Tag: cancer

  • پنجاب میں کینسر کے مریضوں کے لیے مفت دواؤں کی فراہمی کا مسئلہ حل

    پنجاب میں کینسر کے مریضوں کے لیے مفت دواؤں کی فراہمی کا مسئلہ حل

    لاہور: صوبہ پنجاب میں کینسر کے مریضوں کے لیے مفت دواؤں کی فراہمی کا مسئلہ حل کردیا گیا، کینسر کے مریضوں کو دواؤں کی فراہمی کے لیے رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق میو اسپتال اور بینک آف پنجاب میں رقم منتقلی سے متعلق معاہدہ طے پا گیا، وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی موجودگی میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔

    معاہدے کے تحت کینسر کے مریضوں کو دواؤں کی فراہمی کے لیے رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے گی، بینک آف پنجاب کینسر کے رجسٹرڈ مریضوں کو امید زندگی پروگرام کے تحت رقم منتقل کرے گا۔

    وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ مریضوں کو مفت دواؤں کی فراہمی سے اللہ بھی راضی ہوگا اور مخلوق بھی، مریضوں کو مفت دواؤں کی تسلسل سے فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

  • ہمارے روزمرہ کھانوں کا حصہ بننے والی یہ سبزی کینسر سے بچا سکتی ہے

    ہمارے روزمرہ کھانوں کا حصہ بننے والی یہ سبزی کینسر سے بچا سکتی ہے

    ہمارے روزمرہ کھانوں کا لازمی جز پیاز اپنے اندر شمار فوائد رکھتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق پیاز کینسر سے تحفظ میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    پیاز نہ صرف کھانوں کا ذائقہ بڑھاتی ہے بلکہ اس کے اندر کئی ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو بہت سے امراض کے علاج میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔

    کم کیلوریز لیے اس حیرت انگیز سبزی میں پوٹاشیئم، وٹامن بی 6 اور سی کی کثیر مقدار کے ساتھ دیگر وٹامنز اور منرلز وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق پیاز کے جہاں بے شمار فائدے ہیں وہیں یہ کینسر سے بھی تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ گہرے رنگ کی پیاز کئی طرح کے کینسر کے خلیات کو کم کرنے میں سب سے زیادہ مؤثر ہے۔

    اس کی وجہ پیاز میں موجود اینتھو سائنین نامی ایک اینٹی آکسیڈنٹ ہے، ساتھ ہی اس میں ایسے مرکبات بھی پائے جاتے ہیں جو ٹیومر کو روکنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    علاوہ ازیں پیاز کا روزانہ استعمال دل کی صحت کے لیے بھی مفید ہے جبکہ یہ قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

  • کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی آزمائش شروع

    کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی آزمائش شروع

    ایک طویل عرصے سے کینسر کے علاج پر تحقیقاتی کام جاری تھا، اب حال ہی میں ماہرین نے اس وائرس کی آزمائش شروع کردی ہے جو انسانی جسم میں جا کر کینسر کو ختم کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینسر کو ختم کرنے والے تیار کیے گئے وائرس کی پہلی بار انسانوں پر آزمائش شروع کرتے ہوئے سائنسدانوں نے ایک مریض کے جسم میں انجکشن کے ذریعے وائرس داخل کردیا۔

    کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی انسانوں پر آزمائش کے پہلے مرحلے کا آغاز کردیا گیا ہے جس میں کینسر سے متاثر 100 بالغ افراد کے جسموں میں وائرس داخل کیا جائے گا۔

    سائنسی جریدے نیشنل لیبارٹری اینڈ میڈیسن میں شائع رپورٹ کے مطابق 17 مئی 2022 سے کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی آزمائش کا پہلا مرحلہ شروع کیا گیا۔

    مرحلے کے آغاز میں پہلی بار کسی انسان میں انجکشن کے ذریعے کینسر کو ختم کرنے والا وائرس داخل کیا گیا جو کہ انسان کے ان خلیات میں جا کر اینٹی وائرس کا کام کرتا ہے، جہاں کینسر کے سیلز بن چکے ہوتے ہیں۔

