Tag: clean drinking water

  • ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہونے کا انکشاف، ویڈیو رپورٹ

    ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہونے کا انکشاف، ویڈیو رپورٹ

    یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 53 ہزار چھوٹے بچے پانی کی بیماریوں سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پینے کے صاف پانی میں آلودگی کی وجہ سے کئی طرح کی بیماریاں شامل ہیں جن میں معدے، جگر، گردے کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں 80 فی صد عوام مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔

    بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کے مطابق ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے، جب کہ 70 سے 80 فی صد پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے، پانی میں مضر صحت اجزا میں سرفہرست سیوریج کا پانی اور کارخانوں سے کیمیکل کا اخراج اور کھیتوں سے کیمیائی کھاد شدہ پانی کا اخراج ہے، جو پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ پانی کو مضر صحت بنانے میں دیگر عوامل میں گرین ہاؤس گیسیں، پانی میں شامل مختلف بیماریاں اور حفظان صحت کی کمی کا شمار کیا جاتا ہے۔

    آلودہ پانی سے بیماریاں


    ملک بھر کے 24 اضلاع میں موجود 2 ہزار 807 دیہات سے جمع کیے جانے والے پانی کے نمونوں میں سے 69 سے 82 فی صد نمونے آلودہ اور مضر صحت پائے گئے۔ ملک بھر میں گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ 112 ارب روپے علاج معالجہ پر خرچ کیا جاتا ہے، پاکستان کے صرف 15 فی صد شہری اور 18 فی صد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔

    پی سی آر ڈبلیو کے مطابق پانی میں موجود آلودگی اور مضر صحت دھاتیں پیچش، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ وغیرہ جیسی بیماریوں کی اہم ترین وجہ ہیں۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ پاکستان میں تا حال کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا کرنے کی اتھارٹی رکھتا ہو۔

    نمونوں کی جانچ


    ’’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘‘ کی نگرانی میں ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں میں انکشاف ہوا ہے کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔

    پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فی صد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فی صد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگ ہیضہ، دست اور کئی دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

    پانی سے متعلق ورلڈ بینک کیا کہتا ہے؟


    ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہے، جہاں صرف 6 دیگر ممالک اس سے بھی زیادہ شدید پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے – جو کہ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے – پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی نسبتاً کم ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1951 میں 5,260 مکعب میٹر تھی جو حالیہ برسوں میں کم ہو کر تقریباً 1,000 مکعب میٹر رہ گئی ہے، جو کہ صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔


    کرایوں میں اضافہ اور پولیس کو رشوت، بس اڈوں پر سب ہی پریشان، ویڈیو رپورٹ


    یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک تیزی سے ’’پانی کی کمی کی لائن‘‘ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے تخمینے کے مطابق 2025 تک پاکستان شدید پانی کی قلت کے مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے، جہاں بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہوگا۔

    پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے مر جاتے ہیں


    پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 60 فی صد آبادی کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور 30 فی صد بیماریوں اور 40 فی صد اموات ناقص پانی کے معیار کی وجہ سے ہیں۔ خواتین اور بچے خاص طور پر کمزور ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناکافی ہے اور زیادہ تر پانی کی فراہمی آلودہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے اندازے کے مطابق، پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے، جن کی عمر 5 سال سے کم ہوتی ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے اسہال، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

    پانی اتنا آلودہ کیوں ہے؟


    ملک میں پانی کی آلودگی کی بلند سطح کے کئی عوامل ہیں، جن میں شہروں میں جامع سیوریج سسٹم کی کمی اور ناقص صفائی ستھرائی کے انفراسٹرکچر سے لے کر کچرا ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات، کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال، اور صنعتی فضلے کے غیر علاج شدہ اخراج شامل ہیں۔

