Tag: Climate Change

  • کلائمٹ چینج کے باعث آم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ

    کلائمٹ چینج کے باعث آم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ

    لاہور: موسم گرما میں آموں کی سوغات پاکستان کی پہچان ہے لیکن ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ رواں سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی وجہ سے آموں کی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق رواں برس ملک کے لیے کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک بدترین سال رہا اور کلائمٹ چینج سے بے شمار نقصانات ہوئے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کے غیر معمولی تغیر نے ملک کی بیشتر غذائی فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈالا ہے اور انہیں نقصان پہنچایا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا ضروری

    ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج نے اس بار جنوبی پنجاب کے ان حصوں کو شدید متاثر کیا ہے جہاں آموں کے باغات ہیں۔

    ان علاقوں میں خانیوال، ملتان، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان شامل ہیں۔

    ان کے مطابق اس حوالے سےصوبہ سندھ نسبتاً کم متاثر ہوا ہے تاہم پنجاب کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس آم کی مجموعی پیداوار 17 لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی تھی جس میں سے دو تہائی پیداوار پنجاب اور ایک تہائی سندھ میں ہوئی۔

    سید فخر امام کے مطابق سندھ میں تو نہیں، البتہ پنجاب میں رواں سال آموں کی پیداوار شدید متاثر ہوجائے گی۔

    پاکستان آم کا اہم برآمد کنندہ

    پاکستان دنیا بھر میں آموں کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کل پیداوار کا 7 فیصد حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔

    یہ برآمدات یورپ سمیت 47 ممالک کو کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال ان برآمدات میں 16 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ اس سال آم کی برآمدات ممکن نہیں ہوسکے گی۔

    مزید پڑھیں: پاکستان سے موسم بہار ختم ہونے کا خدشہ؟

    ان کے مطابق رواں برس مطابق پنجاب میں آم کی اوسط پیداوار میں نصف کمی ہوجائے گی جس کے بعد اسے برآمد کرنا ناممکن ہوجائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ رواں سال مارچ کا مہینہ نسبتاً ٹھنڈا تھا اور اس کے بعد شدید گرد و غبار کے طوفان اور اچانک گرمی میں غیر معمولی اضافہ، وہ وجوہات ہیں جنہوں نے آم سمیت کئی غذائی فصلوں کو متاثر کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آم کی پیداوار اور برآمدات متاثر ہونے سے نہ صرف قومی معیشت کو دھچکہ پہنے گا بلکہ ان ہزاروں افراد کا روزگار بھی متاثر ہوگا جو اس پیشے سے وابستہ ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صاف پانی کے لیے قطب جنوبی سے گلیشیئر یو اے ای لانے کا منصوبہ

    صاف پانی کے لیے قطب جنوبی سے گلیشیئر یو اے ای لانے کا منصوبہ

    گزشتہ چند دہائیوں کے اندر ترقی کی بلندیوں کو چھونے والے متحدہ عرب امارات نے پینے کے پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے ایک انوکھا اور اچھوتا طریقہ منتخب کیا ہے.

    متحدہ عرب امارات کی جانب سے تازہ پانی حاصل کرنے کے لیے پیش کیے گئے دنیا کے سب سے عظیم منصوبے کے تحت براعظم انٹارکٹیکا سے برف کا بہت بڑا تودہ کھینچ کر یو اے ای لایا جائے گا۔

    بادی النظر میں یہ ایک خام خیالی ہوسکتی ہے تاہم متحدہ عرب امارات کی حکومت اس مںصوبے پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہے۔

    تودہ بندرگاہ فجیرہ لایا جائے گا

    نیشنل ایڈوائزر بیورو لمیٹڈ  کمپنی کے مطابق انٹار کٹیکا سے برف کا تودہ بحری جہاز کے ذریعے کھینچ کر متحدہ عرب امارات کی مشرقی ساحلی بندرگاہ فجیرہ لایا جائے گا جسے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پینے کے پانی میں تبدیل کیا جائے گا اور شہر بھر میں تقسیم کیا جائے گا۔

    12ہزار کلومیٹر کا فیصلہ، ایک تہائی گلیشیئر پگھل جائے گا

    اس بندرگاہ اور انٹارکٹیکا کے درمیان 12 ہزار 600 کلومیٹر طویل فاصلہ ہے، لایا گیا گلیشئر ایک تہائی کے قرب پگھل جائے گا تاہم دو تہائی حصہ قابل استعمال ہوگا۔

