Tag: Children

  • چین میں چاقو بردار خاتون کا کنڈر گارڈن پر حملہ، 14 بچے زخمی

    چین میں چاقو بردار خاتون کا کنڈر گارڈن پر حملہ، 14 بچے زخمی

    بیجنگ : چین کے کنڈر گارڈن میں موجود کم سن بچوں پر حکومتی پالیسیوں پر نالاں خاتون نے چاقو سے حملہ کردیا، چاقو زنی کی واردات میں 14 بچے بچے زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق چین کے جنوب مغربی شہر چونگ قنگ میں واقع کنڈر گارڈن میں 39 سالہ خاتون باورچی خانے میں استعمال ہونے والا چاقو لیے داخل ہوئی اور کھیل کے میدان میں موجود بچوں پر حملہ کردیا۔

    چینی پولیس کا کہنا ہے کہ افسوس ناک واقعہ جمعے کی صبح ضلع بنان میں واقع کنڈر گارڈن میں پیش آیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے حملے کی وجوہات تاحال واضح نہیں ہیں لیکن سماجی رابطوں کی رپورٹس کے مطابق خاتون حکومت سے کچھ شکایات تھیں۔

    چینی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ خاتون کی شناخت لیو کے نام ہوئی ہے جسے پولیس جائے وقوعہ سے گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن منتقل کردیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کنڈر گارڈن میں زخمی ہونے والے بچوں کو طبی امداد دینے والا عملہ اسپتال منتقل کررہا ہے، زخمی ہونے والے زیادہ تر بچوں کے چہروں پر زخم آئے ہیں۔

    برطانوی میڈیا کا کہن ہے کہ دوسری ویڈیو میں واضح نظر آرہا ہے کہ پولیس اہلکار حملہ آور خاتون کو گرفتار کرکے لے جارہی ہے۔

    پولیس نے میڈیا چینلز حادثے میں دو بچوں کی ہلاکت سے متعلق گردش کرنے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائیں سے گریز کریں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ چین میں پُر تشدد واقعات نا ہونے کے برابر ہیں لیکن کچھ برسوں سے اسکولوں اور کنڈر گارڈنز میں چاقو زنی کی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


    مزید پڑھیں : چین میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 7 طلبہ ہلاک، 10 سے زائد زخمی


    یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں 28 سالہ شخص چین کے صوبے میزہی کے میڈل اسکول میں چاقو سے طالب علموں پر حملہ کردیا تھا، جس کے نتیجے میں 9 بچے ہلاک جبکہ 10 سے زائد طالب علم زخمی ہوئے تھے، پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کرلیا۔

  • تھرمیں مزید دو بچے دم توڑ گئے، رواں ماہ تعداد 54 ہوگئی

    تھرمیں مزید دو بچے دم توڑ گئے، رواں ماہ تعداد 54 ہوگئی

    مٹھی: تھر پارکر میں آج مزید دو بچے بھوک اور بیماری کے سبب دم توڑگئے، رواں ماہ تھر میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد54 ہوچکی ہے۔

    مٹھی اسپتال ذرائع کے مطابق رواں سال مٹھی اسپتال میں علاج کی غرض سے لائےگئے518بچےانتقال کرچکےہیں جبکہ اسپتال میں اس وقت بھی 80 بچے زیرعلاج ہیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے تھر کی صورت حال پر نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایک بھی بچہ غذائی قلت سے نہیں مرنا چاہیے۔ وہ کل تھر کا دورہ بھی کریں گے۔

    دوسری جانب سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ تھر کے مسئلے کے حل کے لیے جلد ہی پیکج کا اعلان کریں گے ، چیف جسٹس نے جب پیکج کی تاریخ کے بارے استفار کیا تھا تو اے جی سندھ نے کہا تھا کہ آئندہ 15 روز میں تھر امدادی کارروائیاں شروع ہوجائیں گی۔

    ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو یہ بھی کہا تھا کہ تھر میں صرف گندم فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں، تھر سے متعلق ہم نے پیکیج بنایا ہے۔ پیکیج میں گندم، چاول، چینی، کوکنگ آئل اور دالیں شامل ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کہ تھر میں 60 ہزار سے زائد افراد خط غربت سے نیچے ہیں، غریب افراد دو ردراز علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا انتظام کر رہے ہیں جہاں علاج اور خوراک کی سہولت یکجا ہو۔

    دوسری جانب پیپلز پارٹی کی رہنما کرشنا کماری کا اس موضوع پر کہنا تھا کہ جنہوں نے تھر دیکھا تک نہیں وہ تجزیے کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی ترجیح تھر کی ترقی ہے۔

    انہوں نے دعویٰ کیا کہ تھر والوں کو گزشتہ چھ سال سے وفاقی حکومت کی جانب سے کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو تھر کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں، یہاں غربت اور کم عمری میں شادی کی روایت کے سبب یہ مسائل پیش آتے ہیں۔

  • کمسن بچوں میں خودکشی کے اسباب اوران کا تدارک

    کمسن بچوں میں خودکشی کے اسباب اوران کا تدارک

    گزشتہ روز شہرِ قائد میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا، فیڈرل بی ایریا میں واقع ایک نجی اسکول کے طالب علم نے زندگی کے ان دنوں میں اپنی جان دینے کافیصلہ کیا جن دنوں میں کوئی انسان جینے کے لیے نئے نئے مقاصد تلاش رہا ہوتا ہے، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی کمسن ذہن خودکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس کے سدباب کے کیا طریقے ہیں؟۔

    حبیب اللہ کی عمر 11 سال تھی ، پانچویں جماعت کے اس طالب علم نے اسکول کی بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی، ذرائع کا کہنا ہے کہ بچہ شوگرکا مریض بھی تھا۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اسکول انتظامیہ بچے کے والدین کے ساتھ تعاون نہیں کررہی اور تاحال انہیں سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی گئی۔

    [bs-quote quote=”شوگر کے مریض تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، یہ حالتیں کسی بھی شخص کو خودکشی کی جانب مائل کرسکتی ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”ڈاکٹر روحی افروز”][/bs-quote]

    یقیناً یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ اسکول جہاں والدین اپنے بچے کو یہ سوچ کر چھوڑ کرجاتے ہیں کہ یہاں گزارے ہوئے وقت کے دوران ان کا بچہ اچھی تعلیم او رتربیت حاصل کرکے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنے گا، وہیں ایسا سانحہ پیش آجائے۔ یقیناً اسکول کے اوقات میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ انتظامیہ کو اس حادثے سے بری الذمہ قرار دیا جائے۔ ابھی تو یہ بات بھی زیرِ بحث ہے کہ آیا یہ خودکشی تھی یا قتل کی واردات ہے۔

    جب تک اس کیس کی تحقیقات آگے بڑھتی ہیں ، ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ایسی کونسی وجوہات ہیں جن کے سبب کوئی کم عمر یا ٹین ایجر بچہ اس حد تک دلبرداشتہ ہوجاتا ہے کہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائے۔

    کم عمربچوں میں خودکشی کے بنیادی اسباب


    دنیا کے نامور ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ کم عمر بچوں میں خود کشی کرنے کی وجوہات انتہائی کم ہوتی ہیں اور اگر کوئی بچہ خودکشی کررہا ہے تو اس کے لیے حالات یقیناً اس کے ارد گرد موجود افراد نے پیدا کیے ہیں۔

    اسکول میں بدمعاشی کا نشانہ بننا

    ہم میں سے اکثر اپنی اسکول لائف میں بڑے طالب علموں کی جانب سے بدمعاشی کی حد تک برے رویے کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جس اسکول میں ہم اپنے بچے کو بھیج رہے ہیں وہاں طرح طرح کے خاندانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچےآتے ہیں۔

    ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کہیں کوئی بدمعاش آپ کے بچے کو بدمعاشی کا نشانہ تو نہیں بنا رہا۔ بعض بچے اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ ایسے واقعات پر اگر ان کی سنوائی نہ ہو تو موت کو گلےلگانا بہتر سمجھتے ہیں۔