    مذکورہ وائرس کو ماہرین نے سی ایف 33 ۔ ایچ این آئی ایس یا ویکسینا کا نام دیا ہے اور اسے اونکلیسٹک وائرس سے تیار کیا گیا ہے جو کہ کینسر کو ختم کرنے کا کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق مذکورہ وائرس انسان کے ان خلیات میں جا کر متحرک بن جاتا ہے، جہاں کینسر کے سیلز بن چکے ہوتے ہیں اور وہاں مذکورہ وائرس اپنی ہزاروں کاپیاں نکال کر انہیں کینسر سے متاثرہ سیل یا انسانی جسم کے حصے پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔

    مذکورہ عمل کے ذریعے وائرس انسان کے صحت مند خلیات یا حصوں پر کوئی اثر نہیں کرتا، البتہ صرف ان خلیات کو نشانہ بناتا ہے جو موذی مرض سے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں۔

    علاوہ ازیں یہ وائرس انسان کے مدافعتی نظام کو بھی کینسر کے اثرات سے بچا کر اسے قوت بخشتا ہے۔

    انسانوں پر پہلی آزمائش سے قبل مذکورہ وائرس کا تجربہ جانوروں پر کیا گیا تھا اوراس کے نتائج حوصلہ بخش آئے تھے۔

    انسانوں پر پہلے آزمائشی مرحلے کے دوران مذکورہ وائرس 5 طرح کے کینسر کا شکار بننے والے مریضوں کے جسم میں داخل کیا جائے گا، ان مریضوں میں ایڈوانس لیول کے کینسر مریض بھی شامل ہیں۔

    ماہرین کو امید ہے کہ مذکورہ وائرس کینسر کے خلاف مؤثر ہتھیار ثابت ہوگا اور موذی مرض کے خلاف تحقیق اور علاج میں مزید پیش رفت ہوگی۔

  • کینسر کے علاج میں مزید پیش رفت کی امید

    کینسر کے علاج میں مزید پیش رفت کی امید

    طبی ماہرین نے کینسر کا سبب بننے والے 58 میوٹیشنز کا تعین کیا ہے، ماہرین کو امید ہے کہ اس سے کینسر کے علاج میں مزید پیش رفت ہوسکیں گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق پروفیسر سرینا نک زینل کی سربراہی میں کیمبرج یونیورسٹی ہاسپٹلز (سی یو ایچ) اور کیمبرج یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کینسر کے 12 ہزار سے زائد مریضوں کے مکمل جینیاتی ساخت یا پھر مکمل جینوم سیکوینس کا تجزیہ کیا۔

    مریضوں کے ہزاروں ٹیومر کے ڈی این اے کے تجزیے نے ان افراد میں کینسر کی وجوہات کے بارے میں نئے سراغ فراہم کیے ہیں، جن میں جینیاتی تغیرات بھی شامل ہیں جو ہر مریض کے کینسر کے نقصانات اور علاج کے عمل کا ڈیٹا فراہم کرتے ہیں۔

    پروفیسر نیک زینل نے کہا کہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پورے جینوم کی ترتیب کے ٹیسٹ کتنے طاقتور ثابت ہوسکتے ہیں، کینسر سیلز کی نشوونما کیسے ہوتی ہے، یہ کیسے برتاؤ کرتا ہے، اور علاج کے کون سے طریقہ کار سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

    اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یہ مطالعہ کینسر کی وجوہات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، نیک زینل نے واضح کیا کہ انہوں نے پرانے اور نئے تغیرات کی شناخت میں مدد کے لیے کمپیوٹر بیسڈ ایک سسٹم بھی تیار کیا ہے۔

    جینومکس انگلیڈ سے پروفیسر میٹ براؤن نے یہ بھی کہا کہ وہ موجودہ کینسر کے مریضوں پر میوٹیشن پر مبنی ڈیٹا کی بدولت وضع کردہ علاج معالجے کے طریقوں کو لاگو کرنے کی امید کرتے ہیں۔

  • شعبہ طب کا اہم سنگ میل: کینسر زدہ پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ

    شعبہ طب کا اہم سنگ میل: کینسر زدہ پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ

    شعبہ طب کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا جس میں ایک مریض کے کینسر زدہ پھیپھڑے نکال کر عطیہ کردہ صحت مند پھیپھڑے لگائے گئے، سرجری کے 6 ماہ بعد بھی کینسر کے واپس آنے کے کوئی آثار نہیں۔

    اس اہم طبی کارنامے میں پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا شخص کے دونوں پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا جس کے بعد وہ شخص نہ صرف روبصحت ہے بلکہ سرطان سے آزاد بھی ہے۔

    اس اہم سائنسی پیش رفت میں بہت کامیابی کے ساتھ اسٹیج 4 کے لنگ کینسر میں مبتلا مریض کا علاج نور ویسٹرن نامی ایک ادارے نے کیا ہے، اگرچہ اس کا ٹیومر دونوں پھیپھڑوں کو تباہ کر چکا تھا لیکن جسم کے دوسرے حصے اس مرض سے محفوظ تھے۔

    البرٹ خوری کا 6 ماہ قبل ٹرانسپلانٹ آپریشن ہوا تھا، ابھی تک اس میں کینسر کے پلٹنے کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے 6 ماہ بعد بھی ڈاکٹروں نے اسے تندرست قرار دیا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق سرطان زدہ پھیپھڑوں کو ہٹا کر دوسرے لگانا ایک نہایت پیچیدہ اور مشکل ترین عمل ہے کیونکہ یہ سرطان صرف سینے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ دوسرے اعضا تک بھی سرایت کرجاتا ہے اور یوں زندگی بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

    54 سالہ البرٹ گو کہ سگریٹ نوشی نہیں کرتا تھا لیکن ایک سیمنٹ فیکٹری میں کام کرتا تھا، ابتدا میں اسے صرف کھانسی تھی لیکن یہ بیماری کینسر میں بدل کر اسٹیج 1 سے اسٹیج 4 تک پہنچ گئی۔

    یہ اس وقت ہوا جب کرونا وبا کے دوران اسپتال تک البرٹ کی رسائی نہیں تھی کیونکہ تمام اسپتال کووڈ کے مریضوں کے علاج میں مصروف تھے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق سب سے بڑی مشکل یہ تھی ہے کہ پھیپھڑے جسامت میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے کینسر کو دوبارہ پھیلنے سے روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    اس سے قبل جتنے مریضوں میں سرطان زدہ پھیپھڑوں کو نکال کر ایک یا دو صحت مند پھیپھڑے ٹرانسپلانٹ کیے گئے تو کچھ ہی عرصے بعد کینسر دوبارہ نمودار ہوا۔

    اب ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے بہت غور و فکر کے بعد کچھ نئے پروٹوکولز بنائے اور پھر ایک انتقال کر جانے والے شخص کے عطیہ شدہ پھیپھڑے لگائے۔

    آپریشن کے 6 ماہ گزرنے کے بعد مریض صحت مند ہے، اس کے پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں اور مکمل طور پر صحت مند ہیں۔

  • پھیپھڑوں کے کینسر کی ممکنہ دوا تیار

    پھیپھڑوں کے کینسر کی ممکنہ دوا تیار

    لندن: برطانیہ میں پھیپھڑوں کے کینسر کی ممکنہ دوا تیار کرلی گئی ہے، یہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا نصف مریضوں میں رسولیوں کو سکیڑ دیتی ہے۔

    برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مہلک پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہزاروں مریضوں کو، اس مرض کے علاج میں دہائیوں بعد کامیاب ہونے والی دوا سے مستفید کیا جائے گا۔

    سوٹراسب ایک روزمرہ کی گولی ہے جس کے متعلق یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا نصف مریضوں میں رسولیوں کو سکیڑ دیتا ہے، شرط یہ ہے کہ کینسر تمباکو نوشی کے سبب نہ ہوا ہو۔

    یہ قسم جو ہر 8 میں سے 1 پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں کو متاثر کرتی ہے، KRAS نامی جین میں تبدیلی کے باعث پیش آتی ہے، یہ کینسر کی سب سے مہلک قسم ہے جس کا علاج صرف 10 فیصد تک مؤثر ہوتا ہے۔

