Tag: cause of diseases

  • کولیسٹرول کو قابو میں رکھیے، جانیے آسان طریقے

    کولیسٹرول کو قابو میں رکھیے، جانیے آسان طریقے

    انسانی جسم میں کولیسٹرول کا ہونا اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اگر یہ یہی کولیسٹرول اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے مقررہ سطح سے بلند ہوجائے تو انسان بہت سی مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق کولیسٹرول کی زیادتی جسم میں بہت سی بیماریوں اور موٹاپے کی وجہ بنتی ہے، جس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

    جسم میں کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہارٹ اٹیک کی وجہ بھی بنتا ہے کیونکہ چکنائی خون کی شریانوں کو تنگ کردیتی ہے جس سے دل تک خون کی سپلائی بہتر نہیں ہوتی۔

    اس کے علاوہ کولیسٹرول کی زیادتی موٹاپے کے ساتھ ساتھ فالج کے خطرے کو بھی بڑھا دیتی ہے۔ آج ہم آپ کو چند ایسی ورزش بتاتے ہیں جن کی مدد سے آپ قدرتی طور پر کولیسٹرول کی سطح کو کم کرسکتے ہیں۔

     چہل قدمی 

    چہل قدمی وہ آسان طریقہ ہے جو آپ کو صحت مند رکھتا ہے اور چہل قدمی سے ہی جسم میں اضافی کولیسٹرول کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 30 سے 60 منٹ تک درمیانی رفتار سے چہل قدمی کرنے سے جسم میں برے کولیسٹرول کی سطح کم ہوجاتی ہے جب کہ اچھے یا جسم کو درکار کولیسٹرل کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔

    سائیکلنگ

    سائیکل چلانا بہت سے لوگوں کو پسند ہوتا ہے یہ آسان سی ورزش آپ کو موٹاپے سمیت برے کولیسٹرول کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاتی ہے۔

    اسی حوالے سے ‘جرنل آف امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن’ میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے میں 3 سے 4 بار سائیکل چلانے سے آپ دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے سے بچ سکتے ہیں اور دل کو صحت مند بنا سکتے ہیں۔

    جاگنگ

    جاگنگ ایک آسان ورزش ہے اور جسم سے کیلوریز کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جاگنگ کرنے سے ناصرف آپ چست رہتے ہیں بلکہ یہ دل کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کو بھی بہتر بتانا ہے۔

    یوگا

    اسی طرح یوگا بھی جسم سے کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔اس کے علاوہ یوگا سے قوت مدافعت اور نظام ہاضم بھی درست رہتا ہے۔

  • جسم میں آئرن کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے؟

    جسم میں آئرن کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے؟

    جسم میں آئرن کی کمی مختلف بیماریوں کا بڑا سبب ہے کیونکہ آئرن کے بغیر ہمارے خلیے، ٹشوز اور اعضاء بہتر طریقے سے کام نہیں کر سکتے۔

    آئرن کی کمی کو انیمیا بھی کہا جاتا ہے، جسم میں خون کے سرخ خلیات کی کمی کے باعث پورے جسمانی اعضا تک آکسیجن کی ترسیل متاثر ہوتی ہے جس کے سبب انسان صحت سے متعلق کئی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔

    ہیموگلوبن بنانے کے لیے انسانی جسم کو آئرن کی اشد ضرورت ہوتی ہے، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں 10 میں سے آٹھ افراد کو آئرن کی کمی کا سامنا ہے۔ ،

    جسم میں آئرن کی کمی کی علامات :

    دل کی دھڑکن، دماغی دھند اور ٹوٹے ہوئے ناخن ضروری نہیں کہ وہ علامات ہوں جو آپ آئرن کی کمی سے منسلک ہوں۔

    تھکاوٹ

    جسمانی تھکاوٹ آئرن کی کمی کی سب سے عام علامت ہے، اس کے علاوہ جلد کی زرد رنگت، سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد، سر چکرانا اور سردرد، ہاتھوں اور پیروں میں ٹھنڈ یا سوئیاں سی چبھنے کا احساس ہونا، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، منہ اور زبان کی سوجن، ناخن بُھربُھرے ہوجانا بھی شامل ہے۔

    خاموش علامات

    یاد رکھیں کہ خون کا ٹیسٹ آپ کے آئرن کی کمی کی نشاندہی کرے گا، اس کے علاوہ دیگر علامات بھی ہو سکتی ہیں جو آپ کی آئرن کی کمی کو ظاہر کرسکتی ہیں۔

