Tag: Charles de Gaulle

  • مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کے حامی سارتر کی کہانی

    مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کے حامی سارتر کی کہانی

    ژاں پال سارتر نے نوبل انعام وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کر کے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔ آج اسی سارتر کا یومِ وفات ہے جس نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول نہیں‌ کیا تھا۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس کے اس عظیم فلسفی، دانش وَر، ڈراما اور ناول نگار اور محقق نے 1980ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ سارتر کو سیاست، سماج اور ادب کی دنیا میں اس کے افکار اور نظریات کی وجہ سے بڑا مقام و درجہ حاصل ہے اور دنیا بھر میں اسے پہچانا جاتا ہے۔

    1905ء سارتر کا سنِ پیدائش ہے اور وہ ایک سال کا تھا جب اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگیا۔ اس کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ بھی تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارا دن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتا اور اپنے ملک کی سیاسی، سماجی حالت پر غور کرتا رہتا تھا۔اسی مطالعے اور غور و فکر کی عادت نے سارتر کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ ژاں پال سارتر نے اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ اسے نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق جنون کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ فنونِ لطیفہ میں سارتر کی دل چسپی اس قدر تھی کہ وہ خود بھی بہت اچھا گلوکار اور پیانو نواز تھا۔ کھیلوں میں سارتر نے باکسنگ میں‌ غیر معمولی دل چسپی لی اور خود بھی اچھا باکسر رہا۔

    جب دنیا سارتر کے افکار و نظریات سے آگاہ ہوئی تو سارتر کو فرانس کا ضمیر کہا۔ اس کے روشن نظریات اور اجلی سوچ نے اسے انسانوں کے درمیان وہ بلند مرتبہ اور مقام عطا کیا جس نے دنیا بھر میں انسانوں کو متاثر کیا۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگیا، لیکن اس معذوری کے باوجود ایک بھرپور زندگی گزاری۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے اپنی فکر کا پرچار بھی کیا۔

    وہ درس وتدریس سے منسلک تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمن فوج نے سارتر کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک سال تک نظر بند رکھا تھا۔ ایک دن موقع ملتے ہی سارتر فرار ہونے میں کام یاب ہوگیا اور بعد میں‌ جب فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا تو اس کے خلاف سارتر مزاحمت میں پیش پیش رہا۔ جنگ کے بعد وہ بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک بن گیا اور ایک جریدہ نکالا، جو بہت مقبول ہوا۔ اس جریدے میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوتی رہیں جو ملک میں نظریاتی بنیادوں پر انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں۔ سارتر کو فلسفۂ وجودیت کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

    ژاں پال سارتر نے جہاں اپنی فکر سے اور سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے عملی طور پر جدوجہد کی تھی، وہیں ادب کے میدان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی بھرپور اظہار کیا۔ اس کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا تھا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کا زبردست حامی تھا، لیکن کسی جماعت اور گروہ سے وابستہ نہیں رہا۔ سارتر نے جنگ کے خلاف تحریکوں میں سرگرم کارکن کی طرح اپنا کردار نبھایا۔ الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف سارتر نے آواز بلند کی اور اس سلسلے میں‌ ہونے والے بڑے مظاہروں میں اسے ہمیشہ صفِ اوّل میں‌ دیکھا گیا۔

    مشہور ہے کہ جب مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کی حمایت پر فرانس میں‌ ژاں پال سارتر کو گرفتار کیا گیا اور اس کی اطلاع ملی تو ملک کے حکم ران ڈیگال نے بے اختیار کہا، سارتر تو فرانس ہے، اسے کون قید میں رکھ سکتا ہے اور اسی وقت جیل کے دروازے کھلوا دیے۔

  • چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    اگست 1944ء میں پیرس کے عوام نازی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ان کی قیادت فرانس کی آزادی کے متوالے راہ نما اور وہ مزاحمت کار کر رہے تھے جنھیں‌ پیرس کی عورتوں اور پادریوں کی حمایت اور ان کا ساتھ بھی حاصل تھا۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی اور اس کی اتحادی افواج نے فرانس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پیرس میں بڑے پیمانے پر قید وبند کے سلسلے کے ساتھ قتل و غارت گری ہوئی، لیکن عظیم قوم پرست راہ نما چارلس ڈیگال کی قیادت میں‌ فرانسیسی عوام نے اپنی خود مختاری اور آزادی کی جنگ لڑی اور کام یاب ہوئے۔

