Tag: chitral

  • کیا ہوا جب تیزرفتارموٹر سائیکل گہری کھائی میں جا گری

    کیا ہوا جب تیزرفتارموٹر سائیکل گہری کھائی میں جا گری

    چترال: ریشن کے مقام پر ایک تیز رفتار موٹر سائیکل حفاظتی دیوار توڑتی ہوئی سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گری ۔ مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت بائیک سواروں کو کھائی سے نکالا۔

    تفصیلات کے مطابق یہ یہ واقعہ چترال کے علاقے بونی روڈ پر ریشن کے مقام پر پیش آیا، جس میں ایک نوجوان جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوا۔ دو موٹر سائیکل سوار ریشن سے بونی کی طرف جارہے تھے، دومون گول کے مقام پر خطرناک موڑ سے گزرتے ہوئے موٹر سائکل بے قابو ہوکر سڑک کے کنارے نصب حفاظتی دیوار سے ٹکرا گئی۔

    اے آروائی نیوز کے نمائندے کے مطابق یہ دیوار اتنی کمزور اور ناقص معیار کی تھی کہ وہ ایک موٹر سائیکل کی ٹکر کو بھی برداشت نہ کرسکا اور دونوں سینکڑوں فٹ نیچے گہرے کھائی میں گر گئے۔

    سانحہ دیکھ موقع پر موجود افراد اکھٹے ہوئے اور ان میں سے کچھ بہادر جوان اس گہری کھائی میں ایک برساتی نالے کے ذریعے اتر گئے جس کے اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔مقامی لوگوں نے دونوں کو وہاں سے اٹھایا مگر اس نالے سے ان کو سڑک پر لانے کیلئے کوئی راستہ کوئی جگہہ نہیں تھی۔ ایک مسافر سے چادر لیکر اس چادر میں ان کو باندھ کر اوپر کھڑے لوگوں نے ان کو کھینچا اور سڑک تک لانے میں کامیاب ہوئے۔

    اس حادثے میں مہیب ولد حبیب الرحمان سکنہ ریشن موقع پر جاں بحق ہوا جبکہ برہان الدین ولد اسرار الدین شدید زخمی ہوا ۔ مقامی لوگوں نے حادثے کی وجہ ایک تو تیز رفتاری بتائی دوسرا کم عمر لڑکوں کا موٹر سائیکل بغیر لائسنس کے چلانا ہے ۔

    دوسری جانب جائے حادثہ پر کھڑے ایک شحص نے شکایت کی کہ محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (مواصلات) کا کام اتنی ناقص ہے کہ ان کی بنائی ہوئی سڑک کے کنارے حفاظتی دیوار ایک موٹر سائیکل کو نہیں روک سکا تو بھاری گاڑی کا کیا ہوگا۔

    مقامی لوگوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ جگہہ موت کا کنواں بن چکا ہے یہاں پر کئی حادثات پیش آئے جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس جگہ پر ایک آر سی سی پُل تعمیر کی جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات میں انسانی جانیں ضائع نہ ہو۔

  • چترال میں پہاڑی تودہ مکان پر آگرا، تین جاں بحق

    چترال میں پہاڑی تودہ مکان پر آگرا، تین جاں بحق

    چترال : مضافاتی علاقے دنین میں مکان پر پہاڑی تودہ گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہوگئے، مرنے والوں میں اہل خانہ کے ایک فردکے علاوہ دو مہمان بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے مضافاتی علاقے دنین میں گجان گاؤں میں مکان پر پہاڑی تودہ گر گیا۔ جس کے نتیجے میں خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے۔ مرنے والوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ز ہسپتال منتقل کیا گیا۔

    ریسکیو 1122 کے مطابق پیر کے دن علی الصبح 5.45 بجے دنین کے گجان گاؤں میں سلیم خان نامی شحص کے گھر پر پہاڑی تودہ گر گیا جس کے نتیجے میں تین افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
    مرنے والوں میں وسیم خان ولد شکور خان 35 سال، تنویر خان ولد قربان خان عمر 33 سال اور اس کی والدہ عمر 65 سال سکنہ بروز گول دیہہ جاں بحق ہوئے۔

