Tag: carona case

  • سپریم کورٹ میں  کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی، نیا بینچ تشکیل

    سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی، نیا بینچ تشکیل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی، جس کے لیے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے اور اٹارنی جنرل سمیت دیگرفریقین کو نوٹسز بھی جاری کردیئے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے کوروناوائرس پرازخودنوٹس کیس کی سماعت پیر کو مقررکردی اور سماعت کےلئے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس سجادعلی شاہ کی عدم دستیابی پرنیابینچ تشکیل دیا گیا ہے، اب جسٹس مشیر عالم اور جسٹس طارق مسعود بینچ کا حصہ ہوں گے۔

    جسٹس عمرلاہورجبکہ جسٹس سجاد کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت میں مصروف ہیں، کورونا کیس کےلئےاٹارنی جنرل سمیت دیگرفریقین کو نوٹسز بھی جاری کردیئے گئے ہی

    دوسری جانب پرنسپل سیٹ اسلام آباد ، کراچی اورلاہوررجسٹری کی آئندہ ہفتے کی کاز لسٹ جاری کردی گئی ہئے، جس کے مطابق آئندہ ہفتے 3ججز بینچز اسلام آباد میں مقدمات کی سماعت کریں گے ، کراچی میں 2اور لاہور میں 3بینچ مقدمات کی سماعت کریں گے.

    بینچ ایک چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل ہوگا ، بینچ 2میں جسٹس مشیر عالم,جسٹس مظہر عالم اور جسٹس یحیی آفریدی شامل ہیں جبکہ بینچ 3جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل ہوگا۔

    کراچی رجسٹری میں جسٹس مقبول باقر،جسٹس سجاد علی شاہ سماعت کریں گے، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ بھی سماعت کرےگا۔

    لاہور میں بنچ ایک میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس مظاہر نقوی ، بینچ 2میں جسٹس منظور ملک اور جسٹس منصور علی شاہ اور بینچ 3میں جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔

  • سپریم کورٹ کا حکومت کو کورونا کے خلاف اقدامات پر یکساں پالیسی بنانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا حکومت کو کورونا کے خلاف اقدامات پر یکساں پالیسی بنانے کا حکم

    سپریم کورٹ نے حکومت کو کورونا کے خلاف اقدامات پریکساں پالیسی بنانےکا حکم دیتے ہوئے این ڈی ایم اے غیر ملکی امداد کی تفصیل بھی مانگ لی، چیف جسٹس نے وفاق اور صوبوں کی رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ملک کے حصوں میں آگ لگی ہے، حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں ، صدر اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے ،مگر کچھ ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کوروناوائرس ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی بینچ سماعت کررہاہے، وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز سمیت این ڈی ایم اے ،وزارت صحت و دیگر متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ وڈیو لنک پر موجود ہیں۔

    سماعت میں چیف جسٹس نے سیکریٹری ہیلتھ سے حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹرسےمتعلق استفسار کیا، جس پر سیکریٹری صحت نے جواب میں بتایا کہ جی وہاں گیا تھا بیڈز اور پانی موجود تھا مگربجلی نہیں تھی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا حاجی کیمپ کوقرنطینہ سینٹر کس نے بنایا؟ تو سیکریٹری صحت نے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹراین ڈی ایم اے نے بنایا تھا جبکہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ آئی ہے مگر کوئی نمائندہ موجود نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حاجی کیمپ کو دفتر میں بیٹھ کر قرنطینہ سینٹر بنا دیاگیا، جو رپورٹ عدالت میں آئی ہے وہ سب روٹین ہے، عملی طورپرکام نہیں ہورہا،صرف پیپر ورک بنایاجارہاہے ، کسی کوکچھ معلوم نہیں کہ کیاہورہاہے،اربوں خرچ ہورہے ہیں، ان سب کا جب آڈٹ ہوگا پھرٹرانسپرنسی دکھے گی۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کیا سینی ٹائزر،گلوز ،ماسکس پراربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، کسی کام میں شفافیت نہیں،اربوں روپے کہاں خرچ ہورہےہیں؟

    کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس میں عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کی عدم موجودگی ہر اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے کون آیا ہے؟ جس پر ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات عدالت میں پیش ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات سے استفسار کیا حاجی کیمپ کو قرنطینہ مرکز کس نے بنایا؟ حمزہ شفقات نے جواب دیا کہ قرنطینہ مرکزاین ڈی ایم اے نے بنایا ہم نے صرف2بارکھانادیاتھا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ڈی سی اسلام آباد پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا آپ نے دفتر میں بیٹھ کر قرنطینہ مرکز بنا دیا، کوئی سہولتیں مہیا ہی نہیں کیں،آپ لوگ کر کیا رہے ہیں؟ کیا سارے ادارے ایسے ہی کام کررہے ہیں؟

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایک صوبائی وزیر کہتا ہے وفاق اور وزیراعظم کیخلاف پرچہ کرادیں گے، یعنی کے دماغ بالکل آؤٹ ہوچکا ہے، دماغ میں کیا چیز چڑھی ہوئی ہے پتانہیں، وفاق نےجوکچھ کیاوہ صرف اس25کلومیٹر کی حدتک ہے، وفاقی حکومت کااختیارصرف اسلام آبادتک ہی محدودہے، ملک میں کوئی یکجاپالیسی موجودنہیں۔

    جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ پنجاب کےحالات سندھ سےبھی زیادہ خراب ہورہےہیں،چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ پنجاب کے حالات بھی بالکل ٹھیک نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پاک چائنافرینڈ شپ سینٹر کاحال بھی حاجی کیمپ جیساہی ہے، ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں، جن کاروزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کررہے، سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کوکام کی اجازت دیں گے ، سمجھ نہیں آتی ایک درخواست پر کیا اجازت  دی جائے گی، جامع پالیسی بناکرتمام فیکٹریوں کوکام کی اجازت ملنی چاہیے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا لاکھوں دکانیں ہیں ہرکوئی الگ الگ درخواست کیسے دے گا؟ اجازت دینے والوں سے پولیس والے تک سب کو ہی کچھ دینا پڑتا ہے، ایک دکان کھولنے والےکو نہ جانے کتنے پیسے دینے پڑتے ہوں گے، پنجاب کی صورتحال بھی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

    وفاقی سیکریٹری صحت نے بتایا کہ روزانہ 10ہزار افراد کے کورونا ٹیسٹ ہو رہے ہیں، 10ہزار افراد میں سے ایک ہزار افراد میں کرونا پوزیٹو آرہا ہے کورونا کیس مثبت آنے کی شرح 10فیصد ہے۔

    جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ حکومت نے مساجد کھول دی ہیں، کسی جگہ قواعدپرعمل نہیں ہو رہا، حکومت نےمارکیٹیں بند کرکے مساجد کھول دیں، کیا مساجد سے کورونا وائرس نہیں پھیلے گا، 90 فیصد مساجد میں ریگیولیشنز پر عمل نہیں ہو رہا ہے، فاصلہ رکھنا ہے تو سب جگہ رکھنا ہوگا، پالیسی کہاں ہے ؟ بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ ماراجا رہا ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ شاپنگ مالز میں سامان کی تقسیم سے کتنے لوگ وابستہ ہیں، شاپنگ مالز سے وابستہ تمام کام رک گیاہے، سندھ حکومت پالیسی کےبجائے صنعتیں کھولنےکی اجازت دےرہی ہے، سمجھ نہیں آرہی ملک میں کیا ہورہا ہے، ملک میں مکمل طورپر استحصال ہو رہا ہے ، لگتا ہے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کیخلاف سازش کر رہی ہیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب میں 37صنعتیں کھولی گئی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا 37 صنعتیں کھول دیں باقی صنعتوں کیساتھ کیا مسئلہ ہے۔

