Tag: cjp justice sabiq nisar

  • نئی گج ڈیم لازمی بننا چاہیے، سولہ ارب روپے ضائع نہیں کر سکتے، چیف جسٹس ثاقب نثار

    نئی گج ڈیم لازمی بننا چاہیے، سولہ ارب روپے ضائع نہیں کر سکتے، چیف جسٹس ثاقب نثار

    اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ نئی گج ڈیم بننا چاہیے،16ارب روپے ضائع نہیں کر سکتے، کک بیکس کے لیے منصوبے پر کام شروع کردیا جاتا ہے، سندھ حکومت کی طرف سے تو کوئی آتا ہی نہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ میں دادو میں نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر کیا، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ وفاقی حکومت نے ڈیم کیلئے فنڈز جاری کرنے تھے، ڈیم بننے ہیں، رپورٹ کے چکر سے نکل آئیں، بتائیں حکومت کب فنڈ جاری کرے گی؟

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ نے مؤقف تبدیل کیا ہے، سندھ حکومت ڈیم کی تعمیر پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کا ڈیم کی تعمیر سے کیا تعلق ہے؟46ارب روپے وفاقی حکومت نے ڈیم کیلئے جاری کرنے ہیں، ڈیم پر51فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، حکومت سندھ کہتی ہے کہ اب ڈیم کی ضرورت نہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ16ارب روپے ڈیم کیلئے پہلے ہی جاری ہوچکے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت مہلت دے، رپورٹ جمع کرا دیتے ہیں، ڈیم کی تعمیر میں کچھ حصہ سندھ حکومت نے بھی دینا ہے۔

    ایک موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کک بیکس کےلیے منصوبے پر کام شروع کردیا جاتا ہے، کسی کی جیب سے16ارب پورے نہیں نکلے،16ارب میرے خزانے سے خرچ ہوں گے، کیا اس ڈیم کی تعمیر کو بند کردیں؟ کیوں نہ ڈیم کی تعمیر کی تجویز دینے کے خلاف کارروائی کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے حکم جاری کیا کہ ڈیم سے متعلق عدالت کو تمام تفصیلات فراہم کی جائیں۔ سماعت کے موقع پر جی ایم واپڈا نے بتایا کہ یہ ڈیم چار برس میں مکمل ہونا تھا، صرف 20 فیصد رقم جاری ہوئی۔

    انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت کہتی ہے منچھر جھیل کو زیادہ پانی دیں، منچھرجھیل کو زیادہ پانی دینے سے قابل کاشت رقبہ کم ہوجائے گا۔

  • کیلاشی عوام بھی پاکستانی شہری ہیں، انھیں کلمہ پڑھنے پر مجبورنہیں کیا جاسکتا،چیف جسٹس

    کیلاشی عوام بھی پاکستانی شہری ہیں، انھیں کلمہ پڑھنے پر مجبورنہیں کیا جاسکتا،چیف جسٹس

    اسلام آباد : کیلاش قبیلے کی زمین پر قبضے سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کیلاشی عوام بھی پاکستانی شہری ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں، انھیں کلمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کیلاش قبیلے کی زمین پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت میں عدالت نے کیلاش کے ایم این اے اور ایم پی اے سمیت تمام منتخب عوامی نمائندوں کو نوٹس جاری کردیئے۔

    سماعت میں کے پی کے وکیل نے بتایا زمینوں پر قبضے کا معاملہ پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کیلاش کے عوام کے حالات اچھے نہیں، ان کی داد رسی کی جائے۔

    چیف جسٹس نے کہا کیلاش خوبصورت وادی ہے، ان کی زمینوں پر قبضے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے مزید ریمارکس میں کہا کیلاشی عوام بھی پاکستانی شہری ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں، انھیں کلمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

    بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔

    یاد رہے چند روز قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیلاش قبیلے کی زمینوں پر قبضہ کرکے تجاوزات تعمیر کرنے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، آئی جی خیبر پختون خوا اور ڈپٹی کمشنر چترال کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ کیلاش قبیلے نے اس سلسلے میں پشاور ہائیکورٹ میں پہلے ہی رخواست دائر کر رکھی ہے۔

  • ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ کیس، سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب،کلیم امام،احسن جمیل کی معافی قبول کرلی

    ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ کیس، سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب،کلیم امام،احسن جمیل کی معافی قبول کرلی

    اسلام آباد :سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب، کلیم امام، احسن جمیل کی معافی قبول کرتے ہوئے تینوں کو آئندہ مداخلت نہ کرنے کی ہدایت کی، جس پر
    تینوں فریقین نے یقین دہانی کرائی کہ ایسا دوبارہ کوئی کام نہیں ہوگا۔

    سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کی سماعت ہورہی ہے، خاورمانیکا ، احسن جمیل گجر اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ڈی جی نیکٹاخالق دادلک اور آئی جی پنجاب کلیم امام بھیہ موجود ہیں۔

    سماعت میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے ڈی جی نیکٹا خالق داد لک کی انکوائری رپورٹ پر اپنا جواب جمع کرایا گیا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب کا جواب عدالت میں پڑھا تو چیف جسٹس نے کہا آپ جوبھی کہہ لیں حقائق وہی رہیں گے، ڈی پی او کو بلانے کا معاملہ نمٹا بھی دیں گے لیکن 62ون ایف کو تو دیکھنا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب صادق اور امین ہیں؟ آپ نے خالق دادلک کی تحقیقاتی رپورٹ کو رد کردیا، اتنے قابل افسر پر ذاتی حملے کیے گئے ہیں، وزیراعلیٰ صاحب خود کو کیا سمجھتے ہیں، یہ ہے آپ کی حکومت جو ڈیلیور کرنے لگی ہے نیا پاکستان۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی وزیراعظم کو میری ناراضی سے متعلق بتائے، قانون کی حکمرانی کیلئے ایک عرصے سے کوشش کر رہے ہیں ،آپ نے ایک منٹ میں قانون کی حکمرانی کو ختم کردیا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آپ خالق دادلک کی انکوائری سے مطمئن نہیں، میں انکوائری کروں گا، وکیل احسن جمیل نے کہا احسن جمیل گجر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں، ہم نے کوئی دوسری بات نہیں کرنی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ خاور مانیکا زندہ ہیں ،یہ احسن جمیل ہے کون، آگئے ہیں اکٹھے ہوکر نیا پاکستان بنانے، کارسرکار میں مداخلت پر کیا دفعہ لگتی ہے۔

    ڈی جی نیکٹا خالق دادلک نے جواب دیا کہ پاکستان پینل کوڈ186 لگتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کا جواب پڑھ حیران رہ گیا، وزیراعلیٰ کی جانب سے ایسا جواب بھی آسکتا ہے۔

    اے جی پنجاب نے کہا تحریری معافی جواب کے ساتھ اضافی طور پر جمع کراتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے وزیراعلیٰ کون ہوتےہیں رپورٹ،تحقیقاتی افسر پر سوال اٹھانے والے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب تیار کس نے کیا؟چیف جسٹس نے کہا ایڈووکیٹ جنرل صاحب کارسرکار میں مداخلت کی سزا بتائیں، کہا جاتا ہے جب تک پی ٹی آئی حکومت رہے گی یہ ہی وزیراعلیٰ رہیں گے، وزیراعلیٰ قانون کی روشنی میں ہی رہیں گے، یہ ہے نیا پاکستان؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میری ناخوشی کا اظہار وزیراعظم تک پہنچادیں۔

    دوران سماعت احسن جمیل،وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق آئی جی پنجاب نےغیرمشروط معافی مانگ لی، عدالت نے کہا تینوں نے خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ، تینوں افراد عدالت میں تحریری معافی نامے جمع کرائیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ کی معافی کو پڑھنے کے بعد عدالت سوچے گی کیا کرنا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وزیراعلیٰ کا جمع کرایا گیاجواب واپس لےلیا، ،احمد اویس نے کہا ہم نےغیر مشروط معافی مانگی اور پیش بھی ہوئے ، میں ان کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں جبکہ آئی جی کلیم امام کا کہنا تھا کہ میں اپنے آپ کوعدالت کےرحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا خالق دادلک کی رپورٹ مبہم ہے، جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ میں کہا ذمہ دارافسرکےخلاف ایسی زبان استعمال کریں گے، عدالت رول آف لا کے لئے کام کررہی ہے، ڈی پی او اتنا پلید ہوگیا، وزیراعلیٰ نے کہا اس کی شکل نہیں دیکھوں گا۔