    20 ارب گیلن پانی 10 لاکھ افراد کی 5سالہ ضرورت کے لیے کافی ہوگا

    کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ محمد سلیمان نے گلف نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک اوسط برف کے تودے سے 20 ارب گیلن پانی حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ 10 لاکھ افراد کے لیے پانچ برس تک کافی رہے گا۔


    برفانی تودے کی منتقلی اور پینے کے پانی میں تبدیلی سے متعلق ویڈیو خبر کے آخر میں ملاحظہ کریں


    گلیشئر لانے سے بارشوں کا امکان بڑھتا ہے

    انہوں نے مزید کہا کہ برفانی تودہ صرف پینے کے پانی کے حصول کا باعث نہیں بنے گا بلکہ وہ خطے میں موسمی تغیرات کا باعث بھی بنتے ہیں جن سے بارش برسنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 80 فیصد گلیشیئر زیر آب رہتے ہیں جس کے باعث انہیں پگھلنے میں وقت لگتا ہے جب کہ بالائے آب گلیشیئرکے حصہ سورج کی روشنی اور گرمی کی وجہ سے بخارات میں تبدیل ہو کر فضا کا حصہ بن جاتے ہیں اور جلد پگھل جاتے ہیں۔

    سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا

    انہوں نے مزید کہا کہ ساحل پر تیرتے برفانی تودے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جس سے سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا اور سیاحوں کی بڑی تعداد متحدہ عرب امارات کا رخ کریں گے۔

    پروجیکٹ 2018ء میں شروع ہوگا

    کمپنی کے سربراہ کا پروجیکٹ کے آغاز کے حوالے سے کہنا تھا کہ برفانی تودے کو انٹارکٹیکا سے متحدہ عرب امارات کے ساحلی علاقے تک لانے اور پھر سے پینے کے پانی میں تبدیل کرنے کے پروجیکٹ کا آغاز 2018 کے اوائل میں کیا جائے گا۔

    سمندری پانی کو میٹھا بنانے کا خرچ گلیشئر لانے سے زیادہ ہے

    خیال رہے  کہ دنیا بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد ملازمت کے حصول کے لیے متحدہ عرب امارات کا رخ کرتی ہے جس کے باعث آبادی میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کی ریگستانی علاقہ ہونے کی وجہ سے پینے کے پانی کی قلت پہلے ہی سر اٹھائے کھڑی ہے اور سمندری پانی کو پینے کے لائق بنانے میں اخراجات زیادہ ہوجاتے ہیں۔

     قبل ازیں متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ محمد راشد المکتوم نے مریخ پر شہر آباد کرنے کا حیرت انگیزاعلان بھی کیا ہے تاہم مریخ پر آبادی کے منصوبے پر عمل درآمد ہم میں سے کسی کی بھی زندگی میں تو ممکن نہیں کئی نسلوں کے بعد اس منصوبے پر عمل کیا گیا تو الگ بات ہے۔

    لنک پر کلک کریں: متحدہ عرب امارات کا مریخ پر انسانی شہر آباد کرنے کا اعلان


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں پھر ہیٹ ویو کا امکان

    کراچی میں پھر ہیٹ ویو کا امکان

    کراچی: صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی رواں برس مئی اور جون میں ایک بار پھر ہیٹ ویو کا نشانہ بن سکتا ہے۔ محکمہ موسمیات نے مئی اور جون میں گرمی میں اضافے کا الرٹ جاری کردیا۔

    محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ شہر قائد مئی اور جون میں شدید گرمی کی لپیٹ میں آجائے گا اور ان 2 ماہ میں موسم خشک رہے گا۔

    ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق کراچی میں درجہ حرارت 2 سے 3 مرتبہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاسکتا ہے۔

    محکمہ موسمیات کراچی میں گرمی بڑھنے اور ہیٹ ویو کے خطرہ کی صورت میں 3 روز قبل الرٹ جاری کرے گا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاؤ

    یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے سال کے آغاز میں ہی انتباہ کردیا تھا کہ رواں برس ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا۔

    ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات گزشتہ برس اگست کے بعد سے واضح طور پر سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔

    کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے اس بار موسم سرما کے معمول میں تبدیلی ہوئی اور جنوری کے آخر میں شدید سردیوں کا آغاز ہوا۔ اب جبکہ موسم گرما اپنے عروج پر ہے تو اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کم کرنے کے طریقے

