Tag: CJP

  • چیف جسٹس کا 10روز میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کے باہر پارک بحال کرنے کا حکم

    چیف جسٹس کا 10روز میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کے باہر پارک بحال کرنے کا حکم

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے زبانی احکامات پر ان کے گھر کے باہر پارک ہٹاکر سڑک بنانے پر شدید برہمی کرتے ہوئے 10روزمیں پارک کو بحال کرنےکاحکم دے دیا اور کہا پارک بنانے کامکمل خرچہ اسحاق ڈارسےوصول کیاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سابق وزیر خزانہ اور نو منتخب سینیٹر اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کے لیے پارک اکھاڑ کر سڑک بنانے پر از خود نوٹس پر سماعت کی۔

    دوران سماعت میں چیف جسٹس نے ڈی جی ایل ڈی اے زاہد اختر سے استفسار کیا کہ کس کے کہنے پر پارک کو اکھاڑ کر سڑک بنائی گئی، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارکنگ کے لیے سڑک کھلی کرنے کی درخواست کی تھی۔

    عدالت نے سوال کیا کہ کیا سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تحریری طور پر درخواست دی تھی، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ زبانی طور پر فون کر کے سڑک بنانے کیلئے کہا گیا تھا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا کہ آپ لوگ سیاسی لوگوں کے غلام بن کر رہ گیے ہیں آپ کس طرح کے آفیسر ہیں. وزیر کی زبان ہلانے پر پارک کو اکھاڑ دیا۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی ایل ڈی اے کی سرزنش کی کہ آپ کو اسکی سزا بھگتنی ہو گی، یہاں اقربا پروری نہیں چلنے دوں گا، آپ کے خلاف نیب کے قوانین کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

    بنچ کے استفسار پر ڈی جی ایل ڈی زاہد اختر کا کہنا تھا کہ سڑک پر 1 کروڑ اور 50 لاکھ لاگت آئی، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ تمام اخراجات آپ کو جیب سے آدا کرنے ہوں گے۔

    ڈی جی ایل ڈی اے زاہد اختر نے غیر مشروط معافی مانگی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کا وقت گزر گیا اور حکم دیا کہ تحریری طور پر یہ بتائیں کہ پارک کتنے رقبہ پر محیط ہے اور حلف نامے کے ساتھ تمام ریکارڈ تمام ریکارڈ پیش کریں۔

    چیف جسٹس نے10 روزمیں پارک کو بحال کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ پارک بنانے کا مکمل خرچہ اسحاق ڈار سے وصول کیا جائے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ڈی جی ایل ڈی اے سے استفسار کیا کہ بتائیں آپ کےساتھ کیا سلوک کیا جائے، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ مجھے معاف کردیا جائے، اس میں میرا قصورنہیں ہے،

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ غلط بیانی کررہےہیں، آپ کے اعتراف کرنے کی ریکارڈنگ موجود ہے، آپ کیخلاف نیب کے سیکشن9کے تحت کاروائی بنتی ہے۔

    ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ میں نے پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کا کہا تھا، پلیز مقدمہ نیب کو نہ بھیجیں، مجھے معاف کردیں، جس پر جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اب آپ ہڑتال کریں، مقدمہ نیب کو جاتا ہے تو سب ہڑتال کرنا شروع کردیتےہیں، آپ وزیروں کےغلام بنے ہوئے ہیں، وزیروں کے کہنے پر آپ پارک اکھاڑ دیتے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے اسحاق ڈار کی طلبی کے لیے اشتہار جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسحاق ڈاراورایل ڈی اے کو نوٹس جاری کردیئے۔

    دوسری جانب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے گھر کے باہر سڑک کشادگی کے لئے پارک کی جگہ استعمال کرنے کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارکے نوٹس کا اہل علاقہ نے خیر مقدم کیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے  پروگرام کرنے پر پابندی عائد کردی

    سپریم کورٹ نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے پروگرام کرنے پر پابندی عائد کردی