    سٹی ہال کے باہر ڈیگال نے کہا تھا کہ ’پیرس مشتعل ہوا، پیرس ٹوٹا اور پیرس شہید ہو گیا، لیکن پیرس آزاد ہو گیا، خود ہی آزاد ہو گیا اور اس کے لوگوں نے اسے آزاد کیا۔‘

    چارلس ڈیگال نے روپوشی اختیار کی، جلا وطنی کاٹی اور وطن سے دور رہے، لیکن اپنے عوام اور فوج کو متحد و منظّم کرکے اس خواب کو پورا کر دکھایا جس کے لیے انھوں نے کئی قربانیاں‌ دی تھیں اور جب پیرس آزاد ہوا تب فرانسیسیوں کا یہ محبوب لیڈر وطن لوٹا جہاں ٹاؤن ہال کے سامنے اپنا مشہورِ زمانہ خطاب کیا۔ ڈیگال نے مزاحمت کاروں کی قیادت کرنے والے جرنیلوں اور دوسرے جاں‌ نثار فوجیوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا جہاں لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    ڈیگال کو 1958ء میں ملک کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 1969ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے 9 نومبر 1970ء کو وفات پائی۔ چارلس ڈیگال نے فرانس میں 22 نومبر 1890ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلق ایک رومن کیتھولک خاندان سے تھا۔ ڈیگال کے والد تاریخ اور ادب کے پروفیسر تھے۔

    چارلس ڈیگال کا شمار ان قوم پرست قائدین میں ہوتا ہے جنھوں نے بیسویں صدی میں‌ دنیا سے اپنے عزم و استقلال کو منوایا۔ انھیں بہترین فرانسیسی جنرل اور قوم کے مدبّر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد ڈیگال نے بڑی ذہانت اور حکمتِ‌ عملی سے کام لیا اور اپنی فوج اور عوام سے رابطہ برقرار رکھا، ان کے پیغامات فرانس کے عوام تک پہنچتے جن میں‌ وہ عوامی اتحاد کو سڑکوں پر نکلنے اور فرانسیسی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتے رہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران ڈیگال فرانس میں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ سیاسی افراتفری اور جنگ کے زمانے میں جب انتشار اور حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکی افواج نے فرانس پر اپنا تسلط جمانا چاہا اور وہاں‌ جرمن نواز حکومت قائم ہوگئی تو ڈیگال نے جنگ کا اعلان کردیا۔

    ابتدا میں انھیں اور مزاحمت کاروں کو شکست ہوئی لیکن ڈیگال کا اصرار تھا کہ فرانس کو ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کی آزاد اور خود مختاری ناگزیر ہے۔ وہ ایسے زبردست قوم پرست راہ نما تھے جنھوں نے قومی مفاد کے لیے کسی کی پروا نہ کی۔ اس زمانے میں ان کی برطانیہ اور امریکا سے محاذ آرائی بھی ہوئی، لیکن ڈیگال اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔

    چارلس ڈیگال کا ایک اور کارنامہ آزادی کے بعد 1945ء میں فرانس کو اقوامِ متحدہ کی مستقل نشست پر براجمان کروانا تھا۔ جنگ کے بعد وہ فرانس کی عبوری حکومت میں‌ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، مگر سیاسی تنازعات کی وجہ سے 1946ء میں‌ مستعفی ہوگئے۔ تاہم 1947ء میں‌ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور سیاسی سفر کو آگے بڑھایا۔ بعد میں‌ یہ جماعت انتشار کا شکار ہو کر کم زور پڑگئی تھی، لیکن اپنی وفات تک ڈیگال فرانس کے عوام کی حمایت اور ان کی محبوبیت سے محروم نہیں ہوئے۔

    چارلس ڈیگال دیانت داری اور عزم و استقلال کا پیکر تھے جو دنیا بھر میں قوم پرستوں کے لیے مثالی راہ نما بن کر ابھرے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اصول پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرانس کے مشہور فلسفی سارتر نے الجزائر کی جنگِ آزادی کی حمایت کی تو ڈیگال پر اس کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا، لیکن اس راہ نما نے کہا کہ فرانس سارتر ہے اور سارتر فرانس ہے، یہ نہیں‌ ہوسکتا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔

    ڈیگال سمجھتے تھے کہ فرانس کی حکومت اور قوم کو کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں‌ کرنا چاہیے، کیوں‌ کہ وہ خود ایک بڑی طاقت ہیں۔ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس کی تعمیرِ نو میں‌ زبردست کردار ادا کیا۔ ہر سال آنجہانی چارلس ڈیگال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد پیرس میں ان کے مقبرے پر حاضری دیتی ہے۔