    ریسکیو عملہ کو جونہی اطلاع ملی تو ان کا ٹیم فوری طور پر جائے حادثہ روانہ ہوئے اور ان تینوں کی لاشیں ملبے سے برآمد کرکے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال منتقل کئے ۔

    مرنے والوں میں دو مہمان تھے۔ تنویر خان اور اس کی والدہ بروز سے سلیم خان کے ہاں بچے کی مبارک باد کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے،جہاں موت ان کا انتظار کررہی تھی ۔

  • بجلی کے حصول کی خاطرچترال کی خواتین پہلی بارسڑکوں پر نکل آئیں

    بجلی کے حصول کی خاطرچترال کی خواتین پہلی بارسڑکوں پر نکل آئیں

    چترال: تاریخ میں پہلی بار علاقہ ورڈب کی خواتین نے بجلی کے حصول کے لیے تحصیل دروش کے مضافات میں گاؤں ورڈب کے لوگوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیا۔

     مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس جدید دور میں بھی ان کے لوگ بجلی اور پینے کی صاف پینے جیسے نعمت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں گولین کے مقام پر 106میگا واٹ کا پن بجلی گھر مکمل ہوچکا ہے جس سے وافر مقدار میں بجلی چترال سے باہر اضلاع میں بھی فراہم کی جاتی ہے مگر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق پر گاؤں ورڈب کے سینکڑوں مکین اس بجلی سے ابھی تک محروم ہیں۔

    اس کے علاوہ اس گاؤں میں پینے کی صاف پانی ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے اور لوگ دریا کا گندا پانی پینے پرمجبور ہیں جس سے وہ گردوں اور دیگر موذی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ دروش کے سماجی کارکن حاجی انذر گل نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ گاؤں ورڈب میں گوجر، پٹھان، چترالی اور مختلف قوموں کے لوگ رہتے ہیں مگر ان کو ابھی تک بجلی سے محروم رکھا گیا ہے۔

    ایک خاتون نے کہا کہ یہاں پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہے اور دریائے چترال سے گندا پانی مٹکوں میں سروں پر  رکھ پہاڑی علاقے میں آباد اپنے گھروں  میں  لاتے ہیں جس سے ان کے گردے خراب ہورہے ہیں اور بچے متعدد بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے پشاور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (پیسکو) کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر محمد امجد خان سے فون پر رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ ابھی تک یہ علاقہ بجلی سے محروم کیوں رہا ان کا کہنا تھا کہ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر چترال ہمیں تحریری طور پر لکھے گا تو ہمارا ٹیم جاکر اس کا تحمینہ لگائے  گی ۔اس کے بعد ڈی سی چترال صوبائی یا مرکزی حکومت کی فنڈ سے پیسکو کو مطلوبہ رقم ادا کرے گا تو ہماری  ٹیم اس علاقے میں بجلی کی لائن بچھائے  گی۔

    مظاہرین کے کیمپ کا دروش کے اسسٹنٹ کمشنر عبدالولی خان نے بھی دورہ کرکے ان کے ساتھ مذاکرات کی اور ان سے دس دن کی مہلت مانگی۔ مظاہرین نے اس شرط پر اپنا احتجاج حتم کرنے کا عندیہ دیا کہ اگر ان کو دس دن میں بھی بجلی نہیں ملی تو پھر وہ بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔

  • پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟

    پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟

    اسلام آباد: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟ آپ کا جواب یقیناً اندازوں پر مشتمل ہوگا۔

    ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ ڈاکٹر آتش درانی کا خیال ہے کہ یہ تعداد 76 ہے۔ تاہم دنیا بھر کی زبانوں پر تحقیق کرنے والی ایک ویب سائٹ ایتھنالوگ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کل 73 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    ویب سائٹ کی جانب سے سنہ 2016 میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 7 ہزار 4 سو 57 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 360 مردہ یا متروک ہوچکی ہیں۔

