Tag: Climate Change

  • موسمياتی تبديليوں سے سب سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر

    موسمياتی تبديليوں سے سب سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر

    اسلام آباد : موسمیاتی تبدیلی کے باعث جہاں دیگر ملکوں کو پریشانی کا سامنا ہے وہیں پاکستان بھی تیزی سے متاثر ہورہا ہے، بین الاقوامی بینک کے مطابق زلزلہ، سیلاب یا کوئی بھی قدرتی آفات ہو ، پاکستان صورت حال سےنمٹنے کیلئے تیار نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں موسمياتی تبديليوں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے، بین الاقوامی بینک ايچ ايس بی سی نے  موسمياتی تبديليوں سے سب سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ملکوں کی فہرست جاری کردی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق موسمياتی تبديليوں سے سب سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ملکوں میں  بھارت پہلےجبکہ پاکستان دوسرے نمبر  پر ہے۔

    رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موسمياتی تبديليوں کےاثرات سے بچنے يا نمٹنے کے ليے تمام ملکوں ميں پاکستان سب سے کم صلاحيت کا حامل ہے، پاکستان، بنگلہ ديش اور فلپائن ميں غير معمولی موسمی حالات اور سيلابوں کا خطرہ سب سے زيادہ ہے۔

    رپورٹ کے ليے بينک نے سڑسٹھ ملکوں سے اعداد وشمار جمع کیے ہیں اور ممالک میں موسمی تبديلیوں، درجہ حرارت ميں اتار چڑھاؤ اور ديگر عوامل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

    موسمياتی تبديليوں سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار پہلے دس ملکوں ميں نصف سے زائد جنوبی ايشيا ميں ہيں، ان ممالک میں عمان، کولمبيا، ميکسيکو، کينيا اور جنوبی افريقہ شامل ہيں۔

    دوسری جانب موسمياتی تبديليوں سےسب سے کم متاثر ہونے والے ملک فن لينڈ، سويڈن، ناروے، ايسٹونيا اور نيوزی لينڈ ہيں۔

    خیال رہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے، کیوں کہ موسمی بیماریاں تو کچھ دن کے بعد ختم ہو جاتی ہیں لیکن الودگی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریاں جہاں زور پکڑتی ہیں وہیں ان کی شدت میں اضافہ سنگین بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کے مختلف شعبے جن میں زراعت، ماہی گیری اور مویشیوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات دن بدن سامنے آتے جارہے ہیں اور حال ہی میں ایک تحقیق میں متنبہ کیا گیا کہ کلائمٹ چینج کے باعث مستقبل کے فضائی سفر غیر محفوظ ہوجائیں گے۔

    انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج مستقبل میں فضائی سفر کو بے حد غیر محفوظ بنا دے گا جس کے بعد پروازوں کے نا ہموار ہونے کے باعث مسافروں کے زخمی ہونے اور دوران سفر ان میں بے چینی اور گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: فضائی حادثے کی صورت میں ان اقدامات سے جان بچانا ممکن

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان ناہموار پروازوں کی وجہ سے جہازوں کو نقصان پہنچنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد جہازوں کی مینٹینس پر اضافی رقم خرچ ہوگی، یوں فضائی سفر، سفر کا مزید مہنگا ذریعہ بن جائے گا۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے شمالی بحر اقیانوس کے اوپر فضائی گزرگاہ کا مطالعہ کیا۔ ماہرین کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافہ پروازوں کی رفتار اور ہمواری پر منفی اثر ڈالے گا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کلائمٹ چینج کے ان منفی اثرات کی وجہ سے فضائی سفر کی خطرناکی میں 59 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی سفر کے دوران پرواز کا معمولی سا ناہموار ہونا معمول کی بات ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو متلی اور گھبراہٹ میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    تاہم مستقبل کی جو تصویر سامنے آرہی ہے، اس کے مطابق فضائی سفر میں مسافروں کو گہرے زخم لگنے کا خدشہ ہوگا۔

    ان کے مطابق فضائی سفر کی یہ ناہمواری اس قدر خطرناک ہوجائے گی کہ جہاز کے لینڈ کرتے ہی جہاز میں سوار تمام مسافروں کو اسپتال منتقل کرنا ہوگا تاکہ انہیں طبی امداد فراہم کی جاسکے۔

    تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا یہ اثرات صرف بحر اقیانوس کے اوپر پروازوں پر مرتب ہوں گے یا دیگر خطوں میں بھی ایسی صورتحال پیش آئے گی۔

    تاہم ماہرین نے یہ ضرور کہا کہ جس علاقے میں موسمیاتی تغیرات کے جتنے زیادہ نقصانات مرتب ہوں گے، وہاں فضائی سفر اتنا ہی خطرناک ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور زمین کو اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہی دینے پر بے تحاشہ کام کیا جارہا ہے تاہم ابھی بھی ماہرین اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے اور لوگوں میں زمین اور ماحول سے محبت کا شعور جگانے میں ناکام رہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک مثال بھارت میں بھی پیش کی گئی جہاں لوگوں کو نہایت انوکھے طریقے سے کلائمٹ چینج کے نقصانات کی طرف متوجہ کروایا گیا۔

    بھارت کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں 120 کلو گرام چاکلیٹ سے زمین کا ماڈل بنایا گیا۔

    اس کے بعد ہوٹل میں ہر چاکلیٹ ڈش کے آرڈر کو پورا کرنے کے لیے اسی ’زمین‘ سے چاکلیٹ کاٹا جانے لگا۔

    نتیجتاً ہر آرڈر کے ساتھ زمین کا حجم کم ہونے لگا اور وہ غیر متوازن ہونے لگی۔

    وہاں موجود لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اس عمل کو روک سکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں سوشل میڈیا پر اس زمین کی تصویر اور ایک ماحول دوست پیغام شیئر کرنا ہوگا۔

    ہر سوشل میڈیا پوسٹ کے ساتھ چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں چاکلیٹ دوبارہ شامل کی جانے لگی۔

    تاہم ان سوشل میڈیا پوسٹس کی تعداد، چاکلیٹ ڈشز آرڈر کرنے والے آرڈرز کی تعداد سے نہایت کم تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں بڑے بڑے گڑھے بن گئے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔

    اس آئیڈیے کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی اس کوشش کا مقصد لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ اپنی زمین کو پہنچنے والے نقصانات کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود انسان ہی ہیں۔

    کلائمٹ چینج سے متعلق مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • موسمِ بہار کے بجائے برف باری ‘ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟

    موسمِ بہار کے بجائے برف باری ‘ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟

    سال 2018 کو کئی حوالوں سے غیر معمولی سمجھا جارہا ہے ، ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ماہرین ارضیات وارننگ جاری کر چکے ہیں کہ اس برس زلزلے زیادہ تعداد میں اور شدت سے آئیں گے تو دوسری جانب ماہرین ِ موسمیات نے 1978-1979 کے بعد 2018 کو سرد ترین سال قرار دیا ہے ۔

    بلاشبہ دنیا بھر میں تیزی سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں میں ایک اہم کردار ” ایل نینو ” کے اثرات نے ادا کیا ہے ، یہ نام بحرالکاہل کے پانیوںمیں غیر معمولی درجۂ حرارت کے اضافے کو دیا گیا ہے ۔ یہ عمل سال میں ایک یا دو دفعہ رونما ہوتا ہے جب بحرالکاہل کا پانی آخری حد تک گرم ہوکر بہت زیادہ توانائی ماحول میں خارج کر کےدنیا بھر میں موسمیاتی بگاڑ لاتا ہے۔ یہ ہواؤں کا رخ الٹ کر ،بادل اور طوفانِ بادو باراں کے سسٹم مشرق کی طرف منتقل کر دیتا ہے جس سے وہاں طوفانوں کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اسی کے باعث دنیا بھر میں سمندری اور برفانی طوفانوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔

    پچھلے برس موسم ِ گرما میں جہاں امریکی ریاستیں کئی سمندری طوفانوں کے باعث غرق ِ آب ہوئیں تو اب 2018 کے اوائل میں برطانیہ کو شدید برفانی طوفان کا سامنا ہے جس کے باعث ‘ گذشتہ روز وہاں کے میٹرولوجیکل آفس کی جانب سے ‘ایمبر وارننگ’ جاری کی گئی ہے جس کا مطلب شدید جانی و مالی نقصان لیا جاتا ہے ۔ اس طوفان کا باعث بننے والا موسمیاتی سسٹم بحرلکاہل پر ہوا کے نہایت کم دباؤ کے باعث پیدا ہوا ، اور پرتگال اور سپین سے ہوکر شمال مغربی فرانس کے راستے برطانیہ تک پہنچا اور اس کے بعد وہاں اگلے چند دن میں منجمد بارش متوقع ہے ۔

    مشرق سے مغرب تک تباہ کن سیلاب اور طوفان، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بحر ِ اوقیانوس شمال اور جنوب سے امریکی ریاستوں اور مشرق میں یورپ اور افریقہ تک پھیلا ہوا ہے ، جبکہ جنوب میں یہ آبنائے ڈریک کے ذریعے بحرالکاہل سے بھی ملا ہوا ہے ، سو اس کے پانیوں میں پیدا ہونے والی کوئی بھی غیر معمولی تحریک یا اثرات براہ ِ راست بحرالکاہل پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ ایل نینو میں تاخیر کے باعث گذشتہ برس ستمبر میں ‘برائن ‘ نامی ایک طوفان سے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا جو 2018 میں بھی وہ جاری رہے گا اور حالیہ دنوں میں برطانیہ میں جو برفانی طوفان تباہی مچائے ہوئے ہے وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے

    اسے ابتدا میں ‘ فائی یون ‘ کا نام دیا گیا تھا جب کہ جمعے کو سکاٹ لینڈ اور لندن کو جس نئے طوفان کا سامنا ہے اسے ‘اما ‘ نام دیا گیا ہے ۔ اور اس کے بعد ‘ جارجیا ‘، ‘اوکٹاویا’ اور وینی فریڈ نامی طوفان متوقع ہیں جو اگلے چند ماہ میں یورپ اور برطانیہ میں نظام ِ زندگی مفلوج کرنے کا باعث بنیں گے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں صرف انہی طوفانوں کو باقاعدہ نام دیئے جاتے ہیں جن کے لیئے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایمبر یا ریڈ وارننگ جاری کی جاتی ہے اور یہ ایک ، دو یا کئی روز تک وسیع علاقے میں جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں ۔

    اس برفانی طوفان اما کو برطانیہ میں رونما ہونے والا گذشتہ پچاس سالوں کا خطرناک ترین بر فانی طوفان قرار دیا جارہا ہے اور جمعے کی شام تک اندازا ََ دو فٹ یا پچاس سینٹی میٹر برف باری متوقع ہے ۔ فی الوقت یہاں منفی 22 سینٹی گریڈ تک درجۂ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ لا محالہ جو مزید برفانی بارش کے بعد کچھ اور درجے تک گر جائے گا اور پھر شدید ٹھنڈ میں پورے کے پورے شہر وسط مارچ تک برف کی گہری تہوں میں دبے رہیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • کلائمٹ چینج سے عظیم اہرام مصر بھی خطرے میں

    کلائمٹ چینج سے عظیم اہرام مصر بھی خطرے میں

    تاریخ اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے مصر کے عظیم اہرام نہایت دلچسپی کے حامل ہیں جہاں کی سیر کرنا اور اس کے رازوں کو جاننا یکساں اہمیت کا حامل ہے۔

    تاہم ایسے افراد کے لیے بری خبر ہے کہ ہزاروں سال سے قائم یہ اہرام اب خطرے کا شکار ہوگئے ہیں جس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج ہے۔

    اہرام مصر پر تحقیق کرنے والے ماہر آثار قدیمہ مصطفیٰ النبی اس علاقے کے حوالے سے نہایت اہم انکشافات کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے اس علاقے میں آثار قدیمہ پر کام کر رہے ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے ایک ہی موسم دیکھتے آرہے ہیں۔ تاہم اب اس موسم میں غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔

    ان کے مطابق اکتوبر سے اپریل تک یہاں یکساں موسم ہوتا تھا جس میں وہ نہایت آرام سے کام کرتے تھے، تاہم اب اس عرصے کے دوران موسم میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔

    ان کے مطابق ان 7 ماہ کے دوران کسی دن اچانک سخت سردی پڑتی ہے، پھر دوسرے ہی دن سردی حیران کن طور پر نہایت کم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی اچانک یہاں بوندا باندی شروع ہوجاتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ موسم کا یہ تغیر صرف کسی مخصوص علاقے میں نہیں بلکہ پورے مصر میں ظاہر ہورہا ہے۔ اس سے قبل مصر میں موسم گرما کافی سخت ہوتا تھا تاہم اب اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ چبھتی ہوئی شدید دھوپ کے باعث ان عظیم اہراموں میں اب دراڑیں بھی پڑنے لگی ہیں۔ ’شاید وہ وقت دور نہیں جب صدیوں سے قائم یہ اہرام کسی روز دھڑام سے نیچے گر پڑیں‘۔

    اہرام مصر، مصر کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اور ملکی معیشت میں اس کا بڑا کردار ہے۔ ماہرین کے مطابق اہرام مصر میں خرابی یا تباہی مصر کی سیاحت و معیشت پر بھی بدترین اثرات مرتب کرے گی۔

  • کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    مایا تہذیب ایک قدیم میسو امریکی تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب موجودہ میکسیکو، ہونڈراس اور گوئٹے مالا کے علاقے پر محیط تھی۔

    یہ تہذیب حضرت عیسیٰ کی آمد سے کئی سو سال پہلے سے دنیا میں موجود تھی تاہم اس کا عروج 250 عیسوی کے بعد شروع ہوا جو تقریباً نویں صدی تک جاری رہا۔

    مایا تہذیب کے لوگ نہایت ذہین اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تہذیب میسو امریکا کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر اور رسم الخط تھا۔

    ان کی ایک اور خصوصیت ریاضی اور علم فلکیات میں ان کی مہارت تھی۔ مایا دور کی تعمیر کردہ عمارتوں کی پیمائش اور حساب آج بھی ماہرین کو دنگ کردیتی ہے۔ یہ قوم فن اور تعمیرات کے شعبے میں بھی یکتا تھی۔


    مایا تہذیب کا زوال

    قدیم دور کی نہایت ترقی یافتہ یہ تہذیب کیوں زوال پذیر ہوئی، یہ سوال آج تک تاریخ کے پراسرار رازوں میں سے ایک تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق نے کسی حد تک اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

    مایا قوم ہسپانویوں کے حملے کا شکار بھی بنی اور ہسپانویوں نے انہیں بے تحاشہ نقصان پہنچایا، تاہم وہ اس قوم کو مکمل طور پر زوال پذیر کرنے میں ناکام رہے۔

    محققین کے مطابق ہسپانویوں کے قبضے کے دوران اور بعد میں بھی اس قوم کی ترقی کا سفر جاری تھا۔

    لیکن وہ کون سی وجہ تھی جس نے اس ذہین و فطین قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی تہذیب کے خاتمے کی عمومی وجوہات بیرونی حملہ آوروں کے حملے، خانہ جنگی، یا تجارتی طور پر زوال پذیر ہونا ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک اور وجہ بھی ہے جس پر اس سے قبل بہت کم تحقیق کی گئی یا اسے بہت سرسری سی نظر سے دیکھا گیا۔

    سنہ 1990 سے جب باقاعدہ طور پر موجودہ اور قدیم ادوار کے موسموں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا تب ماہرین پر انکشاف ہوا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اس عظیم تہذیب کے زوال کی وجہ بنا۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 250 عیسوی سے 800 عیسوی تک یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں بے تحاشہ بارشیں ہوتی تھیں، اور یہاں کی زمین نہایت زرخیز تھیں۔

    تاہم حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سنہ 820 عیسوی میں یہاں خشک سالی اور قحط کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا جو اگلے 95 سال تک جاری رہا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مایا تہذیب کے زیادہ تر شہر اسی عرصے کے دوران زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ یہ نویں صدی کا شدید ترین کلائمٹ چینج تھا جس نے ایک عظیم تہذیب کو زوال کی طرف گامزن کردیا۔