    ماہرین متفق ہیں کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے کراچی میں ہیٹ ویو اب ہر سال معمول کی بات بن جائے گی اور اس سے مطابقت کرنے کے لیے حکومت اور عام افراد کو فوری طور پر طویل المدتی اقدامات کرنے ضروری ہیں۔

    یاد رہے کہ سنہ 2015 میں بھی کراچی کو گرمی کی قیامت خیز لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔

    اسلام آباد بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں

    ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی کلائمٹ چینج کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں اور وہاں بھی گرمی میں اضافہ ہورہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں سنہ 2006 میں درجہ حرات 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا اور یہ اپریل کے آخر میں ہوا تھا۔

    تاہم رواں برس اپریل کے وسط میں ہی اسلام آباد کا درجہ حرات 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    مزید پڑھیں: سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    ماہرین اس گرمی میں اضافے کی وجہ موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کو قرار دے رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ کلائمٹ چینج کے نقصانات کا سامنا کرنے کے حوالے سے پاکستان پہلے 10 ممالک میں شامل ہے اور اس کا سب سے بدترین نقصان پورے ملک کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے جو پانی کے ذخائر اور زراعت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ماحولیات اور کلائمٹ سے متعلق تعلیم اور شعور و آگاہی کا فروغ ہے۔ ماحولیات اور خاص طور پر کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیرات) کے بارے میں تعلیم اور آگاہی حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ دن بدن بڑھتے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سدباب کیے جاسکیں۔

    تحفط ماحولیات کا شعور پاکستان میں کس طرح ممکن؟

    ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ایک حقیقیت ہے اور حقیقت کا ادارک نہ کیا جائے، اس سے آگاہی حاصل نہ کی جائے تو وہ نقصان دہ بن جاتی ہے۔ ’ماحولیات اور خصوصاً کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی کا فروغ وقت کی ضرورت بن چکا ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب وغیرہ یہ سب موسمیاتی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ ایسے میں ہم مشکل صورتحال پیش آنے کے بعد اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں جبکہ یہ کام سارا سال ہونا چاہیئے۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہماری جامعات میں انوائرنمنٹ اسٹڈیز کے الگ سے شعبے بنا دیے گئے ہیں۔ یہ تعلیم اس شعبے میں مہارت تو فراہم کرتی ہے لیکن صرف چند لوگوں کو، ان کے علاوہ ہماری عوام کی بڑی تعداد ماحولیات کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے‘۔

    ان کے مطابق اب جبکہ یہ وقت کی ضرورت بھی بن چکی ہے، تو ماحولیات کو ایک الگ مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچوں میں پہلے دن سے تحفظ ماحولیات اور تحفظ فطرت کا شعور اجاگر ہو سکے۔

    آگاہی کے ذرائع

    رفیع الحق نے ایک اور امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جب ہم اخبارات کے ذریعہ آگاہی کو فروغ دیتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری عوام کی اکثریت اخبار نہیں پڑھ سکتی۔ ’ہمیں ابلاغ کے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو سب کی پہنچ میں ہوں‘۔

    اس ضمن میں ٹی وی پر اشتہارات، دستاویزی فلمیں نشر کرنا، اور ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں ٹی وی بھی میسر نہ ہوں، مسجدوں سے اعلان کروانا، یا وہاں موجود سرکاری محکموں کے توسط سے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ان کا کہنا ہے، ’اگر ہم یہ سب نہیں کریں گے، تو پھر وہی صورتحال ہوگی جو سنہ 2015 میں کراچی کی ہیٹ ویو کے دوران پیش آئی اور 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ ان کے شہر میں آفت کی صورت نازل ہونے والی یہ گرمی کیا ہے، اور کس قدر خطرناک ہے، تو وہ کیوں گھر سے باہر نکل کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے؟

    زمین کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنی زمین اور فطرت کا تحفظ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ چند معمولی باتیں جو بظاہر بہت عام سی لگتی ہیں بعض دفعہ ہمارے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے کام کریں گے، تو یقیناً ہم اپنی ماں زمین کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    غیر ضروری روشنیاں بند کریں۔ مختلف ساکٹس کے بٹن بھی بند رکھیں۔ کھلے بٹنوں کی وجہ سے ساکٹس توانائی خارج کرتے ہیں جو بجلی کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔

    اپنے گھر اور گھر سے باہر جہاں ممکن ہو وہاں پودے اگائیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کیا گیا آگاہی پوسٹر

    بہت سارے پودے اگا کر انہیں خراب ہونے کے لیے چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ کم از کم ایک یا 2 پودے اگائے جائیں تاکہ ان کی دیکھ بھال کر کے انہیں تناور درختوں میں تبدیل کیا جائے۔

