Tag: cancer

  • کولڈ ڈرنک کے گلاس میں چھپا کینسر کا تحفہ

    کولڈ ڈرنک کے گلاس میں چھپا کینسر کا تحفہ

    موسم گرما میں کولڈ ڈرنکس پینا عام ہوجاتا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے سافٹ ڈرنکس آپ کو بے شمار بیماریوں کا تحفہ دے سکتی ہیں جن میں کینسر بھی شامل ہے۔

    سافٹ ڈرنکس کے یوں تو بے حد نقصانات ہیں جن میں سب سے عام موٹاپا اور ذیابیطس ہے، اس کے علاوہ سافٹ ڈرنکس کے دیر سے ظاہر ہونے والے نقصانات اور بیماریوں کی بھی طویل فہرست ہے جس میں دانتوں اور ہڈیوں کو نقصان، جلدی امراض، امراض قلب، ڈپریشن، مرگی، متلی، دست، نظر کی کمزوری اور جلد پر خارش شامل ہیں۔

    تاہم ان خطرناک ڈرنکس کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ یہ کینسر کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

    متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں متعدد اقسام کے کینسر اور سافٹ ڈرنکس کے استعمال کے درمیان مضبوط تعلق کو دیکھا گیا، تحقیق کے مطابق ہفتے میں صرف دو سافٹ ڈرنکس ہی انسولین کی سطح بڑھا دیتے ہیں جس سے لبلبے کے کینسر کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح روزانہ ایک سافٹ ڈرنک کا استعمال مردوں میں مثانے کے کینسر کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھا سکتا ہے جبکہ ڈیڑھ سافٹ ڈرنک کا روزانہ استعمال خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکان میں اضافہ کردیتا ہے۔

    سافٹ ڈرنک میں شامل اجزا 6 اقسام کے کینسر پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، اور اس کے باعث ہونے والے کینسر میں پیٹ اور مثانے کا کینسر سب سے عام ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس زہر کو اپنی غذا سے دور رکھنا چاہیئے اور اس کی جگہ پانی، تازہ پھلوں کا جوس اور شیکس استعمال کرنے چاہئیں۔

  • کیا کینسر کی ویکسین بنا لی گئی؟

    کیا کینسر کی ویکسین بنا لی گئی؟

    مختلف اقسام کے کینسر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو اپنا شکار بناتے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے لاکھوں افراد موت کے منہ چلے جاتے ہیں، تاہم اب ماہرین نے اس کی ویکسین بنانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینسر کی روک تھام کے لیے ایک ویکسین کا ابتدائی ٹرائل کامیاب ثابت ہوا ہے، اس ویکسین پی جی وی 001 کے کلینیکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں 13 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو ٹھوس رسولی کا شکار تھے۔

    ٹرائل کے اختتام پر 4 مریضوں میں بیماری کے آثار ختم ہوگئے تھے اور انہیں مزید کوئی اور تھراپی بھی نہیں دی گئی جبکہ 4 ایسے مریض تھے جو زندہ تھے مگر انہیں تھراپی دی جارہی تھی جبکہ 3 افراد ہلاک ہوگئے۔

    امریکا کے ماؤنٹ سینائی اسپتال کے محققین نے ٹرائل کے نتائج امریکن ایسوسی ایشن فار کینسر ریسرچ کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ کینسر کے علاج میں کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بیشتر مریض ٹھوس کلینیکل ردعمل کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پرسنلائزڈ ویکسینز سے مریضوں کے مدافعتی ردعمل کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ماہرین نے پی جی وی 001 نامی ویکسین کو تیار کیا جو ایک قسم کے امینو ایسڈ پر مشتمل ہے، جو مریضوں کو ابتدائی علاج کے ساتھ دی گئی۔

    جن 13 مریضوں کو ویکسینز دی گئی ان میں سے 6 میں سر اور گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی جبکہ 3 میں خون کے سفید خلیات، 2 میں پھیپھڑوں، ایک میں بریسٹ اور ایک میں مثانے کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔

    11 مریضوں کو ویکسین کی 10 خوراکیں دی گئیں جبکہ 2 مریضوں کو کم از کم 8 خوراکیں استعمال کرائی گئیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ویکسین سے صرف 50 فیصد مریضوں کو معمولی مضر اثرات کا سامنا ہوا، یعنی 4 میں انجیکشن کے مقام پر الرجی ری ایکشن ہوا جبکہ ایک فرد کو ہلکا بخار ہوگیا۔

    ان افراد میں ویکسین کے اثرات کا تجزیہ اوسطاً 880 دنوں تک کیا گیا جس دوران 4 مریضوں میں کینسر کے شواہد ختم ہوگئے اور انہیں مزید تھراپی کی ضرورت نہیں رہی۔

    ان میں سے ایک مریض پھیپھڑوں کے اسٹیج 3 کینسر کا مریض تھا، ایک میں بریسٹ کینسر کی چوتھی اسٹیج جبکہ ایک مثانے کے اسٹیج 2 کینسر اور ایک خون کے کینسر کا مریض تھا۔

    ٹرائل میں شامل 4 مریض اب بھی زندہ ہیں اور مختلف اقسام کی تھراپی کے عمل سے گزر رہے ہیں، جبکہ 3 کا انتقال ہوگیا، جن میں سے 2 میں کینسر پھر لوٹ آیا تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپن ویکس پائپ لائن ایک محفوظ اور پرسنلائز ویکسین کی تیاری کے لیے ایک اچھی حکمت عملی ہے، جس کو مختلف اقسام کی رسولیوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

  • ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    کینسر ایک عام مرض بنتا جارہا ہے اور حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچنے کے لیے ایک عام عادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا اور دیگر طبی مسائل جیسے فشار خون اور ذیابیطس کو کنٹرول میں رکھنا امراض قلب کے ساتھ ساتھ کینسر کا خطرہ بھی کم کرتا ہے۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور دیگر اداروں کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 20 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور آغاز میں ان میں کوئی بھی کینسر کا شکار نہیں تھا۔

    15 سال کے دوران 2 ہزار 548 افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی اور محققین نے دریافت کیا کہ امراض قلب کا باعث بننے والے روایتی عناصر جیسے عمر، جنس اور تمباکو نوشی، کینسر سے بھی متعلق ہے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ دل پر دباؤ ڈالنے والے عناصر سے کینسر کا امکان بھی 40 فیصد بڑھ گیا، اس کے مقابلے میں دل کو صحت مند رکھنے والی عادات جیسے بلڈ پریشر، کولیسٹرول، بلڈ شوگر اور جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور صحت بخش غذا کا استعمال کینسر کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض اور کینسر کے درمیان تعلق براہ راست نہیں مگر ہماری عادات یا رویے اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔

    تحقیق میں موٹاپے اور سگریٹ نوشی کے نتیجے میں جسم میں دائمی ورم اور کینسر کے درمیان تعلق کو بھی دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے جو کولیسٹرول کی سطح میں کمی کے ساتھ ورم سے لڑنے والے اجزا سے بھرپور ہوتے ہیں۔

  • کینسر کا شکار بچی کی حوصلہ مند ماں نے امید کا پیغام دے دیا

    کینسر کا شکار بچی کی حوصلہ مند ماں نے امید کا پیغام دے دیا

    اولاد کی تکلیف ماں باپ کو دگنی محسوس ہوتی ہے، ایسے ہی کینسر کا شکار ایک بچی کے ماں باپ بھی نہایت اذیت کا شکار ہوگئے تاہم انہوں نے اس کڑے وقت کو نہایت حوصلے کے ساتھ گزارا۔

    امریکا کی رہائشی کرسٹن بوڈن اور ان کے شوہر پر اس وقت غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جب انہیں علم ہوا کہ ان کی 3 سالہ بچی کینسر کا شکار ہے۔

    کرسٹن کا کہنا تھا کہ اس کی چھٹی حس کھڑک رہی تھی کہ کافی دن سے بیمار بچی کا بخار صرف بخار نہیں، لیکن ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ کینسر ہوگا۔

