Tag: Children

  • بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے تاہم ان میں علامات کم ظاہر ہوتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے مگر علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکی ریاست یوٹاہ اور نیویارک شہر میں بالغ افراد اور بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ملتا جلتا ہوتا ہے مگر بچوں میں اکثر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    تحقیق کے مطابق ہر عمر کے بچوں میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق ستمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران ہوئی جس میں ایک یا اس سے زائد تعداد والے بچوں پر مشتمل 310 مختلف گھرانوں کے 12 سو 36 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ان گھرانوں میں کووڈ 19 کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ایک گھر کے اندر کسی فرد کے کووڈ سے متاثر ہونے پر دیگر میں بیماری کا خطرہ 52 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    جب انہوں نے کووڈ کے مریضوں کی عمر کے گروپ کا تجزیہ کیا تو دریافت ہوا کہ ہر عمر کے ایک ہزار افراد میں بیماری کا خطرہ لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

    یعنی 4 سال کے ایک ہزار بچوں میں 6.3، 5 سے 11 سال کی عمر کے 4.4، 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں 6 اور بالغ افراد میں 5.1 میں اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں کرونا وائرس کی شرح لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہے اور اس سے بچوں میں ویکسی نیشن کی افادیت اور محفوظ ہونے کی برق رفتاری سے جانچ پڑتال کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں جب یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف عمر کے افراد میں علامات ظاہر ہونے کی شرح کیا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ 4 سال سے کم عمر 52 فیصد بچوں میں کووڈ سے متاثر کے بعد علامات ظاہر نہیں ہوتیں، 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 50 فیصد، 12 سے 17 سال کے گروپ میں 45 فیصد جبکہ بالغ افراد میں محض 12 فیصد تھی۔

  • تین سے 11سال کے بچوں کو ویکسین لگانے کی منظوری

    تین سے 11سال کے بچوں کو ویکسین لگانے کی منظوری

    بیونس آئرس : ارجنٹائن میں کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے3 سے11 سال کے بچوں کو سائنو فارم ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی گئی۔

    اس حوالے سے ارجنٹائن کے وزیر صحت کارلا ویزوٹی نے اعلان کردیا ہے جس کے مطابق ملک میں3 سے11 برس کی عمر کے تقریباً60 لاکھ بچے ہیں، اس سال کے آخر تک 3 سال سے اوپر کے تمام افراد کی ٹیکہ کاری مکمل کرنے کا منصوبہ ہے۔

    صحت کے حکام نے جمعرات کو کہا کہ ارجنٹینا نے حال ہی میں اس کی منظوری دی ہے، وزیر صحت کارلا ویزوٹی کے ایک اعلان کے مطابق ملک میں تین سے11 برس کی عمر کے تقریباً60 لاکھ بچے ہیں۔

    وزیر صحت نے کہا کہ ارجنٹینا اس سال کے آخر تک تین سال سے زائد عمر کے تمام افراد کی ویکسینیشن مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

    تعلیمی عہدیداروں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس اقدام سے ارجنٹینا میں بچے آن لائن کے بجائے اسکولوں میں جاکر تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

    ملک گزشتہ برس کے آغاز میں کورونا کا پہلا کیس درج ہونے کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 5263219کیس سامنے آئے ہیں اور115379 اموات ہوئی ہیں۔

  • امریکا میں بچوں کو کووڈ 19 ویکسین لگانے کی اجازت دینے پر غور

    امریکا میں بچوں کو کووڈ 19 ویکسین لگانے کی اجازت دینے پر غور

    واشنگٹن: امریکا میں بچوں کو کووڈ 19 ویکسین لگانے کی اجازت دینے پر غور شروع کردیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق 22 سو 68 بچوں پر کیے گئے تجربات حوصلہ افزا ہیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکی حکومت بچوں کو کووڈ 19 ویکسین لگانے کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہے، ملک بھر میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو بوسٹر شاٹس بھی لگانا شروع کردیے گئے۔