    اچھے اسکول میں داخلہ نہ ملنا

    بعض بچوں کے والدین ان کی تعلیم کو لے کر حد سے زیادہ سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ عموماً پرائمری کے بعد ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ کسی اچھے اسکول میں داخل ہوجائے۔ اگر بچہ ایسے اسکولوں کا امتحان پاس کرنے میں ناکام ہوجائے تو والدین نادانی میں بچے کو طنز و تشنع کا نشانہ بناتے ہیں ، جس سے بچے کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے، یہ بھی بچوں کو خودکشی پر راغب کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    بہن بھائیوں کا برا برتاؤ

    بعض گھروں میں بہن بھائیوں کے آپسی رویے پر توجہ نہیں دی جاتی اور ایسے ماحول میں کوئی ایک بچہ جو بہت زیادہ بولڈ نہیں ہوتا ، اپنے بہن بھائیوں کے برے رویے کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بہن بھائیوں کے خراب رویے خاندان میں تفریق کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات کچھ بچے اس حد تک دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں کہ خودکشی کرلیتے ہیں۔

    کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا

    یہ رویہ عموماً ان بچوں میں نشونما پاتا ہے جہاں الگ خاندان کا رواج رائج ہے ، اور ماں باپ فکر ِ معاش میں بدحال اپنے بچے پر توجہ نہیں دے پارہے ہوتے۔ ایسے ماحول میں بچے کے اندر شدت سے تنہائی کا احساس ابھر آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس بھری دنیا میں اسے پیار کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ احساس کبھی کبھار اس قدر توانا ہوتا ہے کہ بچہ خود کشی پر مائل ہوجاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ گاہے بگاہے بچے کو گلے لگا کر ، اسے پیار کرکے احساس دلائیں کہ آپ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

    جنسی یا جسمانی تشدد

    اگر کوئی بچہ جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوا ہے یا اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے تو یاد رکھیے ایسا بچہ شدید خطرے میں ہے ۔تشدد بالخصوص جنسی تشدد بچے کے ذہن میں انتہائی منفی خیالات کو فروغ دیتا ہے اور یہ خیالات بچے کو خودکشی کی جانب راغب کرتے ہیں۔

    برے والدین

    بچے پالنا یقیناً ایک بڑی ذمہ داری ہے، شادی کے بعد جوڑوں کو چاہیے کہ پہلے ایک دوسروں کو سمجھیں اور اپنے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیں، اسکے بعد بچے پیدا کرنے کا سوچیں ۔ جن والدین میں ہم آہنگی نہیں ہوتی اور وہ آپس میں ہر وقت آمادہ پیکار رہتے ہیں، تو لازمی امر کے بچے میں اس جنگ میں نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات اس سلسلے میں بچوں کو دونوں جانب سے تشد د کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ والدین کے خراب رویے بچے میں خود کشی کے خیال کو مہمیز کرتے ہیں۔

    احساس کمتری

    بعض رشتوں کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ دکھاوے کو ہی صحیح لیکن ہم اپنے بچے پر کسی دوسرے کے بچے کو ترجیح دے دیتے ہیں، یا اپنے بچے کے سامنے کسی اور کے بچے تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں۔ خبردار ! یہ رویہ آپ کے بچے میں احساس کمتری کو جنم دے گا جو اس کے لیے جینا دشوار کردے گی، والدین کے لیے ان کا بچہ ہی دنیا کا سب سے اہم بچہ ہونا چاہیےاور انہیں اس کا علی اعلان اظہار بھی کرنا چاہیے۔

    پسندیدہ شخصیت کی موت

    کسی قریبی شخصیت کی موت بھی بچوں کو خودکشی کی جانب راغب کرسکتی ہے ، خصوصاً ٹین ایج میں ایسے معاملات دیکھنے میں آتے ہیں ، ایسے کسی افسوس ناک سانحے کی صورت میں فوری اپنے بچے کو وقت دینا شروع کریں اور اسے زندگی کے معنوں سے روشناس کرائیں۔