    ڈاکٹرز نے 3 سالہ بچی میں گردے کا کینسر تشخیص کیا جو اسٹیج 2 پر تھا، ایک تکلیف دہ سرجری کے بعد بچی کا گردہ نکال دیا گیا جس کے بعد اگلے 22 ہفتوں تک اس کی کیموتھراپی ہوئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Kristin Bowden (@kris_bowden)

    اس دوران والدین نے اپنے جیسے دیگر لوگوں کو ہمت دینے کے لیے اس تمام سفر کو تصاویر میں قید کرنا شروع کردیا۔

    وہ بچی کی کینسر تشخیص ہونے کے بعد، اس کی سرجری کے بعد اور کیمو تھراپی کے دوران کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر شیئر کرتے رہے۔

    کیموتھراپی کے دوران جب بچی کے بال اترنا شروع ہوئے تو اس کے ننھے بھائی نے بھی اپنے بال کٹو لیے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Kristin Bowden (@kris_bowden)

    والدین کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ مشکل ترین وقت بھی گزر جاتا ہے اور اچھا وقت آجاتا ہے۔

    آج یہ بچی 4 سال کی ہے اور کینسر فری ہے، اگلے 4 سال تک ہر 3 ماہ بعد اس کے اسکین کیے جائیں گے اور اس کی صحت کو مانیٹر کیا جائے گا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Kristin Bowden (@kris_bowden)

    والدین کا کہنا ہے کہ ان کا سب کے لیے ایک ہی پیغام ہے کہ کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

  • نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کے لیے بری خبر

    نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کے لیے بری خبر

    بعض افراد کے دفتری امور رات میں کام کرنے کا بھی تقاضہ کرتے ہیں جبکہ بعض افراد خود ہی سارا دن سو کر نائٹ شفٹ میں کام کرنا پسند کرتے ہیں، تاہم اب ایسے ہی افراد کو ماہرین نے بری خبر سنا دی۔

    حال ہی میں امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد میں کینسر کی مخصوص اقسام کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ سائنسز کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے افراد میں کینسر کا خطرہ کیوں بڑھتا ہے، تحقیق کے دوران دن یا رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے صحت مند افراد کو شامل کرکے جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ رات کو کام کرنے والے افراد کے جسموں کا 24 گھنٹوں کا قدرتی ردھم متاثر ہوتا ہے جس سے کینسر سے متعلق مخصوص جینز متحرک ہوجاتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں ان افراد میں ڈی این اے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ڈی این اے کی مرمت کرنے والے میکنزمز اس نققصان کی تلافی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے افراد میں کینسر کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

    خیال رہے کہ ہمارے جسم کے اندر ایسی قدرتی حیاتیاتی گھڑی ہوتی ہے جو 24 گھنٹے کے دن اور رات کے دورانیے کے مطابق کام کرنے والے میکنزم سے لیس ہوتی ہے۔

    یعنی اس کی سرگرمیوں کی سطح دن یا رات میں مختلف ہوتی ہیں اور ماہرین کا خیال تھا کہ اس ردھم میں مداخلت کے نتیجے میں کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے 14 افراد پر مختلف شفٹوں کے تجربات سلیپ لیبارٹری میں ایک ہفتے تک کیے۔

    ان میں سے 50 فیصد کو 3 دن تک نائٹ شفٹ کا شیڈول دیا گیا جبکہ باقی کو 3 دن کے لیے ڈے شفٹ کا حصہ بنایا گیا۔

    ان کے اندر کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کے لیے انہیں 24 گھنٹے تک جگائے رکھا گیا اور مسلسل روشنی اور کمرے کے درجہ حرارت میں رکھتے ہوئے ہر 3 گھنٹے بعد خون کا نمونہ لیا گیا۔

    ان نمونوں کے تجزیے میں دریافت ہوا کہ کینسر سے متعلق جینز کی سرگرمیاں نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں میں ڈے شفٹ کے افراد کے مقابلے میں مختلف تھیں۔ خاص طور پر ڈی این اے کی مرمت کرنے والے جینز کے افعال متاثر دریافت کیے گئے۔

