Tag: classic poetry

  • کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا

    کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
    پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا

    کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں اس کے
    اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا

    کچھ اور گماں دل میں نہ گزرے ترے کافر
    دم اس لیے میں سورۂ یوسف نہیں کرتا

    پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنواں
    جب تک کہ وہ مضموں میں تصرف نہیں کرتا

    دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
    دنیا کے زر و مال پہ میں تف نہیں کرتا

    تا صاف کرے دل نہ مئے صاف سے صوفی
    کچھ سود و صفا علم تصوف نہیں کرتا

    اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
    آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا

    *********

  • یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​


    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​
    اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​

    تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا​
    کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا​

    تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا​
    کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا​

    کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیم کش کو​
    یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا​

    یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح​
    کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا​

    رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا​
    جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا​

    غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے​
    غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا​

    **********

  • عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا

    عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
    تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا

    میں جو گدایانہ چلّایا در پر اس کے نصفِ شب
    گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا

    آگے عالم عین تھا اس کا اب عینِ عالم ہے وہ
    اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا

    مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں
    جو طالب اس راہ سے آیا خاک بھی یاں کی چھان گیا

    خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے
    اب سر خاک بھی ہوجاوے تو سر سے کیا احسان گیا

    ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
    رفتہ رفتہ ہندوستاں سے شعر مرا ایران گیا

    کیونکے جہت ہو دل کو اس سے میرؔ مقامِ حیرت ہے
    چاروں اور نہیں ہے کوئی یاں واں یوں ہی دھیان گیا

    **********

  • عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا​

    عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا​
    جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا​

    عشق کا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا​
    دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا​

    کس کس اپنی کل کو رو دے ہجراں میں بیکل اسکا​
    خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا​

    آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل​
    آج گیا یا کل جاؤے گا صبح گیا شام گیا​

    ہائے جوانی کیا کیا کہئےشور سروں میں رکھتے تھے​
    اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا​

    گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سردست اکثر ہیں​
    لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا​

    لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں مُدت سے​
    اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا​

    نالہِ میر سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا​
    شاید شہر سے ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا​

    **********

  • تھا شوق مجھے طالبِ دیدارہوا میں

    تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں
    سو آئینہ سا صورت ِدیوار ہوا میں

    جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز
    کیا پوچھتے ہو دیر خبردار ہوا میں

    اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
    پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں

    کب ناز سے شمشیر ستم ان نے نہ کھینچی
    کب ذوق سے مرنے کو نہ تیار ہوا میں

    بازار وفا میں سرسودا تھا سبھوں کو
    پر بیچ کے جی ایک خریدار ہوا میں

    ہشیار تھے سب دام میں آئے نہ ہم آواز
    تھی رفتگی سی مجھ کو گرفتار ہوا میں

    کیا چیتنے کا فائدہ جو شیب میں چیتا
    سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں

    تم اپنی کہو عشق میں کیا پوچھو ہو میری
    عزت گئی رسوائی ہوئی خوار ہوا میں

    اس نرگس مستانہ کو دیکھے ہوئے برسوں
    افراط سے اندوہ کی بیمار ہوا میں

    رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میرؔ
    اس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں

    ********