    بچوں میں خود کشی کی شرح

    آپ نے اپنے سرکل میں آخری بار کسی بچے کی خودکشی کے بارے میں کب سنا تھا؟ شاید کئی سال پہلے یا کبھی نہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے خودکشی نہیں کرتے، امریکا میں سنہ 1999 سے لے کر 2015 تک 1309 بچوں نے خود کشی کی، ان بچوں کی عمر 5 سے 12 سال کے درمیان تھی۔

    پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں خودکشی کو مذہب نے حرام اور بد ترین فعل قرار دیا ہو،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سنہ 2011 میں اقدام خودکشی کے 1،153 اور خودکشی کے 2،131 واقعات پیش آئے ، جن میں اکثریت 30 سال سے کمر عمر افراد کی تھی اور اس میں بھی اکثریت ٹین ایجر تھی، ہر گزرتے سال اس شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    حبیب اللہ کی خودکشی


    کراچی نفسیاتی اسپتال سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر روحی افروز نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاحال اس بچے کی خودکشی کے اسباب واضح نہیں ہیں کہ آیا اس پر اسکول کی جانب سے کوئی دباؤ تھا یا گھر کے حالات اس کی خودکشی کا سبب بنے لیکن اس کیس میں اہم بات اس بچے کو شوگر کا مرض لاحق ہونا ہے۔

    انہو ں نے بتایا کہ شوگر ایک ایسی بیماری ہے جو ایک جانب تو مریض کو جسمانی طور پر کمزور کردیتی ہے تو دوسری جانب اس کی ذہنی قوت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر افروز کے مطابق شوگر کا مریض تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور اکثر ڈپریشن کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں ایسی ہیں جو کہ خود کشی کے لیے ماحول تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ایسا مریض اپنی کمزور قوت فیصلہ کے سبب کبھی بھی خود کشی کیجانب مائل ہوسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر


    اسکول کے زمانے میں ہم نے اساتذہ سے سنا تھا کہ بچوں کے سرمیں درد نہیں ہوتا، ایسا ہی کچھ رویہ ہمارا بچوں کے جذبات اور احساسات کے متعلق بھی ہوتا ہے کہ ’بچہ تو ہے اسے کیا پتا‘؟ وغیرہ وغیرہ۔ یاد رکھیے کہ بچوں میں جذبات زیادہ شدید ہوتے ہیں اوربڑوں کی نسبت انہیں زیادہ جذباتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ درج ذیل تدابیر سے آپ اپنے یا اپنے ارد گرد کے کسی بھی بچے کو خود کشی کرنے سے بچا سکتے ہیں:

    بچے کو اس کی اہمیت کا اندازہ کرائیں، اسے بتائیں کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہے، کسی کو بھی اس پر فوقیت حاصل نہیں۔

    اپنے بچے سے پیار کا اظہار کریں، اسے چومیں اور گلے سے لگایا کریں، یاد رکھیں گلے لگانا ایک انتہائی سود مند نفسیاتی ٹانک ہے۔

    بچے پراسکول اور تعلیم کو مسلط نہ کریں، اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو اس کی کمزوری کے اسباب معلوم کرکے انہیں دور کرنے پر    کام کریں۔

    بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے سے گریز کریں، انہیں منفی واقعات نہ سنائیں اور نہ ہی ٹی وی اور انٹرنیٹ پر ایسا مواد دیکھنے دیں۔

    بچوں کی تنہائیوں کی حفاظت کریں، خیال رکھیں کہ آپ کا بچہ تنہائی میں کیا کرتا ہے، کیا سوچتا ہے اور کیسے عمل کرتا ہے؟۔ تنہائی کی صورت میں انہیں منفی خیالات میں الجھنے سے بچائے رکھنے کا اہتمام کریں۔

    آپ کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو زندگی کے معانی سےر وشناس کرائیں، زندگی کے مثبت اغراض و مقاصد اس کے سامنے رکھیں۔

    بچے سے ہر معاملے پر کھل کر گفتگو کریں اور اسے اتنا اعتماد دیں کہ وہ گھر سے باہر خود پر بیتنے والی ہر بات آپ کو بتاسکے۔


