Tag: Cause of death

  • پھیپھڑوں کے کینسر سے بچاؤ کا سب سے آسان طریقہ

    پھیپھڑوں کے کینسر سے بچاؤ کا سب سے آسان طریقہ

    تمباکو نوشی کو پھیپھڑوں کے کینسر میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جو باقاعدگی سے سگریٹ پیتے ہیں۔

    امریکا کی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے مطابق امریکا میں کینسر یا سرطان کے سبب ہونے والی ہر چار اموات میں سے ایک کی وجہ پھیپھڑوں کا کینسر ہوتی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کنسلٹنٹ پلمونولوجسٹ ڈاکٹر سیف اللہ نے پھیپھڑوں کے کینسر کی وجوہات اور اس سے بچاؤ سے متعلق ناظرین کو اہم معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ بیماری کسی بھی عمر کے افراد کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس لیے پھیپھڑوں کے کینسر کے متعلق معلومات حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔

    اس آلودہ زدہ ماحول سے خود کو بچانے کیلئے کیا کیا جائے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کے ایام میں آلودگی کافی حد تک ختم ہوچکی تھی لوگ ماسک پہن رہے تھے جس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے لیکن جیسے ہی کورونا ختم ہوا چہروں سے ماسک اتر گئے پھر سے وہی روٹین شروع ہوگئی اور بیماریوں نے پھیلنا شروع کردیا۔

    ڈاکٹر سیف اللہ کا کہنا تھا کہ بچوں کی ویکسینیشن لازمی کروائیں اور کینسر سے بچنے کیلیے ہر عمر کے افراد کو مخصوص قسم کی نیوموکوکل اور انفلوئنزا ویکسین لازمی لگوانی چاہیے۔

    ماہرین صحت کے مطابق یہ اٹل حقیقت ہے کہ کینسر کے مریضوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ بیماری، سرجری کے بعد کی پیچیدگیوں ، معالج کے مدافعتی نظام پر اثرات )کیموتھراپی ،کورٹیسون ، تابکاری تھراپی ، پیوند کاری اور غذائیت کی کمی وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  • ’کاسمیٹک سرجری کرانے سے باز رہیں ورنہ۔۔۔‘؛ ہوشربا انکشاف

    ’کاسمیٹک سرجری کرانے سے باز رہیں ورنہ۔۔۔‘؛ ہوشربا انکشاف

    شوبز کی دنیا میں خود کو فٹ اور خوبصورت دکھانے کی ضرورت دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جس کے لیے وہ ڈائٹنگ اور ورزش سمیت بہت سارے جتن کرتے ہیں۔

    اسمارٹ اور خوبصورت نظر آنے کے جنون میں اداکار ڈائٹنگ تو کرتے ہی ہیں ساتھ ہی کچھ لوگ کھانا بھی چھوڑ دیتے ہیں اور مختلف ادویات کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔

    دوسری جانب ایک اور طریقہ کاسمیٹک سرجری کا بھی ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ طریقہ انتہائی غلط اور جان لیو اہے۔

    اس حوالے سے ایک چونکا دینے والی خبر امریکا سے آئی جہاں کاسمیٹک سرجری کرانے والے افراد میں موت کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے تاہم سرجری کروانے کا یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔

    امریکی محکمہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009 سے اب تک ڈومینیکن ریپبلک میں کاسمیٹک سرجری کے بعد 93 امریکی ہلاک ہوچکے ہیں۔

    امریکی صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈومینیکن ریپبلک میں 2009 سے اب تک 93 امریکیوں کی کاسمیٹک سرجری کے بعد موت ہو چکی ہے، حالیہ اموات کی وجہ ایک برازیلی بٹ لفٹ نامی سرجری ہے جس میں کولہوں کو شیپ دیا جاتا ہے اور زیادہ تر اموات اسی سرجری کی وجہ سے ہوئی ہے۔

    حال ہی میں اس سرجری کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں دیگر ممالک میں بھی اموات ہوئی ہیں جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

    گزشتہ روز یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں
    ایسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن پر کاسمیٹک سرجری کروانے والے افراد کو غور کرنا چاہئے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورت حال سے بچا جاسکے۔