    اسلام آباد : زینب قتل کیس میں سپریم کورٹ نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے  پروگرام کرنے پرپابندی عائد کردی گئی اور غیرمشروط معافی نامہ جمع کرانے کی ہدایت بھی کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کے قاتل سے متعلق دعوؤں کی سماعت کی، اس موقع پر ڈاکٹرشاہد مسعود بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹرشاہد مسعود پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاہد مسعود کی ہمت کیسے ہوئی سماعت کے بعد پروگرام میں میرے لاء افسر کی تضحیک کرے، ان کے  پروگرام کی ریکارڈنگ چلاتے ہیں، پروجیکٹر لگوائیں، توہین عدالت میں چارج کروں گا، میں نے توہین عدالت میں چارج کرنا ہے تو اسکرین لگوالیتے ہیں۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کتنے دن آپ کا پروگرام چلتا ہے، ہم نے آپ سے محبت کی اسی لیےعزت سے پیش آرہے ہیں، وکیل صاحب انہیں سمجھائیں عزت کرانی بھی پڑتی ہے، ایک آدمی جو جھوٹ بول رہا ہو اور عدالت میں جھوٹ بولے، ایسے شخص کے کیس کو سن لیتے ہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ زینب کے وکیل آج ہائی کورٹ میں ڈی این اے سے متعلق بات کریں گے، جس پر عدالت نے کہا کہ انہوں نے بازو اوپر کرکے بات کی‘ ہم نے پہلے ان کو دیکھنا ہے۔

    سپریم کورٹ  میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے پروگرام کرنے پر پابندی عائد کردی اور کہا کہ   غیرمشروط معافی مانگنے پر 3ماہ آف ایئر کرنے کی سزا سناتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ شاہد مسعود نے آواز اونچی کرکے کہا تھا غلط ہوا تو پھانسی دی جائے،  چلے ہم  پھانسی نہیں دیتے اپنی سزا آپ خود تجویزکرلیں، جس پر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ دل سے معافی مانگتا ہوں،ایک ماہ کیلئے آف ایئر ہوجاؤں گا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ ایک نہیں تین ماہ کیلئے پروگرام بند ہے، غیرمشروط معافی نامہ جمع کرائیں۔

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ میں اینکرپرسن شاہد مسعود کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ شاہد مسعود نے تحریری جواب میں معافی نہیں مانگی، قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔


    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کا ڈاکٹر شاہد مسعود کیخلاف کیس چلانے کا فیصلہ


    یاد رہے کہ  چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اب معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، وقت گزرچکا۔

    اس سے قبل ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب قتل کیس سے متعلق اپنے لگائے گئے الزامات پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے تحریک جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔

    واضح رہے کہ قصور کی ننھی زینب قتل کیس میں اینکر شاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ عالمی گروہ کا کارندہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تھی۔

    یکم مارچ کو ڈاکٹرشاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں میں اینکر کے 18 الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کے 37 بینک اکاؤنٹس ثابت نہ ہوسکے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس کا بعداز مرگ اعضاء عطیہ کرنے کا اعلان

    چیف جسٹس کا بعداز مرگ اعضاء عطیہ کرنے کا اعلان

    کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بعد از مرگ اپنے اعضاء ایس آئی یو ٹی کو عطیہ کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں موجود چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت سے فارغ ہوکر ایس آئی یوٹی کا دورہ کیا اور معروف سرجن ڈاکٹر ادیب رضوی سے ملاقات بھی کی۔

    اس موقع پر انہوں نے ایس آئی یو ٹی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی اور خطاب بھی کیا، جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ادیب رضوی کی صلاحیتوں اور قابلیت کا قائل ہوں، ان کے وژن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے بعد از مرگ اپنے اعضاء ایس آئی یو ٹی کو عطیہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میرے اعضاء کس حد تک قابل ہیں، بعداز مرگ لوگوں کو اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں بچ جانے والے بیمار صحت مندانہ زندگی گزاریں۔

    اس موقع پر ایس آئی یو ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ چیف جسٹس ہمارے اسپتال تشریف لائے، جسٹس ثاقب نثار ایک بہترین انسان ہیں انہوں نے معاشرے کے مسائل کو بہتر طریقے سے اجاگر کیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انسانی اعضاء کی فروخت دیگر ممالک کے مقابلے میں سستی قیمت پر ہوتی ہے، اس اقدام سے اب تک متعدد افراد کی جان بچائی جاچکی ہے۔

    قبل ازیں چیف جسٹس انسانی اعضاء کی غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کا معاملہ دیکھنے ایس آئی یو ٹی پہنچے جہاں پہلے ہی سپریم کورٹ کے حکم پر کمیٹی کا اجلاس جاری تھا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے انسانی اعضاء کی غیر قانونی اسمگلنگ اور ٹرانسپلانٹ پر کمیٹی تشکیل دی جس کا پہلا اجلاس ایس آئی یو ٹی میں کیا گیا، ڈاکٹر ادیب رضوی نے جسٹس ثاقب نثار کو ٹرانسپلانٹ کے طریقہ کار سے متعلق آگاہ کیا۔

