Tag: CJP saqib nisar

  • امل ہلاکت کیس : چیف جسٹس کی کیس انجام تک نہ پہنچانے پر امل کے والدین سے معذرت

    امل ہلاکت کیس : چیف جسٹس کی کیس انجام تک نہ پہنچانے پر امل کے والدین سے معذرت

    اسلام آباد : پولیس کی فائرنگ سے بچی امل کی ہلاکت کیس میں چیف جسٹس نے کیس انجام تک نہ پہنچانے پر والدین سے معافی مانگ لی جبکہ تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ میں بتایا کہ فائرنگ کی وجہ پولیس میں تربیت کا فقدان ہے اور پولیس اور امن فاؤنڈیشن نے غلطی تسلیم کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پولیس کی فائرنگ سے بچی امل کی ہلاکت کیس کی سماعت ہوئی ، معاملے پر سپریم کورٹ کی تشکیل کمیٹی نے رپورٹ جمع کرادی۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹیو ں نے4زاویوں سےمعاملےکودیکھاہے ، پولیس نےغیر ذمے داری قبول کی، پولیس کی فائرنگ تربیت کافقدان ہے، تربیت کے بغیر پولیس کو آٹومیٹک بھاری ہتھیار دیے گئے، ایمبولنس سروس نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ یم این سی اسپتال نےغلطی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے جھوٹ بولا، اسپتال نے زخمی امل کومنتقل کرنے کے لئے بنیادی سہولت فراہم نہیں کی، بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا تاکہ ثابت ہو کہ بچی اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کرچکی تھی۔

    بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا تاکہ ثابت ہو کہ بچی اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کرچکی تھی

    تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا سندھ ہیلتھ کمیشن نے اسپتال کےحق میں رپورٹ دی جو قابل افسوس ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا این ایم سی کو رپورٹ پر جواب داخل کرانے کا وقت دیا جائے، کیا مقدمے کی سماعت کراچی میں چاہتے ہیں یا اسلام آباد میں؟

    والدہ امل عمر نے کہا بہتر ہے کیس کی سماعت اسلام آباد میں ہی ہو، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں معذرت چاہتاہوں اس معاملےکوختم نہیں کرسکا، جانتا ہوں آپ کی کوشش امل کی طرح دوسرے بچوں کے تحفظ کی ہے تو امل کی والدہ نے کہا آپ کا اور پورے بینچ کا اور سب کاشکریہ ادا کرتی ہوں۔

    سپریم کورٹ نے کراچی پولیس،سندھ ہیلتھ کمیشن،امن فاؤنڈیشن اور این ایم سی اسپتال سےجواب طلب کرتےہوئےسماعت دس روز کیلئےملتوی کردی۔

    واضح رہے گزشتہ سال 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر ایک مبینہ پولیس مقابلے ہوا تھا، مذکورہ مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پرموجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی، جس کے بعد میڈیا کی جانب سے اس بچی کی ڈکیتی کے دوران زخمی ہونے کے بعد نجی اسپتال اورایمبولینس سروس کی غفلت اور لا پرواہی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔

    بعد ازاں 19 ستمبر کو شہر قائد میں فائرنگ سے دس سالہ بچی امل کی ہلاکت پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ ، آئی جی سندھ ، سیکریٹری ہیلتھ اور ایڈمنسٹریٹر نیشنل میڈیکل سینٹر کو نوٹس جاری کیا تھا۔

  • جسٹس ثاقب نثار بہترین منصف ، عدالتی تاریخ کے یادگاری فیصلوں پر ایک نظر

    جسٹس ثاقب نثار بہترین منصف ، عدالتی تاریخ کے یادگاری فیصلوں پر ایک نظر

    کراچی : چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی مدت ملازمت ختم ہوگئی ، جسٹس میاں ثاقب نثار کے دبنگ فیصلے  ملک کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں   نئی نظیریں قائم کر گئےاور انہوں نے ملک کی عدالتی تاریخ کےسب سے متحرک چیف جسٹس کا اعزازحاصل کیا۔

    مختصر سفر زندگی

    جسٹس میاں ثاقب نثار جنوری 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئے ، انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور دو سال بعد ہائی کورٹ کے وکیل بنے۔ 1994 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے اور 1997 میں وفاقی سیکریٹری قانون کے عہدے پر تعینات ہوئے جبکہ 1998 میں ہائی کورٹ کے جج اور 2010 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ بعد ازاں 31 دسمبر 2016 کو انہوں نے منصفِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا اور اُن کی ملازمت 17 جنوری کو مکمل ہوگئی۔

    آپ دو برس سے زائد عرصے تک چیف جسٹس پاکستان رہے، جسٹس میاں ثاقب نثار نے مفادعامہ کےاہم معاملات پرازخودنوٹسز لیے اورجبکہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سب سے زیادہ متحرک چیف جسٹس کااعزاز بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کے حصے میں آیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنی مدت کے دوران تقریبا 43 ازخود نوٹس لیے جبکہ ایک لاکھ سے زائد انسانی حقوق سیل میں جمع ہونے والی درخواستوں میں سے 90 ہزار سے زائد پر فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق 31 دسمبر تک عدالت میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 49 ہزار سے زائد ہیں۔

    پانامہ لیکس ،نواز شریف کی نااہلی


    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے عہدے کی مدت کے دوران سب سے اہم مقدمہ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کا تھا، چیف جسٹس ثاقب نثار ہی ہیں جنھوں نے پانامہ لیکس پر بینچ تشکیل دیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل ہو کر گھر جانا پڑا ۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے 28 جولائی 2017 کو وزیراعظم کو نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے کے  بعد نہ صرف یہ کہ نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے برطرف ہوگئے تھے بلکہ انتخابی اصلاحات کی شق نمبر کے تحت پارٹی کی صدارت کرنے کے بھی اہل نہیں رہے تھے۔

    جعلی بینک اکاؤنٹس


    چیف جسٹس نےجعلی بینک اکاؤنٹس پرنوٹس لیا تو آصف زرداری سمیت بڑے بڑے سیاسی اور غیر سیاسی برج ہل گئے، ایف ائی اے کی مزید تحقیقات سیاسی شخصیات کا نام سامنے لائی اور جسٹس میاں ثاقب نثار نے جعلی بنک اکائونٹس کیس نیب کے حوالے کردیا جبکہ مرادعلی شاہ اوربلاول بھٹو کانام جےآئی ٹی رپورٹ اورای سی ایل سے نکالنے کا حکم  دیا۔

    بعد ازاں عمل درآمد بینچ بنانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہانیب مراد علی شاہ، بلاول بھٹو اور دیگر کےخلاف تحقیقات جاری رکھے۔

     ماڈل ٹاؤن سانحہ کیس


    چیف جسٹس کا ماڈل ٹاؤن سانحہ پر جے آئی ٹی پر نئی جے آئی ٹی کا فیصلہ بھی قانون کی نظیر بنا  اور حکومت کی جانب سے نئی جےآئی ٹی تشکیل دینے کی یقین دہانی کرانے پر درخواست نمٹادی ۔

    چیف جسٹس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ماڈل ٹاؤن میں شہید کی گئی تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد کی درخواست پر 6 اکتوبر کو ازخود نوٹس لیا تھا۔

    آسیہ بی بی کیس


    چیف جسٹس  نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا اور ریمارکس دیئے  آسیہ بی بی کسی اور مقدمے میں گرفتار نہیں ہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔

    ڈیمز کی تعمیر کا حکم


    چیف جسٹس نےڈیمز کی تعمیر پر اہم فیصلہ کیا اور ہوئے پیسے اکٹھے کرنےکاذمہ بھی اپنے کندھوں پر لیا۔ان کی ایک کال پر چند ماہ میں 9 ارب روپے سے زائد جمع ہوئے، یہ ایسا کام ہے جس پران کا نام نسلوں تک جگمگاتا رہے گا۔

    کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے احکامات اور فنڈز قائم کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔

    منرل واٹر کمپنیوں کیس


    منرل واٹر کمپنیوں کے پول بھی چیف جسٹس ہی نے عوام کے سامنے کھولے  اور عوام سے التجا کی کہ منرل واٹرپینا بند کر دیں، نلکے کا پانی ابال کر پئیں، اللہ کے فضل سے کچھ نہیں نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ  پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ہے،سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا۔

    نجی اسکولوں کی فیس میں کمی کا حکم


    چیف جسٹس ثاقب  نے پانچ ہزار سے زائد فیس لینے والے تمام نجی سکولوں کو بیس فیصد فیس کم کرنے اور گرمیوں کی چھٹیوں کی آدھی فیسیں والدین کو واپس کرنے کا حکم دیا تھا اور ہدایت کی تھی فیسوں میں سالانہ پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ نہ کیا جائے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ کوئی سکول بند نہیں کیا جائے گا اور کوئی بچہ سکول سے نہیں نکالا جائے گا، بصورت دیگر توہین عدالت کی کاروائی ہو گی۔

