Tag: CJP asif khosa

  • ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے  ، چیف جسٹس

    ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے ، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو گائیڈ لائن دے دی اور کہا ملزم خاموش بھی رہےتو جرم کو نیب نے ثابت کرناہے، شک وشبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محکمہ خوراک بلوچستان کے گندم خوربرد میں ملوث ملازمین کی اپیلوں پر سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا گندم خوردبرد میں ملوث ٹھیکیداروں نے پلی بارگین کرلی، حکومت کا نقصان پلی بارگین سے ریکور ہو گیا۔

    جسٹس طارق مسعود نے کہاکہ گندم کے ٹرک راستے میں غائیب ہوئے، دو ملازمین نے ٹرک غائب ہونے کی اطلاع دی دو نے نہیں دی۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ محکمہ فوڈز ملازمین نے کام میں غفلت کی تو محکمانہ کاروائی ہو گی، ادارہ کی غفلت پر نیب قانون کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے،شک و شبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

    اعلی عدالت نے محکمہ خوراک بلوچستان میں گندم خورد بردکیس کے ملزمان کی سزا کوکالعدم قراردے دیا۔

    یاد رہے کہ اکبر، پرویز بیگ، رشید احمد اور محمد حسین پر گندم اسٹاک میں خوردبرد کا الزام تھا ،احتساب عدالت نے ملزمان کو سزا سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے بھی سزا کو برقرار رکھا تھا۔

  • چیف جسٹس  آصف کھوسہ نے جعلی اکاؤنٹس سے ٹرانزیکشنز کو بڑا جرم قرار دے دیا

    چیف جسٹس آصف کھوسہ نے جعلی اکاؤنٹس سے ٹرانزیکشنز کو بڑا جرم قرار دے دیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے جعلی اکاؤنٹس کھلوانے سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز بڑا جرم ہے، بینک والوں کی شمولیت کے بغیر جعلی اکاؤنٹس نہیں کھل سکتے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں سینیئر اسٹنٹ محمد انور ایوب کے نیشنل بینک میں جعلی اکاؤنٹس کھلوانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پرعدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک کیس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد انور ایوب کو تین سال سزا اور آٹھ لاکھ جرمانہ کیا، دوسرے کیس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد انور ایوب کو آٹھ سال کی سزا دی، ہائی کورٹ نے دونوں کیسز میں سزا تین سال کر دی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بینک والوں کی شمولیت کے بغیر جعلی اکاؤنٹس نہیں کھل سکتے، ایک لاکھ کا اکاؤنٹ کھول کر اسے 9 لاکھ بنا دیا۔

    بینک کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ ملزم نے بینک کی مختلف برانچوں میں جعلی اکاؤنٹس کھول کر دھوکہ دیا، مظفر آباد برانچ سے بھی پیسے نکلوائے، اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا کہ اکاؤنٹ بغیر تصدیق کے تو نہیں کھل سکتے، تین سال قید تو بہت کم دی گئی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز کرنا تو بڑا جرم ہے، جتنے بھی اکاونٹ کھلے سب کے اوپننگ فارم پر ملزم کے دستخط تھے، آپ چاہتے ہیں کہ ملزم کو بری کردیں تاکہ وہ بینک میں دوبارہ جائے اور جو بچ گیا ہے وہ کام مکمل کرے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کرمنل کیسز سے متعلق ریمارکس میں کہنا تھا کہ کرمنل کیسز تقریباً اب ختم ہو گئے ییں، انشاء اللہ اگلے چند ہفتوں میں صفر رہ جائیں گے، اس ہفتے کے بعد صرف سو اپیلیں رہ جائیں گی اور وکیل نیب سے مکالمے میں کہا تمام کیسوں کی ایک ساتھ تیاری کر لیں کیس ختم ہونے والے ہیں۔

    سپریم کورٹ نےدرخواست واپس لینے کی بنا پر معاملہ نمٹا دیا۔

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس آصف کھوسہ نے قتل کے ملزم کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی درخواست خارج کر دی تھی اور ریمارکس میں کہا تھاعمر قید کا مطلب ہوتا ہے تا حیات قید ، کسی موقع پر عمر قید کی درست تشریع کریں گے، ایسا ہوا تو اس کے بعد ملزم عمر قید کی جگہ سزائے موت مانگے گا۔

