Tag: Causes and treatment

  • کیا شیزو فرینیا دائمی مرض ہے؟ وجوہات اور علاج

    کیا شیزو فرینیا دائمی مرض ہے؟ وجوہات اور علاج

    شیزوفرینیا ایک سنگین ذہنی حالت کا مرض ہے، جس کی علامات میں فریب نظر، نفسیاتی دباؤ اور حقیقت سے لاتعلقی شامل ہیں، اس کیفیت میں انسان ٹھیک سے سوچ نہیں سکتا اور اس کا دماغ اس کے قابو نہیں رہتا۔

    یہ ایک دائمی اور شدید ذہنی عارضہ ہے جو کسی شخص کے سوچنے، عمل کرنے، جذبات کا اظہار کرنے، حقیقت کو سمجھنے اور دوسروں سے تعلق رکھنے کے طریقے کو متاثر کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکبر درس نے اس بیماری سے چھٹکارے کیلئے کچھ کار آمد باتیں بتائیں جن پر عمل کرنے سے شیزو فرینیا کے مریضوں کو کافی حد تک افاقہ ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بیماری کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مزاج کی نہیں بلکہ خیالات کی بیماری ہے اور اس کیفیت میں منفی قسم کے شکوک وشبہات زیادہ ہونے لگتے ہیں، لوگوں سے خوف محسوس ہوتا ہے اور وہ دشمن لگتے ہیں مریض کو عجیب سی آوازیں اور مختلف تصاویر نظر آتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ شیزوفرینیا کے شکار لوگوں کو معاشرے میں اچھی کارکردگی دکھانے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ خود کو خوفزدہ اور پیچھے رہ جانے والا محسوس کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ حقیقت سے رابطہ کھوچکے ہیں۔

    ڈاکٹر جاوید اکبر درس نے کہا کہ اس بیماری کی وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں جن میں بڑی وجہ موروثی معاملات کے علاوہ دماغ میں جو کیمیکلز پائے جاتے ہیں ان کے ڈسٹرب ہونے اور دماغ کے دونوں حصوں کا ایک دوسرے سے تعلق متاثر ہونے سے بھی شیزوفرینیا لاحق ہوتا ہے۔

    اس مرض کے علاج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مرض کی تشخیص فوری طور پر نہیں کی جاسکتی، یہ علامات کم از کم چھ ماہ تک ہوں تو اس شخص کو شیزوفرینیا کا مریض کہا جاسکتا ہے، اس کا علاج ادویات کے ساتھ مریض پر توجہ اور اس کے ساتھ اچھا رویہ بھی رکھنا ضروری ہے۔ مناسب علاج سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

  • ڈپریشن کی وجوہات اور اس کا علاج، ماہرین صحت کی نئی تحقیق

    ڈپریشن کی وجوہات اور اس کا علاج، ماہرین صحت کی نئی تحقیق

    کسی مقصد میں ناکامی، گھریلو لڑائی جھگڑے اور بے روزگاری جیسے مسائل انسان کو ڈپریشن کی طرف لے جاتے ہیں، جس کے باعث وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے بھی دریغ نہیں کرتا۔

    بہت زیادہ ذہنی دباؤ یا جسمانی تھکن میں جب انسان بالکل تنہا ہو تو ایسی صورت میں ڈپریشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، بعض افراد انتہائی حساس ہوتے ہیں اس لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو خود پرحاوی کرلیتے ہیں۔

    اس حوالے سے کی گئی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ڈپریشن یا ذہنی تناؤ صرف ’سیروٹونن‘نامی ہارمون کی کمی یا بے ترتیبی کے باعث نہیں ہوتا اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔

    اب تک زیادہ تر ماہرین کا خیال تھا کہ ’سیروٹونن‘ نامی ہارمونز جنہیں ’ہیپی ہارمونز‘ بھی کہا جاتا ہے، ان کی کمی یا بے ترتیبی کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی تناؤ، ڈیرپشن یا موڈ کی خرابی جیسے عوامل ہوتے ہیں۔

    سیروٹونن‘نامی ہارمون خون میں موجود خصوصی کیمیکل ہے جو کہ انسانی اعصابی اور ہاضمے کو نظام کو بہتر بنانے سمیت انسان کی سوچ، یادداشت اور موڈ پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ’سیروٹونن‘کی کمی یا اس کی بے ترتیبی کو کسی بھی انسان میں موڈ کی خرابی، ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کا سبب سمجھا جاتا رہا ہے اور بظاہر ٹیسٹس سے ڈپریشن کے شکار افراد میں اس کیمیکل کی کمی بھی نوٹ کی جاتی ہے۔

