Tag: CJP saqib nisar

  • ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنےکی ضرورت ہے ،چیف جسٹس ثاقب نثار

    ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنےکی ضرورت ہے ،چیف جسٹس ثاقب نثار

    راولپنڈی : چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ ایک بیڈپرتین تین مریض ہوتےہیں، ہرکام میرٹ پرکریں گے تو اس کافائدہ سالہاسال تک ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار راولپنڈی میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچے، چیف جسٹس آر آئی سی میں سیمینار کے مہمان خصوصی تھے ، جہاں انھیں دماغ کی شریانوں میں اسٹنٹ ڈالنے پرآگاہی فراہم کی گئی۔

    چیف جسٹس نے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی میں تقریب سےخطاب کرتے ہوئے کہا افسوس ہے اسپتالوں میں مریضوں کے لئے صحت کی معیاری سہولتیں دستیاب نہیں، محنت کرکے مایوسی کی زندگی سے بچا جاسکتاہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہرکام میرٹ پر کریں گےتواس کافائدہ سالہاسال تک ہوگا، سروسزاسپتال کےمختلف شعبوں کو ادویات کی کمی کے مسائل ہیں، ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

    [bs-quote quote=” ہرکام میرٹ پرکریں گے تو اس کافائدہ سالہاسال تک ہوگا” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا اسپتالوں کی حالت یہ ہےکہ ایک بیڈ پر3، 3 مریض ہوتے ہیں، اسپتالوں کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، سفارشی کلچر ختم  ہوناچاہیے اور تمام کام میرٹ پر ہونے چاہئیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں طبی سہولتیں صرف صاحب ثروت افرادکوحاصل ہیں،  طبی سہولتوں سے متعلق قانون سازی میں کردارکی کوشش کی، پنجاب کے اسپتالوں کی حالت ناگفتہ دیکھی، ججزبھی اسپتالوں کی بہتری کے لیے معاونت  فراہم کرتےرہےہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا خیبرپختونخواکےاسپتال میں ایک بسترپر3،3مریض دیکھے، طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال ریاست کی ناکامی ہے، صحت کی سہولتوں کی بہتری کےلیے عوامی شعورکی کوشش کی ہے، صحت کی سہولتوں کے لیے فنڈز فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرصحت کی فراہمی کے نظام کا اہم جزو ہیں، صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے میڈیکل کالجز کا معیار بہتر کرنا ہے۔

  • لاڑکانہ کی متنازع زمینیں عدالت کے  قبضے میں رہیں گی، چیف جسٹس ثاقب نثار

    لاڑکانہ کی متنازع زمینیں عدالت کے قبضے میں رہیں گی، چیف جسٹس ثاقب نثار

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ لاڑکانہ کی متنازع زمینیں کاشت شروع ہونے تک عدالت کے قبضے میں رہیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ سندھ میں ہندو کمیونٹی کی جائیدادوں پر قبضہ کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوئی۔

    دوران سماعت اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ لاڑکانہ کی متنازع زمینیں عدالت اپنے قبضے میں لے لے گی، جوڈیشل افسران اور انتظامیہ کو کہیں گے کہ ان جائیدادوں کا تحفظ کریں۔

    اس موقع پر معشوق علی جتوئی نے کہا کہ لاڑکانہ کی جس زمین کی بات کی جارہی ہے وہ ہمیں فروخت کی گئی ہے، درخواست گزار نے ہمیں چیکس دیئے تھے جو بعد میں بوگس ہوگئے، جس کے بعد ہم نے مقدمات درج کرائے پھر پنچائت نے فیصلے کئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ زمینیں آپ کی رہیں گی نہ اُن کی، مجھے پتہ ہے اس میں ساری بدمعاشی ہے، ہم اس پر قبضہ کرلیتے ہیں، کاشت شروع ہونے تک یہ زمین ہمارے قبضے میں رہے گی، معشوق علی جتوئی نے کہا کہ آپ جو فیصلہ کریں ہمیں قبول ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت نے کمیٹی بنائی تھی اس نے رپورٹ دی ہے، جن کو رپورٹ پراعتراض ہے وہ دیوانی مقدمہ دائر کرسکتے ہیں، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی عدالت میں سب مقدمات بھیج دیئے جائیں، جنہوں نے مبینہ طور پر قبضے کئے عدالت نے ان کا موقف طلب کیا تھا۔

    عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور سیشن جج لاڑکانہ کو حکم جاری کیا کہ قابضین کو نوٹس جاری کریں، تحصیل دار 44ایکڑ متنازع زمین اپنے قبضے میں لیں، زمین سے حاصل کرایہ کنٹرولر کے پاس جمع ہوگا، کیس کا فیصلہ عدالت کرے گی ضروری ایکشن3دن میں لیا جائے۔

  • پی آئی اے کے 12  پائلٹس اور 73 کیبن کرو کی ڈگریاں جعلی نکلنے کا انکشاف

    پی آئی اے کے 12 پائلٹس اور 73 کیبن کرو کی ڈگریاں جعلی نکلنے کا انکشاف

    اسلام آبا د : سپریم کورٹ میں پی آئی اے کے بارہ پائلٹس اور تھہتر کیبن کروکی ڈگریاں جعلی نکلنے کا انکشاف ہوا، جس پر عدالت نے پی آئی اے، سول ایوی ایشن کے سربراہ اور ڈگریوں کی تصدیق نہ کرنے والی یونیورسٹیوں کے سربراہوں کو طلب کرلیا، چیف جسٹس نے کہا ایک سال ہوگیا پی آئی اے نے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے پائلٹس اورکیبن کروکی ڈگریوں کی تصدیق سے متعلق کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت نے سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا غیر ضروری التوا اور تاخیرکی گئی، این آئی آر سی میں ملازمین کی ڈگریوں کے مقدمات یہاں منگوا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جس دن سے نیئر رضوی ہٹے ہیں حکومت صحیح تعاون نہیں کررہی، ہر ہفتے کیس لگا کر تاریخ نہیں دے سکتے۔

    [bs-quote quote=”ایک سال پہلے نوٹس لیاتھا، پی آئی اے اور سول ایوی ایشن نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے” style=”style-6″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس "][/bs-quote]

    سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ 73 کیبن کرو اور 12 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی نکلیں، جعلی ڈگری والوں کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا شوکاز نوٹس کی کیا ضرورت تھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    نمائندہ سول ایوی ایشن نے بتایا سول ایوی ایشن نےان کےلائسنس معطل کردیےہیں،جعلی ڈگری والوں نے عدالت سےحکم امتناع لے رکھا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کا مطلب ہے، پی آئی اے ان کو تنخواہیں ادا کرتا رہے گا،ایک سال ہوچکا ہے ابھی تک تصدیق کیوں نہ ہوسکی۔

    اعلی عدالت نےپی آئی اےاورسول ای ایشن کے سربراہ کو طلب کرلیا جبکہ جعلی ڈگری ہولڈرز کا ریکارڈ ماتحت عدالتوں سے مانگ لیا گیا، ڈگریوں کی تصدیق نہ کرنے والی یونیورسٹیوں کے سربراہان بھی طلب کرلئے۔

    چیف جسٹس نے کہا ایک سال پہلے نوٹس لیاتھا، پی آئی اے اور سول ایوی ایشن نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے، بعد ازاں کیس کی سماعت23 دسمبر تک ملتوی کردی۔

  • 12دسمبرکو تھرجاؤں گا، حکومت سندھ انتظامات کرے، چیف جسٹس ثاقب نثار

    12دسمبرکو تھرجاؤں گا، حکومت سندھ انتظامات کرے، چیف جسٹس ثاقب نثار

    اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثار نے 12 دسمبر کو تھر کے دورے کا اعلان کر دیا اور حکومت سندھ کو انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھرکے صرف اچھےعلاقے نہ دکھائے جائیں۔ 