    تاہم اس قحط سے تمام شہر متاثر نہیں ہوئے۔ کچھ شہر اس تباہ کن قحط کے عالم میں بھی اپنے قدموں پر کھڑے رہے۔

    تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط پورے خطے میں نہیں آیا بلکہ اس نے مایا تہذیب کے جنوبی حصوں کو متاثر کیا جہاں اس وقت گوئٹے مالا اور برازیل کے شہر موجود ہیں۔

    اس عرصے کے دوران شمالی شہر معمول کے مطابق ترقی کرتے رہے اور وہاں کاروبار زندگی بھی رواں رہا۔

    ماہرین موسم کے اس انوکھے تغیر پر مشکوک ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ موسمیاتی تغیر صرف ایک حصے کو متاثر کرے جبکہ دوسرا حصہ ذرا بھی متاثر نہ ہو، تاہم وہ اس کلائمٹک شفٹ کی توجیہہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔


    عظیم قحط

    مایا تہذیب کے بارے میں حال ہی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط جب اختتام پذیر ہوا تو دسویں صدی میں موسم ایک بار پھر سے معمول پر آنے لگا۔ قحط سے متاثر شہر ایک بار پھر خوشحال اور زرخیز ہونے لگے۔

    تاہم یہ بحالی عارضی تھی۔

    گیارہویں صدی کے آغاز سے ہی ایک ہولناک اور تباہ کن قحط اس خطے میں در آیا کہ جو 2 ہزار سال کی تاریخ کا بدترین قحط تھا۔ ماہرین نے اس قحط کو عظیم قحط کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قحط اس تہذیب کے لیے ایک کاری وار تھا جس کے بعد یہ تہذیب سنبھل نہ سکی اور بہت جلد اپنے زوال کو پہنچ گئی۔

    مضمون بشکریہ: بی بی سی ارتھ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے ہماری زمین پر غیر فطری عوامل جیسے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرہ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔

    اسی صورتحال کی طرف توجہ دلانے کے لیے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ اینڈریاس لی نے جنگلی حیات کی دہری عکسی تصاویر تخلیق کی ہیں۔ جنگلی حیات کی تصاویر کی نمائش کا مرکزی خیال گلوبل وارمنگ تھا۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    ان کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث جنگلی حیات کی کئی اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اور انہوں نے اسی خطرے کو اجاگر کرنے کا سوچا۔

    انہوں نے اپنی نمائش میں 5 ایسے جانوروں کی دہرے عکس میں تصاویر پیش کیں جنہیں ماہرین خطرے کا شکار قرار دے چکے ہیں۔ ان جانوروں کو بدلتے موسموں کے باعث معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    art-5

    بارہ سنگھا۔

    art-1

    برفانی ریچھ۔

    art-2

    چیتا۔

    اینڈریاس نے ان جانوروں کی شبیہہ میں انہیں لاحق خطرات کو ایک اور عکس کی صورت میں پیش کیا۔

    art-3

    ہاتھی۔

    art-4

    برفانی چیتا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر جہاں دنیا بھر کی معیشت، امن و امان اور جنگلی حیات اور انسانوں کے لیے ایک خطرہ بنتا جارہا ہے وہاں ماہرین کے مطابق تاریخ و تہذیب بھی اس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث جہاں ایک طرف کئی شہروں کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ ظاہر کیا جاچکا ہے، وہیں حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث دنیا کے کئی تاریخی مقامات اور تہذیبی ورثے بھی معدوم ہوجائیں گے۔

    یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی تعلیم، سائنس اور تاریخ کے لیے کام کرنے والی ذیلی شاخ یونیسکو کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں ان مقامات کو لاحق مختلف بالواسطہ یا بلا واسطہ خطرات کا جائزہ لیا گیا اور ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کلائمٹ چینج ان میں سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ چونکہ تاریخی مقامات کو ان کی جگہ سے منتقل نہیں جاسکتا لہٰذا اس علاقہ کو لاحق موسمی خطرات جیسے قحط، سیلاب یا شدید موسم سے بچانا ناممکن ہے۔

    رپورٹ میں شامل کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار کچھ مقامات یہ ہیں۔

