Tag: CJ LHC

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لئے 2رکنی بنچ تشکیل دے دیا

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لئے 2رکنی بنچ تشکیل دے دیا

    لاہور : سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لئے لاہور ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ تشکیل دے دیا گیا ، بنچ 4 فروری کو سماعت کرے گا، عدالت نے آئی جی پنجاب کو آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیےدو رکنی بنچ تشکیل دے دیا، صفدر شاہین پیرزادہ اور دیگر کی درخواست پر سماعت چار فروری کو ہوگی۔

    بینچ میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردارشمیم احمداورجسٹس صداقت علی خان شامل ہیں۔

    گذشتہ روز عدالت نے حکم دیا تھا کہ آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں اور وقوعہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اورانہیں تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی تھی۔

    مزید پڑھیں : آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں، عدالت

    آئی جی پنجاب کی جانب سے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس میں آئی جی پنجاب نے تسلیم کیا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت سی ٹی ڈی اہلکاروں نے فائرنگ کی۔

    چیف جسٹس سردار شمیم پر مشتمل سنگل بنچ نے سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی پنجاب جے آئی ٹی کے ممبران کو تمام شواہد مکمل کر کے رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیں۔

    دوران سماعت میں درخواست گزار وکیل صفدر شاہین پیرزادہ نے کہا تھا کہ سولہ کی بجائے چھ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، پولیس عینی شاہدین کے بیانات قلمبند نہیں کر رہی۔

    جس پر آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کا کہنا تھا جے آئی ٹی کی ابتدائی تفتیش کی روشنی میں ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا اور غفلت برتنے پر سی ٹی ڈی کے افسران کو معطل کر دیا گیا، جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہوتے ہی ملزموں کا چالان عدالت میں بھجوا دیا جائےگا۔

    چیف جسٹس نے پنجاب بھر کے ڈی پی اوز کو ایسے واقعات دہرانےسے روکتے ہوئے پولیس مقابلوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔

    واضح رہے 19 جنوری 2018 کو جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے۔

    بعد ازاں ساہیوال واقعے پر وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تحقیقات کرکے واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جبکہ وزیراعظم کی ہدایت پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور محکمہ داخلہ پنجاب نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • نواز شریف اور ایم کیو ایم قائد کی تقاریر کیخلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے 2نئے فل بنچ تشکیل

    نواز شریف اور ایم کیو ایم قائد کی تقاریر کیخلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے 2نئے فل بنچ تشکیل

    لاہور : چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ایم کیو ایم لندن کے قائد کی تقاریر کے خلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے دو نئے فل بنچ تشکیل دے دیئے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ یاور علی نے نواز شریف, مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کیخلاف عدلیہ مخالف تقاریر کی نشریات پر پابندی اور توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کیلئے تیسرا فل بنچ تشکیل دیا ہے۔

    فل بنچ کی سربراہی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کریں گے، درخواست گزاروں کی جانب سے عدلیہ مخالف بیانات ہر کارروائی اور تقاریر کی نشریات پر پابندی کی استدعا کی گئی ہے۔

    اس سے قبل بینچ جسٹس شاہد مبین کی معذرت کرنے پر تحلیل ہوگیا تھا، نئے بنچ جسٹس شاہد مبین کی جگہ جسٹس شاہد جمیل خان کو شامل کیا گیا ہے۔


    مزید پڑھیں :  نوازشریف اور مریم نواز کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا


    دوسری جانب ایم کیو ایم لندن کے قائد کیخلاف غداری مقدمہ کیلئے بھی نیا بنچ تشکیل دیا گیا ہے، پرانا بنچ جسٹس علی باقر نجفی کی عدم دستیابی پر تحلیل ہوگیا تھا۔

    چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے نیا بینچ تشکیل دیتے ہوئے فل بینچ میں جسٹس علی باقر نجفی کی جگہ جسٹس سردار احمد نعیم کو شامل کیا ہے جبکہ بینچ میں ایک خاتون جج جسٹس عالیہ نیلم بھی شامل ہیں۔

    نواز شریف اور ایم کیو ایم لندن کے قائد کی تقاریر پر قائم ہونے والے دونوں نئے بنچز کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ہیں جبکہ متعلقہ حکام کو پہلے ہی نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ فل بنچ کے پاس نوازشریف ،مریم نواز اور لیگی رہنماوں کی عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف متعدد درخواستیں زیر سماعت ہیں، جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پانامہ فیصلے کے بعد میاں نواز شریف،مریم نواز اور لیگی رہنماوں نے عدلیہ مخالف تقاریر کیں اور عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑایا جو واضح طور پر توہین عدالت ہے۔

    درخواستوں میں کہا گیا کہ ن لیگی رہنماوں کی تقاریر سے ملک میں انتشار پیدا ہو رہا ہے لہذا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے اور پیمرا کو توہین آمیز تقایری کی نشریات روکنے کا حکم دیا جائے۔

    واضح رہے کہ ایم کیو ایم لندن کے سربراہ کے خلاف مقامی وکیل آفتاب ورک سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کی تھیں، جس پر تین رکنی فل بنچ نے 2016 میں ایم کیو ایم کے قائد کے نام، بیانات اور تصاویر کی اشاعت پر پابندی لگائی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جسٹس منصورعلی شاہ نے بطور سپریم کورٹ جج حلف اٹھالیا

    جسٹس منصورعلی شاہ نے بطور سپریم کورٹ جج حلف اٹھالیا

    اسلام آباد : جسٹس منصورعلی شاہ نے بطور سپریم کورٹ جج حلف اٹھالیا، چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے حلف لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں حلف برداری کی تقریب ہوئی، جس میں جسٹس منصورعلی شاہ نے بطورسپریم کورٹ جج حلف اٹھایا، چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے حلف لیا۔

    تقریب میں ججز، سینئر وکلا، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز نے شرکت کی، ججز کے اہل خانہ اور عدالتی عملہ بھی تقریب حلف برداری میں شریک ہوا۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی تقرری کے بعد سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مالی اثاثے ازخود ظاہر کردیے

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مالی اثاثے ازخود ظاہر کردیے

    لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات از خود ویب سائٹ پر شائع کرکے تاریخ رقم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے مالی اثاثے ویب سائٹ پر ظاہر کردیے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندہ لاہور عابد خان کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ 2 کروڑ 94 لاکھ،27 ہزار روپے کے مالک ہیں، ان کے اثاثوں میں سال بھر میں 1لاکھ 4ہزار 24روپے کا اضافہ ہوا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ایک سال میں 16لاکھ 43ہزار روپے ٹیکس ادا کیا، وہ 2گاڑیوں کے مالک ہیں، گھر میں 2 لاکھ کا فرنیچر اور 5لاکھ 50 ہزار روپے کی جیولری ہے جب کہ انہیں رشتے داروں کے 22 لاکھ 96 ہزار روپے ادا کرنے ہیں۔

    دستاویز کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کو بینک کے 3لاکھ روپے بھی ادا کرنے ہیں۔

    یہ اثاثے ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ہیں اور عدالتی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی چیف جسٹس نے اپنے مالی اثاثے از خود عوام کے سامنے ظاہر کردیے ہیں۔