Tag: causes

  • زرد بخار (یلو فیور) : مچھروں سے پھیلنے والا خطرناک مرض

    زرد بخار (یلو فیور) : مچھروں سے پھیلنے والا خطرناک مرض

    زرد بخار ایک مہلک بیماری ہے جو ایڈیس ایجپٹائی نامی مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ اسے زرد بخار کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ انتہائی درجے کے بخار کے ساتھ مریضوں میں یرقان کا سبب بھی بنتی ہے۔

    زرد بخار کی یہ بیماری عام طور پر افریقی اور کچھ جنوبی امریکی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے، یہ بخار ایک طرح کے وائرس سے پیدا ہوتا ہے جو بندر سے انسان تک مچھر کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔

    عالمی صحت کے ماہرین نے زرد بخار (یلو فیور) کو مچھروں سے پھیلنے والی ایک مہلک بیماری قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ عالمی وبا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

    این پی جے وائرسز نامی جریدے میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ  یہ بیماری ‘ایڈیس ایجپٹی’ اور ‘ہیماگوگس’ قسم کے مچھروں سے پھیلتی ہے جو اندرونی خون رسانی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

    شہروں میں آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ اور بین الاقوامی سفر میں اضافہ اس کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات ہیں۔

    Yellow fever

    زرد بخار کی علامات :

    زرد بخار کی علامات میں ابتدائی طور پر تیز بخار، کپکپی، پٹھوں میں درد اور شدید تھکاوٹ کا احساس کمر، ٹانگوں سر اور آنکھوں میں درد ہوتا ہے ابتدائی طور پر یہ حالت تین دن تک رہتی ہے پھر منہ سرخ ہو جاتا ہے۔

    دیگر علامات میں کھال خشک ہو کر پیلی پڑ جاتی ہے، قے میں خون آنے لگتا ہے پیشاب گرم ہو کر گاڑھا پڑ جاتا ہے، نبض کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے، بخار دو تین دن بعد اترنے لگتا ہے۔ تاہم گردوں اور دل کے افعال میں خرابی سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس بخار کے سالانہ تقریباً 2لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ہر سال 30ہزار اموات واقع ہوتی ہیں۔ اس بخار کی شرح اموات 7.5فیصد سے 50فیصد تک ہوسکتی ہے۔

    ایڈیس ایجپٹائی نامی مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کی ٹانگوں پر سیاہ و سفید دھاری دار نشانات اور سینے پر لیٹر "لائرا” کی شکل کا نشان پایا جاتا ہے یہ مچھر زیادہ تر شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ویکسینیشن ہی اس بیماری سے بچاؤ کا واحد اور مؤثر ذریعہ ہے، ماہرین صحت نے تمام ممالک سے اس وائرس کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانے اور عوامی آگاہی مہم چلانے کی اپیل کی ہے۔

  • بیکنگ سوڈا اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! تیزابیت ہو یا گیس جان چھڑانا آسان

    بیکنگ سوڈا اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! تیزابیت ہو یا گیس جان چھڑانا آسان

    مسالے دار غذاؤں کا استعمال انسانی صحت اور معدے کے لیے نہایت نقصان دہ ہے جس کا نتیجہ پیٹ میں گیس اور تیزابیت کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق غذاؤں میں بکرے اور گائے کا گوشت، مرغن، مسالے دار غذائیں، بیج جیسے کہ السی، اجوائن، خشک میوہ جات بھی تیزابیت اور معدے میں گیس کا سبب بنتے ہیں۔

    گیس اور تیزابیت کی وجہ سے اکثر طبعیت میں بے چینی کی وجہ بنتی ہے اور طبعیت ناساز ہونے کا براہ راست اثر آپ کے مزاج پر پڑتا ہے۔

    بہت زیادہ گیس پیٹ میں درد یا سوزش کی وجہ بن جاتی ہے، اکثریت اس مسئلے سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ادویات کا استعمال کرتی ہے جو انسانی جسم کیلئے مُضر ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو گھریلو نسخوں سے دور کرنا زیادہ مؤثر ہے۔

    علاج سے پہلے آپ کو یہ سوچنا ہوگا گیس کے مسائل کی بڑی وجہ کیا ہے؟ یہ جاننے کیلئے مندرجہ ذیل وجوہات اور اسباب کو سمجھنا ہوگا۔

