Tag: Causes and treatment

  • پیروں کا درد کس خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہے؟

    پیروں کا درد کس خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہے؟

    پیروں یا ایڑھیوں میں درد ہونا ایک عام سی بات ہے یہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ زیادہ دنوں تک یا وقفے وقفے سے بار بار ہونے لگے تو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    پیروں میں درد ہلکے سے بڑھ کر شدید ہوسکتا ہے اور صرف دن کے مخصوص اوقات میں یا جب آپ کچھ سرگرمیاں کرتے ہیں تب ظاہر ہوتا ہے، پاؤں میں درد کی وجوہات ہیں جیسے

    اپنے پاؤں یا ٹخنوں کو حرکت دینے سے درد کا سبب بن سکتا ہے یا اس سے نجات مل سکتی ہے۔ تکلیف دہ زخموں سے شدید درد کے ساتھ، متاثرہ پاؤں کو منتقل کرنا بالکل ناممکن ہو سکتا ہے۔

    پاؤں میں درد کی وجوہات کیا ہیں؟

    پاؤں میں درد کی وجوہات ہیں، جیسے طویل دورانیے تک کھڑا ہونا، موٹاپا، پیروں کی خرابیاں، چوٹ لگنا، ناقص فٹنگ والے جوتوں کا زیادہ استعمال، موچ اور تناؤ کے فریکچر وغیرہ ہیں۔

    آپ کے پیروں کی شریانوں میں کولیسٹرول کا جمع ہونا پی اے ڈی جیسے حالات کا سبب بن سکتا ہے۔ جسمانی سرگرمی کے دوران ٹانگوں میں درد شروع ہو سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہائی کولیسٹرول جسم کے لئے نہایت خطرناک سمجھا جاتا ہے، مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس کی کوئی خاص علامت ظاہر ہو، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کے کئی اعضا میں ہائی کولیسٹرول کی علامت ظاہر ہونے لگتی ہے۔

    ہائی کولیسٹرول جسم کو کئی طرح سے نقصان پہنچا سکتا ہے جس کے باعث ہارٹ اٹیک یا اسٹروک کا خطرہ کافی حد تک بڑھ جاتا ہے۔

    ہائی کولیسٹرول کب ہوتا ہے؟

    طبی ماہرین کے مطابق ہائی کولیسٹرول کی سب سے عام علامات میں سے ایک ہے ٹانگوں میں درد کا ہونا۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہائی کولیسٹرول کی وجہ سے ٹانگوں کے بلڈ ویسلز میں رکاوٹ آنے لگتی ہے۔ چہل قدمی یا جسمانی سرگرمی کے دوران ٹانگوں میں درد جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھنے کی علامت ہے۔

    آپ کے پیروں کی شریانوں میں کولیسٹرول کا جمع ہونا پی اے ڈی جیسے حالات کا سبب بن سکتا ہے۔ جسمانی سرگرمی کے دوران ٹانگوں میں درد شروع ہو سکتا ہے۔

    پی اے ڈی کی ایک عام علامت پٹھوں میں درد ہے۔ درد عام طور پر ان پٹھوں میں ہوتا ہے جہاں شریانیں کولیسٹرول اور چربی سے متاثر ہوتی ہیں۔ پی اے ڈی کی شدید حالتوں میں، پٹھوں کا درد آرام کے باوجود بھی ختم نہیں ہوتا۔

  • ہاتھ پیروں میں جلن کا احساس، تکلیف سے نجات کیسے ممکن

    ہاتھ پیروں میں جلن کا احساس، تکلیف سے نجات کیسے ممکن

    عام طور پر ہاتھ پیروں میں جلن کی شکایت ضعیف العمر کے افراد میں ہوتی ہے، تاہم اب ادھیڑ عمر کے لوگ بھی اس طرح کی تکالیف کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔

    اگرچہ یہ شکایت بے ضرر سی معلوم ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ہاتھ پیروں میں جلن کا تعلق کسی بنیادی طبی حالت سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس کیفیت میں پاؤں مستقل طور پر گرم رہتے ہیں اور یہ گرمائش تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

