Tag: child health

  • ’کینگرو پیرنٹنگ‘کیا ہے؟ بچے کی پیدائش کے فوری بعد والدین سب سے پہلے کیا کریں؟

    ’کینگرو پیرنٹنگ‘کیا ہے؟ بچے کی پیدائش کے فوری بعد والدین سب سے پہلے کیا کریں؟

    بچے کی پیدائش کے فوری بعد ماں کا دودھ بچے کی صحت مند زندگی کے لیے پہلی اور بھرپور غذا تو ہے ہی، بالکل اسی طرح ماں کی جلد کا لمس بھی بچے کیلئے نہایت ضروری ہے، جسے ’کینگرو پیرنٹنگ‘ کہا جاتا ہے۔

    جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ کینگرو ایک ایسا جانور ہے جس کی مادہ اپنے بچے کی حفاظت اور صحت کیلیے اسے اپنی تھیلی نما گود میں رکھتی ہے جس کے بے شمار طبی فوائد ہیں۔

    اس طریقہ علاج میں ماں نومولود بچے کو اپنے جسم کے ساتھ لگا کر اور اسے کمبل میں لپیٹ کر رکھتی ہے، یہ ایسے بچوں کی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کا آزمایا ہوا آسان ترین طریقہ ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں لائف کوچ ارم بنت صفیہ نے بچے کی صحت اور زندگی میں ماں کی جلد کے لمس ’کینگرو پیرنٹنگ‘ کی اہمیت بیان کی اور اس کے فوائد سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے کینگرو مدر کئیر کے حوالے سے بتایا کہ نومولود بچے کی پیدائش کے فوری بعد اسے خاص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے بچے کو کینگرو مدر کئیر دی جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ’کینگرو پیرنٹنگ‘ کا آغاز 1970میں کولمبیا سے ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں بچوں کی شرح پیدائش بہت کم تھی کیونکہ پیدائش کے فوری بعد زیادہ تر بچے زندہ نہیں رہتے تھے۔

    کینگرو پیرنٹنگ

    انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ایک معروف نجی اسپتال نے حال ہی میں کینگرو پیرنٹنگ‘ کے طریقہ علاج پر عمل کرنا شروع کیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی اس حوالے سے آگاہی پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں۔

    ارم بنت صفیہ نے بتایا کہ نومولود بچے کیلیے ماں کی جلد کا لمس اس لیے بھی ضروری ہے کہ پیدائش کے فوری بعد مناسب درجہ حرارت پورا نہ ہونے کی صورت میں بچے کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

    نومولود بچے کو پیدائش کے فوری بعد ماں کے پیٹ پر لٹائیں اور بچے کا منہ چھاتی کے ساتھ لگا کر اوپر کپڑا ڈال دیں، بچے کو اس وقت تک لگائے رکھیں جب تک خاص درجہ حرارت مل نہ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کورس ابتدائی طور تین ماہ کیلیے کرایا جاتا ہے۔

  • کیا پولیو کا کوئی علاج ہے؟

    کیا پولیو کا کوئی علاج ہے؟

    کراچی : گو کہ ہر شخص کے لئے یہ خطرہ موجود ہے لیکن پولیو زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں پولیو سے بچاؤکے قطرے نہ پلائے گئے ہوں۔

    پولیو کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟

    نمبر ایک : پولیو سے متاثر ہونے والے ہر 200 افراد میں سے ایک ناقابل علاج فالج (عموماً ٹانگوں میں) کا شکار ہوجاتا ہے۔

    نمبر دو :  فالج کا شکار ہونے والوں میں سے 5 فی صد سے 10 فی صد وائرس کی وجہ سے اپنے سانس کے پٹھوں کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔

    نمبر تین :  پولیو ٹانگوں اور بازوؤں کو مفلوج کرنے کی وجہ بنتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اور یہ بچوں کو زندگی بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے، کچھ مریضوں میں جب وائرس سانس لینے کے عمل کو مفلوج کر دے تو پولیو موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