  • عمر قید کا مطلب تا حیات قید ہوتا ہے، چیف جسٹس آصف  کھوسہ

    عمر قید کا مطلب تا حیات قید ہوتا ہے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے قتل کے ملزم کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی درخواست خارج کر دی اور ریمارکس دیئے  عمر  قید کا مطلب ہوتا ہے تا حیات قید ، کسی موقع پر عمر قید کی درست تشریع کریں گے، ایسا ہوا تو اس کے بعد ملزم عمر قید کی جگہ سزائے موت مانگے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قتل کے ملزم عبدالقیوم کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔

    دوران سماعت ملزم عبد القیوم کی سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے نظر ثانی درخواست خارج کر دی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عمر قید سے متعلق اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمر قید کا یہ مطلب نکال لیا گیا 25 سال قید ہے، عمر قید کی غلط مطلب لیا جاتا ہے، عمر قید کا مطلب ہوتا ہے تا حیات قید۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کسی موقع پر عمر قید کی درست تشریع کریں گے، اگر ایسا ہو گیا تو پھر دیکھیں گے کون قتل کرتا ہے، ایسا ہوا تو اس کے بعد ملزم عمر قید کی جگہ سزائے موت مانگے گا ۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ بھارت میں جس کو عمر قید دی جاتی ہے اس کے ساتھ سالوں کا تعین بھی کیا جاتا ہے،اگر کسی کو عمر قید دی جاتی ہے تو اس کے ساتھ لکھا جاتا ہے 30 سال یا کتنے سال سزا کاٹے گا۔

    ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے بھی ملزم کو سزائے موت دی تھی،سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملزم کو سزائے موت سنائی تھی۔

    یاد رہے چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ضمانت قبل ازگرفتاری کےاصولوں پر دوبارہ غور کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا ضابطہ فوجداری ضمانت قبل ازگرفتاری کی اجازت نہیں دیتا، ہر کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواستیں آجاتی ہیں۔

  • چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ  کل کیمبرج یونیورسٹی یونین سے خطاب کریں گے

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کل کیمبرج یونیورسٹی یونین سے خطاب کریں گے

    لندن : سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کل کیمبرج یونیورسٹی یونین سے خطاب کریں گے، جسٹس آصف کھوسہ کیمبرج یونیورسٹی کی 200 سالہ تاریخ میں خطاب کرنے والے پہلے پاکستانی ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان آصف سعیدکھوسہ بین الاقومی جوڈیشل کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے لندن پہنچ گئے، جہاں وہ کل کیمبرج یونیورسٹی یونین سے خطاب کریں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کو کیمبرج یونیورسٹی کی 200 سالہ تاریخ میں خطاب کرنے والے پہلے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہوجائے گا۔

    اس سے قبل ونسٹن چرچل، سٹیفن ہاکنگ اور مارگریٹ تھیچر سمیت متعدد شخصیات یونین سے خطاب کر چکی ہیں۔رواں سال یونین کی تقریب میں ملائشیا اور نیپال کے وزرائے اعظم بھی مدعو ہیں۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس آصف کھوسہ کیمبرج یونیورسٹی کی 200 سالہ تاریخ میں خطاب کرنے والے پہلے پاکستانی

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 17 ججز صاحبان ہیں، جن میں سے 8 کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کا موقع ملے گا تاہم9ججز صاحبان یہ اہم ترین عہدہ ملنے سے قبل ہی ریٹائر ہوجائیں گے۔

    جنوری 2019 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریٹائر ہونے کے بعد 18 جنوری کو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تھا، انھوں نے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے حاصل کی۔

    بطور جج اپنے 18 سالہ کیرئر میں انہوں نے 50 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے سنائے، نوازشریف کے خلاف پاناما کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی انہی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھا، وہ اسی سال 20 دسمبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔

    ان کے بعد جسٹس گلزار احمد اس عہدے پر فائز ہوں گے اور وہ یکم فروری 2022 تک چیف جسٹس کے عہدہ سے ریٹائر ہوجائیں گے، ان کے بعد 2 فروری کو جسٹس عمر عطاء بندیال، چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے اور وہ 16ستمبر 2023 تک اس عہدے پر برقرار رہیں گے۔