    گیس پیدا کرنے والی غذائیں جیسے پھلیاں، گوبھی اور کاربونیٹڈ مشروبات کا استعمال کرنا۔ معدے کے حالات جیسے لیکٹوز عدم برداشت یا آنتوں کا سنڈروم (آئی بی ایس)

    اس کے علاوہ تناؤ(اسٹریس) اور اضطراب(انزائٹی) ہاضمے کے عمل کو متاثر کرتے ہیں اور گیس کی وجہ بنتے ہیں۔

    بیکنگ سوڈا اور لیموں کا رس

    طبی ماہرین کے مطابق بیکنگ سوڈا اور لیموں کا رس گیس کے مسائل دور کرنے کیلئے ایک بہترین گھریلو علاج ہے۔

    بیکنگ سوڈا سینے کی جلن اور بدہضمی کو کم کرتا ہے جو گیس کا باعث بنتے ہیں جبکہ لیموں کا رس سوزش اور گیس کو کم کرتا ہے۔

    ایک گلاس پانی میں آدھا چائے کا چمچ بیکنگ سوڈا اور آدھا لیموں کا رس ملائیں، اچھی طرح مکس کرنے کے بعد اس کو پی لیں۔

    واضح رہے کہ اس مشروب کو ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ بیکنگ سوڈا اور لیموں کے رس کا زیادہ استعمال مختلف ضمنی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

    سونف

    کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ کھانے کے بعد کچھ مقدار میں سونف چبانا معدے میں تیزابیت کی روک تھام میں مدد دیتا ہے۔ سونف کی چائے غذائی نالی کو صحت مند رکھتی ہے جبکہ یہ مشروب بدہضمی اور پیٹ پھولنے کے خلاف بھی فائدہ مند ہے۔

    دار چینی

    یہ مصالحہ معدے کی تیزابیت کے خلاف کام کرتا ہے اور معدے کی صحت ہاضمے اور غذا کو جذب کرنے میں مدد دے کر کرتا ہے۔ معدے میں تیزابیت کو دور کرنے کے لیے دار چینی کی چائے مفید ثابت ہوتی ہے۔

     لونگ

    لونگ قدرتی طور پر غذائی نالی میں گیس کو پیدا ہونے سے روکتی ہے، الائچی اور لونگ کو کچل کر کھانا بھی معدے میں تیزابیت کا علاج کرتا ہے اور سانس کی بو سے بھی نجات دلاتا ہے۔

     زیرہ

    زیرہ بھی معدے میں تیزابیت کو معمول پر رکھنے میں مددگار مصالحہ ہے جو کہ ہاضمے میں مدد دینے کے ساتھ پیٹ کے درد کو بھی کم کرتا ہے۔ ایک چائے کا چمچ زیرہ ایک کپ ابلتے ہوئے پانی میں ڈال کر ہر کھانے کے بعد کھانا عادت بنالیں۔

  • سوزش کا سبب بننے والی عام وجوہات

    سوزش کا سبب بننے والی عام وجوہات

    انفلیمیشن یا سوزش جسم کے کسی حصے کو تکلیف میں مبتلا کردیتی ہے اور روزمرہ کے افعال انجام دینے کے قابل نہیں رہنے دیتی۔

    جسمانی سوزش آج کل ایک عام بیماری بن گئی ہے، انفلیمیشن یعنی سوزش جسم کی قوت مدافعت کی جانب سے بیرونی حملے کے خلاف ردعمل ہے۔

    یہ حملے کچھ بھی ہوسکتے ہیں جیسے جراثیم، وائرس، زخم یا چوٹ وغیرہ۔

    ماہر غذائیات انجلی مکرجی نے انسٹاگرام پر سوزش کی اقسام کے بارے میں بتایا ہے جو کہ یہ ہیں۔

    دباؤ

    ذہنی یا جسمانی دباؤ کی وجہ سے سوزش ہو سکتی ہے، کسی بھی قسم کا دباؤ سوزش کی وجہ بن سکتا ہے۔