    مطالعے کے مصنف ڈاکٹر میتیو ہڈسن کا کہنا ہے کہ جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان کے مطابق سرجری کون کر رہا ہے، آپ سرجری کرنے والے شخص کی اہلیت کے بارے میں آگاہ رہیں، اور آیا یہ جگہ سرجری کرنے اور کیا یہ آپریشن کے بعد مناسب دیکھ بھال فراہم کرنے کے قابل ہے یا نہیں ہے انتہائی اہم ہے۔

    برازیلی بٹ لفٹ نامی سرجری میں چربی کا انجکشن لگایا جاتا ہے، رپورٹ میں تقریباً دو درجن اموات کی جو تفصیلات پیش کی گئی تھی ان میں زیادہ تر وجہ پھیپھڑوں یا خون کے دھارے میں چربی یا خون کے جمنا تھا۔

    کاسمیٹک سرجری سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں ڈومینیکن ریپبلک کے لیے عام نہیں ہیں، میکسیکو سے بھی اسی طرح کی رپورٹ سامنے آئی ہیں، بشمول گزشتہ برس جب ایک امریکی مریض سرحدی شہر ماتاموروس میں کاسمیٹک طریقہ کار سے گزرنے کے بعد فنگل میننجائٹس کا شکار ہوا تھا اس کے بعد وہاں اس طرح کے دو کلینک بند کر دیے گئے تھے جن میں ایک درجن اموات کی اطلاع ملی تھی۔

    ڈومینیکن ریپبلک کو پر فضا مقام کے طور جانا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ تعطیلات گزارنے کے لیے وہاں آتے ہیں۔ وہاں کے کچھ ڈاکٹر امریکہ میں کم قیمت کاسمیٹک سرجری کی تشہیر کرتے ہیں، جس میں چھاتی کے امپلانٹس، لائپو سکشن اور دیگر آپریشنز شامل ہیں کم قیمت ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہیں۔

     

  • بھارتی ادویات دنیا بھر میں موت کا ذریعہ بن گئیں، بی بی سی

    بھارتی ادویات دنیا بھر میں موت کا ذریعہ بن گئیں، بی بی سی

    جموں : ادویات سازی کے حوالے سے بھارت کا شمار دنیا کے اہم ممالک میں کیا جاتا ہے، تقریباً تین ہزار دوا ساز کمپنیاں ملک بھر میں ادویات کی 10 ہزار فیکٹریاں چلاتی ہیں جہاں سے امریکا سمیت دیگر ممالک کو ادویات کی ترسیل کی جاتی ہے۔

    دوسری جانب مغربی افریقی ملک گیمبیا میں گزشتہ سال کھانسی کا شربت پینے سے کم از کم 70 بچوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کی ادویہ ساز اداروں کو شدید جھٹکا لگا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے بھارت میں تیار کردہ دوائیوں سے ہونے والی اموات کے بارے میں اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گیمبیا اور ازبکستان میں ہونے والی تازہ اموات نے بین الاقوامی شہ سرخیوں میں جگہ پائی ہے جس سے بھارت کی دوا سازی کی صنعت میں ادویات کے معیار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

    بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر صحت دنیش ٹھاکر اور ایڈووکیٹ پرشانت ریڈی اپنی کتاب” دی ٹروتھ پِل” میں لکھتے ہیں کہ بھارت میں ڈائیتھیلین گلائکول زہر کا پہلا کیس 1972میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب جنوبی ریاست تامل ناڈو میں 15بچے ہلاک ہوئے تھے۔

    اس کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے رام نگر اور متعدد بھارتی ریاستوں میںبڑے پیمانے پر زہریلی ادویات کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

    کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مذکورہ مصنفین کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ڈائیتھیلین گلائکول زہر کی تشخیص کرنا مشکل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کمپنیاں عام طور پرمارکیٹ میں بھیجنے سے پہلے یا تو خام مال یا حتمی فارمولیشن کی جانچ نہیں کرتیں۔

