Tag: Carbon Dioxide

  • ہوا سے ہیرے بنانا ممکن؟

    ہوا سے ہیرے بنانا ممکن؟

    ہیرا ویسے تو دنیا کی قیمتی ترین دھاتوں میں سے ایک ہے اور اسے حاصل کرنا بھی بہت مشکل ہے، تاہم اب نہایت انوکھے طریقے سے ہیرے بنانے کا تصور پیش کردیا گیا ہے۔

    دنیا کے ممتاز کاروباری جریدے فاربس کے مطابق سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی نے ہیرے بنانے کا نیا اور اچھوتا تصور پیش کردیا ہے۔

    لگژری زیورات بنانے والی اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ہوا سے کشید کی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے لیبارٹری میں ہیرے تخلیق کرے گی۔

    کمپنی کے چیئرمین ریان شیرمین نے فاربس کو اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بظاہر تو یہ تصور بہت عجیت اور ناممکن لگتا ہے، لیکن ہم ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو لیبارٹری میں جواہرات کی تیاری میں استعمال کرنے کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    لیبارٹری میں اس سے بننے والے ہیرے دکھنے میں کان کنی سے حاصل ہونے والے ہیروں کی طرح ہی ہوں گے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے فضائی آلودگی میں بھی بہت کمی آئے گی، کیوں کہ ایک قیراط کے ہر ایک ہیرے کو بنانے کے لیے ہوا سے 2 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کی جائے گی۔

    ریان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے ہم 18 ملین ڈالراستعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب ہم ماحول دوست ہیروں سے بنے زیورات استعمال کر رہے ہوں گے۔

  • ایسی رہائشی عمارتیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کریں گی

    ایسی رہائشی عمارتیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کریں گی

    ماہرین تعمیرات نے اب ایسی جدید ترین عمارات کا ڈیزائن پیش کیا ہے جو حیرت انگیز طور پر فضائی آلودگی ختم کرنے کا بھی کام کریں گی۔

    تفصیلات کے مطابق اب مستقبل میں ایسی رہائشی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کریں گی، اس سلسلے میں ایک امریکی کمپنی اسکڈمور اوونگز اینڈ میرِل نے ایک ماحول دوست عمارتوں کا ڈیزائن پیش کیا ہے۔

    پچھلی دو دہائیوں سے تعمیراتی صنعت اسٹرکچر اور مٹیریل سے وابستہ کاربن کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، تعمیرات کا شعبہ کاربن کے اخراج میں بہت بڑا حصہ ڈالتا ہے، اس لیے مٹیریل اور انجینئرنگ کے بارے میں فیصلے آب و ہوا کے لیے بڑے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    تاہم اب نئی عمارتوں کا ایسا ڈیزائن پیش کیا گیا ہے جو وسیع رقبے پر پھیلی اونچی اونچی عمارتوں کے منصوبے پر مشتمل ہے، جنھیں خاص انداز میں اس طرح تعمیر کیا جائے گا کہ وہ رہائش فراہم کرنے کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے ٹاورز کا کام بھی کریں گی۔

    عمارتوں کی ہر منزل پر پودے رکھے جائیں گے لیکن ساتھ ہی چند منزلوں کے بعد ایک منزل درختوں کے لیے وقف ہو گی۔

    ہر 2 منزلوں کے درمیان خاص جگہ رکھی جائے گی جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہو کر فلٹریشن سسٹم سے گزرے گی اور خاص پائپوں سے ہوتی ہوئی درختوں اور پودوں والے حصے تک پہنچا دی جائے گی۔

    ان عمارتوں کے ڈیزائن ے لیے یہ سوال سامنے رکھا گیا تھا کہ کیا ہم ایسی عمارتیں بنا سکتے ہیں جو درخت کی طرح کام کرتی ہوں اور حقیقت میں کاربن جذب کرتی ہوں؟ کمپنی کے ڈیزائنرز نے 11 نومبر کو COP26 میں بھی کاربن زیرو فنِ تعمیر کے لیے فرم کے وژن کا تعارف کرایا تھا۔

  • جدید ٹیکنالوجی : سائنسدانوں نے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر اسے کیا بنا دیا؟

    جدید ٹیکنالوجی : سائنسدانوں نے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر اسے کیا بنا دیا؟

    بڑھتی ہوئی عالمی حدت کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھتی جا رہی ہے جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ خوردنی اجناس میں پروٹین کی مقدار بھی کم ہو رہی ہے۔

    اس حوالے سے سوئٹزر لینڈ میں سائنسدانوں نے بڑا کارنامہ انجام دیتے ہوئے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اب دنیا کی سب سے بڑی اس مشین نے کام کا آغاز کردیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے کھینچ کر چٹان میں تبدیل کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے پلانٹ نے یورپی ملک آئس لینڈ میں کام شروع کردیا۔

    A facility for capturing CO2 from air of Swiss Climeworks AG is placed on the roof of a waste incinerating plant in Hinwil, Switzerland July 18, 2017. REUTERS/Arnd Wiegmann/File Photo

    اس پلانٹ کو "اورکا” کا نام دیا گیا ہے، اورکا آئس لینڈ کی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب توانائی ہے۔ یہ پلانٹ چار یونٹس پر مشتمل ہے اور ہر یونٹ دو دھاتی باکسز پر مشتمل ہے جو دیکھنے میں شپنگ کنٹینر جیسے نظر آتے ہیں۔