    ہاتھ پیروں میں جلن کی یہ شدت متعدل سے سنگین ہوسکتی ہے اور عموماً رات کو یہ احساس بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں اور علاج کا انحصار بھی اسی وجہ پر مبنی ہوتا ہے۔

    زیر نظر مضمون میں ہاتھ پیروں میں جلن کے احساس کی وجوہات کا احاطہ کیا گیا ہے، جن پر قابو پاکر اس مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔

    ذیابیطس

    کئی بار پیروں میں جلن کی وجہ جسم میں ہائی بلڈ شوگر ہوتی ہے۔ جب جسم میں بلڈ شوگر کی سطح مسلسل زیادہ رہے تو ہاتھوں اور پیروں کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے جس کے باعث کبھی کبھار یا اکثر جلن کا احساس بھی ہوتا ہے۔

    اگر پیروں میں جلن کے ساتھ ساتھ انگلیوں میں سوئیاں چبھنے یا سنسناہٹ جیسے احساسات ہوں تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے شوگر ٹیسٹ کرانا چاہیے۔

    اعصاب کے مسائل

    ریڑھ کی ہڈی سے ہاتھوں، ٹانگوں اور پیروں کو جوڑنے والے اعصاب کو نقصان پہنچنے پر بھی پیروں میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔

    ذیابیطس کا ذکر تو اوپر ہوچکا ہے مگر اعصاب کو مختلف وجوہات سے نقصان پہنچ سکتا ہے جیسے گردوں کے مسائل، جوڑوں کے امراض، زہریلے کیمیکلز، انفیکشن اور غذائی مسائل سے بھی اعصاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    فنگل انفیکشن

    پیروں میں فنگل انفیکشن کافی عام ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں چبھن اور خارش کا سامنا ہوتا ہے، مگر پیروں میں جلن بھی محسوس ہوتی ہے۔

    وٹامن بی 12 کی کمی

    اعصاب کو صحت مند رہنے کے لیے وٹامن بی 12 کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی کمی کے باعث پیروں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جیسے اکثر جلن کی شکایت ہوتی ہے۔

    عام طور پر وٹامن بی 12 گائے کے گوشت، انڈوں، دودھ اور پنیر وغیرہ میں کافی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔

    ۔ اس کے علاوہ غذائیت کی کمی، ہائپوتھائیرائڈزم، انفیکشن والی بیماری، گردے کی بیماری، آرٹری کی بیماری، کیموتھراپی، پاؤں کے جلنے کی دیگر وجوہات میں شامل ہیں۔

    گھریلو نسخے :

    ہات پیروں کی جلن اور درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے کچھ گھریلو علاج بھی کیے جاسکتے ہیں، جیسے کہ اپنے پیروں کو ٹھنڈے پانی میں بھگو دیں جو پاؤں کے جلنے کے علاج کے لیے سب سے مؤثر گھریلو علاج ہے۔ اس سے وقتی طور پر جلنے والے پاؤں کے سنڈروم کی علامات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    ہلدی

    ہلدی ایک وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا کھانا پکانے کا مسالا ہے جس کے علاج کے حوالے سے بے شمار فوائد ہیں۔ اس میں سوزش اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں جو تکلیف کو دور کرنے اور آپ کے پیروں کو سکون دینے اور ٹھنڈا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

    احتیاط

    صابن، سرف یا کسی بھی کیمیکل کو استعمال یا ہاتھ لگانے سےاجتناب کریں اس سے جِلد متاثر ہوتی ہے اور پیروں میں جلن کی شکایت ہوسکتی ہے۔

  • بیٹھ کر اُٹھتے ہوئے چکر آنا، وجوہات اور علاج

    بیٹھ کر اُٹھتے ہوئے چکر آنا، وجوہات اور علاج

    اکثر لوگوں کے ساتھ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے بیٹھ کر اٹھتے ہوئے جیسے ہی کھڑے ہوں تو چکر آنے لگتے ہیں جس کے تھوڑی دیر بعد ہوش و حواس بحال ہوتے ہیں۔