    چیف جسٹس نے چیئرمین ایف بی آر کو تمام سکولوں کے ٹیکس ریکارڈ کی پڑتال کرنے اور سکولوں کے اکاؤنٹس کی تفصیلات قبضے میں لینے کا بھی حکم دیا تھا۔

    پاکپتن درباراراضی کیس


    چیف جسٹس نے محکمہ اوقاف پاکپتن میں زمین کی الاٹمنٹ کیس میں نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا اور تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نوازشریف کہتے ہیں اراضی ڈی نوٹیفائی نہیں کی، جانتےہیں یہ بات غلط ثابت ہوئی تونتائج کیاہوں گے؟بعد ازاں جے آئی ٹی نے زمین منتقل کرنے کے احکامات میں سابق وزیراعظم نوازشریف کوذمہ دارقرار دیا۔

    جہانگیر ترین نا اہل


    چیف جسٹس نے آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی مدت کاتعین کر کےنااہلی مدت کی بحث ہمیشہ کے لئے ختم کردی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کو بھی عدالت عظمی نے نااہل کیا۔

    15 دسمبر 2017 کو  آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ کوئی عوامی عہدہ یا پھر اسمبلی رکنیت رکھنے کے مجاز نہیں رہے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ جہانگیرترین کو دو نکات پر نااہل کیا گیا ہے، انہوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے جھوٹ بولا۔

    موبائل کارڈ پر ٹیکس ختم کروانا


    چیف  جسٹس آف پاکستان نے 11 جون کو موبائل فون کارڈز پر وصول کئے جانے والے ٹیکسز معطل کرنے کے احکامات جاری کئے تھے، چیف جسٹس کے حکم کے بعدموبائل کمپنیوں نے 100 روپے کے کارڈ پر 100 روپے کا بیلنس دینے کا اعلان کیا تھا۔

    قبل ازیں 100 روپے والے کارڈ پر ٹیکس کٹوتی کے بعد صارفین کو 64 روپے 28 پیسے بیلنس موصول ہوتا تھا۔

    کٹاس راج کیس، میاں منشا کی فیکٹری کو10 کروڑ کا جرمانہ


    کٹاس راج کیس میں عوام کا پانی چوری کرنے اور جھوٹ بولنے پر میاں منشا کی فیکٹری کو10 کروڑ کا جرمانہ کردیا، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ڈی جی سیمنٹ پانی کی قیمت کی مد میں آٹھ کروڑ روپے جبکہ جھوٹ بولنے پر دو کروڑ روپے جرمانہ ڈیم فنڈ میں جمع کرایا جائے۔

    پاکستانی چینلز پربھارتی مواد نشرکرنے پرمکمل پابندی


    چیف جسٹس نے 27  اکتوبر 2018  نے پاکستانی چینلز پربھارتی مواد نشرکرنے پرمکمل پابندی لگا دی، ،چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا بند کریں یہ بھارتی مواد ، کوئی ہمارا ڈیم بند کرارہا ہے تو ہم ان کے چینلز بھی بند نہ کریں۔

    آئی جی اسلام اباد تبادلہ کیس اور اعظم سواتی


    چیف جسٹس نے   آئی جی اسلام آباد تبادلہ پر ازخودنوٹس کیس میں  وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالجی اعظم سواتی کو آٗی جی اسلام اباد تبادلہ کیس میں طلب کیا اور  2 نومبر کو  اعظم سواتی کو 62 ون ایف کے تحت نوٹس جاریکرتے ہوئے جی آئی بناکر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

    ، جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کا ذمہ دار اعظم سواتی کو قراردیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اثرو رسوخ استعمال کرکے فیملی کے خلاف ایف آئی آردرج کرائی گئی،  غریب خاندان پرزمین پرقبضے کی کوشش کے الزامات درست نہیں۔

      بعد ازاں  چیف جسٹس نے سینیٹر اعظم سواتی  اپنی اوربچوں کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا۔

    بنی گالہ کیس


    چیف جسٹس نے 1 نومبر 2018  کو بنی گالامیں عمارتوں کی ریگولرائزیشن سے متعلق کیس میں وزیراعظم عمران خان سمیت 65 افراد کی تعمیرات ریگولرائز کرنے کا حکم دیا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے  کہ بنی گالہ کو منصوبہ بندی کے تحت بنانا ہے تو تعمیرات خریدنا پڑیں گی، مالکان کو ازالہ اداکرنا پڑے گا اور ریگولرائزیشن کے لیے مالکان کو پیسے دینا ہوں گے۔

    ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس


    چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا اور موجودہ حکومت کے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو  میں طلب کرکے جواب مانگا۔

    بعد ازاں چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب، کلیم امام، احسن جمیل کی معافی قبول کرتے ہوئے تینوں کو آئندہ مداخلت نہ کرنے کی ہدایت کی۔

    خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا، واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا تھا۔

    مسیحی برادری کی شادیاں رجسٹرڈ کرنے کا حکم


    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار  16 جنوری 2019 میں کرسچن میرج کیس میں مسیحی برادری کی شادیاں رجسٹرڈ کرنے  اور نادراکو کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔

    تھر میں بچوں کی  ہلاکت کیس


    چیف جسٹس نے سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ کو تھر میں غزائی قلت کے باعث اموات کے ازخود نوٹس کیس اور عوامی مسائل پر عدالت میں طلب کیا اور 27 دسمبر 2018 میں  تھر میں 400 سے زائد بچوں کی ہلاکت نے 5 رکنی مانیٹرنگ کمیشن تشکیل دینے کا حکم  دیا۔

    دوہری شہریت والے سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کاحکم


    چیف جسٹس ثاقب نثار نے 15 دسمبر 2018 کو دوران ملازمت غیرملکی شہریت لینے والے ملازمین کیخلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا غیرملکی شہریت والے سرکاری ملازمین ریاست پاکستان کے مفاد کے لئے خطرہ ہیں، ایسے ملازمین کا نام منفی فہرست میں ڈالیں۔

    علیمہ خان کودو کروڑ چورانوے لاکھ روپےجمع کرانےکاحکم


    چیف جسٹس پاکستان نے یرون ملک اثاثوں  کیس  میں 13 دسمبر 2018  کو علیمہ خان کودو کروڑ چورانوے لاکھ روپےجمع کرانےکاحکم دیاجبکہ ایمنسٹی اسکیم میں ایک ارب روپے ظاہر کرنے والے وقار احمد کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور اُن کے خلاف مقدمہ درج کرنے کاحکم بھی دیا۔

    کراچی کی تاریخ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن  کا حکم


    چیف جسٹس ثاقب  نثار نے  27 اکتوبر 2018 کو پورے کراچی سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے جوائنٹ ٹیم کو پندرہ دن کی ڈیڈ لائن دے دی، چیف جسٹس نے حکام پر واضح کیا عدالت کا حکم موجود ہے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، تمام فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کی جائیں، امن و امان کی صورت حال سے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔

    عامر لیاقت ، فیصل رضا عابدی کی معافی قبول


    چیف جسٹس آف پاکستان نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت اور سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کی معافی قبول کی۔

    سپریم کورٹ نے رولنگ دیتے ہوئے کہا تھاکہ معافی صرف توہینِ عدالت تک محدود ہوگی، اس معافی کا فیصل رضا عابدی کے دیگر معاملات سے تعلق نہیں ہے۔

    میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے فیس مقرر


    چیف جسٹس نے 6 جنوری 2018  کو میڈیکل کالجوں میں داخلےکے لیے6لاکھ42ہزارفیس مقررکرتے ہوئے کہا تھا جس نے مقررہ فیس سے ایک روپیہ زیادہ لیا اس کی خیرنہیں۔

    پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی عمران علی شاہ کا شہری پر تشدد


    پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی عمران علی شاہ کی جانب سے شہری کو تھپڑ رسید کرنےکے کیس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران علی شاہ کو 30 لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں جمع کراوانے کا حکم دیا۔

    دیگر اہم مقدمات

    دوسری جانب چیف جسٹس نے انسانی حقوق سے متعلق متعدد مقدمات بھی سنے، پہلا مقدمہ 10 جنوری 2017 کو اسلام آباد میں کم عمر گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے حوالے سے تھا، آخری دو انسانی حقوق مقدمات میں پی کے ایل آئی ہسپتال میں بچوں کے جگر کے پیوند کاری اور ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے خاتون کے ساتھ فراڈ شامل ہیں۔

    دیگر انسانی حقوق مقدمات میں دھوکہ دہی سے گردے نکالنا،  لاہور میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار، وی وی آئی پی موومنٹ کے نام پر سڑکوں کی بندش، قصور میں آٹھ سالہ زینب کا قتل، ڈبوں میں بند دودھ کے معیار، نقیب اللہ محسود قتل، ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس، ادویات کی زائد قیمتیں، ناقص ادویات کی فروخت شامل ہیں ۔