    مجسمہ آزادی ۔ نیویارک، امریکا

    cc 1

    یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ 225 ٹن تانبے اور لوہے سے بنے ہوئے اس مجسمے کو کسی قسم کے خطرے کا سامنا ہے مگر حقیقت یہی ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اور امریکا میں حالیہ چند برسوں میں آنے والے کئی طوفانوں نے اس مجسمے کو بھی خطرے کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    سنہ 2012 میں آنے والے سینڈی طوفان کے باعث وہ جزیرہ جس پر یہ مجسمہ قائم ہے، 75 فیصد سے زائد سمندر برد ہوچکا ہے جبکہ اس کے قریب واقع ایلس جزیرہ بھی تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق تاحال تو یہ مجسمہ کسی نقصان سے محفوظ ہے لیکن موسمی تغیرات کے باعث سطح سمندر میں اضافہ اور بڑھتے ہوئے طوفان اس کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔

    میسا وردی نیشنل پارک ۔ کولوراڈو، امریکا

    cc2

    کولوراڈو میں واقع تاریخی میسا وردی نیشنل پارک قحط کے باعث تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور بارشوں میں کمی کے باعث پارک میں واقع قدیم اور تاریخی درختوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    دوسری جانب درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث درختوں میں آگ لگنے کا خدشہ بھی ہے۔

    cc3

    خشک سالی کے باعث یہاں رہنے والے مقامی افراد پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں مٹی کے کٹاؤ کا عمل بھی جاری ہے جس کے باعث یہ پارک شدید خطرات کا شکار ہے۔

    کارٹیجینا کا قلعہ ۔ کولمبیا

    cc-4

    کولمبیا میں غرب الہند کے ساحل پر واقع کارٹیجینا کا قلعہ یہاں کے طویل عسکری استعماریت کا یادگار ہے۔ یہ ملک کے تاریخی و تفریحی مقامات میں سے ایک ہے اور سطح سمندر میں اضافے کے باعث تباہی سے دوچار ہے۔

    یہ قلعہ ابھی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تاہم اس کی بحالی کے لیے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔

    راپا نوئی نیشنل پارک ۔ چلی

    cc-5

    چلی کے مشرقی جزیرے میں واقع یہ نیشنل پارک کسی نامعلوم تہذیب کی یادگار ہے اور ماہرین ابھی تک مخمصہ کا شکار ہیں کہ یہاں بنائے گئے سر آخر کس چیز کی نشانی ہیں۔

    cc-7

    اس تہذیبی ورثے کو سمندر کی لہروں میں اضافے اور زمینی کٹاؤ کے باعث معدومی کا خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اس تہذیبی یادگار اور اس کے نیچے موجود جزیرے دونوں کے لیے خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    اسٹون ہینج ۔ انگلینڈ

    cc-6

    دس ہزار قبل مسیح کی نیولیتھک تہذیب کی یادگار پتھروں کا یہ مجموعہ جسے اسٹون ہینج بھی کہا جاتا ہے، خطرے کا شکار ہے۔ اس کی وجہ تو یہاں پائے جانے والے چھچھوندر ہیں تاہم ان کی افزائش کا سبب کلائمٹ چینج ہی ہے۔

    زمین میں کھدائی کرنے والے اس جانور کی افزائش درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث بڑھ رہی ہے جس سے اس تاریخی مقام پر زمینی کٹاؤ ہوسکتا ہے۔ انگلینڈ کی بارشیں اور ان کے باعث پیدا ہونے والے سیلاب بھی اس مقام کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    سائنسدانوں کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ گردوں کے امراض میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور پانی کی کمی کو گردوں کے شدید امراض کی وجہ بتایا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس کے باعث دیہاتوں میں رہنے والے افراد زیادہ متاثر ہوں گے۔

    امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ جانسن کا کہنا ہے کہ گرم علاقوں میں کلائمٹ چینج کے اثرات اور گرمی میں اضافہ گردوں کے شدید امراض پیدا کرے گا اور یہ پہلی بیماری ہوگی جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے وبائی صورت اختیار کرجائے گی۔

    تحقیق کے مطابق ان امراض سے کاشت کار زیادہ متاثر ہوں گے جو سخت گرمی کے دنوں میں بھی کھیتوں میں کام کریں گے۔