    پانی کے انتظام کے غیر مؤثر نظام بھی اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ دریائے سندھ سسٹم اتھارٹی (IRSA) کے مطابق، پاکستان کو ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ملتا ہے لیکن وہ صرف 13.7 MAF ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح، ملک میں بارش کے زیادہ ہونے والے ادوار کے دوران پانی کو ذخیرہ کرنے کی خاطر مناسب ذخیرہ گاہوں کی بھی کمی ہے، جس کی وجہ سے مون سون کے موسموں میں کافی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ، قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلے پانی کی فراہمی کے نظام کو درہم برہم کر سکتے ہیں، جس سے آلودگی ہوتی ہے اور مسئلہ مزید شدت اختیار کرتا ہے۔ خاص طور پر ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین جگہ فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھتا ہے۔

    2022 کے سیلاب کے بعد ملک ایک ’’موت کی دوسری لہر اور تباہی‘‘ کی حالت میں داخل ہوا، کیونکہ ٹھہرے ہوئے پانی نے مچھروں کو افزائش اور متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا وسیع موقع فراہم کیا۔ رپورٹ کیا گیا کہ سیلاب کے بعد ملک میں ملیریا کے کیسز کی تعداد چار گنا بڑھ گئی، جو 2021 میں 4 لاکھ کیسز سے بڑھ کر 2022 میں 16 لاکھ سے زیادہ کیسز تک پہنچ گئی۔

    دریائے سندھ


    پاکستان کا دریائے راوی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ دریا ہے، جو دواسازی کی آلودگی سے متاثر ہے۔ تیزی سے بدلتا ہوا موسم اور گلیشیئرز کا پگھلنا بھی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں، اور دریائے سندھ – جو کہ زراعت، صنعت اور گھریلو استعمال کے لیے ملک کا بنیادی پانی کا ذریعہ ہے – خاص طور پر خطرے میں ہے۔

    یہ دریا زیادہ تر ہمالیائی گلیشیئرز سے پگھلے ہوئے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ ’’نیچر‘‘ جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق 1990 کی دہائی سے سندھ بیسن کے گلیشیئرز اوسطاً سالانہ تقریباً 20 سینٹی میٹر کے حساب سے اپنی کمیت کھو رہے ہیں۔ گلیشیئرز کی برف کے پگھلنے سے دریا کے نظام میں بہنے والے پانی کی مقدار گھٹ رہی ہے، جس سے نیچے کی جانب پانی کی دستیابی متاثر ہو رہی ہے۔

    ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کی ایک رپورٹ میں ذکر ہے کہ گلیشیئرز کی پسپائی کے باعث آئندہ دہائیوں میں دریائے سندھ کے بہاؤ میں 40 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ کمی زراعت کے لیے آبپاشی اور دیگر شعبوں میں پانی کی دستیابی کو متاثر کرتی ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    انسانی صحت کے لیے پینے کے پانی کا صرف صاف نظر آنا ہی کافی نہیں، بلکہ پانی میں شامل تمام قدرتی کیمیکلز کا مناسب مقدار ہونا لازمی ہے۔ کوئٹہ کے 52 فی صد پینے کے پانی میں تشویش ناک طور پر ’’ہیڈن پوائزن‘‘ کہلانے والے فلورائیڈ کی غیر متناسب مقدار کا انکشاف ہوا ہے، جو ہڈیوں کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ 25 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کے بیش تر لوگ یہی پانی پی رہے ہیں۔

    بیوٹمز یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل سائنس میں ہائیڈرو جیو کیمسٹری کے پی ایچ ڈی اسکالر اور استاد تیمور شاہ درّانی نے اس پر 2022 سے 2024 تک تحقیق کی ہے، جس میں گنجان آباد علاقوں کے 100 ٹیوب ویلز سے پانی کے نمونے لیے گئے، جس کا کیمیائی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئٹہ کے شمال مشرقی بالائی علاقوں سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں 25 فی صد میں فلورائیڈ ضروری مقدار سے کم جب کہ شمال مغربی اور وادی کی وسطی پٹی کے 27 فی صد علاقوں کے پانی میں فلورائیڈ 3.4 ملی گرام فی لیٹر تک زیادہ ہے۔

