Tag: CJP

  • ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیئر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا: چیف جسٹس کا اضافی نوٹ جاری

    ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیئر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا: چیف جسٹس کا اضافی نوٹ جاری

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھٹو ریفرنس پر اضافی نوٹ جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کا تفصیلی فیصلہ 5 جولائی 2024 کو جاری ہوا تھا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا اضافی نوٹ آج ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔

    اضافی نوٹ میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مجھے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے نوٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا لیکن جسٹس منصور کے نوٹ سے ایک حد تک اتفاق کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ ریفرنس میں دی گئی رائے میں کیس کے میرٹس پر کسی حد تک بات کی گئی ہے، آرٹیکل 186 سپریم کورٹ صرف ایڈوائزری دائرہ اختیار رکھتی ہے تاہم فیر ٹرائل کے سوال پر فیصلے کے پیراگراف سے اتفاق کرتا ہوں۔

    اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ عدالت کی جانب سے فیئر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ یہ ریفرنس شاید ہمارے سامنے نہ آتا مگر کچھ واقعات اس کا موجب بنے، جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے کچھ نکات کو ایڈریس کرنا ضروری ہے جس میں مرحوم نے کہا تھا کہ اس وقت کی غیر معمولی سیاسی فضا میں دباؤ نے انصاف کے عمل کو  متاثر کیا۔

    چیف جسٹس نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ یہ سب عدالتی آزادی کے نظریات سے متصادم تھا، آئینی طرز حکمرانی سے انحراف سیاسی مقدمات میں عدالتی کارروائیوں پر غیر ضروری اثر ڈالتا ہے، ایسےحالات میں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، جسٹس صفدر شاہ نے جرات مندانہ اختلاف کیا، ، ان ججز سے اختلافی نوٹس سے صورتحال تبدیل نہیں ہوئی لیکن عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری برقرار رہی۔

    اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے واضح کیا کہ مجھے چیف جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے نوٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا، جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ سے ایک حد تک اتفاق کرتا ہوں، میں فیئر ٹرائل کے سوال پر فیصلے کے پیراگراف سے اتفاق کرتا ہوں کہ میری رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا۔

  • "حکومت  نیک، ایماندار اور قابل شخص کو چیئرمین نیب لگائے”

    "حکومت نیک، ایماندار اور قابل شخص کو چیئرمین نیب لگائے”

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کیلئے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

    دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی پروفائل کیسز میں تفتیشی افسران تبدیل نہ کرنے کا عدالت کا حکم بر قرار ہے، چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے نظام سے باہر کسی کی رائے سے متاثر نہ ہوں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق احتیاط سے سوچ سمجھ کر اقدام کریں، نیب کسی پر بے بنیاد مقدمہ بنانے سے متعلق دباؤ قبول نہ کرے، اگرنیب پر دباؤ ڈالا جائے تو ہمیں چِٹھی لکھیں، اٹارنی جنرل کو مشورہ دیا کہ چیئرمین نیب قابل اور دیانتدار شخص کو ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ایسے پرانے مقدمات جن میں سزا نہیں ہوسکتی نیب خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس کیس کو چاہیں اٹھا کر پھینک دیں، ایک منشیات کا کیس تھا جس کی ہیڈ لائن لگی تھی، تفتیشی افسر سے پوچھا تو اس نے کہا یہ بوگس کیس تھا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈی جی ایف آئی اے اور پراسیکیوٹر نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات کی نقول سربمہر کر کے ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ اگر اداروں سے ریکارڈ غائب ہو تو سپریم کورٹ سے مل جائے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے، پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔

    بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کی مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔

  • "بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ عدالتیں کمپرومائز ہیں "

    "بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ عدالتیں کمپرومائز ہیں "

    اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والے لوگوں کو یہ تاثر دے رہےہیں کہ عدالتیں کمپرومائز ہیں، کل تک سوچ کر بتائیں عدالت پر اعتماد ہےیا نہیں؟۔

    تفصیلات کے مطابق یہ ریمارکس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فواد چوہدری اور شہباز گل کی حفاظتی ضمانت کےلئے دائر درخواستوں کی سماعت کے موقع پر دئیے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بیانیہ بنایاہوا ہے کہ عدالتیں رات کو کھل گئی ہیں، یہ کہناچاہتے ہیں کہ عدالتیں آزاد نہیں، آپکےخلاف پٹیشن آئی تھی اسی عدالت نےجرمانےکےساتھ خارج کردی جبکہ پی ٹی آئی والے لوگوں کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عدالتیں کمپرومائزہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: تینوں جماعتیں آزماچکے، عوام اب جماعت اسلامی پر اعتماد کرے، سراج الحق