    جتنا ممکن ہو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہر شخص کی انفرادی گاڑی ماحول میں فضائی آلودگی اور زہریلی گیسیں شامل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

    پرانے اخبارات کو ردی میں پھینکنے کے بجائے انہیں مختلف کاموں میں استعمال کریں۔ اس طرح سے آپ درختوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    کچرے کو بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے اور جگہ جگہ کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے۔

    پانی کا احتیاط سے استعمال کریں۔ برش کرتے ہوئے نلکا بند کردیں۔

    گوشت کی نسبت پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار ہماری زمین کو نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس گوشت کے ذرائع مختلف جانور درخت اور پتے کھا کر ہمیں گوشت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔

    کاغذ کم سے کم ضائع کریں۔ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں لہٰذا کاغذوں کا ضیاع کرنے سے گریز کریں۔ ایک صفحے کی دنوں جانب لکھائی کے لیے استعمال کریں۔

    مختلف اشیا کو ری سائیکل کریں یعنی انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں۔

    پلاسٹک کی اشیا خصوصاً تھیلیوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ یہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ان کی جگہ مختلف ماحول دوست میٹیریل سے بنے بیگز استعمال کریں۔

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    اپنے بچوں کو بچپن سے ماحول دوست بننے کی تربیت دیں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    ہزاروں سال سے دریاؤں کا ایک مخصوص راستے پر بہنا ایک قدرتی عمل ہے، اور اس راستے میں تبدیلی آنا، یا پلٹ کر مخالف سمت میں بہنا بھی کسی حد تک قدرتی عمل ہے، لیکن اس کی وجہ جغرافیائی عوامل ہوتے ہیں۔

    تاہم کینیڈا کا یوکون دریا صرف چند ماہ کے اندر اپنا رخ مکمل طور پر تبدیل کر چکا ہے اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ہے۔

    اس دریا کے بہاؤ میں غیر معمولی تبدیلی اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئی جب اس کا منبع جو کہ ایک گلیشیئر تھا، اپنی جگہ سے کھسک گیا جس کے بعد گلیشیئر سے بہنے والا پانی دوسرے دریا میں گرنے لگا۔

    اس سے یوکون کی سب سے بڑی جھیل کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی اور سارا میٹھا پانی اب سمندر کی بجائے الاسکا کے جنوب میں بحرالکاہل میں گرنے لگا ہے۔

    مزید پڑھیں: صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

    ماہرین کے مطابق اس گلیشیئر سے پگھلنے والی برف کا بہاؤ شمال کی جانب ہوتا تھا مگر موسمیاتی تغیرات کے سبب برف کی تہہ پگھل کر کم ہوئی اور اب یہ پانی جنوب کی جانب بہنے لگا ہے۔

    اب اس مقام پر، جہاں دریا کا بہاؤ نہیں ہے، پانی کی سطح کم ہورہی ہے اور دریا کی تہہ میں پڑے پتھر اور پتھریلی زمین ظاہر ہورہی ہے۔

    سائنسدانوں نے اسے دریا کی ہائی جیکنگ قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے ایک دریا کا دوسرے دریا کے پانی اور بہاؤ پر قبضہ کر لینا۔

    دریا کے بہاؤ پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اب دریا کا بہاؤ ہمیشہ اسی صورت رہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے سندھ نے زمین نگلنا شروع کردی

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر کسی دریا کے پانی کے بہاؤ کا رخ بدلنے کا عمل ہزاروں لاکھوں سال میں انجام پاتا ہے اور اس کی وجہ زیر زمین پلیٹوں کی تبدیلی یا ہزاروں لاکھوں برس تک زمین کا کٹاؤ رونما ہونا ہے۔

    تاہم یوکون دریا کے بہاؤ میں تبدیلی صرف چند ماہ میں رونما ہوئی ہے جو تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے اور اس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے سرد ترین مقام کی برف پگھلنا شروع

    دنیا کے سرد ترین مقام کی برف پگھلنا شروع

    جاپان کے شہر توکا ماچی کا شمار دنیا کے برفیلے ترین مقامات میں سے ایک ہوتا ہے۔ البتہ اس مقام کے قریب ایک اور چھوٹا سا گاؤں ہے جو اس شہر سے بلندی پر واقع ہے، اور وہاں کس قدر برف پڑتی ہے؟ آج تک اس کی پیمائش نہیں کی گئی۔