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تھر میں بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس نے تھر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 12 دسمبر کو تھرکے دورے کا اعلان کر دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا 12 دسمبر کوتھر جاؤں گا، حکومت سندھ انتظامات کرے، تھرمیں خوراک کی قلت سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے، تھر کے صرف اچھےعلاقے نہ دکھائے جائیں۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ تھر کے مسائل زدہ علاقوں پر بھی توجہ دیں، تھر میں پانی اور خوراک کے مسائل تشویشناک ہیں۔

    بعدازاں تھر میں بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے 7 نومبر کو صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں 400 بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں عدالت نے تھر میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعیناتیوں کی مکمل رپورٹ 3 دن میں طلب کی تھی۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے تھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی رپورٹ طلب کرلی

    اس سے قبل اکتوبر میں ہونے والی سماعت میں تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن ہو یا کوئی اور مدت، غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے۔

    رواں سال جون میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

    واضح رہے کہ سندھ کے ضلع تھر پارکر میں غذائی قلت اور پانی کی کمی کے باعث نومولود بچوں کی اموات واقع ہوتی ہیں، گزشتہ برس سینکڑوں بچوں کی ہلاکت کے بعد صوبائی حکومت نے اقدامات بھی کیے تھے۔

    خیال رہے کہ تھر میں انتظامی غفلت کے باعث پیش نومولود بچوں کی ہلاکت پر قابوپانے کے عمل میں بہتری لانے کے لئے پاک فوج نے سندھ کے صحرائی علاقے چھاچھرو میں جدید سہولیات سے آراستہ فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔

    علاوہ ازیں قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے بھی تھرپار کر میں شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے تحت 250 بیڈ پر مشتمل اسپتال قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، انہوں نے یہ رواں برس اپریل میں کیا تھا۔

  • ڈیمز فنڈز کی رقم پر ججز اور سپریم کورٹ بھی قابل احتساب ہیں،چیف جسٹس ثاقب نثار

    ڈیمز فنڈز کی رقم پر ججز اور سپریم کورٹ بھی قابل احتساب ہیں،چیف جسٹس ثاقب نثار

    اسلام آباد : چیف جسٹس نے واپڈا سےدیامیر بھاشا مہمندڈیمزکی تعمیرکا ٹائم فریم طلب کرلیا، عدالت نے ڈیمزکی رقم پرسپریم کورٹ اور ججز کوبھی قابل احتساب قرار دیتے ہوئے کہا ڈیم فنڈزکا ایک روپیہ بھی کسی اور کام پر خرچ نہیں ہوگا، ڈیم فنڈز سے پینسل خریدنے کی اجازت بھی عملدرآمد بینچ ہی دے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دیامیر بھاشا مہمند ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس ڈیم بننےکاعدالتی فیصلہ حتمی ہوچکاہے، فیصلے کیخلاف کوئی نظر ثانی درخواست نہیں آئی، ڈیم کی تعمیر کے جائزے کے لیے عملدرآمد بینچ تشکیل دیا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا واپڈابتائے ڈیم کی تعمیر کے مراحل اور ٹائم فریم کیاہو گا، عملدرآمدبینچ ٹائم فریم کے مطابق کام کی تکمیل یقینی بنائے گا، ڈیم فنڈز کا ایک روپیہ بھی کسی اور کام پر خرچ نہیں ہوگا، ڈیمز فنڈز کی رقم پر ججز،سپریم کورٹ بھی قابل احتساب ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ڈیم فنڈز سے پینسل خریدنے کی اجازت بھی عملدرآمد بینچ دے گا، روپے کی قدر کم ہو رہی ہے،عدالت نہیں چاہتی ڈیم فنڈزکی رقم کی قدر کم ہو، اٹارنی جنرل عملدرآمد بینچ کے فوکل پرسن ہوں گے، ڈیم کی تعمیر کے لیے ٹنل کی تعمیر ضروری ہے، این ایچ اے بابو سر کے علاقے میں ٹنل تعمیر کرے گا۔