    کیا پولیو کا کوئی علاج ہے؟

    نہیں، پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے، پولیو کو صرف حفاظتی قطروں کے ساتھ ہی روکا جا سکتا ہے، اس کے لئے محفوظ اور مؤثر ویکسین موجود ہے، منہ کے ذریعے پلائے جانے والے پولیو کے قطرے او پی وی یعنی اورل پولیو ویکیسن بچوں کو پولیو کے خلاف تحفظ دینے کے لئے ضروری ہے، کئی مرتبہ پلانے سے یہ بچے کو عمر بھر کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    کیا پولیو ویکسین محفوظ اور حلال ہے؟

    پولیو ویکسین محفوظ ہے اور دنیا بھر کی اسلامی شخصیات الاظہر یونیورسٹی کے عظیم شیخ تنتاوی، سعودی عربیہ کے مستند مفتی اوراسلامی مشاورتی گروپ، قومی اسلامی مشاورتی گروپ اور دیگر معروف اسلامی اداروں سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد علماء کرام نے اس کے حلال ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔

    خوراک پینے کے باوجود کچھ بچے پولیو کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟

    پولیو وائرس کے خلاف بچے میں قوت مدافعت پیدا کرنے کی صلاحیت کا انحصار بشمول دوسرے امور اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اس کے ارد گرد کا ماحول کیسا ہے۔ اچھے حالات یعنی صفائی ستھرائی اور صحت کے بہترین نظام کی موجودگی میں ایک بچے کو پولیو سے محفوظ رکھنے کے لئے پولیو ویکسینکی کم از کم تین خوراکیں درکار ہوتی ہیں۔

    گرم اور مرطوب آب و ہوا والے ممالک یا ایسے ترقی پذیر ممالک جہاں بچوں میں غذائی کمی اور دستوں کی بیماری عام ہو، صفائی ستھرائی کا نظام اچھا نہ ہو اور حفظان صحت کی سہولیات بڑی سطح پر میسر نہ ہوں، وہاں بچوں میں پولیو کے خلاف مضبوط قوت مدافعت کے حصول کے لئےOPVکی بہت سی خوراکوں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

    بہت سے بچے جو ویکسین کی کئی خوراکیں لینے کے بعد بھی پولیو کا شکار ہو جاتے ہیں،یہ وہ بچے ہوتے ہیں جنہوں نے حفاظتی ٹیکوں کے شیڈول کے تحت پلائی جانے والی خوراکیں نہیں لی ہوتیں یا پھر کبھی ویکسین کی خوراک لی ہی نہیں ہوتی یا پھر ناکافی خوراکیں لی ہوتی ہیں۔

    واضح رہے کہ دو سال قبل تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں پولیو وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا تھا تاہم 24 ماہ کے قلیل عرصے میں مربوط حکمت عملی اپناتے ہوئے اور ایک نئے عزم کے ساتھ نہ صرف پولیو وائرس کی بے قابو لہروں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے بلکہ پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام اور اس کے تدارک کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی سد باب کیا جا رہا ہے۔

  • ٹیم بنا کر کھیلنے والے بچے ذہنی مسائل کا کم شکار ہوتے ہیں، امریکی تحقیق

    ٹیم بنا کر کھیلنے والے بچے ذہنی مسائل کا کم شکار ہوتے ہیں، امریکی تحقیق

    واشنگٹن : امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیاہے کہ نوجوانوں میں37 فیصد ڈپریشن کا مسئلہ بڑھ گیا ہے،ان میں سے زیادہ تر بچوں کو ضروری مدد نہیں ملتی جو انہیں ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

    حالیہ ہونے والی تحقیق کے مطابق مل جل کر ایک ٹیم کے صورت میں کھیلے جانے والے کھیلوں کا تعلق دماغ کے لمبے عرصے تک یاداشت محفوظ رکھنے اور جذباتی رد عمل دینے والے حصے ہپو کیمپال سے ہے۔

    بالغوں میں ڈپریشن کی وجہ سے ذہن کا یہ حصہ سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ تحقیق میں ٹیم اسپورٹس میں شامل 9-11 سال کی درمیانی عمر کے لڑکوں میں ڈپریشن کی شرح کم دیکھی گئی۔

    امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیڈیا ٹرکس کی ڈاکٹر سنتھیا روبیلا نے کہاکہ مل جل کر کھیلے جانے والے کھیل کی وجہ سے ایروبک معمول کا حصہ بن جاتا ہے جس سے نہ صرف حافظے، یاداشت بلکہ مزاج میں بھی بہتری آتی ہے۔

    ڈاکٹر کے مطابق ٹیم اسپورٹس سے بچے بہتر طریقے سے سماجی رویے سیکھ سکتے ہیں اور اسی دوران انہیں ڈپریشن سے بچنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ تحقیق میں 9-11 سال کی درمیانی عمر کے 4,191 بچے شامل تھے۔

    والدین سے ان کے بچوں کے حوالے سے ایک سوالنامہ بھروایا گیا جس میں ان کے بچوں کی مختلف قسم کی سرگرمیوں میں ان کی شمولیت اور ڈپریشن کی علامات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

    تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج میں ٹیم اسپورٹس میں حصہ نہ لینے والے بچوں میں ڈپریشن زیادہ پایا گیا۔رپورٹ کے مطابق نتائج کو سائنسی روشنی میں دیکھا جائے تو ٹیم اسپورٹس میں شامل بچوں کے دماغ کا وہ حصہ بڑھتا رہتا ہے جو ڈپریشن کو قابو میں کرتا ہے تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سنتھیا لابیلا نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ ڈپریشن میں مبتلا بچوں میں ٹیم اسپورٹس میں شامل ہونے کے مثبت نتائج آ رہے ہیں،انھیں امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ والدین اپنے بچوں کو ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں گے۔

    انہوںنے کہاکہ کھیلوں میں زخمی ہو جانے والے بچوں کی کہانیاں شہ سرخیوں کا حصہ بنتی ہیں لیکن والدین کے لیے یہ جاننا زیادہ ضروری ہے کہ چوٹ لگنا کھیل کا حصہ ہے لیکن ان کھیلوں سے ان کے بچوں پر مثبت ذہنی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

  • ماں کا دودھ بچوں کے لئے کیوں ضروری ہے؟

    ماں کا دودھ بچوں کے لئے کیوں ضروری ہے؟

    بچے تو پھولوں کی طرح ناز ہوتے ہیں جن کی مناسب نگہداشت بے حد ضروری ہے۔ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشونما کے لیے ماں کا دودھ انتہائی اہم ہے۔ وہ بچے جنہیں مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان کی ذہانت اور آئی کیو دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بچے جنہیں مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان کی ذہانت اور آئی کیو دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    نیا دور اور جدید ٹیکنالوجی سے ایک جانب تو معیار زندگی میں ایسی واضح تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں کہ انسانی زندگی بدل کررہ گئی ہے لیکن دوسری جانب بچوں کی پرورش کے معاملے میں بزرگوں کی جانب سے کی جانے والی احتیاطی تدابیر کی جدید سائنس اب خود تصدیق کرنے لگی ہے۔

    آج کی مائیں اس بات کو خاطر میں لائیں یا نہ لائیں لیکن جدید تحقیق نے ثابت کردیا کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے دوسروں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔

    برازیل کی فیڈرل یونیورسٹی آف پیلوٹاز کی ریسرچ ٹیم نے 6ہزارنومولود بچوں کا 30سال کی عمر تک پہنچنے تک کا ڈیٹا جمع کیا اور 30سال کی عمر کو پہنچنے پر انہیں ایک آئی کیو ٹیسٹ دیا۔

    ٹیسٹ کے نتائج نے ثابت کیا کہ وہ بچے جو ماں کا دودھ پی کر بڑے ہوئے دوسرے بچوں کے مقابلے میں ان کا آئی کیو لیول زیادہ رہا، یہی نہیں،ماں کا دودھ پینے والوں کا نہ صرف ذریعہ معاش بہترین رہا بلکہ وہ تعلیمی میدان اور سماجی زندگی میں بھی دوسروں کی نسبت آگے نظر آئے۔

    اسی سے متعلق ہونے والی گزشتہ ریسرچ میں بھی یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ماں کا دودھ بچوں کو معدے کی بیماریوں، سینے کے انفیکشن، دمے اور دیگر الرجیوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