Tag: Child Marriage

  • کم عمری کی شادی کے خلاف موجودہ قانون میں ترمیم کے لیے اہم قدم

    کم عمری کی شادی کے خلاف موجودہ قانون میں ترمیم کے لیے اہم قدم

    لاہور: کم عمری کی شادی کے خلاف موجودہ قانون میں ترمیم کے لیے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کمیٹی تشکیل دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کم عمری کی شادی کے خلاف قانون سازی کے لیے ارکان اسمبلی کی کمیٹی تشکیل دے دی۔

    کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز پنجاب اسمبلی میں ہوگا، عظمیٰ کاردار، راحیلہ خادم حسین، سارہ احمد، شازیہ عابد، صوبائی سیکریٹری قانون اس کمیٹی میں شامل ہیں۔

    کمیٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں کم عمری کی شادی سنگین مسئلے کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، کمیٹی موجودہ قانون میں ترمیم کر کے مزید مؤثر بنانے کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں عموماً پس ماندہ علاقوں میں بچوں کی کم عمری کی شادی کو رسم و رواج کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کہیں ’ونی‘ کہیں ’سوارہ‘ تو کہیں کسی اور روایت کے تحت بھی کم عمر بچوں کو بیاہ دیا جاتا ہے۔ تاہم جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادی کا رجحان باقی صوبے سے نسبتاً زیادہ ہے۔ عالمی ادارے یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 24 فی صد بچیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے۔

    ماضی میں کم عمری کی شادی کا ارتکاب کرنے کی سزا اتنی معمولی تھی کہ غیر قانونی ہونے کے باوجود یہ شادیاں کھلے عام ہوتی رہیں۔ تاہم 2015 میں پنجاب کی اسمبلی نے کم عمری میں شادی کے خلاف ترمیمی بل منظور کیا تھا، جس کے تحت کم عمری کی شادی میں ملوث افراد کی سزا اور جرمانوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔

  • 12 سال کے بچے کی شادی کی فرمائش؟ اصل حقائق سامنے آگئے

    12 سال کے بچے کی شادی کی فرمائش؟ اصل حقائق سامنے آگئے

     کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے، مگر سوشل میڈیا پر ایک کم عمر جوڑے کی ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہورہی ہے، جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کم عمر جوڑا شادی کے بندھن میں بندھنے جارہا ہے۔

    سوشل میڈیا ذرائع کے مطابق 13 سالہ محمد قاعد کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ بچے نے اپنی والدہ سے ضد کی کہ اس کی شادی کرائی جائے گی تو ہی وہ پڑھائی میں دلچسپی لے گا۔ بچے کے بہت زیادہ اصرار پر ماں نے بھی حامی بھرلی۔

    سوشل میڈیا پر13 قاعد اور 12 سالہ علیزے کی تصاویر اور ویڈیوزوائرل ہورہی ہیں، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں شرما رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق بچے کی ضد پر ماں نے بیٹے کیلئے لڑکی کا رشتہ مانگ لیا، جس پر علیزے کے والدین بھی راضی ہوگئے۔ کم عمر جوڑے کا تعلق لاہور سے بتایا جارہا ہے۔

    12 سالہ علیزے کا کہنا تھا کہ جب رشتہ آیا تو میں حیران رہ گئی، میں تو کالج اور یونی ورسٹی کا سوچ رہی تھی، علیزے نے کہا کہ مجھے محمد قاعد بہت پسند ہے۔

    دونوں کے والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کی خواہش پر رشتہ منظور کرلیا گیا ہے، مگر فی الحال ابھی شادی نہیں ہورہی، والدین کا کہنا ہے کہ وہ دونوں بچوں کی باقاعدہ منگنی کریں گے۔

    ’’مجھے ایک بیوی چاہیے!‘‘ رکشہ ڈرائیور نے شادی کے لیے انوکھا انداز اپنالیا

    حیران کُن بات یہ ہے کہ علیزے ساتویں جماعت جبکہ اس کے مقابلے میں محمد قاعد چھٹی جماعت میں ہے۔ سوشل میڈیا پر دونوں کی شادی خوب چرچے ہورہے ہیں۔

  • 5 سالہ بچی کی جبری شادی، وفاقی شرعی عدالت کا از خود نوٹس

    5 سالہ بچی کی جبری شادی، وفاقی شرعی عدالت کا از خود نوٹس

    اسلام آباد: بلوچستان میں 5 سالہ بچی سے جبری شادی پر وفاقی شرعی عدالت نے از خود نوٹس لے لیا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا ہے کہ 2 ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ 5 سالہ بچی کو بھی بازیاب کروا لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے بلوچستان میں 5 سالہ بچی سے جبری شادی پر از خود نوٹس لے لیا، 5 سالہ بچی کی جبری شادی کا واقعہ بلوچستان کے علاقےخضدار میں رپورٹ ہوا تھا۔

    وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس سید محمد انور نے کیس کی سماعت کی، سماعت میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا واقعہ ہماری شریعت کے سخت خلاف ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ واقعے میں ملوث 2 ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں، 5 سالہ بچی کو بھی بازیاب کروا لیا گیا۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ نکاح خواں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

    شرعی عدالت نے بلوچستان حکومت سے معاملے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی، چیف جسٹس شریعت کورٹ نے بچوں کی شادی کو غیر اسلامی و آئین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

  • سندھ ہائی کورٹ : کم عمری کی شادی سے متعلق کیس میں اہم پیشرفت

    سندھ ہائی کورٹ : کم عمری کی شادی سے متعلق کیس میں اہم پیشرفت

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ میں کم عمری شادی سے متعلق کیس میں درخواست ضمانت کی سماعت کے موقع پر عدالت نے مقدمے میں تین تفتیشی افسران کو کل طلب کرلیا۔

    عدالت نے آئی جی سندھ کو5پولیس افسران کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی، جسٹس عمرسیال نے کہا کہ آئی جی سندھ کو خصوصی طور پر نوٹس کی تعمیل کرائی جائے۔

    مقدمے کی سماعت کے موقع پر جسٹس عمر سیال کا کہنا تھا کہ سرکاری وکیل تمام پولیس افسران کی2جون کو عدالت میں حاضری یقینی بنائیں۔ پولیس افسران پیش نہ ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔

    مدعی مقدمہ کے مطابق ملزم ارتضیٰ نے میری آٹھویں کلاس کی بیٹی سے زبردستی شادی کرلی ہے، جس کے جواب میں ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل ارتضیٰ نے انیلہ بتول سے پسند کی شادی کی ہے۔

    واضح رہے کہ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکا شادی نہیں کر سکتے۔ مذکورہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی سزا 2 سال اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔

    اس کے علاوہ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی خلاف ورزی میں معاونت کرنے والوں کو بھی دو سال کی سزا ہوسکتی ہے۔

  • خیرپور: کم عمر جوڑے کی شادی کی کوشش ناکام، نکاح خواں فرار

    خیرپور: کم عمر جوڑے کی شادی کی کوشش ناکام، نکاح خواں فرار

    خیرپور: صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور میں پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے کم عمر جوڑے کی شادی کو ناکام بنادیا ہے۔

    پولیس ذرائع کے مطابق اطلاع ملی تھی کہ کوٹ ڈینل محلے میں کم عمر بچوں کی شادی کرائی جارہی ہے، رپورٹ ملنے پر پولیس فوری طور پر حرکت میں آئی اور شادی کی جگہ پر چھاپا مارا۔

    پولیس کے مطابق عین موقع پر کارروائی کرتے ہوئے کم عمر بچوں کی شادی کو ناکام بنایا، دولہے کی عمر 14 جبکہ دلہن کی عمر 13 سال کے درمیان ہیں، کارروائی کے دوران پولیس نے دولہے اور دلہن کے والدین سمیت 20 باراتیوں کو بھی گرفتار کیا، تاہم نکاح خواں موقع سے فرار ہوگیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ذمے داروں کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ریگرینٹ ایکٹ کے تحت مقدمے کا اندراج کرلیا گیا ہے جبکہ کم عمر جوڑے کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    صوبہ سندھ میں کم عمر بچیوں کی زبردستی شادیوں کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، رواں ماہ بھی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں پانچویں جماعت کی طالبہ کی شادی کرانے پر دولہا اور دلہن کے والد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  کم سن طالبہ کی شادی کرانے پر دلہن اور دولہا کا والد گرفتار

    اس سے قبل جنوری دوہزار بیس میں بھی پولیس نے شکار پور میں شادی کی تقریب میں چھاپہ مار کر 12 سال کی بچی کا 13 سال کے لڑکے سے نکاح ناکام بنادیا تھا۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں ابھی تک سندھ ایسا صوبہ ہے جس نے 2014 میں قانون سازی کے ذریعے 18 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی پر مکمل پابندی عائد کررکھی ہے سندھ میں کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کی سزا تین سال قید ہے۔ اسی طرح شادی کے عمل کو سہولت فراہم کرنے والے چاہے وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں ان کی سزا دو سال قید مقرر کی گئی ہے۔

