Tag: Children

  • کراچی: ڈیفنس فیز 6 میں طلاق کے بعد حوالگی کے تنازع پر ماں نے اپنے بچوں کو قتل کردیا

    کراچی: ڈیفنس فیز 6 میں طلاق کے بعد حوالگی کے تنازع پر ماں نے اپنے بچوں کو قتل کردیا

    کراچی(14 اگست 2025): ڈیفنس فیز 6 خیابان مجاہد میں طلاق کے بعد حوالگی کے تنازع پر ماں نے دو بچوں کو قتل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے ڈیفنس فیز 6 خیابان مجاہد میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں ماں نے اپنے 2 بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، جس کے بعد خاتون کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق اس واقعے میں قتل ہونے والوں میں ایک بچہ اور بچی شامل ہیں جبکہ ماں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، بچوں کی عمریں 4 سے 7 سال کے درمیان ہیں۔

    پولیس حکام کا اس حوالے سے مزید بتانا ہے کہ طلاق کے بعد بچوں کی حوالگی کے تنازع پر واقعہ پیش آیا ہے، خاتون کی ستمبر 2024 میں طلاق ہوئی تھی، بچے ہفتے میں ایک یا دو بار والدہ سے ملنے آتے تھے۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مقتول بچوں میں 7 سالہ ضرار اور 4 سالہ سنیعہ شامل ہیں، مقتول بچوں کے والد پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہیں، گزشتہ رات بچے والدہ کے پاس رہنے کیلئے آئے تھے، والدہ نے دوپہر کے وقت دونوں بچوں کو تیز دھار آلے سے قتل کیا۔

    https://urdu.arynews.tv/karachi-defence-robbers-robbing-14-lacs/

  • غربت سے تنگ باپ کی بچوں سمیت خودکشی کی کوشش

    غربت سے تنگ باپ کی بچوں سمیت خودکشی کی کوشش

    ظاہر پیر: غربت سے تنگ باپ نے اپنے بچوں سمیت خودکشی کی کوشش کی، بچوں کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق رحیم یات خان کے تھانہ رکن پور کی حدود میں واقع علاقے سردار گڑھ میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق غربت اور گھریلو مسائل سے تنگ باپ نے اپنے تین کم سن بچوں سمیت خودکشی کی کوشش کی، متاثرہ خاندان کو تشویشناک حالت میں فوری طور شیخ زید اسپتال رحیم یار خان منتقل کردیا گیا۔

    https://urdu.arynews.tv/jalalpur-pirwala-kidnapped-dead-man-returns-home/

    پولیس حکام کا کہنا ہے متاثرین میں 32 سالہ عبد الرحمان، 11 سالہ عمیر، 9 سالہ سفیان اور 7 سالہ افصہ شامل ہے دوسری جانب ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ باپ اور تینوں بچوں کی حالت تشویشناک ہے۔

  • آٹزم کے شکار بچوں کی 5 اہم علامات کیا ہیں؟

    آٹزم کے شکار بچوں کی 5 اہم علامات کیا ہیں؟

    آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) ایسی بیماری ہے جو عام طور پر بچپن میں ظاہر ہوتی ہے، جس کیلیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں میں ظاہر ہونے والی آٹزم کی ان علامات کا بغور جائزہ لیں۔

    آٹزم کے شکار بچے سماجی لحاظ سے نارمل بچوں سے مختلف ہوتے ہیں، اس بیماری میں مبتلا کچھ بچے ایک یا دو سال کی عمر سے پہلے معمول کے مطابق دکھائی دیتے ہیں لیکن بعد کے سالوں میں ان کے رویوں میں اچانک تبدیلی یا آٹزم کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

    اس حوالے سے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ بیماری انسان کی معاشرتی زندگی، تعلقات اور اظہار خیال کی اہلیت کو متاثر کرکے اس پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتی ہے۔