    محقق تیمور شاہ درّانی کے مطابق سریاب، ڈبل روڈ میاں غنڈی، نو حصار سمیت وادی کی وسطی پٹی کے علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے۔

    فلورائیڈ کی مقدار کتنی؟

    فلورائیڈ کی مقدار پانی میں 0.5 سے 1.5 ملی گرام فی لیٹر ہونا ضروری ہے۔ فلورائیڈ اس مقدار سے زیادہ ہو تو یہ طبعی لحاظ سے زہر تصور کیا جاتا ہے۔ محقق بتا رہے ہیں کہ فلورائیڈ کوئٹہ میں اپنا کام دکھا رہا ہے، اور بچے اور بزرگ نشانے پر ہیں۔

    تیمور شاہ نے بتایا کہ فلورائیڈ کی زیادہ مقدار سلو پوائزن کی طرح اثر دکھاتا ہے، کیوں کہ یہ پانی میں بے ذائقہ ہے، ہمیں پانی فلورائیڈ کی مقدار چیک کر کے پینے کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے دوران ہم نے دیکھا کہ جن علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے وہاں بچوں کے دانت زنگ آلود رنگ جیسے ہیں، جب کہ 50 سال کی عمر سے زائد افراد میں ہڈیوں کی بیماریاں بالخصوص گھٹنوں کی تکالیف عام ہیں۔

    جدید سہولیات سے مکمل محروم علاقہ، آٹے کی چکی چلانے کے لیے گدھوں کا استعمال

    اس تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی فلورائیڈ کی کم سے کم مقدار کو طے کرے، اور بلوچستان حکومت شہر میں پانی کے فلٹریشن اور ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کرے۔ تیمور شاہ درانی کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہماری آنے والی نسل بھی انہی بیماریوں کے ساتھ بڑی ہوگی اور صحت کے مسائل معاشرے میں عام ہوں گے۔ ہر فرد کے لیے گھر پر فلٹریشن کا نظام لگانا یا فلورائیڈ کو متناسب کرنا ممکن نہیں، حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتیں پینے کے پانی میں ضروری قدرتی کیمیکلز کا جائزہ لے کر انھیں گھروں تک پہنچاتی ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے پانی کے نمونے ٹیوب ویلز سے 2022 میں بارشوں کے بعد لیے گئے تھے۔ محقق کے مطابق جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو کوئٹہ میں فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، 2016 میں بارشوں سے قبل یعنی طویل خشک موسم کے دوران کی تحقیق میں کوئٹہ کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 20 ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی تھی۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔

  • پانی کے نمونے آلودہ ہونے کا انکشاف، چیف جسٹس کا اظہارِ تشویش

    پانی کے نمونے آلودہ ہونے کا انکشاف، چیف جسٹس کا اظہارِ تشویش

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان کے چیمبر سے لئے گئے پانی کے نمونے آلودہ ہونے کے انکشاف پر چیف جسٹس آف پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ عوام کو آر سنیک ملا اور آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلی سندھ عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں تو وزیر اعلی پنجاب کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں  چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے صاف پانی کی فراہمی کے لئے از خود نوٹس پر سماعت کی، ڈائریکٹر پی سی ایس آئی آر لیبارٹری نے اپنی رپورٹ پیش کی اور انکشاف کیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے چیمبر سے لئے گئے پانی کے نمونے آلودہ ہیں۔

    چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پانی کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں، پھر بھی شہریوں کو آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اورنج لائن منصوبے کے لئے صرف ایک از خود نوٹس کی ضرورت ہے اور از خود نوٹس لے کر منصوبے پر کام بند کر دیں گے۔

    چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا آپ کو پتہ ہے کہ بڑے شہروں کو آلودہ پانی کن ندیوں اور دریاؤں سے آرہا ہے جو کام حکومت نے کرنے ہیں کہ وہ نجی کمپنیوں کو دئیے جا رہے ہیں۔


