Tag: classic

  • تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

    تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
    کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

    حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
    تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

    ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
    جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

    صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن
    تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں

    وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
    فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
    تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    *********

  • سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

    سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے​
    شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا
    اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے​
    کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
    پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے​
    جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی
    پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے​
    اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے​
    *******