    اس موقع پر اتفاق کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنائی جانے والی کمیٹی غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کی روک تھام سے متعلق اقدامات کرے گی اور اس کو غیر قانونی کام کو روکنے کے لیے مضبوط قوانین تیار کرے کے عدالت کے حوالے کرے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیےسوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کو موصول

    نقیب اللہ قتل کیس، راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کو موصول

    اسلام آباد : نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس میں راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کوموصول ہوگیا،عدالت نے آئندہ سماعت پرڈی جی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس بھی طلب کرلیا، چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ کیس میں کوئی پروگریس نہیں ہوئی، راؤانوار سے متعلق مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، راؤ انوار کا ایک اورخط سپریم کورٹ کومل گیا۔

    چیف جسٹس نے بتایا کہ راؤانوار کا ایک اور خط ہمیں ملا ہے، خط میں ملزم نے بینک اکاؤنٹس کھولنے،اور میڈیا سے رابطے کی اجازت مانگی ہے۔

    راؤ انوار کی لوکیشن سے متعلق ایم آئی،آئی ایس آئی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے تمام اداروں نے میٹنگز کیں، ملزمان کے موبائل ڈیٹا کی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قریبی رشتہ داروں کے موبائل نمبرز بھی ٹریس کئے، سندھ پولیس کو تمام سہولتیں فراہم کی گئیں، جس پر چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ کیس میں کوئی پروگریس نہیں ہوئی، راؤانوار سے متعلق مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔

    آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ گرفتاری کیلئے اقدامات کررہے ہیں، گرفتارملزمان کے خلاف چالان پیش کردیا، ملزم کی آخری لوکیشن لاہور آئی تھی، اس کے بعد نمبرز بند ہیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ممکن ہے ملزم کو کوئی شیلٹر دے رہا ہو؟چیف جسٹس نے آئی جی سے سوال کیا کہ راؤ انوار ملک سے فرارہونے کی کوشش کررہا تھا، کیا اُسوقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہیں؟

    آئی جی سندھ نے کہا کہ تمام فوٹیجز تفتیشی ٹیم کو فراہم کی ہیں،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم فوٹیجز دیکھ سکتےہیں،آئی جی سندھ نے کہا کہ درخواست ہے آپ فوٹیجز چیمبر میں دیکھیں۔

    جس کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی جی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس بھی طلب کرتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کردی جبکہ کیس کی آئندہ سماعت کراچی رجسٹری میں ہوگی۔


    مزید پڑھیں : نقیب قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم


    یاد رہے گذشتہ ماہ 13 فروری کو سماعت میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دیدی تھی۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سرکاری اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع نہ کرنے کا حکم

    سرکاری اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع نہ کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرا ئےاعلیٰ کی تصویر شائع کرنے سےروک دیا اور سندھ حکومت کو بھی بینظیر بھٹو، وزیراعلیٰ اور بلاول کی تصاویر شائع نہ کرنے کا حکم دیا جبکہ کے پی میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ایک سال کے اشتہارات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سرکاری اشتہارات ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل اے جی اور سیکرٹری اطلاعات کے پی کے پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے دلچسپ مکالمہ میں کہا کہ منیر ملک اور بابر ستار طریقہ کاروضع کرکے بتائیں ، عوام کے پیسے سے سیاسی جماعتوں کو اپنی تشہیر کی اجازت نہیں دینگے، وزیراعلیٰ نے55 لاکھ روپے جمع کرانے تھے وہ کیوں جمع نہیں کرائے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ چیک سائن کردیا،آپ نے تحریری حکم میں پیسے جمع کرانے کا نہیں کہاتھا، چیک سائن ہوا ہے اسکی کاپی میرے پاس موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بھی دکھائیں چیک پر ان کے دستخط کیسے ہیں۔

    ایڈیشنل اے جی نے کہا کہ یہ رقم پارٹی فنڈنگ سے اداکررہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر الیکشن کمیشن کو کہتے ہیں کہ پارٹی فنڈنگ کو دیکھے، دیکھنا ہوگا تشہیری مہم کی رپورٹ کے مطابق کس سےریکوری کرنی ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس ملک میں اب انشااللہ فری اینڈفیئرالیکشن کرانےہیں، 1970 میں آخری شفاف انتخابات ہوئے اور انشااللہ اب ہوں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ ٹھیک ہے ٹیکس پیئر کے پیسے سے سیاسی جماعتیں تشہیر کریں، پہلےجو کچھ ہوگیا اب کسی کو بھی تصویر کیساتھ اشتہار شائع کرنےنہیں دینگے، سرکاری وسائل سے ذاتی تشہیرکی اجازت نہیں دے سکتے۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات کے پی کے سے استفسار کیا کہ کے پی حکومت نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کتنے اشتہارات دیئے؟بتائیں کن اشتہارات پر عمران خان اور پرویز خٹک کی تصاویر ہیں؟