    آلودگی

    بنیادی طور پر آلودگی ہر جگہ ہوتی ہے، چاہے وہ ہوا ہو جس میں ہم سانس لیتے ہیں یا پانی ہو جسے ہم پیتے ہیں۔ اس آلودگی کے باعث بھی ہمارے جسم میں سوزش پیدا ہو سکتی ہیں۔

    چوٹ کا لگنا

    جسم میں سوزش کے ہونے کی ایک اور بڑی وجہ کسی چوٹ کا لگنا ہے، چوٹ کسی بھی فرد کو کسی بھی وقت لگ سکتی ہے، انسانی جسم میں سوزش ہڈی ٹوٹنے، ایکسیڈنٹ میں زخمی ہونے یا کٹ لگنے کے باعث ہوتی ہے۔

    انفیکشن

    جسم میں سوزش کی ایک وجہ انفیکشن کا بھی ہونا ہے، انفیکشن پیراسائٹس، جرثومے، وبا، بیکٹریل انفیکشن اور فنگل انفییکشن کے ذریعے ہوتی ہے۔

    اس قسم کی کسی بھی انفیکشن کے باعث سوجن ہو سکتی ہےْ

    موذی بیماریاں

    اگر آپ ٹائپ 2 کی ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا آتھرائیٹس کا شکار ہیں تو آپ کا جسم خود بخود سوزش سے نبرد آزما ہے، ماہرین صحت کے مطابق دباؤ، انفیکشن اور موذی امراض آپ کے جسم میں سوزش پیدا کر سکتے ہیں۔

  • نیند نہ آنے کی وجوہات کیا ہیں؟

    نیند نہ آنے کی وجوہات کیا ہیں؟

    اچھی نیند اچھی جسمانی صحت اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے بے حد ضروری ہے، نیند کی کمی بے شمار ذہنی و جسمانی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہر انسان کی نیند کا دورانیہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، عام طور پر ایک شخص کی صحت کے لیے روزانہ 7 سے 8 گھنٹے نیند کرنا کافی ہے۔ طبی ماہرین اس حوالے سے اہم تجاویز دیتے ہیں۔

    اچانک بے خوابی کی وجوہات

    بہت سے افراد میں اچانک، شدید یا قلیل المدتی بے خوابی ہوتی ہے جو کئی دن یا ہفتوں تک رہتی ہے۔ ایسا عام طور پر تناؤ یا تکلیف دہ واقعات کے نتیجے میں ہوتا ہے۔

    کچھ لوگوں کو دائمی یا طویل المیعاد بے خوابی بھی ہوتی ہے جو ایک مہینہ یا اس سے زیادہ وقت تک رہتی ہے، بے خوابی کا تعلق ادویات یا دیگر طبی حالتوں سے بھی ہو سکتا ہے۔

    بے خوابی کی بنیادی وجوہات کا علاج کرنے سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے، لیکن بعض اوقات یہ مسئلہ برسوں تک رہ سکتا ہے۔

    بے خوابی کی عام وجوہات میں متعدد ایسے پہلو شامل ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگیوں کا حصہ ہوتے ہیں، اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ان سے مکمل پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔

    یہ وجوہات مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں۔

    تناؤ

    کام، اسکول، صحت، معاش یا اہلخانہ کے بارے میں فکرمند رہنا دماغ کو رات کے وقت مصروف رکھتا ہے اور یوں نیند آنا مشکل ہو جاتی ہے۔ تکلیف دہ زندگی کے واقعات، جیسے کسی پیارے کی موت یا بییماری، طلاق یا بیروزگاری بھی بے خوابی کا سبب بن سکتے ہیں۔

    سفر یا کام کا شیڈول

    ہمارا خود کار جسمانی سسٹم اندرونی گھڑی کا کام کرتا ہے جو نیند کو بیدار ہونے اور جسمانی درجہ حرارت جیسی چیزوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ خودکار جسمانی سسٹم میں خلل پڑنے سے بے خوابی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

    نیند کی خراب عادات

    نیند کی خراب عادات میں نیند کا غیر منظم شیڈول، سونے سے پہلے کی سرگرمیاں، نیند کے لیے غیر آرام دہ ماحول، اور بستر کو کام کرنے، کھانے اور ٹی وی دیکھنے کے لیے استعمال کرنا شامل ہے۔