    محققین نے پھر ان جینز کے افعال میں تبدیلیوں کے ممکنہ اثرات کو دیکھا اور دریافت کیا کہ ان میں مخصوص اقسام کے کینسر کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

  • عالمی ادارہ صحت نے کینسر کے حوالے سے خبردار کردیا

    عالمی ادارہ صحت نے کینسر کے حوالے سے خبردار کردیا

    عالمی ادارہ صحت نے کینسر کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر کہا کہ بریسٹ کینسر سرطان کی سب سے زیادہ تشخیص ہونے والی قسم بن گئی ہے۔

    انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر (آئی اے آر سی) کی جانب سے دسمبر 2020 میں جاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ سالوں میں بریسٹ کینسر سب سے زیادہ تشخیص ونے والی کینسر کی قسم بن چکی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران کینسر کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں لگ بھگ 2 گنا اضافہ ہوچکا ہے، ایک تخمینے کے مطابق یہ تعداد سنہ 2000 میں سالانہ 1 کروڑ تھی جو سنہ 202 تک 1 کروڑ 93 لاکھ تک پہنچ گئی۔

    اسی طرح کینسر سے اموات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو 2000 میں 62 لاکھ تھیں مگر 2020 میں ان کی تعداد 1 کروڑ تک پہنچ گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر 6 میں سے ایک موت کینسر کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت دنیا بھر میں ہر 5 میں سے ایک شخص کینسر کا شکار ہورہا ہے اور یہ تعداد آنے والے برسوں میں مزید بڑھ جائے گی، یعنی 2040 تک اس میں 50 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کینسر کے عام ہونے کی وجہ ناقص طرز زندگی جیسے غیر صحت مند غذا، جسمانی سرگرمیوں سے دوری، تمباکو نوشی اور الکحل کا زیادہ استعمال ہے۔

    اسی طرح عمر میں اضافے کے ساتھ بھی کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے مگر طرز زندگی میں چند تبدیلیوں سے اس جان لیوا بیماری سے بچنا ممکن ہے۔

    ماہرین کے مطابق اپنی طرز زندگی میں چند معمولی تبدیلیوں سے کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔

    سب سے پہلے موٹاپے سے نجات پائیں، موٹاپا یا زیادہ جسمانی وزن متعدد اقسام کے کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے جن میں غذائی نالی، لبلبے، قولون، گردوں اور تھائی رائیڈ گلینڈ کے کینسر شامل ہیں۔

    اس ضمن میں کینسر کے اسباب میں تمباکو نوشی کی شرح میں کمی آرہی ہے اور بہت جلد ہوسکتا ہے کہ موٹاپا کینسر کی سب سے بڑی وجہ بن جائے، اگر جسمانی چربی میں ایک فیصد بھی کمی لائی جائے تو لاکھوں نئے کیسز کی روک تھام ممکن ہے۔

    سرخ گوشت کے استعمال میں احتیاط کی جائے، سرخ گوشت کا بہت زیادہ استعمال معدے اور قولون کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے اور امریکن انسٹیٹوٹ فار کینسر ریسرچ نے مشورہ دیا ہے کہ ایک ہفتے میں آدھا کلو سے زیادہ سرخ گوشت کھانے سے گریز کرنا چاہیئے۔

    سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بھی جلد کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے، جو مختلف ممالک میں کینسر کی سب سے عام قسم بھی ہے۔

    جو لوگ سورج کی روشنی میں بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں کینسر کی اس قسم کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا سن اسکرین کا استعمال اس سے تحفظ میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

    پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال بھی متعدد اقسام کے کینسر جیسے منہ، گلے، غذائی نالی اور سانس کی نالی کے سرطان کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    جو لوگ جسمانی طور پر کم سرگرم ہوتے ہیں، ان میں کینسر کی مختلف اقسام کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس کے مقابلے مین اپنی جگہ سے اٹھ کر ارگرد چہل قدمی کرنے سے جسم زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے، غذا ہضم ہوتی ہے اور ان ہارمونز کا اجتماع نہیں ہوتا جو کینسر سے منسلک کیے جاتے ہیں۔

