Tag: CJP asif khosa

  • سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کردیا گیا

    سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کردیا گیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جھوٹ بول کرملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جاسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔

    دوران سماعت عدالت نے کہا کیس میں یہ نہیں پتہ کہ کس ملزم نےقتل میں کیاکرداراداکیا ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  جب یہ معلوم نہ ہو کہ قتل کیس میں کس کا کیا کردار ہے تو اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔

    سر کاری وکیل کا کہنا تھا کہ 1996 میں ضلع لاہور کے علاقے نارواں کوٹ میں ڈکیتی کے دوران شفیقہ بی بی اور اس کے پانچ بچوں کو قتل کر دیا گیا، قتل ہونے والے بچوں میں ایک بچہ دو سال کا بھی تھا، ملزمان کے فنگر پرنٹس اور سر کے بال برآمد ہوئے۔

    وکیل ملزمان کے مطابق ملزمان کے خلاف کوئی بھی گواہ موجود نہیں،جھوٹے فنگر پرنٹ بنا کر ملزمان کو پھنسایا گیا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جھوٹ بول کر چار ملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جا سکتی، اس کیس میں پولیس نے وہ کیا جو ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ پولیس کو کرنا چاہیے،ہم ہمیشہ کہتے ہیں ایسے کیسز میں پولیس کوفنگر پرنٹ لینے چاہیں۔

    وکیل ملزم نے کہاکہ جب یہ واقعہ ہو اس وقت ملزمان کی عمر 17 اور 18 سال تھی، جبکہ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان 23 سال سے جیل میں ہیں اور اب آدھی سے زیادہ عمر کاٹ چکے ہیں۔

    دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

    خیال رہے ملزم سرفراز،جاوید، ندیم اور محمد یوصف پر شفیقہ بی بی اور اسکے پانچ بچوں کے قتل میں ملوث تھے، ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔

  • نیب قانون کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسے جیسے مرضی استعمال کریں، چیف جسٹس

    نیب قانون کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسے جیسے مرضی استعمال کریں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےملزم حشمت اللہ شاہ کوبری کرنےکاحکم دےدیا، چیف جسٹس نے اہم ریمارکس میں کہا نیب قانون کایہ مطلب نہیں کہ آپ اسےجیسےمرضی استعمال کریں ، نیب قانون کاغلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملزم حشمت اللہ شاہ کیس کی سماعت کی، حشمت اللہ پر لوگوں سے کاروبار میں شراکت داری کےلئے دو کروڑ 70 لاکھ روپے لے کر خرد برد کا الزام تھا۔

    وکیل ملزم نے کہا کہ حشمت اللہ 1986 سے کاربار کر رہا تھا، 2003 سے 2007 کے دوران 24 افراد نے بزنس میں شراکت کے لیے انوسمٹ کی۔

    وکیل نیب نے عدالت کو بتایا ملزم نے لوگوں کو دعوت دی کہ اس بزنس میں پیسے لگائیں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ امانت کے طور پر پیسے دینے اور بزنس میں لگانے میں فرق ہوتا ہے، تمام بزنس ضروری نہیں کامیاب ہوں، اکثر بزنس ناکام ہو جاتے ہیں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نیب قانون سے متعلق اہم ریماکس دیتے ہوئے کہاکہ نیب قانون کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسے جیسے مرضی استعمال کریں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ پہلے ہم سنتے تھے کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے نیب قانون کا استعمال کیا جاتا تھا، اب سول سوسائٹی کو کرمنل لاءکے ذریعے ڈیل کیا جا رہا ہے، نیب قانون کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

    یاد رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم حشمت اللہ کو چار سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی، بلوچستان ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

  • عمر قید کی سزا 25 سال جیل یا پوری عمر ؟ مدت کے تعین کیلئے لارجربنچ تشکیل

    عمر قید کی سزا 25 سال جیل یا پوری عمر ؟ مدت کے تعین کیلئے لارجربنچ تشکیل

    اسلام آباد :چیف جسٹس آصف کھوسہ نے نے عمر قید کی سزا کی مدت کے تعین کانوٹس لیتے ہوئے معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا اور اٹارنی جنرل، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور پراسیکیوٹرز جنرل کو نوٹسز جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کور ٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ نے عمر قید کی سزا کی مدت کےتعین کانوٹس لے لیا، نوٹس ہارون الرشید بنام اسٹیٹ مقدمہ کی سماعت کے دوران لیا۔