    [bs-quote quote=”ڈیم فنڈز سے پینسل خریدنے کی اجازت بھی عملدرآمد بینچ ہی دے گا
    ” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    اٹارنی جنرل نے بتایا ٹنل پر کام شروع ہوا لیکن مقامی عدالت نے اسٹے دے دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ڈیم کی تعمیر میں جوبھی رکاوٹ آئے عدالت کو آگاہ کریں، فنڈز لینے کا مقصد ڈیمز کے لیے مہم شروع کرنا تھا۔

    عدالت نے حکام سے استفسار کیا کہ ڈیم فنڈزکےلیے مزید کتنے پیسے درکارہیں آگاہ کیا جائے، پیسہ کیسے اور کہاں سے آئے گا یہ تفصیل بھی دی جائے، یا پیسہ بنانے کے لیے بانڈزجاری کرنے ہیں یا کمپنی بنانی ہے اور ٹنل کے لیے حکم امتناع کی تفصیلات دی جائیں۔

    جسٹس فیصل عرب نے واضح کیا فنڈنگ کا بڑا حصہ وفاقی حکومت نے دینا ہے، ڈیم کی تعمیر کا کام نہیں رکنا چاہیے، اچھا مارک اپ ملے تو پیسہ بینک میں جمع کروایا جاسکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ حکومت سے ہدایات لیکر ٹائم فریم دیں، آگاہ کیاجائےہرسال پی ایس ڈی پی میں کتنی رقم مختص ہوگی، واپڈاکے مطابق 4 سے 6 ماہ میں ٹنل بن جائےگی،ٹنل بننے سے دیامر بھاشا ڈیم کا راستہ5 سے 6 گھنٹے کم ہوجائے گا۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے خدشہ ہے ٹنل کی تعمیرڈیم کے کام میں رکاوٹ نہ بنے، چیف جسٹس نے کہا سنا ہے جنوری میں مہمند ڈیم کی تعمیر شروع ہو رہی ہے۔

    چیف جسٹس نے دیامیر بھاشا مہمند ڈیمز کی تعمیر کے مراحل اور ٹائم فریم سے متعلق واپڈا سے تفصیل مانگ لی اور کیس کی سماعت 24دسمبر تک ملتوی کردی۔

  • چیف جسٹس ثاقب نثار کی زیر صدارت  آبادی کنٹرول سے متعلق کانفرنس آج ہوگی

    چیف جسٹس ثاقب نثار کی زیر صدارت آبادی کنٹرول سے متعلق کانفرنس آج ہوگی

    اسلام آباد :  چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے آبادی کنٹرول سے متعلق کانفرنس آج ہوگی ، و زیراعظم عمران خان کانفرنس میں بطورمہمان خصوصی خطاب کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت اورعدلیہ ملکی آبادی میں تیزی سےاضافہ روکنے پر ایک پیج پر ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار کی زیر صدارت آبادی کنٹرول سے متعلق کانفرنس آج ہوگی، کانفرنس سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں ہوگی، کانفرنس کی میزبانی لا اینڈ جسٹس کمیشن کرے گا۔

    وزیراعظم عمران خان دوپہر 2بجے کے کانفرنس میں شریک ہوں گے اور بطور مہمان خصوصی خطاب کریں گے جبکہ آبادی میں اضافہ روکنے سے متعلق کانفرنس میں چاروں وزرائےاعلیٰ اور جج صاحبان بھی شریک ہوں گے۔

    آبادی میں تیزی سےاضافہ روکنے کی سفارشات کے لئے کمیشن قائم کیا گیا تھا، وزیراعظم نےگزشتہ ماہ وزرائےاعلیٰ اورماہرین پر مشتمل الگ ٹاسک فورس بنائی تھی اور ٹاسک فورس کوکمیشن کی سفارشات کاجائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔

    یاد رہےدورہ برطانیہ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مانچسٹر میں میڈیا سے گفتگو میں آبادی پر کنٹرول کے لیے ‘2 بچے ہی اچھے’ مہم شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں آبادی بڑھ رہی ہے اوروسائل سکڑرہے ہیں، بڑھتی آبادی کوکنٹرول کرنے کے لیے اگلے ماہ سے مہم چلائیں گے۔

    مزید پڑھیں : بڑھتی آبادی کوکنٹرول کرنے کے لیے اگلے ماہ سے مہم چلائیں گے، چیف جسٹس

    ان کا کہنا تھا کہ میں اس کی شروعات اپنے گھر سے کروں گا اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کروں گا اور  مید کرتا ہوں اس معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پاکستانی قوم ان کے ساتھ اس مہم میں بھرپور تعاون کرے گی۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا تھا کہ آبادی کنٹرول کرنے کے لیے بھی ایک اچھا منصوبہ حکومت کو دیں گے، منصوبے سے آبادی کے مسائل پر بھی قابو پایا جاسکے گا۔

    خیال رہے  ملک میں بڑھتی آبادی کے خلاف مقدمے میں  چیف جسٹس نے ملکی آبادی کی شرح میں اضافے کو بم قرار دیتے ہوئے کہا تھا ملک اس قابل ہے، ایک گھر میں سات بچے پیدا ہوں، شرح آبادی پر کنٹرول کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

  • بنی گالا کیس، وزیراعظم ریگولرائزیشن کیلئے جو پالیسی بنائیں اسےماسٹرپلان سےمشروط کریں، چیف جسٹس

    بنی گالا کیس، وزیراعظم ریگولرائزیشن کیلئے جو پالیسی بنائیں اسےماسٹرپلان سےمشروط کریں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے بنی گالا تجاوزات کیس میں حکم دیا ہے وزیر اعظم ریگولرائزیشن کے لئے جو بھی پالیسی بنائیں اسے ماسٹرپلان سے مشروط کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنی گالہ میں غیرقانونی تعمیرات کے کیس کی سماعت ہوئی، سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا بابراعوان کہاں ہیں؟ میرا خیال ہے التوا کی درخواست بھجوائی ہے۔

    چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ ریگولرائزیشن عمران خان کی نشاندہی پرشروع کی گئی، 100سے زیادہ ریگولرائزیشن کی درخواستیں آچکی ہیں، سی ڈی اے نے سپلیمنٹری رپورٹ فائل کی ہے، اس رپورٹ میں ریگولرائزیشن سے متعلق سفارشات ہیں، لیک ویوپارک میں تفریحی کمپنیوں کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معائنہ کرنا تھا، معلوم ہوا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سیدھی اور سچی بات کرتے تھے، ریگولرائزیشن تاخیر کا شکارہے، ریگولرائزیشن کے بغیر ہاؤسنگ سوسائٹی کی اجازت نہیں دیں گے، وہاں بجلی اور گیس لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

    سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا بوٹینیکل گارڈن کی تمام اراضی سرکار تحویل میں لے، پھر دیکھتے ہیں کس کا کیا دعویٰ بنتا ہے، حکم امتناع ختم ہوچکے، گارڈن کی اراضی کا قبضہ کیوں نہیں لیاجارہا۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے پاس ایک ہزار کنال ہیں، جب قبضہ لینے گئے تو مزاحمت اور فائرنگ کی گئی، سوسائٹی راجا فاروق اور شبیر عباسی نامی 2 لوگوں کی ہے۔