  • ای کورٹ سسٹم سے آج کے دن سائلین کے20 سے25 لاکھ بچ گئے، چیف جسٹس

    ای کورٹ سسٹم سے آج کے دن سائلین کے20 سے25 لاکھ بچ گئے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ای کورٹ سسٹم کے تحت اقدام قتل کیس میں ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں اور کرپشن کےملزم کی سزا کیخلاف نظر ثانی درخواست مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا قتل کی نیت کرنا بھی جرم ہے، ای کورٹ سسٹم سےآج کےدن سائلین کے بیس پچیس لاکھ بچ گئے، ای کورٹ سسٹم کو پورے پاکستان تک پھیلائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ای کورٹ سسٹم کے تحت مختلف کیسز کی سماعت کی ، عدالت نے اقدام قتل کے 2ملزمان کی ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواستیں خارج کردیں، جس کے بعد سندھ پولیس نے کراچی رجسٹری سے ملزمان  ارباب اور مشتاق کو گرفتارکر لیا۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا قتل کی نیت کرنا بھی جرم ہے، دفعہ 324 میں ارادہ قتل سے حملے کی سزا 10سال ہے، حملے کے نتیجہ میں  اگر زخم آئے تو اس کی سزا الگ ہوگی، اقدام قتل کاکیس قتل سے زیادہ سخت ہوتاہے، زخمی حملہ آور کی نشاندہی کر سکتاہے مقتول نہیں۔

    ای کورٹ سسٹم کو پورے پاکستان تک پھیلائیں گے، چیف جسٹس

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ای کورٹ سسٹم سے آج کے دن سائلین کے20 سے25 لاکھ بچ گئے، وکلا بزنس کلاس میں سفرکرتے اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رہتے ہیں، سائلین کے خرچ پر وکلا اسلام آباد میں کھانے بھی کھاتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا سستااورفوری انصاف فراہم کرناآئینی ذمےداری ہے، اپنی ذمےداری پوری کرنےکی کوشش کر رہےہیں، ای کورٹ سسٹم کو پورے پاکستان تک پھیلائیں گے اور آئندہ مرحلے میں ای کورٹ سسٹم کوئٹہ رجسٹری میں شروع کریں گے۔

    مزید پڑھیں : ای کورٹ سسٹم کے تحت پہلا فیصلہ، قتل کےملزم کی ضمانت قبل ازگرفتاری منظور

    دوسری جانب سپریم کورٹ نے کرپشن کے ملزم سعیداللہ سومرو کی سزا کیخلاف نظرثانی درخواست بھی خارج کردی ، سعید اللہ سومرو نے کہا سزا بھگت چکا لیکن کرپشن کا داغ ہٹوانا چاہتا ہوں، کرپشن پرسزا دینے کافیصلہ غلط تھا، پی ٹی سی ایل میں بطور ڈویژنل انجینئر کام کرتا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے 32 ایکٹر زمین اور تین فلیٹ خریدے، 2 گاڑیاں اور اسٹاک ایکس چینج میں شیئرز بھی خریدے، سرکاری افسر ہو کر کونسا خزانہ تھا جو اتنے اثاثے بنالیے۔

    سعید اللہ سومرو نے بتایا ملازمت کےساتھ کاروبار بھی کرتاتھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے 2کروڑ جرمانہ ادا نہ کرنےکی سزا بھی بھگت لی، اضافی سزا بھگتنے سے جرمانہ معاف نہیں ہو جاتا، کیوں نہ 2کروڑجرمانےکی رقم وصولی کےلیےنوٹس جاری کریں؟

  • نیب کامقصد صرف کیس بنانا اور پکڑدھکڑ نہیں، ملزم کو سزا دلوانا بھی ہے،  چیف جسٹس برہم