    تحقیق کرنے والوں سائنسدانوں نے بتایا کہ اس کا تعلق پانی کی کمی سے بھی ہوگا۔ بارشوں میں کمی، گرمی میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جب پانی کی قلت یا کمی ہوجائے گی تو گردوں کے امراض عام ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    کچھوا معدومی کے خطرے کا شکار جانور ہے جن کی نسل میں اضافے کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک میں کام کیا جارہا ہے۔

    کچھوے کے ننھے بچے نہایت کمزور جانور سمجھے جاتے ہیں جو حملہ آور کتے بلیوں اور انسانی شکاریوں کا آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں علاوہ ازیں مچھلی کے شکار کے کانٹے اور ساحلوں پر پھینکا جانے والا پلاسٹک بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تاہم موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج ان کے سامنے ایک اور خوفناک خطرے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔

    امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر آبی حیاتیات کرسٹین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرات دن کے اوقات میں ریت کو نہایت گرم کر دیتا ہے، اور یہ گرم ریت کچھوے کی مخصوص جگہوں پر اس کے انڈوں، یا ننھے بچوں کو جلا کر بھسم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ان کے مطابق گرم درجہ حرارت کے باعث دن کے اوقات میں ریت اس قدر گرم ہوجاتی ہے کہ اس میں بنائے گئے کچھوے کے گھروں میں کسی زندگی کے پنپنے کا امکان نہیں ہوسکتا۔

    کچھوے ریت کو کھود کر گڑھے کی صورت گھر بناتے ہیں جہاں مادہ کچھوا انڈے دیتی ہے

    ریت کے ان گھروں میں دیے گئے انڈے یا انڈوں سے نکلنے والے ننھے بچے اس گرمی کو برادشت نہیں کرسکتے لہٰذا وہ مر جاتے ہیں۔

    فلوریڈا کی اٹلانٹک یونیورسٹی کی ماہر حیاتیات جینیٹ کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے دوران ہمیں اکثر کچھوؤں کے مردہ انڈے ملتے ہیں۔

    یہ وہ انڈے ہوتے ہیں جن کے اندر موجود جاندار گرمی سے جل کر مر چکا ہوتا ہے۔

    کچھوے کے بچے انڈے کے اندر جل کر مر چکے ہیں

    انہوں نے بتایا کہ کچھ کچھوے ایسی صورتحال میں بھی انڈے سے نکل کر دنیا میں آنے میں کامیاب رہتے ہیں، لیکن وہ گرمی سے اس قدر بے حال ہوتے ہیں کہ فوراً پانی کی طرف بھاگتے ہیں، مگر راستے میں ہی مرجاتے ہیں۔


    زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جاندار خطرے میں

    اس سے قبل اسی نوعیت کی ایک تحقیق وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا میں بھی کی جاچکی ہے۔

    جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جانداروں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق شدید گرم موسم کے باعث اگلی صدی کے آغاز تک ایسے جانداروں کی ایک تہائی آبادی معدوم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    دوسری جانب کوسٹا ریکا میں ہی گرمی سے کچھوؤں کے مرنے کے واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔

    سنہ 2008 اور 2009 کے درمیان کوسٹا ریکا میں کچھوں کے انڈوں سے نکلنے کے موسم میں درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا جو نہایت غیر معمولی تھا۔

    اس گرمی نے کچھوؤں کی نئی آنے والی پوری نسل کا خاتمہ کر ڈالا اور ایک بھی ننھا کچھوا زندہ نہ بچ سکا۔


    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے غیر فطری طور پر کچھوؤں کو ان کی پناہ گاہوں سے منتقل کر کے نسبتاً سرد جگہوں پر منتقل کیا جائے۔

    تاہم ماہرین تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا کچھوے اس صورتحال سے مطابقت کرسکیں گے یا نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کچھوؤں کی زندگی میں انسانی مداخلت کی بدترین مثال ہوگی تاہم اگر موسم کے گرم ہونے کی یہی شرح جاری رہی تو ان کی زندگیاں بچانے کے لیے یہ اقدام ناگزیر ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