    دنیا بھر کے ڈاکٹرز ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘نامی ہارمون یا کیمیکل کو بڑھانے یا اسے بہتر بنانے کی دوائیاں دیتے رہے ہیں، جن سے متاثرہ افراد خوشی محسوس کرتے رہے ہیں۔

    نشریات کی بندش: اے آر وائی کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    تاہم اب ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن صرف ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی کمی سے نہیں ہوتا۔

    سائنسی جریدے ’نیچر‘ کے مالیکولر سیکارٹری‘ میں شائع ماہرین کی تحقیق کے مطابق ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی مقدار ان افراد میں بھی ویسے ہی پائی گئی جنہیں ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کی کوئی شکایت نہیں تھی۔

    تحقیق کے مطابق ماہرین نے ڈیریشن کی وجوہات جاننے کے لیے ماضی میں کی جانے والی ڈیڑھ درجن تحقیقات کا مطالعہ کیا، جن کے نتائج حیران کن تھے۔

    ماہرین نے ایسی تحقیقات کا جائزہ لیا جن میں ڈپریشن کے شکار افراد اور صحت مند افراد کا ڈیٹا تھا اور ان رپورٹس میں ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون سے متعلق معلومات بھی دستیاب تھی۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ صحت مند افراد میں بھی ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی ویسی ہی مقدار موجود تھی جو کہ ڈپریشن کے شکار افراد میں تھی۔

    ماہرین نے اخذ کیا کہ صرف ’سیروٹونن‘ کی کمی یا بے ترتیبی کو ڈپریشن سے جوڑنا درست نہیں، اس کے دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔

    ماہرین نے اپنی تحقیق میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘کی مقدار بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں؟

    تاہم ماہرین کی تازہ تحقیق کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ ڈپریشن سے متعلق اب تک سمجھی جانے والی تمام باتیں مفروضہ نکلیں اور اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ کیا اب ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘نامی کیمیکل بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں؟

  • پیدائشی بچوں میں "کٹے ہونٹ اور تالو” کا نقص کیوں ہوتا ہے؟

    پیدائشی بچوں میں "کٹے ہونٹ اور تالو” کا نقص کیوں ہوتا ہے؟

    پاکستان میں تقریباً سالانہ گیارہ ہزار سے زائد بچے کٹے ہونٹ یا کٹے تالو کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی کے فقدان کے باعث مریضوں کا بروقت علاج نہیں کروایا جاتا۔

    پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی ان بچوں کی ایک بڑی تعداد غذا ٹھیک طرح اندر نہ جانے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہے اور جو بچ جاتے ہیں ان کی زندگی بھی آسودہ نہیں ہوتی۔

    ایسے بچے پیدائشی نقص کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنتے ہیں، دل آزاری کی باتیں سنتے یہ بچے احساس کمتری کے گہرے زخم لے کر پروان چڑھتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈاکٹر محمد اشرف گناترا نے اس مرض کے حوالے سے آگاہی دی ڈاکٹر اشرف13 سال سے ایسے بچوں کا مفت علاج کر رہے ہیں۔

    ڈاکٹر محمد اشرف گناترا نے بتایا کہ کٹے ہوئے ہونٹ اور تالو پیدائشی بیماریاں ہیں، یہ اس وقت ہوتا ہے جب حمل کے شروع کے دنوں میں بچے کے ہونٹ یا منہ صحیح طریقے سے نہیں بنتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ منہ کے نقائص ہیں، اس صورت میں بچوں کے ہونٹوں میں شگاف یا پھٹے ہوئے ہوسکتے ہیں، یہ شگاف ایک طرف یا دونوں طرف کو متاثر کرسکتا ہے۔

    کٹے ہوئے ہونٹ اور تالو کے نقائص اس وقت ہوتے ہیں جب منہ یا ہونٹوں کے کافی ٹشوز نہیں ہوتے یا ٹشوز ٹھیک طریقے سے آپس میں نہیں جڑتے، اس وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر محمد اشرف گناترا نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ کٹے ہونٹ یا تالو کا تعلق کسی چاند گرہن یا سورج گرہن سے ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں یہ صرف کم علمی اور توہمات ہیں۔

  • سر کیوں چکراتا ہے؟ وجوہات اور علاج کیا ہے؟ جانیے

    سر کیوں چکراتا ہے؟ وجوہات اور علاج کیا ہے؟ جانیے

    ہوائی جہاز بس یا ریل میں سفر کرتے ہوئے یا کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہونے پر یا کسی گھومتی ہوئی چیز کا تصور کرنے سے عموماً سر چکرانے لگتا ہے۔

    بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے زمین نیچے دھنس رہی ہے اور کبھی کبھی مریض محسوس کرتا ہے کہ وہ اگلے لمحے زمین پر گرجائے گا جھولے میں جھولنے سے دل گھٹنے لگتا ہے۔

    ہر عمل کا کوئی نہ کوئی ردعمل ہوتا ہے اور ہمارے جسم میں ہونے والی کوئی بھی تبدیلی یا تکلیف کسی بڑی وجہ کا پیش خیمہ ہوتی ہے جس کے لئے علاج کی ضرورت پیش آتی ہے اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو چھوٹے چھوٹے مسائل آگے جاکر بڑی پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔

    Feeling dizzy when you stand up? Simple muscle techniques can effectively manage symptoms of initial orthostatic hypotension

    یہ ایک عام مسئلہ ہے مگر اس کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں مگر اب ماہرین نے اس کی روک تھام کے لیے دو آسان طریقے بتائے ہیں۔

    طبی جریدے ہارٹ ردہم میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اچانک کھڑے ہونے کے کچھ دیر بعد سر چکرانا یا حواس گم ہونا دنیا بھر میں ہر عمر کی 40 فیصد آبادی کو متاثر کرنے والا مسئلہ ہے۔ مگر اس حوالے سے معلومات نہ ہونے کے برابر دستیاب ہے جیسے اس کے پیچھے وجہ کیا ہے، علامات اور علاج کیا ہے۔

    سر میں درد کیوں ہوتا ہے؟ - Health - Dawn News

    اس وقت ایسے مریضوں کے لیے بہت کم آپشنز دستیاب ہیں اور سب سے عام ہدایت یہی کی جاتی ہے کہ آہستگی سے اٹھنا معمول بنائیں۔

    محققین نے بتایا کہ کچھ افراد کو اکثر اس کا سامنا ہوتا ہے بلکہ دن میں کئی بار ہوسکتا ہے، جو بہت خوفزدہ کردینے والا اور معیار زندگی کو متاثر کرنے والا تجربہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 24 جوان خواتین کو شامل کیا گیا تھا جن میں اچانک کھڑے ہونے پر بے ہوش کی تاریخ موجود تھی اور ہر مہینے کم از کم 4 بار اس کا تجربہ ہوتا تھا۔

    سفر کے دوران جی متلانے یا سر چکرانے کی شکایت کیوں ہوتی ہے؟

    تحقیق میں شامل خواتین کو عام طریقے سے اٹھنے کے ساتھ ساتھ مزید 2 طریقوں کی آزمائش بھی کی گئی جس کی تصویر آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔

    پری ایکٹ طریقہ کار میں کھڑے ہونے سے قبل گھٹنوں کو کئی بار اوپر اٹھایا جاتا ہے جبکہ دوسرے طریقہ کار میں کھڑے ہوتے ہی ٹانگوں کو کراس کرلیا جاتا ہے۔

  • نوجوانوں میں جوڑوں اور پٹھوں کا درد : وجوہات و علاج

    نوجوانوں میں جوڑوں اور پٹھوں کا درد : وجوہات و علاج

    عمر رسیدہ یا بوڑھے افراد میں گھٹنے کی تکلیف سب سے زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ جوں جوں عمر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اس درد کی شدت میں تیزی آنے لگتی ہے۔

    ماہرآرتھوپیڈ ک کے مطابق موجودہ دور میں گھٹنوں کی تکلیف کا مرض نوجوانوں میں بھی عام ہوتا جارہا ہے، اور درد بھی ایسا کہ جس کی وجہ سے زندگی پھولوں کی سیج سے کانٹوں کے بستر میں بدل جائے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر محمد پرویز انجم نے درد کے علاج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہرچند ماہ میں ہسپتالوں آنے والے مریضوں میں سے چار سے پانچ مریضوں کی عمر پچاس سال سے کم ہوتی ہے، یہ افراد گھٹنے کی تبدیلی کرارہے ہوتے ہیں۔

    کم عمری میں گھٹنوں کے جوڑوں کا درد کیوں ہوتا ہے۔ اس کی دو سے تین وجوہات ہیں، سب سے پہلی وجہ موٹاپا ہے، موٹاپا اگر بیماری کی حد تک بڑھ جائے تو اس مرض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    خطرناک حد تک موٹاپے کی وجہ سے ٹانگوں کے مسلز تباہ ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے نئے ٹشوز بھی نہیں بن پاتے اور ایسے افراد بہت جلد ہی اوسٹیو ارتھرائٹس(جوڑوں کی بیماری کی ایک قسم) کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اس بیماری کے آغاز میں ہڈیوں، مسلز، گھٹنے اور جوڑوں میں درد شروع ہوتا ہے، عام طور پر ہمارا لائف اسٹائل سہل اور آرام دہ ہوچکا ہے اور جسمانی ایکسر سائز یا مشقت کم ہوکر رہ گئی ہے اس وجہ سے ہمارے جسم کا سارا پریشر یا دباؤ گھٹنوں پر آجاتا ہے۔