    ایک صحت مند جسم میں KRAS جین پروٹینز کو قابو کرتا ہے جو نارمل خلیوں کی نشونما میں کردار ادا کرتا ہے، لیکن تبدیل شدہ KRAS جین پروٹینز کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ خلیوں کی نمو کو قابو سے باہر ہونے دیں جس کے سبب ایسا کینسر ہو جس کا علاج انتہائی مشکل ہو۔

    یہ تبدیل شدہ جین کے کینسر کا سبب ہے جس کو ماہرین نے کینسر کے ڈیتھ اسٹار کا نام دیا ہے۔

    یہی تبدیلی پتے اور بوول کینسر کے کیسز میں بھی سامنے آسکتی ہے، جس سے اس امید میں اضافہ ہوتا ہے کہ سوٹراسب مستقبل میں مزید مریضوں کی مدد کرنے کے قابل ہوگی۔

  • گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    سرخ گوشت کھانے کے نقصانات سے انکار نہیں اور اس کا زیادہ استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گوشت خوری اور کینسر کے درمیان مزید شواہد سامنے آگئے، برطانیہ میں 5 لاکھ افراد کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ گوشت خوری سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    سائنسدانوں کی جانب سے گوشت کے زیادہ استعمال اور کینسر کے درمیان تعلق پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے لیکن اب سائنس دانوں کو اس حوالے سے مزید شواہد ملے ہیں کہ زیادہ گوشت خوری کئی طرح کے سرطان کی وجہ بن سکتی ہے اور گوشت کم کھانے سے تقریباً تمام اقسام کے سرطان سے بچاؤ ممکن ہے۔

    برطانوی ماہرین کی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جتنا زیادہ گوشت کے استعمال میں اضافہ ہوگا اتنا ہی زیادہ کینسر کا خطرہ بھی بڑھتا جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت خوری سے سن یاس کے بعد بریسٹ کینسر، بڑی آنت اور پروسٹیٹ کینسر کا خدشہ بطورِ خاص پیدا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں برطانوی بائیو بینک میں موجود ڈیٹا بیس سے 4 لاکھ 72 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا اور ایک عرصے تک ان پر نظر رکھی گئی جس میں لاکھوں افراد کی اوسط عمر 40 سے 70 برس تھی اور مسلسل 11 برس تک ان کی طبی کیفیات کا جائزہ لیا جاتا رہا۔

    اس تحقیقی جائزے سے معلوم ہوا کہ 2006 سے 2010 کے درمیان یہ تمام افراد کینسر سے دور اور تندرست تھے، ان میں سے 52 فیصد افراد نے ہفتے میں پانچ مرتبہ گوشت کی عادت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ مچھلی، سرخ گوشت اور خنزیر وغیرہ کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔

    43 فیصد افراد نے صرف مچھلی کھانے کا اعتراف کیا جبکہ 10 ہزار یعنی 2.3 فیصد افراد نے صرف سبزی کھانے کا اعتراف کیا۔

    تاہم گیارہ برس بعد ان میں سے 54 ہزار سے زائد افراد خطرناک کینسر میں مبتلا ہو چکے تھے، انہیں بڑی آنت، پروسٹیٹ، اور خواتین کو چھاتی کا سرطان لاحق ہوچکا تھا۔

    تحقیق سے یہ بھی علم ہوا کہ سبزیاں کھانے سے عددی طور پر سرطان کا خطرہ 14 فیصد کم ہوجاتا ہے جبکہ مچھلی کھانے والوں میں اس کی شرح 10 فیصد کم دیکھی گئی اور زیادہ گوشت کھانے والے افراد میں کینسر کی شرح میں اضافہ سامنے آیا۔

  • پاکستان میں کینسر کی شرح میں ہولناک اضافہ

    پاکستان میں کینسر کی شرح میں ہولناک اضافہ

    آج دنیا بھر میں کینسر سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان میں کینسر کی شرح میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے جبکہ بچوں میں بھی کینسر تشخیص کی جارہی ہے۔