    یہ بہت عام مسئلہ ہے جس کا سامنا کسی بھی عمر کے فرد کو ہوسکتا ہے تاہم یہ شکایت زیادہ تر 40سال کی عمر کے بعد زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو طبی زبان میں ’آرتھوسٹیٹک ہائپوٹینشن‘ کہا جاتا ہے۔

    جب کوئی انسان کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اٹھتا ہے تو خون قدرتی طور پر ٹانگوں کی جانب جاتا ہے اور بلڈ پریشر کی سطح گھٹ جاتی ہے جبکہ جسم کو خون کو واپس دل کی جانب لانے کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔

    یہ ایک عام مسئلہ ہے مگر اس کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں تاہم احتیاطی تدابیر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

    اس کیفیت کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے؟ اور اس کی علامات اور علاج کیا ہے؟ تو ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ اس سے متاثر ہونے کا امکان بھی بڑھتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ عمر بڑھنے سے دل اور شریانوں کے بلڈ پریشر مستحکم رکھنے والے خلیات کے افعال سست رفتار ہوجاتے ہیں۔

    جسم میں پانی کی کمی :

    بیشتر افراد کو اس مسئلے کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ یعنی جب آپ ڈی ہائیڈریشن کے شکار ہوتے ہیں تو جسم کے لیے بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور بیٹھ کر اٹھنے کے بعد سر چکرانے لگتا ہے۔

    بہت تیزی سے اٹھنا :

    اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ جسمانی پوزیشن کے مطابق بلڈ پریشر بدلتا رہتا ہے تاکہ توازن برقرار رہ سکے۔

    جب جسم کسی مخصوص پوزیشن سے مطابقت پیدا کرلیں اور اچانک اسے بدل دیا جائے تو یہ جسمانی نظام کے لیے ایک دھچکے کا کام کرتا ہے اور کچھ لمحات کے لیے دماغ کو خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔

    مخصوص ادویات :

    بعض اوقات مخصوص ادویات کے استعمال کے باعث بھی اٹھنے پر بلڈ پریشر کی سطح میں تبدیلی آتی ہے جس سے سر چکرانے لگتا ہے۔

    امراض قلب اور دیگر بیماریاں

    چونکہ یہ مسئلہ بلڈ پریشر سے جڑا ہوتا ہے تو امراض قلب کے شکار مریضوں میں یہ بہت عام ہوتا ہے۔

    اس سے ہٹ کر تھائی رائیڈ امراض، ذیابیطس اور خون کی کمی جیسے امراض سے متاثر افراد کو بھی اس کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔

    بچنا کیسے ممکن ہے؟ :

    اس کے لیے آرام سے اٹھیں، جب بیٹھے ہوں تو زیادہ دیر تک ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مت بیٹھیں، ایک جگہ ساکت بیٹھنے سے گریز کریں بلکہ ٹانگوں کو حرکت دیتے رہیں تاکہ خون کا بہاؤ برقرار رہے۔

    اگر اکثر کھڑے ہونے پر سر چکرانے لگتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ وجہ کا تعین کرکے علاج تجویز کرسکے۔

  • شیزوفرینیا کیوں ہوتا ہے؟ وجوہات اور علاج

    شیزوفرینیا کیوں ہوتا ہے؟ وجوہات اور علاج

    شیزوفرینیا ایک دائمی، شدید ذہنی عارضہ ہے جو کسی شخص کے سوچنے، عمل کرنے، جذبات کا اظہار کرنے، حقیقت کو سمجھنے اور دوسروں سے تعلق رکھنے کے طریقے کو متاثر کرتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات کے انچارج ڈاکٹر چنی لعل نے مرض سے متعلق اہم معلومات اور اس سے بچاؤ کی تدابیر سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ شیزوفرینیا نفسیاتی بیماریوں میں سب سے زیادہ بڑی اور خطرناک بیماری ہے، اس بیماری کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ مریض خود کو مریض سمجھتا ہی نہیں۔

    شیزوفرینیا ذہن کو ناکارہ کردینے والی ایک کیفیت کا نام ہے، کسی بھی بیماری کا علاج اس وقت تک ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب ہم اس کو سمجھ سکیں یا سمجھا سکیں۔