    امریکی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ حکام کو 5 سے 11 سال کے بچوں کو ویکسین لگانے کی اجازت کی درخواست دی گئی ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ تجربات سے ثابت ہوا کہ بچوں کے لیے کرونا ویکسین محفوظ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق 22 سو 68 بچوں پر کیے گئے تجربات حوصلہ افزا ہیں۔

    امریکا میں اس وقت ویکسین کے بوسٹر شاٹس کے حوالے سے بھی بحث جاری ہے اور ماہرین کی جانب سے اس پر مختلف آرا پیش کی جارہی ہیں۔

  • کیا بچوں کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے ؟؟

    کیا بچوں کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے ؟؟

    ایسے وقت میں جب کہ برطانیہ اور افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم ڈیلٹا پھیلنے کی خبریں آ رہی ہیں جو نہ صرف کوویڈ19 کے مقابلے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے بلکہ بچوں پر بھی حملہ کرتا ہے۔

    یہاں یہ سوال پیدا رہا ہے کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین بچوں کو دی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کو اس وائرس کے حملے سے بچانے کیلئے ویکسی نیشن بہت ضروری ہے۔

    کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے کا عمل بھی جاری ہے تاہم کئی ممالک نے اب اس عمل کو تیز کرتے ہوئے اپنے 18 برس سے کم عمر افراد کو بھی ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

    دوسری جانب برطانیہ میں بھی 12 سے 15 برس کے بچوں کو کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے فائزر کی ویکسین دی جائے گی تاہم ابھی انہیں اس ویکسین کی صرف ایک خوراک دی جائے گی۔

    اس کے علاوہ کچھ دیگر ممالک بھی بچوں کو ویکسن لگا رہے ہیں لیکن طریقہ کار مختلف ہے،  پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر(این سی او سی) کے مطابق پاکستان میں 15 سے 17 برس کے بچوں کی ویکسینیشن کا عمل 13 ستمبر سے شروع ہو چکا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام "باخبر سویرا” میں پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر جمال رضا نے ناظرین سے اہم باتیں شیئر کیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں کہا گیا کہ کورونا وائرس بچوں پر حملہ آور نہیں ہوتا لیکن اس کی شرح کم تھی، اب وقت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ نئی قسم ڈیلٹا کے آنے سے بچوں کی بڑی تعداد اس سے متاثر ہورہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جس طرح بڑی عمر کا کورونا مریض صحت یاب ہونے کے بعد دیگر جسمانی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا ہے اسی طرح چھوٹے بچے بھی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیِں۔

    اس موقع پر پروفیسر جمال رضا نے عوام سے اپیل کی کہ خدارا اس جان لیوا وائرس سے خود کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بچانے کیلئے ان کی ویکسی نیشن لازمی کرائیں۔

     

  • بچوں کی موبائل فون سرگرمیوں پر کیسے نظر رکھی جائے؟ والدین کیلئے اہم خبر

    بچوں کی موبائل فون سرگرمیوں پر کیسے نظر رکھی جائے؟ والدین کیلئے اہم خبر

    عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث جہاں معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں تو دوسری جانب تعلیمی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے سبب بچوں کا زیادہ تر وقت کھیل کود اور موبائل فون پر مختلف مصروفیات میں گزرتا ہے۔

    آج کے دور میں بہت سے والدین نہیں جانتے کہ ان کے بچے اپنے اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ پر کر کیا رہے ہیں؟ اگرچہ ایسے طریقے موجود ہیں جن سے وہ بچوں کی سوشل میڈیا آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ طریقے کتنے مؤثر ہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔

    اس حوالے سے اسمارٹ فون کی جانب سے ایک مخصوص ٹول متعارف کرایا گیا ہے جس کا نام نیورو میچ جس کی وجہ سے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال کرتے ہوئے والدین بچوں کی سرگرمیوں پر با آسانی نظر رکھ سکتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں انٹرنیٹ گورننس ایکسپرٹ فواد ریاض نے بتایا کہ یہ سسٹم والدین کو رہنمائی فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ بچے کس طرح کی ویڈیوز تصاویر اور دیگر مواد دیکھ رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مواد کو چھانٹی کرنے والا یہ سافٹ ویئر بہت کارآمد ہے، اس نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے والدین کیلئے ڈیجیٹل کنٹرول بہت آسان ہوجائے گا۔

