Tag: Childbirth

  • بچے کی پیدائش کے بعد نئی ماؤں کے لیے ڈائٹ پلان کیا ہونا چاہیے؟

    بچے کی پیدائش کے بعد نئی ماؤں کے لیے ڈائٹ پلان کیا ہونا چاہیے؟

    پہلی بار ماں بننے والی خواتین کیلیے انتہائی ضروری ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ڈائٹ پلان میں غذائیت والی خوراک کا انتخاب کریں۔

    ہر عورت کیلیے پہلی بار ماں بننے کا احساس انتہائی خوشگوار ہوتا ہے لیکن زچگی سے پہلے اور بعد میں ماں کو جو پیچیدگیاں اور طبی مسائل درپیش ہوتے ہیں ان پر قابو پانا بھی انتہائی ضروری ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر عائشہ نے خصوصاً پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو صحت سے متعلق مفید مشورے دیے۔

    انہوں نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے بعد نئی ماؤں کی صحت کے لیے ڈائٹ پلان میں اچھی خوراک اور بہترین غذائیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔

    حمل کے دوران ماں کئی پیچیدہ مراحل سے گزرتی ہے، بچے کی پیدائش کے بعد وہ جسمانی طور پر کافی کمزور ہو جاتی ہے، اس وقت ماں کو اپنے کھانے پینے پر کافی توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ بچے کی پیدائش کا عمل عورت کو کافی حد تک کمزور کردیتا ہے اس کے بعد بچے کی دیکھ بھال کیلیے ماؤں کی نیند اور کھانے پینے کا شیڈول بھی متاثر ہوتا ہے جو ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    انہوں نے نئی ماؤں کو ہدایت کی کہ اگر آپ کو کولڈ ڈرنکس، چاکلیٹ اور چائے کافی وغیرہ پینے کا شوق ہے جس میں کیفین کی زیادہ مقدار ہوتی ہے تو انہیں فوری طورپر روک دیں خاص طور پر جب تک آپ کا بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب ماں صحت مند رہے گی، تو بچہ بھی صحت مند رہے گا اس کیلیے ضروری ہے کہ مائیں دودھ، دہی پھل اور گوشت کا استعمال لازمی کریں کیونکہ جو آپ کھائیں گی اس کا اثر بچے کی صحت پر لامحالہ پڑے گا۔

  • پشاور: اسپتال کے گیٹ پر بچے کی پیدائش، عدالت کا اظہار برہمی

    پشاور: اسپتال کے گیٹ پر بچے کی پیدائش، عدالت کا اظہار برہمی

    پشاور ہائی کورٹ میں قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس کے گیٹ پر ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے خاتون کے بچہ جنم دینے کے واقعہ کے کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔

    اس موقع پر اسپیشل سیکرٹری اور سیکرٹری ہیلتھ، چیئرمین بورڈ آف گورنر قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس اور اے جی عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان نے کہا کہ قاضی حسین احمد کمپلیکس سے متعلق روزانہ کوئی نہ کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے، اس اسپتال میں ہو کیا رہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹھیکیدار کو چیئرمین بورڈ آف گورنر بنایا گیا۔

    جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ نے بتایا کہ اب نیا چیئرمین بورڈ آف گورنر ہے اس کو ہٹا دیا گیا ہے، اے جی نے کہا کہ اسپتال میں کل افسوسناک واقعہ پیش آیا اس کی انکوائری ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اب ہٹا دیا ہے لیکن ایک ٹھیکیدار کواسپتال حوالے کیا گیا تھا۔

    چیئرمین بی او جی نور الاایمان نے کہا کہ مجھے چارج سنبھالے ہوئے100دن ہوگئے ہیں میں 100دن کی گارگردگی پیش کرونگا، بدقسمتی سے اسپتال میں غیرقانونی طور پرغیرضروری اسٹاف بھرتی کیا گیا، جس چیزکوبھی ہاتھ لگائیں غیرقانونی چیزیں ہی نکل آتی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اسپتال کا 90فیصد بجٹ تنخواہوں میں جاتا ہے، غیر قانونی بھرتی 126لوگوں کو نکالا  تواحتجاج شروع ہوگیا، گزشتہ 8 دن سے ہسپتال بند ہے وہاں کوئی کام نہیں کررہا۔