    Autism Spectrum

    آٹزم کی علامات میں ایک چیز پر شدید توجہ دینا، سماجی اشاروں کو نہ سمجھنا (جیسے آواز یا جسمانی زبان)، اعضاء کو بار بار حرکت دینا، یا سر پیٹنا جیسے خود سے بدسلوکی کا رویہ شامل ہوسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ اپنی نوعیت کا منفرد ہوتا ہے لیکن کچھ عمومی علامات ایسی ہوتی ہیں جن پر والدین اور بچے کی دیکھ بھال کرنے والے بخوبی غور کرسکتے ہیں۔

    زیر نظر مضمون میں آٹزم کی ایسی پانچ عام علامات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو والدین کو اشارہ دے سکتی ہیں کہ آپ کا بچہ بھی آٹزم کا شکار ہو سکتا ہے۔

    1 : سماجی تعلقات میں مشکلات

    آٹزم کے شکار بچے سماجی اشاروں کو سمجھنے میں مشکلات محسوس کر سکتے ہیں، جیسے دوست بنانے، جذبات کو سمجھنے اور دوسروں کے ساتھ کھیلنے میں۔ یہ بچے نظریں ملانے سے گریز کرسکتے ہیں، وہ اپنے جذبات کا اشتراک کرنے میں دشواری محسوس کر سکتے ہیں، یا اکیلے کھیلنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔

    2 : بار بار دہرانے والے رویے

    بار بار دہرانے والے رویے، جیسے کہ ہاتھ ہلانا، جھولنا، گھومنا، یا کھلونوں کو قطار میں لگانا، آٹزم کے شکار بچوں میں عام ہوسکتے ہیں۔ یہ بچے اپنی روزمرہ کی عادات کے پابند ہو سکتے ہیں اور ماحول میں کسی بھی تبدیلی پر بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔

    Autism seeks

    3 : بولنے میں تاخیر

    آٹزم کے شکار کچھ بچے زبان کی نشوونما میں تاخیر کا سامنا کرتے ہیں، مثال کے طور پر وہ دو سال کی عمر تک بہت کم بولتے ہیں، ببلنگ نہیں کرتے یا جملے بناتے ہوئے مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    4 : محدود دلچسپیاں

    اس کے علاوہ ایسے بچے کسی ایک خاص موضوع یا چیز میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں اور دیگر سرگرمیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کی یہ دلچسپیاں انتہائی مخصوص ہو سکتی ہیں اور وہ ان میں بھرپور توجہ کے ساتھ محو رہتے ہیں۔

    5 : حساسیت

    آٹزم کے شکار بچے اپنے حواس کے لحاظ سے زیادہ یا کم حساس ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر وہ آوازوں، روشنیوں، ذائقوں یا خوشبوؤں کے بارے میں زیادہ حساس ہو سکتے ہیں یا ان پر کم ردعمل دے سکتے ہیں۔

    Parenting a Child

     والدین کے لیے ہدایات 

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آٹزم میں مبتلا ہر بچہ مختلف ہوتا ہے اور اس کی شدت اور نوعیت بھی مختلف ہو سکتی ہے۔

     

    اس کو پہچاننے کیلیے ابتدائی تشخیص بہت ضروری ہے، مرض کی جلد شناخت اور بھرپور توجہ بچوں کی صحت کے نتائج کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    ان علامات کے پیش نظر اگر آپ کو شک ہو تو فوری طور پر ڈاکٹرز یا ماہرین نفسیات سے رجوع کریں۔ یاد رکھیں ایک ماہرِ اطفال مکمل تشخیص کرکے بچے کیلیے موزوں تجاویز فراہم کرسکتا ہے۔

  • والدین کا سخت رویہ اولاد پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟

    والدین کا سخت رویہ اولاد پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟

    اکثر بچے والدین کے ہاتھوں بدسلوکی یا بے جا سختی کا نشانہ بنتے ہیں جو بچوں کی شخصیت پر بہت زیادہ گہرے اور برے اثرات مرتب کرتی ہے۔،

