسولین کے ردعمل پر اونٹنی کے دودھ کے اثرات کا ایک کلینکل ٹرائل بھی کیا۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود کی ایک حالیہ لیبارٹری تحقیق میں ذیابیطس کے حوالے سے اونٹنی کے دودھ کے اثرات پر مزید روشنی ڈالی گئی۔

    تحقیقی رپورٹس کے نتائج

    ایسے ممالک جہاں یہ دودھ آسانی سے دستیاب ہے وہاں اس کے فوائد پہلے ہی نظر آرہے ہیں۔

    مثال کے طور پر شمالی بھارت میں اونٹ پالنے والی برادری پر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ باقاعدگی سے اونٹنی کا دودھ پیتے ہیں ان میں ذیابیطس کی شرح صفر فیصد ہوتی ہے۔

    عالمی سطح پر اونٹنی کے دودھ کی پروڈکشن میں 1961 سے اب تک 4.6 گنا اضافہ ہوچکا ہے جس سے روایتی خطوں سے ہٹ کر بھی اس کے استعمال کی مقبولیت کا عندیہ ملتا ہے۔

    یورپی یونین میں بھی کیمل ملک پراجیکٹ کی کوششوں کو سپوٹ کیا جارہا ہے جبکہ بحیرہ روم کے خطے میں بھی اس کے حوالے سے دلچسپی بڑھی ہے۔

    چین سے لے کر آسٹریلیا میں اونٹنی کے دودھ سے بنی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا میں مختلف کمپنیوں کی جانب سے اس کی پروڈکشن بڑھانے پر کام ہورہا ہے۔

    مگر اب بھی یہ گائے کے دودھ سے بہت مہنگا ہے اور متعدد افراد اسے روزانہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

    ابھی کمرشل پراڈکٹ کی شکل میں اونٹنی کے دودھ کے فوائد کے تسلسل کے حوالے سے بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ اس دودھ کا معیار کا انحصار مختلف عناصر جیسے لوکیشن اسٹیج، خطہ، اونٹوں کی غذائی عادات وغیرہ پر ہوتا ہے تو ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ ان سے دودھ پر کس حد تک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد ایوب اور ساجد مقصود نے اپنی حالیہ تحقیق میں کہا کہ اونٹنی کا دودھ ذیابیطس کے نئے علاج کے لیے اہم ترین ثابت ہوسکتا ہے۔

    مگر ذیابیطس کے جو مریض اس دودھ کو آزمانا چاہتے ہیں انہیں کچھ باتیں ذہن میں رکھنی چاہیئے۔

    سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اس دودھ کو ابالے بغیر پینے سے گریز کرنا چاہیئے ورنہ ای کولی اور دیگر جراثیم جسم میں جاکر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    اسی طرح اگرچہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ بلڈ شوگر کنٹرول کو بہتر اور ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں میں انسولین کی ضرورت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    مگر ماہرین نے مریضوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسے انسولین کا متبادل مت سمجھیں۔

  • سعودی عرب : اونٹوں کی حفاظت کیلئے حکومت کا مؤثر اقدام

    سعودی عرب : اونٹوں کی حفاظت کیلئے حکومت کا مؤثر اقدام

    وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت نے سعودی عرب میں اونٹوں کی نمبرنگ کے ڈیجیٹل سسٹم کو ہائی وے پولیس کے نظام سے جوڑ دیا ہے، نمبرنگ سسٹم کے ذریعے اونٹوں میں مخصوص چپ لگائی جاتی ہے تاکہ ان کی ٹریکنگ آسان ہوسکے۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق اونٹوں کی نمبرنگ کے ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے اب تک 15 لاکھ سے زائد اونٹوں میں الیکٹرانک چپ لگائی جاچکی ہے۔

    ہائی وے پولیس کے سسٹم سے اونٹوں کی چپ کو جوڑنے کا مقصد شاہراہوں پر آنے والے اونٹ اور ان کے مالکان کے بارے میں آسانی سے معلوم ہوسکے گا۔

    وزارت ماحولیات کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اونٹوں میں چپ لگانے کا بنیادی مقصد ان کی ٹریکنگ اور اونٹوں کا ریکارڈ رکھنا ہے جس کے ذریعے ہر علاقے کے اونٹ اور ان کی نسل کے بارے میں مکمل ڈیٹا محفوظ کیاجاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اونٹوں کی صحت اور بیماری کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں عالمی سطح کی اونٹ دوڑ کے مقابلے بڑے پیمانے پر منعقد کیے جاتے ہیں، اس دوڑ میں شریک اونٹوں کی نسل سے ان کی قدرو قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔

    ہائی وے پولیس کے قانون کے مطابق شاہراہوں پر نکل آنے والے اونٹوں کے مالکان پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہےـ شاہراہوں پراونٹوں کی وجہ سے سنگین حادثات کا خدشہ ہوتا ہے، اسی لیے ہائی وے پولیس نے اونٹوں کے مالکان کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو شاہراہوں سے دور رکھیں۔