  • تھرپارکر: کم عمر لڑکیوں سے شادی کے جرم میں دو دولہا سمیت 8 افراد گرفتار

    تھرپارکر: کم عمر لڑکیوں سے شادی کے جرم میں دو دولہا سمیت 8 افراد گرفتار

    تھرپارکر : پولیس نے شادی کی تقریب میں چھاپہ مار کر کم عمری کی شادی کے جرم میں دو دولہا سمیت آٹھ افراد کو حراست میں لے کر چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے انتہائی پسماندہ ضلع تھرپار کے مرکزی شہر مٹھی میں شادی کی تقریب کے دوران پولیس نے کم عمر دو لڑکیوں سے شادی کے جرم میں دونوں دولہا سمیت 8 افراد کو گرفتار کرلیا۔

    کالوئی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او حسین بخش نے بتایا کہ مٹھی میں دو کم عمرلڑکیوں کی شادی کی تقریب جاری تھی جہاں بروقت پہنچ کر دونوں دولہا اور نکاح خواں کو گرفتار کرلیا۔

    انہوں نے کہا کہ14سالہ کلثوم کی شادی24سالہ محمد جمن لوند اور15سالہ نسیمہ کی شادی 23 سالہ امام الدین کے ساتھ ہورہی تھی۔ بعد ازاں پولیس دولہنوں کو بھی تفتیش کے لئے تھانے لے آئی۔

    ذرائع کے مطابق ایس ایچ او نے بتایا کہ لڑکیوں کے ایک قریبی رشتے دار نیک محمد کی شکایت پر پولیس نے مجموعی طور پر8افراد کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

    پولیس کے مطابق دلہن نسیمہ کے والد اور کلثوم کے بھائی کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ دونوں لڑکیوں کو چیئرمین یونین کونسل غلام نبی لوند کو اس ضمانت کے ساتھ حوالے کیا کہ وہ دونوں لڑکیوں کو عدالت میں پیش کریں گے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں 21 فیصد لڑکیاں کم عمری کی جبری شادی کا شکار

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں21فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی جبری شادی کردی جاتی ہے۔

    عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سال2011سے2020تک دس سال کے عرصے میں کم عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہوگا۔

  • کم عمری کی شادیوں کے خلاف برسر پیکار افریقی لیڈر

    کم عمری کی شادیوں کے خلاف برسر پیکار افریقی لیڈر

    مشرقی افریقی ملک ملاوی میں ایک ضلع کی انتظامی صدر نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے زبردستی شادی کے بندھن میں بندھی ہوئی بچیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا۔

    ملاوی میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان دنیا میں سب زیادہ پایا جاتا ہے۔

    یہاں ہر 2 میں سے 1 لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے یعنی ملک کی تقریباً نصف سے زائد بچیاں ناپسندیدہ شادی کے رشتے میں جکڑی ہوئی ہیں۔

    تاہم جھیل ملاوی کے ساتھ واقع ضلع دیدزا کی انتظامی سربراہ تھریسا اس رجحان کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہی ہیں۔

    تھریسا اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے زبردستی کی شادی کے بندھن میں بندھی بچیوں کو نجات دلا چکی ہیں۔ وہ اب تک 24 سو شادیوں کو منسوخ کرچکی ہیں۔

    اپنے ان اقدامات کی وجہ سے تھریسا اپنے ضلع میں ایک مقبول ترین شخصیت بن چکی ہیں۔ ان کے مداحوں میں وہ والدین بھی شامل ہیں جو صرف سماجی و خاندانی روایات سے مجبور ہو کر اپنی بچیوں کو کم عمری میں بیاہ دیتے ہیں۔

    تھریسا شادی سے نجات پانے والی ان بچیوں کو دوبارہ اسکول بھیج رہی ہیں۔ اس کے لیے وہ ملک بھر سے رقم جمع کرتی ہیں جو ان بچیوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے میں کام آتی ہے۔

    براعظم افریقہ میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان خطرناک حد تک بلند ہے۔ کچھ ممالک میں اس رجحان کے خلاف کام کیا جارہا ہے اور کئی افریقی ممالک میں اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

    سنہ 2016 کے وسط میں گیمبیا اور تنزانیہ میں کم عمری کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے لیے سخت سزاؤں کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

    تھریسا کو امید ہے کہ ملاوی میں بھی اس رجحان کے خلاف آگاہی پیدا ہوگی اور بہت جلد وہ اس تباہ کن رجحان سے چھٹکارہ پالیں گے۔

  • سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل منظور کرلیا

    سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل منظور کرلیا

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے چائلڈ میرج بل منظور کرلیا جس کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے دوران چائلڈ میرج بل پر بحث ہوئی۔ بل کو اس سے قبل مزید بحث اور سفارشات کے لیے کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا۔

    پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ بل کا مقصد بچوں کی شادی روکنا ہے، سندھ میں ایسا بل منظور ہوچکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بلوغت کی عمر 18 سال متعین ہونی چاہیئے، لفظ بچے کی تعریف میں وضاحت کی ضرورت ہے۔

    سینیٹر نے کہا کہ بچوں کی 21 فیصد شرح اموات کی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں، بچپن میں شادیوں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 18 سال سے کم عمر والوں کو بچہ تسلیم کیا جائے۔

    شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہونی چاہیئے، 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی لگائی جائے۔

    وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی بل کی حمایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

    کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بل کو منظور کرلیا۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل ہی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان‘ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2011 سے 2020 تک دس سال کے عرصے میں کم عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد 14 کروڑ ہوگی۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں 21 فیصد کم عمر بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔

  • پاکستان میں 21 فیصد لڑکیاں کم عمری کی جبری شادی کا شکار

    پاکستان میں 21 فیصد لڑکیاں کم عمری کی جبری شادی کا شکار

    اسلام آباد: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی جبری شادی کردی جاتی ہے۔

    عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2011 سے 2020 تک دس سال کے عرصے میں کم عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد 14 کروڑ ہوگی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصد کم عمر بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔

    کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے جہاں 75 فیصد بچیوں اور 25 فیصد بچوں کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ انفرادی طور پر کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان قبائلی علاقوں میں ہے جہاں 99 فیصد بچیاں کم عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے کی شادی کرنا جو ابھی رضا مندی کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہ ہوا ہو، بچوں اور بچیوں دونوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

    کم عمری کی شادی کا یہ غلط رجحان صرف پاکستان میں ہی موجود نہیں۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1 کروڑ 50 لاکھ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

  • نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    کھٹمنڈو: نابالغ اور کم عمر بچیوں کی شادیاں ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ انہیں شمار طبی و نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ نیپال میں بھی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ ہندو پجاری اپنی مذہبی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی کم عمر بچیوں کی شادی نہ کریں۔

    نیپال میں کام کرنے والے ایک سماجی ادارے کے مطابق ملک میں 38 سے 50 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے قبل بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ شادیاں لڑکی کے خاندان والوں کی خواہش پر ہوتی ہیں اور کم عمر لڑکیوں کو انتخاب کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

    یاد رہے کہ نیپال میں گزشتہ 54 سالوں سے کم عمری کی شادی پر پابندی عائد ہے لیکن دور دراز دیہاتوں کے لوگ اب بھی اپنی لڑکیوں کی شادیاں جلدی کردیتے ہیں۔ یہ ان کی قدیم خاندانی ثقافت و روایات کا حصہ ہے اور ان دور دراز علاقوں میں قانون بھی غیر مؤثر نظر آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    دوسری جانب طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی لڑکیوں کو بے شمار طبی مسائل میں مبتلا کردیتی ہے۔ کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔

    کم عمری کے حمل میں اکثر اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے نیپال کے مغربی حصے میں واقع ایک گاؤں میں ہندو مذہبی رہنماؤں اور پجاریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس برائی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔

    ان ہی میں سے ایک پجاری 66 سالہ دیو دت بھٹ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک نو عمر لڑکی کے والدین اس کی شادی کے سلسلے میں مشورہ کرنے کے لیے آئے۔ اس لڑکی کی عمر صرف 16 برس تھی۔

    nepal-3

    دیو دت نے ان پر زور دیا کہ وہ کم از کم اپنی لڑکی کو 20 سال کی عمر تک پہنچنے دیں اس کے بعد اس کی شادی کریں۔

    انہوں نے بتایا کہ اکثر والدین ان کے پاس آکر اپنی لڑکی کی عمر کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، جس کے بعد وہ اس لڑکی کا پیدائشی ’چینا‘ دیکھتے ہیں جس سے انہیں اس کی صحیح عمر کے بارے میں علم ہو جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    نیپالی زبان میں چینا دراصل ماہرین نجوم کی جانب سے بنایا گیا مستقبل کی پیش گوئی کرتا چارٹ ہے جو نیپالی ثقافت کے مطابق ہر پیدا ہونے والے بچے کا بنایا جاتا ہے۔ اس چارٹ میں درج کی جانے والی معلومات بشمول تاریخ پیدائش اور سنہ بالکل درست ہوتا ہے جس سے کسی کی بھی درست عمر کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

    دیو دت نے بتایا کہ وہ اکثر والدین کو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی لڑکیوں کا رشتہ طے کردیں مگر شادی کو چند سالوں کے لیے مؤخر کردیں۔

    اس کام میں دیو دت اکیلے نہیں ہیں۔ گاؤں میں ان جیسے کئی مذہبی پجاری ہیں جو اس کام میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