    مزید پڑھیں :  لاہور میں آرسینک ملا پانی‘ چیف جسٹس ثاقب نثار برہم


    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ کہ لوگوں نے ہمیں ووٹ نہیں دینے ،اگر وزیر اعلی سندھ کو عدالت میں بلایا جا سکتا ہے تو وزیر اعلی پنجاب کیوں نہیں، وزیر اعلی پنجاب سے بھی سوالات کئے جا سکتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے ابھی تک اپنی ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کیا، چیف جسٹس پاکستان نے صاف پانی کی فراہمی کے معاملے پر متعلقہ حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئر کریں۔

  • مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نےبھی کرنی ہےکرلے ، چیف جسٹس

    مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نےبھی کرنی ہےکرلے ، چیف جسٹس

    کراچی : چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ صاف کہنا چاہتاہوں مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نےبھی کرنی ہےکرلے ، جن لوگوں نے کوتاہی برتی انہیں نہیں بخشا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی اور شہروں میں گندے پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں4رکنی لارجربینچ کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس فیصل عرب،جسٹس سجادعلی شاہ شامل ہیں۔

    سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ معاملہ انسانی زندگیوں کا ہے، رات 12بجےتک بھی سماعت کرناپڑی توکرینگے، شہریوں کو گندہ پانی مہیا کیا جارہا ہے، صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، واضح کرتے ہیں، عدالت کےپاس توہین عدالت کااختیارہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دسمبر سے آج 23دسمبر تک کیا کام کیا گیا، عدالت کوحلف نامےپرٹائم فریم چاہیے، اسپتال،میونسپل اورصنعتی فضلےسےمتعلق بتایاجائے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آج مجھ سے جہازمیں لوگوں نےپوچھا، کیاآپ جس مسئلےکیلئےکراچی جارہےہیں وہ مسئلہ حل ہوسکےگا۔

    چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب،یہ مسئلہ الیکشن سےپہلےہی حل ہوناہے، عدالت کوصرف یہ بتائیں کون سا کام کب اور کیسےہوگا، کراچی میں45لاکھ ملین گیلن گندہ پانی سمندرمیں جارہاہے۔

    چیف سیکرٹری سندھ نے  ٹریٹمنٹ پلانٹس سمیت دیگرمنصوبوں کی رپورٹ پیش کردی  

    چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے ٹریٹمنٹ پلانٹس سمیت دیگرمنصوبوں کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی، رپورٹ کے مطابق کراچی میں550ملین گیلن پانی یومیہ کینجرجھیل جیل سےآتاہے جبکہ کراچی میں100ملین گیلن پانی یومیہ حب ڈیم سےآتا۔

    چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ سیکرٹری صحت عدالت میں موجودہیں، جس پر فضل اللہ پیچوہو نے جواب میں کہا کہ جی میں کورٹ میں موجودہوں۔

    سپریم کورٹ نےسیکریٹری ہیلتھ سےمیڈیکل کالجزکی فہرست طلب کرلی اور کہا کہ بتایا جائےکون سےمیڈکل کالجزپی ایم ڈی سی سےرجسٹرڈہے، واٹربورڈکی تیارکردہ ویڈیوبھی عدالت میں دکھائی گئی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے یمارکس میں کہا کہ پانی کی قلت سےواٹرمافیامضبوط ہوتی ہے، جس پر ایم ڈی واٹربورڈ کا کہنا تھا کہ پانی کی چوری کی مستقل نگرانی کررہے ہیں، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کام کرناچاہیں تومخیرحضرات بھی مل جائیں گے، کام کےحوالےسےآپ کی ہمت نظرآنی چاہیے۔

    ایم ڈی واٹربورڈ ہاشم رضا نے عدالت کو بتایا کہ کینجھرجھیل سےآنےوالاپانی صاف ہے، لائنوں میں غیرقانونی کنکشن اورلیکج گندےپانی کی وجہ ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کینجھرجھیل سےصاف پانی آنےکی ضمانت دے سکتےہیں، مطلب کینجھر جھیل چیک کرائیں تو پانی صاف ہوگا۔