    چیف جسٹس قیصررشیدخان کا کہنا تھا کہ اسپتال بند ہے توحکومت کیا کر رہی ہے، اسپتال کو کوئی کیسے بند کرسکتا ہے، جوغیر قانونی کام ہےاس کےخلاف سخت کارروائی کریں، اس اسپتال کا نام بھی بہت بڑا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جوغیرقانونی کام کررہے ہیں ان کےخلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی، بعد ازاں عدالت نے چیئرمین بورڈآف گورنر سےاسپتال سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس نوشہرہ کے گیٹ پر خاتون نے دو بچوں کو جنم دیا تھا ہسپتال میں ڈاکٹرز اور دیگر عملہ کے احتجاج کی وجہ سے کوئی بھی ہسپتال میں موجود نہیں تھا ہسپتال سے واپسی پر گیٹ میں ہی خاتون کی حالت غیرہوگئی ریسکیو 1122 کی ٹیم پہنچ گئی جس میں موجود خاتون اہلکار نے خاتون کی ڈلیوری کرائی خاتون نے دو بچوں کو جنم دیا۔

  • پولیس نے حاملہ خاتون کو ڈلیوری کے وقت ہتھکڑیوں سے بیڈ کے ساتھ باندھ دیا

    پولیس نے حاملہ خاتون کو ڈلیوری کے وقت ہتھکڑیوں سے بیڈ کے ساتھ باندھ دیا

    امریکا میں ایک حاملہ خاتون کو ڈلیوری کے وقت پولیس نے ہتھکڑیوں سے بیڈ کے ساتھ باندھ دیا، متاثرہ خاتون نے پولیس کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ دائر کردیا۔

    امریکی شہر نیویارک میں یہ واقعہ دسمبر 2018 میں پیش آیا جب پولیس نے 22 سالہ افریقی نژاد خاتون کو گرفتار کیا۔ خاتون کے دائر کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے انہیں ان کی والدہ کے گھر سے گرفتار کیا، وہ اس وقت 40 ہفتوں کی حاملہ تھیں۔

    خاتون کے مطابق ان پر عائد کردہ جرم نہایت معمولی تھا جو بعد ازاں خارج کردیا گیا، تاہم اس وقت پولیس نے انہیں پورا دن حراست میں رکھا اور تفتیش کرتے رہے۔

    ایک دن بعد خاتون کی حالت بگڑنے پر انہیں ایمبولینس پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا اور اس دوران بھی انہیں ہتھکڑیاں لگائے رکھی گئیں، بعد ازاں اسپتال میں بھی ان کی ایک ٹانگ اور ایک پاؤں کو ہتھکڑی سے جکڑ دیا گیا اور انہوں نے اسی حالت میں بچے کوجنم دیا۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ بچے کو جنم دینے کے بعد اسے نرسری منتقل کیا گیا، اس دوران وہ ایک بار اپنے نومولود کو دیکھنے گئیں تب بھی ان کے دونوں پاؤں ہتھکڑیوں سے باندھ دیے گئے تھے۔

    اب اس واقعے کے 14 ماہ بعد خاتون نے پولیس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کروایا ہے۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے کئی ماہ بعد تک وہ ڈپریشن کا شکار رہیں۔ نیویارک پولیس نے انہیں انسانیت کے درجے سے نیچے گرا دیا تھا۔ وہ اس مذموم فعل میں ملوث پولیس افسران کا احتساب ہونا دیکھنا چاہتی ہیں۔

    خاتون کی وکیل کا کہنا ہے کہ نیویارک پولیس کی یہ حرکت نہایت احمقانہ اور سمجھ سے بالاتر ہے، ایک حاملہ اور درد زہ میں مبتلا خاتون نہ ہی اپنے لیے، نہ پولیس کے لیے اور نہ ہی کسی اور کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ایک غیر رسمی قانون اور اخلاقیات یہ کہتی ہیں کہ غیر معمولی حالات کے علاوہ کسی حاملہ خاتون کو ہتھکڑی نہیں لگائی جاسکتی۔

    وکیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقدمے میں پولیس کے اقلیتوں سے غیر انسانی سلوک کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، ’رنگ اور نسل کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ بننے والی میری مؤکل پہلی انسان نہیں، اور امید ہے کہ ہمیں جلد انصاف فراہم کیا جائے گا‘۔