    معرزز چیف جسٹس نے وکیل فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنےکلائنٹ سے پوچھ لیں انہیں عدالتوں پر اعتماد ہے یا نہیں، پھر عدالت کو بتا دیں، فواد چوہدری جلسوں میں برملا کہہ رہے ہیں کہ عدالتیں سمجھوتا کر چکی ہیں اور وہ طویل عرصے سےعدالت کے رات کو کھلنے پرتنقید کررہےہیں۔

    جس پر پی ٹی آئی رہنما کے وکیل فیصل چوہدری نے چیف جسٹس سے گزارش کی کہ آپ بڑے ہیں، ایسے سیاسی بیانات کو نظرانداز کر لیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جب کسی کو اعتماد ہی نہیں تو عدالت کیس کیسےسن لے؟ آپکےپارٹی فالوور کی جانب سے مسلسل پروپیگنڈاکیاجارہا ہے، کبھی میرے خلاف لندن فلیٹ تو کھبی میری اور جسٹس منصورعلی شاہ کی تصویر کو غلط رنگ دیاجارہاہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ عدالت کسی سے نہیں گھبراتی،سیاسی لوگ جو دل کرے بول دیں، اس عدالت نے کل تقرری خود کی ہے، دیکھنا یہ ہےکہ آیا ایسےدرخواست گزار کو سننا چاہیے یا ایسے درخواستگزار کو کسی اور عدالت کےپاس بھیج دیاجائے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فواد چوہدری اور شہبازگل کی ضمانت میں آئندہ سماعت تک توسیع کرتے ہوئے مزید سماعت بارہ مئی تک ملتوی کردی۔

  • گھر کی بات گھرمیں ہی رہنی چاہیے، چیف جسٹس

    گھر کی بات گھرمیں ہی رہنی چاہیے، چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے، ہم تو برادری کی بات بھی باہر نہیں کرتے، میں چند دنوں کا مہمان ہوں میں نے بھی چلےجانا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فروری اور مارچ میں سپریم کورٹ 4ہزار مقدمات کا فیصلہ کرچکی ہے، عدالت عظمیٰ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد میں ایک ہزار تک کمی آئی، زیرالتواء مقدمات نمٹانے پر ساتھی ججز اوروکلا کا مشکور ہوں،انشاءاللہ عدالت اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی امین نے فوجداری مقدمات میں تاریخی فیصلے دیئے، جسٹس قاضی امین نے گواہان کے تحفظ کی ریاستی ذمہ داری کو فیصلوں میں اجاگر کیا، معزز جج نے کبھی تکنیکی نکات کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کیلئے جسٹس قاضی امین نے تاریخی فیصلے دئیے۔

    فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے عمومی الزامات لگاکرججز کو سرکاری ملازم کہا، سپریم کورٹ میں ججز انتہائی قابل اور پروفیشنل ہیں، ججز کو سرکاری ملازم کہنا انتہائی غیرمناسب بات ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کیلئے قابلیت،رویے،بہترین ساکھ اوربغیر خوف و لالچ کامعیار رکھا ہے، اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ہم سب اللہ کو جواب دہ ہیں،وکلاکیس تیاری کیے بغیر عدالت سے رحم کی توقع رکھیں تو ایسا نہیں ہو سکتا، ججز عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد کئی گھنٹے تک مقدمات سنتے ہیں۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عوام میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ صرف میڈیا کیلئے ہے، کسی جج کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا ، بنچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے، بیس سال سے بنچز چیف جسٹس ہی بناتے ہیں احسن بھون کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟ ۔

    فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رجسٹرار کی تعیناتی بہترین افسران میں سے کی گئی ہے،رجسٹرار کو قانون کا بھی علم ہے اور انتظامی کام بھی جانتے ہیں،بلاوجہ اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں ؟ کیا آپ چاہتے ہیں انتظامی کام بھی میں کروں؟، کونسا مقدمہ مقرر اور کس بنچ میں ہوناہے یہ فیصلہ میں کرتا ہوں۔

    معزز چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ مجھ سے کسی کو تکلیف ہے تو آ کر بات کریں، ادارے کی باتیں باہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی،ہم تو برادری کی بات بھی باہر نہیں کرتے، میں چند دنوں کا مہمان ہوں میں نے بھی چلےجانا ہے، مگر یاد رکھیں کہ ہم ججز نے بھی اپنے حلف کی پاسداری کرنی ہے،ججز خود پر لگے الزامات کا جواب نہیں دے سکتے، فیصلوں پر تنقید کریں ججز کی ذات پر نہیں ۔

