Tag: children’s

  • بچوں میں ہکلاہٹ کا مرض، والدین کیلئے انتہائی اہم معلومات

    بچوں میں ہکلاہٹ کا مرض، والدین کیلئے انتہائی اہم معلومات

    ہکلانے پر قابو پانا ممکن ہے! بچوں میں ہکلاپن 2 سے 4 سال کی عمر کے درمیان پایا جاتا ہے، ہکلاہٹ کے شکار بچوں پر تنقید نہ کریں بلکہ ان کا علاج کروائیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت 7 کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکلاہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں لکنت ہے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ہکلاہٹ کی پریشانی انسانوں کو کیوں ہوتی ہے اور اس پریشانی کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے؟

    اسی سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسپیچ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر سید سیف اللہ کاظمی نے اس مرض کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا اور اس کے علاج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔

    ڈاکٹر سید سیف اللہ کاظمی نے بتایا کہ زبان میں پیدا ہونے والی اس لرزش یا لڑکھڑاہٹ کو ہکلاہٹ (اسٹٹرینگ) کہتے ہیں۔ اس مرض میں گفتگو کے دوران حرف کی ادائیگی میں پریشانی ہوتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات ہمارے اطراف میں ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جن کے بولتے وقت ان کی زبان میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے، جسے ہکلاہٹ یا لکنت کہا جاتا ہے، اگر اس مرض کو بچپن میں درست نہیں کیا گیا تو زندگی کے اہم مراحل میں یہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

    ڈاکٹر سید سیف اللہ کاظمی کا کہنا تھا کہ ہکلاہٹ کی بےشمار وجوہات ہیں جن میں سب سے نمایاں وجہ خاندانی سمجھی جاتی ہے، بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ یہ مرض والدین میں پائے جاتے ہیں اور بعد میں یہ پریشانی والدین کے جین کے ذریعہ بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔

     اسپیچ پیتھالوجسٹ کے مطابق تناؤنفسیاتی مسائل کے باعث بھی لوگوں کو گفتگو کرنے میں ہکلاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض اوقات حادثات دماغی چوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دماغ کا وہ مخصوص حصہ جو ہمیں بولنے اور بات چیت کرنے کے قابل بناتا ہے کو نقصان پہنچتا ہے تو اس شخص میں بھی ہکلاہٹ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کبھی کبھی احساس کمتری کی وجہ سے بھی بچوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے یا بچوں کے ہم جماعت اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر والدین یا اساتذہ کی ڈانٹ، طنز اور طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ ٹوکتے ہیں تو اس سے بچوں کی خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔

    ڈاکٹر سید سیف اللہ نے بتایا کہ مرض کے علاج کرنے کا واحد اور بہترین طریقہ اسپیچ تھراپی ہے، والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس عمر میں بچوں پر درست بولنے کے لیے زبردستی دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ ہکلاہت خود بخود ہی وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ مسئلہ 4 سال کی عمر کے بعد بھی برقرار رہتا ہے تو والدین کو کسی ماہر اور اسپیچ لینگویج پیتھالوجسٹ (ایس ایل پی) سے رابطہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

  • والدین بچوں کیلئے کس نوعیت کے کھیلوں کا انتخاب کریں؟

    والدین بچوں کیلئے کس نوعیت کے کھیلوں کا انتخاب کریں؟

    کھیل اور جسمانی سرگرمیاں بچوں میں کئی مثبت صلاحیتیں اجاگر کرنے میں معاون ہوتی ہیں، والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے ان کی عمر کے حساب سے ان کیلئے کھیلوں کا انتخاب کریں۔

    الرجل میگزین کے مطابق کھیلوں کی سرگرمیوں سے جسمانی طاقت ونشوونما بہتر ہوتی ہے، خود اعتمادی میں اضافہ، غلط و صحیح کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت، خود کو منظم رکھنا اور اس کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں سے شخصیت کو بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔

    اتنے سارے فوائد کے حصول کے لیے اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی عمر کے مطابق ایسے کھیلوں کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے؟

    بچے کی عمر کے مطابق مناسب کھیل

    دوبرس کی عمر تک :
    اس عمر میں سادہ کھیل جیسے سیڑھیاں چڑھنا ، گیند پھینکنا اور پکڑنا وغیرہ بہتر رہتے ہیں۔

    تین سے پانچ برس کی عمرتک :
      اس مرحلے میں بچہ کئی بڑے کھیلوں میں عبور حاصل کرنے لگتا ہے، اس عمر میں بے قاعدہ آزادانہ طریقے سے ورزش کرنا خاص طور پر دوڑنا ، تیراکی کرنا مفید ہوتا ہے۔

    چھ سے نو برس کی عمر تک :
      اس مرحلے میں بچے کو اپنی ذہنی اورعقلی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ماہرین اس مرحلے میں ٹیم کی صورت میں کھیلنے کو بہتر قرار دیتے ہیں۔ خاص طور پر فٹ بال، جمناسٹک، گھڑ سواری، ٹینس، کراٹے، شکار کرنا سیکھنا، طاقت کی مشقیں وغیرہ۔