    اونٹوں کی چپ کے سسٹم کو ہائی وے پولیس کے نظام سے جوڑنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں فوری طورپر اونٹ کے جسم میں چسپاں چپ کے ذریعے اس کے مالک کو ٹریس کیا جاسکے۔

  • اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    لندن: برطانوی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ لاما اور اونٹ کے ذریعے انسانوں سے کرونا وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ لاما اور اونٹ میں بننے والی مختصر اینٹی باڈیز یعنی نینو باڈیز کرونا وائرس کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔

    روزالن فرینکلن انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے سائنسدانوں نے ابتدائی طور پر تجربہ گاہ میں رکھے گئے ایک لاما میں کرونا وائرس داخل کیا تو لاما کے جسم میں موجود ایک خاص نینو باڈی نے وائرس کو جکڑ کر مزید پھیلنے سے روک دیا۔

    لاما میں سے یہ نینوباڈی الگ کی گئی اور اگلے مرحلے میں اسے ہیمسٹرز پر آزمایا گیا جو وائرس سے متاثر کیے گئے تھے۔ ہیمسٹرز میں بھی اس نینو باڈی نے وہی کارکردگی دکھائی جس کا مظاہرہ یہ لاما میں کرچکی تھی۔

    لاما سے حاصل شدہ نینو باڈی کو اسپرے کی شکل میں براہ راست ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں پہنچایا جاسکتا ہے جو اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔

    یہ بھی بتاتے چلیں کہ عام اینٹی باڈیز کے مقابلے میں نینو باڈیز کی جسامت بہت کم ہوتی ہے لیکن اب تک کی تحقیق میں انہیں ایسے کئی وائرسز اور جرثوموں کے خلاف بھی مؤثر پایا گیا جن پر روایتی اینٹی باڈیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

  • اونٹ جو بلوچستان کے دیہات میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے

    اونٹ جو بلوچستان کے دیہات میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے

    بلوچستان کے دور دراز جنوب مغربی صحرائی علاقے میں قدم بڑھاتا روشن نامی اونٹ ایسا سامان ڈھو رہا ہے، جو انمول ہے، اس پر ان بچوں کے لیے کتابیں لدی ہوئی ہیں جو کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال مارچ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے اور گزشتہ ایک سال میں یہ بہت کم عرصے کے لیے ہی کھل پائے ہیں۔ ملک بھر میں 5 کروڑ اسکول جانے کی عمر رکھنے والے بچے اور یونیورسٹی کے طلبہ اب اپنے گھروں ہی میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں گھر سے پڑھنا مشکل ہے کیونکہ یہاں کئی دیہات انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتے۔

    یہی وجہ ہے کہ ایک ہائی اسکول پرنسپل رحیمہ جلال کو کیمل لائبریری پروجیکٹ کا خیال آیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے پچھلے سال اگست میں اس لائبریری کا آغاز کیا تھا کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے علاقے اور ارد گرد کے دیہات کے بچے اسکول بند ہونے کے باوجود پڑھیں۔

    رحیمہ جلال مند گرلز ہائی اسکول کی پرنسپل ہیں اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار پاکستان زبیدہ جلال کی بہن ہیں لیکن اتنے بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے مقامی لوگوں کی بہبود اور تعلیم کو اپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے۔ اس منصوبے کے تحت وہ فیمیل ایجوکیشن ٹرسٹ اور الف لیلہ بک بس سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

    اب کیمل لائبریری کے تحت روشن نامی اونٹ بلوچستان کے ضلع کیچ کے چار مختلف دیہات کے لیے کتابیں لے جاتا ہے۔ وہ ہفتے میں تین مرتبہ ہر گاؤں میں جاتا ہے اور ہر گاؤں میں تقریباً دو گھنٹے قیام کرتا ہے۔ بچے کتابیں حاصل کرتے ہیں اور روشن کے اگلے دورے پر اسے واپس کرتے ہیں۔ کچھ کتابیں بچوں میں مفت بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔

    انہی بچوں میں سے ایک 9 سالہ عنبرین ہیں، جو بلوچی زبان میں کہتی ہیں کہ مجھے تصویروں والی کتابیں پسند ہیں کیونکہ تصویریں دیکھ کر کہانی زیادہ اچھی طرح سمجھ آتی ہے۔

    رحیمہ جلال اس منصوبے کو مزید دیہات تک پھیلانا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں سرمائے کی ضرورت ہے۔ ان کے منصوبے کا اس وقت خرچہ تقریباً 118 ڈالرز ماہانہ ہے۔

    روشن کے مالک مراد علی کہتے ہیں کہ انہیں یہ لائبریری کا کام بہت پسند ہے۔ انہیں بچوں کو کتابیں پڑھتا دیکھ کر بہت خوشی ملتی ہے۔