  • رحیم یارخان میں مندر پر حملہ ، چیف جسٹس نے  ازخودنوٹس  لے لیا

    رحیم یارخان میں مندر پر حملہ ، چیف جسٹس نے ازخودنوٹس لے لیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے رحیم یارخان میں مندر پر حملے کا ازخودنوٹس لے لیا اور کیس کل ہی سماعت کیلئےمقرر کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کا رحیم یارخان میں مندر پر حملے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ازخودنوٹس کیس کل ہی سماعت کیلئےمقرر کرلیا ہے۔

    چیف جسٹس نے رحیم یارخان میں مندر پر حملہ کیس میں چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کل سپریم کورٹ میں طلب کرلیا ہے۔

    یاد رہے پنجاب کے علاقے صادق آباد کے نواحی شہر بھونگ میں دو گروپوں کے درمیان ہونے والا جھگڑا مذہبی رنگ اختیار کرگیا تھا ، جس کے بعد مشتعل افراد نے علاقے میں قائم قدیم مندر پر حملہ کیا اور اُسے نذر آتش کردیا۔

    بعد ازاں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی نے واقعے کے حوالے سے بتایا کہ رحيم يارخان انتظاميہ سے بات ہوئی ہے،فتنہ فساد پھيلانےوالوں كو کسی صورت معاف نہیں كيا جائےگا، بھونگ شہر میں ہونے والے حملے کی تحقیقات جاری ہیں، مندرپرحملہ كرنے والے جلد قانون كے شكنجے ميں ہوں گے۔

  • جتنی مشینیں چاہیں لے جائیں اور سب گرائیں، چیف جسٹس کا کشمیر روڈ سے تجاوزات فوری ختم کرنے کا حکم

    جتنی مشینیں چاہیں لے جائیں اور سب گرائیں، چیف جسٹس کا کشمیر روڈ سے تجاوزات فوری ختم کرنے کا حکم

    کراچی : چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کشمیر روڈ سے تمام تجاوزات فوری ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا جتنی مشینیں چاہیں لے جائیں اور سب گرائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کشمیر روڈ پر کے ڈی اے افسر و دیگر تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    سپریم کورٹ نے کشمیر روڈ سے تمام تجاوزات کا فوری ختم کرنے کا حکم دیا ، چیف جسٹس نے کے ڈی اے کو حکم دیا کہ جتنی مشینیں چاہیں لے جائیں اور سب گرائیں۔

    چیف جسٹس نے کے ڈی اے کلب، اسکواش کورٹ، سوئمنگ پول و دیگر تعمیرات بھی گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کسی زمانے میں کشمیر روڈپر بچے کھیلتے تھے، میں خود وہاں کھیلتا رہا، آج کشمیر روڈپر سب قبضے ہو گئے۔

    سپریم کورٹ نے کشمیر روڈ دوبارہ بچوں کے لیے کھولنے اور رائیل پارک پر بھی پارک بنانے کا حکم دیا ، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا پورا کے ڈی اے افسر کلب گرا دیا گیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میری اطلاع کے مطابق کلب اب بھی چل رہا ہے اور الہ دین پر بھی کوئی کلب بنا دیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کے ڈی اے کلب کیا ہوتے ہیں ؟ ہم نے بچپن میں ان سب میدانوں میں کھیلاہے، کیا کشمیر روڈپر سب ختم کردیا ؟ ملبہ کیوں چھوڑ دیا؟ تجاوزات اب بھی ہیں تو بچے کیسے کھیلیں گے۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کیا سپریم کورٹ خود جا کر تجاوزات کا خاتمہ کرے، کیا صرف اشرافیہ کے لیے سب سہولتیں ہیں، عدالت نے دیتے ہوئے کہا کوئی رکاوٹ ڈالے تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی تصور ہوگا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کردی۔