    بقیہ 7 ہزار 97 زبانیں جیتی جاگتی یا فعال زبانیں ہیں تاہم ان میں سے کئی متروک ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔

    اس ویب سائٹ پر پاکستان کی زبانوں کی درجہ بندی کرنے کے لیے جرمنی اور ناروے کے ماہرین لسانیات نے کام کیا۔

    ایتھنا لوگ کے مطابق پاکستان کا لسانی تنوع نہایت حیرت انگیز ہے اور صرف شمالی علاقہ جات میں 30 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    ان میں سے ایک زبان بروشسکی کو ماہرین لسانیات نے باقاعدہ زبان کا درجہ نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے برعکس اس زبان کے الفاظ کسی دوسری زبان میں نہیں ملتے۔

    خوش قسمتی سے کچھ عرصہ قبل جامعہ کراچی کے تعاون سے ایک بروشسکی ۔ اردو لغت مرتب کی گئی ہے جسے نصیر الدین ہنزئی نے مرتب کیا ہے۔

    اسلام آباد کا ایک غیر سرکاری ادارہ بھی یو ایس ایڈ کے تعاون سے گزشتہ 10 سالوں سے شمالی علاقہ جات میں بولی جانے والی زبانوں پر تحقیق کر رہا ہے۔

    فورم فار لینگویج انیشیٹیو نامی یہ ادارہ 5 زبانوں دمیلی، گورباتی، پالولا، یوشوجو اور یدغا کی بنیادی گرامر اور الفاظ کے اردو معنوں پر کتابیں مرتب کرچکا ہے۔

    ان کتابوں پر اپنی رائے دینے والے اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے پروفیسر ہنرک للجگرن بھی گزشتہ کئی سال سے ہندوکش قراقرم کے خطے میں بولی جانے والی زبانوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    انہوں نے مذکورہ بالا تمام زبانوں کو شمالی علاقہ جات میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کے مقابلے میں چھوٹی زبانیں قرار دیا ہے۔

    یہ زبانیں کہاں بولی جاتی ہیں؟

    پروفیسر ہنرک کے مطابق دمیلی ایک انڈو آریائی زبان ہے جو چترال کے جنوب مغربی علاقے دمل میں بولی جاتی ہے۔ اسے بولنے والے افراد کی تعداد لگ بھگ 5 ہزار ہے۔

    گورباتی بھی انڈو آریائی زبان ہے جو پاکستان اور افغان کے سرحدی علاقوں جیسے چترال ور افغانستان میں کنڑ میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے افراد کی تعداد لگ بھگ 10 ہزار ہے۔

    یوشوجو بھی انڈو آریائی زبان ہے جو سوات کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان شمالی گلگت میں بولی جانے والی زبان شنا سے مماثل ہے۔

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ لسانیاتی لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع چترال نہایت متنوع علاقہ ہے۔ چترال میں 10 سے 12 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    یدغا بھی انہی میں سے ایک ہے تاہم یہ زبان متروک ہونے کے خطرے کا شکار ہے۔ ضلع چترال کی مرکزی زبان کھووار ہے اور یدغا بھی اسی زبان سے مماثل ہے۔

    زبانوں کے نام

    ایتھنالوگ کی ویب سائٹ پر پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کو انگریزی حرف تہجی کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے جو یہ ہیں۔