    شبیر عباسی نے کہا کل ہی نوٹس ملا،یقین دلاتا ہوں قبضے میں ایک انچ جگہ نہیں،وکیل کا کہنا تھا کہ راجافاروق نے کہا ہے ان کی کوئی اراضی ہے نا انہوں نے قبضہ کیا ہے، چیف جسٹس نے کہا چلو یہ تو معاملہ ہی حل ہوگیا، پولیس کی مدد سے سرکاری اراضی کو اپنے قبضے میں لیا جائے۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا بوٹینیکل گارڈن سرکاری جگہ ہے، رقبہ 725 ایکٹر ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے معاملہ تو ختم ہوچکا ہے، اسے نمٹا دینا چاہیے، کیا مسائل رہ گئے ہیں، ہمیں اس حوالے سے بتائیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مزید کہا بنی گالہ میں 75 فیصد تعمیرات کو ریگولر نہیں کرایا جاسکتا۔

    چیئرمین سی ڈی اے نے کہا حکومت نے زون 4 کو اے بی سی اور ڈی میں تقسیم کیا ہے، وکیل درخواست گزار نے کہا میرے مؤکل کی وہاں 100 کنال اراضی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا 100 کنال زمین کا مطلب یہ نہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹی بنائیں، ماحولیات اور دیگر اداروں سے اجازت لینی ہوگی، معاملے پر اب کچھ ایسا کچھ رہ ہی نہیں گیا،نمٹا سکتے ہیں۔

    ڈی جی ماحولیات نے بتایا بوٹینیکل گارڈن کی زمین ، سات میں سے دو افراد سے واگزار کرا لی ہے ، جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی پولیس کو ساتھ لے جا کر زمین واگزار کرائیں، بوٹینیکل گارڈن کی ساری زمین آج ہی واگزارکرائیں، اتنی بڑی زمینوں پرقبضہ مافیا بدمعاشی سے بیٹھا ہے، ریگولرائزیشن سی ڈی اے کا کام ہے وہی کرے ، چیف جسٹس نے بوٹینکل گارڈن کی اراضی ایک ہفتے میں واگزار کرانے کا حکم دے دیا۔

    ایک نجی زمین مالک کے وکیل نے کہا وزیراعظم نے ریگولرائزیشن کے لئے کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے، جس پر چیف جسٹس نےحکم دیا وزیراعظم جو پالیسی بنائیں اسے ماسٹر پلان سے مشروط کریں بعد ازاں بنی گالہ تعمیرات پر سماعت سپریم کورٹ میں ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی گئی۔

  • قبضہ مافیا منشاء بم  کیس، چیف جسٹس کا  متاثرین کو پلاٹس دینے کا حکم، عمل درآمد رپورٹ آج طلب

    قبضہ مافیا منشاء بم کیس، چیف جسٹس کا متاثرین کو پلاٹس دینے کا حکم، عمل درآمد رپورٹ آج طلب

    لاہور : قبضہ مافیا منشابم کے خلاف از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے متاثرین کو پلاٹس دینے کا حکم دیتے ہوئے آج ہی عمل درآمد رپورٹ طلب کرلی، چیف جسٹس نے پنجاب پولیس پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے نئے پاکستان کی پولیس؟ شرم آنی چاہیے پولیس کو،گالیاں بھی کھاتے ہیں ، بدمعاشوں کی طرف داری بھی کرتےہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے منشابم کے خلاف از خود نوٹس پر سماعت کی، سماعت میں عدالت نے آئی جی پنجاب اور ڈی سی لاہور کو فوری طلب کر لیا جبکہ سیشن جج اورمتعلقہ سول جج برائےاوورسیز پاکستانیز نورمحمد کو چیمبر میں طلب کرلیا۔

    [bs-quote quote=”شرم آنی چاہیے پولیس کو، گالیاں بھی کھاتے ہیں ، بدمعاشوں کی طرف داری بھی کرتے ہیں” style=”style-6″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس "][/bs-quote]