    مزید پڑھیں: چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کام کریں گے؟ جسٹس ثاقب نثار نے زبردست اعلان کردیا

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک بھر میں فضائی آلودگی، غیر قانونی شادی ہالز کی تعمیر، مرغیوں کی خوراک کا معیار، پنجاب میں 56 کمپنیاں، پی آئی اے سمیت قومی اداروں کی اونے پونے دانوں فروخت، بلوچستان میں پانی کی کمی، ماڈل ٹاؤن ثانیہ، خیبرپختونخواہ میں طبی فضلے کی تلفی، خیبرپختونخواہ میں ہسپتالوں کی حالت زار، چین کی جیلوں میں قید پاکستانی، ملک بھر میں عطائی ڈاکٹرز، ثانیہ آرمی پبلک سکول کی عدالتی تحقیقات  خاران میں چھ مزدوروں کا قتل سے متعلق کیسز کی سماعت کی۔

    دیگر مقدمات میں کوئٹہ میں چرچ حملے کے متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی، پٹرول کیس اور بجلی پر زائد ٹیکس کی وصولی، سرکاری ملازمین کو گھروں کی الاٹمنٹ میں بےقاعدگیاں، شاہ زیب قتل کیس، حمزہ شہباز کے خلاف عائشہ احد کی درخواست، اسلام آباد ائیرپورٹ کی ناقص تعمیر، لاہور میں خدیجہ نامی طالبہ پر چاقو حملہ، جیلوں میں بیمار قیدی، کراچی میں پانی کی کمی  شامل ہیں۔

  • جس نے نبی پاک ﷺ کے نعلین پاک چوری کیے وہ تو بدبختی کاشکار ہو ہی گیا، چیف جسٹس

    جس نے نبی پاک ﷺ کے نعلین پاک چوری کیے وہ تو بدبختی کاشکار ہو ہی گیا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نبی پاک ﷺ کے نعلین پاک کی چوری سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس نے نعلین پاک چوری کیے وہ تو بد بختی کا شکار ہو ہی گیا، ہم اس معاملے کو نہیں چھوڑیں گے، نعلین مبارک کی بازیابی کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر کیجئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نبی پاک کی نعلین پاک کی چوری سے متعلق کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسی نایاب چیز ہے جس کی قیمت ہی کوئی نہیں۔ جب سے چوری ہوئی درخواست گزار ننگے پاوں پھر رہا ہے۔

    [bs-quote quote=” نعلین مبارک تو ایسی نایاب چیز ہے جس کی قیمت ہی کوئی نہیں۔ جب سے چوری ہوئی درخواست گزار ننگے پاوں پھر رہا ہے” style=”style-7″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس کے ریمارکس "][/bs-quote]

    تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ 31 جولائی 2002 کو مغرب اور عشاء کے درمیان نعلین پاک برونائی سے واپس آتے ہوئی چوری ہوئے، معاملے پر تفتیش بھی کی کہ کہیں نعلین مبارک اسمگل تو نہیں ہوگئے ہوں، تفتیشی ٹیم نے نعلین مبارک کی پیمائش بھی کرائی تھی اور وہاں فنگر پرنٹس کا جائزہ بھی لیا، جس کے مطابق موقع پر جو ایس پی گیا اس کے فنگر پرنٹس ملے۔

    سربراہ تفتیشی ٹیم نے مزید بتایا کہ ایک دفعہ کراچی سے بھی خبر آئی ہم وہاں بھی گئے، اب ہمارے پاس اصل نعلین مبارک کی پہچان کا پیمانہ بھی آگیا ہے اور اس پر 15 لاکھ انعام بھی مقرر کیا ہے۔

    دوران سماعت عدالت میں نعلین مبارک کا ویڈیو کلپ بھی چلایا گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹی وی اور اخبارات پر اس معاملے کی تشہیر کی گئی تاکہ کوئی اللہ کا نیک بندہ ہمیں معلومات دے دے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جس نے نعلین پاک چوری کی وہ تو بد بختی کا شکار ہو ہی گیا ہے، جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے مسلمانوں کے لیے تو اس کی بہت اہمیت ہے، اس طرح کے تبرکات بین الاقوامی میوزیم میں پائے جاتے ہیں۔

    جس پر تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ ترکی کے توپ کالی میوزیم اور انگلینڈ کے میوزیم سے بھی چیک کیا، چیف جسٹس نے کہا اس معاملے کو ہم نے نہیں چھوڑنا، اپنے آرڈر میں لکھوادیں گے کہ پولیس بتادے کہ آئندہ کیا کرنا ہے۔

    [bs-quote quote=” جو تبرکات ہمارے پاس موجود ہیں پنجاب حکومت ان کی حفاظت کرے” style=”style-7″ align=”left” author_name=”عدالت "][/bs-quote]

    تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے مزید کہا کہ اس حوالے سے ہم پورے ملک میں پیغام پہنچا رہے ہیں، کچھ لوگ چھپ کر زیارتیں کرواتے پیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو مذہبی فریضہ سمجھ کر اشتہارات چلانے چاہیے، ہمیں لگ رہا ہے کہ پولیس صحیح سمت میں کام کر رہی ہے، جو تبرکات ہمارے پاس موجود ہیں پنجاب حکومت ان کی حفاظت کرے۔

    عدالت نےپولیس کو حکم دیا کہ ہر تین مہینے بعد پیش رفت رپورٹ جمع کروائے اور پنجاب حکومت باقی تبرکات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرے جبکہ اس معاملے پر عدالت کی جانب سے جو بھی معاونت درکار ہوگی فراہم کی جائے گی۔

    عدالت نے مزید کہا تبرکات کو محفوظ بنانے کے لیے شیشوں کے باکس میں محفوظ کریں، نعلین مبارک کی بازیابی کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر کیجئے، جس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔

  • پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ہے،سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، چیف جسٹس ثاقب نثار

    پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ہے،سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، چیف جسٹس ثاقب نثار

    اسلام آباد : زیرزمین پانی کی قیمت اور استعمال کیس میں چیف جسٹس حکام پر برس پڑے اور کہا حکومت کی پانی کے معاہدہ پر کام کرنے کی نیت ہے نہ قابلیت ، پانی استعمال کیا جارہا ہے لیکن تاحال قیمت مقرر نہیں ہوئی، پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ہے،سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، منرل واٹر کمپنیاں پانی استعمال کر رہی ہیں ،بتایا جائے صوبوں اور وفاق نے کیا طریقہ کاربنایا؟کیا لوگوں کو پیاسا مار دینا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں زیر زمین پانی کی قیمت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا زیر زمین پانی کی قیمت پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ہے، سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، منرل واٹر اورمشروبات پر زیر زمین پانی کی قیمت کا تعین کر دیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ صنعتوں کے لیے پانی کی قیمت مقرر کرنے کا حکم دیا جبکہ ضائع پانی کی ٹریٹمنٹ کا بھی حکم دیا ہے۔

    [bs-quote quote=”کیا لوگوں کو پیاسا مار دینا ہے؟ کچھ کہہ دو تو کہا جاتا کہ سوال اٹھا دیئے ” style=”style-7″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس کے ریمارکس "][/bs-quote]

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا لا کمیشن نے محنت سے پلان بنا کر دیا، حکومت کی جانب سے تا حال کوئی عملدرآمد نظر نہیں آیا، لا کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہورہا، معاملہ وزیراعلیٰ یا چیف سیکرٹری کے پاس چلا جاتا ہے، پھر معاملے پر ذیلی کمیٹی بن جاتی ہے، اسی طرح یہ سارا کام کاغذوں کی نظر ہو جائے گا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا لوگوں کو پیاسا مار دینا ہے؟ کچھ کہہ دو تو کہا جاتا کہ سوال اٹھا دیے ، حکومت کی پانی کے معاہدہ پر کام کرنے کی نیت ہےنہ قابلیت ، گوادر میں پانی نہیں مل رہا ، مصروفیات کے باعث گوادر نہیں جاسکا۔

    سرکاری وکیل نے دلائل میں کہا بلوچستان میں ٹیوب ویل خشک ہو چکے ہیں ، تسلیم کرتا ہوں گوادر میں پانی نہیں مل رہا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ وزیر اعظم اور کابینہ کو سمری بھجوا دی ہے، جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا پانی استعمال کر رہے ہیں لیکن تاحال قیمت مقرر نہیں ہوئی، منرل واٹر کمپنیاں پانی استعمال کر رہی ہیں، بتایا جائے صوبوں اور وفاق نے کیا طریقہ کاربنایا ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا صنعتوں کے لیےپانی کے استعمال کی قیمت کا تعین ہونا چاہیے، چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ صنعتیں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنائیں، ہائی کورٹ جج نے تجویز دی کہ مساجد میں استعمال پانی کا مزید استعمال کیاجائے۔