    سیکرٹری اطلاعات کے پی کے نے عدالت کو بتایا کہ 28 فروری 2018تک1ارب 63کروڑ دیئے گئے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ بیان حلفی دے سکتے ہیں، اشتہارات صوبائی حکومت کی تشہیر نہیں؟


    مزید پڑھیں: پہلےلوگ چھپ کرخدمت کرتے تھے اب عوامی پیسوں سےتشہیر کرتے ہیں، چیف جسٹس


    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ جن اخبارات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غیر معروف ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خواب سچ کر دکھایا،اس اشتہار میں عمران خان ساتھ کھڑے ہیں، بیان حلفی دیں، غلط بیانی کی گئی تو کارروائی کی جائے گی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ غلط بیانی کی صورت میں آپ ذاتی طور پر ذمہ دار ہونگے،ہمیں اور بھی لوگ معلومات دے دیتے ہیں، سیاسی مہم کی اجازت نہیں دینگے، اشتہار دینا ہے اپنی جیب سے دیں۔

    چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کے سیکریٹری اطلاعات سے ایک سال کے اشتہارات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کل تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ، جس پر سیکریٹری اطلاعات کے پی کے نے کہا کہ کل میں 3 ماہ کی تفصیل دوں گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع کرنے سے روک دیا اور سندھ حکومت کو بھی بینظیر بھٹو، وزیراعلیٰ اور بلاول کی تصاویر شائع نہ کرنے کا حکم دیا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کی سماعت کل ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے لیپ ٹاپ اسکیم، ہیلتھ کارڈز پرشہبازشریف کی تصاویرشائع کرنے پرازخود نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ وزیراعلی ٰپنجاب کی تصویر ہر جگہ کیوں آجاتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ کا ڈاکٹر شاہد مسعود کیخلاف کیس چلانے کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کا ڈاکٹر شاہد مسعود کیخلاف کیس چلانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں اینکرپرسن شاہد مسعود کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ شاہد مسعود نے تحریری جواب میں معافی نہیں مانگی، قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کےقاتل سے متعلق دعوؤں کی سماعت ہوئی۔

    شپریم کورٹ نے ڈاکٹرشاہد مسعود کا جواب مسترد کردیا، چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری جواب میں معافی کا بھی ذکر نہیں، جس پر وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ تحریری جواب میں معافی اس لئے نہیں مانگی کیونکہ ان کے مؤکل شاہد مسعودعدالت سے براہِ راست معافی مانگنا چاہتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے جواب میں کہا پہلے بھی کہہ چکے اب بھی کہہ رہے ہیں کہ معافی کا وقت بیت گیا، اب آپ کے پروگرام کو عدالت میں دکھائیں گے، آپ نے منت کی تھی چیف جسٹس نوٹس لیں۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نےعدالت کو بتایا کہ شاہد مسعود کے پروگرام کے بعد اڑتالیس گھنٹے کے لئے زینب قتل کیس میں تفتیش رک گئی تھی۔

    شاہد مسعود کے وکیل نےموقف اختیارکیا کہ ایک میڈیا پرسن کی غلطی کی سزا کیا یہ ہوگی، دوسروں سے بھی غلطی ہوتی ہے تو کیا سب کو بند کریں گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا قانون کی نظر میں جوغلط ہوگا اسے بند کریں گے، یہ دیکھنا ہے چینل اور پروگرام کتنی مدت کے لئے بند ہوسکتا ہے ۔


    مزید پڑھیں :  معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی


    سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کو کیس میں معاون مقرر کردیا اور اٹارنی جنرل،پراسیکیوٹرجنرل پنجاب،اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔

    اس سے قبل بھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اب معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، وقت گزرچکا۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب قتل کیس سے متعلق اپنے لگائے گئے الزامات پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے تحریک جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔

    ڈاکٹر شاہد مسعود کے تحریری جواب میں موقف اختیار کیا تھا کہ زینب قتل کیس کے معاملے پر میں حساس ہو گیا تھا، ملزم عمران علی سے متعلق میرے الزامات سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو اس کے لیے میں اظہار ندامت کرتا ہوں، مزید مقدمہ نہیں لڑنا چاہتا۔