    بہت سے والدین اولاد کی زندگی کو سنوارنے کی کوشش میں نفسیاتی طور پر اپنی اولاد پر حاوی رہتے ہیں جو ان کی شخصیت کو بری طرح توڑ پھوڑ سکتی ہے۔

    ایسے سخت گیر والدین جو بچوں پر ضرورت سے زیادہ تنقید اور سزا دینے کا رویہ اختیار کرتے ہیں وہ سلوک بچوں کی جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی فلاح و بہبود پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

    زیر نظر مضمون میں والدین کی ان باتوں اور رویوں کا احاطہ کیا گیا ہے بچوں کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور یہ منفی اثرات بچوں کی بلوغت تک برقرار رہ سکتے ہیں۔

    جذباتی نقصان

    اس حوالے سے یو سی ایل اے میں کلینیکل سائیکیٹری کے پروفیسر ڈاکٹر ڈین سیگل کا کہنا ہے کہ سخت گیر والدین اپنی اولاد میں بڑھتے ہوئے دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن کا سبب بن سکتے ہیں جن بچوں کے والدین اس قسم کا رویہ رکھتے ہیں وہ اکثر اعتمادکی کمی، ناکامی کے خوف اور ادھوری شخصیت کے احساسات کا شکار ہوتے ہیں۔

    دماغی نشوونما پر اثرات

    نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر بروس پیری کی تحقیق کے مطابق سخت گیر والدین بچوں کی دماغی نشوونما میں تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں، خاص طور پر دماغ کے وہ حصے جو جذباتی کنٹرول اور جذبات کے اظہار کا کام انجام دیتے ہیں، اس کے نتیجے میں بچوں کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے میں مشکلات، غیر متوقع رویے اور جارحیت جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    جارحیت اور رویے کے مسائل

    چائلڈ سائیکالوجی اور سائیکائٹری کے جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعہ کے مطابق سخت گیر والدین کا بچوں میں جارحیت، بدتمیزی اور رویے کے مسائل میں اضافے سے گہرا تعلق ہے۔

    ڈاکٹر ڈیانا بامریند کا کہنا ہے کہ سخت رویہ رکھنے والے والدین کا انداز جذباتی گرم جوشی کی کمی پر مبنی ہوتا ہے جو بچوں میں جارحیت اور مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

    تعلقات بنانے میں دشواری

    ایموشنلی فوکسڈ تھراپی کی بانی ڈاکٹر سو جانسن کا کہنا ہے کہ سخت گیر والدین کا رویہ بچوں کے صحت مند تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یعنی انہیں مستقبل میں اعتماد کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

    طویل مدتی نتائج

    بچوں پر والدین کی سختی کے اثرات ان کی جوانی تک برقرار رہ سکتے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ خطرات مزید بڑھ بھی سکتے ہیں۔

    ان خطرات میں ذہنی صحت کے مسائل جیسے کہ ڈپریشن، بے چینی، منشیات کا استعمال وغیرہ شامل ہیں جو خود والدین کی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

    والدین کیا کریں؟ 

    اس حوالے سے ماہرین والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ مثبت اور شفقت والا سلوک اختیار کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ جذباتی لگاؤ، مدد و تعاون اور ان کی مثبت انداز میں حوصلہ افزائی والا رویہ اختیار کریں ان سے ہر موضوع پر بات چیت کریں۔

    یاد رکھیں !! اچھی پرورش اور مددگار رویہ اپنانے سے والدین اپنے بچوں کی صحت مند نشوونما، مضبوط تعلقات اور مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

  • بچوں کو موبائل فون کی عادت سے کیسے بچایا جائے؟ آسان طریقہ

    بچوں کو موبائل فون کی عادت سے کیسے بچایا جائے؟ آسان طریقہ

    ٹی وی، آئی پیڈ اور موبائل فون کا استعمال آج کل ہر انسان کی ضرورت کی حد تک مجبوری بن گیا ہے لیکن والدین کی جانب سے بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون پکڑانا ان کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

