Tag: chief justice of Pakistan

  • عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نہیں کہا، چیف جسٹس

    عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نہیں کہا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نہیں کہا ، میڈیا سنسنی پھیلانے سے گریزکرے، بعض اخبارات میں ان کے ریمارکس کوغلط شائع کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اورنج لائن منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے گزشتہ روز دیئے گئے ریمارکس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نہیں کہا۔

    cjp

    انھوں نے کہا کہ گزشتہ روز سماعت میں کہا تھا کہ عوام حکومت کو منتخب کرتے ہیں، عوام اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں، عدالت میں بیٹھ کر غیر ذمہ دارانہ گفتگو نہیں کرسکتے۔

    چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ میڈیاسنسنی پھیلانے سے گریزکرے، بعض اخبارات میں ریمارکس کو غلط شائع کیا گیا، وہ کسی اخبار کا نام نہیں لینا چاہتے، زیادہ تر اخبارات نے درست رپورٹنگ کی ہے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز متنازع اورنج لائن ٹرین منصوبہ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے ریمارکس دیے تھے کہ ملک میں بادشاہت قائم ہے، جمہوریت کے نام پر مذاق ہورہا ہے، عوام جب ان کو ووٹ دیں گے تو ایسا ہی ہوگا، گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس ہے، اورنج لائن کنٹرول لائن نہیں جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔


    مزید پڑھیں : ملک میں‌ جمہوریت نہیں‌ بادشاہت ہے، عوام اٹھ کھڑے ہوں، سپریم کورٹ


    انورظہیرجمالی نے کہا کہ عوام کو اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا، عوام کو چاہئے کہ وہ اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہوئے ووٹ کا حق احتیاط سے استعمال کریں۔

    orange

    واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے اورنج ٹرین منصوبے کے راستے میں آنے والی گیارہ تاریخی عمارتوں کی 200 فٹ کی حدود میں تعمیراتی کام کو روکنے کا حکم دیا تھا،  جس کی وجہ سے اس منصوبے کو شالامار باغ اور چوبرجی کے نزدیک روک دیا گیا تھا۔

  • کراچی بد امنی کیس، چیف جسٹس آف پاکستان نے خود کو بنچ سے علیحدہ کرلیا

    کراچی بد امنی کیس، چیف جسٹس آف پاکستان نے خود کو بنچ سے علیحدہ کرلیا

    کراچی : چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے سوشل میڈیا پر اپنے اور اہل خانہ کے بارے میں پروپیگنڈے کے باعث خود کو کراچی بدامنی کیس کے بینچ سے علیحدہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سمیت چار رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مہم کا معاملہ زیرغور آیا۔

    جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ججز کے خلاف چلنے والی خبروں پر وہ مناسب نہیں سمجھتے کہ وہ اس بنچ کا حصہ بنیں، انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو اس بنچ سے الگ کر رہے ہیں۔

    سماعت میں چیئرمین پی ٹی اے اور اٹارنی جنرل پیش ہوئے، چیرمین پی ٹی اے کاکہنا تھا کہ سوشل میڈیا کا مین سرور امریکا میں ہے، کارروائی ممکن نہیں، واٹس ایپ کے ذریعے مواد پھیلانے والے کو ٹریس کرنا ممکن نہیں، عدلیہ مخالف مواد ٹریس کرنے کی کوشش کررہے ہیں‌۔

    جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ امریکا میں بیٹھ کر کوئی پاکستان کو بدنام کرے اور ہم کچھ نہیں کرسکتے؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ واٹس ایپ پر وڈیو وائرل کی گئی، ہم صرف ای میل ٹریس کرسکتے ہیں۔

    جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا آپ کی واٹس ایپ تک رسائی ہے، ایسا مواد پھیلانے والے کو پکڑا جاسکے؟کیا ایسا صرف پاکستان میں ہے یا امریکا میں بھی ایسا مواد روکا نہیں جاسکتا؟

    ڈائرکٹرایف آئی اے کراچی شاہدحیات کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کا کوئی تدارک نہیں، صرف عدالتی حکم پر سوشل میڈیا انتظامیہ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

    یاد ریے کہ چند روز قبل ہونے والی سماعت میں عدالت کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر عدلیہ کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے جو عدلیہ کی تضحیک کے مترادف ہے۔

    جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے عدلیہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے پیچھے آخر کون ہے؟ باقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے تحت عدلیہ کو بد نام کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے اس حوالہ سے جاننا ضروری ہے کہ اس مہم کے پیچھے کون ہے ؟

    عدالت کا کہنا تھا کہ چیئرمین پیمرا کہاں ہیں اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ عدالت نے چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ 21 جولائی کو عدالت پیش ہوں اور اس حوالے سے وضاحت کریں کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عدلیہ کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے اس کے پیچھے کون ہے؟