    بستر پر جانے سے پہلے کمپیوٹر، ٹیلی ویژن، ویڈیو گیمز، اسمارٹ فونز یا دیگر اسکرینز کا استعمال آپ کی نیند کے دورانیے میں مداخلت کر سکتا ہے۔

    رات گئے بہت زیادہ کھانا کھانا

    رات کے وقت بہت زیادہ مقدار میں کھانا بھی جسمانی طور پر بے چین کرسکتا ہے۔

    بے خوابی کی دیگر وجوہات

    دماغی صحت کی خرابی: جیسے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر نیند میں خلل ڈال سکتا ہے۔ جلدی اٹھنا افسردگی کی علامت ہو سکتی ہے۔

    دوائیں لینا: بہت سی دوائیں نیند میں مداخلت کرسکتی ہیں، جیسے کچھ اینٹی ڈپریشن، دمہ یا بلڈ پریشر کی دوائیں وغیرہ۔

    طبی حالتیں: دائمی درد، کینسر، ذیابیطس، دل کی بیماری، دمہ، گیسٹرو، پارکنسنز اور الزائمر کی بیماری بھی نیند کو متاثر کر سکتی ہیں۔

    نیند سے متعلق عارضے: نیند کی کمی کا مسئلہ بے خوابی کا سبب بنتا ہے۔ ٹانگوں کے سنڈروم کی وجہ سے ٹانگوں میں تکلیف ہوتی ہے اور ان کو ہلاتے رہنے کی غیر متوقع خواہش ہوتی ہے، جو آرام بھری نیند کو روک سکتی ہے۔

    کیفین اور نکوٹین: کافی، چائے، کولا اور دیگر کیفین والے مشروبات کو دوپہر کے بعد پینا آپ کو رات کے وقت سونے سے روک سکتا ہے۔ تمباکو کی مصنوعات میں شامل نکوٹین کا استعمال بھی نیند کو متاثر کر سکتا ہے۔

    بےخوابی اور عمر: نیند کے طریقوں میں تبدیلی آنے کے ساتھ ہی بے خوابی کا مسئلہ عمر کے ساتھ زیادہ عام ہوجاتا ہے۔

  • گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    نئی دہلی: بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں 34 سالہ شخص میں گرین فنگس نامی بیماری کا انکشاف ہوا ہے، یہ شخص گزشتہ 2 ماہ سے کووڈ 19 کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

    یہ گرین فنگس کیا ہے؟ اور اس نایاب انفیکشن کے خطرے سے کون متاثر ہوسکتے ہیں؟ آئیں جانتے ہیں۔

    گرین فنگس یا Aspergillosis دراصل ایک فنگل انفیکشن ہے، جو زیادہ تر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ عام پھپھوندی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس پھپھوندی کے خورد بینی اجسام کے سانس میں داخل ہونے سے متاثر ہوتے ہیں۔

    امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق زیادہ تر لوگ ان سے بیمار نہیں ہوتے لیکن جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو یا وہ پہلے سے پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہوں، ان کے اس انفیکشن سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    جیسا کہ حال ہی میں کووِڈ سے صحت یاب ہونے والے مریض ہیں، یا پھر وہ جنہیں پہلے سے پھیپھڑوں کا کوئی مرض مثلاً دمہ یا تپ دق وغیرہ۔

    اس انفیکشن سے متاثرہ افراد کو سانس میں خرخراہٹ محسوس ہوتی ہے، ان کا سانس جلد پھولتا ہے اور کھانسی اور کبھی کبھار بخار بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناک بند ہونا اور بہنا، سر میں درد اور سونگھنے کی صلاحیت محدود ہو جانا بھی اس کی علامات میں شامل ہے۔

    اگر یہ دائمی صورت اختیار کر جائے تو وزن گھٹ جانے، کھانسی میں خون آنے اور تھکاوٹ محسوس ہونے کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے۔ بہت ہی شدید صورت اختیار کر جائے تو پھیپھڑوں سے انفیکشن جسم کے دوسرے حصوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ گنگس ایک سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہو سکتا یعنی یہ متعدی نہیں ہے۔

    گرین، بلیک، وائٹ اور یلو فنگس جیسے امراض نئے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ محض کرونا وائرس سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن یہ کووِڈ 19 کے ساتھ مل کر خوب قیامت ڈھا رہے ہیں۔