    کھانسی کا شربت

    بھارتی ریگولیٹرز نے کہا ہے کہ گیمبیا میں بچوں کی اموات سے منسلک کھانسی کے چار شربتوں کی تحقیقات جاری ہے جن کی عالمی ادارہ صحت نے نشاندہی کی تھی۔ اس فرم کا مینوفیکچرنگ لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہے جس کی مصنوعات مبینہ طور پر ازبکستان میں ہلاکتوں کا باعث بنیں۔

    ادارے نے کھانسی کے شربت بنانے والوں کے لیے بھی اپنی مصنوعات کو برآمد کرنے سے پہلے نمونوں کی جانچ کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک پون کمار ہے جس کی عمر 15 ماہ تھی جب اس نے کھانسی کا یہی شربت پیا تھا۔

    والدین کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔مرفہ بیوی کہتی ہیں جن کا تین سالہ بیٹا عرفان شربت پینے کے 10دن بعد ہلاک ہوگیا”ہم انصاف چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قاتلوں کو سزا دی جائے”۔

    جموں میں ایک سماجی کارکن سکیش کھجوریا نے کہاکہ مینوفیکچرر اور ڈرگ کنٹرول افسران اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔

    جموں و کشمیر کی ڈرگ کنٹرولر لوتیکا کھجوریا نے بی بی سی کو بتایا کہ کھانسی کے شربت کے جو نمونے رام نگر میں اکٹھے کیے گئے اور چندی گڑھ کی ایک لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے ان میں “34فیصد سے زیادہ ڈائی تھیلین گلائکول تھا۔

    مس کھجوریا کے مطابق نمونوں کے نتائج کی تصدیق کولکتہ کی ایک اور لیب نے بھی کی ہے،ماہر امراض اطفال بھونیت بھارتی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم جس نے اموات کی تحقیقات کی تھی اسی نتیجے پر پہنچی۔

  • وٹامن ڈی !! ماہرین صحت نے خوفناک نتیجے سے خبردار کردیا

    وٹامن ڈی !! ماہرین صحت نے خوفناک نتیجے سے خبردار کردیا

    لندن : وٹامن ڈی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے تھکان دور ہوتی ہے یہ ایک ایسا غذائی جزو ہے جو جسمانی افعال کی صحیح کارکردگی کے لیے ضروری تصور کیا جاتا ہے۔

    جسمانی عضلات مثلاً پٹھوں، ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی جبکہ اہم اعضاء دل، گردے، پھیپھڑے اور جگر کے تحفظ کے لیے وٹامن ڈی جسم کو درکار ضروری وٹامنز میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسا وٹامن ہے جس کی کمی بہت سی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔

    اس حوالے سے برطانیہ میں ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی، وٹامن ڈی کی کمی کچھ افراد کی قبل از وقت موت کا باعث بن سکتی ہے۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ ڈائیبیٹس اینڈ اینڈوکرینولوجی میں شائع تحقیق میں ایسے جینیاتی شواہد پیش کیے گئے جن سے وٹامن ڈی کی کمی اور موت کے درمیان ایک تعلق کا عندیہ ملا۔

    یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

    کیمبرج یوییورسٹی کی تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کیا جینز وٹامن ڈی کی سطح میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے 33 تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔

    یہ درمیانی عمر کے 3 لاکھ 86 ہزار سے زیادہ افراد کا ڈیٹا تھا جن کی مانیٹرنگ مختلف تحقیقی رپورٹس میں اوسطاً ساڑھے 9 سال تک کی گئی اور ان میں آغاز میں خون کی شریانوں سے جڑے امراض کی تاریخ نہیں تھی۔

    ان میں سے 33 ہزار 546 افراد میں امراض قلب اور 18 ہزار 166 میں فالج کا سامنا ہوا جبکہ 27 ہزار 885ہلاک ہوگئے۔ ان کیسز میں وٹامن ڈی کے کردار کے بہتر موازنے کے لیے جینیاتی پراسیس کو اپنایا گیا۔

