Tag: Child labor

  • شمالی وزیرستان کے دو بچوں کا چائلڈ لیبر سے اسکول تک کا ایک منفرد سفر

    شمالی وزیرستان کے دو بچوں کا چائلڈ لیبر سے اسکول تک کا ایک منفرد سفر

    اسلام آباد: شمالی وزیرستان کے دو بچوں نے چائلڈ لیبر سے اسکول تک کا ایک منفرد سفر طے کیا، شمالی وزیرستان کی تحصیل میرانشاہ کے محنت مزدوری کرنے والے عالیان اور ریحان اسکول پہنچ گئے۔

    شمالی وزیرستان کی تحصیل میران شاہ کے ریحان کی عمر 7 سال جب کہ عالیان کی عمر 10 سال ہے، یہ دونوں بچے روز صبح فٹ پاتھ اور پیٹرول پمپ پر آفس اور اسکول جانے والے بچوں کے جوتے پالش کیا کرتے تھے۔

    یہ دونوں بچے اسکول جانے والے بچوں سے پیسوں کی بجائے کاغذ اور پنسل لیتے تھے، بچوں کے لیے اتوار کا دن سب سے کٹھن ہوتا تھا کیوں کہ آفس اور اسکول کی چھٹی ہونے کی وجہ سے بچے اور گھر والے فاقہ کرنے پر مجبور ہوتے تھے، ماں کی بیماری اور باپ کے غیر یقینی ذریعہ روزگار نے بچوں کو وقت سے پہلے سنجیدہ اور نڈھال کر دیا تھا۔

    ریحان بڑا ہو کر سائنس دان بننا چاہتا تھا تاکہ وہ جوتے پالش کرنے والی مشین بنا سکے، جب کہ عالیان بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تاکہ کوئی بھی اس کی ماں کی طرح بیمار ہو تو وہ اس کا مفت علاج کر سکے۔

    ایک دفعہ پاک فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے ان بچوں کو جوتے پالش کرتے ہوئے دیکھا اور گاڑی رکوا کر ان بچوں سے تفصیلی ملاقات کی، اس کے بعد اعلیٰ افسر نے بچوں کے والد سے ملاقات کی اور ان تمام مسائل کا سدباب کیا، اور بچوں کو پاک فوج کے زیر انتظام بوائز ہاسٹل میرانشاہ میں داخلہ دیا گیا۔

    ہاسٹل میں دونوں بچوں کو مفت اور معیاری رہائش، کھانا، تعلیم اور کھیل کے ساتھ ساتھ ماہانہ وظیفہ اور میڈیکل کی سہولیات بھی فراہم کر دی گئیں، عالیان اور ریحان زندگی میں کبھی بھی اسکول نہیں گئے تھے، تاہم قابل اساتذہ کی شب و روز محنت اور بچوں کی لگن کی وجہ سے تین ماہ کے مختصر عرصے میں دونوں بچوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کیا گیا۔

    بچوں کی ان تھک محنت کے باعث ریحان کو کلاس ٹو اور عالیان کو کلاس تھری میں بہ آسانی داخلہ مل گیا، ان بچوں کو اللہ نے خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے، اب یہ بچے نہ صرف نصابی بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، یہ بچے فخر پاکستان ہیں اور شمالی وزیرستان میں روشن صبح کی نوید ہیں۔

  • سعودی عرب: 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھنا خلاف قانون

    سعودی عرب: 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھنا خلاف قانون

    ریاض: سعودی عرب میں پبلک پراسیکیوشن نے کہا ہے کہ 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھنا ممنوع ہے، پراسیکیوشن نے اس حوالے سے ہدایات جاری کی ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی پبلک پراسیکیوشن نے کہا ہے کہ 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم کے طور پر رکھنا ممنوع ہے، سعودی قانون محنت اور تحفظ اطفال قانون 15 برس سے کم عمر بچوں سے ملازمت کروانے کی اجازت نہیں دیتا۔

    پبلک پراسیکیوشن نے انسداد روزگار اطفال کے عالمی دن کے موقع پر انتباہ جاری کیا۔

    پبلک پراسیکیوشن نے تحفظ اطفال قانون کی متعلقہ دفعہ کا متن شائع کیا ہے جس میں کہا گیا کہ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازم رکھنا ممنوع ہے، ایسے بچوں سے ایسا کوئی کام نہیں لیا جا سکتا جو ان کی جسمانی و ذہنی صحت یا سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو۔

    پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ ان سے کوئی فوجی کام نہیں لیا جا سکتا اور نہ ہی جنگوں میں شریک کیا جا سکتا ہے۔