    مزید پڑھیں :  ڈاکٹر شاہد مسعود کا عدالت کے روبرو ندامت کا اظہار، تحریری جواب جمع کرادیا


    واضح رہے کہ قصور کی ننھی زینب قتل کیس میں اینکر شاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ عالمی گروہ کا کارندہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تھی۔

    یکم مارچ کو ڈاکٹرشاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں میں اینکر کے 18 الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کے 37 بینک اکاؤنٹس ثابت نہ ہوسکے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں، چیف جسٹس

    لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں، چیف جسٹس

    لاہور : پرائیویٹ میڈکل کالجز کی فیسوں کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجزکی فیس، سہولتوں سےمتعلق سماعت کی، چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیکل کالجز اسٹرکچر کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔

    چیف جسٹس کہا کہ بتایاجائےمیڈیکل کالجزمیں کیاسہولتیں دی جاتی ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں میڈیکل کالجز میں کیا سہولتیں ہیں، بھائی پھیروکریسنٹ کالج کادورہ کرلیتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ بہت سارے ایشوز کو اکٹھا ٹیک اپ کیا، اب ہم ہر معاملے کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے، پی ایم ڈی سی کواپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ کسی میڈیکل کالج کو اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک مجبوری نہ بن جائے، تعلیم کاروبار ہو سکتا ہے مگر میڈیکل کی تعلیم پر اتنی فیسیں نہ لگائی جائیں کہ لوگوں کی جیبیں ہی کٹ جائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ڈاکٹرز آرہے ہیں جنہیں بلڈپریشرچیک کرنانہیں آتا، کل 5بچے مرگئے،ان کا ذمہ دارکون ہے، انکوائری ہوگی اور آخر میں سارا ملبہ دھوپ پر ڈالا جائے گا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ تمام میڈیکل کالجز کے اکاؤنٹس کا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے آڈٹ کروائیں جبکہ سیالکوٹ میڈیکل کالج کو فارن سٹوڈنٹس کوٹے کی مد میں لی گئی فیس واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجز میں کیا سہولیات دی جا رہی ہیں، ان کا خود جائزہ لوں گا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے قرار دیا لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں جو مرضی آئے تنقید کرے، عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہوں گا۔

    انہوں نے کہا کہ آج واضح کرتا ہوں کہ بابا رحمتا کا تصور کہاں سے لیا یہ خیال اشفاق احمد سے لیا اور بابا رحمتا ایک ایسا انسان ہے جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

    سماعت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس اعجاز الاحسن کے ہمراہ سروسز ہسپتال اور پی آئی سی کا دورہ بھی کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی

    معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی

    اسلام آباد : زینب قتل کیس میں ٹی وی اینکر کے الزامات پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، وقت گزرچکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کےقاتل سے متعلق دعوؤں کی سماعت ہوئی ، ڈاکٹر شاہد مسعود عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ آگئی بظاہر آپ کے الزامات درست نہیں، کوئی ابہام نہ رہےتوآپ کی سی ڈی دوبارہ دیکھ لیتےہیں ،آپ نےباربارکہادرخواست ہےمعاملےکانوٹس لیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نےکہابات درست نہ ہوتومجھےپھانسی دےدی جائے، جے آئی ٹی رپورٹ آگئی ذاتی رائے دینا چاہتے یا دفاع کرناچاہتےہیں، جس پر شاہدمسعود کے وکیل شاہد خاور نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ہمیں نہیں ملی، سرگودھا میں ایک واقعہ ہوا تھا اسی تناظرمیں انٹرنیشنل مافیا کی بات کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کی کاپی دیتے ہیں آپ چیلنج کر رہےہیں تو اسکے نتائج بھی ہونگے، سچ تھا یا مبالغہ آرائی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

    سماعت کے دوران میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں، جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں، وقت گزر چکا، عوامی سطح پرتسلیم کریں کہ آپ نےغلطی کی۔

    وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہےکہ رپورٹ کوچیلنج کررہےہیں جبکہ شاہد مسعود نے چیف جسٹس کو 4صفحات پرمشتمل دستاویز پیش کی۔

    سپریم کورٹ نے شاہد مسعود کے پروگرام کو نجی ٹی وی کونوٹس جاری کرتے ہوئے شاہد مسعود کو 2روز میں اپنا جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نےکیس کی سماعت 12مارچ تک ملتوی کردی۔