    یاد رکھیے! بچے تو پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں ، ان کی حفاظت اور بہترین ذہنی اور جسمانی نگہداشت بحیثیت والدین آپ کی ذمہ داری ہے جس سے آپ اپنی ذمہ داریوں کو آڑ بنا کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اگر آج آپ اپنے بچے کی تربیت اور حفاظت کو نظر انداز کریں گے تو خدانخواستہ کل کو پچھتاوا بھی آپ کا مقدر ہوسکتا ہے۔

  • کراچی: بچے کی لاش ملنے کا واقعہ، ایڈیشنل آئی جی کی متاثرہ بچے کے گھر آمد

    کراچی: بچے کی لاش ملنے کا واقعہ، ایڈیشنل آئی جی کی متاثرہ بچے کے گھر آمد

    کراچی: شہرقائد سے گذشتہ روز بچے کی لاش ملنے کے واقعے پر ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ متاثرہ بچے کے گھر پہنچے اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے سائٹ سپرہائی وے سے گزشتہ روز بچے کی لاش ملی تھی اسی حوالے سے ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ سہراب گوٹھ میں متاثرہ بچے کے گھر پہنچ کر اہل خانہ سے تعزیت کی۔

    پولیس چیف امیر احمد شیخ نے بچے کے والد کو پولیس کی تفتیش سے آگاہ کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ مشکوک شخص کو حراست میں لیا ہے تفتیش جاری ہے۔

    کراچی سے اغوا ہونے والے بچے کی لاش مل گئی

    خیال رہے کہ گذشتہ روز کراچی کے علاقے سائٹ تھانہ سپرہائی وے سے ملنے والی لاش کی شناخت بارہ سالہ ریحان خان نے نام سے ہوئی تھی، بچے کو 26 اگست کو اغوا کیا گیا تھا۔

    اس موقع پر پولیس نے کہا تھا کہ جاں بحق ریحان خان کی عمر بارہ سے چودہ سال کےدرمیان تھی، ریحان خان کو تھانہ سہراب گوٹھ کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا، تھانہ سہراب گوٹھ میں اغواکا مقدمہ درج ہے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز نیو کراچی کے علاقے بلال کالونی میں چھ سال ہبچہ حذٰیفہ لاپتہ ہونے پر اہل علاقہ شدید مشتعل ہوگئے تھے، بعد ازاں علاقہ میدان جنگ بن گیا، سڑک بلاک کردی گئی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔

  • کراچی سے اغوا ہونے والے بچے کی لاش مل گئی

    کراچی سے اغوا ہونے والے بچے کی لاش مل گئی

    کراچی: شہرقائد سے اغوا ہونے والے بچے ریحان خان کی لاش مل گئی، بچے کو تھانہ سہراب گوٹھ کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے سائٹ تھانہ سپرہائی وے سے ملنے والی لاش کی شناخت ہوگئی، بارہ سالہ ریحان خان کو 26 اگست کو اغوا کیا گیا تھا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ جاں بحق ریحان خان کی عمر بارہ سے چودہ سال کےدرمیان تھی، ریحان خان کو تھانہ سہراب گوٹھ کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا، تھانہ سہراب گوٹھ میں اغواکا مقدمہ درج ہے۔

    کراچی: کورنگی میں بچی کو اغوا کرنے کی کوشش ناکام‘ ملزم گرفتار

    واضح رہے کہ نیو کراچی کے علاقے بلال کالونی میں چھ سال ہبچہ حذٰیفہ لاپتہ ہونے پر اہل علاقہ شدید مشتعل ہوگئے، علاقہ میدان جنگ بن گیا، سڑک بلاک کردی گئی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔

    نیوکراچی کی بلال کالونی کا چھ سال کا حذیفہ جھولا جھولنے کیلئے گھر سے نکلا تھا جسے اغواء کار اٹھا کر لے گئے۔ حذیفہ کے رشتے داروں نے بتایا کہ خاتون اور افراد موٹرسائیکل پر آئے تھے جو بچے کو اپنے ساتھ لے گئے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں شہر قائد کے علاقے کورنگی میں علاقہ مکینوں نے بچی کے اغوا کی کوشش ناکام بناتے ہوئے ملزم کو پکڑ لیا تھا۔