    پراسیکیوشن نے قانون محنت کی دفعہ جاری کی ہے جس کے مطابق ایسے کسی بچے کو جس کی عمر 15 سال نہ ہوئی ہو، اسے ملازم نہیں رکھا جا سکتا۔ اسے ڈیوٹی مراکز میں کام کے لیے جانے کی اجازت نہیں۔

    متعلقہ وزیر بعض فیکٹریوں یا مخصوص مقامات پر ملازمت کے حوالے سے ممنوعہ عمر بڑھا سکتے ہیں، وزیر کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ 13 سے 15 برس تک کی عمر کے بچوں کو ہلکی ڈیوٹی والی ملازمت کرنے کی اجازت دیں۔

  • 14 سال سے کم عمر بچے یا بچی کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکتا: شیریں مزاری

    14 سال سے کم عمر بچے یا بچی کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکتا: شیریں مزاری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے حکومت نے قانون بنایا ہے، 14 سال سے کم عمر بچے یا بچی کو گھریلو کام کے لیے ملازم نہیں رکھا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گھریلو ملازمہ زہرہ تشدد اور قتل کیس پر وکلا سے بریفنگ لی، زہرہ کو تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ مقدمہ ہمارے لیے بہت اہم اور ٹیسٹ کیس ہے، چائلڈ لیبر کے حوالے سے حکومت نے قانون بنایا ہے۔ 14 سال سے کم عمر بچہ یا بچی گھریلو کام کے لیے ملازم نہیں رکھ سکتے۔

    انہوں نے کہا کہ میرا مقصد سپورٹ کرنا ہے اور مقدمے میں انصاف ہونا چاہیئے، مسئلہ قانون نہیں ہے قانون کے نفاذ کا ہے۔

    وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ زینب الرٹ ایپ پہ شکایات درج کی جاسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ 3 جون کو راولپنڈی میں 8 سالہ گھریلو ملازمہ زہرہ کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ ایک پنجرے کی صفائی کے دوران 2 طوطے اڑ گئے تھے۔

    مالک حسان صدیقی اور ان کی اہلیہ نے طیش میں آکر بچی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، بچی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔

  • شیریں مزاری کا چائلڈ لیبر کے خلاف اہم اقدام

    شیریں مزاری کا چائلڈ لیبر کے خلاف اہم اقدام

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ یونیسف کے ساتھ چائلڈ لیبر سروے کروایا جارہا ہے، انسانی حقوق کے لیے ایم آئی ایس (مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) بنانے کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت نے برسوں سے چائلڈ لیبر سروے نہیں کروایا۔ وزارت انسانی حقوق یونیسف کے ساتھ چائلڈ لیبر سروے کروا رہی ہے۔

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ سروے جون 2020 میں مکمل ہونا تھا لیکن کووڈ 19 کی وجہ سے تاخیر ہو سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے انسانی حقوق کے لیے ایم آئی ایس (مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) بنانے کی تیاری شروع کر دی ہے، سسٹم ہمیں پالیسی اور اقدامات کے لیے ڈیٹا بیس فراہم کرے گا۔

    وفاقی حکومت نے گزشتہ برس چائلڈ لیبر کے سدباب کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی تھی، شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ہم ہر بچے کی اسکول میں رسائی اور تعلیم کا حصول یقینی بنائیں گے۔

    دوسری جانب ملک میں چائلڈ لیبر کی زنجیر میں جکڑے بچوں کے قتل اور تشدد کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    چند روز قبل ہی راولپنڈی میں 8 سالہ گھریلو ملازمہ کو مالکان کی جانب سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس سے صفائی کے دوران پنجرہ کھلا رہ گیا جہاں سے 2 طوطے اڑ گئے۔

    مالکان حسان صدیقی اور اس کی اہلیہ نے بچی پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئی۔

    شیریں مزاری کے مطابق کم عمر ملازمہ سے زیادتی اور قتل کیس میں پولیس سے رابطے میں ہیں، کیس میں شامل میاں بیوی 4 دن کے ریمانڈ پر ہیں۔ وزارت انسانی حقوق نے ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دی ہے، گھریلو کام کو خطرناک قرار دینے کی ترمیم شامل کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

  • وزیر اعظم کی جبری مشقت کے خاتمے کے لئے سخت اقدامات کی ہدایت

    وزیر اعظم کی جبری مشقت کے خاتمے کے لئے سخت اقدامات کی ہدایت

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے جبری مشقت کے خاتمے کے لئے سخت اقدامات کی ہدایت کر دی.

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ ادارہ شماریات چائلڈ لیبر کے اعداد وشمار  پر سروے کرے، ایسے بچوں کی تعلیم اور غربت سے متعلق تجاویز بھی تیار کی جائیں.

