Tag: CJ Pakistan

  • سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے منسوب مخصوص ریمارکس غلط قرار

    سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے منسوب مخصوص ریمارکس غلط قرار

    اسلام آباد: اٹارنی جنرل آفس نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے منسوب مخصوص ریمارکس کو غلط قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے وفاقی وزیر قانون کو خط لکھ کر کہا ہے کہ میں عدالت میں خود موجود تھا چیف جسٹس کے بیان کی سوشل میڈیا پر کی جانے والی تشہیر غلط ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس نے ریمارکس میں یہ نہیں کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک وزیر اعظم ایمان دار تھا، چیف جسٹس نے کہا ایک اچھے اور آزاد وزیر اعظم کو آرٹیکل 58/2B کے ذریعے نکالا گیا۔

    خط میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلط رپورٹ ہونے والے ریمارکس پر اراکین پارلیمنٹ نے حقائق جانے بغیر رائے دی جو اخبارات میں شائع ہوئی، خط اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ آپ بطور وزیر قانون اور سابق قائد ایوان ساتھی سینیٹرز تک درست حقائق رکھیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس سے متعلق وضاحت جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ آبزرویشن کو سوشل میڈیا پر غلط رنگ دیا جا رہا ہے، 1988 میں قومی اسمبلی کو آرٹیکل 58(2)(بی) کے تحت تحلیل کیا گیا تھا، چیف جسٹس نے اسمبلی بحال نہ کرنے کے تناظر میں ریمارکس دیے تھے، عطا بندیال نے اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیسے انھوں نے 1993 میں اسمبلی بحال نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

    خط میں لکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلائی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان نے اس وقت کے وزیراعظم کی دیانت داری پر آبزرویشن دی، میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان نے ایسی کوئی آبزرویشن نہیں دی۔

    اٹارنی جنرل نے لکھا کہ چیف جسٹس پاکستان نے اُس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اظہارِ ندامت کا تذکرہ کیا تھا، سوشل میڈیا پر چیف جسٹس سے منسوب یہ بات پھیلائی گئی کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف محمد خان جونیجو دیانت دار وزیراعظم تھے۔

  • سپریم کورٹ پر تنقید کی اجازت کسی کو بھی نہیں دوں گا، چیف جسٹس

    سپریم کورٹ پر تنقید کی اجازت کسی کو بھی نہیں دوں گا، چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آزاد ہے، کسی کو بھی ادارے پر تنقید کی اجازت نہیں دوں گا، ایک جج کی پہچان اس کے فیصلے سے ہوتی ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل سپریم کورٹ کے ساتھ یکجہتی کا بہت رومانس ہوگیا ہے لیکن سپریم کورٹ کو کسی کی سپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

    انہوں نے واضح طور پر کہا کہ سپریم کورٹ آزاد اور خودمختار ادارہ ہے اور اس ادارے پر تنقید اور اسے سیاسی بنانے کا کوئی سوچے بھی نہیں، آزاد عدلیہ ہی ہماری طاقت اور خوبصورتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگوں نے ججز کی تصاویر کے ساتھ اشتہارات لگائے جس کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی، عدلیہ کو آزاد طریقے سے کام کرنے دیں یہ ہمارا فرض ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کے دن یہ میری چوتھی تقریر ہے تقریریں کرکے خود تھک سا گیا ہوں، لاہور ہائیکورٹ بار کو اپنا گھر سمجھتا ہوں، عمل اور قلم سے بار کی عزت کیلئے جو کرسکتا ہوں کروں گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آج کا موضوع بار اور بینچ میں یکجہتی پر مبنی ہے، بینچ اور بار ایسے ہیں جیسے دونوں نے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہو، بار ہمیشہ اپنے ججز کی محافظ رہی ہے اور اس نے سب سے بڑھ کر ججوں کو عزت دی ہے۔

    مزید پڑھیں: کبھی کسی سیاسی مقدمے پرازخود نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس ثاقب نثار

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک جج کی تقرری اس کی سفارش کرنے والے چیف جسٹس کی ہوتی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کچھ سینئر بار بھجوائے ہیں اور کچھ ناموں پر بار سے مشاورت کا کہا ہے، بلاوجہ لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایکشن لیناپڑتا ہے، آپ انسانی حقوق کیلئے ایکشن لیں گے تو سپریم کورٹ پر بوجھ کم ہوگا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔  

  • انسانی حقوق کی فراہمی اولین ترجیح ہے ‘ چیف جسٹس ثاقب نثار

    انسانی حقوق کی فراہمی اولین ترجیح ہے ‘ چیف جسٹس ثاقب نثار

    کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ملک میں‌ قانون کی بالا دستی کے لئے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے .

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا سارک لا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ستائشی انداز میں کہا کہ سارک مثالی فورم ہے.

    اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہمیں آزادی اورانصاف کے اصولوں پر یقین ہے، ہمیں بامعنی تعاون پرزوردینا چاہئے اور علاقائی ریاستوں کو مضبوط کرنا ہوگا، نظام انصاف و قانون کا براہ راست فائدہ عوام کو ہوتا ہے ، قانون کی بالا دستی کیلئے بار اور بینچ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں.

    انہوں نے دور حاضر کے تقاضے کے تحت خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دور جدید میں انصاف کی فراہمی کیلئے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہوگیا ہے. پاکستان کی عدلیہ طاقت کے غلط استعمال پر نظر رکھتی ہے.

    انہوں نے حالیہ پرتشدد واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں بچی پر تشدد کے واقعے کا نوٹس لیا ہے، انسانی حقوق کی فراہمی میری اولین ترجیح ہے،میں اپنی ذمے داریوں سے ذرا برابر بھی کوتاہی نہیں‌ برت سکتا ہوں.

    چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ ملک میں‌ قانون کی بالا دستی کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے.

    دوسری جانب کوئٹہ کے واقعات پر ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ حملے سے معلوم ہوتا ہے عدالتی نظام پر حملہ کیا جارہا ہے.