    جسٹس قاضی امین نے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب سےمتعلق جوکاغذ پڑھ رہےہیں حقیقت برعکس ہے، میں خود پنجاب کاہوں ، علم ہےپنجاب کی صورتحال کیسی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول 4 کو دیکھ لیں،امپورٹ، ایکسپورٹ ،لمیٹڈ کمپنیز ،ہائی ویز، ٹیکس  معاملات وفاقی ہیں، صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں، چاروں صوبے اور آئی سی ٹی اپنی پالیسی سازی میں مکمل آزاد ہیں ، کام کچھ نہیں کیا مگر ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔

    جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ ایک ہفتہ دیتےہیں یکساں پالیسی مرتب کرلی جائے ، یکساں پالیسی نہ آئی توعدالت عبوری حکم دےسکتی ہے، وفاق اور صوبوں میں تعاون نہ ہونا ذاتی اناد ہے، سپریم کورٹ کوفکرصرف عوام کی ہے، مفادعامہ میں سپریم کورٹ نےدرست اقدام کیا، نجی گاڑیاں ایک آدمی کا کرایہ جہاز کے برابر لے رہی ہیں۔

    کوروناوائرس ازخودنوٹس کیس میں چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت کےریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بندکرسکتی ہیں، جسٹس عمرعطا کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے جو اقدامات کئےوفاق سے تصدیق ضروری ہے۔

    اے جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ 2014 کے قانون کے تحت کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے، بزنس سرگرمیوں پروفاقی حکومت ٹیکس لیتی ہے، صوبے اس پر پابندی کیسے لگاسکتےہیں۔

    چیف جسٹس نے اےجی پنجاب سے مکالمے میں کہا کہ صوبوں نے کاروباری مصروفیات روک دیں، صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتےہیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایسا کرنے کے لیے مرکز کی اجازت ضروری تھی، کیا پنجاب نے مرکز سے ایسی کوئی اجازت لی؟ اجازت نہیں لی تو صوبوں کے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں، صوبائی حکومتیں صرف وہ کام رکوا سکتی ہیں جو ان کا دائرہ اختیار ہو۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ معاملہ مرکز اور صوبوں کے درمیان تناؤکا نہیں ہے، اس معاملے پرمرکز اور صوبے مل بیٹھ کرفیصلے کر رہے ہیں، نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی میں اتفاق رائےسےفیصلےہورہےہیں ، صورتحال میں سب تعاون کر کے چل رہے ہیں، یہ انتظامی معاملہ ہے اسے سیاستدانوں پر چھوڑ دیا جائے، سیاسی قیادت اس حوالے سے فیصلے کر رہی ہے۔

    جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کیا عدالت یہ نہیں پوچھ سکتی کہ صورتحال خراب کیوں ہو رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت اس بارے میں ضرور پوچھ سکتی ہے تو جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ پرسوں پنجاب میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں، ہم آئینی سوالات پوچھتے رہیں گے چاہے جو  مرضی سوچتے رہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صوبائی حکومتیں پیسےمانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو انھیں دینے چاہئیں، سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم عدالت میں شفافیت کی بات کررہے ہیں،بظاہر لگتا ہے کہ تمام ایگزیکٹیو ناکام ہوگئے، کسی کواحساس نہیں حکومتیں ایک ساتھ بیٹھیں ، بات کریں، کون ہے جو بات کرنے کو تیار نہیں،صوبوں کے درمیان تعاون کا آغاز ہونا چاہیے، مسافر ایک سے دوسرے صوبے مال بردار ٹرک میں سفر پر مجبور ہیں، فری پابندیوں سے مسافروں سےجہاز کے ٹکٹ کے برابرکرایہ لیا جا رہا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، چاہتے ہیں معاملہ اس حد تک نہ جائے عدالت کو مداخلت کرنا پڑے ، آج کل ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے ملک میں سیاسی جنگ ہے، وفاق کے اختیارات پر بات کرنے کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑیں گے، جسٹس قاضی نے سوال کیا کیا شہریوں کی اموات پرسوال پوچھنا آئینی ذمہ داری  نہیں؟ باہر کون کیا کہتا ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورونا وائرس سے وقت اپنی پیک پرہے۔

    جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ کورونا ہاتھوں سے نکل رہا ہے تو اٹارنی جنرل نے کہا کورونا سے متعلقہ سہولتوں کی کوئی کمی نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا جس قیمت پر عوام کو سہولتیں مل رہی ہیں وہ بھی دیکھیں، سفید پوش افراد راشن کےلئے لائن میں نہیں لگتے۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ وفاق،صوبائی حکومتوں کوباہمی تعاون کی ضرورت ہے، شفافیت میں پہلی چیز یکسانیت ہے،ایگزیکٹومفلوج ہوچکا، ذاتی عناد کی وجہ سے وفاق کا نقصان ہو رہا ہے،کون کیازبان استعمال کررہاہےسب کچھ سامنےہے، یکساں پالیسی کیلئےایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو آدمی خیرات اور زکوة کے پیسے بھی نہ چھوڑے اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے، بیت المال کی رپورٹس میں بھی کرپشن کی نشاندہی ہے، آپ سمجھتےہیں کہ یہاں آکرآسانی سےجوچاہیں گےبول دیں گے، یہ سوچےبغیرکہ ہو کیا رہا ہے جو چاہیں گے بول دیں گے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے، مگر کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، جن شعبہ جات کو کھولا گیا ان کاعوام کو کیا فائدہ ہوا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہچھوٹی تجارتی سرگرمیوں کوبھی کھولنےپر غور کیا جائے گا، قومی سلامتی کے 9مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے، ریلوے کو کھولنے کے شیڈول پر بھی غور ہورہا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پی آئی اے ہزاروں ڈالر ٹکٹ کاکرایہ لیتاہے، ایک سیٹ پی آئی اےمیں سماجی فاصلے کیلئے خالی نہیں چھوڑی جاتی۔

    کوروناوائرس ازخودنوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پرعدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کام کرنا ہے تو نیک نیتی اور شفافیت سے کریں، پولیس کوشہریوں سے بدتمیزی کی اجازت نہ دی جائے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ لاہور قرنطینہ سے پیسے لئے بغیر کسی کو جانے نہیں دیاجاتا، جو اسپتال جاتا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا، اسپتال سے لاش وصول کرنے کیلئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، کرپشن کس حد تک جڑوں میں بیٹھ چکی ہے، نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کیا کر رہے ہیں؟

    جسٹس گلزار احمد کا مزید کہنا تھا کہ احتساب کا ایک اور ادارہ بنایا تو کرپشن رفتار مزید تیز ہوجائے گی، لوگ شرافت کے لبادے میں نہ جانے کیا کچھ کر رہے ہیں، لوگوں میں انسانیت ختم ہوگئی صرف گوشت کا ٹکڑا رہ گیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کیا گندم غائب کرنے والے انسان کہلائے جا سکتے ہیں؟ ابھی کسی کرپٹ بندے کو عدالت بلائیں دیکھئے گا کیسے جھوٹ بولےگا، جو زکوة اور صدقے کا پیسہ کھا جائیں ان سےکیا توقع رکھیں گے، آڈیٹر جنرل کے مطابق زکوة اور بیت المال کا پیسہ کرپشن کی نذرہوگیا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بیت المال کے فنڈ میں کرپشن یا غبن نہیں ہوئی، آڈٹ حکام نے 54 اعتراضات عائد کئے تھے48 کے جواب آ گئے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا جو ریکوری ہوئی کیا یہ کرپشن نہیں تھی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مریض کیلئے مختص جو پیسے استعمال نہیں ہوئے وہ ریکوری  میں ڈالے گئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صوبوں کوچاہیے کہ زکوة تقسیم میں شفافیت کیلئےنظام بنائیں، زکوة،صدقہ صاف وشفاف اندازمیں نہ ملے تو کیا ہوگا، زکوة کا پیسہ کھا جائیں گے تو پیچھے کیا رہ جائے گا، ہمارے ملک کا ایک حصہ چلایا گیا، ہمارے ملک کے حصوں میں آگ لگی ہے۔

    چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے سے غیر ملکی امداد تقسیم کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کتنی امداد آئی اورکہاں بھیجی گئی رپورٹ پیش کی جائے، کتنی غیر ملکی امدادآرہی ہےاسپتالوں تک کچھ بھی نہیں پہنچا۔

    چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے سے حاجی کیمپ کو قرنطینہ مرکز بنانے پر جواب طلب کرلیا اور کہا سربراہ این ڈی ایم اے بتائیں حاجی کیمپ مرکز پر کتنے پیسےخرچ ہوئے۔

    سپریم کورٹ نے حکومت کوکورونا سے متعلق سے یکساں پالیسی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا امید کرتے ہیں کوروناوائرس سے متعلقہ شعبے کیلئے یکساں پالیسی بنے گی، پالیسی تمام اسٹیک ہولڈرزکیساتھ مشاورت کرکےبنائی جائے جبکہ یکساں پالیسی سازی سے متعلق رپورٹ بھی طلب کر لی۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں کوروناوائرس ازخودنوٹس کیس کی سماعت 2ہفتےتک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سندھ حکومت نے بھی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی ، رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طبی عملے کو حفاظتی طبی سامان مہیا کیا جارہا ہے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل نےشرعی رائےجمع کرائی جس میں کہا گیا تھا کہ زکوٰة فنڈ سےایک حد تک تنخواہ ادا کی جاسکتی ہے،تاہم زکوۃ ادائیگی میں اصل مقصد نظر انداز نہیں ہونا چاہیئے۔

  • کرونا ازخود نوٹس کیس : سپریم کورٹ نے راشن اور پیسوں کی تقسیم پررپورٹس غیر شفاف قرار دیدیں

    کرونا ازخود نوٹس کیس : سپریم کورٹ نے راشن اور پیسوں کی تقسیم پررپورٹس غیر شفاف قرار دیدیں

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کرونا سےمتعلق از خود نوٹس کیس میں راشن،پیسوں کی تقسیم پر رپورٹس غیرشفاف قراردے دی اور بیت المال اور زکوة فنڈز کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت اور کرونا وائرس سے متعلق اقدامات پر تمام صوبوں اور وفاق سے رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کوروناوائرس ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہوئی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا جواب کہاں ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا وزارت صحت اور این ڈی ایم اے نے الگ الگ جواب دیئے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ محکمہ زکوةنےکوئی معلومات نہیں دیں، محکمہ زکوة کےجواب میں صرف قانون بتایاگیا تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت  زکوة فنڈ صوبوں کو دیتی ہے ، صوبائی حکومتیں زکوة مستحقین تک نہیں پہنچاتیں، زکوة فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بیت المال کا بھی بڑاحصہ انتظامی امورپرخرچ ہوتا ہے ، بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں  شفافیت نہیں، سندھ حکومت ہو یاکسی اورصوبے کی،مسئلہ شفافیت کاہے، صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی تفصیل نہیں دی گئی۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9ارب سے زائد زکوة جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے، اس کا کچھ نہیں  بتایا  گیا ، وفاق حکومت کو زکوة فنڈ کا آڈٹ کرانا چاہیے، زکوة فنڈ کے آڈٹ سے صوبائی خود مختاری متاثرنہیں ہو گی ، زکوة کے پیسے سے دفتری امور نہیں  چلائے جاسکتے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زکوة کا پیسہ لوگوں کےٹی اےڈی اے ،باہردورے کرانے کیلئے نہیں، یہی حال بیت المال اور زکوة کے محکمے کے ساتھ ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری صحت سے استفسار کیا اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز ہیں، سیکریٹری صحت نے بتایا کہ کیپٹل ٹریٹری میں  16 قرنطینہ  سینٹرزقائم ہیں، ہوٹلز،حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل بلڈنگ، پاک چائنہ سینٹر شامل ہیں، بیرون ملک سے آئے مسافروں کو 24گھنٹے قرنطینہ سینٹرز میں رکھا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا ان قرنطینہ سینٹرزمیں رکھے جانے کا خرچ کون برداشت کرتا ہے، وفاقی سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے تو جسٹس گلزار احمد نے کہا لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکریننگ سےبچ نکلتےہیں، مردان میں ایک شخص نے 2پیناڈول کھائی اور وہ اسکریننگ سے بچ نکلا۔