    سیکریٹری نے عدالت ک بتایا لااینڈ جسٹس کمیشن نے قیمت اور استعمال پررپورٹ جمع کرائی ہے، رپورٹ میں چند تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔

  • آبادی کو کنٹرول نہ کیا تو تباہی آئے گی، چیف جسٹس نے عوام اور حکومت  کو خبردار کر دیا

    آبادی کو کنٹرول نہ کیا تو تباہی آئے گی، چیف جسٹس نے عوام اور حکومت کو خبردار کر دیا

    اسلام آباد:چیف جسٹس ثاقب نثار نے بڑھتی آبادی پر عوام اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ آبادی کو کنٹرول نہ کیا تو تباہی آئے گی، ایک وقت آئے گا وسائل اور طلب میں خلاپر کرنا مشکل ہو جائےگا،کیس کا فیصلہ کل سنائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں آبادی میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سیکریٹری صحت  نے  عدالت کو بتایا کہ حکومت نے آبادی کے کنٹرول کے دو ہدف مقرر کرلیے ہیں،ایک ہدف دو ہزار پچیس اور دوسرا دو ہزار تیس تک حاصل کرلیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس نے استفسار کیا آبادی کے حوالے سے سروے کس حد تک مستند ہوتے ہیں؟تھرڈ پارٹی سروے کس سے کرایا جاتا ہے؟سروے کے  اعداد و  شمار  مستند نہیں ہوں گے تو کوئی بھی پلان بیکار ہے، جس پر سیکریٹری صحت کا کہنا تھا کہ ہماری آبادی بڑھنے کی موجودہ شرح دو اعشاریہ چار  ہے، دو  ہزار  پچیس تک آبادی بڑھنے کی شرح ایک اعشاریہ پانچ فیصدہو جائے گی۔

    [bs-quote quote=”ایک وقت آئے گا وسائل اور طلب میں خلا پر کرنا مشکل ہو جائے گا” style=”style-6″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس "][/bs-quote]

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا حکومت نے ٹاسک فورس کی رپورٹ پر عمل نہ کیاتوتباہی ہو گی،  آبادی کو کنٹرول نہ کیا تو تباہی آئے گی،حکومت کو یہ بات بتا دیں، آبادی کے معاملے  پر  عوام اور حکومت دونوں کو خبردار کر رہا ہوں، ایک وقت آئے گا وسائل اور طلب میں خلا پر کرنا مشکل ہو جائے گا۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آبادی پرقابوپانےکےمعاملے پرعدالت نظررکھےگی، ٹاسک فورس کی سفارشات پر عملدرآمد کے معاملے کی نگرانی کریں گے، ٹاسک فورس کی سفارشات کو حکومت نے تسلیم کیا تھا۔

    مزید پڑھیں : جب تک آبادی کم نہیں ہوگی، مشکلات کم نہیں ہوں گی‘ چیف جسٹس

    جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا 2025 تک آبادی بڑھنےکی شرح کیاہوگی؟ جس پرسیکریٹری صحت نے بتایا 2025 تک آبادی بڑھنے کی شرح ایک اعشاریہ 5 فیصدہو جائے گی، 2030 میں آبادی بڑھنے کی شرح ایک اعشاریہ 4 فیصدہو جائے گی، مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات تسلیم کر لی گئی ہیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا آبادی کنٹرول کے معاملے پر فیصلہ لکھ چکے ہیں، کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ پاکستان کے ذرائع کم ہو رہے ہیں، زرعی زمین کم ہورہی ہے، جب تک آبادی کم نہیں ہوگی، مشکلات کم نہیں ہوں گی۔

  • آپ کواستعفی نہیں دینے دیں گے، ہمارے پاس تعریف کے الفاظ نہیں، چیف جسٹس کا یاسمین راشد سے مکالمہ

    آپ کواستعفی نہیں دینے دیں گے، ہمارے پاس تعریف کے الفاظ نہیں، چیف جسٹس کا یاسمین راشد سے مکالمہ

    لاہور:چیف جسٹس نے وزیرصحت پنجاب یاسمین راشد کوکام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا آپ کواستعفا نہیں دینےدیں گے،آپ کا کردار قابل تحسین ہے، ہمارےپاس تعریف کے الفاظ نہیں جبکہ اینٹی کرپشن کوپی کےایل آئی کی انکوائری اور ذمہ داروں کےخلاف کارروائی کا حکم بھی دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے پرائیویٹ یونیورسٹیز کی قانونی حیثیت سے متعلق کیس کی سماعت کی،  وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین عدالت میں پیش ہوئیں۔

    ڈاکٹر یاسمین نے عدالت کو بتایا کہ آپ کے ریمارکس پر اپوزیشن مجھ سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو استعفی نہیں دینے دیں گے آپ اپنا کام کریں، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ بہت قابل احترام ہیں، آپ کا پورا کیرئیر بے داغ ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے خلاف بھی مہم چلائی جاتی ہے، ایسے واٹس ایپ میسج موجود ہیں، کیا ان حالات میں کام کرنا چھوڑ دیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے مہم کے محرکین کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کردار قابل تحسین ہے، ہمارے پاس الفاظ نہیں جن سے آپ کی تعریف کی جائے۔

    پی کےایل آئی سے متعلق ڈاکٹریاسمین راشدنے بتایا کہ بورڈآف گورنر بنادیا ہے، جون تک بچوں کےجگرکی پیوندکاری شروع ہوجائےگی، جس پر  چیف جسٹس نےکہا چاہتےہیں اسپتال حکومت چلائے پہلےکی طرح ٹرسٹ نہیں،یہ عوام کی زندگی کامعاملہ ہےہم مدد کرناچاہتےہیں۔ 

    پی کےایل آئی پرڈی جی اینٹی کرپشن نے رپورٹ پیش کی ، جس میں بتایاکہ کنسلٹنٹ اورعملےکوبھاری تنخواہیں دی گئیں مگرکام نہیں ہوا،قومی خزانے کو نقصان پہنچا، جس پر چیف جسٹس نے کہا اینٹی کرپشن انکوائری اورذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرے۔

    پی کےایل آئی کی سابق انتظامیہ کے وکلانےرپورٹ پر جواب کی مہلت مانگی، جس پرعدالت نےبدھ تک جواب جمع کرانے کاحکم دے دیا۔

    یاد رہے 6 جنوری کو پاکستان کڈنی اینڈ ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے سوال کیا کہ جگر کی پیوند کاری کے آپریشن کا کیا بنا؟ صوبائی وزیر صحت نے جواب دیا کہ چیف جسٹس فکرنہ کریں اس پرکام کررہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ فکر آپ کو کرنی ہے بی بی! لیکن آپ کچھ نہیں کررہیں۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کو پنجاب حکومت سے توقعات تھیں لیکن آپ نے شدید مایوس کیا، چیف جسٹس

    جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے کہا تھا کہ ہر سماعت پر آپ اور پنجاب حکومت زبانی جمع خرچ کرکے آجاتی ہے، چف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پنجاب میں نااہلی اور نکما پن انتہا کو پہنچ چکا ہے، معاملہ ختم کردیتے ہیں پنجاب حکومت میں اتنی اہلیت ہی نہیں ہے۔ا۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا  کہ کیس میں پنجاب حکومت کی نا اہلی کو تحریری حکم کا حصّہ بنارہے ہیں، علاج کی سہولیتیں دینے میں ناکام ہیں، لوگ آپ سے خود پوچھ لیں گے، ان کا کہنا تھا کہ جس کا جو دل کرتا ہے کرے اور چلائے اس کڈنی انسٹی ٹیوٹ کو، سپریم کورٹ کو آپ سے توقعات تھیں لیکن آپ نے شدید مایوس کیا۔

  • ڈیم نہیں بناتوہماری کی نسلیں پانی کی بوندبوندکوترسیں  گی ، چیف جسٹس ثاقب نثار

    ڈیم نہیں بناتوہماری کی نسلیں پانی کی بوندبوندکوترسیں گی ، چیف جسٹس ثاقب نثار

    اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامربھاشامہمندڈیم تعمیرعملدرآمدکیس میں ریمارکس دیئے آج اگر ڈیم فنڈ کی مہم بنی ہے تو اس میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے،، ڈیم نہیں بناتو ہماری کی نسلیں پانی کی بوندبوندکوترسیں گی، چیئرمین ایف بی آربتائیں ڈیم فنڈکی سرمایہ کاری کس جگہ کی جا سکتی  ہے،  مخدوم اورڈاکٹرپرویزحسن پروپوزل کی تیاری میں مددفراہم کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی بینچ نے دیامربھاشامہمند ڈیم تعمیر عملدرآمد کیس کی سماعت کی ، عدالت نےمیڈیاپرڈیم ٹھیکے سے متعلق تنقید پر پیمرا سے جواب طلب کیا تھا۔