  • زیرالتوا مقدمات سرکاری اداروں کی بے حسی کا نتیجہ ہیں، چیف جسٹس

    زیرالتوا مقدمات سرکاری اداروں کی بے حسی کا نتیجہ ہیں، چیف جسٹس

    مظفر آباد : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں زیرالتوا ساٹھ فیصد مقدمات سرکاری اداروں کی بیڈ گورننس اور بے حسی کا نتیجہ ہیں۔

    کرپشن اور نااہلی کی بیماری ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مظفر آباد میں آزاد کشمیر سپریم جوڈیشل کونسل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ ہمیں ملک سے کرپشن اورنااہلی کی بیماری کو ختم کرنا ہوگا، اس کے علاوہ گڈ گورننس کا ماحول پیدا کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ معاشرے میں انصا ف کی فراہمی لازمی جزو ہے، ججز یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دیں کہ وہ حاکم ہیں، ججز عوام کے خادم ہوتے ہیں جو عوام کے ٹیکسز سے تنخواہیں اورمراعات لیتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔

     

  • وزیرِاعظم کا چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو خط

    وزیرِاعظم کا چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو خط

    وزیرِاعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ سے بلٹ پروف گاڑی استعمال نہ کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے جبکہ چیف جسٹس نے بلٹ پروف گاڑی لینے سے پھر معذرت کرلی۔

    نئے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے حلف اٹھانے کے بعد اعلان کیا تھا کہ کوئی دشمن نہیں اور نہ ہی کسی سے خطرہ ہے، بلٹ پروف گاڑی استعمال نہیں کروں گا، چیف جسٹس کے بلٹ پروف گاڑی لینے سے انکار پر حکومت پریشان ہیں تو وزیراعظم نے اس سلسلے میں چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو ایک خط تحریر کردیا۔

    جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ امن وامان کی غیرمعمولی صورتحال کے پیشِ نظر بلٹ پروف گاڑی کا استعمال اور غیرمعمولی سیکیورٹی رکھنا وقت کا تقاضا ہے، خط میں چیف جسٹس سے درخواست کی گئی ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے جو فیصلہ کیا ہے اس پر وہ نظرثانی کریں۔

      چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے یہ درخواست مسترد کردی ہے۔

  • جوڈیشل کمیشن قائم، پہلا اجلاس آج ہوگا

    جوڈیشل کمیشن قائم، پہلا اجلاس آج ہوگا

    اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ناصر الملک نےانتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کردیا ہے، جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج سپریم کورٹ میں ہوگا۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کردیا، کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ناصر الملک خود ہوں گے، دوسرے ارکان جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجازافضل خان ہیں۔

    کمیشن کا پہلا اجلاس آج ایک بجے سپریم کورٹ بلڈنگ میں منعقد کیا جائے گا۔

      آرڈیننس کے تحت کمیشن کو پینتالیس روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ حکومت کو دینی ہے، کمیشن کوتحقیقات کے لئے ضابطہ فوجداری اور ضابطہ دیوانی کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے۔

    توہین عدالت کے حوالے سے رائج ملکی قانون کمیشن کے لئے بھی موثر ہوگا تاہم کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد اس پر تنقید یا تجزیہ پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔

  • سپریم کورٹ:21ویں ترمیم پر جواب کے لئے24فروری تک مہلت

    سپریم کورٹ:21ویں ترمیم پر جواب کے لئے24فروری تک مہلت

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم اور فوجی عدالتوں پر جواب کے لئے چوبیس فروری تک ملہت دے دی ، اکیسویں آئینی ترمیم کے ساتھ اٹھارویں ترمیم سے متعلق درخواستیں بھی نمٹانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی درخواست پر نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔

    اکیسویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی،  سپریم کورٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم کی سماعت کے لئے فل کورٹ کی تشکیل اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت بھی اکیسویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کے ساتھ ہی کیجانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل اور تین صوبوں کو جواب دینے کے لئے مزید دس روز کی مہلت دے دی گئی جبکہ کے پی کے نے اپنا جواب جمع کروا دیا ہے۔

    چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت میں اٹھارہویں ترمیم کے خلاف بھی درخواستیں موجود ہیں، جو چار سال سے زیرِ التوا ہیں، ان میں بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا سوال اٹھایا گیا ہے، عدالت ان درخواستوں کی سماعت بھی موجودہ درخواستوں کیساتھ ہی کرے گی کیونکہ کہ ان دونوں درخواستوں میں یہ سوال مشترک ہے۔

    انھون نے کہا کہ عدالت جائزہ لے گی کہ کیا آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اور کیا عدالت ان ترامیم کا جائزہ لے سکتی ہے اور کیا یہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہیں یا نہیں۔

    ان ریمارکس کے ساتھ عدالت نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بھی فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں، مقدمے کی مزید سماعت چوبیس فروری تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔

    چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اکیسویں اور اٹھارویں ترمیم میں بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہونے کا سوال مشترک ہے۔

  • سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔

    اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کی سماعت ہوئی، عدالت عظمیٰ نے وفاق اور چاروں صوبوں سے پندرہ روز میں تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت بارہ فروری تک ملتوی کردی۔