    سیکریٹری صحت نے بتایا کہ اسی لئے اب 24 گھنٹے میں قرنطینہ میں رکھ رہےہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹرمیں لوگ  کیوں شورمچارہےہیں، کیا آپ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر دیکھ کرآئےہیں تو سیکریٹری صحت کا کہنا تھا میں نہیں گیا مگر ایڈیشنل سیکریٹری خود ہو کر آئےہیں، چیف جسٹس نے مزید کہا آج آپ حاجی کیمپ،اوجی ڈی سی ایل،پاک چائنہ سینٹرخود جاکر دیکھیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زکوة کا پیسہ بیرون ملک دوروں کےلیےنہیں ہوتا ،افسران کی تنخواہیں بھی زکوة فنڈ سے دی جاتی ہیں، سارا پیسہ زکوة فنڈ کا ایسے ہی خرچ کرنا ہےتو کیا فائدہ، عوام کو ضرورت پیداہوتوایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والےہیں ، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، سیہون شریف بازار کی بھی مرمت ہوتی تو چھت نہ گرتی ، مزارات کاپیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیلئے ہوتا ہے، مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوة فنڈ  سے تنخواہ لے رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ جوقوانین صوبوں نے بنائے ان کا جائزہ لینا بھی  ضروری ہے، قرنطینہ مراکزمیں مقیم افرادسے پیسے لئے جارہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا قرنطینہ کیلئےہوٹلزکاانتخاب کن بنیادوں پرکیاگیا، تمام ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا ، جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا قرنطینہ مراکز میں گرمیوں میں کیا سہولتیں سہولیات ہوں گی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے جواب دیا کہ اے سی کی ضرورت  ہوئی تو مہیا کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کون صاحب ہیں ؟ وسیم خان نے بتایا کہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ہوں۔

    چیف جسٹس نے وسیم خان کو روسٹرم سےہٹا دیا اور کہا آپ جاکر سیٹ پر بیٹھیں ، استفسار کیا اے سی لگانے کا خرچہ معلوم ہے آپ کو؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی کہا فائبر کا قرنطینہ بہت جلد گرم ہو جائےگا۔

    چیف جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ یہ تو پیسہ ایک ہاتھ سے لیکر دوسرے سے دینے کی بات ہے، کسی صوبے اور محکمہ نے شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں دی، عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے، کھربوں روپےخرچ ہو چکے اور مریض صرف 5ہزار ہیں۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا کہ قرنطینہ مراکز کے بجائے اسکول، کالجز کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا، نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے، اٹارنی جنرل پاکستان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کی تجویز اچھی ہے غور کریں گے۔