    جاپان کے شہر توکا ماچی سے 15 سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ گاؤں تاکا کرا کہلاتا ہے۔

    توکا ماچی میں تو سالانہ 460 انچ برف پڑتی ہے، البتہ تاکا کرا میں کتنی برف پڑتی ہے اس کا تعین آج تک نہ کیا جاسکا، البتہ سطح سمندر سے مزید بلند ہونے کے باعث یہاں توکا ماچی سے کہیں زیادہ برف پڑتی ہے۔

    جاپان کے نوبل انعام یافتہ مصنف نے ایک بار اس جگہ کا دورہ کیا تو انہوں نے لکھا، ’تاروں بھری رات میں زمین سفید لبادہ اوڑھے لیٹی نظر آتی ہے‘۔

    تاہم اب ماہرین موسمیات و ماحولیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کو متاثر کرنے والا کلائمٹ چینج اس مقام پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اور اب یہاں برفباری کی اوسط میں کمی آرہی ہے۔

    مزید پڑھیں: برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاکا کرا کی آبادی صرف 14 افراد پر مشتمل ہے جبکہ توکا ماچی میں 54 ہزار کے قریب لوگ مقیم ہیں، یہ تمام لوگ اس برفانی موسم کے عادی ہیں اور اس کے مطابق اپنا طرز زندگی تشکیل دے چکے ہیں۔

    تاہم اب یہاں کا درجہ زیادہ ہونے کے باعث انہیں طبی مسائل پیش آسکتے ہیں جبکہ اس سخت موسم کے مطابق بنایا گیا ان کا ذریعہ روزگار بھی خطرات کا شکار ہے۔

    یاد رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کے برفانی مقامات شدید خطرات کا شکار ہیں اور یہاں رہنے والی جنگلی و آبی حیات کو بھی معدومی کا خدشہ ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں جس کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافے کا امکان ہے اور یوں تمام دنیا کے ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق قطب شمالی کی برف بھی پگھل رہی ہے اور گزشتہ سال صرف مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔

    جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    برف کے اس قدر پگھلاؤ کے بعد اب ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک

  • پاکستان کے گلیشیر پگھل رہے ہیں‘ آگاہی ضروری ہے

    پاکستان کے گلیشیر پگھل رہے ہیں‘ آگاہی ضروری ہے

    گلگت: ضلع گانچھے کے ایک چھوٹے سے گاؤں‘ سکسا میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں مقامی آبادی کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے انسانی زندگی پر اثرات سے آگاہ کیا گیا۔

    ورکشاپ کا انعقاد بین الاقوامی ادارہ ماؤنٹین گلیشر پروٹیکشن آرگنائزینشن کی جانب سے کیا گیا۔ ورکشاپ میں ماہرینِ ماحولیات نے درختوں کی اہمیت، صاف پانی اور اوزون سطح کے بچاؤ کے حوالے سے تدابیر پر روشنی ڈالی۔

    echo-1

    اس موقع پر نثار علی جو کہ مقامی سکول میں استاد بھی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ عوام کو موسمیاتی تبدیلوں اور ان کے ایک عام آدمی کی زندگی پر اثرات کے حوالے سے آگاہ رکھا جا سکے ۔

    گاوں کی مقامی تنظیم کے منتظم اعلیٰ حسن خان نے بھی اس ورکشاپ کو سراہا اور بین الاقوامی ادارے کی جانب سے آئے ہوئے افراد کا شکریہ ادا کیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان کے شمالی علاقے جہاں قطبوں کے بعد کرہ ارض کے سب سے بڑے گلیشیرز پائے جاتے ہیں اس وقت دنیا میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے وقوع پذیر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔

    echo-2

    گزشتہ چند سالوں کے دوران علاقے میں بڑے پیمانے پر سیلاب اور لینڈ سلائڈنگ کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے قدرتی آفات کے واقعات نے مقامی آبادی کو سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے اور ضروری ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے سامنا کرنے کے طریقے سیکھیں۔

    یاد رہے کہ ماؤنٹین گلیشر پروٹیکشن آرگنائزینشن کی جانب سے علاقے میں وسیع پیمانے پرزراعت کے فروغ کیلئے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کرپانی کی فراہمی کو بھی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔

  • سعودی عرب میں‌ برفباری، ریگستانوں نے سفید چادر اوڑھ لی

    سعودی عرب میں‌ برفباری، ریگستانوں نے سفید چادر اوڑھ لی

    ریاض: سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں سردی کے آغاز پر برفباری کے بعد سنگلاخ چٹانوں اور ریگستانی میدانوں نے سفید چادر اوڑھ لی جبکہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے آگیا ۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں رواں سال سردیوں کا آغاز برفباری کے ساتھ ہوا جس کے باعث شہریوں کی معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوئے۔

    saudi-post-4

    برفباری شروع ہونے کے بعد درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے آگیا تاہم عرب کے باشندے موسم اور برفباری سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ عرب محکمہ موسمیات کے مطابق برفباری کا سلسلہ وسطی اور شمالی علاقوں میں جاری ہے۔

    saudi-post-3

    محکمہ موسمیات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے وسطی شہر شقراء اور شمالی شہر تبوک میں تیز بارشوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کے باعث سیلاب کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے جبکہ حائل ، الجوف، موقق کے علاقوں میں برفباری کے باعث درجہ حرارت منفی 3 ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔
    saudi-post-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے ہر خطے کا موسم تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ، جس کے باعث جن علاقوں میں بارشیں برفباری نہیں ہوتی تھی وہاں اب بارشیں متوقع ہیں۔

    saudi-post-1

  • کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کراچی: 2015 کا سال کراچی کے لیے ایک ’انوکھا‘ سال تھا۔ اس سال جب رمضان شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی قیامت خیز گرمی شروع ہوگئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 1 ہزار سے زائد جانیں لے لیں۔ اس قدر شدید گرمی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک بالکل نئی بات تھی چنانچہ اسے سمجھنے اور اس سے بچاؤ کے اقدامات اٹھانے میں وقت لگا اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

    شہر میں ہنگامی بنیادوں پر سرکاری و نجی اسپتالوں میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے اور 3 دن بعد جب ہیٹ ویو ختم ہوئی تو یہ اپنے ساتھ 1700 جانیں لے چکی تھیں۔

    گرمی کی اس شدید لہر نے تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو اب ہر سال کراچی کے موسم کا حصہ ہوں گی اور یہ لہر ایک بار نہیں بلکہ بار بار آئیں گی۔ اس وارننگ نے سب کو اور پریشان کردیا۔

    بہرحال 2016 کے آغاز سے ہی ہیٹ ویو کے خلاف مؤثر اقدامات شروع کردیے گئے اور بڑے پیمانے پر آگہی مہمات چلائی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رواں برس اب تک آنے والی ہیٹ ویو میں صرف 3 افراد ہلاک ہوئے۔

    ہیٹ ویو کیا ہے؟

    کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے، جو ایک صنعتی حب بن چکا ہے اور درختوں کی کٹائی روز بروز جاری ہے، اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ ہیٹ ویو کیا ہے؟

    ہیٹ ویو موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے باعث پیدا ہونے والا ایک عمل ہے۔ کسی مقام کے ایک اوسط درجہ حرارت میں 5 سے 6 ڈگری اضافہ ہوجائے، ساتھ ہی ہوا بند ہوجائے، اور یہ عمل مستقل 3 سے 5 دن جاری رہے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔ اس کا پیمانہ ہر مقام کے لیے مختلف ہے۔

    مثال کے طور پر نیدرلینڈز میں واقع ڈی بلٹ علاقہ کا اوسط درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اگر اس کا درجہ حرارت بڑھ کر 30 ہوجائے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاسکتا ہے۔

    کراچی کا جون (گرمی) کے مہینے میں اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن گذشتہ برس یہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا جس نے شہر کو تپتے دوزخ میں تبدیل کردیا۔

    عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ؟

    اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی صنعتی ترقی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مسائل کا بھی آغاز ہوگیا جس میں سے ایک آبادی کا دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنا تھا۔ اس سے شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، رہائش و دیگر سہولیات کے لیے تعمیرات شروع ہوئیں جس کے لیے درختوں، جنگلوں کو کاٹا گیا اور پارکس کی جگہ ختم کی گئی، شہر کے انفراسٹرکچر پر منفی اثر پڑا اور شور، فضا کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

    ان صنعتوں سے جن گیسوں کا اخراج شروع ہوا اس نے شہر کی فضا کو آلودہ کیا، انسانوں کی صحت پر منفی اثر ڈالا، جنگلی حیات کو نقصان پہنچایا، اور مجموعی طور پر شہروں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