    کسی گھاس والے مقام پر ننگے پاؤں چہل قدمی کرنے سے گھٹنوں کے درد میں بارہ فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ ایک امریکی تحقیق کے مطابق کھلی فضاء میں کچھ دیر تک ننگے پاؤں گھومنا تکلیف میں کمی کا باعث بنتا ہے مگر اپنی ایڑیوں کو اوپر اٹھا کر یا پنجوں کے بل چلنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس سے جوڑوں پر دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔

  • موٹاپا کیوں ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

    موٹاپا کیوں ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

    ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی خواتین اور بچوں میں موٹاپے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، اگر مناسب خوراک کا استعمال نہ کیا گیا تو سال2025 تک ہر دوسری عورت موٹاپے کا شکار ہوجائے گی۔

    طبی ماہرین نے پاکستانیوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کو قابلِ تشویش قرار دیتے ہوئے ملک میں صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔ موٹاپا کیوں ہوتا ہے اور اس سے باآسانی کیسے بچا جاسکتا ہے؟ اور موٹاپاکن موذی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے؟

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈاکٹر جویریہ محمود قریشی نے موٹاپے کے اسباب اور اس کے سدباب سے متعلق اہم ہدایات دیں۔

    انہوں نے کہا کہ موٹاپا ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراضِ قلب، کینسر اور جوڑوں کے درد سمیت کئی سنگین امراض کا سبب بنتی ہے جس کا سبب ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث طرزِ زندگی میں آنے والی تبدیلیاں اور آسانیاں ہیں جس نے نوجوانوں کو موبائل اور انٹرنیٹ تک محدود کرکے جسمانی سرگرمیوں سے دور کیا ہے۔

    جویریہ محمود قریشی نے بتایا کہ مستقل بیٹھے رہنے اور چہل قدمی نہ کرنے کے باعث انسانی جسم کا کولیسٹرول اور شوگر گھل نہیں پاتے جو بعد ازاں موٹاپے کے ساتھ ساتھ کئی دیگر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

    موٹاپے کا شکار خواتین کو درپیش مسائل سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عموماً خواتین شادی اور خصوصاً ماں بننے کے بعد اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ پاتیں اور یہ طرزِ عمل بھی موٹاپے کا باعث بنتا ہے، فربہ خواتین کو ڈپریشن اور خوداعتمادی میں کمی جیسے نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

  • پتے کی پتھری کی وجوہات اور ان کا علاج

    پتے کی پتھری کی وجوہات اور ان کا علاج

     پتے میں پتھری اکثر لوگوں کو ہو جاتی ہے لیکن ہر شخص کو اس کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی جس سے اس کی موجودگی کا شبہ یا اندازہ ہو سکے کیونکہ یہ علامات کے بغیر کافی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔

    پتہ کا کام صفرا کا جمع کرنا ہوتا ہے جو چکنائی وغیرہ کے ہضم ہونے میں مدد کرتا ہے۔ صفرا جگر سے پتے میں جا کر جمع ہوتا ہے۔ صفرا میں 97 فیصد پانی 1 سے 2 فیصد نمکیات اور 1 فیصد پگمنٹ اور باقی چربی ہوتی ہے۔

    طب جدید میں اس حصہ کی کسی بھی بیماری کا شافی علاج موجود نہیں شدید سوزش کے دوران قے بدہضمی اور معدے کی سوزش بخار اور درد کی علامات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سرجری ڈاکٹر نوید کا کہنا تھا کہ پتے کی پتھری ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں سب سے پہلے ہماری غذا ہے کہ اس میں چکنائی کی کتنی مقدار ہے۔ کولیسٹرول کتنا ہے اور غذا کو ہضم کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں۔

    پتھری اور سوزش کے لیے درد دور کرنے والی ادویہ کے علاوہ اور کوئی حل نہیں پتہ کی ہر بیماری کا علاج آپریشن ہے جن لوگوں کا پتہ نکالا جا چکا ہے وہ عمر بھر بدہضمی کا شکار رہتے ہیں وہ چکنائی ہضم نہیں کرسکتے۔

    بعض اوقات خوراک میں کیلشیم وغیرہ والی چیزوں کی زیادتی، گردے کی بیماری اور پانی کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ چیزیں گردے، یوریٹر یا مثانے میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور مجتمع ہو کر چھوٹے چھوٹے پتھر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