    مزید پڑھیں : زینب قتل کیس: ڈاکٹرشاہد مسعود کےالزامات بے بنیاد قرار


    یاد رہے کہ قصور کی ننھی زینب قتل کیس میں اینکر شاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ عالمی گروہ کا کارندہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تھی۔

    یکم مارچ کو ڈاکٹرشاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں میں اینکر کے 18 الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کے 37 بینک اکاؤنٹس ثابت نہ ہوسکے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • احدچیمہ کی گرفتاری پر کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ  دے دے، چیف جسٹس

    احدچیمہ کی گرفتاری پر کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ دے دے، چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے احدچیمہ کی گرفتاری پر افسران کواحتجاج سے روک دیا اور کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ دے دے، جسے بلایا جائے وہ تعاون کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایل ڈی اے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے تمام بیوروکریٹس کو احد چیمہ کی گرفتاری پر احتجاج سے روک دیا۔

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جس نے استعفیٰ دینا ہے دے دے، جسے بلایا جائے وہ مکمل تعاون کرے، نیب کو کوئی بھی ہراساں نہیں کرے گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب اسمبلی سے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے حوالے سے سوال کیا کہ اسمبلی سے کیسے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہوئی، ایسےتو قرارداد آجائے گی کہ سپریم کورٹ نہیں بلا سکتی۔

    چیف جسٹس نے احد چیمہ کے کیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا اور سوال کیا کہ آج کل احد چیمہ کہاں ہے، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب میں کہا کہ احد چیمہ نیب کی حراست میں ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ گریڈ 19 کی کیا تنخواہ ہے اور احد چیمہ کتنی لیتے تھے،چیف سیکرٹری نے بتایا کہ تنخواہ ایک لاکھ ہو سکتی ہےلیکن مراعات کے ساتھ 14 لاکھ لے رہے ہیں۔


    مزید پڑھیں : سابق ڈی جی ایل ڈی اے کی گرفتاری: نیب اورپنجاب حکومت آمنے سامنے


    دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت نجی کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ ایل ڈی اےقوانین کےتحت 6کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ قانون پڑھ کرسنائیں،کہیں نہیں لکھا نجی کمپنی سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے، ترقیاتی کام تو ایل ڈی اے نے کروانے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کمپنیوں کے مالکان ،شیئرہولڈرز کی تفصیلات کی عدم فراہمی پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے سوال کیا کہ معاہدے کے وقت ڈی جی ایل ڈی اے کون تھا؟ ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب دیا کہ اُس وقت ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ تھے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اس احد چیمہ کا نیا عہدہ کیا ہے،ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ احد چیمہ قائد اعظم پاور پلانٹ کے سی ای او ہیں، جس کے بعد عدالت نے احد چیمہ کی سروس پروفائل اورتنخواہوں کاریکارڈطلب کرلیا جبکہ پیراگون سٹی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

    بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • سرکاری فنڈزسے ذاتی تشہیر، چیف جسٹس نے تفصیلات طلب کرلیں

    سرکاری فنڈزسے ذاتی تشہیر، چیف جسٹس نے تفصیلات طلب کرلیں

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر کیلئے جاری فنڈز کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکریٹری اطلاعات پنجاب، سندھ کو ایک ہفتے میں اشتہارات کی تفصیلات دینے کا حکم دیدیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر کیلئے جاری فنڈز کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی اور ازخودنوٹس12 مارچ کو سماعت کے لئے مقرر کردی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری اشتہارات کےذریعےترقیاتی منصوبوں کی تشہیرپری پول ریگنگ ہے، ترقیاتی منصوبوں کے سرکاری خزانے سے اشتہارات کیوں دیئے جارہےہیں، تصویر آپ کی، تشہیر آپکے کارناموں کی،خرچہ سرکاری خزانے سے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ یہ کس قانون کے تحت ہورہا ہے، اپنے تشہیر کا اتنا ہی شوق ہے تو کیوں نہ پارٹی فنڈ سے دی جاتے ، اشتہارات پرخرچ کروڑوں روپےکیااسپتالوں کو نہیں دی جانے چاہئیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اسپتالوں میں بنیادی سہولتیں اورادویات دستیاب نہیں اور سیکریٹری اطلاعات کے پی،پنجاب،سندھ اشتہارات کی تفصیلات دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹریز اشتہارات کی تفصیلات ایک ہفتے میں جمع کرائیں، تفصیلات پرڈپٹی سیکریٹری،سیکریٹری دونوں کے دستخط ہونے چاہئیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