    ایر
    بدیشی
    باگری
    بلوچی ۔ مرکزی زبان
    بلوچی ۔ مشرقی
    بلوچی ۔ جنوبی
    بلوچی ۔ مغربی
    بلتی
    بتری
    بھایا
    براہوی
    بروشسکی
    چلیسو
    دمیلی
    دری
    دیہواری
    دھٹکی
    ڈومکی
    گورباتی
    گھیرا
    گوریا
    گورو
    گجراتی
    گجاری
    گرگلا
    ہزارگئی
    ہندکو ۔ شمالی
    ہندکو ۔ جنوبی
    جدگلی
    جندوارا
    جوگی
    کبوترا
    کچھی
    کالامی
    کالاشا
    کلکتی
    کمی ویری ۔ اسے کم کتویری بھی کہا جاتا ہے
    کشمیری
    کٹی
    کھیترانی
    کھووار
    کوہستانی
    کولی ۔ کچھی
    کولی ۔ پرکاری
    کولی ۔ ودیارا
    کنڈل شاہی
    لہنڈا
    لاسی
    لارکئی
    مارواڑی
    میمنی
    اوڈی
    ارماڑی
    پہاڑی ۔ پوٹھو ہاری
    پالولا
    پشتو ۔ مرکزی
    پشتو ۔ وسطی
    پشتو ۔ شمالی
    پشتو ۔ جنوبی
    پنجابی ۔ مغربی
    سانسی
    سرائیکی
    ساوی
    شنا
    شنا ۔ کوہستانی
    سندھی
    سندھی ۔ بھل
    توروالی
    اردو
    یوشوجو
    وگھاری
    وکھی
    ونسی
    یدغا

    گو کہ اس فہرست میں پنجابی زبان کی کئی شاخوں کو شامل نہیں کیا گیا تاہم پاکستان کے لسانیاتی تنوع کو جاننے کے لیے یہ فہرست نہایت کارآمد ہے۔

    فہرست میں اردو زبان کو ترقی پذیر زبان کے طور پر لکھا گیا ہے یعنی وہ زبان جو اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہو۔

  • چترال میں ’سنو اسکینگ فیسٹول‘ کا باضابطہ انعقاد

    چترال میں ’سنو اسکینگ فیسٹول‘ کا باضابطہ انعقاد

    چترال: ملک کے خوبصورت شمالی علاقے چترال کی وادی مدگلشت میں پہلی بار سنو سکینگ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، مقابلے میں لڑکیوں سمیت تین سو کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں ہونے والے پہلے سنو اسکینگ فیسٹیول میں مقامی کھلاڑیوں کے علاوہ سوات، گلگت، اسلام آباد، پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی سنو سکینگ کھلاڑیوں اور چیمپٔنز نے حصہ لیا اور تماشائیوں کو محظوظ کیا۔

    اس خوبصورت کھیل میں چار کیٹیگریوں پر مشتمل کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ آٹھ سے بارہ سال جن میں نذیر احمد نے اول پوزیشن حاصل کی روح الامین نے دوسری اور مرتضےٰ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    تیرہ سے سولہ کے کھلاڑیو ں میں عباد الرحمان نے اول، عماد حسین نے دوسری جبکہ انعام اللہ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    سولہ سے پچیس سال کے عمر کے کھلاڑیوں میں عاشق حسین نے پہلی پوزیشن، واصف علی نے دوسری جبکہ سلطان نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    پچیس سے پچپن سال کے عمر کے کھلاڑیوں میں عبد الحفیظ نے پہلی پوزیشن حاصل کی، برہان نے دوسری اور سید جعفر نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    شہزادہ سکندر الملک جو چترال پولو ایسوسی ایشن کا صدر بھی ہے نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ میں صوبائی ٹورزم تھنک ٹینکر کا رکن بھی ہوں مگر مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ ایک طرف صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سیاحت کو فروغ دیں گے اور چترال سب سے اول نمبر پر ہے مگر دوسری طرف اس دلچسپ کھیل میں کسی نے شرکت بھی نہیں کی اور نہ کوئی فنڈ فراہم کیا۔