    بھارت میں گزشتہ ماہ بلیک فنگس کے بہت سے مریض سامنے آئے تھے۔ یہ بھی بہت خطرناک مرض ہے جو آنکھوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اس کی علامات میں آنکھوں کا رنگ بدل جانا، نظر دھندلا جانا، سینے میں درد اور سانس میں تکلیف شامل ہیں۔ اگر یہ شدت اختیار کر جائے تو ڈاکٹروں کو ایک یا دونوں آنکھیں یا جبڑے کا کوئی حصہ نکالنا پڑتا ہے تاکہ انفیکشن مزید نہ پھیلے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق ذیابیطس کے شکار اور کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد خاص طور پر اس انفیکشن کی زد پر ہیں، ان کے خیال میں کووِڈ 19 کے علاج کے لیے اسٹیرائیڈز کے استعمال نے بھی اس فنگس کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

  • ہمارے روزمرہ کے استعمال میں موجود وہ اشیا جو جگر کی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں

    ہمارے روزمرہ کے استعمال میں موجود وہ اشیا جو جگر کی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں

    جگر ہمارے جسم کا اہم ترین، دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔ ہم جو بھی شے کھاتے ہیں، چاہے غذا ہو یا دوا، وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔

    جگر غذا کو ہضم ہونے، توانائی کے ذخیرے اور زہریلے مواد کو نکالنے کا کام کرتا ہے، تاہم مختلف عادات یا وقت گزرنے کے ساتھ جگر کو مختلف امراض کا سامنا ہوسکتا ہے اور مختلف وائرسز جیسے ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی سمیت دیگر جان لیوا بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    یہاں یہ بات جاننی ضروری ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں بظاہر عام سی چیزیں جگر کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ چیزیں مندرجہ ذیل ہیں۔

    میٹھے کا استعمال

    بہت زیادہ میٹھا کھانے کا شوق جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے جبکہ ذیابیطس اور دیگر امراض کا خطرہ بھی الگ بڑھتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ جگر کا کام ہی شکر کو چربی میں بدلنا ہے، اگر خوراک میں چینی کی مقدار بہت زیادہ ہوگی تو جگر بہت زیادہ چربی بنانے لگے گا جو کہ جگر کے امراض کا باعث بن جاتا ہے۔

    سپلیمنٹس کا استعمال

    ایک تحقیق کے مطابق ہربل سپلیمنٹس جگر کے افعال کو متاثر کر سکتے ہیں، جس سے ہیپاٹائٹس اور جگر کی خرابی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، ان سپلیمنٹس کا استعمال کرنا ہو تو پہلے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔

    علاوہ ازیں ہمارے جسم کو درکار وٹامن اے تازہ پھلوں اور سبزیوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے، تاہم اگر اس کے لیے سپلیمنٹس کا استعمال کیا جائے تو بھی مشکل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    موٹاپا

    جگر میں اضافی چربی کا ذخیرہ جگر پر چربی چڑھنے کے عارضے کا باعث بنتا ہے، اس کے نتیجے میں جگر سوجن کا شکار ہوتا ہے۔

    وقت کے ساتھ جگر سخت ہونے لگتا ہے اور ٹشوز میں خراشیں پڑسکتی ہیں، زیادہ جسمانی وزن یا موٹاپے کے شکار افراد، درمیانی عمر کے افراد یا ذیابیطس کے مریضوں میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس کی روک تھام کے لیے صحت بخش غذا اور ورزش سے مدد لی جاسکتی ہے۔

    سافٹ ڈرنکس

    ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جو لوگ بہت زیادہ میٹھے مشروبات اور سافٹ ڈرنکس کا استعمال کرتے ہیں، ان میں جگر پر چربی چڑھنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    درد کش ادویات

    درد کش ادویات کی زیادہ مقدار بھی جگر کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