    وکیل احسن گجر نے کہا میں غیرمشروط معافی مانگتا ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم معافی نہیں دینگے جیل کے اندربھی بھیجیں گے۔

    سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب اور احسن جمیل کےجوابات پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا انکوائری افسر کا پنجاب حکومت سے کیا ذاتی عناد ہوسکتا ہے، احسن جمیل گجر نے سرکاری امور میں مداخلت کی، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بن جائے گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا میں تووزیراعلیٰ پنجاب کا جواب پڑھ کرحیران رہ گیا، کبھی منشابم کی سفارش کی جاتی ہے تو کبھی کسی اورکی، منشابم معاملہ انضباطی کارروائی کیلئے بھیجا ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب ، آئی جی کلیم امام، احسن جمیل گجر نے اپنے جوابات واپس لےلئے ، جس پر چیف جسٹس نے کہ اتحریری معافی نامے دوبارہ جمع کرائے جائیں، کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا، اس معاملے پر بھی کچھ نہیں ہوا۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ایسا اقدام دوبارہ نہیں ہو گا، انکوائری افسر کے مطابق کسی کو براہ راست دھمکی نہیں دی گئی،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کارسرکار میں مداخلت میں 3سال جیل ہوسکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا وزیراعلیٰ کے احسن جمیل گجر بڑے تعلقات والےہیں، احسن جمیل گجر کی ایک فیملی کیساتھ میرے تعلقات ہیں، وزیراعلیٰ نے ڈی پی او کو بلا کر احسن جمیل گجر کے روبرو بٹھا دیا۔

    چیف جسٹس نے ڈی پی اوتبادلہ کیس میں کل سے خود انکوائری کرنےکافیصلہ کرلیا۔ اور کہا وزیراعلیٰ پنجاب کےجواب سے مطمئن نہیں، کل وزیراعلیٰ کو بلوالیں خود انکوائری کریں گے ،ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے معافی مانگتے ہیں ، وزیراعلیٰ پنجاب کے کسی اقدام میں بدنیتی نہیں تھی۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا وزیراعلیٰ پنجاب کی معافی کی نیت نظرنہیں آئی، ہمارےانکوائری افسر کو ذلیل کیا گیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا افسران کو ذلیل کرنا وزیراعلیٰ کی نیت نہیں تھی۔

    سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب،کلیم امام،احسن جمیل کی معافی قبول کرلی اور عدالت کی تینوں کوآئندہ مداخلت نہ کرنےکی ہدایت کی ، جس پر تینوں فریقین کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ایسادوبارہ کوئی کام نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا گجرکہیں اوربد معاش ہوں گے، یہاں بدمعاشی نہیں چلنےدیں گے،

    تینوں فریقین کوعدا لت نے 2 آپشنز دیے تھے، ایک آپشن معاملےکی دوبارہ انکوائری دوسراغیرمشروط معافی کا تھا ، جس پر عدا لت نے تینوں نے تحریری معافی نامہ عدالت میں جمع کرایا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا ۔گجرکہیں اوربد معاش ہونگے یہاں بدمعاشی نہیں چلنےدیں گے،احسن جمیل گجر کا کہنا تھا کہ میں نےسچےدل سےعدالت سےمعافی مانگی ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے ڈی پی اوپاکپتن ازخودنوٹس کامعاملہ نمٹا دیا۔

    مزید پڑھیں : ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا، رپورٹ

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل تبادلے سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس کے مطابق ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا،آئی جی پنجاب کلیم امام کا تبادلے میں کردار صرف ربراسٹمپ کا تھا۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب کلیم امام نےشاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی، رضوان گوندل کیخلاف انکوائری شاید انہیں سبق سکھانےکیلئےکی گئی، وزیراعلی ہاؤس ملاقات میں معاملہ آر پی او کے سپرد کیا گیا، آر پی او ساہیوال کوبھی ڈی پی او کے تبادلے پر حیرت ہوئی۔