    کینسر کے خلاف آگاہی کا عالمی دن منانے کا آغاز یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول (یو آئی سی سی) نے سنہ 2005 میں کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے ہر چھٹی ہلاکت کی وجہ کینسر ہے۔

    دنیا بھر میں ہر سال اندازاً 1 کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کے کینسرز کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کی وجہ سے ہونے والی مشترکہ اموات سے بھی زائد ہے۔

    یو آئی سی سی کے مطابق سنہ 2030 تک دنیا بھر میں 3 کروڑ سے زائد افراد کینسر کا شکار ہوں گے۔

    کینسر کی بے شمار وجوہات ہیں، ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ جینز میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلاٹوکسن، تابکار اثرات، الیکٹرو میگنیٹک شعاعیں، وائرل انفیکشنز، فضائی، آبی اور غذائی آلودگی، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ، زہریلا دھواں اور زرعی ادویات وغیرہ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق غیر متحرک طرز زندگی گزارنا بھی کینسر کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ 30 سال سے کم عمری میں بچوں کی پیدائش اور بچوں کو طویل عرصہ تک اپنا دودھ پلا کر خواتین بریسٹ کینسر کے خطرے میں کمی کر سکتی ہیں۔

    پاکستان میں کینسر کی شرح میں ہولناک اضافہ

    کینسر اسپیشلسٹ ڈاکٹر زبیدہ قاضی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مختلف اقسام کے کینسر موت کی دوسری بڑی وجہ بن گئے ہیں، پاکستان کینسر کا شکار افراد کے حوالے سے ایشیا کا سرفہرست ملک بن چکا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں صرف بریسٹ کینسر کے سالانہ 90 ہزار کیسز ریکارڈ ہوتے ہیں جن میں سے 40 سے 45 ہزار اموات ہوجاتی ہیں۔

    ڈاکٹر زبیدہ کا کہنا ہے کہ ملک میں بریسٹ اور اورل کینسر کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے، علاوہ ازیں بچوں میں بھی کینسر تشخیص کی جارہی ہے جو زیادہ تر بلڈ کینسر اور دماغ کے کینسر ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ لوگوں میں شعور نہ ہونا ہے، وہ کینسر کی علامات کو، جو معمولی بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں انہیں نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ملک میں طبی سہولیات کا 75 فیصد حصہ پرائیوٹ سیکٹر فراہم کر رہا ہے جو ہر شخص افورڈ نہیں کرسکتا۔

    ڈاکٹر زبیدہ کے مطابق اگر کینسر خاندانی جینز میں موجود ہے تو خاندان میں شادیاں اسے بڑھاوا دے سکتی ہیں، صرف کینسر ہی نہیں مختلف دماغی امراض، یا تھیلی سیمیا بھی خاندان میں شادیوں سے بڑھتا ہے اور خاندان سے باہر شادی کرنے سے ان بیماریوں کے خطرے میں کمی ہوسکتی ہے۔

  • ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    آکسفورڈ: طبی ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینسر کے محققین نے ایک نیا خون کا ٹیسٹ تیار کیا ہے جو مریضوں کے لیے تشخیص اور علاج کو بہتر بنا سکتا ہے۔

    یہ پہلا ٹیسٹ ہے جس سے نہ صرف کینسر کی موجودگی کا بلکہ جسم کے اندر بیماری کے پھیلاؤ کا بھی پتا لگایا جا سکتا ہے، یعنی یہ کہ بیماری کس اسٹیج پر پہنچ چکی ہے۔