    محققین نے وٹامن ڈی کی زیادہ سطح اور امراض قلب، فالج یا موت کے درمیان کوئی تعلق دریافت نہیں کیا مگر جو افراد وٹامن ڈی کی کمی کے شکار تھے ان کے جینیاتی تجزیے سے ایسے ٹھوس شواہد ملے جن سے وٹامن ڈی کی زیادہ سطح اور موت کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق ثابت ہوتا ہے۔

    درحقیقت وٹامن ڈی کی 10 نانو میٹر فی لیٹر سطح سے کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ 30 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ تجزیے سے وٹامن ڈی کی کم سطح اور موت کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق کاعندیہ ملتا ہے۔

    انہوں نے تسلیم کیا کہ تحقیق کسی حد تک مھدود تھی یعنی اس کے نتائج درمیانی عمر کے افراد پر مبنی تھے جو سب کے سب یورپی نژاد تھے مگر انہوں نے زور دیا کہ وٹامن ڈی جسم کے لیے انتہائی اہم جز ہے جس کی مناسب سطح کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

  • بڑھا ہوا پیٹ اور موٹاپا آپ کی جان بھی لے سکتا ہے

    بڑھا ہوا پیٹ اور موٹاپا آپ کی جان بھی لے سکتا ہے

    انسان کتنا ہی خوش شکل کیوں نہ ہو لیکن اگر اس پر موٹاپا غالب آجائے تو اس کی شخصیت کو گرہن لگ جاتا ہے اور اس کی شکل نامکمل سی لگتی ہے، موٹاپا بذات خود ایک بیماری ہے جس سے اور بھی بہت سے مرض لاحق ہوسکتے ہیں اور بسا اوقات موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    تندرستی ہزار نعمت ہے، اگر انسان صحت مند او ر توانا ہو تو وہ ہر مشکل سے مشکل کام کو بھی کرنے کا پکا ارادہ کرلیتا ہے اور اسے مکمل بھی کرلیتا ہے لیکن بشرطیکہ وہ صحت مند ہو، آپ کی خوبصورتی کا دشمن موٹاپا آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔

    حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیٹ کی چربی میں اضافہ جلد موت کا سبب بن سکتا ہے، میڈیکل جرنل میں شائع کردہ ایک مطالعے میں کہا گیا ہے کہ پییٹ کی چربی جلد موت کی وجہ بن سکتی ہے اور قبل از وقت موت کے خطرے کا تعین کرنے کے لیے باڈی ماس انڈیکس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    باڈی ماس انڈیکس کیا ہے؟

    باڈی ماس انڈیکس ایک آسان اقدام ہے جو لوگوں کے وزن کا اندازہ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس پر اکثر تنقید کی جاتی ہے کیونکہ باڈی ماس انڈیکس یہ نہیں بتاتا ہے کہ جسم میں چربی کہاں محفوظ ہوتی ہے۔

    موٹاپے کے باعث پیدا ہونے والے خطرناک امراض میں امرض قلب، کینسر، شوگر اور ہائی بلڈ پریشروغیرہ خاص طور پر شامل ہیں  ۔واضع رہے کہ موٹاپے کی حالت میں امراض قلب کی بروقت موت واقع ہونے کا تعلق دل کے فعل میں بے ربط گی ، تاہم آہنگی اور قلب و شرائین کی پیچیدگیوں سے ہے۔

    جس کا بنیادی سبب خون میں بڑھی ہوئی چربی کی مقدار اور کولیسٹرول کا بڑھناہے۔موٹاپے کے باعث اموات کی سب سے بڑی شرح متذکرہ بالا ہی ہے۔موٹاپے کی وجہ سے بلڈپریشر کا بڑھ جا نا عام ہے۔موٹاپے کے باعث ہی عورتوں میں رحم کا کینسر ،سن پا س کے بعد بریسٹ کا کینسر ، مردوں میں پرو سٹیٹ کا کینسراور مردو زن میں مقعد کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    پیٹ کی زائد چربی موت کی وجہ ہے؟

    اِس ضمن میں محققین نے مختلف تجربات اور مطالعے کیے جس کے بعد معلوم ہوا کہ پیٹ کی اضافی چربی واقعی میں جلد موت کا سبب بن سکتی ہے۔