    پانی دیتےنہیں ٹینکرزچلا کرکمائی کادھندہ چل رہاہے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پانی سےصرف مٹی نکالنافلٹریشن نہیں، کیایہ پانی پاک اورپینےکےقابل ہوتاہے، ہاشم رضا کا کہنا تھا کہ کراچی کے30 فیصد علاقے واٹربورڈکےسسٹم میں شامل نہیں، ڈی ایچ اےاورکنٹونمنٹ کی ذمہ داری ہےمگروہاں ٹینکرز چلتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل رات بھی باتھ آئی لینڈمیں ٹینکرسےپانی لیاگیا،جسٹس فیصل عرب نے اپنے ریمارکس میں کہا باتھ آئی لینڈتوکنٹونمنٹ ایریامیں شامل نہیں، جس پر ہاشم رضا نے بتایا کہ باتھ آئی لینڈکےایم سی کےتحت ہےلیکن آخری حدودمیں ہے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ مسئلہ یہ ہےکہ آپ ہرمسئلےکاجوازطےکربیٹھیں ہی، واٹرٹینکرزاورہائیڈرنٹس ختم کیوں نہیں کرسکتے، کیاآپ کابندہ ماہانہ پیسےوصول نہیں کرتا، پانی دیتےنہیں ٹینکرزچلا کرکمائی کادھندہ چل رہاہے۔

    جن لوگوں نےکوتاہی برتی انہیں نہیں بخشاجائےگا، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جن لوگوں نےکوتاہی برتی انہیں نہیں بخشاجائےگا، چیف سیکریٹری بتائیں کس کی کتنے درجے تنزلی کرنی ہیں ، بریک کے بعد کارروائی کا حکم دینگے، حلف نامہ دیا گیا تھا کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنایا جائیگا۔

    عدالت نے کہا کہ پلانٹ کیلئےپروجیکٹ جون2018میں مکمل کرنےکاکہاگیاتھا، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پلانٹ سے متعلق کوئی پیشرفت نظرنہیں آرہی، 8 ارب کا پروجیکٹ اب36ارب تک پہنچ گیا۔

    ہمیں نتائج چاہئیں، جواب دیئے بغیر چیف سیکریٹری،ایم ڈی واٹربورڈ کو جانے نہیں دینگے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے استفسار کیا کہ ہمیں نتائج چاہئیں، جواب دیئے بغیر چیف سیکریٹری،ایم ڈی واٹربورڈ کو جانے نہیں دینگے۔

    سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ٹینکرمافیاپانی بیچتاہےاورکمائی ہورہی ہے، جہاں واٹربورڈکی لائن نہیں مفت پانی کےٹینکرپہنچائیں، جس پر ایم ڈی واٹربورڈ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنرکی وجہ سےپانی مفت فراہم نہیں کیاجاتا۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے مکالمے میں کہا کہ دن لگے یا رات لگےکام کرکےدکھائیں، بھینسوں کافضلہ نہروں میں چھوڑاجارہاہے، ہیپاٹائٹس سی بڑھ رہا ہےکبھی آپ نے غورکیا، جس پر ایم ڈی واٹربورڈ نے کہا کہ عدالت کی ہدایت کے مطابق ہم کام کررہےہیں۔

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہماری ہدایت سے پہلےآپ لوگ سورہےتھے،جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ نظر آرہا ہے پانی کی لائنوں کی صورتحال خراب ہے، آپ نے اب تک کیا کام کیا ہے۔

    جسٹس فیصل عرب نے اپنے ریمارکس میں کہا بجٹ میں رقم جاری ہوتی ہےمگرکام نہیں ہوتا، 10 سال بعد پائپ لائنیں تبدیل ہوتی ہیں سب جانتےہیں، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضازیدی نے بتایا کہ ہم سنجیدگی سےکام کررہےہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھےآپ کی سنجیدگی آپ کی باتوں سےنظرنہیں آرہی، سنجیدگی کاکام سےپتہ چلےگا۔