    وکیل ذوالفقار ملوکا کاکہناتھا کہ ہارون الرشید کو قتل کے مختلف 12 مقدمات میں 12 مرتبہ عمر قید کی سزا ہوئی، مجرم 1997سے جیل میں ہے،22 سال سزا کاٹ چکا ہے ، عدالت عمر قید کی 12 سزاؤں کو ایک ساتھ شمار کرنے کا حکم دے ۔

    جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ کیا یہ غلط فہمی نہیں عمر قید کی سزا کی مدت 25 سال ہے جب یہ پتہ نہیں زندہ کتنا رہنا ہے تو اسکو آدھا کیسے کردیں بڑے عرصے ایسے کسی کیس کا انتظار تھا جس میں عمر قید سزا کی مدمت کا فیصلہ کریں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھ کہ جیل کی سزا میں دن رات شمار کیے جاتے ہیں، اس طریقے سے مجرم پانچ سال بعد باہر آجاتا ہے، بہت سی غلط فہمیاں درست کرنے کا وقت آ گیا، عمر قید سزا کی مدت کا تعین عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

    مزید پڑھیں : عمر قید کا مطلب تا حیات قید ہوتا ہے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    عدالت نے رجسٹرار آفس کو معاملہ اکتوبر کے پہلے ہفتے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے قتل کے ملزم کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر ریمارکس دیئے تھے عمر قید کا یہ مطلب نکال لیا گیا 25 سال قید ہے، عمر قید کی غلط مطلب لیا جاتا ہے، عمر قید کا مطلب ہوتا ہے تا حیات قید۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کسی موقع پر عمر قید کی درست تشریع کریں گے، ایسا ہوا تو اس کے بعد ملزم عمر قید کی جگہ سزائے موت مانگے گا۔

  • یہاں ہم نوکریاں یا الاﺅنس دینے کے لیے نہیں بیٹھے، چیف جسٹس

    یہاں ہم نوکریاں یا الاﺅنس دینے کے لیے نہیں بیٹھے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ملازم وزارت خارجہ ممتاز احمد کی فارن الاﺅنس کی درخواست خارج کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ،یہاں نوکریاں یا الاﺅنس دینے کے لیے نہیں بیٹھے، ہمیں اپنا کام قانون کے تحت کرنا ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے ملازم وزارت خارجہ ممتاز احمد کی فارن الاﺅنس کی درخواست پر سماعت کی۔

    دور ان سماعت وکیل ممتاز احمد نے کہاکہ عدالت نے معاملہ کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دیا، عدالتی حکم کے باوجود معاملہ کا وزارت نے جائزہ نہیں لیا ۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا محکمہ اپنے رولز میں ترمیم کرنے کا اختیار کھتا ہے، جس پر وکیل نے کہاکہ عدالت ہوا کے لیے تھوڑا دروازہ کھول دے۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ ہمدری کے لیے یہاں نہیں بیٹھے ، راستہ قانون سے نکلے گا، قانون راستہ نہ دیں تو ہمدردی بھی نہیں کر سکتے ،یہاں نوکریاں یا الاﺅنس دینے کے لیے نہیں بیٹھے ، ہمیں اپنا کام قانون کے تحت کرنا ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے ملازم وزارت خارجہ ممتاز احمد کی فارن الاﺅنس کی درخواست خارج کردی۔

  • چیف جسٹس نے خودکش دھماکوں کے الزام میں عمرقید کاٹنے والے کوبری کردیا

    چیف جسٹس نے خودکش دھماکوں کے الزام میں عمرقید کاٹنے والے کوبری کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے خودکش دھماکوں عمر قید سزا یافتہ ملزم کوبری کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے استغاثہ کے پاس ملزم کے خلاف  کوئی ٹھوس ثبوت نہیں، اتنا بڑا دھماکا ہوگیا اس لیے سزا دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے خودکش دھماکوں میں ملوث ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس کی بات ہےنچلی عدالتوں نےیہ چیزیں کیوں نہیں دیکھتیں ،اتنا بڑا دهماکہ ہو گیا اس لیے سزا دے دی، ہائی کورٹ اتنی بڑی عدالت ہےاس نےبھی شواہد کونہیں دیکھا۔

