Tag: CJP Mian Saqib Nisar

  • سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ میں کہا جناح اسپتال کراچی کاکنٹرول وفاق کے پاس ہی رہے گا، درخواست مسترد ہونے کی وجوہات سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اٹھارہویں ترمیم آئینی اختیارات کیس میں مختصر حکمنامہ پڑھ کر سنایا، عدالت نے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ جناح ہسپتال کراچی کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا درخواست مسترد ہونے کی وجوہات سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی اور کیس نمٹا دیا۔

    سپریم کورٹ نے اٹھاریویں آئینی ترمیم کے تحت جناح اسپتال کراچی کے انتظامی اختیار کی منتقلی کے حوالے سے فیصلہ سات جنوری کو محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ کیا وفاقی حکومت اتنی بے اختیار ہوتی ہے کہ صوبے میں ہسپتال نہیں بنا سکتی ، چونتیس ارب روپے خرچ کرنے کے بعد وفاقی حکومت اسپتال کیوں نہیں چلا سکتی۔

    سینٹر رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جناح ہسپتال اور این آئی سی وی ڈی کو ریسرچ ہسپتال کے زمرے میں ڈال کر وفاق کو نہیں دیا جا سکتا،جناح اسپتال میں ریسرچ صرف مریضوں اور دوائیوں کے ریکارڈ پر مشتمل ہے،اصل تحقیق کے لیئے کوئی رقم مختص نہیں۔

    خیال رہے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی تھی، اس وقت صدرِ مملکت کے عہدے پر آصف علی زرداری متمکن تھے، اس ترمیم کے بعد صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل ہوگئے تھے اور وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔

    تحریکِ انصاف کی حکومت اٹھارویں ترمیم پر جزوی تنقید کی تھی، ایک ماہ قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ 18 ویں ترمیم کی وجہ سے تعلیم اور  صحت کا معیار گرا ہے، اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں بہتر بنایا جا رہا ہے۔

  • گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے، چیف جسٹس

    گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد :چیف جسٹس نے نیب سے ایم ڈی پی ایس او کی تنخواہ اور مراعات سے متعلق رپورٹ 4 ہفتے میں طلب کر لی اور کہا آج کل مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تیل، گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس نے کہا گزشتہ سماعت پر چوہدری سرور کو بلایا گیا، چوہدری سرور کو قیمتوں اورتعیناتیوں کا معاملہ دیکھنے کو کہا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آج کل مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سےڈالرکہاں چلاگیاہے، مہنگائی ہے کہ پکڑ میں نہیں ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ایس او میں تعیناتیاں سابق حکومت نے کیں،اقرباپروری ہوئی، ایل این جی کی درآمدات سے متعلق بھی شکایات تھیں، ایل این جی کی درآمد سے متعلق نیب انکوائری کر رہا ہے۔

    وکیل پی ایس او نے کہا قیمتوں کے تعین کے لیے پیپرا مددگار ہوسکتا ہے، پیپرا ایک ماہ کے بجائے 15 کا ٹینڈر دے تو فرق آسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر ایک پیسے کا بھی فرق ہو تو عوام کو ریلیف ملنا چاہیے، حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کرمعاملہ دیکھ لیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے وکیل پی ایس او سے استفسار کیا کہ سابق حکومت نےکون سی غیر قانونی تعیناتیاں کیں؟ جس کے جواب میں وکیل پی ایس او نے بتایا کہ سابق حکومت نےصرف ایم ڈی پی ایس اوکی تعیناتی کی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا ایم ڈی کی تنخواہ کیا تھی ہمیں بتائیں ، جس پر وکیل پی ایس او نے کہا ایم ڈی کی ماہانہ تنخواہ 37لاکھ روپےتھی، جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ کیا یہ ریاست کا اتنا لاڈلا تھا کہ اسے اتنی تنخواہ دی گئی، ہم نے ایم ڈی کو بلایا تھا کیا وہ آئے ہیں؟

    وکیل کا کہنا تھا کہ 3نام بھیجے گئےاس میں سے حکومت نےعمران الحق کومنتخب کیا، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا تنخواہ اورمراعات کا کیا تعین ہے، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تنخواہ اورمراعات مارکیٹ ریٹ پردی جاتی ہیں، سابق ایم ڈی 2012 میں ریٹائر ہوئے، 12 لاکھ دیے جاتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا نیب کو کیس دیکھنا چاہیے،اس کی رفتار سست ہے رفتار تیز کرے ، 4 ہفتے کے اندرتحقیقات مکمل کریں اورعدالت کو آگاہ کریں۔

    پی ایس اوکی آڈٹ فرم کےپی ایم جی کوادا43 لاکھ کم کرکے15 لاکھ کردیے گئے جبکہ ایل این جی معاملے کی ان چیمبر بریفنگ کی درخواست منظور کرلی گئی۔