    اٹارنی جنرل نے میڈیاکی تعریف کرتے ہوئے بتایا پیمرا نے 76 ٹاک شوز کا ریکارڈ پیش کیا ہے، ڈیم فنڈکی تشہیر کے لیے ٹی وی چینل اشتہار چلا رہے ہیں، میڈیا پر13 ارب روپے کے مفت اشتہارات چلائے گئے، ہر چینل نے ڈیم فنڈ کے لیے کام کیا ہے۔

    [bs-quote quote=” آج اگر ڈیم فنڈ کی مہم بنی ہے تو اس میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے” style=”style-6″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس "][/bs-quote]

    جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس میں کہا ڈیم ٹھیکے پر تنقیداور واپڈا کا مؤقف نہ لیا جائے تو یہ ٹھیک نہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ایک نجی ٹی وی چینل کےاس معاملےپرایک پوراپروگرام کیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج اگر ڈیم فنڈ کی مہم بنی ہے تو اس میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، میڈیا نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت کام کیا ہے۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے غریدہ فاروقی سے استفسار کیا پیپراکامطلب کیاہے، آگاہ کریں پیپرا کے کون سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی، جس پر غریدہ فاروقی پیپرا کا مطلب نہ بتاسکیں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی استفسار کیا آپ کو ریسرچ کون کرکے دیتاہے، تو غریدہ فاروقی نے جواب میں کہا سرمیری پوری ریسرچ کی ٹیم ہے۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مضرصحت مٹھائیوں کےلیےکوئی ٹیم نہیں بنائی، مٹھائیوں میں جراثیم پکڑےجائیں تورونادھوناشروع کردیتےہیں، جسٹس ثاقب نثار نے غریدہ فاروقی سے استفسار کیا آپ کیاچاہتی ہیں یہ ڈیم نہ بنے۔

    چیئرمین پیمرا نے کہا نجی ٹی وی کوشوکاز دے کر وضاحت مانگیں گے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا نجی چینل کا لائسنس منسوخ کریں بعدمیں ریسرچ  ٹیم دیکھیں گے۔

    سماعت میں اینکرغریدہ فاروقی نے کہا آپ اس ملک کے مسیحاہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا ہمیں مسیحاسمجھا جاتاہے تو ہمارا ساتھ دیا جائے،  ڈیم کی کسی جزیات پر بات کرنا ڈیم کو روکنے کے مترادف ہے ، ڈیم نہیں بنا تو ہماری کی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں گی۔

    چیف جسٹس نے اینکرسےاستفسار کیا بتائیں میرٹ کا قتل کیسے ہوا یہ الفاظ کیوں استعمال کئے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ڈیم بڈنگ کی وضاحت ہو چکی ہے تو ایشو کیوں بنایا، عدالت نے نجی چینل کو پروگرام میں وضاحت اورآئندہ احتیاط پرمعاملہ نمٹادیا۔

    چیئرمین واپڈا نے عدالت کو بتایا  وزات توانائی نے164ارب روپےواپڈاکودینےہیں، جس پر چیف جسٹس نے چیئرمین واپڈاسےمکالمے میں کہا آپ ہرماہ پیشرفت رپورٹس دیں، گورنراسٹیٹ بینک بیرون ملک سےفارن ایکسچینج کےریٹس دیں۔

    چیئرمین ایف بی آربتائیں ڈیم فنڈکی سرمایہ کاری کس جگہ کی جا سکتی  ہے،  مخدوم اورڈاکٹرپرویزحسن پروپوزل کی تیاری میں مددفراہم کریں گے، چیف جسٹس

    عدالت نے کہا  فنڈزعملدرآمدبینچ کی مرضی کےبغیرخرچ نہیں کئےجا سکیں گے، ٹیلی کام سیکٹراورپانی پرٹیکسزکےپیسےڈیم تعمیرپرخرچ ہونےچاہیں، حکومت پروپوزل بناکردےواٹرٹیکس کےپیسےکیسےڈیم فنڈکومختص ہوسکتےہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا اس پرقانون سازی نہیں ہوسکتی، چیئرمین ایف بی آربتائیں ڈیم فنڈکی سرمایہ کاری کس جگہ کی جا سکتی  ہے،  مخدوم اورڈاکٹرپرویزحسن پروپوزل کی تیاری میں مددفراہم کریں گے اور اس معاملےمیں عملدرآمدبینچ بنائیں گے۔

    سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت فروری کے پہلےہفتے تک ملتوی کردی۔

  • جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، چیف جسٹس کا بلاول بھٹو اور مرادعلی شاہ کانام جےآئی ٹی رپورٹ اورای سی ایل سے نکالنے کا حکم

    جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، چیف جسٹس کا بلاول بھٹو اور مرادعلی شاہ کانام جےآئی ٹی رپورٹ اورای سی ایل سے نکالنے کا حکم

    اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں چیف جسٹس نے مرادعلی شاہ اوربلاول بھٹو کانام جےآئی ٹی رپورٹ اورای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا اور کہا جےآئی ٹی کاوہ حصہ حذف کردیں ، جس میں بلاول کانام ہے جبکہ عدالت نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کامعاملہ نیب کوبھجوادیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں‌ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی، ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ خواجہ طارق نے بتایا کہ تمام ملزمان کی مشترکہ نمائندگی کررہاہوں۔

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ خواجہ طارق سے مکالمے میں کہا مجبورنہ کریں عمل درآمد بینچ سے پوچھیں گرفتاریاں کیوں نہ ہوئیں، آُپ تو ایسا تاثر دے رہے ہیں ، جیسے سب بڑے معصوم ہیں، کیا ہوا ہے اور کیا نہیں ہوا اس کی تحقیقات ابھی ہونی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے ای سی ایل کےحوالے سے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ای سی ایل میں ناموں کامعاملہ کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائےگا، کابینہ اس پر ضرور نظر ثانی کرے گی۔

    [bs-quote quote=”جےآئی ٹی نےتوموٹی موٹی چیزیں بیان کیں ہیں، اصل تحقیقات تو نیب نےکرنی ہے” style=”style-6″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس "][/bs-quote]

    وکیل اومنی گروپ نے اپنے دلائل میں کہا حکومتی ترجمان نےبیان میں کہا جے آئی ٹی کی لسٹ کےنام ڈالےگئے، انہوں نے معاملہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے، پتہ  نہیں ریویو ہوگا، اس  لسٹ میں فوت شدہ شخص کانام بھی شامل ہے، جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا تمام جزویات پر جارہے ہیں، ای سی ایل پراٹارنی جنرل حکومت کا لائحہ عمل بتاچکے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں ادھرادھر کی باتیں کریں،اصل کیس نہ چلنے دیں، آپ یہ دلائل دے جے آئی ٹی کی رپورٹ پرآگے کیا کارروائی کی جائے، چیف  جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا اتنامواد ہونے کے بعد آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،  جےآئی ٹی نے تو موٹی موٹی چیزیں بیان کیں ہیں، اصل تحقیقات  تو نیب نے کرنی ہے، اگرکوئی بات آپ کےخلاف آئی توریفرنس بنےگا۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا میری رائےمیں جواکاؤنٹس پکڑےگئےوہ شاخیں ہیں، یہ تمام شاخیں اومنی گروپ سےجاکرملتی ہیں، اومنی آگے ٹائیکون کو جا کر ملتا ہے، ان سب کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

    وکیل اومنی گروپ کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نےاختیارات سے تجاوز کیا، شوگرملزپ یسے دے کر خریدی گئی، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا جعلی  اکاؤنٹس سے ادائیگی ہوئی ناں؟جسٹس فیصل عرب نے کہا سپریم کورٹ میں ہم جرم کی نوعیت کاتعین نہیں کرسکتے۔

    چیف جسٹس نے کہا جےآئی ٹی رپورٹ صرف رپورٹ ہے، یہی رہنی چاہیے، یہ صرف ججز کے دیکھنے کے لئے ہے، وکیل کا دلائل میں کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے جو گراف شوگرمل سے متعلق دیا وہ غلط ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جے آئی ٹی نے کہا نہ آپ نے ٹریکٹر خریدے نہ بیچے۔

    وکیل اومنی گروپ کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کہتی ہے ہم نے اس میں ایک ارب کی سبسڈی لی، کہاں ثابت ہوتاہے کہ ہم نے سبسڈی لی، جس پر عدالت نے کہا ہم ٹرائل کورٹ نہیں یہ بات آپ نے ٹرائل کورٹ میں بتانی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے گٹھ جوڑ اور مواد دیکھ کر معاملہ نیب کو ریفر کرسکتے ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو، وہاں آپ کو جرح کا موقع بھی ملے گا، وہاں آپ جے آئی ٹی کو رد بھی کرسکتے ہیں، وہاں آپ بتاسکتے ہیں، 5سال آپ کے لئے من وسلوی ٰکہاں سے اترا اور کیسے چند سال میں اومنی گروپ اربوں سے کھربوں پتی ہوگیا۔