    وکیل نے عدالت میں بتایا کہ 2008میں پاکستان نیول وارکالج لاہورکے باہردوخودکش دھماکے ہوئے، دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 18 زخمی ہوئے تھے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا اتنا بڑا واقعہ ہوگیا ، 2 دھماکے ہوئے لیکن کوئی ثبوت ہی نہیں، ثبوت صرف دھماکاہی ہے؟ آپ کے پاس ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں؟ ایسا لگ رہا ہے ملزم کو ویسے ہی کیس میں گھسیٹاگیا، ملزم کانام ایف آئی آرمیں بھی موجود نہیں تھا۔

    عدالت نے خودکش دهماکوں میں ملوث عمرقید کے ملزم کو عدم شواہد پر شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنےکاحکم دیا۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نے ملزم ندیم حسین کو عمرقید کی سزاسنائی تھی ، جسے ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا ، بعد ازاں ملزم نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےمعاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، چیف جسٹس

    سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےمعاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی تاہم نچلی عدالتوں میں بہت زیادہ ناانصافی پر مداخلت کاسوچ سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ نے گرانٹ کی رقم ادا ئیگی مہلت میں توسیع کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےمعاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی ، ستر سالہ تاریخ ہے نچلی عدالتوں کے معاملات میں دخل نہیں دیتے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا نچلی عدالتوں میں بہت زیادہ ناانصافی پر سپریم کورٹ مداخلت کا سوچ سکتی ہے۔

    کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ، پندرہ لاکھ کی ریکوری کے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف وارث مسیح نے درخواست دائر کی تھی۔

    درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ عدالت رقم کی ادائیگی مہلت میں توسیع کرے، سات لاکھ کی ادائیگی آج ہی کرنے کو تیار ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے کوئی حکم نہیں دے سکتے، جسٹس گلزار کا کہنا تھا درخواست گزارصرف معاملےکولٹکاناچاہتاہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے وارث مسیح کی درخواست خارج کردی۔

  • نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے؟ چیف جسٹس

    نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے؟ چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایڈیشنل کلکٹرانکم ٹیکس لاہور کی بریت پرنیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے، ہم نے پہلے بھی کہا آپ کےکام نہیں آئیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایڈیشنل کلکٹر انکم ٹیکس لاہور محمد اقبال کی بریت پر نیب اپیل پر سماعت کی۔

    نیب پراسیکوٹرنے عدالت عظمی کوبتایا کہ محمد اقبال احمد نے آٹھ غیر قانونی اور بے نامی جائیدادیں خریدکر آگے فروخت کر دیں، چیف جسٹس نے نیب پراسیکوٹر سے کہا کہ الزام ثابت کرناآپ کاکام ہے، نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے،چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے کہا آپ کی اپنی حکومت ہے اپنے کام خود کریں، ہم نےپہلے بھی کہا آپ کےکام نہیں آئیں گے، اگر مالک اور بے نامی دار خود کہہ رہے ہیں کہ جائیداد ہماری نہیں تو آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ آپ کی غلطی کی ہے کہ 342 کے درست سوالات عدالت میں پیش نہیں کیے۔

    عدالت نے ایڈیشنل کلکٹر انکم ٹیکس لاہور محمد اقبال احمد کی بریت کیخلاف نیب کی اپیل مسترد کر دی اور کہا استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا، ملزم کیخلاف اورکوئی مقدمہ ہوتو نیب تحقیقات جاری رکھے۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نے محمد اقبال احمد کو 2006 میں 10 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کیا جبکہ ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کر دیا تھا۔

    بعد ازاں ملزم کی بریت کےخلاف نیب نےسپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    یاد رہے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو گائیڈ لائن دے دی اور کہا ملزم خاموش بھی رہےتو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے، شک وشبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