    وراثت میں اس بیماری کے پائے جانے سے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت یا نوجوانی میں عموما 18 سے53سال کی عمر کے درمیان شروع ہوتی ہے۔ عورتوں اور مردوں میں اس کا تناسب برابر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس بیماری کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مزاج کی نہیں بلکہ خیالات کی بیماری ہے اور اس کیفیت میں منفی قسم کے شکوک وشبہات زیادہ ہونے لگتے ہیں، لوگوں سے خوف محسوس ہوتا ہے اور وہ دشمن لگتے ہیں مریض کو عجیب سی آوازیں اور مختلف تصاویر نظر آتی ہیں۔

    ڈاکٹر چنی لعل کے مطابق اس بیماری کی وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں جن میں بڑی وجہ موروثی معاملات کے علاوہ دماغ میں جو کیمیکلز پائے جاتے ہیں ان کے ڈسٹرب ہونے اور دماغ کے دونوں حصوں کا ایک دوسرے سے تعلق متاثر ہونے سے بھی شیزوفرینیا لاحق ہوتا ہے۔

    شیزوفرینیا سے بچاؤ سے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اگر مریض کی بروقت تشخیص ہوجائے یا گھر والوں کو اندازہ ہوجائے تو بجائے دیگر راستے اختیار کرنے کے براہ راست نفسیاتی معالج سے رجوع کریں۔

  • شادی کے بعد وزن کیوں بڑھ جاتا ہے؟ وجوہات اور علاج

    شادی کے بعد وزن کیوں بڑھ جاتا ہے؟ وجوہات اور علاج

    ہمارے مشاہدے میں اکثر یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر لوگ چاہے وہ مرد حضرات ہوں یا خواتین ان کا شادی کے بعد جسمانی وزن بڑھنا شروع ہوجاتا ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے اس قسم کی تبدیلیوں کی بہت سی وجوہات بیان کی ہیں، یہ تبدیلیاں جسمانی اور ذہنی دونوں ہوسکتی ہیں، جس کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جارہا ہے۔

    یہ بات صحیح ہے کہ شادی کے بعد مرد اور خواتین دونوں کی روز مرہ کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تاہم شادی کے بعد ہونے والی تبدیلیاں مردوں کے مقابلے خواتین کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

    اسی وجہ سے خواتین کا وزن بہت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے، یہ بات حیران کن نہیں کیونکہ کامیاب شادی اور جسمانی وزن میں ممکنہ اضافے میں تعلق موجود ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اس پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

     

    وزن بڑھنے کی اہم وجوہات

    شادی کے بعد شب و روز کی مصروفیات اچانک بڑھ جاتی ہیں سونے اور اٹھنے کا وقت بھی کم یا زیادہ ہوجاتا ہے، کھانے کی عادات بدل جاتی ہیں، جسمانی ورزش کم ہوجاتی ہے اور بعض اوقات تناؤ جیسی کیفیت بھی ہوجاتی ہے، اس کے ساتھ ہی جسم میں ہارمونل تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔

    اس کے علاوہ جنسی طور پر فعال رہنے سے جسم پر بہت سے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں،
    ماہرین صحت کے مطابق جنسی طور پر متحرک رہنا صحت مند طرز زندگی کو بھی فروغ دیتا ہے۔

    دوسری جانب مارین صحت کا یہ بھی ماننا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق جسمانی طور پر انہیں موٹا بھی بنا سکتا ہے، جس کی وجہ اطمینان، خوشحالی اور بے فکری کا احساس ہے۔

    شادی کے بعد موٹاپا دراصل کسی ایک وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ بہت سے عوامل پر منحصر ہے، جس میں کھانے پینے میں احتیاط اور ورزش نہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

    یہ ڈی ایچ ای اے، ایسٹروجن اور پروجیسٹرون جیسے جنسی ہارمونز میں اتار چڑھاؤ ہے جو وزن میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اگر آپ میں ڈی ایچ ای اے ہارمون کی کمی ہے (جو مردوں اور عورتوں دونوں میں جنسی ہارمون کا ذریعہ ہے) تو آپ کا وزن بڑھ سکتا ہے۔

    ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمونز میں عدم استحکام کی وجہ سے بھی آپ کا وزن بھی بڑھ سکتا ہے۔ اپنے ہارمونز کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کروائیں کیونکہ اس سے آپ کو غیر متوقع وزن میں اضافے کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    نامناسب خوراک

    بہت سے لوگ شادی کے بعد اپنی کھانے کی عادات میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں، خصوصاً خواتین جب اپنے میکے سسرال یا دیگر مقامات پر جاتی ہیں تو اپنے روزمرہ کے کھانے سے زیادہ مرغن غذائیں کھانے لگتی ہیں۔ آئے دن شادی بیاہ، عقیقہ کی تقریبات، رشتہ داروں کے یہاں دعوتیں اور ڈنر پارٹیوں کے کھانوں میں موجود اضافی کیلوریز جسم میں چربی کو بڑھاتی ہیں۔

    روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی

    کچھ معاملات میں شادی کے بعد خواتین کی ترجیحات بدل جاتی ہیں کیونکہ انہیں سسرال والوں کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے، اس کے علاوہ گھر کے کاموں اور دفتری کاموں کی وجہ سے کئی بار صحیح وقت پر کھانا نہیں کھا پاتے، یہ بھی موٹاپے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔

    وزن کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے؟

    کیا آپ شادی کے بعد پیٹ کی چربی کم کرنے کا سوچ رہے ہیں؟ اس کے لیے آپ ورزش کرنے کے ساتھ ساتھ ان تجاویز پر عمل کریں تو آپ آسانی سے وزن کم کر سکتے ہیں۔

    سب سے پہلے تو ورزش پابندی سے کریں، گرین ٹی پیئں کیونکہ گرین ٹی میٹابولزم کو بڑھاتی ہے، یہ جسم میں چربی کو جمع ہونے سے بھی روکنے کے ساتھ یہ جسم میں ہائی کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔

    اس کے علاوہ کھانا آہستہ آہستہ اور چبا کر کھائیں ایسا کرنے سے آپ کا وزن نہیں بڑھے گا۔ ناشتہ اچھا کریں اور ڈنر میں بھوک سے کم کھائیں، یہ کارگر طریقہ آپ کا وزن کم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔

  • ہائپر ٹینشن کیا ہے؟ کیسے بچا جائے؟

    ہائپر ٹینشن کیا ہے؟ کیسے بچا جائے؟

    ہائپر ٹینشن دراصل ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کی طبی اصطلاح ہے، جسے بہت زیادہ پریشانی، دباؤ یا تناؤ سے موسوم کیا جاتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 26 فیصد آبادی جو تقریباً ایک ارب 30 کروڑ سے زائد بنتی ہے،ہائی بلڈ پریشر ( ہائپر ٹینشن ) کا شکار ہے، اور پاکستان میں 3 کروڑ 22 لاکھ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    اس کی وجوہات و علاج کیا ہیں؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کنسلٹنٹ کارڈیو لوجسٹ ڈاکٹر بشیر حنیف نے ناظرین کو اس سے بچاؤ کیلیے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہائی بلڈ پریشر ہی ہے، یہ ایک خاموش قاتل ہے، کیونکہ اس میں مریض کو تکلیف نہیں ہوتی اور جب تکلیف کا احساس ہوتا ہے تو تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

    کچھ حالتیں ایسی بھی پیش آتی ہیں جن میں بلڈ پریشر کی سطح اچانک بلند ہوجاتی ہے، ایسی حالتوں میں سانس لینے میں دشواری، تیز دل کی دھڑکن، گھبراہٹ، سر درد، چکر آنا، متلی، بولنے میں دشواری، بینائی کے مسائل، ناک سے خون بہنا شامل ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ انسان کا نارمل بلڈ پریشر 80سے 120ملی میٹر مرکیوری ہونا چاہئے لیکن ہائپر ٹینشن میں یہ 130تک پہنچ جاتا ہے، جس کی صورت میں انسان ہارٹ اٹیک، اسٹروک اور گردے کے پیچیدہ امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر بشیر حنیف کے مطابق اس لیے اس کے اسباب کا پتہ لگانا ضروری ہے تاکہ قبل از وقت احتیاطی تدابیر سے اسے روکا جاسکے۔