    خواتین میں خاص طور پر ہر10 سینٹی میٹر پیٹ کی چربی میں اضافہ 8 فیصد تک موت کے خطرے میں اضافہ کر دیتا ہے جبکہ مردوں میں ہر 10سینٹی میٹر پیٹ کی چربی میں اضافہ موت کا خطرہ 12 فیصد تک بڑھا دیتا ہے، اس کے برعکس جسم کے دیگر حصوں میں موجود اضافی چربی جلد موت کے خطرے کو کم کرسکتی ہے۔

    پیٹ کی اضافی چربی کیسے کم کی جائے؟

    پتے والی سبزیوں اور تازہ پھلوں کو غذا میں شامل کریں۔
    پروٹین اور کم چربی والی مصنوعات کا انتخاب کریں۔
    چینی کا استعمال کم کریں اور کوشش کریں کہ کیک، کوکیز اور میٹھے مشروبات سے پرہیز کیا جائے۔
    ڈنر میں بھاری غذا کے بجائے ہلکی غذا اور سلاد کا استعمال کریں۔
    زیادہ سے زیادہ ورزش کریں جیسے واک، تیراکی اور جمپنگ وغیرہ۔

  • پولیو کیا ہے، کیسے ہوتا ہے اور اس کے کیا اثرات ہیں ؟

    پولیو کیا ہے، کیسے ہوتا ہے اور اس کے کیا اثرات ہیں ؟

    پولیو وائرس کی وجہ سے ہونے والی ایک موذی بیماری ہے، پولیو زندگی بھر کے لئے معذوری کا باعث بنتی ہے اور جان لیوا بھی ہوسکتی ہے، اس کے لئے کوئی علاج دستیاب نہیں ہے مگر اس سے ویکسین کی مدد سے بچا جاسکتا ہے۔

    پولیو کیا ہے؟
    پولیو مائلائٹس (پولیو) ایک وبائی (تیزی سے پھیلنے والا) مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضاء کے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ بن سکتا ہے یا چند صورتوں میں محض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    پولیو کیسے منتقل ہوتا ہے؟

    پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہوجانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے، وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور متاثرہ فرد کے جسم سے ایسی جگہوں پرخارج ہوتا ہے جہاں سے بہ آسانی کسی دوسرے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

    پولیو کی علامات کیا ہیں؟

    پولیو کی ابتدائی علامات یہ ہیں:
    بخار
    تھکاوٹ
    سردرد
    متلی
    گردن میں اکڑاؤ
    اعضاءمیں درد
    جسمانی اعضاء، زیادہ ترٹانگوں میں اچانک کمزوری / فالج کا حملہ ہونا، جو زیادہ تر غیر متناسب اور مستقل ہوتا ہے۔

    کس کو پولیو کا شکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہے؟

    گو کہ ہر شخص کے لئے یہ خطرہ موجود ہے، لیکن پولیو زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں پولیو سے بچاؤکے قطرے نہ پلائے گئے ہوں۔

    پولیو کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟

    پولیو کے اثرات میں سے اول یہ کہ پولیو سے متاثر ہونے والے ہر200 افراد میں سے ایک مریض ناقابل علاج فالج (عموماً ٹانگوں میں) کا شکار ہوجاتا ہے۔

    دوسرے نمبر پر فالج کا شکار ہونےوالوں میں سے5سے 10 فیصد وائرس کی وجہ سے اپنے سانس کے پٹھوں کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

    اور سوئم یہ کہ پولیو ٹانگوں اور بازوؤں کو مفلوج کرنے کی وجہ بنتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اور یہ بچوں کو زندگی بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے۔ کچھ مریضوں میں جب وائرس سانس لینے کے عمل کو مفلوج کر دے تو پولیو موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

    بچوں کو اورل پولیو ویکسین (او پی وی) کے دو قطرے دیے جاتے ہیں گھر گھر مہم اس لئے چلائی جاتی ہیں کہ ہر بچے تک پہنچا جاسکے تاکہ کوئی بھی بچہ پولیو ویکسین کے دو قطروں سے محروم نہ رہ جائے اور اسے پولیو کے خلاف تحفظ فراہم کر دیا جائے۔