  • مرگی کیا ہے اور دورہ پڑنے پر مریض کی کس طرح مدد کی جائے؟

    مرگی کیا ہے اور دورہ پڑنے پر مریض کی کس طرح مدد کی جائے؟

    مرگی ایک دماغی مرض ہے جس میں دماغ اپنے معمول کی سرگرمی سے اچانک ہٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ایپی لپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر اور نیورولوجسٹ فوزیہ صدیقی شریک ہوئیں جنہوں نے اس مرض کے بارے میں بتایا۔ فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ مرگی ایک قابل علاج مرض ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارا جسم ایک مشین کی طرح ہے اور دماغ اس کا مدر بورڈ ہے جس میں مختلف کنیکشنز موجود ہیں۔

    فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ بالکل کسی بجلی کے سوئچ بورڈ جیسا ہے، جس میں کبھی کوئی ایک کرنٹ ادھر سے ادھر ہوجائے تو مذکورہ کنیکشن جل بجھ ہونے لگتا ہے، اسی طرح دماغ کا کنیکشن بھی ادھر ادھر ہوجائے تو اس سے متصل جسم کا عضو جھٹکے لینے لگتا ہے، اس کے بعد جسم کا خود کار دفاعی نظام اسے شٹ ڈاؤن کردیتا ہے جس کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت میں مرگی کا شکار افراد کی شرح کل آبادی کے 1 یا 2 فیصد ہے جبکہ مغربی ممالک میں 0.5 ہے، پاکستان میں خصوصاً بچے مرگی کا زیادہ شکار ہورہے ہیں۔

    اس کی وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ ماؤں کا دوران حمل خیال نہیں رکھا جاتا، ان کی خوراک کا اور صحت کا بہت زیادہ خیال رکھا جانا چاہیئے۔ دوران حمل معمولی سی بھی طبیعت خراب ہو تو ڈاکٹر سے پوچھے بغیر کوئی دوا نہ لی جائے کیونکہ اس کا اثر شکم میں زیر نشونما بچے کے دماغ پر پڑتا ہے اور دماغ کی بناوٹ میں تبدیلی آتی ہے۔

    علاوہ ازیں پیدائش کے فوری بعد بچے کو آکسیجن نہ ملے تب بھی دماغ مرگی کا شکار ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر فوزیہ نے مرگی سے متعلق بہت سے توہمات کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اسے بھوت، پریت یا آسیب کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے، یہ بالکل ایسا ہی قابل علاج مرض ہے جیسا بخار یا بلڈ پریشر۔

    علاوہ ازیں مرگی کا دورہ پڑے تو مریض کے منہ میں کپڑا نہیں ٹھونسنا چاہیئے، ایسے موقع پر اس کے گلے کے گرد اسکارف یا ٹائی کو ڈھیلا کردیں، اس کے ارد گرد سے نوکیلی اشیا دور ہٹا دیں تاکہ وہ زخمی نہ ہو، اور کروٹ کے بل لٹا دیں تاکہ زبان حلق میں نہ جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ منہ میں کپڑا ٹھونسنے سے سانس رک سکتی ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ مرگی کا دورہ 2 سے 3 منٹ پر مشتمل ہوتا ہے اس وقت کو گزر جانے دیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں، روکنے کی صورت میں یہ دورہ طویل ہوسکتا ہے۔ 2 سے 3 منٹ تک دورہ پڑنے کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے اگر نہ ہو تو اسے فوری طور پر اسپتال کی ایمرجنسی میں لے کر جایا جائے۔

    ڈاکٹر فوزیہ نے مزید کہا کہ مرگی کے مریضوں کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں اور ہاتھ پر بینڈ باندھنا چاہیئے جس پر ان کی بیماری کے بارے میں تحریر ہو اور بتایا گیا ہو کہ دورہ پڑنے کی صورت میں ان کے پاس موجود دوا انہیں کھلا دی جائے۔

  • نکسیر پھوٹنے سے کیسے بچا جائے؟

    نکسیر پھوٹنے سے کیسے بچا جائے؟

    نکسیر پھوٹنا ایک مشکل صورتحال ہوسکتی ہے جس میں یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا اسے قدرتی طور پر رکنے دیا جائے یا طبی مدد طلب کی جائے، آج آپ کو اس کی وجوہات، اقسام اور بچاؤ سے متعلق بتایا جارہا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق نکسیر ایک عام مشاہدہ کی جانے والی بیماری ہے، اس میں بظاہر کسی وجہ کے بغیر ناک سے اچانک خون بہنے لگتا ہے۔