  • کرپشن کے مقدمے میں 3سال کی سزا مذاق ہے، چیف جسٹس

    کرپشن کے مقدمے میں 3سال کی سزا مذاق ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کرپشن کے مقدمے میں تین سال کی سزامذاق قرار دیتے ہوئے کہا تین سال کی سزا تو چھڑی مارنے کے جرم میں ہوجاتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق سربراہ ظاہرکی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کی، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید بھی بینچ کا حصہ تھے۔

    دور ان سپریم کورٹ نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی اور ظاہر شاہ پر 3سال قید ،2 کروڑ 15لاکھ جرمانہ اور جائیداد ضبطگی کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    وکیل ظاہرشاہ نے کہا احتساب عدالت نے جائیدادضبط کرنےکاحکم نہیں دیا اور ہائی کورٹ نے نیب اپیل کے بغیر جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کرپشن کے مقدمےمیں 3سال کی سزامذاق ہے، چھڑی مارنے کے جرم مین تین سال سزا دی جاتی ہے، بطور سرکاری ملازم ظاہرشاہ نے کروڑوں کی جائیداد کیسے بنالی۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم کی تنخواہ اس وقت 1275 تھی پھر کروڑوں کی جائیداد کیسے کہاں سے آئی ؟ اس وقت گھر کا کرایہ بھی 3 سو روپے ہواہو گا، 3 سال کی سزاکرپشن کےمقدمےمیں بہت کم ہے، سوچ رہے ہیں کیوں نہ سزا بڑھا دیں۔

    وکیل ملزم نے بتایا کہ ظاہر شاہ نے 1974 میں 4گھر فروخت کیے ان سے جو رقم ملی اس سے جائیداد بنائی، چار گھر ظاہر شاہ نے سروس سے پہلے 1974 میں خریدے تھے۔یہ ساری جائیدادیں ظاہر شاہ کے سروس میں آنے سے پہلے کی ہیں ، وہ1975 میں سروس میں آیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا اثاثے 1988میں بنائےگئے،وسائل1998 کے ہیں، ظاہر شاہ نے کروڑوں کے اثاثے بنالیے، جس پر وکیل نے کہا میں سزا کے خلاف موکل کی اپیل واپس لیتا ہوں۔

    جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے ملزم سید ظاہر شاہ کو 3 سال قید اور دو کروڑ 15 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی، ہائی کورٹ نے ملزم کی تین سال قید کو برقرار رکھا اور جرمانہ کم کر کے ایک کروڑ 15 لاکھ کر دیا۔

    خیال رہے کہ ملزم ظاہر شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام تھا۔

    مزید پڑھیں : کرپشن کی رقم مرکر بھی ادا کرنا ہوگی ، چیف جسٹس نے واضح کردیا

    یاد رہے چند روز قبل چیف جسٹس آصف کھوسہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کرپشن کی رقم موت کے بعد بھی جمع کرانی ہوگی اور مرحوم ڈی ایس پی جمیل اختر اور اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خورد برد کیےگئے تین کروڑ روپےادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • کرپشن کی رقم مرکر بھی ادا کرنا ہوگی ، چیف جسٹس  نے واضح کردیا

    کرپشن کی رقم مرکر بھی ادا کرنا ہوگی ، چیف جسٹس نے واضح کردیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کرپشن کی رقم موت کے بعد بھی جمع کرانی ہوگی اور مرحوم ڈی ایس پی جمیل اختر اور اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خورد برد کیےگئے تین کروڑ روپےادا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس نے مرحوم ڈی ایس پی جمیل اختر اور اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خورد برد کیےگئے تین کروڑ روپےادا کرنے کا حکم دیا۔

    کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کرپشن کہ رقم تو واپس کرنا ہوگی جرمانہ کی رقم کی گئی کرپشن سے بہت کم ہے، ڈھائی کروڑ کا پلاٹ لیا گیا اب اس پلاٹ کی موجودہ مالیت ڈھائی ارب سے زیادہ ہوگی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو ہزار تین میں کہا گیا کہ 3 کروڑ جرمانہ آج کے حساب سے انتہائی کم ہے۔

    وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ جمیل اختر کیانی 1959 بھرتی اور 1995 میں ڈی ایس پی پولیس ریٹائرڈ ہوئے، وکیل مسمات ریاض بی بی نے عدالت کے روبرو بتایا کہ جرمانہ کی تین کروڑ رقم ادا نہیں کر سکتے۔

    مزید پڑھیں : کرپشن کیس میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کا بڑا فیصلہ

    وکیل مجرمان کا کہنا تھا کہ نیب نے ہمارے 1995 کے بعد کے اکاونٹ بھی ضبط کر لیے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جرمانہ کم نہیں زیادہ ہو سکتا ہے کرپشن کا ساری عمر لوگ استعمال کرتے ہیں، ایشو یہ نہیں کہ اثاثوں پر مزے کئے، ایشو یہ ہے نو کروڑ کے اثاثے کب اور کیسے بنے؟۔

    خیال رہے جمیل اختر کیانی پر کرپشن اور اختیار کے ناجائز استعمال کا الزام تھا، ٹرائل کورٹ نے جمیل اختر اور اسکی اہلیہ کو دس اور پانچ سال سزا کیساتھ 30 ملین جرمانہ کیا تھا اور ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ برقرار رکھا

    یاد رہے چند روز قبل کرپشن کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھسہ نے کا بڑا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کے ورثاء کوجرمانہ اداکرنے کاحکم دیا تھا اور ریمارکس دیئے تھے کہ بے شک سب کیا دھرا والد کا ہو، مجرم کے بعد اس کی اولادوں سے رقم وصولی کا قانون ہے۔

  • سچ بولنے کی ہمت نہیں توانصاف بھی نہ مانگیں، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    سچ بولنے کی ہمت نہیں توانصاف بھی نہ مانگیں، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے قتل کےملزم کی بریت کےخلاف نظرثانی اپیل خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیئے سچ بولنے کی ہمت نہیں توانصاف بھی نہ مانگیں، سچ کے بغیر انصاف نہیں ہوسکتا،گواہ اللہ کی خاطر بنا جاتا ہے،اللہ کا حکم ہے اپنے والدین، بھائی، عزیز کےخلاف سچی گواہی دو۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قتل کے ملزم احمد کی بریت کیخلاف مقتول طارق محمود کے بھائی کی نظر ثانی اپیل پر سماعت کی۔

    دور ان سماعت چیف جسٹس نے مقتول کے بھائی سے مکالمہ کیا کہ سپریم کورٹ نے آپ کی اپیل کیوں خارج کی ، کیا عدالتی فیصلہ آپ نے پڑھا۔

    بھائی مقتول صفدر صدیق نے کہاکہ میرے بھائی کو احمد نے قتل کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ احمد نے قتل کیا ہوگا، سوال یہ ہے احمد بری کیسے ہوا؟۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ غلط شہادت پر ملزم بری ہو جاتے ہیں،جھوٹی شہادت پر ملزمان کے بری ہونے کا الزام عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے، سچ بولنے کی ہمت نہیں تو انصاف بھی نہ مانگیں۔

    چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ نے بھائی کے قتل کی جھوٹی گواہی دی، جس ڈیرہ پر قتل کا واقعہ ہوا وہاں آپ موجود ہی نہیں تھے،کیوں نہ جھوٹی گواہی پر آپ کےخلاف کاروائی کرکے عمر قید سزا دیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ جھوٹی گواہی پر پہلے ہی پانچ جھوٹے گواہوں کو کارروائی کا سامنا ہے، سچ کے بغیر انصاف نہیں ہو سکتا،گواہ اللہ کی خاطر بولا جاتا ہے،اللہ کا حکم ہے اپنے والدین، بھائی، عزیز کےخلاف سچی گواہی دوں۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ جھوٹے گواہوں کے خلاف کاروائیاں شروع ہو چکی ہیں،کوشش کر رہے ہیں عدلیہ میں سچ کو واپس لائیں۔

    یاد رہے کہ 2014 میں احمد پر طارق محمود کو قتل کا الزام تھا ،ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی،سپریم کورٹ نے ملزم احمد کو بری کر دیا تھا، احمد کی بریت کیخلاف مقتول کے بھائی صفدر صدیق نے نظر ثانی اپیل دائر کی تھی۔