  • انٹرنیٹ کا غلط لیٹریچر بچوں کی جنسی بے راہ روی کا باعث ہے، ساجد جاوید

    انٹرنیٹ کا غلط لیٹریچر بچوں کی جنسی بے راہ روی کا باعث ہے، ساجد جاوید

    لندن : برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے کہا ہے کہ برطانیہ کی سطح پر 80 ہزار ویب سایٹ اور افراد بچوں کی آن لائن جنسی ہراسگی میں ملوث ہیں، انٹرنیٹ پر غیر مناسب مواد بچوں کی جنسی بے راہ روی کا باعث بن رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے وزیر داخلہ ساجد جاوید نے سماجی رابطوں کی ویب سایٹس پر موجود نامناسب مواد کو بچوں کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ انٹر نیٹ پر موجود غلط قسم کا مواد بچوں کو جنسی بے راہ روی پر گامزن کررہا ہے۔

    برطانوی وزیر داخلہ نے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ’مذکورہ ادارے ایسی ویب سایٹس پر پابندی لگائیں جو بچوں تک فحش مواد پہنچا رہے ہیں‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ساجد جاوید کا کہنا تھا کہ چند ویب سایٹس ایسی ہیں جو بچوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، بچوں کی براہ راست ہراسگی ملک کا بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فیس بُک، گوگل اور میکروسافٹ نے بچوں تک نامناسب مواد کی فراہمی کی روک تھام کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

    ساجد جاوید نےبچوں کی حفاظت سے متعلق کام کرنے والی تنظیم کے زیر اہتمام معنقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ذاتی طور پر گوگل، فیس بک مائیکرو سافٹ، ٹوئٹر اور ایپل کی انتظامیہ سے بچوں کی غلط مواد کی رسائی کی روک تھام کے لیے رابطہ کیا تھا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے برطانیہ کی وفاقی کابینہ کے رکن جیریمی ہنٹ نے مذکورہ مسئلے پر برطانیہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر گوگل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق گذشتہ 5 برس کے دوران بچوں کے جسی استحصال اور ہراسگی کے معاملات میں 700 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ نئے اعداد و شمار کے مطابق 80 ہزار کے قریب ویب سایٹس اور افراد بچوں کی آن لائن ہراسگی میں ملوث ہیں۔

  • سعودی عرب: بچوں کو تعلیم سے روکنے والے والدین کو وارننگ جاری

    سعودی عرب: بچوں کو تعلیم سے روکنے والے والدین کو وارننگ جاری

    ریاض : سعودی عرب کے جنرل پراسیکیوشن نے وارننگ جاری کی ہے کہ بچوں کو تعلیم کے حصول سے روکنے یا تعلیم کے لیے مناسب ماحول فراہم نہ کرنے والے والدین کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے حکام کی جانب سے ریاست میں بسنے والے تمام شہریوں کو متبنہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کےلیے ہر ممکن معاونت فراہم کریں اگر بچوں کو علم حاصل کرنے سے روکا گیا تو والدین سزا کے مرتکب قرار پائیں گے۔

    سعودی عرب کے جنرل پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کی تعلیمی راہ میں حائل ہوں گے انہیں علم حاصل کرنے سے روکنے پر چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی شق نمبر 4 کے تحت سزائیں دی جائیں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جنرل پراسیکیوشن نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا ہے کہ تمام والدین کی قانوناً یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے بہتر ماحول اور حالات پیدا کریں۔

    سعودی جنرل پراسیکیوشن نے کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں کی تعلیم منقطع کرنا ان کو تکلیف دینے کے مترادف ہے جو عدم توجہی کی صورت میں ہوتا ہے، جو ریاستی قوانین کی خلاف ورزی شمار کیا جائے گا۔