    نیب کامقصد صرف کیس بنانا اور پکڑدھکڑ نہیں، ملزم کو سزا دلوانا بھی ہے، چیف جسٹس برہم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ملزم عطا اللہ کی بریت کیخلاف نیب اپیل مسترد کردی ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا نیب کامقصد صرف کیس بنانا اور پکڑدھکڑ نہیں، بلکہ کیس ثابت کرنا ملزم کو سزا دلوانا بھی ہے، نیب کے اسی رویے کی وجہ سے لوگ ذہنی دباﺅ کا شکار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ملزم کی بریت کیخلاف نیب اپیل کی سماعت چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ناقص تفتیش پر نیب حکام کوکھری کھری سُنا دیں۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کا مقصد صرف پکڑ دھکڑ نہیں ہے،نیب کو چاہیے جس پر کیس بنائے شواہد بھی ساتھ لگائے، انیس سال سے ملزم کو رگڑا لگایا جا رہا ہے، ان انیس سالوں کا ازالہ کیسے کرے گا؟ ملزم پر جس عہدے کی بنیاد پر کرپشن کا الزام اس عہدے کا ثبوت تک نہیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہناتھا نیب آخر کرتا کیا ہے؟ کیا نیب کا مقصد صرف کیس کو بنانا ہے؟ نیب کا مقصد کیس ثابت کرناملزم کو سزا دلوانا بھی ہے، نیب کے اسی رویے کی وجہ سے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

    بعد ا زاں سپریم کورٹ نے ملزم عطا اللہ کی بریت کیخلاف نیب اپیل مسترد کردی۔

    یاد رہے کہ ملزم پر نیشنل بینک میں بطور کیشئر کرپشن کا الزام تھا اور ہائی کورٹ ملزم کو چار سال قبل بری کر چکی ہے۔

    دوسری جانب ایک اور مقدمےمیں سپریم کورٹ نے یونیورسٹی آف سرگودھا کے سابق رجسٹرار راؤ جمیل کی ضمانت بھی منظورکرلی۔

    نیب حکام نےدلائل میں جب یہ کہا کہ میٹنگ کے فیصلے کے خلاف منڈی بہاؤ الدین کیمپس منظور کیا گیا، تو جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا میٹنگ منٹس سے تفتیشی افسر کی بات ثابت نہیں ہوتی، یہ کیس قانون کی تشریح کا ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے عدالتی فیصلے پراطمینان کا اظہار کیا تو جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے شکر ہے پہلی بار کوئی اپنے خلاف فیصلے سے مطمئن ہوا، آٹھ ماہ سے رجسٹرار کو بلاوجہ جیل میں رکھاہوا ہے۔

  • پڑھےلکھے لوگ دھوکا دیں گے تو پھر ان پڑھ کیا کریں گے،چیف جسٹس

    پڑھےلکھے لوگ دھوکا دیں گے تو پھر ان پڑھ کیا کریں گے،چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایک ہی وقت میں 2 نوکریوں سے متعلق کیس میں ریمارکس میں کہا اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ اور دھوکے کا ہے، پڑھے لکھےلوگ دھوکا دیں گے تو پھر ان پڑھ کیا کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے لبنیٰ بلقیس کی ایک ہی وقت میں 2 نوکریوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    وکیل نے بتایا لبنیٰ بلقیس 2009 میں 9ویں گریڈ میں سٹی اسکول ٹیچرلگیں، 2012 میں کنٹریکٹ پر 17ویں گریڈ کی لیکچرار لگیں، جب لیکچرارکی نوکری شروع کی توایک سال کیلئےاسکول سےچھٹی لی، بعد میں کنٹریکٹ مزیدبڑھ گیااورلیکچرارشپ کی نوکری جاری رکھی۔

    چیف جسٹس نے کہا سٹی اسکول ٹیچر والی تنخواہ بھی اکاؤنٹ میں آتی رہی، جس پر وکیل لبنیٰ بلقیس نے بتایا ہم نےتمام تنخواہیں واپس کردی ہیں۔

    حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا، ایک ہی وقت میں 2نوکریاں جاری رکھیں جوکہ جرم ہے، چیف جسٹس

    جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا آپ نےدھوکادیا،  3 سال بعدجاکراسکول سےاستعفیٰ دیا، آپ نےتوانگریزی کےمحاورےپرعمل کیاہے، آپ حقائق کونہیں جھٹلاسکتے، ایک ہی وقت میں 2نوکریاں جاری رکھیں جوکہ جرم ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا  اس ملک میں سب سےبڑامسئلہ جھوٹ اوردھوکےکاہے، پڑھےلکھےلوگ دھوکادیں گے تو پھران پڑھ کیاکریں گے، آپ نےسوچا فاٹا کا معاملہ ہے کسی کو پتہ نہیں چلےگا۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ اس کے بعد تو آپ کسی پبلک سروس کے حقدار ہی نہیں رہتے۔چیف جسٹس نے کہاکہ پہلی غلطی ہی آخری غلطی ہوتی ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے ایک ہی وقت میں دو نوکریاں کرنے سے متعلق درخواست واپس لینے پر خارج کر دی۔