    اس پلانٹ کو سوئٹزر لینڈ کی کمپنی کلائم ورکس اور آئس لینڈ کی کمپنی کارب فکس نے تیار کیا ہے۔ کمپنیوں کے مطابق یہ پلانٹ ہر سال ہوا میں موجود 4 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صفائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    یو ایس ماحولیاتی ادارے کے مطابق یہ مقدار 870 گاڑیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کے برابر ہے جبکہ اس پلانٹ کی لاگت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ہے۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اکٹھا کرنے کے لیے پلانٹ کے پنکھوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو ہوا کو کلکٹر میں اکٹھا کرتا ہے جس کے اندر ایک فلٹر میٹریل بھی ہے۔

    جب فلٹر میٹریل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھر جاتی ہے تو یہ کلکٹر بند ہوجاتا ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تاکہ میٹریل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کیا جاسکے۔

    اس کے بعد یہ گیس پانی میں مکس ہوتی ہے اور بعد ازاں ایک ہزار میٹر گہرائی میں ایک چٹان میں نصب کردی جاتی ہے تاکہ اسے ٹھوس شکل دی جاسکے۔

    کمپنیوں کو توقع ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکے گی مگر ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

  • ماحول دوست پلاسٹک بنانے کی تیاری، ماہرین نے اہم اقدامات کرلیے

    ماحول دوست پلاسٹک بنانے کی تیاری، ماہرین نے اہم اقدامات کرلیے

    ٹوکیو : جاپان میں سائنسی ماہرین ایسی پلاسٹک بنانے کے کیلئے کوشاں ہیں جس کے اثرات ماحول پر اثر انداز نہ ہوں، اس مقصد کیلئے ایک یونیورسٹی سے معاہدہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپانی کمپنیوں نے زیادہ مقدار میں ماحول دوست پلاسٹک تیار کرنے کیلئے ایک سرِفہرست یونیورسٹی سے اشتراک عمل کا معاہدہ کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جاپانی کمپنیاں نئی قسم کا ایسا پلاسٹک تیار کرنے کی غرض سے ایک سرِ فہرست یونیورسٹی سے اشتراک کر رہی ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنے میں مدد دے سکے۔

    اس گروپ کا ارادہ یہ ہے کہ بائیو ماس کے نام سے معروف نامیاتی مواد سے بڑے پیمانے پر پلاسٹک بنانے کیلئے ٹیکنالوجی تیار کی جائے، مذکورہ کلیدی مواد، مائیکرو ایلگے یُوگلینا سے آتا ہے۔

    اس مقصد کیلئے سیئکو اپسن، این ای سی، یونیورسٹی آف ٹوکیو اور یُوگلینا نام کی ایک نئی کمپنی کے مابین ایک کنسورشیم تشکیل دیا گیا ہے۔ بائیو پلاسٹک پیرامائلون نامی مواد سے بنایا جائے گا جو یُوگلینا سے حاصل کیا جاتا ہے۔

    محقیقین کے مطابق یُوگلینا، ضیائی تالیف کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر لیتا ہے, ان کا خیال ہے کہ یہ عام پلاسٹک کی نسبت کہیں زیادہ ماحول دوست متبادل ہو سکتا ہے جو معدنی ایندھن سے حاصل کیا جاتا ہے۔

    اس کے پیداواری عمل کے دوران بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کنسورشیم 2030ء تک سالانہ تقریباً دو لاکھ ٹن بائیوماس ماحول دوست پلاسٹک تیار کرنےکیلئے پرامید ہے۔

  • زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار کاربن اخراج ہے جو مختلف صنعتوں سے بے تحاشہ مقدار میں خارج ہوتا ہے، تاہم اب اس کاربن کو قابو کرنے کا ایک طریقہ سامنے آگیا ہے۔

    آسٹریلوی ماہرین نے کاربن اخراج کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا ہے جس سے ایک طرف تو ٹھوس کاربن صنعتی استعمال کے لیے دستیاب ہوگی تو دوسری جانب خطرناک حدوں کو چھوتی فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔

    آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں کیے جانے والے اس کامیاب تجربے میں ماہرین نے کاربن گیس کو ٹھوس کوئلے کے ٹکڑوں میں بدل دیا۔

    اس سے قبل کاربن گیس کو مائع میں بدلنے کے تجربات تو کیے جاتے رہے ہیں تاہم آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن کو ٹھوس میں بدلنا ایک ماحول دوست طریقہ ہے۔ تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق یہ کاربن اخراج کی تباہی کو واپس پلٹ دینے کومترادف ہے۔

    اس سے قبل کاربن کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا جاچکا ہے تاہم اس میں کاربن کی شکل نہایت گرم درجہ حرارت پر تبدیل کی جاتی تھی جس کے بعد وہ کسی بھی قسم کے استعمال کے قابل نہیں رہتا تھا۔

    اب حالیہ تکنیک میں اسے مائع کی آمیزش کے ساتھ ٹھوس میں بدلا جارہا ہے جس میں معمول کا درجہ حرارت استعمال ہوتا ہے۔

    اس تکینیک میں کاربن گیس کو برق پاش مائع میں گھولا جاتا ہے جس کے بعد اس محلول کو الیکٹرک کرنٹ سے چارج کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کاربن گیس آہستہ آہستہ کوئلے میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    اس عمل کے دوران ایک قسم کا فیول بھی پیدا ہوتا ہے جو مختلف صنعتی استعمالات کے کام آسکتا ہے۔

    اس سے قبل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں بھی اسی نوعیت کا تجربہ کیا گیا جس میں کاربن گیس کو کنکریٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

    سی او ٹو کریٹ کا نام دیے جانے والے اس کاربن کو تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کاربن سے تیار اس کنکریٹ سے سڑکیں اور پل تعمیر کی جاسکتی ہیں۔

    سنہ 2016 میں آئس لینڈ میں کیے جانے والے ایک اور تجربے میں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلایا جانے والا یہ پروجیکٹ آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔

    خیال رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس‘ پر زور دے رہے ہیں۔