    ماہرین صحت کا کہنا کہ موبائل فون اور آئی پیڈ پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے جسمانی مشقت سے دور ہوجاتے ہیں، جن بچوں کی عمر بھاگنے دوڑنے کی ہے وہ موبائل کی اسکرین سے جُڑ کر بیٹھ جاتے ہیں جو کہ ان کی صلاحیتوں کو محدود بلکہ کسی نہ کسی حد تک ختم کردیتا ہے۔

  • بچوں کی خوشی کیلئے ماں کا ناقابل یقین اقدام، دیکھنے والے حیران

    بچوں کی خوشی کیلئے ماں کا ناقابل یقین اقدام، دیکھنے والے حیران

    والدین سے تحائف وصول کرنا بچوں کیلئے ہمیشہ خوشگوار ہوتا ہے اور اگر تحفے نہایت قیمتی ہوں تو اس کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے لیکن والدین کیلئے بھی بچوں کے لئے تحائف کا انتخاب کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

    ایک آسٹریلین خاتون نے اپنی بچوں کی خوشی کیلئے انہیں انتہائی قیمتی ترین تحفہ دیا، مذکورہ خاتون تاجر روکسی جیسنکو نے ایک نئی سیون سیٹر قیمتی کار مرسڈیز بینز اپنے دو چھوٹے بچوں کے لیے ایک لاکھ 41ہزار پونڈ میں خریدی ہے۔

    یاد رہے کہ خاتون نے چند ماہ قبل بھی اسی قسم کی ایک قیمتی کار بچوں کو تحفہ دینے کے لیے خریدی تھی، ماں کی اس فراخ دلی پر یہ بچے جن کی عمریں سات اور نو برس ہیں حیران ہیں۔

    اس خریداری سے خاتون نے یہ ثابت کیا کہ جب بات بچوں کے جان کی حفاظت کی ہو تو پھر پیسہ کچھ نہیں ہوتا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 41سالہ روکسی کے پبلک ریلیشن گرو نے دعویٰ کیا ہے کہ مرسڈیز بینز میں موجود اضافی نشستیں ان کے بچوں کے پالتو جانوروں کو سفر کے دوران بٹھانے کے لیے ہے۔

  • کن بیماریوں کے باعث بچوں میں کرونا تیزی سے پھیلتا ہے؟

    کن بیماریوں کے باعث بچوں میں کرونا تیزی سے پھیلتا ہے؟

    عالمی وبا کرونا کے دنیا بھر میں وار جاری ہیں، اس وبا سے بچوں کی بڑی تعداد بھی متاثر ہونے لگی ہے، کن بچوں میں کووڈ کا خطرہ سنگین ہوتا ہے؟،نئی تحقیق میں اہم انکشاف ہوا ہے۔

    طبی پیچیدگیوں کی تاریخ اور پہلے سے مخصوص بیماریوں کے شکار بچوں میں کووڈ نائنٹین سے متاثر ہونے پر شدت سنگین ہونے کا خطرہ ہوجاتا ہے، یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔

    طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع تحقیق میں بچوں میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کے خطرات کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں کم وبیش آٹھ سو اسپتالوں میں کووڈ کے باعث زیرعلاج رہنے والے تینتالیس ہزار بچوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ 28.7 فیصد مریض پہلے سے کسی بیماری کا شکار تھے جن میں دمہ (10.2 فیصد)، دماغی نشوونما کے مسائل (3.9 فیصد)، ذہنی بے چینی اور ڈر سے متعلق امراض (3.2 فیصد)، ڈپریشن سے منسلک امراض (2.8 فیصد) اور موٹاپا (2.5 فیصد) سب سے عام تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: کیا ” ڈیلٹا پلس” ویرینٹ کرونا ویکسین کو چکمہ دے سکتا ہے؟