    ہائپر ٹینشن کے مریضوں کو چاہیے کہ روزانہ کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ ورزش کو معمول بنائیں، عام طور لوگ ذہنی تناؤ سے بچنے کے لیے تمباکو نوشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس سے فوری دوری اختیار کریں۔

  • رنگوں کی پہچان کیوں نہیں ہوتی؟ حیران کن وجوہات اورعلاج

    رنگوں کی پہچان کیوں نہیں ہوتی؟ حیران کن وجوہات اورعلاج

    کچھ لوگ رنگوں کے اندھے یعنی کلر بلائنڈ ہوتے ہیں وہ رنگ نہیں دیکھ سکتے بلکہ کچھ خاص قسم کے رنگوں میں تمیز سے بھی عاری ہوتے ہیں۔

    جیسے سرخ و سبز یا پیلے اور نیلے رنگ کے درمیان فرق نہیں کر پاتے جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی جن کے لئے دنیا صرف بلیک اینڈ وائٹ ہے تاہم ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد حمزہ نے رنگوں سے عاری اس کیفیت کا اصل نام اور اس کے علاج کا طریقہ بیان کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ دراصل اس بیماری کا نام کلر بلائنڈنیس نہیں بلکہ کلرڈیفیشنسی ہے مریض میں اس قسم کی علامات موروثی بھی ہوسکتی ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مردوں میں اس کی شرح عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، پیدائشی اور جنیاتی ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی خاص علاج بھی ممکن نہیں، ایسے افراد کو سرخ اور سبز رنگ کی چیزیں پیلی یا زرد نظر آتی ہیں۔

    ڈاکٹر محمد حمزہ نے بتایا کہ ایک عام بچے کے اندر چار سال کی عمر سے رنگوں میں فرق اور ان کی پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    جنیاتی اور موروثی وجوہات کے علاوہ چند ادویات بھی اس مرض کی وجہ بن سکتی ہیں، اس کے علاوہ عمر کے ساتھ آنکھ کے پردے کی کمزوری ”میکولر ڈی جنریشن“ ، ذیابیطس اور وٹامن اے کی کمی کے باعث بھی رنگوں میں امتزاج کم کر دیتا ہے۔۔

    ان کا کہنا تھا کہ نومولود بچے یا بہت چھوٹے بچوں کو زور زور سے ہلانا یا اچھالنا ان کے آنکھ کے پردے پر اثر ڈالتا ہے، حادثہ یا چوٹ بھی اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے، الٹرا وائلٹ شعاعیں بھی اس کی وجہ بن سکتی ہیں۔

  • کیا ہاتھ پیروں میں سُوئیاں چبھتی محسوس ہوتی ہیں؟

    کیا ہاتھ پیروں میں سُوئیاں چبھتی محسوس ہوتی ہیں؟

    ہاتھ اور پیروں کا اکثر سُن ہوجانا ایک ناخوشگوار تجربہ ہوتا ہے جو کسی کو بھی خوفزدہ کرسکتا ہے، ایسا اکثر صبح سوکر اٹھنے یا دیر تک ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے سے ہوتا ہے۔

    یہ کیفیت عام حالات میں اعصابی دباﺅ کی وجہ سے ہوتی ہے جو کہ جسم کو حرکت دینے پر ختم ہوجاتی ہے تاہم اگر ایسا بار بار ہونے لگے تو پھر یہ ضرور خطرے کی گھنٹی ہے، کیا آپ جانتے ہیں یہ کیفیت کسی بیماری جیسے ذیابیطس یا وٹامن کی کمی کے باعث بھی ہوسکتی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کنسلٹنٹ فزیشن ڈاؤ یونیورسٹی ڈاکٹر محمد عبید نے بتایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ذیابیطس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہاتھ یا پیر کے سن ہونے کے بعد یا اس کے دوران اگر مریض کو چکربھی آرہے ہیں تو یہ بڑے خطرے کی علامت ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    ہاتھ اور پاؤں سن ہونے کی وجوہات