    سماعت مین جسٹس اعجاز نے کہا جےآئی ٹی رپورٹ میں صرف سفارشات مرتب کی ہیں، یہ حقائق پر مبنی رپورٹ ہے، یہ تونیب کے پاس جائےگی پھر اس پر فیصلہ ہوگا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کیس نیب کو بھجوانا ہے یا نہیں۔

    وکیل نے دلائل دیئے کہ ٹریکٹرسبسڈی معاملےپراومنی گروپ کاحصہ 10فیصدہے، سبسڈی بھی قانون کے مطابق ہے، جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا  جے آئی ٹی نے لکھا ٹریکٹروں کی خرید و فروخت کاغذوں میں ہوئی، اومنی گروپ نے ایک ارب سبسڈی لی، رپورٹ میں لفظ غبن استعمال ہوا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اس مقدمے کا مرکز جعلی اکاؤنٹس ہیں، جعلی اکاؤنٹس کاتعلق اومنی اور سیاستدانوں سے ہے، آپ مت سمجھیں کہ آپ کو مجرم ٹھہرائیں گے، ابھی مقدمہ انکوائری کے مراحل میں ہے، آپ جاکر اس کا دفاع کرسکتے ہیں، تسلی کرائیں آپ کا مؤکل کیسے دنوں میں ارب پتی بن گیا، پیسے درختوں پر لگنے شروع ہوگئے؟ہم نہیں کہتے لانچوں کے ذریعے آئے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ بھٹی صاحب سندھ حکومت چینی پر2 روپے زیادہ سبسڈی دے رہی ہے، آپ کے مؤکل کی کتنی ملیں ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ میرے مؤکل کی 8 ملیں ہیں، سبسڈی کےمعاملے پر کوئی غیرقانونی کام نہیں کیاگیا، جے آئی ٹی کے دیےگئے اعداد و شمار ریکارڈ پر نہیں۔

    جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا بھٹی صاحب آپ لیئرنگ کے بارے میں جانتے ہیں، وکیل اومنی گروپ نے جواب میں دیا کہ نہیں جناب، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ تو پھر آپ دلائل کیوں دے رہے ہیں، اس رپورٹ کو قبول کرلیں تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں رہ جائےگا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کوتومعاملہ ٹرائل عدالت بھجوانے پر اصرار کرناچاہیے، وکیل اومنی گروپ نے کہا اس میں ہمارے فاروق ایچ نائیک پر بھی الزامات  ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فاروق ایچ نائیک ہمارے بھی تو ہیں، آپ ان کی فکر چھوڑیں۔

    [bs-quote quote=” بلاول زرداری توصرف اپنی ماں کامشن لیکرچل رہاتھا، وہ معصوم بچہ ہےای سی ایل میں کیوں ڈالا؟” style=”style-6″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس کے ریمارکس”][/bs-quote]

    وکیل انورمجید نے اپنے دلائل میں کہا سپریم کورٹ نےاس مقدمےکی سست روی پرازخود نوٹس لیاتھا، اب تویہ تفتیش ہو گئی ہےاس کونمٹا دیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاہم اتنےسادہ ہیں، مقدمےکوختم نہیں کریں گےبلکہ آگےبھی چلائیں گے۔

    وکیل جےآئی ٹی فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے ، وکیل جےآئی ٹی نے بتایا کہ فریقین آج تک جعلی اکاؤنٹس سےانکاری ہیں، جس پر چیف جسٹس نے  استفسار کیا پہلےیہ بتائیں بلاول بھٹوکوکیوں ملوث کر رہے ہیں، بلاول نے پاکستان آکر کیا کیا وہ معصوم بچہ ہے ای سی ایل میں کیوں ڈالا؟

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے وہ توصرف اپنی والدہ کے لیگیسی کوآگے بڑھا رہا ہے، کیا جے آئی ٹی نے بلاول کو بدنام کرنے کیلئے معاملے میں شامل کیا؟ کیا جے آئی ٹی نے بلاول بھٹو کو کسی کے کہنے پر معاملے میں شامل کیا؟ بلاول کو معاملے میں شامل کرنے کو آگے چل کر دیکھتے ہیں۔

    جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا بلاول زرداری توصرف اپنی ماں کامشن لیکرچل رہاتھا، جےآئی ٹی نے تو اپنے وزیراعلیٰ کی عزت نہیں رکھی، وزیراعلیٰ کانام ای سی ایل میں ڈال دیاگیا۔

    وکیل جےآئی ٹی کا کہنا تھا کہ عدالت کواس حوالے سے مطمئن کروں گا، چیف جسٹس نے جے آئی ٹی وکیل سے مکالمے میں کہا بلاول کسی جرم میں ملوث ہیں ، جوان کانام ای سی ایل میں ڈال دیا؟ شپ نےوزیراعلیٰ سندھ کونہیں بخشا۔

    اٹارنی جنرل انورمنصورخان نے بتایا عدالتی حکم پرای سی ایل معاملےپرکابینہ کااجلاس بلایاتھا، تمام ناموں کاجائزہ لینےکافیصلہ کیا ہے، ای سی ایل سے متعلق جائزہ کمیٹی کااجلاس10جنوری کوہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہےاب ای سی ایل معاملے پر جو بھی ہوگا وہی کریں گے۔

    وکیل نے کہا جےآئی ٹی نےفاروق نائیک کےخلاف آبزرویشن دیں،چیف جسٹس کا کہنا تھا ایسےوکلا کے نام شامل ہوئے تو پھر ایک نیا پینڈورا باکس کھل جائے گا، خواجہ صاحب ہم نے پینڈورا باکس کھول دیا، جسٹس اعجاز الحق کا کہنا تھا ابھی تو ایک حقائق پر مشتمل انکوائری ہوئی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا ہم نےاس رپورٹ پرفیصلہ کرناہے، یہاں کوئی بھی مقدس گائے نہیں، جس پروکیل اومنی گروپ کا کہنا تھا جے آئی  ٹی رپورٹ حقائق کے برعکس ہے، جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، جےآئی ٹی رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جن لوگوں نےمفت میں سبسڈی لی ان کی تحقیقات ہونی چاہیے، جےآئی ٹی تحقیقات کے لیے نیب کو بھیجنے کی سفارش کی ہے، کیسے سلک اور سمٹ بینک کھل گئے، حتمی تحقیقات نیب نے کرنی ہے، بلانے پر نیب کے سوالات کاجواب دینا ہوگا۔

    جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا اربوں روپےکیسےبن گئےنیب تحقیقات کرےگا، جےآئی ٹی نے یہ بتایاکب کب کیا ہوا، تمام شاخسانے اومنی گروپ سے جا کر ملتے ہیں، جے آئی ٹی نے بنیادی معلومات فراہم کی ہیں، دہی بھلے، فالودے والے کے اکاؤنٹس اومنی گروپس سے ملتے ہیں، اومنی گروپ کا سیاستدانوں، نجی  پراپرٹی ٹائیکون سےگٹھ جوڑ دیکھنا ہے، ایسامکسر کیا ہے کہ اس کی لسی بن گئی ہے، کیا اوپر سے فرشتے آکر جعلی بینک اکاؤنٹس کھول گئے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جے آئی ٹی کی تفتیش جعلی بنک اکائونٹس تک محدود نہیں تھی, وکیل اومنی گروپ کا کہنا تھا عدالت کودیاگیاتاثردرست نہیں، عدالت اجازت دے کہ اصل تصویر پیش کرسکوں، اومنی گروپ نے شوگر ملیں قانون، طریقہ کار کے مطابق خریدیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا ملیں مفت تونہیں لیں نہ پیسےجعلی اکاؤنٹس سے آئے؟ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ جب ریفرنس دائر ہوگا تو اپنا دفاع کرلینا۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا یہ تفتیشی رپورٹ ہےاس پر فریقین کا جواب دیکھناہے، اتنامواد آنے کے بعد معاملے کو کیسے ختم کرسکتے ہیں، اصل  مسئلے سے ہٹ کر ای سی ایل پر توجہ مرکوز نہ کریں، وکیلوں نے قسم کھائی ہے کہ اصل مقدمے کو چلنے نہیں دینا، اعتراض ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔

    وکیل کا دلائل میں کہنا تھا جےآئی ٹی نیب کوریفرنس دائرکرنےکی سفارش نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جےآئی ٹی کی سفارش پر اعتراض ہے تو ہم نیب کومعاملہ بھیج دیتےہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ چارٹ دیکھا ہےکس طرح کس سال سےاوپراٹھےہیں، کیسےسندھ بینک اورسمٹ بنک بنالیے، اب ان بینکوں کوضم کر رہے ہیں، ضم کرنے کا مقصدمعاملےپرمٹی ڈالناہے، پیسوں کی بندربانٹ پراومنی نےشوگرملیں لی ہیں ان کاکیاکریں، آپ نےرہن شدہ چینی غائب کردی۔