    چیف سیکریٹری کو اور کوئی کام کرنے نہیں دوں گا، جب تک مجھےبتایانہ جائےکہ کام کب ہوگا، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چیف سیکریٹری کو اور کوئی کام کرنے نہیں دوں گا، جب تک مجھےبتایانہ جائےکہ کام کب ہوگا، پچھلی مرتبہ میں پورٹ گرینڈ گیا جہاں کچرے کے ڈھیر تھے، آخر یہ کچراکون اٹھائےگا، کیا پوری قوم کو مفلوج کرناچاہتےہیں۔

    ایم ڈی واٹربورڈ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں ساڑھے4ہزارٹینکر یومیہ چلتے ہیں، جس پر جسٹس عمربندیال نے ریمارکس دیئے یہ تعداد کہیں زیادہ ہے، زائد نرخ پر فروخت کی شکایات ہیں،جسٹس فیصل عرب نے مزید کہا کہ میں کراچی میں پیداہواہوں،پانی کیسے ملتاہے معلوم ہے، پانی کی لائنیں25،20سال سے تبدیل نہیں ہوئیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پانی کی فروخت ایک کاروبار بن چکاہے، میرے گھرمیں پانی آتاہوتومیں پانی کیوں خریدوں گا، پانی کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں، واٹر بورڈ کی غفلت ہے۔

    ایم ڈی واٹربورڈ نے بتایا کہ ہائیڈرنٹس کےذریعے2.5فیصدپانی فراہم کیاجاتاہے، ملین گیلن یومیہ پانی ٹینکرزکےذریعےسپلائی ہوتاہے، جس پر جسٹس سجادعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک ٹینکرمیں کتنےہزارگیلن پانی دیا جاتاہے۔

    ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ ایک ٹینکرمیں 3ہزارگیلن پانی کی گنجائش ہوتی ہے، یہ اندازہ لگایاگیاکبھی کتنےہزارٹینکر روزانہ استعمال ہوتےہیں، مردم شماری کے مطابق شہرکی آبادی 16ملین ہے، 18 ملین کی مناسبت سےپانی کی ضرورت طےکی جاتی ہے، اندازے کے مطابق فی گھریومیہ 50گیلن ضرورت کا تخمینہ ہے۔

    ہاشم رضا نے مزید بتایا کہ کراچی کی ضرورت اس وقت850ملین گیلن پانی ہے، کراچی کو650ملین گیلن پانی اس وقت فراہم کیا جارہا ہے، کے فور منصوبے کی تکمیل 3سال میں مکمل ہوگی، کےفورسے900ملین گیلن سےزائدپانی دستیاب ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب صاف ہے لوگ3سال مزیدپانی کیلئےترسیں گے، 650 ملین گیلن پانی جو دے رہے وہ بھی گندا پانی ہے، سابق میئرمصطفی کمال نے پانی سےمتعلق تجویزدی تھی، تجویز تھی کے فور کو مستقبل کی مناسبت سے وسعت دی جائے، جس پر ہاشم رضا نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے کے فور کے دیگرفیز پر کام کی ہدایت کردی ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ لوگ ہمیں کہتےہیں کس کام میں ہاتھ ڈال دیا یہ کام نہیں ہونا، ہم صاف صاف کہہ رہےیہ کام کئےبغیرہم نہیں جائیں گے۔

    صاف کہنا چاہتاہوں مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نےبھی کرنی ہےکرلے، چیف جسٹس

    شہریوں کو گندے پانی کی فراہمی سے متعلق سماعت میں بنیادی سہولتوں کی سنگین صورتحال پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا صاف کہنا چاہتاہوں مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نے بھی کرنی ہےکرلے، موجودہ کیفیت کا ذمہ دارہر وہ شخص ہے، جو برسر اقتدار رہا۔

    انھوں نےلاہور کےمیئو اسپتال کا ذکر کرتے ہوئے کہا اعتراضات ہوئے، چیف جسٹس میو اسپتال کیوں گئے۔ اسپتال کا دورہ انسانی جانوں کےتحفظ کیلئے کیا، میواسپتال میں وینٹی لیٹرکی سہولت موجود نہیں تھی۔