    شوگر

    ذیابیطس سے چھوٹی اور باریک خون کی نالیوں کو نقصان پہنچتا ہے جو ہاتھ اور پاؤں سن ہونے کی وجہ بنتی ہے، ایسے میں ہاتھ پاؤں کی صلاحیت کا کم ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ اس طرح آپ گر بھی سکتے ہیں۔

    وٹامن کی کمی

    ہاتھ پاؤں سن ہونے کی شکایت زیادہ تر عمر رسیدہ لوگوں کو ہوتی ہے یا پھر ان افراد کو اس کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے جو کھانے میں سبزی تناول کرتے ہیں کیونکہ ایسے افراد خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے جسم میں وٹامن بی 12 کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ وٹامن بی 12 کی کمی انیمیا اور نروز کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔

    چوٹ لگ جانا

    ہاتھ یا پیر کی انگلیوں میں چوٹ لگنے سے بھی نروز کو نقصان پہنچتا ہے، اس کے علاوہ جو لوگ ہر وقت ایسے اوزار استعمال کرتے ہیں جن میں لرزش ’vibration‘ ہوتی ہے، ان کے نروز کو نقصان پہنچتا ہے ہاتھ پیر سُن ہوجاتے ہیں۔

    ہاتھ اور پیر سن ہونے کی صورت میں یہ اعمال انجام دیں

    تنگ کپڑے اور جوتے پہننے سے گریز کریں، اگر بیٹھے بیٹھے پیر یا ٹانگ سن ہوگئی ہو تواٹھ کر کھڑے ہو جائیں اور ٹانگ کو حرکت دیں تاکہ خون کی روانی صحیح ہو۔

    کمر اور گردن کے درد سے بچنے کے لئے بھاری وزن اٹھانے میں احتیاط کریں اور جسم کو ایک ہی انداز میں حرکت دینے سے گریز کریں۔ جو بھی کام کریں اس دوران وقفہ ضرور لیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی بیماری یا تکلیف کی صورت میں قریبی ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • خارش سے بچاؤ اور اس کا آسان علاج

    خارش سے بچاؤ اور اس کا آسان علاج

    ملک کے مختلف شہروں میں خارش کی شکایات عام ہیں، اس بیماری کی کیا وجوہات و علامات ہیں اور اس کے بچاؤ کیلئے کیا اقدامات ضروری ہیں۔

    ہر سال موسم کی تبدیلی کے باعث جلد کی خشکی عام مسئلہ بن جاتی ہے جو بعض اوقات شدید بھی ہوسکتی ہے، یہ خارش اور الرجی کا سبب بھی بنتی ہے جس کے شکار بچے بہت جلدی ہوجاتے ہیں۔

    اکثر دھول مٹی جلد کی خشکی یا پھر کمبل وغیرہ سے الرجی کے باعث بھی خارش کا مسئلہ ہوتا ہے، خارش کو جِلد کی الرجی کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے، اس کی وجہ سے شدید بے چینی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    یہ بات ہم سب کے مشاہدے میں آتی ہے کہ اگر جِلد پر ایک دفعہ خارش شروع ہو جائے تو کافی دیر بعد جاکر اس میں کمی آنا شروع ہوتی ہے اور انسان کے پاس کھجانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جِلد کھجانے کی وجہ سے وقتی سکون تو مل جاتا ہے لیکن یہ اسی شدت کے ساتھ دوبارہ نمودار ہو جاتی ہے۔

    خارش کی علامات میں سکن کی لالی، گرمی، سوجن، درد، اور خارش شامل ہیں۔ خارش، چھتے، تختیاں، یا چھالے بھی ساتھ ہو سکتے ہیں۔ جلد کی سوزش کی وجہ شدید ہو سکتی ہے، جیسے کہ الرجی یا بیکٹیریل، وائرل، یا فنگل انفیکشن، یا جیسے کہ آٹوامیون شامل ہیں۔