    سعودی عرب کے وزارت تعلیم نے کہا ہے کہ پرائمری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی 30 فیصد سے زائد چھٹیوں کی صورت میں بھی والدین سے باز پرش کی جائے گی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔

  • شکاگو: عمارت میں آتش زدگی، بچوں سمیت 8 افراد ہلاک

    شکاگو: عمارت میں آتش زدگی، بچوں سمیت 8 افراد ہلاک

    واشنگٹن: امریکی شہر شکاگو کی ایک عمارت میں آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت 8 افراد ہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی شہر شکاگو کے علاقے لٹل ولیج میں ایک عمارت میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کے باعث بچوں سمیت آٹھ افراد کی اموات ہوئیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چھ بچے شامل ہیں اور تمام افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے، تاہم عمارت میں آگ لگنے کی وجوہات اب تک سامنے نہیں آسکیں۔

    لٹل وليج نامی علاقے ميں ایک عمارت میں آتش زدگی کے بعد فائر بریگیڈ کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے طلب کيا گيا تھا، تاہم چندرپورٹروں کے مطابق اس آگ کے نتیجے میں عمارت سے جڑی دوسری عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

    امریکا: ٹرمپ ٹاورمیں خوفناک آتشزدگی‘1 شخص جُھلس کرہلاک،4 زخمی

    حکام کا کہنا ہے کہ آگ عمارت کی دوسری منزل پر لگی جبکہ پہلی منزل میں کوئی رہائش نہیں تھی، اگر بروقت کارروائی نہیں کی جاتی تو نقصان اس سے زیادہ ہوسکتا تھا۔

    فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں دو بچے زخمی بھی ہوئے تھے جنہیں مقامی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر ہے جبکہ آگ لگنے کی وجوہات معلوم کی جارہی ہیں۔

    خیال رہے کہ رواں سال فروری میں امریکا کے شہر نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں واقع 56 منزلہ ٹرمپ ٹاورمیں اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں ایک شخص جُھلس کر ہلاک ہوگیا تھا۔

  • امریکی پادریوں کے ہاتھوں ۱ہزار بچے جنسی استحصال کا شکار

    امریکی پادریوں کے ہاتھوں ۱ہزار بچے جنسی استحصال کا شکار

    واشنگٹن : گرینڈ جیوری نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا کے 1 ہزار سے زائد بچے کیتھولک چرچ کے تقریباً 300 پادریوں کی ہوس کا نشانہ بنے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی ریاست پینسلوینا کے چھ شہروں کے کیتھولک چرچ انتظامیہ سے حاصل کی جانے والے رپورٹ و دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ مسیحی برادری کے تقریباً 300 مذہبی پیشواؤں کی جانب سے ایک ہزار سے زائد کم عمر بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

    گرینڈ جیوری کی رپورٹ کے مطابق جاری کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ سنہ 1947 سے اب تک ہونے والے جنسی زیادتی کیسز پر مشتمل ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا عدالتی دستاویزات میں کہا گیا ہے ’ہمیں یقین ہے کہ مسیحی پادریوں کے جنسی ہوس کا نشانہ بننے والے درجنوں بچوں کا ریکارڈ غائب ہے یا پھر متاثرہ افراد دنیا کے سامنے آنے سے خوفزدہ ہورہے ہیں‘۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ’کیتھولک چرچ کے مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں کم عمر بچوں اور بچیوں کی عصمت دری ہوتی رہی ہے لیکن ذمہ دار افراد کی جانب سے بچوں کے جنسی زیادتی پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا اور ان کے جرم کی بھی پردہ پوشی کی‘۔

    گرینڈ جیوری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں اور بچیوں کا جنسی استحصال کرنے والے پادری طویل عرصے سے مختلف عہدوں پر فائز ہیں اور ذمہ داروں کی جانب سے انہیں حقائق جاننے کے باوجود تحفظ فراہم کیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کیتھولک انتظامیہ نے جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث کئی پادریوں کو اعلیٰ عہدوں تعینات کردیا تھا۔