    پانی اور صحت کی فراہمی کیلئے جو کرناپڑا کرینگے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے کہا آئین کےتحت بنیادی انسانی حقوق کاتحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، پانی اور صحت کی فراہمی کیلئے جو کرناپڑا کرینگے، ہم چاہتےہیں اپنے بچوں کوایک اچھاملک دے کر جائیں، صرف بچوں کوگاڑی خریدکردینا ہی کافی نہیں ہوتا۔

    سندھ کے اسپتالوں کی ابتر صورتحال پر بھی چیف جسٹس کاازخودنوٹس

    کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت میں سندھ کے اسپتالوں کی ابتر صورتحال پر بھی چیف جسٹس نے ازخودنوٹس لے لیا، عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے پانچ سو بیڈ والے کتنے میڈیکل کالجزکیساتھ اسپتال ہیں؟ اسپتالوں سےمتعلق حلف نامے داخل کرائےجائیں، کیا صرف پیسوں سے ہی تعلیم دلوائی جاسکتی ہے؟ ایسے بھی ڈاکٹرز ہیں جنہیں بلڈپریشرچیک کرنانہیں آتا۔

    اعلی عدالت نےسرکاری افسران کی تقرری وتبادلوں پرپابندی اٹھالی۔ چیف جسٹس نے کہا سوائے چیف سیکریٹری کےکسی بھی افسرکاتقرریاتبادلہ کریں، بندہ آپ کی مرضی کا مگرکام ہماری مرضی کاہوناچاہیے۔

    سپریم کورٹ نےسماعت آئندہ سیشن تک ملتوی کردی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • صاف پانی کی کمپنیوں کی تفصیلات دس دن میں فراہم کی جائیں: عدالت

    صاف پانی کی کمپنیوں کی تفصیلات دس دن میں فراہم کی جائیں: عدالت

    لاہور: ہائی کورٹ میں صاف پانی کمپنی میں بے ضابطگی کیس میں عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے قرار دیا کہ اس ملک میں جنگل کا قانون نہیں چلنے دیا جائے گا ۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز پیر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ثانیہ کنول ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی‘ عدالت نے صاف پانی سمیت دیگر پبلک سیکٹر کمپنیوں کی تفصیلات پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

    سماعت کے دوران عدالتی حکم پر چیف سیکرٹری پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے ریماکس دیے کہ چیف سیکرٹری کو بلانے کا کوئی شوق نہیں کمپنیوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ڈیڑھ لاکھ والے گریڈ بیس کے افسر کو من مانی کر کے کمپنیوں میں پچیس لاکھ پر تعینات کر دیا جاتا ہے۔

    پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کے منصوبہ میں بے ضابطگیاں*

    پنجاب حکومت کے وکیل نے وضاحت کی کہ کسی کو سفارش کی بنیاد پر نہیں رکھا تمام قواعد و ضوابط پورے کئے گئے ہیں۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ملک میں پیدا ہونے ہر ایک بچہ ایک لاکھ پینتیس لاکھ کا مقروض ہے مگر اب اس ملک میں جنگل کا قانون نہیں چلنے دیں گے۔

    پنجاب حکومت کے وکیل نے درخواست کے قابل ہونے کے بارے میں اعتراض اٹھاتے ہوئے درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی‘ سرکاری وکیل نے کمپنیوں کی تفصیلات پیش کرنے کے لیے مزید وقت مانگا جس پر عدالت نے پنجاب حکومت کو دس روز کی مزید مہلت دیتے ہوئے کارروائی 19 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

    یاد رہے کہ درخواست گزار عدالت میں دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ صاف پانی منصوبے کے نام پر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ صاف پانی کے نام پر روڈ شو کا بیرون ممالک انعقاد کروا کے سرکار کا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے جبکہ افسران کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔

    گزشتہ سماعت میں عدالت نے کہا تھاکہ کمپنیوں میں مرضی کی تعیناتیاں کر کے ادارے کو تباہ کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی۔ کمپنیوں کی تفصیلات فراہم کیوں نہیں کی جارہی ہیں، کیا یہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