  • اللہ تعالیٰ سب جاننے کے باوجود روز قیامت گواہیاں طلب کریں گے، چیف جسٹس آ صف کھوسہ

    اللہ تعالیٰ سب جاننے کے باوجود روز قیامت گواہیاں طلب کریں گے، چیف جسٹس آ صف کھوسہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس آ صف کھوسہ قتل کے ملزم شاہد حمید کوعدم شواہد کی بنیاد پر بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گواہی لینےکااصول تواللہ تعالیٰ کابھی ہے، اللہ تعالیٰ سب جاننےکےباوجودروزقیامت گواہیاں طلب کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آ صف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے قتل کے ملزم شاہد حمیدکی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا گواہی لینے کا اصول تو اللہ تعالیٰ کا بھی ہے، اللہ تعالیٰ سب جاننے کے باوجود روز قیامت گواہیاں طلب کریں گے، آنکھ، منہ، ہاتھ سب گواہی دیں گے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا ثبوت مانگنا اللہ کانظام ہے، ملزم اصلی گواہی نقلی،سب مقدمات میں ایک خرابی ہے، ہرکیس میں سپریم کورٹ کوہی کہنا پڑتا ہےگواہی قابل قبول نہیں، کوشش کر رہےہیں کہ نظام درست ہوسکے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہاوقوعہ کاایک گواہ غضنفرپٹواری20سال سےلاہورتعینات ہے، پٹواری کے پاس تو سارے علاقے کا ریکارڈ ہوتا ہے، پٹواری لیول کا آفیسر بے ایمان گواہ نکل آئے تو نظام کا کیا ہوگا۔

    عدالت نے استفسار کیا لاہورمیں تعینات بندہ شیخوپورہ میں وقوعے کاگواہ کیسے بن سکتا ہے، پراسیکیوشن شک سے بالاتر شواہد پیش نہیں کرسکی۔

    چیف جسٹس نے ملزم شاہدحمید کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کرتے ہوئے کہا ملزم توبری ہوااب پٹواری صاحب کاکیاکریں، جس پر وکیل کا کہنا تھا عدالت پٹواری غضنفر کو معافی دے دے۔

    خیال رہے ملزم شاہدحمیدپرمحمدعثمان کو2009 میں قتل کرنےکاالزام تھا، ٹرائل کورٹ نےملزم کوسزائےموت سنائی تھی اور ملزم کی سزا کوہائی کورٹ نےعمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے بیوی کے قتل میں نامزدملزم کو12 سال بعد بری کردیا


    دوسری جانب سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر بیوی کے قتل میں نامزدملزم ناصرکو12 سال بعد بری کردیا تھا، ٹرائل کورٹ نے جھنگ کے رہائشی ملزم ناصر کو پھانسی کی سزا سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے ملزم کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی تھی۔

  • چیف جسٹس  نے نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس 29 اپریل کو طلب کرلیا

    چیف جسٹس نے نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس 29 اپریل کو طلب کرلیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان آصف کھوسہ نے نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس 29 اپریل کو طلب کرلیا، اجلاس میں وکلا ءبرادری کی ماڈل کورٹس بارے اور سیکشن22 اے پر تجاویز پر غور کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس 29 اپریل کو طلب لیاہے ۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔

    جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، اجلاس میں وکلا ءبرادری کی ماڈل کورٹس بارے اور سیکشن22 اے پر تجاویز پر غور کیا جائے گا۔

    یاد رہے مارچ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ مقدمات ایک سے دوسری نسل تک چلنے کی کہانی اب نہیں چلے گی، فوری انصاف کی فراہمی کےلیے ملک بھر میں ماڈل عدالتیں بنیں گی۔

    مزید پڑھیں : عدلیہ اب بائیس اے اور بی کی درخواستوں کو پذیرائی نہیں دےگی، قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی کا فیصلہ

    اجلاس میں یہ بھی طےکیاگیا کہ عدلیہ اب بائیس اے اور بی کی درخواستوں کو پذیرائی نہیں دےگی، متاثرین کو ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونے پر ایس پی کے پاس جانا ہوگا۔