    تحقیق میں کہا گیا کہ ذیابیطس ٹائپ ون سے متاثر بچوں میں اسپتال میں داخلے کا خطرہ زیادہ دریافت کیا گیا جو 4.1 فیصد ہے جبکہ موٹاپا 3.07 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔

    اسی طرح دو سال سے کم عمر بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کے باعث استپال میں داخلے کا باعث بننے والے عناصر میں قبل از وقت پیدائش، دائمی اور پیچیدہ امراض قابل ذکر رہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ پہلے سے مختلف امراض کے شکار بچوں میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اور ویکسین کی ترجیحات جیسے اقدامات کیے جانے چاہیے۔

  • کیا بچے بھی اسنیپ چیٹ استعمال کر سکتے ہیں؟

    کیا بچے بھی اسنیپ چیٹ استعمال کر سکتے ہیں؟

    یہ سوال بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند والدین کے لیے بلاشبہ اہم ہو سکتا ہے، کہ کیا ان کے بچے اسنیپ چیٹ بھی استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو کب، کیسے؟

    سوشل میڈیا ماہرین کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ مندرجہ ذیل اہم باتوں کو ذہن نشین کر لیں، سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ 13 سال سے کم عمر بچوں کو اسنیپ چیٹ کے استعمال سے منع کیا گیا ہے۔

    اسنیپ چیٹ کے استعمال کے لیے قانونی شرط کے طور پر امریکا میں چلڈرن آن لائن پرائیویسی پروٹیکشن ایکٹ کی تعمیل کے لیے اس عمر کا انتخاب کیا گیا تھا، اس عمر کی شرط دیگر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے لیے بھی ہے۔

    دوسری اہم بات

    یہ ایپلی کیشن بچوں کو مکمل رازداری فراہم نہیں کرتا، دراصل کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مکمل رازداری ممکن نہیں، کیوں کہ اسنیپ شاٹس کو ڈیلیٹ کرنے کے بعد بھی فون سے میٹا ڈیٹا نکالا جا سکتا ہے اور اس میں اہم معلومات بھی ہو سکتی ہیں۔

    تیسری اہم بات

    یہ سوال کہ اسنیپ چیٹ بچوں کے لیے کیا مہیا کرتی ہے؟ دراصل اسنیپ چیٹ سے بچوں کو تصاویر، ویڈیوز، لکھے پیغامات اور ڈرائنگ کے اسنیپ شاٹس شیئر کرنے، اور اپنے فون سے لوگوں کی ایک مخصوص فہرست میں بھیجنے کی سہولت ملتی ہے۔

    چوتھی اہم بات

    جب بچہ کوئی اسکرین شاٹ بھیجتا ہے، تو دوسرے لوگ انھیں ڈاؤن لوڈ نہیں کر سکتے، لیکن وہ اس کا ’اسکرین شاٹ‘ لے کر دوسروں کو بھیج سکتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو سمجھائیں کہ کوئی نامناسب تصویر ہرگز شیئر نہ کریں۔

    پانچویں اہم بات

    بھیجی گئیں تصاویر اور ویڈیوز ہمیشہ ہی چند گھنٹوں بعد خود بخود ڈیلیٹ نہیں ہوتے، یا ہو سکتا ہے کہ انھیں اسکرین شاٹس کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہو، تو بچوں کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔

    چھٹی اہم بات

    اگر اسنیپ میپ فعال ہے تو دوسرے صارف معلوم کر سکیں گے کہ اسنیپ چیٹ استعمال کرنے والا بچہ کہاں بیٹھا ہے۔