    چیف جسٹس نے ہدایت کی 62ون ایف کوتعویذکی طرح بازوپرباندھ لیں، آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کو بار بار پڑھیں ، کیا اس پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگیں گی، ہمیں سختی پرمجبورنہ کریں۔

  • زینب قتل کیس، چیف جسٹس کا مجرم کی سزائے موت پرعملدرآمد نہ ہونے پر ازخودنوٹس

    زینب قتل کیس، چیف جسٹس کا مجرم کی سزائے موت پرعملدرآمد نہ ہونے پر ازخودنوٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس نے زینب کے قاتل کی سزائےموت پرعمل درآمد نہ ہونے پرازخودنوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو مجرم کی سزا پر عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں دورکنی بنچ نے زینب قتل کیس کے مجرم کی سزائے موت پرعملدرآمد نہ کرنے پر درخواست کی سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے زینب کے قاتل کی سزائے موت پرعمل درآمد نہ ہونے پر ازخودنوٹس لے لیا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ مجرم عمران علی کی سزا پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ خاتون وکیل نے بتایا کہ مجرم کی رحم کی اپیل وزارت داخلہ نے صدر مملکت کو بھجوا دی۔

    عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو مجرم کی سزا پر عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے 17 فروری کو انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مجرم عمران کو چار مرتبہ سزائے موت، عمر قید، سات سال قید اور 32 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں، عدالتی فیصلے پر زنیب کے والد آمین انصاری نے اطمینان کا اظہار کیا اور اس مطالبے کو دوہرایا کہ قاتل عمران کو سر عام پھانسی دی جائے۔

    مزید پڑھیں :  زینب کےدرندہ صفت قاتل عمران کو 4 بارسزائےموت کا حکم

    زینب کے قاتل نے سپریم کورٹ میں سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی ،جسے عدالت نے مسترد کردی تھی۔

    خیال رہے زینب قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے مختصرٹرائل تھا، جو چالان جمع ہونے کے سات روز میں ٹرائل مکمل کیا گیا۔

    واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں ننھی زینب کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ننھی زینب کو ٹیوشن پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اغوا کیا گیا تھا جس کے دو روز بعد اس کی لاش ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی۔

    زینب کو اجتماعی زیادتی، درندگی اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی تھی، زینب کے قتل کے بعد ملک بھرمیں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

  • بد قسمتی سے پاکستان قائد کے وژن سے ہٹ چکا ہے،چیف جسٹس

    بد قسمتی سے پاکستان قائد کے وژن سے ہٹ چکا ہے،چیف جسٹس

    اسلام آباد :چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان قائد کے وژن سے ہٹ چکا ہے، ملک قانون کی حکمرانی ، شفافیت اور احتساب سے قائد کے وژن پر لایا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال پر فل کورٹ ریفرنس کی تقریب ہوئی،تقریب سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
    بد قسمتی سے پاکستان قائد کے وژن سے ہٹ چکا ہے، ناقص حکمرانی اور ناانصافی ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے، ملک قانون کی حکمرانی، شفافیت اور احتساب سے قائد کے وژن پر لایا جاسکتا ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بطور محافظ آئین آئینی اور بنیادی انسانی حقوق پر فرض نبھانے کی کوشش کی، عوامی نوعیت کے معاملات میں غیر ملکی اکاونٹس دہری شہریت شامل ہیں کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے قتل کے کیس شامل ہیں جبکہ اسپتالوں میں ناقص سہولیات کی فراہمی اور کٹاس راج مندر کا معاملہ شامل ہے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا میڈیکل ،لاکالجز کی اصلاحات ،سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق پر اقدامات شامل ہیں، گزشتہ سال کے آغاز پر 37 ہزار کیسز فیصلہ طلب تھے اور 9 ہزار کیسوں کے فیصلے کیے گئے ، فیصلے5سال کےدوران کیس حل کرنے کا سب سے زیادہ تناسب ہے، بقایا کیسز کی بڑی وجہ غیرضروری التوا،جھوٹے مقدمے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے غیر ضروری التوا پر صفربرداشت کی پالیسی اپنالی ہے۔

  • میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا،  ججز سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، چیف جسٹس

    میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا، ججز سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، چیف جسٹس

    پشاور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا،حکومت کی ترجیح عدلیہ نہیں توذمہ دار نہیں ، تمام جج سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، ججزکاکام سچ اورجھوٹ کا قانون کے مطابق فیصلہ کرناہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ججز اور وکلا سے ملاقات کیلئے پشاورہائیکورٹ پہنچے، جسٹس ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف انصاف ہے، تول کر دیا جانا چاہیے، سپریم کورٹ اورہائیکورٹس میں نیک نیت والےلوگ بیٹھےہیں، انصاف کرنا ججز کی ذمہ داری ہے۔

    [bs-quote quote=”میں اکیلے نظام ٹھیک نہیں کرسکتا نہ ہی کبھی نظام ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا ” style=”default” align=”left” author_name=”جسٹس ثاقب نثار” author_job=”چیف جسٹس آف پاکستان ” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/04/nisarr.jpg”][/bs-quote]

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس دوست محمدکی ہرخواہش بطورچیف جسٹس پوری کی، میں نے پوچھا کس دن آپ فل کورٹ ریفرنس لیناچاہیں گے، جسٹس دوست محمد کیلئےہماری پوری ٹیم تحفہ خرید کرلائی، تحفے پر پوری ٹیم کے نام لکھے گئے ہیں، جسٹس دوست محمد سے پوچھ کر ان کی اہلیہ کیلئے شال لی، میں وضاحت نہیں دےرہا،صرف بار کو متنبہ کررہاہوں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جسٹس دوست محمد کی ریٹائرمنٹ سے قبل انہیں بار اور کورٹ کی طرف سےریفرنس دینے کا منصوبہ بنایاتھا لیکن عین وقت پرجسٹس دوست محمد نے ذاتی وجوہ کی بنا پرریفرنس لینے سے انکار کردیا، آج بھی جسٹس دوست محمد کو ریفرنس دینے کیلئے تیارہوں۔

    تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ جسٹس دوست محمد نے کہا بیٹی کی منگنی ہے، ریفرنس کیلئے تقریرنہیں لکھ سکتا، میں نے جسٹس دوست محمد کو تقریر تیار کرنے کی پیش کش کی تھی، جسٹس دوست محمد نے کہا مجبوری ہے، فل کورٹ ریفرنس نہیں لے سکتا۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ میں نےاپناکام ذمہ داری کےساتھ شروع کیا، صدق دل سےمعافی مانگنے پرمعاف کرناچاہیے، میں بار کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں ایک ہی جسم کے دو حصےہیں، علم نہیں کہ دوست محمد نے ریفرنس کیوں قبول نہیں کیا۔

    چیف جسٹس نے جسٹس دوست محمد کو ریفرنس نہ دینے کے معاملے پر کہا کہ اگر بارز سمجھتی ہے کہ غلطی ہوئی تو اس کے ازالےکیلئےتیارہوں، کبھی ایسانہیں ہوا کہ فل ریفرنس کیلئے تقریر پہلے دکھانا کا کہا ہو۔

     

    [bs-quote quote=”ججزکاکام سچ اورجھوٹ کاقانون کے مطابق فیصلہ کرناہے” style=”default” align=”left” author_name=”جسٹس ثاقب نثار” author_job=”چیف جسٹس آف پاکستان ” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/04/nisarr.jpg”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ پشتون میرےبھائی ہیں،میری جان ہیں، 225 پٹیشن تھیں،10،10روز لگاکر نمٹائیں،کبھی یہ نہیں کیاکہ بات سنی نہیں اور فیصلہ دےدیا، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، بہت سےفیصلے قانون کےمطابق نہیں ہورہے، ہائیکورٹ کے ججز پر اپنی اور ڈسٹرکٹ ججزکی ذمہ داری ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 1861 اور1906کا قانون نہیں بدلا تو ذمہ دارسپریم کورٹ نہیں، اگرحکومت کی کم ترجیح عدلیہ ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں، تمام جج سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، ہمارےجہادمیں بارزکوبھی برابر کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کررہے،ایک ٹیم بن کرکام کرناہوگا، عدلیہ سے وابستہ تمام لوگ ایک ہیں،مل کرکام کرناہوگا، اسپتال میں لواحقین اور مریضوں کوتکلیف میں دیکھ کردکھ ہوا۔