    عدالت نے کہا امریکامیں قتل کےمقدمےمیں ضمانت مل جاتی ہے،ایسے مقدمات میں نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اومنی گروپ والے 3بینکوں کو کھاگئے ہیں، کراچی میں ایک پولیس والے کے کہنے پر یہ مقدمہ کھلا، میں اس کانام بھی نہیں بتاؤں گا۔

    وکیل جے آئی ٹی نے بتایا اس مقدمے کا مرکز جعلی اکاؤنٹس ہیں، چیف جسٹس نے کہا جمہوریت اس ملک کے لئے ایک نعمت ہے، سارے بنیادی حقوق جمہوریت کی وجہ سےہیں، جمہوریت پرسمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے، سب کہتے تھے الیکشن نہیں ہوں گے، ہم نے کہہ دیاتھا الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی، الحمداللہ انتخابات وقت پرہوئے۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا ہم نےآتےہی کہناشروع کردیاتھا جمہوریت نہ رہی توہم نہیں رہیں گے، ہرقیمت پرجمہوریت کاتحفظ کیاجائےگا، لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم اس جمہوریت ہی کاتحفظ چاہتےہیں، جمہوریت ارتقائی عمل میں ہے۔

    ،فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا جے آئی ٹی کے تمام الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، ہم سے جو سوال پوچھے نہیں گئے وہ بھی جے آئی ٹی میں ڈال دیےگئے، ہم اس رپورٹ کومکمل طور پر مستردکرتے ہیں، جو الزام آصف زرداری، فریال تالپور پر لگائے ہیں وہ اخذکرتے ہیں، دونوں کے جوابات تفصیل میں داخل کیے ہیں، ان الزامات کا مقصد صرف سیاسی شخصیات کی تضحیک ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملےمیں عدالت کی کوئی بدنیتی نہیں، جس پر فاروق نائیک نے کہ وہ سوال عدالت نے پوچھے نہیں جن کے جوابات جے آئی ٹی نے دیے، لطیف کھوسہ نے کہا فاروق ایچ نائیک کوعدالت نے پروٹکٹ کیا، مجھ سےمنسوب جعلی آڈیوٹیپ معاملہ آپ نے ایف آئی اے کو ریفرکیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے وہ آڈیو ٹیپ جعلی ہے آپ کی آوازہی نہیں، یہ ممکن ہے کبھی بھابھی سے سرگوشی کررہے ہوں آپ کی آواز بدلتی ہو۔

    لطیف کھوسہ نے کہا آپ کےدیئےگئے سرٹیفکیٹ سےبڑاسرٹیفکیٹ نہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا جمہوریت سے بڑی کوئی نعمت نہیں، تمام بنیادی حقوق جمہوریت کی بدولت ہی ہیں، لوگ کہتےتھےالیکشن نہیں ہوں گے،میں کہتاتھا ایک منٹ تاخیرنہیں ہوگی، ہم نے آئین پاکستان کی حفاظت کا حلف اٹھا رکھاہے، حلف کوئی معمولی چیزنہیں بلکہ عہدہے۔

    لطیف کھوسہ کا عدالت میں مزید کہنا تھا کہ 172 لوگوں کےنام ای سی ایل میں ڈالئےگئے، آج سندھ بندہوکررہ گیاہے، کوئی افسرقلم اٹھانےکوتیارنہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا بلاول زرداری کانام جےآئی ٹی رپورٹ سے نکال رہےہیں اور بلاول سےمتعلق جےآئی ٹی کےحصےکوڈلیٹ کر رہے ہیں،ہم کسی صورت جمہوریت کوڈی ریل نہیں ہونےدیں گے، لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ بلاول کےحوالے سے جےآئی ٹی کی آبزرویشن پرتحفظات ہیں۔

    وکیل کا دلائل میں کہنا تھا اگرسیاسی جماعتوں کےساتھ ایسارویہ رکھاگیاتوجمہوریت کیسےچلےگی، لطیف کھوسہ نے کہا ہمیں سندھ حکومت سے الگ کرنےکی کوشش کی گئی۔

    چیف جسٹس نے جےآئی ٹی وکیل سےسوال کیا آپ نےبغیرتحقیق وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا، کیاسی ایم کا نام اس طرح ای سی ایل میں شامل کرنا  قومی مفادمیں ہے، کیاعالمی سطح پرپاکستان کےلئے یہ باعث عزت ہے، آپ کےخیال میں کیاسی ایم حکومت چھوڑکرملک سےبھاگ جاتے؟ عدالت نے مزید کہا صوبوں میں ہم آہنگی کےلئےجواقدامات کررہےہیں کیایہ اس کےمفادمیں ہے؟۔

    چیف جسٹس نے بلاول کا نام جے آئی ٹی سے نکالنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے جےآئی ٹی کاوہ حصہ حذف کردیں جس میں بلاول کانام ہے، بلاول کااس کیس میں کیارول ہے، عدالت نے کا کہنا تھا ڈائریکٹرز میں نام ہونے سے ایک بچے پر اتنے بڑےالزمات لگائے جاسکتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے مرادعلی شاہ کی عزت نفس مجروح کی جارہی ہے، دیکھ تولیتےایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہے، ہم رپورٹ پرکمنٹس نہ کریں تو بہتر ہے، ہم تویہ معاملہ نیب کوبھجواناچاہ رہے ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ بے بنیاد نہیں ہے۔

    [bs-quote quote=” جنہوں نے 50ہزارکبھی نہیں دیکھاان کےاکاؤنٹس میں8،8کروڑفرشتےڈال گئے، ہم اس کومنطقی انجام تک پہنچائیں گے” style=”style-6″ align=”left” author_name=”جسٹس ثاقب نثار "][/bs-quote]

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا سندھ میں ایسےٹھیکےدیکھے جوکاغذوں میں مکمل ہو گئے تھے ، ایسےٹھیکوں کاہم نےبعدمیں کام کرایا، جےآئی ٹی نے بھی  ایسےہی ٹھیکوں کاذکرکیاہے، جنہوں نے 50ہزارکبھی نہیں دیکھاان کےاکاؤنٹس میں 8 ،8 کروڑ فرشتے ڈال گئے، ہم اس کومنطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا نامزدملزمان کیوں نہیں سمجھتےکہ ان کے پاس کلیئرہونےکاموقع ہے، تفتیش کاروں کےسامنے پیش ہوکر اپنے آپ  کوبے گناہ   ثابت کر دیں، ہم جےآئی ٹی کا اسکوپ بڑھادیں گے، جے آئی ٹی وکیل، بلاول، مرادعلی شاہ،فاروق نائیک کوملوث کرنےپرجواب دیں۔

    فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اورفریال تالپور کابراہ راست کوئی تعلق نہیں، بد نیتی سےبدنام کرنے کی کوشش کی گئی، چیف جسٹس نے کہا بد نیتی سے ذکرمت کریں، جس پر فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے بلاول بھٹو اوروزیراعلیٰ سندھ کانام ای سی ایل سےفوری نکالنےکاحکم دے دیا اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کامعاملہ نیب کوبھجواتے ہوئے ہدایت کی نیب2ماہ کےاندرتحقیقات مکمل کرے ، نیب اگرچاہے تو اپنے طور پر ان دونوں کوسمن کرسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کا کابینہ کونام ای سی ایل میں شامل کرنے سے متعلق نظرثانی کاحکم

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے آصف زرداری،فریال تالپورکو جمعہ تک جواب جمع کرانےکی مہلت دی تھی اور عدالت نے 172افرادکےنام ای سی  ایل میں شامل کرنے پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے نام ای سی ایل شامل کرنے پرنظر ثانی کاحکم دیاتھا جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ کو ان کےنام کے حوالے سے درخواست دینےکی ہدایت کی تھی۔

    عدالت نےفاروق نائیک کانام جےآئی ٹی میں کالعدم قراردینےکابھی عندیہ دیاتھا جبکہ لطیف کھوسہ کےخلاف سوشل میڈیا پرمہم کی تحقیقات کابھی حکم دیا۔

    آصف علی زرداری کا جواب


    پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کے الزمات مسترد کرتےہوئےکہا تھا کہ انہوں نےایسا کوئی کام نہیں کیاجس کاان پرالزام لگایا گیا ہے، سپریم کورٹ جےآئی ٹی کی رپورٹ کومستردکردے۔

    آصف علی زرداری نےسترہ صفحات پر مشتمل جواب میں کہا کہ جےآئی ٹی نےگواہوں کےبیانات اوردستاویزات فراہم نہیں کیں،الزامات سیاسی انتقام کانتیجہ ہیں، دستاویزات دیکھےبغیرالزام لگانا آئین کی دفعہ دس اے کی خلاف ورزی ہے۔جےآئی ٹی رپورٹ لیک ہونےسےعدالت کاتقدس پامال ہوا،میڈیاکوجےآئی ٹی رپورٹ لیک کرواکراوربحث کراکےلوگوں کےذہنوں میں ہمارےخلاف زہر گھولا گیا۔