    ہندوکش سنو سپورٹس ایسوسی ایشن کے صدر شہزادہ حشا م الملک نے کہا کہ یہ کھیل پچھلے سو سالوں سے یہاں کھیلا جاتا ہے مگر اسے باقاعدہ طور پر ایک تہوار کے طور پر کبھی نہیں منایا گیا تھا، ہم نے پہلی بار اسے منظم طریقے سے منایا جس میں ملک بھر کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور چترال کے جن علاقوں میں بھی سنو سکینگ کی گنجائش موجود ہیں ہم ضرور وہاں یہ کھیل کھیلیں گے اور اسے بین الاقوامی سطح پر بھی روشناس کرایں گے۔

    بریگیڈئیر آفندی کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے سنو سکینگ کھیل رہے ہیں مگر یہاں آکر حیرانی کی انتہاء نہ رہی کہ یہ خطہ قدرتی طور پر اس کھیل کیلئے نہایت موزوں ہے ۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کوئی ہوٹل، ریسٹورنٹ یا گیسٹ ہاؤس نہیں ہے مگر تین سو مہمانوں کو مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں رکھ کر مہمان نوازی کی مثال قائم کی۔

    چند بچیو ں نے بھی اس کھیل میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ ہم بہت خوش ہیں کہ پہلی بار یہاں کی بچیاں بھی سنو سکیگ میں حصہ لے رہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ آئندہ بھی لڑکیوں کے لیے سنو سکینگ کھیلنے کا اہتمام کیا جائے۔

  • چترال : برفانی تودا گرنے سے 12افراد دب گئے، برفباری سے نظام زندگی درہم برہم

    چترال : برفانی تودا گرنے سے 12افراد دب گئے، برفباری سے نظام زندگی درہم برہم

    چترال : وادی کیلاش میں برفانی تودا گر نے سے12افراد دب گئے، تمام افراد کو زندہ نکال لیا گیا، واقعے میں 2افراد زخمی ہوئے، ملک کے بالائی علاقوں میں شدید برفباری کے بعد بجلی اور گیس کی فراہمی معطل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے بالائی علاقوں میں برفباری کے بعد بجلی اور گیس کی عدم فراہمی اور کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ سے راستے بند ہونے کے باعث علاقہ مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    لواری ٹنل بند ہونے سے شاہراہ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں، عوام نے حکومت سے فوری طور پر امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی اپیل کی ہے،ملک کے بالائی علاقوں میں برفباری کے بعد پہاڑ برف سے ڈھک گئے، معمولات زندگی نے مشکلات کا کمبل اوڑھ لیا۔

    بجلی غائب، گیس بند، راستے برف سے اٹ گئے، بالائی علاقوں میں رنگین موسم مشکلات بھی ساتھ لے آیا، چترال میں وادی کیلاش کے علاقے شیخان دے میں برفانی تودا گر گیا برفانی تودے تلے12افراد دب گئے، مقامی لوگوں نے فوری طور پر امدادی کارروائی کرتے ہوئے تمام افراد کو نکال لیا، واقعے میں 2افراد زخمی ہوگئے۔

    اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے پہاڑوں نے بھی سفید چادر اوڑھ لی، بٹوگاہ ٹاپ، بابوسر، نیاٹ ویلی، فیری میڈوز میں مسلسل برفباری سے راستے بند، لوگ محصور ہوکر رہ گئے، لواری ٹنل بند ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

    کوہستان، استور، اسکردو کے باسی بھی راستے بند ہونے اور سہولتیں نہ ملنے کے سبب اذیت سے دوچار ہیں، برفباری کا سلسلہ جاری رہنے سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی بڑھ گیا، انتظامیہ نے شاہراہ ریشم پر سفر کرنے والوں کو وارننگ جاری کر دی ہے۔

    عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر امدادی سرگرمیاں تیز کی جائیں تاکہ ان کے معمولات بحال ہوسکیں۔

  • خیبرپختونخواہ پولیس کی سطح سمندرسے 9 ہزارفٹ بلندی پر انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں

    خیبرپختونخواہ پولیس کی سطح سمندرسے 9 ہزارفٹ بلندی پر انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں

    چترال: خیبرپختونخواہ پولیس کے ایلیٹ فورس ڈیپارٹمنٹ نے سطح سمندر سے نو ہزار فٹ کی بلندی پر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تربیتی مشق کرکے تاریخ رقم کردی۔

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چترال محمد فرقان بلال کے مطابق یہ تربیتی مشقیں چترال کے بلند وبالا پہاڑ شغور پر منعقد کی گئیں ، جس میں ایلیٹ فورس کے چاق و چوبند جوانوں نے حصہ لیا، یہ مشقیں آرمی اور چترال اسکاؤٹس کے باہمی تعاون سے کی جارہی ہیں۔

    سطح سمندر سے نو ہزار فٹ بلندی پر جاری اس مشق میں جوانوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو گھیرے میں لینے کی ، ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کی مشق کی ۔ ا س مشق میں جوان برف پوش پہاڑوں، پہاڑی دروں اور دشوا ر گزار سرنگوں میں مصروف عمل رہے۔ یہ مشقیں ایک ہفتے تک جاری رہیں گی ۔

    اس حوالے سے ڈی پی او چترال محمد فرقان بلال کا کہنا ہے کہ ملکی صورت حال کے پیش نظر چترال میں مقیم مختلف پراجیکٹس میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سیکورٹی کو ہر لحاظ سے بہتر بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ چترال ایک پرامن ضلع ہے لیکن اس کے باوجود ہر ممکن سیکورٹی کو اولین ترجیح دی جائے گی تاکہ کوئی میلی آنکھ اس جانب نہ اٹھے۔

     

    یاد رہے کہ چترال میں جاری مختلف ترقیاتی پراجیکٹس میں غیر ملکی ماہرین کام کررہے ہیں اور ان غیر ملکیوں کی سیکورٹی کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے اور ان کی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے خیبر پختونخواہ پولیس نے آرمی/سکاوٹس کے باہمی تعاون سے یہ مشقیں کی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری اقدامات اٹھائے جائیں اور جانی ومالی نقصان سے بچاجاسکے ۔

  • یاک پولو- ایسا کھیل جو صرف پاکستان میں کھیلا جاتا ہے

    یاک پولو- ایسا کھیل جو صرف پاکستان میں کھیلا جاتا ہے

    چترال: بادشاہوں کا کھیل یعنی پولو عام طور پر گھوڑوں کی پشت پر سوار ہوکر دنیا بھر میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے ، مگر یاک یعنی جنگلی بیل پر پولو صرف اور صرف وادی بروغل میں کھیلا جاتا ہے جو سطح سمندر سے 12500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

    یاک پولو میں بھی حسب معمو ل چھ ، چھ کھلاڑی ہوتے ہیں مگر یہ سواری اتنی تیز نہیں ہوتی جتنا گھوڑا تیز دوڑ کر بال کو قابو کرتا ہے۔چترال کے انتہائی دور افتادہ علاقے بروغل میں یاک پولو کے اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کے لیے ہر سال بڑی تعداد میں سیاح اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔

    داد خدا ایک طالب علم ہے مگر شوقیہ طور پر یاک پولو بھی کھیلتا ہے، اس نے اے آروائی نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’ایک تو یاک پر پولو کھیلنا نہایت مشکل کھیل ہے کیونکہ یاک میں گھوڑے کی طرح قابوکرنے کے لیے لگام نہیں ہوتی جسے ہم جلب کہتے ہیں بلکہ یاک کو صرف ایک ہی رسی سے پکڑا اور ہانکا جاتا ہے،جبکہ گھوڑے کو قابو کرنے کیلئے دونوں جانب چمڑے سے بنے ہوئے پٹے ہوتے ہیں جسے سوار اپنی مرضی سے دائیں بائیں مڑواسکتا ہے اور جہاں بال پڑتا ہے کھلاڑی گھوڑے کو اسی جگہہ دوڑاکر بال پر سٹیک مارتا ہے‘۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یاک کا معاملہ کچھ اور ہے ایک تو یہ بہت بھاری جانور ہے ،دوسرےیہ تیز نہیں دوڑسکتا اور تیسرا یہ گھوڑے کی طرح اتنا تربیت یافتہ نہیں ہوتا ۔ پولو میں استعمال ہونے والے گھوڑوں کی تربیت کی جاتی ہے اور ایک تربیت یافتہ گھوڑا کھیل کے دوران خود پر سوار کھلاڑی کی بہت مدد کرتا ہے۔