  • زیر تربیت پولیس افسران کو سمجھنا ہوگا آپ کا کام شہریوں کا تحفظ ہے: چیف جسٹس

    زیر تربیت پولیس افسران کو سمجھنا ہوگا آپ کا کام شہریوں کا تحفظ ہے: چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے تاثر رہا ہے کہ پولیس تحفظ کے بجائے بنیادی حقوق سلب کرتی ہے، آئین اور قانون کی حکمرانی شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے تقریب میں شرکت خوش آئند اور باعث فخر ہے، معاشرے میں پولیس کا اہم کردار ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے میں امن اور شہریوں کے تحفظ کے لیے پولیس کا کردار کلیدی ہے، پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہتے ہیں۔ میرے بھائی بھی پولیس میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے 16 دسمبر ہمیں دو سانحات کی یاد دلاتا ہے، ایک سقوط ڈھاکہ اور دوسرا سانحہ اے پی ایس پشاور کی۔ سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات سوچ میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہر ریاست کا اولین فرض ہے، یہ ہمیں سقوط ڈھاکا سے سبق ملتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے تاثر رہا ہے پولیس تحفظ کے بجائے بنیادی حقوق سلب کرتی ہے، آئین اور قانون کی حکمرانی شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے۔ زیر تربیت افسران کو سمجھنا ہوگا آپ کا کام شہریوں کا تحفظ ہے، گورننس قانون کے مطابق ہونی چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ ریاست یقینی بنائے بنیادی حقوق عوام تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں، وقت آئے گا جب پولیس کی مکمل اپروچ پر سوچنا ہوگا۔ پولیس کا کام عوام کی حفاظت ہے پراسیکیوشن نہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اے پی ایس واقعہ نے ہمیں غور کرنے پر مجبور کیا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد پوری قوم نے فیصلہ کیا کہ کچھ کرنا ہوگا۔ قوم نے دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کو سپورٹ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کا اہم جزو کرمنل جسٹس سسٹم بھی ہے، کرمنل جسٹس میں ہم نے کچھ بہتری لانے کی کوشش کی۔ انصاف کے شعبے میں بہتری آرہی ہے، پولیس کی بہتری کے لیے بدقسمتی سے حکومتی سطح پر کام نہیں کیا گیا۔

  • اسد منیر کی خودکشی، معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

    اسد منیر کی خودکشی، معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برییگیڈیٹر (ر) اسد منیر کے خط کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین نیب سے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کا آخری خط سپریم کورٹ کو موصول ہوا جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین نیب سے جواب طلب کرلیا کہ بریگیڈیئرریٹائرڈاسدمنیر نےخود کشی کیوں کی؟۔

    یاد رہے کہ 15 مارچ کو دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرد اسد منیر اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے، اُن کی لاش ڈپلومیٹک انکلیو سے برآمد ہوئی تھی جس کے بعد اہل خانہ نے اُسے پمز اسپتال منتقل کیا تھا۔

    پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ بریگیڈیئر (ر)اسد منیر نیب کی جانب سےجاری تحقیقات پر پریشان تھے، نیب کی جانب سے ان پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایف 11 میں پلاٹ بحال کرنے کا الزام تھا۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈاسد منیرسی ڈی اے میں ممبراسٹیٹ بھی رہ چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نےچیئرمین نیب سے رپورٹ طلب کرلی 

    ذرائع کے مطابق بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے 14 مارچ کی شب پنکھے کے ساتھ لٹک کر خودکشی کی، پولیس نے رات کو لاش تحویل میں لے کر اسپتال منتقل کر دیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسد منیر کے خودکشی کرنے کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ خاندانی ذرائع نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ اسد منیر نے کہا تھا کہ یہ نیب میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا۔

    خاندانی ذرائع کے مطابق اسد منیر میڈیا پر چلنے والی خبروں پر کافی پریشان تھے، گزشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں اسد منیر کے خلاف ریفرنس دائر کرنےکی منظوری دی گئی تھی۔

    دوسری جانب بریگیڈئیر (ر)اسد منیر کی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی، لاش بیٹے نے وصول کی، ترجمان پمز اسپتال کا کہنا ہے کہ لواحقین نے پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت نہیں دی، جس کے باعث ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے انتظامیہ کو قانونی کارروائی سے روک دیا تھا۔

    بعد ازاں اُن کا نماز جنازہ اسلام آباد کے ایچ ایٹ فور میں ادا کیا گیا تھا جس میں اہل خانہ سمیت اُن کے دوست احباب نے شرکت کی تھی، پوسٹ مارٹم نہ ہونے کی وجہ سے قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی اہل خانہ نے کوئی مقدمہ درج کرایا۔

  • سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو شک کا فائدہ دے کر رہا کردیا

    سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو شک کا فائدہ دے کر رہا کردیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم محمد زمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق راولپنڈی کےعلاقے چونترہ میں قتل سےمتعلق سپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ ٹرائل کورٹ نے 2011 میں شہری کو قتل اور بیٹے کو زخمی کرنے کے الزام میں تین ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جس کے بعد ملزمان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔

    ہائی کورٹ نے محمد زمان اور محمد آزاد نامی ملزمان کی سزا برقرار رکھی جبکہ تیسرے ملزم محمد شہزاد کو باعزت بری قرار دے دیا تھا، عدالت سے سزا پانے والے ملزم محمد آزاد دوران قید ہی انتقال کرگئے تھے۔

    مزید پڑھیں: بیوی کا قتل: سپریم کورٹ میں ملزم شمس الرحمان کی رہائی کے خلاف اپیل خارج

    سزائے موت کے قیدی محمد زمان نےسزا کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس کو سپریم کورٹ نے قابل سماعت قرار دیا اور آج چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس پر سماعت کی۔

    دورانِ سماعت چیف جسٹس نے مقتول کے وکیل سےسوال کیا کہ 4 گھنٹے تک زخمی شخص کو کسی نے نہیں اٹھایا؟ پولیس کے پہنچنے پر زخمی شخص نے اپنی ایف آئی آر انہیں کیسے دے دی؟۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پوسٹ مارٹم میں مقتول کی موت کا وقت درج نہیں جبکہ ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک زخم 3 ضرب 3 سینٹی میٹر کا تھا، اتنے بڑے زخم کے بعد مقتول کو کومے میں ہونا چاہیے تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: ہر کیس میں بلاوجہ نوٹس جاری نہیں ہوں گے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ زخمی مدعی گہرے زخموں کے باوجود اتناہوش میں کیسے تھا کہ اُس نے پولیس کو واقعے کی ایف آئی آر درج کرادی جبکہ میڈیکل رپورٹ اور گواہ کےبیان میں تضادہےجس سے شک ہوتاہے۔

    چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اتنے مضبوط شک کی بنیاد پر سزائے موت کا فیصلہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا لہذا عدالت ملزم کو اس کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتی ہے۔

  • سپریم کورٹ کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ، چیف جسٹس کی سربراہی میں اجلاس

    سپریم کورٹ کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ، چیف جسٹس کی سربراہی میں اجلاس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ۔

    نمائندہ اے آر وائی حسن ایوب کے مطابق چیف جسٹس کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس میں جسٹس گلزار، جسٹس عظمت سعید،جسٹس مشیرعالم،جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظوراحمد، جسٹس سردارطارق، جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس مظہرعالم،جسٹس سجادعلی شاہ، جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی شریک ہوئے۔

    اعلامیے کے مطابق اجلاس میں شریک ججز نے آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس کا قلمدان سنبھالنے پر مبارک بار پیش کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس طلب کرنے کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    مزید پڑھیں: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بیوی کے قتل کے ملزم کو ساڑھے 9سال بعد بری کردیا

    سپریم کورٹ اعلامیے کے مطابق اجلاس کا مقصد انصاف کی فراہمی اور مقدمات کو نمٹانے سے متعلق تھا۔

    اعلامیے کے مطابق یکم جنوری 2018 سے 31 دسمبر 2018 تک 6 ہزار 407 مقدمات سپریم کورٹ میں دائر ہوئے جن میں سے 6 ہزار 342 مقدمات نمٹائے گئے۔ اعلامیے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 40 ہزار 535 ہے۔

    یاد رہے 18 جنوری کو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ملک کے 26 ویں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، جس کے بعد انہوں نے ایک گھنٹے کے اندر ہی پہلے مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا جبکہ ایک روز قبل 17 جنوری کو فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ زیر التوامقدمات کا قرض اتاروں گا، فوج اورحساس اداروں کاسویلین معاملات میں دخل نہیں ہوناچاہیئے، ملٹری کورٹس میں سویلین کاٹرائل ساری دنیامیں غلط سمجھا جاتاہے،کوشش کریں گےسول عدالتوں میں بھی جلدفیصلےہوں۔

    یہ بھی پڑھیں: بطورچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک گھنٹے کے اندر پہلے مقدمے کا فیصلہ سنادیا

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ بطورچیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل دور کرنےکی کوشش کروں گا،جعلی مقدمات اور جھوٹےگواہوں کیخلاف ڈیم بناؤں گا۔

    بعد ازاں 21 جنوری کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اپریل 2018 میں دائر ہونے والی اپیلوں پر آج سماعت ہورہی ہے، دو سے تین ماہ میں تمام زیر التوا فوجداری مقدمات کا فیصلہ سنا دیں گے۔