    جسٹس ثاقب نثار  نے کہا کہ میں اکیلے نظام ٹھیک نہیں کرسکتا نہ ہی کبھی نظام ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا،  نظام ٹھیک کرنے کیلئے قانون میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہونگی اور میں قانون بنانے والا نہیں بلکہ عملدرآمد کرانے والا ہوں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نظام میں تبدیلی قانون کےساتھ آتی ہے،میں قانون بنانےوالانہیں، قانون کےنفاذ کیلئےجوچیزیں دی گئی ہیں انہیں پر انحصار کرنا ہوگا، کسی نے آج تک سوچاکہ قوانین میں تبدیلی کرنی چاہیے؟ کیسے زندگی، جمع پونجی کا انحصار 2افراد کی گواہی پر کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ججزکاکام سچ اورجھوٹ کاقانون کے مطابق فیصلہ کرناہے، تجویزدیں اسی نظام کےتحت مقدمات کو جلد کیسے نمٹایا جاسکتاہے؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • الیکشن مقررہ وقت پرہوں گے، مارشل  لاء نہ روک سکا تو استعفی دے کر گھر چلا جاؤں گا، چیف جسٹس

    الیکشن مقررہ وقت پرہوں گے، مارشل لاء نہ روک سکا تو استعفی دے کر گھر چلا جاؤں گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ الیکشن آئین کے مطابق وقت پر ہوں گے،  آئین میں مارشل لاء کی گنجائش نہیں، میں مارشل لاء نہ روک سکا تو استعفی دے کر گھر چلا جاؤں گا، قوم سے وعدہ ہےآئین پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریب عاصمہ جہانگیرکوخراج عقیدت پیش کرنےکیلئےمنعقدکی گئی ہے، عاصمہ جہانگیر کوہمیشہ بہن سمجھتاتھا، بہن کوکبھی ریلیف نہیں دیتاتھا، اس کا انہوں نے گلا بھی کیا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیربہن ہونےکے طور پر اچھا مشورہ دیتی تھیں، عاصمہ جہانگیر دلیرخاتون تھیں،سچ کی آواز پر ہمیشہ لبیک کہا، عاصمہ جہانگیرکوانسانی حقوق سےمتعلق جلسوں میں متحرک دیکھا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عاصمہ جہانگیربڑی سچی خاتون تھیں، عاصمہ جہانگیرکی ملک کےلیے خدمات ناقابل فراموش ہیں، عاصمہ جہانگیرجیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔


    مزید پڑھیں : ایگزیکٹوکے کاموں میں مداخلت کا کوئی شوق نہیں: چیف جسٹس


    ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں تاخیرنہیں ہوگی،الیکشن آئین کے مطابق وقت پر ہوں گے، الیکشن کے التواکی آئین پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں، کسی بات کاجواب نہ دوں تودوست خود سےمطلب نکال لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ میرےہوتے ہوئےآئین سےانحراف نہیں ہوگا، آئین میں مارشل لا کی گنجائش نہیں، میں مارشل لانہ روک سکا تو استعفی دے کر گھر چلا جاؤں گا، کسی بھی مارشل لاکو روکنے کی پوری کوشش کروں گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ جوڈیشل مارشل لاصرف لفظی سوچ ہے ،اس پرہنسی ہی آ سکتی ہے، جوڈیشل مارشل لاکی کوئی گنجائش نہیں، ہم یہ غلاظت اور گندگی اپنے منہ پر نہیں لگنے دیں گے، اگر ایسا کوئی کام ہوتا ہےتومیں چیف جسٹس رہنے کا حق کھو دوں گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس ملک میں صرف اورصرف جمہوریت ہوگی ، قوم سے وعدہ ہےآئین پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