    فی الوقت، جن مریضوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے ان کو امیجنگ اور ٹیسٹنگ سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے بعد ڈاکٹر یہ بتا سکتے ہیں کہ آیا یہ جسم کے کسی دوسرے حصے میں پھیل چکا ہے یا نہیں، وہ کینسر جو پھیل چکا ہے اسے میٹاسٹیٹک کینسر کہا جاتا ہے، یہ جاننے کے بعد علاج شروع ہوتا ہے، ایک ہی جگہ میں ٹیومر والے مریضوں کو لوکل ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے، جیسا کہ سرجری، جب کہ کینسر پھیلنے کی صورت میں انھیں کیموتھراپی یا ہارمون تھراپی جیسے پورے جسم کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اب خون کے اس نئے ٹیسٹ نے، 300 مریضوں میں سے 94 فی صد میں میٹاسٹیٹک کینسر کی کامیابی سے شناخت کی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے تیار کردہ اس ٹیسٹ میں NMR میٹابولومکس نامی ایک نئی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے، جو خون میں بائیو مارکر کی موجودگی کی نشان دہی کرتی ہے، جسے میٹابولائٹس کہتے ہیں۔ یہ چھوٹے کیمیکلز ہیں جو ہمارا جسم قدرتی طور پر پیدا کرتا ہے۔

    اس ریسرچ پر کام کرنے والے آنکولوجسٹ ڈاکٹر جیمز لارکن نے وضاحت کی کہ میٹابولائٹس خون میں موجود کوئی بھی چھوٹے مالیکیولز، جیسا کہ گلوکوز، لیکٹک ایسڈ، یا امینو ایسڈز ہیں۔ آپ کے خون میں موجود میٹابولائٹس کے پیٹرن مختلف ہوتے ہیں، اور ان کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں کیا ہو رہا ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو کینسر جیسی بیماریوں سے متاثر ہو رہی ہو۔

    یہ ٹیسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ آیا کسی شخص کا کینسر پھیل گیا ہے، اس صورت میں مریض کا ایک مخصوص میٹابولومک پروفائل ہوگا، جو کہ اس شخص کے کینسر سے مختلف ہوگا جو نہیں پھیلا، یا جسے کینسر ہی نہ ہو۔

    یہ ٹیسٹ خون میں میٹابولائٹس کی پیمائش کے لیے مقناطیسی فیلڈز اور ریڈیو لہروں کا استعمال کرتا ہے اور انسانی جسم میں کینسر کی موجودگی اور اس کے پھیلاؤ کا تعین ہوتا ہے۔

    محققین نے وضاحت کی کہ یہ ٹیسٹ کینسر کی متعدد اقسام کا پتا لگا سکتا ہے اور غیر مخصوص علامات والے مریضوں میں بھی کینسر کی موجودگی کی نشان دہی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ ٹیسٹ جلد ہو جاتا ہے اور سستا ہے، لہٰذا اس سے کینسر کی جلد تشخیص میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔

  • کینسر کی ویکسین کب تک مارکیٹ میں آ جائے گی؟

    کینسر کی ویکسین کب تک مارکیٹ میں آ جائے گی؟

    واشنگٹن: جرمن دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک کی تیار کی جانے والی کینسر ویکسین کو مارکیٹ میں آنے میں تین سے چار سال لگیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بائیو این ٹیک کے بانیوں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر اوعور شاہین نے کہا ہے کہ ہم اپنی تیار کردہ کینسر ویکسین سے پُر امید ہیں، ویکسین کو مارکیٹ میں آنے میں تین سے چار سال لگیں گے۔

    اوعور شاہین کے مطابق کینسر کی مختلف اقسام پر اس ویکسین کے کلینیکل تجربات جاری ہیں، ابتدائی نتائج میں دیکھا گیا ہے کہ بعض مریضوں میں ویکسین کی وجہ سے ٹیومر میں سکڑاؤ آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کے درست ملاپ سے ٹھوس ٹیومر کا بھی علاج کیا جا سکے گا، ہمارا ہدف صرف ٹیومر کو چھوٹا کرنا ہی نہیں بلکہ اس میں مستقل سکڑاؤ کا رجحان پیدا کرنا ہے۔

    علاج کے قابل بھروسا ہونے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے شاہین نے کہا کہ ویکسین کے مراحل نہایت جوش دلانے والے ہیں۔

    واضح رہے کہ جرمن بائیو ٹیک کمپنی جس نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ کرونا وائرس کی ویکسین کے لیے شراکت داری کی تھی اور اس طرح عالمی توجہ حاصل کی تھی، نے اب اپنی توجہ اپنے پہلے کے mRNA اہداف میں سے ایک کی طرف موڑ دی ہے، یعنی کینسر۔