    سیکریٹری لاء کمیشن نے بتایا ابتدائی طور پر ماڈل کورٹس پرانے فوجداری اورمنشیات کے کیسز سنیں گی، ان عدالتوں میں کارروائی کو ملتوی نہیں کیاجائےگا،گواہان کوعدالت لانےکی ذمہ داری پولیس کی ہوگی، جبکہ ڈاکٹرز کو لانے کی ذمہ داری سیکریٹری ہیلتھ کی ہوگی۔

    واضح رہے کہ قانون کی شق 22 اے کے تحت درخواست قابل دست اندازی جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ایف آئی آر کے اندراج میں جان بوجھ کر تاخیر کرنے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کو دی جاتی ہے۔ اسی طرح قانون کی شق 22 بی کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کسی بھی واقعے کی انکوائری کرکےرپورٹ طلب کرتا ہے۔

  • ججز جتنا کام کر رہے ہیں اس سے زیادہ ڈومور کا نہیں کہہ سکتے،چیف جسٹس آصف کھوسہ

    ججز جتنا کام کر رہے ہیں اس سے زیادہ ڈومور کا نہیں کہہ سکتے،چیف جسٹس آصف کھوسہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا ہے بدقسمتی سے انصاف کاشعبہ پارلیمنٹ کی ترجیح نہیں، فوری انصاف کیلئےکیسزکی رپورٹس پیش کرناضروری ہے، ججز جتنا کام کررہے ہیں اس سےزیادہ ڈومور کا نہیں کہہ سکتے، ماڈل کورٹس کے لیے مجھے چیتے چاہییں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی جوڈیشل اکیڈمی میں فوری فراہمی انصاف سے متعلق قومی کانفرنس سے چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا جج بننےسےپہلے20سال بطوروکیل خدمات انجام دےچکاہوں، ماڈل کورٹس کاقیام ایک مشن کےتحت کیاگیا، اس کے پیچھے ایک جذبہ اور عزم تھا، ماڈل کورٹس کے قیام کا مقصد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا جوڈیشل پالیسی کے تحت مقدمات کے لئے وقت مقرر کیاجائے گا، ماضی میں کیسزکےفیصلوں میں تاخیرختم کرنےکیلئےکئی تجربات کیےگئے کبھی قانون میں ترمیم اورکبھی ڈومورکی تجاویزدی گئیں، ماضی کورٹس کا مقصد التوا کا باعث بننے والی رکاوٹوں کوختم کرناہے۔

    ماڈل کورٹس کے قیام کا مقصد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ہے

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا پولیس کومقدمےکی فوری تحقیقات کرکےچالان پیش کرناچاہیے، امریکااوربرطانیہ کی سپریم کورٹ سال میں100 مقدمات  کافیصلہ کرتی ہیں، ملک میں مجموعی طور پر 3ہزار ججز ہیں، گزشتہ سال عدالتوں نے 34لاکھ مقدمات نمٹائے۔

    ان کا کہنا تھا گزشتہ چنددہائیوں میں فوری انصاف کےقانون پرتوجہ نہیں دی گئی، جب سےجج بناہوں میرامقصدفوری انصاف رہاہے، ملزموں کی حاضری یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہمارے ججزجتناکام کررہےہیں اتنادنیامیں کوئی نہیں کرتا۔

    گزشتہ سال عدالتوں نے 34لاکھ مقدمات نمٹائے۔

    چیف جسٹس نے کہا قیدیوں کولانےوالی پولیس وینزکاباقاعدہ انتظام کیاجاناچاہیے، برطانیہ اوردیگرملکوں میں فیصلوں کےلیےوقت مقررکیاجاتاہے، پاکستان کی سپریم کورٹ نےایک سال میں26ہزارمقدمات نمٹائے، ماڈل کورٹس کاتجربہ آئین کےآرٹیکل37ڈی پرعمل کرناہے۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا مقدمات کا التوا ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں، ملزموں کی عدالتوں میں حاضری یقینی بناناریاست کی ذمہ داری ہے، ماڈل کورٹس میں گواہان پیش کرنےمیں پولیس کاتعاون مثالی ہے، فوری انصاف کیلئےمقدمات کی رپورٹس پیش کرناضروری ہے۔