    روزمرہ کے کام کاج کے علاوہ سماجی زندگی میں بھی موبائل فون کا استعمال دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، ہر گھر میں چھوٹے بچوں کا کئی کئی گھنٹوں تک موبائل اسکرین سے چپکے رہنا معمول بن چکا ہے، جس کو ماہرین نے ڈیجیٹل نشہ قرار دے رہے ہیں۔

    نئے دور میں بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات دینا ضرورت بن گیا ہے،اس تمام صورت حال میں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کے بچوں کے لیے ‘اسکرین ٹائم’ کی کتنی اہمیت ہے؟

    موبائل یا ٹیبلٹ کی اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے کی عادت نوجوان نسل کے رویوں، خوراک اور یہاں تک کہ ذہنی صحت پر بھی نمایاں طور پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہ اکثر گھرانوں میں ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو موبائل اسکرینز سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں متبادل سرگرمیوں میں بھی مشغول کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

    جب بھی ممکن ہو اپنے بچے کے ساتھ اپنا اسکرین ٹائم شیئر کرلیں، وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے آپ کا آگاہ ہونا بہت مفید ہوسکتا ہے۔ ایک ساتھ آن لائن مواد دیکھنے سے والدین اور بچوں کے درمیان بات چیت کے لیے نت نئے موضوعات بھی مل جاتے ہیں۔

    بچے اپنے والدین کے رویوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں، آپ نے اپنے بچوں کے لیے جو اسکرین ٹائم کی حدیں مقرر کی ہیں ان پر خود بھی عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل بنیں۔ لہٰذا اپنے اسکرین ٹائم کا بھی خاص خیال رکھیں، جب موبائل ڈیوائسز استعمال میں نہ ہوں تو ان کو بند کر دیں اور فیملی ٹائم کو اسکرین ٹائم پر ترجیح دیں۔

    اگر آپ کے بچے موبائل اسکرین کے سامنے کافی زیادہ وقت گزارتے ہیں تو حقیقت پسندانہ اہداف طے کرنا ضروری ہے۔ مثلاً اگر آپکا بچہ دن کے 12 گھنٹے موبائل استعمال کرتے گزرا دیتا ہے تو اسے ایک دم ایک گھنٹے پر لانا دیرپا ثابت نہیں ہوسکے گا، لہٰذا آغاز اُسے 12 گھنٹوں سے 6 گھنٹے پر لانے سے کریں۔

    جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہنا، گھر سے باہر نکل کر چہل قدمی کرنا یا کھیل کود میں مصروف رہنا اینڈورفنز کے قدرتی اخراج کا سبب بنتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ انسان کے مزاج اور جسمانی صحت کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    لہٰذا بچوں کو موبائل اسکرینز سے ہٹاکر باہر کھیل کود میں وقت گزارنے کی ترغیب دینا انہیں موبائل کی لت میں مبتلا ہونے سے بچا سکتا ہے۔

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) کے مطابق درحقیقت بہت زیادہ موبائل فون اسکرین استعمال کرنے سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں کمزور تعلیمی کارکردگی، موٹاپا، بچوں میں منفی رویے جیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسی لیے بچوں کو کم از کم 60 منٹ آؤٹ ڈور گیمز یا گھر سے باہر میدان میں کھیلنا چاہیے، جس سے بچوں میں توازن میں بہتری، سماجی مہارت، زبان اور دیگر خوبیاں جنم لیتی ہیں۔

  • دربارا سنگھ ’بچوں کا قاتل‘ کیسے بنا؟ اغوا اور قتل کی خوفناک داستان

    دربارا سنگھ ’بچوں کا قاتل‘ کیسے بنا؟ اغوا اور قتل کی خوفناک داستان

    بدنام زمانہ مجرم دربارا سنگھ جسے بھارتی عدالت نے سیرل کلر قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی، 75 سال کی عمر میں چل بسا، اس سفاک قاتل نے ملک بھر میں دہشت کی فضا قائم کر رکھی تھی۔