    جسمانی طور پر متحرک رہنا امراض قلب اور ذیابیطس جیسے امراض سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    تمباکو نوشی سے پرہیز کریں، یہ پھیھڑوں کے کیسنر کی سب سے عام وجہ ہے۔

    کینسر کی اسکریننگ کو معمول کا حصہ بنایا جائے، سال میں ایک دفعہ اس طرح کی اسکریننگ کینسر کو جلد پکڑنے میں معاون ثابت ہوتی ہے جس سے اس کے جان لیوا بننے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

  • پاکستان میں کینسر کی شرح میں خطرناک اضافہ

    پاکستان میں کینسر کی شرح میں خطرناک اضافہ

    کراچی: پاکستان میں کینسر کی شرح میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے، کراچی کینسر رجسٹری کے مطابق جنوری 2017 سے دسمبر 2019 تک صرف کراچی میں 33 ہزار 309 کینسر کے کیس رپورٹ کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر زبیدہ قاضی نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں مختلف اقسام کے کینسر موت کی دوسری بڑی وجہ بن گئے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں صرف بریسٹ کینسر کے سالانہ 90 ہزار کیسز ریکارڈ ہوتے ہیں جن میں سے 40 سے 45 ہزار اموات ہوجاتی ہیں۔

    ڈاکٹر زبیدہ نے بتایا کہ ملک میں بریسٹ اور اورل کینسر کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے، علاوہ ازیں بچوں میں بھی کینسر تشخیص کی جارہی ہے جو زیادہ تر بلڈ کینسر اور دماغ کے کینسر ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ لوگوں میں شعور نہ ہونا ہے، وہ کینسر کی علامات کو، جو معمولی بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں انہیں نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ملک میں طبی سہولیات کا 75 فیصد حصہ پرائیوٹ سیکٹر فراہم کر رہا ہے جو ہر شخص افورڈ نہیں کرسکتا۔

    ڈاکٹر زبیدہ کے مطابق اگر کینسر خاندانی جینز میں موجود ہے تو خاندان میں شادیاں اسے بڑھاوا دے سکتی ہیں، صرف کینسر ہی نہیں مختلف دماغی امراض، یا تھیلی سیمیا بھی خاندان میں شادیوں سے بڑھتا ہے اور خاندان سے باہر شادی کرنے سے ان بیماریوں کے خطرے میں کمی ہوسکتی ہے۔

    ایک اور وجہ انہوں نے بتائی کہ ہماری مصروف زندگی میں ورزش کا رجحان بے حد کم ہوگیا ہے، علاوہ ازیں غیر معیاری کھانے، جنک فوڈ اور قدرتی اشیا جیسے پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال بھی مختلف بیماریوں کو دعوت دینے کا سبب بن رہا ہے۔

    ڈاکٹر زبیدہ نے بتایا کہ کسی بھی کینسر کی عام علامات میں وزن کم ہونا، مستقل بخار رہنا یا تھکن محسوس ہونا شامل ہے، بلڈ کینسر کی عام علامت جسم پر دھبے نمودار ہونا اور منہ کے کینسر کی عام علامت منہ کے اندر جلد کی تہیں نمودار ہونا ہے، ان علامتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

  • کینسر کا عالمی دن: پاکستان میں کینسر کی شرح میں تشویشناک اضافہ

    کینسر کا عالمی دن: پاکستان میں کینسر کی شرح میں تشویشناک اضافہ

    آج دنیا بھر میں کینسر سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو اس مرض کے خطرات سے آگاہ کرنا اور اس کی روک تھام اور علاج کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔

    کینسر کے خلاف آگاہی کا عالمی دن منانے کا آغاز یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول نے سنہ 2005 میں کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے ہر آٹھویں ہلاکت کی وجہ کینسر ہے۔

    دنیا بھر میں ہر سال اندازاً 1 کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کے کینسر کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کی وجہ سے ہونے والی مشترکہ اموات سے بھی زائد ہے۔