    [bs-quote quote=” انسانی حقوق کا تحفظ ہمارےدین اور آئین پاکستان کا اہم جزو ہے” style=”style-7″ align=”left” author_name=”وزیر اعظم”][/bs-quote]

    وزیراعظم نے پبلک مقامات پرملازمین سے متعلق ہتک آمیز سائن بورڈز ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کلب اور جم خانہ پر لگے سائن بورڈز ہٹا دیے جائیں.

    ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے لئے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جارہی ہے.

    اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے پبلک مقامات پررکاوٹیں ہٹانے کی ہدایت جاری کی، وزیراعظم کو انسانی حقوق کو یقینی بنانے اور تشدد روکنے سے متعلق اقدامات پربریفنگ دی گئی.

    مزید پڑھیں: وزیراعظم سے ملاقات ، ناروے اور کوریا کا پاکستان میں جلدبڑی سرمایہ کاری کافیصلہ

    وزیر اعظم نے اس موقع پر کہا کہ انسانی حقوق کا تحفظ ہمارےدین اور آئین پاکستان کا اہم جزو ہے، حکومت انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے، حکومت اقلیتوں کے حقوق کی ذمہ دار بھی ہے.

    یاد رہے کہ آج وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی سرمایہ کاروں کے وفد سے ملاقات کی ، ملاقات میں ناروے اور کوریا سے آئے وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستان میں سرمایہ کاری کےمواقعوں اورحکومتی اقدامات پرتبادلہ خیال کیا گیا۔

  • بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن،شہباز شریف کے کروڑوں روپے کے اشتہارات

    بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن،شہباز شریف کے کروڑوں روپے کے اشتہارات

    تحریر:الفت مغل

    بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن کے حوالے سے نیوز اسٹوری کی غرض سے میں نے لاہور کے اچھرہ بازار کی ایک سائیکل پنکچر کی دکان پر ایک چھوٹے سے بچے کو سخت گرمی میں کام کرتے دیکھا تو قدم خود بخود رک گئے ۔

    اپنا تعارف کرائے بغیر میں اس دکان پر جا کر بیٹھ گیا اور اس بچے کی جانب بغور دیکھنے لگا۔ کام کے دوران بچے کی نظر مجھ پر پڑی کہ میں مسلسل اسے دیکھ رہا ہوں تو اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد نظریں چرالیں اور کام میں مگن ہو گیا۔ مجھے لگا کہ جیسے بچے نے مسکراہٹ میں معاشرے سے نفرت کا ثبوت دیا ہو ۔ میں کافی دیر تک وہاں بیٹھا بچے کو کام کرتے دیکھتا رہا لیکن بچے نے دوبارہ میری طرف نہیں توجہ نہیں دی ۔

    کافی دیر کے بعد وہ بچہ جب سائیکل کو پنکچر لگا کر فارغ ہوا تو اپنے نازک ہاتھوں کو دبانے لگا جیسے اس کے ہاتھ تھک گئے ہوں ۔ میں مسلسل اس بچے کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس نے اخبار اٹھایا اور میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔میں نے بچے سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام ’’داﺅد‘‘بتایا ۔ داﺅد مجھے دیکھے جا رہا تھا اور اب میں اس سے نظر یں چرا رہا تھا۔

    میں نے بچے سے سوال کیا کہ تم اسکول کیوں نہیں جاتے یہ عمر تو کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کی ہے تو داﺅد نے تلخ لہجے میں جواب دیا کہ آپ لوگ نہیں چاہتے کہ میں پڑھوں لکھوں۔ بچے کے جواب نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے بچے سے اس کے بہن بھائیوں کی تعداد دریافت کی۔ داﺅد نے کہا کہ ہم پانچ بہن بھائی ہیں، مجھ سے بڑی ایک بہن اور دو بھائی چھوٹے ہیں، بڑی بہن اسکول جاتی ہے،گھر کے حالات ایسے ہیں کہ امی کہہ رہیں تھیں کہ جنت کو بھی اسکول سے اٹھالیں گے،جنت میری بڑی بہن ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ پڑھے لکھے۔