     ماہرغذائیت کی رائے

    اس حوالے سے برطانوی ماہر غذائیت ایڈم ایناز کا کہنا ہے کہ جسم میں مطلوبہ آئرن کے بغیر ہمارے خلیے، ٹشوز اور اعضاء بہتر طریقے سے کام نہیں کر سکتے کیونکہ جسم اس کے بغیر خون کے سرخ خلیے نہیں بنا سکتا۔

    ان کا کہنا ہے کہ آئرن جسم میں آکسیجن کی نقل و حمل کے لیے بہت ضروری ہے اور مدافعتی نظام کو صحت مند رکھنے کے ساتھ ساتھ دل اور پھیپھڑوں کے امراض کے خطرے کو کم کرتا ہے۔

    آپ کے جسم کو کتنے آئرن کی ضرورت ہوتی ہے؟ آپ اپنے آئرن کی سطح کو کیسے چیک کر سکتے ہیں؟ اور اس کی کمی کے خطرات کیا ہیں؟ ہر شخص کو اس کے بارے میں جاننے کی شدید ضرورت ہے۔

     آپ کو یومیہ کتنے آئرن کی ضرورت ہے؟

    آئرن کی یومیہ ضروریات انسان کی عمر جنس اور دیگر عوامل پر منحصر ہوتی ہے، تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ برطانیہ کے بیشتر شہریوں میں آئرن کی سطح تشویشناک حد تک کم ہے۔

    ایک سروے کے مطابق 25 فیصد خواتین اور 49 فیصد نوجوان لڑکیوں میں آئرن کی مقدار کم ہے، جس سے انہیں خون کی کمی کے زیادہ خطرے کا سامنا ہے۔

    آئرن

    این ایچ ایس کی رپورٹ کے مطابق، 19 سے 50 سال کے مردوں کو روزانہ 8.7 ملی گرام آئرن کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی عمر کی خواتین کو 14.8 ملی گرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

    غذائیت کے ماہر اور ہیلتھ اسپین کے مشیر روب ہوبسن کا کہنا ہے کہ 50 سال کی عمر کے بعد خواتین کے لئے روزانہ کی تجویز کردہ مقدار 8.7 ملی گرام فی دن ہوجاتی ہے جو مردوں کی تجویز کے مطابق ہے۔”

    اس کے علاوہ 11سے 18 سال کے لڑکوں کو 11.3 ملی گرام اور اسی عمر کی لڑکیوں کو 14.8 ملی گرام آئرن کی ضرورت ہوتی ہے۔

    آئرن کی کمی

    روب ہوبسن کے مطابق آئرن کی کمی کا علاج صرف بہترین غذاؤں میں ہے، آئرن جانوروں کے گوشت اور پودوں پر مبنی دونوں طرح کی غذاؤں میں پایا جاتا ہے جن میں آئرن اور وٹامن سی کی بھر پور مقدار پائی جاتی ہے۔

    بھیڑ، مرغی اور گائے کے گوشت کا استعمال کیا جائے، غذا میں سبز پتوں والی سبزیاں جیسے پالک پھلیاں، کدو اور اس کے بیج، کشمش و دیگر خشک میوہ جات، انڈے، مچھلی، دلیہ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔

    میوہ جات

    ہوبسن کا کہنا ہے کہ خشک جڑی بوٹیوں اور مسالوں میں آئرن بہت زیادہ ہوتا ہے، نیز فورٹیفائیڈ غذائیں جیسے ناشتے کے سیریلز اور پودوں کے دودھ بھی آئرن فراہم کرتے ہیں۔

  • نیند میں خلل پیدا ہونا کتنا خطرناک ہے؟

    نیند میں خلل پیدا ہونا کتنا خطرناک ہے؟

    صحت مند زندگی کیلئے بھرپور اور 6 سے 7 گھنٹے کی مسلسل نیند انتہائی اہمیت کی حامل ہے اگر نید میں خلل پیدا ہوجائے تو اس کے مضر اثرات مختلف مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔

    نیند کی خرابی وہ مسئلہ ہے جو آپ کی نیند کے بدلنے کے طریقے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ نیند کی خرابی آپ کی مجموعی صحت، حفاظت اور زندگی کے معیار کو متاثر کر سکتی ہے۔

    طبی جریدے امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو 30 اور 40 کی دہائی میں نیند میں زیادہ خلل کا سامنا ہوتا ہے، ایک دہائی بعد ان کی یادداشت کے عمل کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔

    محققین نے لوگوں کی نیند کے دورانیے اور معیار کا مطالعہ کیا، تحقیق کے مطابق شرکا کی کلائی پر تین دن تک ایک مانٹیر باندھا گیا تھا جو ان کی اوسط نیند کو ریکارڈ کرتا رہا، شرکاء نے اوسطاً چھ گھنٹے کی نیند لی۔