    دربارا سنگھ کو 1975 میں بھارتی فضائیہ سے اس وقت برطرف کردیا گیا تھا جب اس نے پٹھان کوٹ ایئر بیس پر اپنے ایک سینئر افسر وی کے شرما سے تلخ کلامی کے بعد اس کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا، اس حملے میں افسر کی بیوی اور بیٹا زخمی ہوئے تھے۔

    دربارا سنگھ 1952 میں پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوا تھا وہ تین بچوں کا باپ تھا، اس کی بیوی نے اس کے ناپسندیدہ رویے سے تنگ آ کر اسے گھر سے نکال دیا تھا، جس کے بعد اس کے بدنام مستقبل اور مجرمانہ کارروائیوں کا آغاز ہوا۔

    جرائم کی ابتدا کیسے ہوئی؟

    انڈین ایئر فورس سے نکالے جانے کے بعد سنگھ ایک مجرم کے طور پر سامنے آیا، اس نے 1996 میں مجرمانہ سرگرمیوں کا آغاز کیا اور کپورتھلہ میں ایک لڑکی کی عصمت دری کے بعد اسے بے رحمی سے قتل کر دیا۔

    عدالت میں کیس چلتا رہا اور بالآخر اسے اگلے سال 1997 میں تین مقدمات میں ریپ اور اقدام قتل کا مجرم قرار دیا گیا اور اسے کپورتھلہ کی عدالت نے 30 سال کی قید کی سزا سنائی۔

    لیکن اس چالاک انسان نے اپنے معصومانہ رویے جیل حکام کو رام کیا اور رحم کی درخواست کی، جس کے بعد دربارا سنگھ کی سزا میں نرمی برتی گئی اور 5 سال بعد ہی اسے 3 دسمبر 2003میں جیل سے رہا کر دیا گیا۔

    جیل سے رہائی کے بعد بھی اس کی مجرمانہ سوچ نہ بدلی اور اس نے اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کیا۔

    بچوں کے اغوا اور قتل کی خوفناک داستان

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اپریل اور اکتوبر 2004 کے درمیان صرف کپور تھلہ شہر سے 23بچے غائب ہوئے، جن میں زیادہ تر مزدوروں کے بچے تھے اور ان کی عمریں 10 سال سے کم تھیں، یہ خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اس کے بعد پولیس کی نیندیں حرام ہوگئیں اور کارروائی کرتے ہوئے ان میں سے چھ بچوں کی لاشیں برآمد کیں۔

    رپورٹ کے مطابق بعد ازاں واقعات کی کئی ماہ تک مکمل تحقیقات کے بعد دربارا سنگھ کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بالآخر گرفتار کرلیا گیا تھا، سفاک مجرم نے اپنی گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ اگر اسے جلدی گرفتار نہ کیا جاتا تو وہ مزید بچوں کو قتل کردیتا۔

    اس نے پولیس کے سامنے بیان دیتے ہوئے 17 بچوں کے قتل کا برملا اعتراف کیا جن میں 15 لڑکیاں اور 2 لڑکے شامل تھے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے اس کے جرائم صرف قتل کی حد تک محدود نہیں تھے بلکہ اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا بھی شامل تھا۔

    مجرم کا طریقہ واردات کیا تھا؟

    دربارا سنگھ بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنی سائیکل پر سوار کرکے انہیں مٹھائی، سموسے اور پٹاخے دینے کا لالچ دیتا تھا اور عام طور پر 10 بجے سے دوپہر ساڑھے 12 بجے کے درمیان بچوں کو اغوا کرنے کی وارداتیں کیا کرتا تھا جب ان بچوں کے والدین اپنے کاموں میں مصروف ہوتے، دربارا سنگھ اتنی صفائی سے وارداتیں کیا کرتا تھا کہ پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتا تھا۔

