Tag: Climate Change

  • گرمی کی شدید لہر نے ایشیا سمیت دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو لپیٹ میں لیا، ریکارڈ ہلاکتیں

    گرمی کی شدید لہر نے ایشیا سمیت دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو لپیٹ میں لیا، ریکارڈ ہلاکتیں

    رواں برس گرمی کی شدید لہر نے ایشیا سمیت دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو لپیٹ میں لیا، جس سے ریکارڈ ہلاکتیں ہوئیں۔

    موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے پیش نظر دنیا بھر میں ہیٹ ویو سے نصف سے زائد آبادی پریشان ہے، دنیا کے 60 فی صد لوگوں نے 16 جون سے 24 جون تک انتہائی بلند درجہ حرارت میں گزارے۔

    بین الاقوامی علمی ادارے ’ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن‘ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نے مہلک ہیٹ ویوز کی تشکیل کی، جس نے پورے ایشیا میں لاکھوں لوگوں کو انتہائی حد تک متاثر کیا۔ اپریل کے دوران اور مئی 2024 تک جاری رہنے والی انتہائی ریکارڈ توڑ گرمی نے پورے ایشیائی براعظم پر شدید اثرات مرتب کیے۔

    ایشیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اپریل 2024 میں شدید گرمی نے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو متاثر کیا، جس سے بھارت، فلپائن، بنگلادیش، انڈونیشیا، ملائیشیا اور میانمار جیسے ممالک متاثر ہوئے۔ گرمی کی ان لہروں نے دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں کو بری طرح متاثر کیا، جس سے صحت، معیشت اور تعلیم کے شعبوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا۔

    دنیا میں اس دوران 5 ارب افراد انتہائی درجہ حرارت میں رہے، بھارت میں اب تک کی سب سے طویل ہیٹ ویو ریکارڈ کی گئی جو مئی کے وسط میں شروع ہوئی تھی، اور پارہ 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، بھارت میں 61 کروڑ 90 لاکھ افراد کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، شدید ہیٹ اسٹروک کے 40 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، اور 800 افراد ہلاک ہوئے۔

    سعودی عرب میں حج کے دوران گرمی کے نتیجے میں 1300 لوگ جان سے گئے، سعودی عرب کے بعض شہروں میں پارہ 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا۔ امریکا کو بھی لگاتار ہیٹ ویو کا سامنا رہا، جنوبی ریاستوں میں پارہ 52 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ چین میں جون کے ماہ میں گرمی پڑنے کا نیا ریکارڈ بن گیا، مختلف شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری کو چھو گیا۔

    ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے مطابق مغرب میں اسرائیل، فلسطین، لبنان اور شام سے لے کر مشرق میں میانمار، تھائی لینڈ، ویتنام اور فلپائن تک، ایشیا کے بڑے علاقوں میں کئی دنوں تک درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رہا۔ مہاجر کیمپوں اور غیر محفوظ گھروں میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ آؤٹ ڈور ورکرز کے لیے یہ گرمی سخت اذیت ناک ثابت ہوئی۔

    ہیٹ ویوز شدید موسمی واقعات کی سب سے مہلک قسم ہیں، اکثر یہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کم بتائی جاتی ہے، لیکن فلسطین، بنگلادیش، بھارت، تھائی لینڈ، میانمار، کمبوڈیا اور فلپائن سمیت زیادہ تر متاثرہ ممالک میں پھر بھی سیکڑوں اموات کی اطلاع دی جا چکی ہے۔

    اس گرمی کا زراعت پر بھی بڑا اثر پڑا ہے، جس سے فصلوں کو نقصان پہنچا اور پیداوار میں کمی ہوئی، ساتھ ہی تعلیم پر بھی۔ سالانہ تعطیلات میں توسیع کرنا پڑی اور کئی ممالک میں اسکول بند کر دیے گئے، جس سے لاکھوں طلبہ متاثر ہوئے۔