    دس سے بارہ برس کی عمر تک :
      اس مرحلے میں بچہ زیادہ پختہ اور کھیل کے قواعدو قوانین کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پہنچ کر بچہ باسکٹ بال، ہاکی اور والی بال سمیت مزید پیچیدہ کھیل اپنانے کا اہل ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں : بچپن کی جسمانی سرگرمیاں اور ورزش کتنی کار آمد ہیں؟

  • کراچی میں‌ بچوں‌ کا اغوا، چھٹی کے وقت والدین کی موجودگی لازمی قرار

    کراچی میں‌ بچوں‌ کا اغوا، چھٹی کے وقت والدین کی موجودگی لازمی قرار

    کراچی: پنجاب میں بچوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر شہر قائد کے نجی اسکولوں کی انتظامیہ نے بچے کی اسکول سے گھر واپسی کے وقت والد یا والدہ کی موجودگی کو لازمی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے مختلف نجی اسکولوں کی جانب سے والدین کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جن کے ذریعے والدین کو پابند کیا گیا ہے کہ ’’بچوں کو اسکول چھوڑنے اور گھر واپس لے جانے کے لیے والدین میں سے کسی ایک فرد کا اسکول آنا ضروری ہے‘‘۔

    اسکولوں کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’انتظامیہ طالب علم کو ماموں، چچا یا کسی رشتے دار کے حوالے نہیں کرے گی تاہم وہ بچے جو وین کے ذریعے اسکول آتے ہیں انہیں ڈرائیور کے حوالے کیا جائے گا۔

    علاوہ ازیں وہ والدین جو اسکول وین استعمال نہیں کرتے وہ اسکول انتظامیہ کی جانب سے دئیے گئے سرکلر پر سختی سے پابندی کریں جبکہ انتظامیہ نے وین ڈرائیورز کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ بچوں کو اسکول سے لے کر گھر کے دروازے سے بچے کو چھوڑیں اور دروازہ کھلنے تک وہیں موجود رہیں‘‘۔

    پڑھیں:  کراچی: سوشل میڈیا پر بچوں کے اغواء کی غلط افواہوں پر قانون حرکت میں آگیا

    اس ضمن میں نجی اسکولوں کی انتظامیہ نے تمام بس اور وین ڈرائیور کے کوائف نامے طلب کرلیے ہیں اور ٹرانسپورٹرز کو آگاہ کیا ہے کہ ڈرائیور تبدیل کرنے کی صورت میں فوری طور پر انتظامیہ کو آگاہ کریں۔ اسکول انتظامیہ نے تمام ڈرائیورز کو یہ بھی پابند کیا ہے کہ راستے میں بچوں کی تمام تر ذمہ داری اُن ہی کی ہوگی۔

    دوسری جانب آج شہر کے دو مختلف علاقوں سے عوام نے اغوا کاروں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا ہے جب کہ گزشتہ روز سندھ پولیس کے ترجمان نے کراچی سے بچے اغوا ہونے کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شائع ہونے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’ایسی خبریں والدین میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے انٹرنیٹ پر ڈالی جارہی ہیں‘‘۔

    مزید پڑھیں:  شہریوں نے 3 اغواء کاروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کردھنائی کردی

    ایس پی سینٹرل مقدس حیدر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تمام خبریں جھوٹ پر مبنی ہیں اور ایسے بے بنیاد خبریں پھیلانے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی‘‘۔

  • چلڈرن ہسپتال منڈی بہاؤالدین: 23روزمیں 17بچے جاں بحق

    چلڈرن ہسپتال منڈی بہاؤالدین: 23روزمیں 17بچے جاں بحق

    منڈی بہاؤالدین :گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے 23روز میں 17بچے جاں بحق ہوگئے،فنڈزمختص نہ کرنے کی وجہ سے اسپیشلسٹ ڈاکٹرزسمیت 37آسامیوں پربھرتی نہ ہوسکی۔

    چلڈرن ہسپتال لیبارٹری اورایکسرے مشین سے محروم  ،ورثاءکاشدیداحتجاج،حکومت پنجاب سے نوٹس لینے کامطالبہ،تفصیلات کے مطابق منڈی بہاؤالدین میں گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال میں رواں ماہ 23روزکے دوران 17بچوں جاں بحق ہوگئے۔

    لواحقین کا کہنا ہے کہ بچوں کی اتنی بڑی تعدادمیں اموات  ہسپتال میں سہولیات کافقدان ہونے کی وجہ سے ہوئی،ہسپتال کو قائم ہوئے دو سال ہو گئے ہیں،اسپیشلسٹ ڈاکٹرنہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے اورہسپتال میں 37سیٹوں پرآج تک تعیناتیاں نہیں کی جاسکی ہیں۔،

    ڈائریکٹرہیلتھ سروسزگجرانوالہ ڈویژن ڈاکٹرپرویزنذیرتارڑنے کہاہے کہ بچوں کی ہلاکت پر حکومت پنجاب نے اسکی رپورٹ طلب کی ہے،اور حکومت پنجاب نے جس جس شہر میں بچوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں وہاں کے ڈی سی او کو ذمہ دار ٹھہرا یاگیا ہے اس دوران جاں بحق ہونے والے بچوں کے ورثا ءنے سہولیات کے فقدان پرشدیداحتجاج کیاہے۔