    دوران تفتیش اس نے ایک واردات کی دلخراش تفصیلات بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس نے زیادہ تر وارداتیں پنجاب میں رایا کھڈور صاحب روڈ پر ایک پل کے قریب کیں جہاں اس نے بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے لاشوں کو ٹھکانے لگایا۔

    سال 2008میں عدالت نے اس کو سزائے موت سنائی لیکن بعد میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے اس کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔

    مجرم کی موت پر اہل خانہ نے کیا کہا؟

    سنگھ 2018 میں 75 سال کی عمر میں پٹیالہ جیل میں قید کی سزا بھگتنے کے دوران ہی چل بسا۔ اس کے خاندان نے اس کی لاش کو یہ کہہ کر وصول کرنے سے انکار کردیا کہ اس کے جرائم ناقابل معافی ہیں۔

    پٹیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ راجن کپور نے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے جالندھر پولیس سے کہا تھا کہ اس کی بیوی اور بچوں کو موت سے رابطہ کرکے اس کی موت کی اطلاع دیں لیکن انہوں نے لاش کو وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب ہم مقامی عدالت سے اجازت طلب کرکے لاش کو ہندوانہ رسم و رواج کے تحت جلاکر اس کی راکھ بہا دیں گے۔

  • روسی ایجنٹس کے بچوں کو جہاز میں پتہ چلا کہ وہ روسی ہیں

    روسی ایجنٹس کے بچوں کو جہاز میں پتہ چلا کہ وہ روسی ہیں

    ماسکو : روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مغربی ممالک میں قید سلیپر ایجنٹس کے اہل خانہ سمیت وطن واپسی پر ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کریملن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آزاد کیے گئے سلیپر ایجنٹوں کے بچوں کو دوران پرواز علم ہوا کہ وہ دراصل روسی باشندے ہیں۔

    روسی صدر ولادیمیر پوتن ذاتی طور پر مغربی ممالک کی قید سے رہائی پاکر آنے والوں کا استقبال کرنے کے لیے ایئر پورٹ پر پہنچے، یہ روسی شہری تھے جو مغربی ممالک میں زیر حراست تھے اور حال ہی میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہا کیے گئے تھے۔

    اس حوالے سے روسی ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ اس سے قبل سلیپر ایجنٹس کے بچے یہ بات نہیں جانتے تھے کہ وہ روسی ہیں اور ان کا اس ملک سے کوئی تعلق بھی ہے۔

    مذکورہ جب بچے طیارے کی سیڑھیوں سے نیچے اترے تو وہ روسی صدر پوتن نے ہسپانوی زبان میں ‘بیونس نوچس’ کہہ کر ان کا استقبال کیا۔

    مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مغربی ممالک اور روس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہائی پانے والوں میں جرمنی سے رہا ہونے والا ہٹ مین وادیم کراسیکوف بھی ہے، جو روس کی ایف بی ایس سیکورٹی سروس کا ملازم تھا اور ایف ایس بی کے خصوصی دستوں کے یونٹ الفا گروپ میں خدمات انجام دے چکا تھا۔

    کراسیکوف کو سال 2019 میں برلن میں ایک سابق چیچن جنگجو زیلم خان کو قتل کرنے کےالزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2021میں کراسکیوف کو اس مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ جرمنی ہی میں اپنی قید کاٹ رہا تھا۔

    گزشتہ شام ماسکو ایئر پورٹ پر طیارے سے اترنے کے بعد صدر ولادیمیر پوتن نے کراسکیوف کو خوش آمدید کہتے ہوئے گلے سے لگایا۔

    Moscow

    کراسیکوف بیس بال کی ٹوپی اور ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا، واپس آنے والوں میں یہ پہلا شخص تھا جس نے ہوائی جہاز سے اتر کر پوٹن سے ملاقات کی