    شمالی تھائی لینڈ میں درجہ حرارت 44 ڈگری سیلسیس سے بڑھ گیا، پچھلے سال کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں موسم 1-2 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم رہا، اور بارش اوسط سے کم ہوئی۔ 10 مئی 2024 تک تھائی لینڈ میں کم از کم 61 افراد ہیٹ اسٹروک سے ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد 37 تھی۔

    امریکا، برطانیہ، سویڈن، لبنان، ملائیشیا، اور ہالینڈ کے سائنس دانوں نے مل کر اس بات کا جائزہ لیا کہ خود انسانوں کے ہاتھوں سے لائی گئی موسمیاتی تبدیلی نے 3 ایشیائی خطوں کو کس حد تک متاثر کیا۔ انھوں نے ایک جائزہ رپورٹ شائع کی، جس میں کہا گیا کہ انسانوں کے ہاتھوں لائی گئی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تین ایشیائی ممالک میں گرمی کی شدت میں واضح طور پر اضافہ ہوا۔

    ان ممالک میں 1) مغربی ایشیا، بشمول شام، لبنان، اسرائیل، فلسطین اور اردن؛ 2) مشرقی ایشیا میں فلپائن؛ اور 3) جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا، بشمول بھارت، بنگلادیش، میانمار، لاؤ پی ڈی آر، ویت نام، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا شامل ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی نے مغربی ایشیا میں 3 دن کی اپریل ہیٹ ویو اور فلپائن میں 15 دن کی اپریل ہیٹ ویو کے امکانات اور شدت کو تبدیل کیا۔

    گرمی کی لہر نے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے لوگوں، تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے کیمپوں اور مغربی ایشیا میں تنازعات والے علاقوں میں رہائش پذیر افراد کی مشکل زندگی کو مزید مشکل بنا دیا۔ غزہ میں شدید گرمی نے 17 لاکھ بے گھر افراد کے حالات زندگی کو مزید خراب حال کر دیا۔ اس کی وجہ سے پانی کی قلت میں اضافہ ہوا اور ادویات تک رسائی میں مشکلات اور بڑھ گئیں۔

    Our World In Data نامی تنظیم کی ڈپٹی ایڈیٹر ہانا رچی نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں یا گرمی سردی کی وجہ سے ہونے والی اموات کے حوالے سے کہا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ گرمی کی نسبت سردی سے ہونے والی اموات بہت زیادہ ہوتی ہیں، یہ تناسب ایک اور 9 کا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی صرف گرمی سے ہونے والی اموات کا خطرہ ہی نہیں بڑھاتا بلکہ سردی سے ہونے والی اموات کے خطرے کو بھی کم کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے مجموعی اثرات ان دو مخالف قوتوں کا مجموعہ ہے۔ اس لیے سردی سے ہونے والی اموات میں کمی نے گرمی سے ہونے والی اموات کی شرح کو قدرے بڑھا دیا ہے۔

  • مصنوعی ذہانت سے متعلق بل گیٹس کا نیا انکشاف

    مصنوعی ذہانت سے متعلق بل گیٹس کا نیا انکشاف

    مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس نے مصنوعی ذہانت (اے آئی ٹیکنالوجی) کے حوالے سے بڑی پیشگوئی کردی۔

    اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی ٹیکنالوجی) سے موسمیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ بات انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں بتائی ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اس نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اچھے ارادے اور نیک نیتی سے کرنا چاہیے۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اے آئی سے ہمیں مختلف سائنسی موضوعات کے ماڈل تیار کرنے میں مدد ملے گی، میٹریلز کو سمجھنا بھی آسان ہو جائے گا۔

    بل گیٹس نے کہا کہ ہر شعبے میں اے آئی کو شامل کرنے سے تنوع کا عمل تیز ہوگا، اب چاہے وہ ادویات کا شعبہ ہو یا تعلیم کا، اے آئی کی بدولت ہمارے لیے پیچیدہ کام کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔

    مائیکرو سافٹ کے شریک بانی نے کہا کہ جب بھی آپ کے پاس ایک نئی ٹیکنالوجی ہوتی ہے تو زیادہ تر اسے اساتذہ، ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی جانب سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اسے زیادہ مؤثر بنایا جاسکے، مگر اے آئی ٹیکنالوجی کو لوگ سائبر حملوں یا سیاسی مداخلت کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اچھے افراد اس شعبے میں آگے آئیں اور منفی انداز سے اس کے استعمال کی روک تھام کریں۔

    اے آئی ٹیکنالوجی کو فیک ویڈیوز کی تیاری کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، لوگوں کو ویڈیوز دیکھتے ہوئے خود سے پوچھنا چاہیے کہ یہ کہاں سے سامنے آئی ہے۔

  • فالج کا ’ہیٹ ویو‘ سے کیا تعلق ہے، ماہرین کا بڑا انکشاف

    فالج کا ’ہیٹ ویو‘ سے کیا تعلق ہے، ماہرین کا بڑا انکشاف

    دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد بیماریوں سمیت فالج کے کیسز زیادہ سامنے آرہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شدید گرمی میں فالج سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس حوالے سے برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ ہیٹ ویو یا انتہائی سخت گرم موسم میں فالج لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماضی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ فالج کا حملہ صرف سردیوں میں ہوتا ہے، لیکن اب ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ  فالج نہ صرف سردیوں بلکہ انتہائی گرمی میں بھی ہوسکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی ماہرین نے جرمنی کے ہسپتال کے ڈیٹا پر یہ تحقیق کی کہ شدید گرمی کے موسم میں فالج ہونے کے کتنے خطرات ہوسکتے ہیں؟

    تحقیق کے دوران محققین نے 15سال کے دوران اسپتال میں زیر علاج مریضوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا، سال 2006 سے 2020تل کے مریضوں کی شرح نکالنے کے بعد بیماریوں کا موسم سے موازنہ کیا گیا۔

    محققین کے سامنے یہ بات آئی کہ فالج کے زیادہ تر کیسز مئی سے اکتوبر یعنی گرمی کے موسم میں ریکارڈ کیے گئے جو دیگر مہینوں کے مقابلے میں 85فیصد زائد ہیں۔

    ماہرین کی ٹیم نے اسپتال کے 15 سالہ ریکارڈ میں جن مریضوں کا معائنہ کیا ان کی اوسط عمر 70سال کے لگ بھگ تھی اور اس میں مرد و خواتین دونوں شامل تھے۔

    تحقیق میں یہ جو نتیجہ سامنے آیا اس کے مطابق شدید گرمی خاص طور پر بڑی عمر کے افراد سمیت خواتین اور بچوں پر بھی فالج کا حملہ ہونے کا امکان ہے۔

    محققین کے مطابق انتہائی سخت گرم موسم میں انسانی جسم میں خون کی ترسیل کا نظام بھی متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور متعدد اقسام کے فالج کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    ان کیفیات میں برین ہیمبرج جیسی فالج کی خطرناک قسم بھی شامل ہے، اس میں دماغ کی نس پھٹ جاتی ہے جس سے موت واقع ہونا یقینی ہے۔

    ہیٹ اسٹروک سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

    موسم گرما میں زیادہ سے زیادہ گھر میں یا کسی ٹھنڈی جگہ میں رہنے کو ترجیح دیں اگر باہر جانا ضروری ہو تو ہلکے پھلکے کپڑوں کا استعمال کریں جن کا رنگ گہرا نہ ہو، پانی ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں۔

    اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ پانی پینا عادت بنائیں یا کم از کم دن بھر میں 8 گلاس پانی، پھلوں کے جوس وغیرہ کا استعمال کریں کیونکہ شدید گرمی سے جسم میں نمک کی سطح کم ہوجاتی ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    اس ہفتے، سنگاپور ایئر لائنز کی ایک پرواز کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث میں فضا میں شدید انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ طیارے میں سوار ایک مسافر جنہیں دل کا عارضہ تھا، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور متعدد دیگر افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ فضائی انتشار اور ہوا بازی کو لاحق خطرات کے حوالے سے پے در پے ہونے والے واقعات کے تسلسل میں تازہ ترین تھا جن کے باعث اب دنیا بھر کی توجہ موسمیاتی تبدیلی اور ان کے نتیجے میں فضا میں بڑھنے والے انتشار پر مرکوز ہوگئی ہے۔