    یہ عموماً 6 سے 10 برس کی عمر کے بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، اسی طرح 50 سے 80 سال کے افراد کو بھی اس کی شکایت رہتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق نکسیر ناک کے اگلے حصے سے پھوٹتی ہے یا پھر خون بہنے کا عمل ناک کے پچھلے حصے سے شروع ہوتا ہے، اس کی مندرجہ ذیل قسمیں ہوتی ہیں۔

    ناک کے اگلے حصے سے نکسیر

    یہ ناک کی درمیانی جھلی جو تنھنوں کو الگ کرتی ہے اس سے پھوٹتی ہے، اس میں بہت ساری خون کی رگیں ہوتی ہیں۔ چہرے پر چوٹ یا ناخن لگنے سے بھی نکسیر پھوٹ سکتی ہے۔

    ناک کے پچھلے حصے سے نکسیر

    یہ ناک کے پچھلے حصے کی گہرائی سے بہتی ہے لیکن بہت کم حالات میں پھوٹتی ہے، اکثر بڑی عمر کے افراد کو بلڈ پریشر میں اضافے یا چہرے پر چوٹ آنے کی صورت میں ناک کے پچھلے حصے سے نکسیر بہتی ہے۔

    یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ نکسیر ناک کے اگلے حصے سے بہہ رہی ہے یا اس کا مخرج ناک کا پچھلا حصہ ہے، اس لیے کہ دونوں صورتوں میں خون فوارے کی صورت میں خارج ہوتا ہے اور اگر مریض پیٹھ کے بل لیٹا ہو تو اس کے حلق میں خون جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ناک کے پچھلے حصے سے آنے والی نکسیر زیادہ خطرناک ہوتی ہے، ایسی صورت میں ہنگامی طور پر مدد لینی چاہیئے۔

    نکسیر پھوٹنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

    ادویات کا غلط استعمال بھی بعض اوقات نکسیر پھوٹنے کا باعث بنتا ہے۔

    ناک کے اندر زخم ہوجانا بھی نکسیر کی ایک وجہ ہے، بعض اوقات انگلی یا ناخن لگنے سے زخم ہو جاتا ہے۔

    موسم میں تبدیلی سے بھی ناک کے اندرونی حصے پر اثر پڑتا ہے، گرمی میں خون کی رگیں پھول جاتی ہیں جو نکسیر کا سبب بنتی ہیں۔

    ناک کی داخلی جھلی میں زخم ہونے سے بھی نکسیر ہو سکتی ہے۔ الرجی سے بھی ناک کے داخلی حصے متاثر ہوتے ہیں جبکہ ناک میں سوزش ہونے سے بھی ناک متاثر ہوتی ہے۔

    نکسیر پھوٹنے کی ایک وجہ دل کے امراض سے متعلق دوائیاں بھی ہوتی ہیں، ان کے مطابق جگر، گردے اور خون کی بیماریوں میں مبتلا افراد عموماً نکسیر کی بیماری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

    بار بار پھوٹنے والی نکسیر سے بچنے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

    فضا میں نمی کا تناسب درست رکھنے کے لیے گھر میں ہیومیڈیفائر کا استعمال کریں۔

    ناک میں خارش کرنے سے پرہیز کریں۔

    اسپرین کا استعمال کم سے کم کریں، اس سے خون پتلا ہوتا ہے اور نکسیر کا ذریعہ بنتا ہے۔

    جن افراد کو نکسیر پھوٹنے کی شکایت ہو وہ سپرے یا جیل استعمال کر کے ناک کے اندرونی حصے کو تر رکھیں۔

  • برطانیہ میں طوفان کا خدشہ، تیز ہواؤں نے مسافربردار طیاروں کو ہوا معلق کردیا

    برطانیہ میں طوفان کا خدشہ، تیز ہواؤں نے مسافربردار طیاروں کو ہوا معلق کردیا

    لندن : برسٹول میں طوفانی ہواؤں نے مسافر برداروں کو ہوا میں ہی معلق کردیا، جس کے باعث کئی پروازوں کے رخ تبدیل کیے گئے جبکہ متاثرہ طیاروں نے ہوا کا دباؤ کم ہونے بعد محفوظ لینڈنگ کی۔