    کوروناوائرس ازخود نوٹس کیس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ کورونا کے آتے ہی زکوة فنڈ سے 569 ملین روپے لوگوں میں  تقسیم کئے، رقوم کے تقسیم یو سی کی سطح پر موجود ڈیٹا سےکی گئی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نےکراس چیک کیاکہ یہی لوگ وفاق سے12ہزارتونہیں لےرہے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ کراس چیک نہیں کیاگیا، سندھ حکومت کےپاس مستحقین کی فہرست پہلے سے موجود تھی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا آپ نے جو رقم دی ہے فی کس کیا بنی ہے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا 6 ہزار روپے فی خاندان دیئے گئے ہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید پوچھا کیا آپ نے یہ 6ہزار روپے کیش اداکئےہیں تو اے جی سندھ نے بتایا کہ یہ کیش میں نہیں بلکہ اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کی گئی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جن 11یو سیز کو سیل کیا گیاتھا ان کی آبادی کتنی ہے ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا 11 یو سیز کی آبادی 6لاکھ 70ہزار کے قریب بنتی ہے ، 12 اپریل تک ان یوسز سے234کورونا کیسز آئے تھے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اب یہ234متاثرہ افراد کہاں اورکس حالت میں ہیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ 160 لوگوں کو گھروں میں قرنطینہ میں رکھاگیا ہے، 45 لوگ اسپتالوں میں ہیں، جن میں سے6کی حالت تشویشناک ہے، 21 صحتیاب ہوچکے جبکہ باقی آئسولیشن میں رکھے گئے ہیں۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس آپ کی رپورٹ کوچیک کرنےکاکوئی طریقہ کارنہیں،اےجی سندھ نے کہا کہ عدالت میں پیش ہر ایک معلومات درست  اورحقیقت پرمبنی ہے ، جس پر چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ رپورٹ میں آپ نے 1.56بلین روپے کےراشن تقسیم کا لکھاہے ، پتہ چلا کہ اتنا بڑا راشن  تقسیم بھی ہوگیامگرکسی کوپتہ بھی نہیں چلا، ویسے کوئی چھوٹی چیزکسی کو دیتے ہیں تو اخبار میں 2تصویرآتی ہیں۔

    اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ یقین سے کہتا ہوں کہ کورونا پر کوئی سیاست نہیں کی جارہی ، سماجی فاصلےمدنظررکھ کر صبح4 بجے سے 7بجے کے درمیان  راشن تقسیم کیا، یہ راشن ضلعی انتظامیہ،یوسیزچیئرمین کے ذریعےتقسیم کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کیا یہ درست ہے کہ جو راشن تقسیم ہوا وہ ناقص تھا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے 22ہزار گھروں میں راشن کیسے تقسیم کیا اور استفسار کیا کیا ان گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا ان گھروں کی نشاندہی یوسیز کی کمیٹیوں نے کی تھی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کا علاقہ یورپ کے چھوٹے ملک جتنا ہے، مانتے ہیں سندھ حکومت کو تشہیرکی ضرورت نہیں ، لیکن تقسیم کا کام تو ایک دن میں نہیں ہوا ہوگا، جے ڈی سی والے راشن تقسیم پر بتاتے ہیں کتنا راشن تقسیم ہوا۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا ہمیں تکلیف ہوتی ہے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں؟ کیا آپ کے پاس راشن وصول کرنے والوں کی فہرستیں  ہے، اے جی سندھ نے بتایا کہ جناب باتیں کرنے والے تو باتیں کرتےہیں، سندھ میں 23 مارچ سے راشن کی تقسیم شروع ہوئی، ہمارے پاس فہرستیں موجود ہیں، راشن فراہمی کا دوسرا دور جلد شروع ہو جائے گا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا دوسرے دور کے بعد خرچہ 8 ارب روپے تک پہنچ جائے گا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے مؤقف میں کہا کہ 8 ارب کی معلومات غلط ہے۔

    اے جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ جو صنعتیں کھلیں گی وہ مخصوص دنوں میں کام کریں گے، جن کی ملازمت شروع ہوگی انہیں راشن کی ضرورت نہیں رہےگی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کپڑے کی دکانیں کھولے بغیر درزی کھولنے کا کیا فائدہ، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیےہوتی ہیں، ایسے تو درزی  ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے ،فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کی سیفٹی کوبھی مدنظر رکھنا ہو گا ، بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنےکاراستہ بھی نہ ملا،فیکٹری کی کھڑکیاں بھی سیل کردی گئیں تھیں،فیکٹری ورکرز کے حوالے سے قانون پرعمل نہیں ہورہا، مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے۔

    اے جی سندھ نے کاہ کہ ایس او پیز پر نہ عمل کرنے والی 3فیکٹریوں کو سیل کیا گیا، ماضی میں جو ہوا اسے بھول کر آگے بڑھ رہےہیں۔