    تحقیق کے مصنف اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پی ایچ ڈی یوی لینگ کا کہنا ہے کہ ہمارے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیانی عمر میں یادداشت اور واضح طور پر سوچنے کے عمل کے لیے نیند کے دورانیے کے بجائے معیار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

    اس تحقیق میں 526 افراد نے حصہ لیا جن کی اوسط عمر 40 سال تھی۔ ان پر تقریباً 11 سال تک تحقیق کی گئی۔

    محققین نے ان کے ’نیند کے دورانیے اور معیار‘ پر تحقیق کی۔ شرکا نے سونے کے لیے بستر پر جانے اور جاگنے کے اوقات کو ایک ڈائری میں درج کیا۔

    شرکا میں سے 239 افراد نے خراب نیند کو رپورٹ کیا۔ اس کے علاوہ شرکا نے یادداشت اور سوچنے کے عمل کے بھی مکمل ٹیسٹ کیے۔

    دس سال بعد نیند کی زیادہ خرابی کی شکایت کرنے والے 175 میں 44 افراد کے سوچنے کا عمل متاثر ہوا۔ اس کے مقابلے میں 176 افراد میں سے 10 افراد کو نیند میں خلل کی کم شکایت تھی۔

    تحقیق کے مصنف یوی لینگ کا کہنا ہے کہ زندگی کے مختلف مراحل میں نیند میں خلل اور یادداشت کے درمیان جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • کون سی غذا قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہے؟

    کون سی غذا قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہے؟

    انسانی جسم میں موجود قوت مدافعت کے نظام کو ایک پیچیدہ نظام سمجھا جاتا ہے جس میں جسم کے بہت سے مختلف حصے ہم آہنگی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اسی لیے اس نظام کی مضبوطی بے حد ضروری ہے۔

    قوت مدافعت کی کمزوری بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہے اس لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کی مضبوطی کیلئے ہمیں پہلے ہی اقدامات کرلینے چاہئیں۔

    آپ کا طرزِ زندگی اور خوراک آپ کے مدافعتی نظام پر بہت اثر انداز ہوتی ہے، یہ آپ کا مدافعتی نظام ہی ہے جو آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اگر بیمار ہوجائیں تو اس سے صحت یاب ہونے میں مدد دیتا ہے۔

    نیند، ورزش اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب خوراک کا استعمال بھی آپ کو امراض کے خلاف لڑنے میں بھرپور مدد دے سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پھلوں، سبزیوں، اناج، لحمیات، خشک میوہ جات اور بیجوں کا مناسب استعمال آپ کے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھتا ہے۔

    اسی طرح کھانے پینے کی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن میں غذائیت بہت کم ہوتی ہے اور ان کا زیادہ استعمال آپ کو موٹاپے، ذیابیطس اور دوسرے دائمی امراض کا شکار کر سکتا ہے۔

    یہ آپ کے مدافعتی نظام پر بھی ضرب لگاتی ہیں اور آپ کو صحت مند رکھنے کی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا ہے تو سب سے پہلے سوڈا یعنی کولڈ ڈرنک کا استعمال بند کردیں۔

    سافٹ ڈرنکس یا carbonated مشروبات میں چینی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ موٹاپے کے علاوہ یہ آپ کو کئی دائمی امراض میں مبتلا کر سکتی ہیں کہ جن کا تعلق کمزور مدافعتی نظام سے ہے۔ چینی کا بہت زیادہ استعمال سوزش (inflammation) میں اضافہ کرتا ہے جس سے امراض سے لڑنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

    سافٹ کے علاوہ ہارڈ ڈرنکس بھی مدافعتی نظام کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ نشہ آور مشروبات کے استعمال سے آپ کے جسم میں بیماریوں کا سامنا کرنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نمونیا اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کی زد پر آ جاتے ہیں، زخم دیر سے بھرتے ہیں اور بیماریوں سے صحت یابی میں تاخیر ہوتی ہے۔

    مشروبات ہی نہیں بلکہ فروزن فوڈز یعنی جمے جمائے کھانے بھی خطرے سے خالی نہیں۔ بچے کو پانچ منٹ میں بنا بنایا کھانا گرم کرکے دینا ویسے تو اچھا اور آسان لگتا ہے لیکن یہ مدافعتی نظام کے لیے مناسب نہیں۔

    ایسے فروزن فوڈز میں سوڈیم، چینی، چکنائی اور خالص نشاستہ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ غذائیت اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی خوراک سے دوری ہی بھلی۔