    ان گیسوں نے اوزون کی تہہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اوزون آسمان کے نیچے وہ تہہ ہے جو سورج کی روشنی کو براہ راست زمین پر آنے سے روکتی ہے۔ اس تہہ کی خرابی سے بھی سورج کی روشنی زمین پر زیادہ آنے لگی اور یوں گرمی میں اضافہ ہوگیا۔

    کراچی اس حوالے سے دہرے خطرات کا شکار ہے۔ ایک جانب میٹرو پولیٹن شہر ہونے کے باعث عمارتوں کا جنگل ویسے ہی اس شہر کی سانس بند کیے ہوئے ہے، دوسری جانب چونکہ یہ ساحلی شہر ہے، اور گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے، تو کراچی کو ایک بڑے سونامی کا بھی خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافے کے باعث کراچی کے کئی ساحلی گاؤں اپنی زمین کھو چکے ہیں جبکہ کچھ دیہاتوں کا اگلے چند سالوں میں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا امکان ہے۔

    گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    کراچی ہیٹ ویو سے کیسے نمٹا گیا؟

    تاہم یہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ بھی شہروں کی نفسیات تبدیل کردے گا اور انہیں اپنے ترقیاتی منصوبے اس اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانے ہوں گے۔

    یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ 2015 میں کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو پر کس طرح قابو پایا گیا۔

    سال 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کے بعد ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ لہر اگلے سال، اور ہر سال آئے گی اور کراچی کے شہریوں کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ چنانچہ 2016 کے آغاز سے ہی تمام متعلقہ ادارے الرٹ تھے اور شروع سال سے ہی اس پر کام ہو رہا تھا۔

    گرمیوں کے آغاز سے ہی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کردی گئی جس میں لوگوں کو ہیٹ ویو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر، اس کا شکار ہونے کی صورت میں اس کی علامات اور اس کے بعد جان بچانے کے اقدامات اٹھانے کے بارے میں بتایا گیا۔

    ان آگاہی پیغامات میں لوگوں کو دن کے اوقات میں گھر سے باہر نکلنے، دھوپ کے چشمے اور ہیٹ استعمال کرنے، پانی زیادہ پینے، زیادہ مشقت کا کام نہ کرنے کا کہا گیا جبکہ ہیٹ ویو کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں قریبی ہیٹ ریلیف سینٹرز کے بارے میں بتایا گیا۔

    محکمہ موسمیات کو الرٹ رکھا گیا جس کے باعث ہیٹ ویو شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی عوام کو آگاہ کردیا گیا۔

    حکومت کی جانب سے ڈیزاسٹر ریلیف مینجمنٹ کے تحت سرکاری اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کیے گئے۔ گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے باعث اسکول اور کالجوں میں بھی یہ سینٹرز قائم کیے گئے۔

    مختلف تنظیموں کی جنب سے شہر بھر میں واٹر اسپاٹس قائم کردیے گئے جہاں سے ہیٹ ویو کے دنوں میں شہروں کو مفت پانی کی بوتلیں فراہم کی گئیں۔

    مختلف سرکاری و غیر سرکاری ایمبولینس سروسز بھی الرٹ رہیں جس کے تحت تمام علاقوں کے مرکزی مقامات پر تیار ایمبولینس کھڑی رہیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں فوری مدد کو پہنچا جاسکے۔

    ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات کی وجہ چونکہ درختوں اور سایہ دار جگہوں کی عدم فراہمی تھی لہٰذا کمشنر کراچی کی جانب سے کسی بھی مقام پر درخت کٹنے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا گیا اور اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن 1299 قائم کی گئی جس پر درخت کٹنے کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔

    چونکہ عوام خود بھی ہیٹ ویو کی تباہ کاری سے خوف زدہ تھی چنانچہ رواں برس تمام احتیاطی تدابیر اٹھائی گئیں اور یوں 2015 کی 1700 اموات کے مقابلے اس سال ہیٹ ویو سے صرف 3 اموات ہوئیں۔

    یہاں کراچی کے جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا ذکر ضروری ہے جن کے مطابق ’کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کے باعث اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوا بنانے کی ضرورت نہیں۔ خوف مت پھیلائیں، آگہی پھیلائیں کہ لوگوں کو کیسے بچنا ہے‘۔

    مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماحولیاتی شعبہ میں دو اصلاحات استعمال کی جاتی ہیں، مٹی گیشن یعنی کمی کرنا اور ایڈاپٹیشن یعنی مطابقت پیدا کرنا۔