    اس کے تدارک کیلئے کچھ گھریلو ٹوٹکوں سے آپ اس مسئلے سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

    ناریل کا تیل

    ماہرین کے مطابق ناریل کا تیل خارش سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ ناریل میں اینٹی بیکٹریل اور اینٹی الرجک خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔

    خارش کی صورت میں متاثرہ جگہ یا پھر پورے جسم پر ناریل کے تیل کی مالش کریں۔

    پیٹرولیم جیلی

    اگر آپ اپنی جلد کو چکنا رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے معیاری پیٹرولیم جیلی سے بہتر کچھ نہیں ہے، جب خارش ہو یا جلد خشک ہو تو پیٹرولیم جیلی لگائیں اس سے آرام آئے گا۔

    امرت دھارا

    امرت دھارا ایک طرح کی جڑی بوٹی ہے، سردیوں میں اگر کسی بھی چیز سے الرجی ہو جائے اور بے تحاشہ خارش ہو تو فوری ناریل کے تیل میں امرت دھارا ملائیں اور اسے اچھی طرح مکس کر کے خارش والے متاثرہ حصے پر لگائیں۔

    اس سے فوری طور پر خارش دور ہو گی اور الرجی بھی ختم ہو جائے گی۔

    نیم کے پتے

    نیم میں قدرت نے بے شمار فوائد رکھے ہیں، اس کی اہم خصوصیات میں ایک یہ بھی ہے کہ اسے خارش اور الرجی سے نجات کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    نیم کو پتوں کو گرم پانی میں پکا کر اس پانی سے نہا لیں تو جسم سے تمام جراثیم اور خارش ختم ہو جائے گی

  • بالوں کا گرنا اور سفید ہونا، وجوہات و علاج کیا ہے؟ جانیے!!

    بالوں کا گرنا اور سفید ہونا، وجوہات و علاج کیا ہے؟ جانیے!!

    صحت مند بال انسان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتے ہیں، لیکن بالوں کا گرنا اور سفید ہونا آج کل اتنا عام ہے کہ تقریباً ہر تیسرا انسان مرد و عورت بلکہ کم عمر نوجوان بھی اس مسئلے کا شکار ہیں، یہ علامت عام طور پر بالوں کو اپنی غذائیت نہ ملنے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔

    بالوں کی نشونما اور بال گرنے کی عام وجوہات کیا ہیں اور ان کا انتہائی آسان علاج کیا؟ اس کیلئے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں حکیم شاہ نذیر نے ناظرین کو وجوہات بیان کرتے ہوئے اس کے علاج کے بارے میں تفصیلی آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس کی بڑی وجہ نزلہ ہونا ہے کیونکہ نزلے سے بلغم سینے میں گرتا ہے جس کا اثر بالوں پر براہ راست پڑتا ہے اور اس کی دوسری وجہ ہارمونز کا تبدیل ہونا بھی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بیماری سے صحت مند ہونے یا دماغی کام بہت زیادہ ہونا بھی بال گرنے کی وجوہات میں شامل ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ آج کل تقریباً ہر گھر میں کھارا پانی استعمال ہوتا ہے جس سے تمام گھر والوں کے بال گرنا شروع ہوجاتے ہیں، اس سے خشکی بڑھتی ہے اور جڑیں کمزور ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ تعداد میں بال گر جاتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بال گرنے کا کامیاب، صحیح اور مستقل علاج تب ہی ہو سکتا ہے کہ جب اس کے پیچھے جاری سبب یا وجہ کو ڈھونڈ کر سمجھا اور حل کیا جائے۔

    حکیم شاہ نذیر نے بال گرنے یا سفید ہونے کا علاج کرنے کا نسخہ بتایا جس میں مختلف قسم کے تیلوں کے مجموعے کو ملا کر تیل بنانے کا طریقہ بتایا، انہوں نے کہا کہ اس تیل کے استعمال سے بہت جلد شکایت دور ہوجائے گی یہ بہت آسان اور سستا علاج ہے۔