    انھوں نےکہا کہ جےآئی ٹی کےپاس اختیارنہیں کہ وہ معاملہ نیب کوبھجوانےکی تجویزدے، سپریم کورٹ کی مہر لگوانے کیلئےمعاملہ نیب کو بھیجنے کی تجویزدی گئی،اس تجویزپرعدالت فیصلہ دےتوآئین کہ دفعہ دس اے کی خلاف ورزی ہوگی، جےآئی ٹی کی رپورٹ متعصبانہ ہے۔

    جواب میں کہا گیا کہ جےآئی ٹی زرداری،فریال تالپور کو ووٹرز کے سامنے نیچا دکھانے کےمترادف ہے، جو اپنے تمام اثاثوں کی تفصیل ایف بی آراورباقی اداروں میں جمع کرا چکی ہیں۔

  • ملکی ترقی کیلئے تعلیم اور ایماندارقیادت ضروری ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار

    ملکی ترقی کیلئے تعلیم اور ایماندارقیادت ضروری ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار

    لاہور : چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک اورمعاشرےکی ترقی کیلئےتعلیم اور ایماندارقیادت ضروری ہے، ہمیں پاکستان سےعشق ومحبت کرناہے، جنون کیساتھ خدمت کریں گے تو ترقی کی منزلیں آسان ہوں گی، ملک کو کسی کمزور نے نہیں، طاقتوروں اور بڑے لوگوں نے نقصان پہنچایا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نجی اسپتال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تقریب میں مدعوہونامیرے لئے اعزاز کی بات ہے، انسانیت کی خدمت سے بڑا کوئی کام نہیں، تعلیم کے ذریعے اقوام ترقی کرتی ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کےبچوں میں تعلیم کی کمی باعث تشویش ہے، بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اسکول تک نہیں، ایسے بھی اسکول ہیں جہاں وڈیرے کی گائے بھینسیں اور بھوسہ بھرا تھا، ہمارے ہاں ایسے بھی اسکول ہیں جہاں اساتذہ ہیں نہ پینےکو پانی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا قومیں اور معاشرے 3 بنیادی عوامل سے بنتے ہیں، ہماری پہلی توجہ اور ترجیح تعلیم ہونی چاہیے، پاکستان میں خواندگی کی کم شرح سے بے حد ناخوش ہوں، تعلیمی سیکٹر زیادہ نظر انداز کیاگیاہے، ملک کے کونے کونے تک جا چکاہوں، جو اسکول ہیں ان میں استاد، فرنیچر، دیواریں، واش روم تک نہیں۔

    ہمیں پاکستان سےعشق ومحبت کرناہے، جنون کیساتھ خدمت کریں گےتوترقی کی منزلیں آسان ہوں گی

    ان کا کہنا تھا کہ معاشرےکی ترقی کے لئے ایماندار لیڈر ہو تو وہ اسے اوپر لے جاتاہے، ملک اورمعاشرےکی ترقی کے لئے تعلیم و ایماندارلیڈرشپ ضروری ہے، ملک اور معاشرے کے لئے تیسرا عنصر انصاف ہے، انسان کی بقا کا بنیادی دارومدار انصاف پرہے۔

    چیف جسٹس نے کہا اللہ تعالیٰ کاسب سےبڑاتحفہ زندگی ہے، زندگی صرف زندہ رہنےکانام ہےجس کےکئی پہلووحقوق ہیں، اسلام میں کیڑے مکوڑے چرند پرند ،جانوروں اورپودوں کےبھی حقوق ہیں، اللہ نےسب سےزیادہ حقوق انسان کودیئےہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں بہترین ریاست مدینہ کی ریاست تھی، قومی ترقی کا اہم جزو انصاف کا نظام ہے، دکھ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں انصاف کے اداروں کا معیار ویسا نہیں جیسا ہونا چاہیئے، ابھی تک انگریز کے قوانین کو لے کر چل رہے ہیں جو ہمارے نظام سے مطابقت نہیں رکھتے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا عدلیہ حقوق کےتحفظ میں ناکام ہوجائےوہ معاشرہ کبھی متوازن نہیں رہتا، ہرفرداخلاص کیساتھ ذمہ داریاں انجام نہیں دے گاتو ترقی کا تصور نہیں کیاجا سکتا، دیانتداری سےکاروبارکریں، ملاوٹ نہ کریں،جائزمنافع رکھیں اور ایجوکیشن اورہیلتھ کوکاروبارنہ بنائیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا معاشرے اورملک کیلئےآپ کا حصہ ہوناچاہیے، ایک تقریب میں گیاجہاں ایک بچی نے5میڈل جیتے،ہمیں پاکستان سےعشق و محبت کرنا ہے، جنون کیساتھ خدمت کریں گےتوترقی کی منزلیں آسان ہوں گی۔

    عہدہ اوردولت مولاکی دین ہوتی ہے، محنت سےدولت ملتی تودیہاڑی والےکےپاس زیادہ ہوتی

    ان کا کہنا تھا کہ کہ عہدہ اوردولت مولاکی دین ہوتی ہے،  ، کبھی فرسٹ کلاس نہیں لی اور نہ ہی وہ فارن گریجوایٹ ہیں۔ پھر بھی دو سالوں میں بے پناہ عزت ملی ہے، محنت سے دولت ملتی تو دیہاڑی والےکے پاس زیادہ ہوتی، دولت نصیب سے منسلک ہوتی ہے، اللہ کاشکراداکریں کہ اللہ نےتوفیق دی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہمارے وسائل میں کمی آرہی ہے، موسم تبدیل ہورہےہیں پانی کےوسائل ختم ہورہےہیں، آکسیجن وپولوشن لیول زندگی کی بقاکے لئے سخت ہوگیا ہے، ہمارے بچپن میں راوی ٹھاٹھےمارتاتھا، اس میں کشتیاں چلتی تھیں، آج لاہورکافضلا و گنداپانی راوی میں گرتاہے۔

    ملک کو کسی کمزور نے نہیں، طاقتوروں اور بڑے لوگوں نے نقصان پہنچایا ہے

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اورسرکاری اسپتالوں میں آلات موجودنہیں، یہ سب ریاست کی ذمہ داری تھی لیکن وہ نہیں کرے گی توآپ محافظ ہیں، ملک کو کسی کمزور نے نہیں، طاقتوروں اور بڑے لوگوں نے نقصان پہنچایا ہے۔

    انھوں نے مزید کہا ہم نےاپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، بچہ پیداہورہاہےوہ ایک لاکھ40ہزارکاقرض دارہے، اسپتال کے لئے جدوجہد کرنے والے دوستوں کے لئے دعاگو ہوں۔

  • ایسےافسران کیلئےلعنت ہے،جوقومی خزانےکیلئےنقصان کاباعث بنتے ہیں ، چیف جسٹس

    ایسےافسران کیلئےلعنت ہے،جوقومی خزانےکیلئےنقصان کاباعث بنتے ہیں ، چیف جسٹس

    لاہور :چیف جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری اراضی کی لیزپرتعمیرات سےمتعلق کیس میں ڈی سی لاہور،محکمہ ریونیوافسران کو5بجےطلب کرلیا اور ریمارکس دیئے کہ ایسےافسران کیلئےلعنت ہے،جوقومی خزانےکیلئےنقصان کاباعث بنتےہیں۔

    تفصیلات کے  مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سرکاری اراضی کی لیزپرتعمیرات سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس نے کہا ہم سرکاری اراضی کےنگراں ہیں، آئندہ لیزنیلامی کےذریعےدی جائےگی تاکہ شفافیت ہو، وہ وقت گزرگیابڑاآدمی درخواست دیتا تھااورڈی سی زمین دےدیتاتھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ایل ڈی اےکےبھی تمام پٹرول پمپس کی ری لیزنگ کی، جس پٹرول پمپ کی15ہزار لیز تھی، اسے ڈیڑھ کروڑ میں لیز پر دیاگیا۔

    جسٹس  ثاقب نثار کرپٹ افسران پر برس پڑے اور کہا  ا ایسےافسران کیلئےلعنت ہےجوقومی خزانےکیلئےنقصان کاباعث بنتےہیں۔

    عدالت نے ڈی سی لاہوراور محکمہ ریونیوافسران کوطلب کرلیا۔

    دوسری جانب شہری کی اراضی پرقبضےکے ایک دوسرے مقدمے میں چیف جسٹس نے طیفی بٹ کو دوپہر 3بجے طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ کون ہے طیفی بٹ ؟ درخواست گزار نے بتایا طیفی بٹ نے اندرون شہر میں3کنال زمین پر قبضہ کررکھا ہے، ایس پی سٹی نے کہا طیفی بٹ نے شہری حمیرا بٹ پر بہت ظلم کیا۔

    جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ایس پی سٹی آپ سوئے ہوئےہیں؟کیوں نہیں پکڑا، طیفی بٹ کو پیش کریں یہاں کوئی بدمعاشی نہیں چلے گی۔