  • شکارپور : ماں نے سول اسپتال کے فرش پر بچے کو جنم دے دیا

    شکارپور : ماں نے سول اسپتال کے فرش پر بچے کو جنم دے دیا

    شکار پور : صوبہ سندھ میں ماں نے انتظامیہ کی لاپرواہی کے باعث اسپتال کے فرش پر ہی بچے کو جنم دے دیا، خاتون کو گھر جانے کے لئے ایمبولنس تک نہ ملی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے شہر شکارپور میں زچہ نے سول اسپتال کے فرش پر بچے کو جنم دیا۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ خاتون کو صبح کے وقت زچگی کے لئے سول اسپتال لایا گیا تھا۔

    جہاں لیڈی ڈاکٹر نے مذکورہ خاتون کو دو مختلف ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ کرانے کا کہا، ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ خاتون ٹیسٹ کرانے کیلئے اسپتال میں تین گھنٹے تک دربدر ہوتی رہی اور اسی دوران خاتون نے سول اسپتال لیبارٹری کے باہر فرش پر ہی بچے کو جنم دے دیا۔

    خاتون بچے کے ساتھ کافی دیر تک زمین پر زخمی حالت میں پڑی رہی، عملہ کے بجائے اس کے اہلخانہ دیکھ بھال کرتے رہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ خاتون کو گھر جانے کے لئے ایمبولنس تک نہ ملی۔

    اہلخانہ رکشے میں ہی خاتون کو گھر لے کر گئے۔ متاثرہ خاتون کے لواحقین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر غریبوں کو سہولیات میسر نہیں کرتے اسپتالوں کو بند کردیں۔

    دوسری جانب مسلم لیگ فنکشنل کی ممبر رکن صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی نے واقعے پر اپنے گہرے دکھ اور غصے کا اظہار کیا ہے ان کا مطالبہ ہے کہ اس بچے کا نام بلاول رکھا جائے تاکہ اسے احساس ہو کہ وہ اور بلاول الگ ہیں۔

    مزید پڑھیں: لاہورمیں ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی، خاتون نے واش روم میں بچے کو جنم دے دیا

    یاد رہے کہ چند ماہ قبل لاہور کے علاقے رائیونڈ میں ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے بھٹہ مزدور کی بیوی نے واش روم میں بچے کو جنم دیا تھا۔ خاتون کو جب زچگی کے لیے لایا گیا تو اسپتال کے عملہ نے سہولیات نہ ہونے کا کہہ کر خاتون کو نکال دیا تھا۔

    خاتون جب گھر پہنچی تو واش روم میں ہی بچے کو جنم دے دیا جس کے بعد نومولود بچے کی طبیعت ناساز ہونے پر ماں اور بچہ دونوں کو دوبارہ اسپتال لایا گیا۔

  • نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    امریکا میں گزشتہ چند دہائیوں میں زچگی کے دوران خواتین کی موت کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجوہات میں طبی عملے کی غفلت اور نسلی امتیاز جیسے حیران کن عوامل شامل ہیں۔

    امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا میں بسنے والی سیاہ فام خواتین میں حمل کے دوران موت کا خطرہ، سفید فام خواتین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سیاہ فام طبقے کے لیے طبی عملے کی لاپرواہی اور ان کی کمزور معاشی حالت ہے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام طبقے کو طبی عملے کا امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    زچگی کے دوران خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات صرف سیاہ فام خواتین تک ہی محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام امریکی ماؤں کے لیے حمل کے دوران خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر امریکی عورت کو حمل کے دوران، اپنی والدہ کے مقابلے میں 50 فیصد زائد سنگین طبی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل زچگی کے دوران اموات کی وجہ زیادہ خون بہنا اور انفیکشن ہوتا تھا، تاہم اب امریکی مائیں موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب، اور سی سیکشن کی شرح میں اضافے کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر سنہ 1990 سے 2015 کے دوران زچگی کے دوران ماؤں کی اموات میں 44 فیصد کمی آچکی ہے تاہم امریکا میں اس شرح میں اضافہ ہوا۔ امریکا میں چند دہائی قبل 1 لاکھ میں سے 12 ماؤں کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق ہوتا تھا تاہم اب یہ تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    رپورٹ میں ماہرین نے زچگی کے بعد ماؤں کے لیے طبی عملے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کی طرف ڈاکٹرز کی توجہ کم ہوجاتی ہے نتیجتاً وہ چھوٹے موٹے طبی مسائل جن پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، سنگین صورت اختیار کر کے جان لیوا بن جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ایک طرف تو حاملہ ماؤں کو صحت مند طرز زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، دوسری طرف طبی عملے کو بھی اس بات کی تربیت دی جائے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آخری وقت تک ماں اور بچے دونوں کو توجہ دی جائے۔