  • شہبازشریف نے رضاکارانہ 55لاکھ کا  چیک جمع کراکر مثال قائم کردی،چیف جسٹس

    شہبازشریف نے رضاکارانہ 55لاکھ کا چیک جمع کراکر مثال قائم کردی،چیف جسٹس

    اسلام آباد: دوران الیکشن ذاتی اشتہاری مہم سے متعلق کیس میں‌ شہبازشریف نے اپنی اشتہاری مہم کےعوض 55 لاکھ کا چیک عدالت میں جمع کرادیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف نے رضاکارانہ چیک جمع کراکر مثال قائم کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پینچ نے دوران الیکشن ذاتی اشتہاری مہم سے متعلق کیس کی سماعت کی، دوران سماعت شہبازشریف نے اپنی اشتہاری مہم کےعوض 55 لاکھ کا چیک عدالت میں جمع کرادیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شہبازشریف کا چیک ڈیم فنڈ میں جائے گا یا حکومتی خزانے میں ؟ جس پر ایڈووکیٹ شاہد حامد نے کہا چیک حکومت پنجاب کےخزانے میں جائے گا، ڈیم کے لیے ن لیگ حکومت نے 122ارب مختص کیے تھے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا رقم تو قومی خزانے سےتھی ذاتی حیثیت میں نہیں، شاہد حامد اینڈ کمپنی کی جانب سے ڈیم فنڈ میں کوئی چندہ نہیں آیا۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بتایا گیا سندھ اور کے پی میں بھی ذاتی اشتہاری مہم سرکاری خرچ پر چلائی گئی، پٹیشنربھی معلومات دینا چاہیے تو دے سکتا ہے، مزید کوئی معلومات ہوں تو عدالت میں جمع کرائیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا شہباز شریف نے رضاکارانہ چیک جمع کراکر مثال قائم کردی، باقی رہنمابھی اس پر عمل کریں، تاریخی کلمات کے ساتھ شہبازشریف کیخلاف نوٹس نمٹایا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں : شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کے پیسے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم

    دوران سماعت چیف سیکریٹری سندھ اور کے پی کے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10دن میں جواب طلب کرلیا اور سماعت 10دن کے لئے ملتوی کردی۔

    یاد رہے مارچ میں چیف جسٹس نے سرکاری اشتہارات از خود نوٹس کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا چک شہزاد میں مشرف کا فارم ہاؤس کھولنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا چک شہزاد میں مشرف کا فارم ہاؤس کھولنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چک شہزاد میں مشرف کا فارم ہاؤس کھولنے کا حکم دیتے ہوئے وطن واپسی کیلئے پرویزمشرف سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آصف زرداری اثاثوں کی تفصیل نہیں دینا چاہتےتو ان کی مرضی، ان کے مقدمات دوبارہ کھولنے کا حکم بھی دے سکتےہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے این آر او کیس کی سماعت کی، سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا گزشتہ سماعت پر آصف زرداری، پرویز مشرف سے جوابات مانگے گئے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم نےدونوں سابق صدور سے دوبارہ بیان طلب کیے تھے.

    پرویز مشرف اور اہلیہ کے اثاثہ جات سےمتعلق تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی، جس میں پاکستان کےاندراور باہر ممالک میں موجود اثاثہ جات کی تفصیلات شامل ہیں۔

    جس کے مطابق پرویز مشرف کی پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں ، پرویز مشرف کا دبئی میں 54 لاکھ درہم کا فلیٹ ہے، چک شہزاد میں فارم اہلیہ کے نام پر ہے، وکیل

    چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا فارم ہاؤس کی کیا قیمت لکھی ہے، وکیل نے جواب میں بتایا فارم ہاؤس کی قیمت 4 کروڑ 36 لاکھ ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیا 4 کروڑ میں یہ فارم فروخت کرنا ہے ؟ ٹھیک قیمت کیوں نہیں لکھی ؟

    مشرف صاحب یہاں سے ریڑھ کی ہڈیوں کے درد کا بہانہ کرکے نکل گئے اور بیرون ملک جا کرڈانس کرتے ہیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا بتائیں کہ جنرل صاحب پاکستان کیوں نہیں آرہے؟ یہاں سے ریڑھ کی ہڈیوں کے درد کا بہانہ کرکے نکل گئے اور بیرون ملک جا کرڈانس کرتے ہیں، پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6 کامقدمہ چل رہا ہے۔

    جس پر وکیل اختر شاہ کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف کوسیکیورٹی چاہیے تو جسٹس ثاقب نثار نے کہا جنرل صاحب کوفل سیکیورٹی دی جائےگی ، سیکیورٹی کا بریگیڈ چاہیے تو وہ ان کو دے دیتے ہیں۔