    بدقسمتی سےانصاف کاشعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں

    انھوں نے کہا بدقسمتی سےانصاف کاشعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں، جوڈیشل پالیسی کوبہترکرنے کیلئے سفارشات اورتجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیاگیا، ہم نےقانون کوتبدیل کیاہےنہ ہی ضابطہ کاربدلاہے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا سماعت سے پہلے مقدمےکا تمام مواد عدالت میں موجودہوناچاہیے، کیمیکل ایگزامینراور فرانزک اتھارٹیزکی رپورٹس کومقررہ مدت پرپیش کرناہوگا، مقدمےمیں کسی وجہ سےاستغاثہ کے پیش نہ ہونےپرمتبادل انتظام کیاجائے گا، کسی وجہ سے وکیل کے پیش نہ ہونے پر جونیئر کو مقررکیاجائےگا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا پاکستان میں انسداددہشت گردی قانون کےتحت تمام چیزیں آتی ہیں، قتل،بھتہ اوردیگرجرائم سب انسداد دہشت گردی قانون میں آتے ہیں، ملزمان کومروجہ قانون کےتحت پیش نہ کرنےپرکارروائی ہوگی، ریاست خودایسےقوانین بنانے چاہئیں جوواضح اورکوئی ابہام نہ ہو۔

    وراثتی سرٹیفکیٹ اب نادراسےملےگا

    ان کا کہنا تھا ملزموں کوبروقت پیش کرنے کیلئے محکمہ صحت کاتعاون بھی درکارہوگا، ملک میں آدھی سے زیادہ آبادی منقولہ جائیدادرکھتی ہے، مقدمات کے ریکارڈ کیلئے مختلف محکموں کوجگہ جگہ فیسیں دینا پڑتی ہیں، فیصلےکیلئےکیس پرسماعت ملتوی نہیں کرناچاہیے، کیس کی سماعت کےساتھ ہی اس کافیصلہ مرتب کرنا چاہیے، کیس میں تاخیرکوٹارگٹ کرکے ختم کرناچاہیے۔

    چیف جسٹس نے کہا وراثتی مقدمات عدالت کےبجائےنادرامیں حل ہوں گے اور وراثتی سرٹیفکیٹ اب نادراسےملےگا، وراثتی سرٹیفکیٹ کیلئےنادراکا نظام اپنانے کی ضرورت ہے، متنازع معاملات اوروراثتی مقدمات کیلئےبھی نظام کوآسان بنایاجارہاہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا انسداددہشت گردی ایکٹ سمجھنےکیلئےقانون میں تعارف موجودہے، عدالتی قوانین واضح ہیں انہیں سمجھنےکی ضرورت ہے، ملکی قوانین میں انسانی حقوق کومدنظررکھاجاتاہے، قوانین میں ابہام دورکرنےکیلئےاٹارنی جنرل سےرائےمانگی جاتی ہے۔

    ماڈل کورٹس میں مجھےچیتے جج چاہیں جو جھپٹ پڑیں

    انھوں نے مزید کہا قانون کہتاہےفوجداری مقدمات کی تحقیقات 2ہفتے میں مکمل ہوں، ہفتے میں تحقیقات کے بعد عدالت میں چالان جمع کراناضروری ہے، چالان جمع ہونے کے بعدعدالت کاکام ہےشیڈول بنائے، ججز جتناکام کررہےہیں اس سےزیادہ ڈومورکانہیں کہہ سکتے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا ماڈل کورٹس کیلئےتعاون اورماہرین دینےپرہائی کورٹس کامشکور ہوں، ڈی جی ماڈل کورٹس سہیل ناصر کےبغیر منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا تھا ، ہائی کورٹس کوکہا تھاماڈل کورٹس میں مجھےچیتے جج چاہیں جو جھپٹ پڑیں۔

    ماڈل کورٹس کے ججز کا کردار ناقابل فراموش ہے

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا مجھےاپنے جوڈیشل ہیروز پر فخر ہے، ماڈل کورٹس کے ججز کا کردار ناقابل فراموش ہے، ایک ماہ بعد ماڈل کورٹس میں ایک ایک جج کااضافہ کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کوشش ہوگی نئی ماڈل کورٹس سول مقدمات کی ہوں، پہلے مرحلے میں خاندانی اورکرایہ داری مقدمات نمٹائے جائیں گے، کوشش ہےتمام جج ماڈل کورٹس کےجج بن جائیں۔