    ماہرین بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، کاربن کے اخراج اور فضا میں بڑھتے ہوئے انتشار کے درمیان موجود روابط کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی اگر شدید ہوتو اس کا نتیجہ طیاروں میں سوار افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

    یکم مئی 2022 کو، ممبئی سے کولکتہ جانے والی اسپائس جیٹ کی پرواز کو بھی فضا میں اسی طرح کا انتشار، ہنگامہ آرائی یا بے ترتیبی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ کئی مہینے بعد اس پرواز میں زخمی ہونے والے ایک مسافر کی موت بھی واقع ہو گئی۔ ہیمل دوشی، جو اس اسپائس جیٹ کی پرواز میں سوار تھیں، نے اپنی زندگی کے اس بھیانک تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتایا، “اچانک جھٹکے نے ہم سب کو گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھی ایک بزرگ خاتون کو پکڑ لیا تاکہ وہ اپنی سیٹ سے گرنے سے بچ سکیں۔“

    اسی طرح، 11 جون 2022 کو، پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی سے پشاور جانے والی ایئر بلیو کی پرواز کو بھی غیر متوقع طور پر ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا، جہاز کو لگنے والے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ تمام مسافر دہشت زدہ ہو گئے۔ جہاز میں سوار ایک مسافر نسرین پاشا نے بتایا کہ شدید افراتفری کے عالم میں تمام مسافر باآواز بلند تلاوت اور دعا کر رہے تھے اور گرنے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔ نسرین پاشا نے بتایا، “سب کچھ ٹھیک تھا اور ہم ہموار پرواز اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ لیکن اچانک، پرواز ناہموار اور شدید جھٹکوں کا شکار ہوگئی۔”

    فضائی انتشار کی سائنسی توجیہ اور اثرات
    اسلام آباد میں مقیم ایک سائنس داں محمد عمر علوی کے مطابق، غیر محفوظ آسمانوں کا سبب انسانوں کی جانب سے پیدا کیا گیا ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ “اوسط درجۂ حرارت میں اضافے اور جنگلات کی کٹائی کے باعث، ملک کے بڑے شہروں میں اور ان کے آس پاس کا ماحول مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ یہ عمل فضا میں حرارت کے غیر متوقع دھاروں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر فضا میں طیاروں کو ہنگامہ خیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے ہوائی اڈوں کے ارد گر۔” ڈاکٹر عمر علوی نے تفصیل سے بتایا۔

    عالمی سطح پر کیے گئے ایک مطالعے، جس کے نتائج 2019 میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے محکمہ موسمیات کی طرف سے شائع کیے گئے تھے، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فضا ئی ٹریفک کو بدترین اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔طیاروں کو فضا میں فضائی انتشار یا (clear-air turbulence (CAT) کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس قسم کی شدید فضائی ہنگامہ خیزی بادلوں کے بغیر علاقوں میں واقع ہوتی ہے اور مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کے ڈھانچے پر بھی بدترین اثرات کا سبب بنتی ہے، لیکن بادلوں کی عدم موجودی کی وجہ سے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس مطالعے نے یہ بھی واضح کیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے فضا میں گرم ہوا کے دھاروں کی شدت بڑھتی ہے، جس سے عالمی سطح پر ہوائی ٹریفک کے لیے بے ترتیبی (clear-air turbulence (CAT)) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، شمالی بحر اوقیانوس جیسی مصروف فضائی حدود متاثر ہو رہی ہے، جہاں 1979 سے 2020 تک شدید فضائی انتشارمیں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار سردار سرفراز خان نے کہا، “یہ پیش گوئی (فضائی انتشار) بالائی ماحول یعنی (85 کلومیٹر سے 600 کلومیٹرتک) ہوا کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاتی ہے جو ریڈیو سونڈ نامی آلے سے حاصل ہوتے ہیں، جو فضا میں 100 گرام کے غبارے کے ساتھ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔

    عام طور پر 30,000 فٹ سے اوپر کی سطح پر بہت تیز ہوا کے ساتھ جیٹ اسٹریم جہازوں کے لیے انتشار کا باعث بنتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی دراصل صرف حرکت پذیر ہوا ہوتی ہے۔ اور ہوا ریڈار میں استعمال ہونے والی الٹرا ہائی فریکوئنسی ریڈیو لہروں سے شفاف ہے۔ لہذا ریڈار پر اس ہوا کی کوئی بازگشت یا نشان دہی نہیں ہوسکتی ہے۔”

    موسمیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق
    سائنس داں، جیسے کہ رگھو مرتگوڈے، جو IIT بمبئی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نصاب کے پروفیسر اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی اورفضا میں بڑھتی ہوئی ہنگامہ خیزی کے درمیان تعلق کو اجاگر رہے ہیں۔ “گلوبل وارمنگ کے ساتھ، عمودی درجۂ حرارت (بڑھتی ہوئی بلندی کے ساتھ درجہ ءحرارت میں کمی) اور ونڈ پروفائلز (مختلف بلند سطح پر ہوا کی رفتار کے درمیان تعلق) کیونکہ زمین اضافی توانائی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہی ہے جو گرین ہاﺅس گیسوں کی وجہ سے زمین پر موجود ہے۔ فضا میں تیز اوپر اور نیچے کی طرف حرکت اور درجۂ حرارت کی سطح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس سے فضا میں انتشار یا (Clear-air turbulence) تشکیل پاتا ہے۔”

    IIT کھڑگپور کے آب و ہوا کے ایک ماہر اور ماحولیاتی کیمیا دان جے نرائن کٹی پورتھ نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ پوری دنیا میں سطح پرموجود ہوا کے درجۂ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نتیجتاً، شدید موسمی واقعات بھی متواتر اور تباہ کن طور پر رونما ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ عالمی سطح پر ہوا کے درجۂ حرارت میں ہر فی سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ شمالی نصف کرہ کے موسم بہار اور سرما میں معتدل CAT واقعات میں تقریباً % 9 اور خزاں اور گرما میں % 14 اضافہ ہو جائے گا۔ اگر مستقبل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو CAT واقعات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ابتدائی انتباہی نظام (Early Warning System) کو بہتر بنانے اور ہوائی جہازوں میں ایسے آلات نصب کرنے پر زور دیا جو ایسے واقعات کا اندازہ لگاسکیں ۔ آئی آئی ٹی بمبئی میں ان موضوعات پر تحقیق جاری ہے۔

    ہندوستان کی ارتھ سائنسز کی وزارت کے سابق سکریٹری مادھون نیر راجیون نے کہا کہ مسافروں کو ہوشیار رہنا ہو گا، “فضائی بے ترتیبی میں اضافہ اور اس سے متعلقہ خطرات، جیسے کہ شدید موسمی واقعات وغیرہ، مسافروں کے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جب کہ ہوا بازی کے شعبے کا کردار اہم ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کو قبول کیا جاتا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوشش بہت اہم ہے، پروازوں کی منسوخی کی مالی لاگت بھی فضائی سفر پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

    پاکستانی موسمیاتی سائنس داں محمد ایوب خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی فضائی صنعت کو متعدد طریقوں سے متاثر کر رہی ہے۔ “انتہائی گرمی طیاروں کو گراؤنڈ رکھ سکتی ہے، جب کہ بڑھتی ہوئی حرارت جیٹ اسٹریمز میں تبدیلی کرسکتی ہے جس سے فضا میں مزید بے ترتیبی اور انتشار ہو سکتا ہے، اس کے نتیجے میں ہوائی اڈے کے کارکنوں کی صحت کے لیے خطرات اور ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔”