    کریملن ترجمان کے مطابق رہا کیے جانے والوں میں نام نہاد "غیر قانونی” سلیپر ایجنٹ دلتسیو ان کی بیوی اور دو بچے بھی شامل ہیں، جنہیں سلووینیا کی ایک عدالت نے ارجنٹائن کا بہانہ کرکے جاسوسی کرنے کے جرم میں قید کی سزا سنائی تھی۔

    airport

    ترجمان نے بتایا کہ انہیں بھی ان کے دو بچوں کے ساتھ روس واپس بھیج دیا گیا ہے، پیسکوف نے مزید بتایا کہ جب اس جوڑے کو جیل میں رکھا گیا تھا تو انہیں صرف اپنے بچوں تک محدود رسائی دی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ مغربی ممالک اور روس کے درمیان ہونے والے قیدیوں کے اس تبادلے میں مجموعی طور پر 24 قیدی شامل تھے، جن میں سے 16 کو روس سے مغربی ممالک روانہ کیا گیا اور مغرب میں رکھے گئے آٹھ روسی قیدیوں کو واپس بھیجا گیا۔

  • فروٹ جوس پینے والے بچوں سے متعلق پریشان کن تحقیق سامنے آ گئی

    فروٹ جوس پینے والے بچوں سے متعلق پریشان کن تحقیق سامنے آ گئی

    فروٹ جوس پینے والے بچوں سے متعلق ایک پریشان کن تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جن بچوں کو والدین 100 فی صد پھلوں کا جوس پلاتے ہیں، ان کے موٹے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی طبی تحقیقی جریدے ’جاما پیڈیاٹرکس‘ میں شائع ہونے والی ریسرچ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ فروٹ جوسز پینے والے بچوں میں وزن بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور وہ جلد ہی موٹاپے کا شکار بن جاتے ہیں۔

    اس منفرد مگر طویل تحقیق کے لیے کینیڈا کے محققین نے اپنے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ بچوں اور بڑوں میں سو فی صد پھلوں کے رس کی مقدار اور جسمانی وزن کے درمیان کیا تعلق ہے؟ اس ریسرچ اسٹڈی کے تحت ماہرین نے تقریباً 46 ہزار بچوں اور ڈھائی لاکھ سے زیادہ بڑوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں کی جانے والی 42 مختلف تحقیقات کا بھی مطالعہ کیا۔

    ماہرین نے یہ جاننا چاہا کہ ایک سے 15 سال کے بچوں کو پھلوں کا جوس پلانے سے ان کے وزن میں کیا فرق پڑتا ہے؟ ریسرچ اسٹڈی میں بچوں میں سو فی صد پھلوں کے رس کے استعمال اور وزن میں اضافے کے درمیان ایک مثبت تعلق پایا گیا، تاہم بالغوں میں آزمائشوں کے تجزیے میں سو فی صد پھلوں کے رس کے استعمال اور جسمانی وزن کے درمیان کوئی خاص تعلق نہیں پایا گیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ بچوں کو سو فی صد پھلوں کا جوس پلانے سے ان کا وزن بڑھنے لگتا ہے اور وہ موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ ان کے زائد الوزن ہونے کا سلسلہ بڑی عمر تک چلتا رہتا ہے، ماہرین صحت کے مطابق عام طور پر ایک سال سے کم عمر بچوں کو جوس یا ڈرنکس نہیں دینی چاہیے، جب کہ 4 سال کی عمر کے بچوں کو یومیہ 4 اونس تک جوس دیا جانا چاہیے۔

    ماہرین صحت کے مطابق پھلوں میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے بچوں کا جوس پینا ان کے موٹاپے کا سبب بن سکتا ہے، جب کہ عام طور سے والدین یہ سوچ کر بچوں کو پھلوں کا جوس پلاتے ہیں کہ اس سے بچے صحت مند رہیں گے۔