    چیف جسٹس نے پنجاب پولیس پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے نئے پاکستان کی پولیس؟ شرم آنی چاہیے پولیس کو، گالیاں بھی کھاتے ہیں ، بدمعاشوں کی طرف داری بھی کرتے ہیں۔

    عدالت نے ڈی جی ایل ڈی اے کو حکم دیا کہ رات بارہ بجےتک زمین متعلقہ افرادکو دے کر رپورٹ دیں۔

    ڈی آئی جی وقاص نذیر نے عدالت کو بتایا کہ منشابم کواورخادم رضوی کو پولیس نے ہی اٹھایا، پولیس عدالتی حکم پرمن و عن عمل درآمد کر رہی ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا افضل کھوکھر،منشا بم اور جو کیس میں اثرانداز ہو رہا ہے سب کوبلا رہے ہیں،ایک منشابم پولیس کے قابو میں نہیں آ رہا،آپ بدمعاشوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ڈی آئی جی آپریشن سے مکالمے میں مزید کہا کہ یہ قانون کی رکھوالی کررہے ہیں آپ؟ تمھاری کیارشتے داری ہے منشا بم سے، کیوں اسے بچا رہے ہو؟ آپ یونیفارم میں واپس نہیں جائیں گے، سارا لاہور آپ کےانڈر آتا ہے اورکچھ بھی نہ کر سکے۔

    جس پرڈی آئی جی وقاص نذیر نے جواب دیا جی سارا لاہور میرے انڈر ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا تو ایک منشابم کیوں قابو نہیں آرہا؟

    قبضہ مافیا منشابم کے خلاف از خود نوٹس کیس میں طلبی پر آئی جی پنجاب اور ڈی سی لاہور پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے دوران سماعت آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی نے شور ڈالا تھا کہ وہ بلا امتیاز کارروائی کر کے زمینیں واگزار کرائیں گے، آپ نے دو دن آپریشن کیا پھر چپ کر کے بیٹھ گئے، ڈی آئی جی کہتے ہیں متاثرین سے متعلق کوئی رپورٹ پیش نہیں ہوئی۔

    آئی جی نے بتایا کہ پولیس نے منشا بم کی گرفتاری اور زمینوں کو واگزار کرانے میں پوری محنت کی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ منشابم مری میں رہ رہاتھااورآپ اسےپکڑنہیں سکےکیابہترہوا، منشا بم نے میری عدالت میں آکرسرنڈرکیا۔

    [bs-quote quote=”منشا بم کی عدالت میں ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے رحم کی اپیل” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    منشا بم نے عدالت میں ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے رحم کی اپیل کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت رونا کیوں یاد نہیں آیا جب لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے تھے۔ منشا بم نے کہا کہ کسی کی زمین پرقبضہ نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمہارےلیےکبھی افضل کھوکھرآجاتاہےکبھی کوئی اور،ان سب کو بلا رہے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بتایاجائےشہری علاقوں میں تحصیلدارکس طرح کام کررہےہیں، تحصیلداروں نےتباہی کررکھی ہےکسی کی زمین کسی کےنام کردیتےہیں۔

    عدالت نے ڈی سی لاہور کو آج ہی معاملات حل کر کے متاثرین کو پلاٹس دینے کا حکم دیا جبکہ ڈی جی ایل ڈی اے کو ہدایت کی آج رات بارہ بجے تک زمین متعلقہ لوگوں کو دے کر رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔

    عدالت نے منشا بم کے متاثرین کے لیے اشتہار جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں سے رابطے کریں کہ کس کس کی جائیداد پر قبضہ کیا گیا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے منشا بم کیس کے مدعی محمود ارشد کی شکایت پر اوورسیز کے کیسز کی سماعت کرنے والے سول جج کو بھی تبدیل کر دیا۔