    سابق صدر کے وکیل نے کہا پرویزمشرف عدالت کااحترام کرتے ہیں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے احترام عمل سے ہوتا ہے باتوں سےنہیں، ہم نے ان کانام ای سی ایل سے نہیں ہٹایا،یہ تاثر غلط ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ مشرف صاحب کوطبی سہولتیں بھی چاہییں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اے ایف آئی سی سب سے بہترین ادارہ ہے، وہاں سے علاج کرائیں گے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ مشرف صاحب چاہتےہیں جب انھوں نے واپس جانا ہو انہیں جانے دیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئے مشرف صاحب آئیں،عدالت سےبری کرائیں اور بےشک واپس جائیں، خصوصی عدالت سے اجازت لے کر بے شک واپس چلے جائیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاپرویز مشرف کے لیے علیحدہ قانون ہے؟ پرویز مشرف بری ہوجائیں تو دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں، ہم ان کی تمام منجمد جائیدادیں کو غیرمنجمد کر دیں گے،نہیں پوچھیں گے جائیدادیں کیسے اور کہاں سے بنائیں۔

    وکیل نے استدعا کی کہ پرویز مشرف کی والدہ کا پنشن اکاؤنٹ کھول دیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پرویز مشرف کے پاس یہاں رہنے اور آنے کو خرچہ نہیں تو بتائیں، ہم ان کوٹریول الاؤنس اوریہاں رہنے کیلئے پاکٹ منی بھی دیں گے، اور بتائیں کیا چاہیے عدالت سے اس سے زیادہ کیا توقع کر سکتے ہیں؟

    سپریم کورٹ کاچک شہزاد میں مشرف کا فارم ہاؤس کھولنے کا حکم

    سپریم کورٹ نے چک شہزاد میں مشرف کا فارم ہاؤس کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا مشرف پاکستان میں کہیں بھی اتریں سیکورٹی مہیا کی جائے، پرویز مشرف پاکستان میں مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کراسکتے ہیں، چاہیں توسی ایم ایچ یااےایف آئی سی سےعلاج کرائیں، ان کے آنے سے پہلے گھر کی صفائی کی جائے گی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا ہم نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نہیں ہٹایا، پرویز مشرف واپسی کیلئے جو انتظامات چاہتے ہیں وہ کر کے دیں گے اور سپریم کورٹ ان کی سیکورٹی یقینی بنائے گی، یہاں آ کر اپنا بیان قلمبند کرائیں پھر جہاں چاہے گھومیں پھریں، ان کے اثاثوں کا بھی نہیں پوچھیں گے۔

    چیف جسٹس نے وکیل اختر شاہ سےسوال مجھے پرویز مشرف کی واپسی کا شیڈول بتائیں؟ جس پر اختر شاہ نے جواب میں کہا سابق صدر پرویز مشرف بزدل نہیں ہیں،اگر پرویز مشرف کے آنے جانے پرپابندی نہ لگائی جاتے تو وہ واپس آسکتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا پرویز مشرف جس ایئرپورٹ پر اتریں گے، رینجرز کا دستہ استقبال کرے گا۔

    بعد ازاں پرویزمشرف کی واپسی کی حد تک سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔

    ہم نے ابھی آصف علی زرداری کو کچھ نہیں کہا ، عدالت نےصرف اثاثوں کی تفصیلات مانگی تھیں, چیف جسٹس

    این آراو سے متعلق سماعت میں آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا آصف زرداری نےنظر ثانی درخواست دائر کی ہے، این آر او کیس اخباری رپورٹ پر بنایا گیا، الزام ہےاین آر او کے زریعے قوم کواربوں کا نقصان ہوا۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا این آر او کالعدم ہونے پر مقدمہ بحال ہو گئے، آصف علی زرداری میرٹ پرتمام مقدمات سے بری ہوے، نیب نےتمام مقدمات کی از سر نو تحقیقات کی تھیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم نے ابھی آصف علی زرداری کو کچھ نہیں کہا ، عدالت نےصرف اثاثوں کی تفصیلات مانگی تھیں، عدالت مقدمات دوبارہ کھولنے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تاثر ہےتمام شواہد زرداری نے خود ضائع کیے، نظر ثانی درخواست میں دستاویزات گم ہونے کا اقرار کیا گیا، جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا شواہدکس نے ضائع کیے معلوم نہیں تو جسٹس اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ جودستاویزات طلب کیں ان کی تفصیلات کس نے ضائع کیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے زرداری اثاثوں کی تفصیل نہیں دینا چاہتے تو انکی مرضی ہے، عدالت نے مکمل انصاف کے لیے تفصیلات مانگی ہیں، یہ عوامی اہمیت کامعاملہ ہے، انصاف کے تقاضوں کے تحت بیرون ملک اثاثوں کی تفصیل مانگی ،عدالت

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کرپشن کیس بنیادی حقوق سے منسلک ہے، فی الحال اسے کرپشن کیس قرار نہیں دے رہے ، کیوں نہ آصف زرداری کوطلب کر لیں، آپ ان کی مو جودگی میں دلائل دیں۔

    وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا آپ میرے دلائل ان کی عدم موجودگی میں بھی سن لیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