    یاک پولو کے دوران مقامی فن کار موسیقی بجاتے ہیں اور اس میں بانسری اور دف بہت مشہور ہے۔ کھلاڑی کوشش کرتا ہے کہ محالف ٹیم کی بال اپنے قابو میں کرلے اور اسے اس جگہ تک لے جائے جہاں دو لکڑیوں کے درمیان سے بال گزار کر گول ہوجاتا ہے۔

    مقامی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ جس طرح پولو کو اہمیت حاصل ہے اور اس کو حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہے اگر یاک پولو کو بھی حکومت تقویت دے اس پر توجہ دے تو یہ کھیل اس علاقے کی تقدیر بدل دے گا کیونکہ یاک ہر جگہ ہوتا نہیں ہے یہ صرف وادی بروغل میں پائے جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یاک نہایت گرم مزاج جانور ہیں اور زیادہ تر برف پوش میدان میں ہی رہ سکتا ہے ، کہیں اور اسے رکھنے کےلیے خصوصی اقدامات کی ضرورت پیش آتی ہے۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پولو کے ساتھ یاک پولو کو بھی ترقی دینے کے لیے اقدامات اٹھائے تو یہ دلچسپ کھیل اس پسماندہ ترین وادی سے غربت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔

  • چترال کی حسین وادی ’گولین‘ حکومتی توجہ کی منتظر

    چترال کی حسین وادی ’گولین‘ حکومتی توجہ کی منتظر

    خیبرپختونخواہ کے علاقے چترال میں موجود جنت نظیر وادی ’گولین‘ میں حکومتی عدم توجہ کے باعث ٹمبر مافیا نے ہزاروں سال قدیم صنوبر کے درخت کاٹ دیے جس سے وادی کا حسن مانند پڑنے لگا۔

    تفصیلات کے مطابق چترال وادی گولین میں ہزاروں سال پرانے صنوبر کے درخت حکومتی اور سرکاری حکام کی توجہ کے منتظر ہیں، ہزاروں سال پرانے جنگلات کی کٹائی سے وادی کا قدرتی حسن مانند پڑنے لگا۔

    چترال شہر سے صرف 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی گولین کی سڑکیں حکومت کی عدم توجہ کے باعث کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگیں  جس کی وجہ سے مقامی افراد مختصر فاصلہ دو سے ڈھائی گھنٹے میں طے کرنے پر مجبور ہیں۔

    وادی گولین میں پہاڑوں کے پیچھے سیکڑوں سال قبل برفانی تودے (گلیشئر) موجود ہیں جو اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پگھل رہے ہیں جس کا صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی پہاڑوں سے آبشار اور چشمے کی صورت میں بہہ کر جنگلات کے قدرتی حسن کو مزید گہنا رہے ہیں۔

    صنوبر کے درختوں میں بنا ہوا قدرتی جنگل ہزاروں سالوں سے اس وادی کی زینت کا باعث بنا ہوا ہے مگر حکام کی غفلت کی وجہ سے یہ جنگل بھی آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے۔

    محکمہ جنگلات کے آفیسر شوکت فیاض کا کہنا ہے کہ درختوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ زمانہ قدیم سے یہاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگلات اب یہاں دیگر پودے لگاکر صنوبر کے اس قیمتی جنگل کی حفاظت کے لیے ارد گرد جنگلہ نصب کرے گا تاکہ صنوبر کے قیمتی درختوں کو مال مویشیوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔

    قاضی محمد جنید نامی سیاح کا نمائندہ اے آر وائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی بھی ایسی خوبصورت جگہ نہیں دیکھی تھی یہاں آکر معلوم ہوا کہ چترال میں اتنا خوبصورت مقام موجود ہے جہاں صنوبر کے ہزاروں سال پرانے درخت  نظر آتے ہیں‘۔

    پشاور سے وادی گولین آئے طالب علم جواد حسن کا نمائندہ اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’جب ہم چترال آرہے تھے تو دشوار گزار راستے کی وجہ سے واپس جانے کا ارادہ کیا مگر جب یہاں پہنچے تو قدرت کے حسین نظاروں کو دیکھ کر تروتازہ ہوگئے‘۔

    اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت وادی گولین پر اگر تھوڑی سی توجہ دے اور یہاں پہنچنے والی سڑکوں کی مرمت کردے تو پاکستان اور بیرونِ ممالک سے آنے والے سیاہ وادی کا رخ کریں گے جو مقامی افراد کی پسماندگی کو ختم کرنے اور پاکستان کے مثبت چہرے کو دنیا بھر میں اجاگر  کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    وادی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں آلوکی فصل وافر مقدار میں ہیں جبکہ مقامی افراد مزے دار چپس بنانے کے حوالے سے بہت مشہور ہیں، علاوہ ازیں گولین میں سیب، اخروٹ، ناشپاتی سمیت آڑو اور دیگر پھل بھی پائے جاتے ہیں۔

  • چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال:شمالی علاقہ جات کے حسین علاقے چترال ٹاؤن میں ایک اور23 سالہ لڑکی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی ہے، خودکشی کی فوری وجہ تاحال معلوم نہ ہوسکی۔ گزشتہ تین ماہ میں یہ بیسویں خودکشی ہے۔

    چترال پولیس کے مطابق ہون فیض آباد کے رہائشی سفینہ بی بی دختر شیرین خان نے گلے میں اپنے گھر میں پنکھے کے ساتھ پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ چترال پولیس نے زیر دفعہ 176 ضابطہ فوجداری تفتیش شروع کردی اور تحقیقات مکمل ہونے پر مقدمہ درج کی جائے گی۔

    سفینہ بی بی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا گیا ، ضروری کاروائی کرنے کے بعد لاش کو ورثا ء کے حوالہ کیا گیا۔ آزاد ذرائع کے مطابق پچھلے تین ماہ میں خودکشیوں کا یہ بیسواں (20) واں واقعہ ہے جس میں اکثر نوجوان لڑکیاں ہی خودکشی کرتی ہیں۔ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں پانچ طلباء طالبات نے اس وقت خودکشی کی تھی جب ان کے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں نمبر کم آئے تھے۔

    اس سے قبل ماہ اپریل میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چترال میں چھ ماہ میں 22 خواتین نے خود کشی کی تھی جن میں سے زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔

    واضح رہے کہ پورے چترال میں کسی بھی ہسپتال میں کوئی سائیکاٹرسٹ، ماہر نفسیات اور دماغی امراض کا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی چترال میں خواتین کے لئے کوئی دارلامان یعنی شیلٹر ہاؤ س نہیں ہے جہاں نا مساعد گھریلو حالات کی صورت میں وہ پناہ لے سکیں۔

    چترال کے نوجوان طبقے اوربالحصوص خواتین میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی رحجان پر والدین نہایت پریشان ہیں اورعوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی تحقیقات کے لیے ماہرین کی ٹیم بھیجی جائے تاکہ اس کا اصل وجہ معلوم کرکے اس کی روک تھام ہوسکے

    چترال کے خواتین میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی رحجان کو کم کرنے کے لیے تاحال حکومتی یا غیر سرکاری ادارے نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے تاہم سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان نے خواتین کے لیے تھانہ چترال میں ایک زنانہ رپورٹنگ سنٹر کھولا تھا جس میں زنانہ پولیس ڈیوٹی کررہی ہیں۔