    خیال رہے گذشتہ روز ایک کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے  استفسار کیا کہ منشابم کا کیا بنا کیا اس سے اربوں کی جائیداد ریکور ہوئی؟ اس نے پولیس افسران کوگالیاں نکالی تھیں اس کا کیا بنا؟ نمائندہ پنجاب پولیس نے بتایا کہ  منشابم کیخلاف کیس چل رہاہےاس میں کافی پیشرفت ہوئی ، چیف جسٹس نے کہا کل اس کیس کولاہور میں سنیں گے۔

    یاد رہے اس سے قبل سماعت میں  منشا بم کے خلاف کیس میں  جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کی تھی ،  ڈی آئی جی نے بتایا کہ منشا بم کے خلاف کل 66 مقدمات درج ہیں، 19 زمینوں پرغیر قانونی قبضے سے متعلق ہیں۔

    ڈی آئی جی نے بتایا تھا کہ منشابم کے خلاف 9 مقدمات میں تفتیش ہورہی ہے جبکہ پولیس سی ڈی اے کی زمین واگزار کرنے میں مد کر رہی ہے، منشا بم کا 32 کنال زمین پر قبضہ ختم کرا دیا گیا ہے۔

    واضح رہے  گزشتہ ماہ 15 اکتوبر کو قتل، اقدام قتل اور زمینوں پر قبضے میں پنجاب پولیس کو مطلوب منشا بم کو سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا وفاق اورصوبائی حکومتوں کومنشیات فروشی پر ماہانہ رپورٹ جمع کرانے کاحکم

    سپریم کورٹ کا وفاق اورصوبائی حکومتوں کومنشیات فروشی پر ماہانہ رپورٹ جمع کرانے کاحکم

    اسلام آباد : تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کیس میں سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو منشیات فروشی پر ماہانہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا سوشل میڈیاپر بچیاں نشہ آور پاؤڈر سونگھتی نظرآتی ہیں، تعلیمی اداروں میں آسانی سے منشیات مل جاتی ہیں، بتایا جائے اس کو روکنا کس کاکام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار  کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کیس کی سماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کوماہانہ رپورٹ جمع کرانے کاحکم دےدیا۔

    پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی جبکہ اعلی عدالت نے سندھ اور بلوچستان پولیس کے تعاون نہ کرنے پر دس روز میں جواب طلب کرلیا۔

    ڈی آئی جی آپریشن لاہور نے بتایا کہ لاہورمیں پچاس افراد کے خلاف مقدمات درج کرکے گرفتار کیا گیا، منشیات نجی تقریبات اورپارٹیوں میں بھی استعمال ہورہی ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سوشل میڈیا پر بچیاں نشہ آور پاؤڈر سونگھتی نظر آتی ہیں، تعلیمی اداروں میں آسانی سے منشیات مل جاتی ہیں،اس کو روکنا کس کا کام ہے؟ ان پولیس والوں کا کیا ہوا جو منشیات سپلائی کرتے ہیں؟ محکمے کو کالی بھیڑوں سے پاک کیا جائے۔

    چیف جسٹس نے یہ بھی استفسار کیا کہ منشابم کا کیا بنا کیا اس سے اربوں کی جائیداد ریکور ہوئی؟ اس نے پولیس افسران کوگالیاں نکالی تھیں اس کا کیا بنا؟ نمائندہ پنجاب پولیس نے بتایا کہ  منشابم کیخلاف کیس چل رہاہےاس میں کافی پیشرفت ہوئی ، چیف جسٹس نے کہا کل اس کیس کولاہور میں سنیں گے۔

    پنجاب پولیس کے نمائندے نے جواب دیا پکڑےگئےافرادتعلیمی اداروں کےاردگردمنشیات فروحت کرتےتھے، منشیات پنجاب کے باہر سے لاہور لائی جاتی ہیں، اس حوالے سے ملکی سطح پر ہمیں تعاون درکار ہے، منشیات فروشی میں کوئی پولیس اہلکار ملوث نہیں ہے،منشیات نجی تقریبات اورپارٹیوں میں بھی استعمال ہورہی ہیں۔