  • لاک ڈاؤن میں بچوں کی نفسیاتی صحت اور مصروفیات کا کیسے خیال رکھا جائے؟

    لاک ڈاؤن میں بچوں کی نفسیاتی صحت اور مصروفیات کا کیسے خیال رکھا جائے؟

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران تمام بیرونی سرگرمیاں بند ہوجانے سے بچے آج کل گھروں پر ہیں اور ان کے والدین کو ان سے کافی شکایات ہیں، اہم یہ ہے کہ بچوں کے غصے کو کنٹرول اور ان کی ذہنی صحت کا خیال کیسے رکھا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں کلینیکل سائیکالوجسٹ حنا حمید شریک ہوئیں اور بچوں کی جارح مزاجی کو کنٹرول کرنے کے طریقے بتائے۔

    انہوں نے بتایا کہ وبا کی وجہ سے بچوں کی روٹین بے حد ڈسٹرب ہوئی ہے جس سے وہ غصیلے اور چڑچڑے ہوگئے ہیں۔

    حنا کا کہنا تھا کہ والدین کو چاہیئے کہ بچوں کا ایک شیڈول بنائیں جس میں پڑھائی، کھیل، کمپیوٹر / موبائل / ٹی وی کا استعمال، باہر جانا اور تخلیقی سرگرمیاں سب ہی کچھ شامل ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ والدین کی تربیت کا سب سے خطرناک انداز اتھارٹی والا ہوتا ہے جس میں وہ بچوں کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں، اور بچوں کی جذباتی و نفسیاتی ضروریات کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔

    ایسے بچوں کے اندر نظر انداز کا احساس اجاگر ہوتا ہے، وہ والدین سے دور ہوجاتے ہیں اور جذباتی طور پر کہیں اور منسلک ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انداز تربیت انتہائی خطرناک ہے۔

    اسی طرح بعض اوقات بہن بھائیوں میں آپس میں حسد و رقابت کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین ایک بچے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

    حنا کا کہنا تھا کہ جب بھی بہن بھائی آپس میں لڑیں تو والدین کسی ایک کی طرفداری کرنے کے بجائے دونوں کو بٹھا کر نرمی سے سوال و جواب کریں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، یہ طریقہ بچوں میں صحت مند مقابلے کا رجحان پروان چڑھائے گا۔

  • امریکا: راہ چلتے بچوں پر فائرنگ کردی گئی

    امریکا: راہ چلتے بچوں پر فائرنگ کردی گئی

    امریکا میں دو افراد کے درمیان ہاتھا پائی اس وقت ہولناک صورت اختیار کر گئی جب دونوں کے درمیان بچے آگئے اور ایک فریق نے براہ راست ان پر فائرنگ کردی۔

    امریکی شہر نیویارک میں پیش آنے والے اس واقعے کی ویڈیو نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ نے جاری کی ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو افراد ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہوئے تیزی سے بھاگ رہے ہیں، اچانک آگے والا شخص دو راہگیر بچوں سے ٹکراتا ہے اور انہیں بطور ڈھال اپنے اوپر گرانے اور کھینچنے کی کوشش کرتا ہے۔

    اس دوران دوسرا شخص بھی اس کے سر پر پہنچ جاتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے فائرنگ شروع کردیتا ہے۔ گرنے والا شخص مسلسل بچوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور فائرنگ کرنے والا بھی کئی فائر کرتا ہے۔

    خوش قسمتی سے دونوں بچے فائرنگ کی براہ راست زد میں ہونے کے باوجود محفوظ رہتے ہیں اور فائرنگ کا نشانہ بننے والا شخص زخمی ہوجاتا ہے۔

    پولیس کے مطابق بچی کی عمر 10 سال اور بچے کی عمر 5 سال تھی، ایک موقع پر بچی چھوٹے بچے کو بچانے کے لیے اپنے بازوؤں کے حصار میں بھی لے لیتی ہے۔

    فائرنگ کرنے والا ملزم ایک اور شخص کے ساتھ اسکوٹر پر جائے وقوعہ سے فرار ہوجاتا ہے۔

    نیویارک پولیس نے واقعے کی ویڈیو جاری کر کے عوام سے ملزم کی شناخت کرنے اور اسے ڈھونڈنے میں مدد کی اپیل کی ہے۔