    تفصیلات کے مطابق دیگر ممالک کی مانند برطانیہ میں بھی تند و تیز طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی جس کے باعث مسافر بردار طیاروں کو اڑان بھرنے اور لینڈ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی شہر برسٹول کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر گذشتہ روز طوفانی ہواؤں کے باعث مسافر بردار طیاروں نے لینڈنگ ترک کرکے واپس اڑان بھرلی تھی۔

    برطانوی میڈیا کہنا ہے کہ ملک میں آنے والے ’کیلم‘ نامی سمندری طوفان کے نتیجے میں تیز ہواؤں نے طیاروں کو ہوا میں ہی معلق کردیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جہازوں کے تیز ہوا کے باعث لینڈنگ کا کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح رن وے پر لینڈ کرنے والے جہاز کو تیز ہوائیں فضا میں ہی جھولا دے رہی ہیں اور لینڈنگ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

    برسٹول ایئرپورٹ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ متاثرہ طیاروں کے پائلٹس لینڈنگ منسوخ کرکے ہوا میں رچکر لگاتے رہے اور 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کی شدت میں کمی کے بعد محفوظ لینڈنگ کی۔

    برطانوی شہر برسٹول کے ہوائی اڈے کی انتظامیہ نے طوفانی ہواؤں کے نتیجے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر مسافروں کے لیے وارننگ جاری کی تھی کہ ایئرپورٹ آنے سے قبل معلومات حاصل کرلیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برسٹول ایئرپورٹ انتظامیہ نے طوفانی ہواؤں کے باعث 3 پروازیں منسوخ کی تھی جبکہ 10 پرازوں کا رخ تبدیل کردیا گیا تھا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ کیلم نامی طوفان کے پیش نظر برطانوی حکام نے سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا تھا جس کے بعد ساحلی علاقے میں آباد لوگ بڑی تعداد میں محفوظ مقامات کی جانب نقل مقانی کررہے ہیں۔

    برطانوی حکام کا خیال ہے کہ ’کیلم‘ کے باعث جنوبی ویلز میں سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جس کے پیش نظر 29 سے زائد خاندان نقل مکانی کرگئے ہیں۔

  • سویٹزرلینڈ: بس میں آتشزدگی کے باعث ملکی تاریخ کا بد ترین ٹریفک جام

    سویٹزرلینڈ: بس میں آتشزدگی کے باعث ملکی تاریخ کا بد ترین ٹریفک جام

    برن : یورپی یونین کے رکن ملک سویٹزرلینڈ کی سان برنیڈینو نامی سرنگ میں جرمن سیاحوں کی بس میں آتشزدگی کے باعث ملکی 19 سالہ تاریخ کا بد ترین ٹریفک جام ہوگیا.

    تفصیلات کے مطابق سویٹزرلینڈ کی سان برنیڈینو نامی سرنگ میں جرمنی کے سیاحوں کو لانے والی بس میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کے باعث پیچھے آنے والی گاڑیوں کی قطاریں بن گئی اور ملکی 19 سالہ تاریخ کا بد ترین ٹریفک جام ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کی بس میں اچانک دھواں اٹھنے لگا جس پر ڈرائیور نے فوری طور پر سیاحوں کو بس سے اتار دیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ جرمنی کے سیاحوں کی بس میں آتشزدگی کے واقعے نے سنہ 2001 میں گوٹھارڈ سرنگ میں ہونے والی آتشزدگی کی یادیں تازہ کردیں جس کے نتیجے میں 11 افراد جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متاثرہ بس میں 22 مسافر سوار تھے جنہیں حادثے سے چند لمحے قبل ہی بس سے اتار لیا گیا تھا جبکہ دو افراد کو دھواں بھرجانے کے باعث طبی امداد دی جارہی ہے۔

    سویٹزرلینڈ پولیس کا کہنا تھا کہ سان برنیڈینو نامی سرنگ میں بس میں آتشزدگی کے باعث 28 کلو میٹر لمبا ٹریفک جام ہوگیا تھا جو ملکی 19 سالہ تاریخ کا بدترین ٹریفک جام ہے۔

    واضح رہے کہ سان برنیڈینو سرنگ مشرقی سویٹزر لینڈ کو مغربی سویٹزرلینڈ سے ملانے کا کام کرتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