    امریکا کی گرینڈ جیوری کی جانب سے وضاحت پیش کی گئی ہے کہ کیتھولک چرچ کے نظام حقائق کی پردہ پوشی کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 1 ہزار بچوں کی عصمت دری سے متعلق واقعات کی نشاندہی امریکا کی سیکیورٹی ایجنسی ایف بی آئی کے اہلکاروں نے کی تھی، ایف بی آئی اہلکاروں کو واقعات کا علم کیتھولک چرچ کی دستاویزات دیکھنے کے بعد ہوا تھا۔

    یاد رہے کہ جون میں پوپ فرانسس نے بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث چلی کے تین پادریوں کے استعفے منظور کیے تھے، ایک اطلاع کے مطابق پادریوں کی جانب سے مشترکہ استعفیٰ دو دہائی قبل دیا گیا۔

    ویٹی کن سٹی سے جاری کردہ بیان کے مطابق استعفیٰ دینے والوں میں 61 سالہ پادری جان بیروس شامل ہیں، انہیں 2015 میں منتخب کیا گیا تھا۔

    بشپ جان بیروس پر الزام تھا کہ انہوں نے فرنینڈو کرادیما کی خرافات کو چھپانے کی کوشش کی ہے، ویٹی کین نے فرنینڈو کرادیما پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے الزامات پر انہیں تاحیات منصب سے معطل کردیا تھا۔

  • موبائل پر 9 گھنٹے گیمز کھیلنے والا بچہ قابل رحم حالت کا شکار

    موبائل پر 9 گھنٹے گیمز کھیلنے والا بچہ قابل رحم حالت کا شکار

    فلپائن میں ایک 6 سالہ بچہ 9 گھنٹے سے بھی زیادہ وقت تک موبائل پر گیمز کھیلنے کی وجہ سے تشنج اور مختلف طبی مسائل کا شکار ہوگیا۔

    جان ناتھن نامی یہ بچہ روزانہ 9 گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون پر گیمز کھیلنے میں اپنا وقت گزارتا ہے۔

    کچھ عرصے سے اس کی جسمانی حالت میں عجیب و غریب تبدیلیاں آرہی تھیں۔ اس کی آنکھیں مسلسل جھپکتی رہتی ہیں جبکہ ہونٹ بھی ہر وقت لرزتے رہتے ہیں۔

    پہلی بار اس کی یہ حالت دیکھنے کے بعد جان کے والدین اسے فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے گئے تاہم ڈاکٹر نے اسے بالکل تندرست قرار دیا۔

    مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریوں کو خوش آمدید کہیئے

    والدین کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اس کی اس حالت کا ذمہ دار اسمارٹ فون ہے اور اب انہوں نے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کو اس کی پہنچ سے بالکل دور کردیا ہے اس کے باوجود اچانک جان کو دورہ پڑتا ہے اور وہ کافی دیر تک لرزتا رہتا ہے۔

    ڈاکٹرز کی رائے ہے کہ جان اسمارٹ فون کے نشے کا شکار ہوچکا ہے اور اس کی یہ حالت ایسی ہی ہے جیسے منشیات کے عادی شخص کی مشیات نہ ملنے پر ہوتی ہے۔

    خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل کی جانے والی تحقیق میں خوفناک انکشاف ہوا تھا کہ جدید دور کی یہ اشیا یعنی کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ بچوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔

    طبی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس لت کا شکار بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔

    اس کے برعکس جب بچے اپنی اس لت سے دور رہتے ہیں تو وہ بیزار، اداس اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض بچے چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہوگئے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جو بچے اسمارٹ فونز پر مختلف گیم کھیلنے کی لت کا شکار ہوگئے وہ حقیقی دنیا سے کٹ سے گئے اور ہر وقت ایک تصوراتی دنیا میں مگن رہنے لگے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی دیکھا گیا۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ تمام علامتیں وہی ہیں جو ایک ہیروئن، افیون یا کسی اور نشے کا شکار شخص کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے اسے ڈیجیٹل فارمیکا (فارمیکا یونانی زبان میں نشہ آور شے کو کہا جاتا ہے) کا نام دیا۔