    جسٹس گلزار نے لاہور بار کے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی بھی اس ترمیم میں شریک تھی، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں ہائی کورٹ بار کے وکیل کی حیثیت سے موجود ہیں، تاہم پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل میں شرکت نہیں کی۔

    واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار و دیگر کی جانب سے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ میں جسٹس گلزار اور جسٹس مشیر عالم شامل ہیں۔

    عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

    عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں لاہور بار کے حامد خان کا کہنا تھا کہ پٹیشن کی آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کا کام شروع کرنا مناسب نہیں ہوگا، لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت چوہان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحفظ میں ناکام رہیں، انکا مزید کہنا تھا کہ آئین میں غیر آئینی ترمیم کی گئی ہے۔

  • سپریم کورٹ کے ججزز نے ملٹری کورٹ کی مخالفت کردی

    سپریم کورٹ کے ججزز نے ملٹری کورٹ کی مخالفت کردی

    اسلام آباد: جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں مقدمات میں تاخیر پر حکومت اپنی ناکامی کا اعتراف کرے عدلیہ کو مورد الزام نہ ٹھہرائے۔

    سپریم کورٹ کے مختلف مقدمات میں جسٹس آصف سعیدکھوسہ، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا بیان تکلیف دہ ہے۔ ملٹری کورٹس کے قائم کی ضرورت نہیں تھی ملٹری کو رٹس میں اعلی عدلیہ سے زیادہ قابل اور اہل جج نہیں ہوں گے۔ عدالت کا کام صرف سزا دینا نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔

    جیل اصلاحات ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جیل کے انتظامی معاملات دیکھنا حکومت کا کام ہے عدلیہ کا نہیں۔ عدلیہ نے یہ نوٹس حکومت کو جگانے کے لیے ہی لیا تھا، وزیراعظم کا بیان پڑھ کر دکھ ہوا، ملک میں سترہ لاکھ مقدمات زیرسماعت ہیں جبکہ ججوں کی تعداد صرف چوبیس سو ہے، حکومت سے مزید ججوں کو تعینات کرنے کو کہا جائے تو فنڈ اور اسٹاف کی کمی کا عذر پیش کیا جاتا ہے۔

     اٹارنی جنرل کی جانب سے اصلاحات کی یقین دہانی پر مقدمے کی کارروائی نمٹا دی گئی جبکہ جھوٹے مقدمات کے اندراج کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر مقدمات کی سماعت میں تاخیر ہوتی ہے یا ایک لاکھ مقدمات میں سے چونسٹھ ہزار بری ہوجاتے ہیں تو یہ استغاثہ کی کمزوری ہے۔ ضرورت انتظامی اصلاحات اور عدالتوں کے مسائل حل کرنے کی ہے۔

    عدالت نے ناقص چالان کی بنیاد پر اب تک بری ہونے والے ملزمان کی تعداد ، پیش کیے گئے نامکمل چالان کی تعداد اور ایسے چالان پیش کرنے والوں کے خلاف ہونے والی کارروائی کی رپورٹ آئندہ سماعت سے قبل عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت چھبیس جنوری تک ملتوی کردی۔

  • پھانسی کے قیدیوں کی اپیل ، سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل

    پھانسی کے قیدیوں کی اپیل ، سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل

    اسلام آباد: سزائے موت کے قیدیوں کی اپیل سننے کے سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے، سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کریں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا یافتہ ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کیلئے تین رکنی فل بنچ تشکیل دیا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بنچ پانچ جنوری سے نوجنوری تک پچاس سے زائد اپیلوں کی سماعت کرے گا۔

    اپیلوں میں انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت سزائے موت ، عمر قید کی سزا پانے والے ملزمان سمیت، حکومت کی دائر کردہ اپیلیں شامل ہیں، ملزمان کی رہائی یا سزا بڑھانے اور صلح کی اپیلیں بھی زیرِ سماعت آئیں گی۔

    چیف جسٹس ناصر الملک نے گذشتہ ہفتے اعلیٰ سطحی اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی جلد از جلد سماعت اور ان کو نمٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔

  • سزائے موت کے فیصلے کی بحالی کیلئے اجلاس بلا رہے ہیں، چیف جسٹس

    سزائے موت کے فیصلے کی بحالی کیلئے اجلاس بلا رہے ہیں، چیف جسٹس

    پشاور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے فیصلے کی بحالی پر جلد اسلام آباد میں ایک اجلاس بلا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے پشاور ہائیکورٹ کا دورہ کیا، چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ بار میں تعزیتی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ سانحہ میں جو بھی شہید ہوئے، ان کا پوری قوم کو غم ہے ملک کی تاریخ کا المناک سانحہ ہے، سزائے موت کے فیصلے کی بحالی پر جلد اسلام آباد میں ایک اجلاس بلارہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ  اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا کہ پھانسی کے کتنے کیسز زیرِ التوا ہیں، تاکہ عمل در آمد ہوسکے، اس موقع پر سانحۂ پشاور میں شہید ہونے والوں کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