    مذکورہ ریسرچ اسٹڈی کے نتائج دیکھ کر ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں پھلوں کے رس کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہیے، تاکہ زیادہ کیلوریز کی مقدار اور وزن میں اضافے کو روکا جا سکے۔

  • دبئی پبلک ٹرانسپورٹ میں بچے تنہا سفر کر سکتے ہیں؟ حکام کی ہدایت

    دبئی پبلک ٹرانسپورٹ میں بچے تنہا سفر کر سکتے ہیں؟ حکام کی ہدایت

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں حکام نے ہدایت جاری کی ہے کہ 8 سال سے کم عمر بچوں کو پبلک ٹرانسپورٹ میں تنہا سفر کی اجازت نہیں، 8 سے 11 سال تک کے بچے اپنے والدین کے اجازت نامے کے ساتھ سفر کرسکتے ہیں۔

    اردو نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات میں دبئی ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے خبردار کیا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں 8 برس سے کم عمر کے بچوں کو تنہا سفر کی اجازت نہیں۔

    8 سے 11 برس تک کے بچے پبلک ٹرانسپورٹ تنہا استعمال کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے پاس والدین میں سے کسی ایک کا اجازت نامہ موجود ہو۔

    ٹرانسپورٹ اتھارٹی دبئی کا کہنا ہے کہ بچوں کی سلامتی مشترکہ ذمہ داری ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں، اسٹیشنوں کے اہلکاروں اور رشتہ داروں کو مل جل کر بچوں کی سلامتی کا دھیان رکھنا ہوتا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ نول کارڈ میں کم از کم بیلنس 7.50 درہم ضروری ہے، علاوہ ازیں پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو منظم کرنے والے قواعد و ضوابط کی پابندی بھی لازمی ہے۔

    دبئی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے اوقات کار سے متعلق آن لائن معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں، اتھارٹی کی ویب سائٹ اور رابطہ سینٹر سھیل سے رابطہ کر کے بسوں اور میٹرو کے اوقات معلوم کیے جا سکتے ہیں۔

  • چھوٹے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر، ماں کئی ماہ کے لیے دوسرے شہر روانہ

    چھوٹے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر، ماں کئی ماہ کے لیے دوسرے شہر روانہ

    امریکا میں ایک خاتون اپنے چھوٹے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر کئی ماہ کے لیے دوسرے شہر روانہ ہوگئیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق 31 سالہ خاتون کو ریاست الباما میں گرفتار کرلیا گیا ہے جہاں وہ گزشتہ کئی ماہ سے رہ رہی تھیں۔

    وہ اپنی 13 سال کی بچی اور 3 سال کا بچہ ریاست ٹیکسس میں اپنے گھر پر اکیلے چھوڑ کر آئی تھیں اور بظاہر ان کے واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

    والد اس دوران بچوں کو کھانا بھیج رہے تھے اور جب ایک روز بڑی بچی کے منہ سے اتفاقاً نکل گیا، کہ والدہ گزشتہ کئی روز سے گھر پر نہیں تو وہ فوراً ٹیکسس پہنچے جہاں بچوں کو گھر پر اکیلا پایا۔

    والدہ نے بڑی بچی کو دھمکی تھی کہ اگر اس نے والد کو بتایا کہ وہ گھر پر نہیں تو وہ اس سے بری طرح پیش آئیں گی۔

    پولیس کو اطلاع دیے جانے کے بعد خاتون کی تلاش شروع کی گئی اور بالآخر انہیں ریاست الباما سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ ایک شخص کے ساتھ رہ رہی تھیں۔

    گرفتاری کے وقت خاتون کو کوئی پشیمانی نہیں تھی اور وہ مسکراتے ہوئے ہتھکڑیاں پہن کر پولیس کی گاڑی میں بیٹھیں۔

    پولیس نے بڑی بچی کو والد کے حوالے کردیا ہے جبکہ بچے کو، جس کے والد کوئی اور تھے، ایک قریبی رشتے دار کے حوالے کیا گیا ہے۔