    کلائمٹ چینج ایک نیم قدرتی عمل ہے چنانچہ اسے روکنا یا اس میں کمی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس سے مطابقت پیدا کرنی ازحد ضروی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کی ہیٹ ویو پر اٹھائے جانے والے تمام اقدامات عارضی ہیں اور کسی خاص موقع پر انہیں اپنا کر زندگیاں تو بچائی جا سکتی ہیں تاہم مستقل بنیادوں پر گلوبل وارمنگ سے مطابقت کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے شہر کو ایک طویل المعیاد اور پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں ماحولیاتی خطرات کو سرفہرست رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    موسم کی شدت سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ماہرین کچھ تجاویز اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

    شہر بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔ کراچی میں شجر کاری تو کی جارہی ہے مگر بدقسمتی سے لگائے جانے والے درخت کونو کارپس کے ہیں۔ کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ یہ کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ کونو کارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ نیم کے درخت لگائے جائیں جو شہر کے درجہ حرارت کو معتدل رکھیں گے۔

    پرانی نہروں اور ندیوں کا احیا کیا جائے۔ یہاں کراچی کی ایک مشہور نہر ’نہر خیام‘ کا تذکرہ ضروری ہے جو حکومت اور عوام کی غفلت کے باعث گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہی حال لیاری ندی کا ہے جبکہ کراچی کی ایک بڑی ملیر ندی میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی خارج کیا جاتا ہے۔

    ہیٹ ریلیف سینٹرز کو سال بھر فعال رکھا جائے اور بڑے پیمانے پر ڈاکٹرز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے۔

    محکمہ موسمیات کو تمام جدید ٹیکنالوجیز سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ بر وقت موسم کی شدت سے خبرادر کر سکیں۔

    حکومتی اداروں جیسے کے الیکٹرک اور مقامی واٹر بورڈ کے سیاسی استعمال سے گریز کیا جائے اور ان کی استعداد بڑھائی جائے تاکہ گرمی کے دنوں میں یہ عوام کو بجلی اور پانی فراہم کر سکیں۔

    سایہ دار جگہیں قائم کی جائیں۔ اس کی ایک مثال بھارت کے شہر ناگپور میں دیکھی گئی جہاں سگنلز پر سبز ترپال تان دیے گئے۔ یوں یہ سنگلز سایہ فراہم کرنے والے مقامت بن گئے۔ اس تدبیر سے ٹریفک قوانین کی عملداری میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔

    ماہرین گرمی سے بچاؤ کی ایک تجویز گرین روف ٹاپ بھی دیتے ہیں۔ یہ طریقہ اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے۔ اس کے ذریعہ گھروں کی چھتوں پر سبز گھاس، درخت اور پھول پودے لگائے جاسکتے ہیں جس سے گھر قدرتی طور پر ٹھنڈے رہیں گے اور پنکھوں اور اے سی کا استعمال بھی کم ہوگا۔

    ایک اور طریقہ ورٹیکل یا عمودی گارڈننگ کا بھی ہے۔ اس کے ذریعہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دیواروں میں بیلیں اور سبزہ اگایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی گھروں اور دفتروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ اگلے چند سال میں دنیا کے لیے امن و امان اور دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں فطرت میں تبدیلی دنیا میں غربت، بے روزگاری، شدت پسندی اور جنگوں کو فروغ دے سکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے مطابقت پیدا کی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔

  • وزیراعظم نوازشریف کی نریندر مودی سے پیرس میں غیر رسمی ملاقات

    وزیراعظم نوازشریف کی نریندر مودی سے پیرس میں غیر رسمی ملاقات

    پیرس: پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اوران کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان پیرس میں غیررسمی ملاقات ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے اعظم عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کے لئے پیرس میں موجود ہیں۔

    ماحولیاتی کانفرنس کے اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف اورنریندر مودی نے آپس میں مصافحہ کیا اوران کے درمیان غیررسمی ملاقات ہوئی۔

    بھارتی دفترِ خارجہ نے پاکستانی وزیراعظم اوران کے بھارتی ہم منصب کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تصدیق کی ہے۔

    دونوں وزرائے اعظم نےایک صوفے پر بیٹھ کرخوشگوار موڈ میں بات چیت کی۔

    واضح رہے کہ پیرس میں آج سے شروع ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں دنیا بھر سے 150 سربراہان مملکت و نمائندگان شرکت کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم نوازشریف مالٹا میں دوروزہ کامن ویلتھ سربراہ کانفرنس میں شرکت کرکے فرانس پہنچے ہیں۔