    میں نے داﺅد سے کہا تم اسکول کیوں نہیں جاتے تو اس کی معصوم آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہا کہ اگر میں اسکول گیا تو میرے بہن بھائی بھوکے مر جائیں گے پوچھا وہ کیسے؟ تو جواب ملا کہ میں بھی اسکول جاتا تھا، والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہیں جنہیں پندرہ سو سے دو ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ میں اور میرے بہن بھائی کئی بار راتوں کو بھوکے سوئے، میں نے امی سے کہاکہ میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا مجھے کسی کام پر لگوا دیں تو امی نے کہاکہ تم ابھی بہت چھوٹے ہو تمہیں کوئی کام نہیں دے گا تاہم میرے اصرار پر امی نے سائیکل کے پنکچر لگانے والی دکان کے مالک سے بات کی اور مجھے ساٹھ روپے روزانہ پر نوکری مل گئی۔ داﺅد نے کہا جب سے میں کام پر لگا ہوں میرے بہن بھائی کبھی بھوکے نہیں سوئے۔

    داﺅد نے میری طرف دیکھتے ہوئے میرے سامنے اخبار میں شائع شدہ ایک اشتہار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اخبار میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ایک بچے کے ساتھ تصویر چھپی ہے اس میں کیا لکھا ہے۔ پہلے میں نے سوچا کہ جھوٹ بول کر بات کو ٹال دوں لیکن ضمیر نے گوارا نہ کیا اور میں نے داﺅد کو سچ بتانے کا فیصلہ کیا۔

    داﺅد نے پھر پوچھا آپ بتا کیوں نہیں رہے اس میں کیا لکھا ہے ؟ تو میں نے داﺅد کو بتایا کہ آج دنیاآپ جیسے بچوں سے جبری مشقت کے خلاف دن منا رہی ہے اور یہ عہد کر رہی ہے کہ ان بچوں کو اسکولوں میں پڑھنے لکھنے کا موقع دیا جائے گا۔ میری بات سن کر داﺅد کی آنکھوں میں امید کی چمک سی اٹھی اور اس نے کہا کیا میں بھی اسکول جا سکوں گا۔ میں نے جواباً اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ یقیناً تم جیسے لاکھوں بچے ضرور اسکول جائیں گے۔

    داﺅد نے استفسار کیا کہ انکل کیا یہ خبر اخبار والے مفت میں شائع کرتے ہیں تو میں نے جواب دیا کہ نہیں اس کے پیسے لیتے ہیں تو داﺅد نے پوچھا کہ اس اشتہار کے کتنے پیسے لیے ہوں گے اخبار والوں نے اور کیا یہ اشتہار صرف ایک اخبار میں شائع ہو ا ہے تو میں نے بتایا کہ نہیں یہ اشتہار آج کے تمام اخبارات میں شائع ہوا ہے اور اس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں میرا جواب سن کر داﺅد اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا ۔

    میں نے داﺅد سے پوچھا کہ وہ میرا جواب سن کر یوں اٹھ کر کیوں چلا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ دن گزر جائے گا لیکن میں اور میرے جیسے لاکھوں بچے اسکول نہیں جا سکیں گے۔ میں نے کہا کہ تم مایوس کیوں ہو رہے ہو حکومت کوشش اور اقدامات کر رہی ہے، لیکن مایوسی اور نا امیدی داﺅد کے چہرے سے عیاں تھی۔

    داؤد نے کہا آج ہم کام کاج کرنے والے بچوں کے حقوق کا دن منایا جارہا ہے ناں؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا، وہ دوبارہ گویا ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے اگر ہمارے حقوق کا دن ہے تو پھر یہ کروڑوں روپے اشتہارات پر کیوں ضائع کیے گئے اگر یہی پیسے آج کے دن اس عزم کے ساتھ مجھ جیسے غریب بچوں کی تعلیم کے لیے خرچ کردیے جاتے تو کم از کم میں نہیں تو مجھ جیسے سیکڑوں بچے تو اسکول جا سکتے تھے اور اگر ہر سال اتنے ہی پیسے ہمارے حقوق کے لیے خرچ کیے جاتے تو اب تک میں اور مجھ جیسے لاکھوں بچے کام کے بجائے پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل روشن کر رہے ہوتے ،یہ سب جھوٹ ہے اور میں اس جھوٹ کو ماننے کے لیے تیار نہیں مجھے کوئی حق نہیں کہ میں سہانے خواب دیکھوں میرا یہی مقدر ہے ۔ میں جھوٹ کے سہارے جینے کے بجائے اسی سچ کے ساتھ جینا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں میرا اور میرے جیسے کروڑوں بچوں کا نہ کوئی حق ہے اور نہ کوئی مستقبل۔

    اس جذباتی اور کڑوے سچ کو سننے کے بعد میں نے داﺅد کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے میری کسی بات کا جواب نہ دیا۔ داﺅد کی باتوں نے مجھے لا جواب کر دیا میں اب بھی اس معصوم کے سوالوں کی جھنجھلاہٹ سے نہیں نکل پا رہا،دل کہہ رہا ہے کہ داﺅد بچہ سہی مگر جو کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