    کورونا سے بچاؤ کے حفاظتی سامان کے حوالے سے اے جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوں گی ، این 95 ماسک 425 روپے اور سرجیکل ماسک27روپے میں مل رہاہے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کررہا ہے، سیکریٹری صحت سندھ نے بتایا کہ سول سوسائٹی نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے جبکہ اےجی سندھ نے کہا سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا۔

    چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا کے حوالے سے سوال کیا مردان کی یوسی منگاہ میں کیا صورتحال ہے ، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے بتایا کہ یو سی منگاہ کو کھول دیا گیاہے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا طورخم بارڈر سے آنے والوں کو کیسے اور کہاں رکھا جائے گا، جس پر اےجی کےپی نے بتایا کہ طور خم بارڈر پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس آنے دیا جائے گا ، اب تک ڈھائی ہزار افراد واپس آئےہیں ، طورخم سے آنے والوں کو قرنطینہ کیا جاتاہے۔

    اےجی بلوچستان نے بتایا کہ چمن،تفتان بارڈرپر قرنطینہ مراکزقائم کردیئےگئے، قلعہ عبداللہ میں 800 افراد کے لیے ٹینٹ سٹی قائم کردیا، بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں بھی شفافیت کا مسئلہ ہے، صرف راشن دے رہے ہیں، کسی کونقد امداد نہیں دی، حکومت نے 21ہزار ، این جی اوز نے 26 ہزار خاندانوں کو راشن دیا۔

    سپریم کورٹ نے زکوة فنڈز کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق صوبوں اور وفاق سےرپورٹ اور بیت المال کی شفافیت سے متعلق بھی رپورٹ طلب کرلی اور کہا اسلامی نظریاتی کونسل اورمفتی تقی عثمانی سے رائے لی جائے ، رائے لی جائے کہ زکوة فنڈ تنخواہ ،انتظامی اخراجات پر خرچ ہوسکتا یا نہیں۔

    عدالت نے چاروں صوبوں اور وفاق سےآئندہ سماعت سے پہلے کورونا پر پیشرفت رپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے کہا صوبائی حکومتیں میڈیکل عملے،ڈاکٹرز کا مکمل خیال رکھیں، ممکن ہو تو میڈیکل عملے کو اضافی مراعات دی جائیں۔

    سپریم کورٹ نے ڈاکٹرز اور میڈیکل عملے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا سینٹری ورکرز کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

    عدالت نے سندھ میں راشن اورپیسوں کی تقسیم کے حوالے سے رپورٹس غیرشفاف قرار دیتے ہوئے کہا سندھ میں صنعتیں کھولنے کے ایس اوپیز کا پورے ملک پراطلاق ہوگا۔

    سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ، ضلعی عدالتوں کے وکلا اورعدالتی عملے کو حفاظتی سہولتیں دینے کاحکم دیتے ہوئے بار ایسوسی ایشنز کی جانب سےحکومت سے فنڈ فراہم کرنےکی درخواست مسترد کردی۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ پوراملک اس وقت بحران کی کیفیت میں ہے، بارایسوسی ایشنزکو فنڈ کی فراہمی حکومت کی صوابدید ہے، اس کے لیے کوئی اور طریقہ  اختیارکیاجائے، بتایا گیا ہے ملک بھر میں بعض صنعتیں کھولی جا رہی ہیں،جوبھی صنعتیں کھولی جائیں ان پرفیکٹریز ایکٹ کا معیاریقینی بنایا جائے۔

    عدالت نے ہدایت کی وباسے نمٹنے کے لیے حکومتی ادارے آپس میں تعاون کریں، توقع ہے وفاقی اورصوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں متفقہ فیصلے کریں گی۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت 2ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔

    خیال رہے چاروں صوبوں نے اپنی اپنی کارکردگی رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہیں، سندھ حکومت نے آٹھ ارب کے راشن کی تقسیم سے متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔

    گزشتہ سماعت عدالت عظمی نے صوبوں اوروفاق کی کارکردگی پرعدم اطمینان کااظہارکیاتھاوزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کے ریمارکس سامنے آئے تھے، عدالت نے واضح کیاتھا کہ مفادعامہ اورعوام کے حقو ق پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