    یو آئی سی سی کے مطابق سنہ 2030 تک دنیا بھر میں 3 کروڑ سے زائد افراد کینسر کا شکار ہوں گے۔

    پاکستان کینسر کا شکار افراد کے حوالے سے ایشیا کا سرفہرست ملک ہے۔ پاکستان میں کینسر سے جاں بحق ہونے والے افراد کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس میں بھی سب سے زیادہ تعداد سینے کے سرطان سے متاثرہ مریضوں کی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار سے زائد مریض بریسٹ کینسر کے سبب جاں بحق ہوتے ہیں۔

    کینسر کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ جینز میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلاٹوکسن، تابکار اثرات، الیکٹرو میگنیٹک شعاعیں، وائرل انفیکشنز، فضائی، آبی اور غذائی آلودگی، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ، زہریلا دھواں اور زرعی ادویات وغیرہ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق غیر متحرک طرز زندگی گزارنا بھی کینسر کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ 30 سال سے کم عمری میں بچوں کی پیدائش اور بچوں کو طویل عرصہ تک اپنا دودھ پلا کر خواتین بریسٹ کینسر کے خطرے میں کمی کر سکتی ہیں۔

  • کینسر کی شکار ماں نے 9 سالہ بیٹی کو قتل کردیا

    کینسر کی شکار ماں نے 9 سالہ بیٹی کو قتل کردیا

    روس میں کینسر کا شکار ایک ماں نے اپنی 9 سالہ بچی کو گلا دبا کر قتل کردیا، اس کے بعد خود بھی آٹھویں منزل سے چھلانگ لگا دی۔

    یہ افسوسناک واقعہ روس کے شہر نووسبرسک میں پیش آیا، 29 سالہ ماریہ آٹھویں منزل سے نیچے برف پر گری اور اس کی کراہیں سن کر قریبی افراد اس کی مدد کو پہنچے۔

    ایک عینی شاہد کے مطابق اس نے ماریہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے، لیکن وہ ایک ہی بات دہراتی رہی کہ وہ اپنی ٹانگیں اور ہاتھ محسوس نہیں کر پارہی۔

    پڑوسیوں کے کال کرنے پر پیرا میڈک عملہ وہاں پہنچا اور خاتون کو ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال کی طرف روانہ کیا۔ اس دوران پولیس ماریہ کے گھر کا جائزہ لینے اندر داخل ہوئی تو داخلی دروازے کے سامنے ہی 9 سالہ بچی اپنے خون میں لت پت پڑی تھی۔

    بچی کے فارنسک تجزیے سے علم ہوا کہ اسے قتل کرنے سے قبل اس کے سر پر کسی بھاری شے سے وار کیا گیا۔ پولیس کو ماریہ کے گھر سے ایک خط بھی ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ میں اس جان لیوا سر درد کے ساتھ مزید زندہ نہیں رہ سکتی۔

    اس نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتی ہے۔

    پولیس نے ماں کے خلاف کم عمر بچی کو قتل کرنے کا مقدمہ درج کرلیا ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے صحت یاب ہونے کے بعد اس سے تفتیش کی جائے گی۔

    دوسری جانب خودکشی کی کوشش کرنے کے لیے گرنے پر ماریہ کے جسم میں کئی فریکچرز ہوگئے ہیں تاہم اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

    پولیس کا ماننا ہے کہ 29 سالہ ماں اپنی بیماری کی وجہ ذہنی طور پر شدید ابتری کا شکار تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو قتل کیا اور پھر خودکشی کی کوشش کی۔

    خاتون کے شوہر کے بارے میں علم ہوا ہے کہ وہ فوج میں ملازم ہے، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا ان دونوں کی شادی برقرار ہے یا نہیں۔

  • کینسر سے متاثرہ چہرے کو کیسے بحال کیا گیا؟

    کینسر سے متاثرہ چہرے کو کیسے بحال کیا گیا؟

    مصنوعی اعضا کی پیوند کاری کوئی نئی بات نہیں تاہم یہ ایک نہایت مہنگا عمل ہے جس کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی اشیا کا بیش قیمت ہونا ہے۔

    تاہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس میدان میں بھی نئے نئے تجربات کیے جارہے ہیں اور اس عمل کی لاگت اور اس کی تیاری کا وقت کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    ایسی ہی ایک کوشش برازیل میں کی گئی جہاں تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ایک خاتون کے نصف چہرے پر پیوند کاری کی گئی۔

    53 سالہ ڈینس وسنٹن نامی یہ خاتون کینسر کے باعث اپنی ایک آنکھ کھو چکی تھیں جبکہ ان کے چہرے کا کچھ حصہ بھی بگڑ چکا تھا، تاہم ڈیجیٹلی طور پر تیار کیے گئے مصنوعی اعضا کی بدولت انہیں نئی زندگی مل گئی۔

    برازیل کی پولیسٹا یونیورسٹی کے محققین نے تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے سیلیکون کے اعضا بنائے جن پر ڈیجیٹلی طور پر چہرے کے تاثرات بھی شامل کیے گئے۔

    یہ اس نوعیت کا پہلا تجربہ تھا اور اس میں روایتی پیوند کاری کے برعکس نصف لاگت اور وقت خرچ ہوا۔ محققین کے مطابق مصنوعی اعضا تیار کرنے میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ اب تک ہاتھ سے مصنوعی اعضا تیار کیے جاتے رہے ہیں، اس میں بہت محنت اور وقت لگتا ہے جبکہ اس کی لاگت بھی کئی گنا زائد ہے۔

    اب مذکورہ پیوند کاری سہ جہتی تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے عمل میں لائی گئی اور اس کے لیے صرف اسمارٹ فون سے کھینچی گئی تصاویر کی مدد لی گئی۔

    یہ تکنیک دندان سازی میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہے اور اسے پہلی بار سر اور گردن کی سرجری کے لیے استعمال کیا گیا۔ سنہ 2015 سے اب تک اس نوعیت کی پیوند کاری سے 50 افراد فیضیاب ہوچکے ہیں۔

    پیوند کاری کیسے کی گئی؟

    وسنٹن کی سرجری کا عمل سنہ 2018 سے شروع ہوا۔ سب سے پہلے ان کی آنکھوں کے حلقوں میں ٹائٹینیم کی سلاخیں ڈالی گئی جو مصنوعی پیوند کو سہارا دے سکیں۔

    اس کے بعد ایک سال کے اندر ان کی متعدد سرجریاں کی گئیں جس میں ان کے چہرے کے ٹشوز پر کام کیا گیا۔ محققین نے خاتون کے چہرے کی مختلف تصاویر لیں جس کی مدد سے سہ جہتی ماڈل بنایا جا سکا۔

    ایک گرافک ڈیزائنر کی مدد سے ان کے نصف صحت مند چہرے کی تصویر تخلیق کی گئی۔ اس کے بعد اسی تصویر کو سلیکون اور سنتھٹک فائبر پر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔

    اس پیوند کو اصل کی طرح دکھانے لیے اس کا رنگ وسنٹن کی جلد کی طرح رکھا گیا جبکہ آنکھ کو بھی سبز رنگ کا بنایا گیا۔

    پیوند کی تیاری کے حتمی مرحلے میں 12 گھنٹے لگے، اور یہ دیگر طریقوں سے تیار کیے جانے والے اعضا کی تیاری کا نصف وقت ہے، البتہ پیوند کاری کا عمل مکمل ہونے میں ایک سال کا عرصہ لگا۔

    یہ چھوٹا سا پیوند وسنٹن کے چہرے پر فٹ بیٹھ گیا، اس پر لگے ننھے مقناطیسی ٹکڑے آنکھ کے حلقوں میں موجود ٹائٹینیم کی سلاخوں سے چپک گئے اور یوں یہ پیوند مکمل طور پر چہرے کا حصہ بن گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر مصنوعی اعضا کی تبدیلی میں 5 لاکھ ڈالرز خرچ ہوسکتے ہیں، تاہم یہ عمل لاگت میں بے حد کم ہے اور اس کے لیے صرف کمپیوٹر اور اسمارٹ فون درکار ہے۔