    جنوبی ایشیا میں ہوا بازی کی پھلتی پھولتی صنعت اور خطرات
    یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہوائی سفر کی صنعت خاص طور پر جنوبی ایشیا میں نمایاں طور پر ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی رپورٹ کے مطابق ہوابازی کی صنعت پاکستان کی قومی جی ڈی پی میں 2 ارب امریکی ڈالرز کا اضافہ کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر ملکی سیاحوں کے خرچ سے ملک کے جی ڈی پی میں مزید 1.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے، جو کل 3.3 بلین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

    رپورٹ میں “موجودہ رجحانات” کے منظر نامے کے تحت اگلے 20 سالوں میں پاکستان میں ہوائی نقل و حمل میں 184 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں 2038 تک اضافی 22.8 ملین فضائی مسافروں کی آمد و رفت بڑھے گی۔ اگر بہتر انتظام کے ذریعے اس بڑھتی ہوئی طلب سے فائدہ اٹھایا گیا تو جی ڈی پی میں تقریباً 9.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ملک کے لیے تقریباً 786,300 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

    ہندوستان میں، IATA نے اگلے 20 سالوں میں% 262 ترقی کی پیش گوئی کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے نتیجے میں 2037 تک 370.3 ملین مسافروں کے اضافی سفر ہوں گے۔ اگر اس طلب کو پورا کیا جائے، تو اس بڑھتی ہوئی مانگ سے GDP میں تقریباً 126.7 بلین امریکی ڈالرز کا اضافہ ہوگا اور تقریباً 9.1 ملین ملازمتیں شامل ہوں گی۔

    ماحول دوست ہوا بازی کی صنعت
    ہوا بازی کی صنعت کو برسوں سے اس کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اثرات، خاص طور پر فضا میں کاربن کا اخراج جو فضا میں حرارت میں اضافہ کرتا ہے، کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جرمن ایرو اسپیس سینٹر کے ایک محقق، برنڈ کرچر کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوائی جہازوں کا ایک اور ضمنی پروڈکٹ – دھوئیں کی وہ سفید دھاریاں(Contrails) جو وہ آسمان پر پینٹ کرتے ہیں – کی گرمی کا اثر اور بھی شدید ہے، جو 2050 تک تین گنا ہو جائے گا۔

    اس تحقیق میں کہا گیا ہے، “طیارے شفاف، ٹھنڈی ہوا میں اونچے اڑتے ہی اپنے مسحور کن دھاریوں کا اخراج کرتے ہیں جن پر دیکھنے میں خوبصورت بادلوں کا گماں ہوتا ہے ۔ پانی کے بخارات ہوائی جہاز سے اخراج کے بعد ارد گرد ٹھنڈی فضا میں تیزی سے گاڑھے ہونے لگتے ہیں اور ایسے بادلوں کی شکل میں جم جاتے ہیں جن میں برف کے ٹکڑے بھی ہوتے ہیں، جو منٹوں یا گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں۔ یہ اونچے اڑنے والے بادل بہت زیادہ سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کے لیے پتلے ہونے کے باعث ناموزوں ہوتے ہیں، لیکن ان کے اندر موجود برف کے کرسٹل گرمی کو ٹریپ کر لیتے ہیں۔ نچلے درجے کے بادلوں کے برعکس جو خالص ٹھنڈک کا اثر رکھتے ہیں، یہ متضاد بادل آب و ہوا کو گرم کرتے ہیں۔

    ہوا بازی کے کچھ ماہرین جہازوں سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سبز ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجربہ کر رہے ہیں، اگراس حوالے سے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ فضا میں طیاروں کو لاحق خطرات (CAT) میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے، جو دراصل کاربن کے اخراج سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔

    سارہ قریشی، ایک پاکستانی پائلٹ اور ایروناٹیکل انجینئر ہیں، جن کا مقصد طیاروں کے پرواز کے دوران خارج ہونے والے سفید دھوئیں (Contrails) کی آلودگی کو کم کرنا اور ہوا بازی کی صنعت کو سر سبز بنانا ہے۔

    سارہ قریشی نے برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی (Canfield University) سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، انہوں نے ہوائی جہاز کے ماحول دوست انجن بنانے کے لیے ایک ایرو انجن کرافٹ کمپنی قائم کی ہے۔یہ انجن ہوائی جہاز سے خارج ہونے والے پانی کے بخارات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس لیے یہ آبی بخارات خارج ہونے کے بجائے پانی کی شکل میں جہاز میں جمع ہوتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اس پانی کو خشک سالی والے علاقوں میں بارش کے طور پر چھڑکا جا سکتا ہے۔

    پاکستان سے ہوا بازی کے ماہر محمد حیدر ہارون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ، “پائیدار ہوا بازی کے ایندھن کی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہائیڈروجن اور بیٹری/ بجلی سے چلنے والے ہوائی جہاز 2030 کی دہائی کے آخر میں عالمی ہوا بازی کو زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔ ایندھن کی بچت کرنے والے ہوائی جہازوں کو عالمی سطح پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ایئر لائنز میں شامل کیا جانا چاہیے۔“ ہارون کے مطابق، اپ گریڈ شدہ انجن، بہتر ایرو ڈائنامکس، ہلکے کمپوزٹ میٹریل اور بائیو بیسڈ پائیدار ایوی ایشن فیول سبز ہوابازی کی صنعت کے حل میں سے ایک ہے اور یہ اقدامات ہوا بازی کی صنعت میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔

    سارہ قریشی نے کہا کہ”جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں صرف ایک صنعت کام کرتی ہے۔ ہم اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ ہم سے ایک کلومیٹر اوپر فضا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ہوا بازی کی آلودگی ایک کمبل کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ زمین کی سطح کو ڈھانپ رہا ہے، اور گلوبل وارمنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔“

    یہ تحقیقی رپورٹنگ پروجیکٹ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام ”سرحدوں کے آر پار ٹریننگ ورکشاپ“ کا حصہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے صحافی سرحد پار موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ مسائل پر کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

    (چندرانی سنہا، شبینہ فراز کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • غیر متوقع بارشیں، سیلابی صورت حال، موسمیاتی اثرات مزید کیا خطرات لا رہے ہیں؟

    غیر متوقع بارشیں، سیلابی صورت حال، موسمیاتی اثرات مزید کیا خطرات لا رہے ہیں؟

    اپریل کے مہینے میں غیر متوقع بارشیں تو ہوتی ہیں لیکن کبھی سیلاب نہیں آیا، تاہم اس سال اپریل میں جو صورت حال سامنے آئی ہے اسے دیکھ کر مون سون کے حوالے سے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

    ملک بھر میں گزشتہ دو ہفتوں سے وقفے وفقے سے جاری بارشوں سے اب تک 96 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں بارشوں سے نقصانات زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں سیلابی صورت حال ہے تو خیبر پختونخوا میں بھی لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے تباہی مچائی۔ بارشوں سے جہاں جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں وہاں فصلوں پر بھی ان کا تباہ کن اثر پڑ رہا ہے، خیبر پختونخوا میں گندم کی فصل تیار ہے لیکن بارشوں کی وجہ سے کٹائی سیزن تاخیر کا شکار ہے، اور گندم کی فصل متاثر ہو رہی ہے۔

    باشوں سے ہونے والے نقصانات

    خیبر پختونخوا میں بارشوں سے اب تک 46 افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور 60 افراد زخمی ہیں، صوبے میں 2 ہزار 875 گھروں کو نقصان پہنچا ہے، 436 گھر مکمل تباہ جب کہ 2 ہزار 439 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

    مزید بارشوں کا امکان

    محکمہ موسمیات نے ملک بھر سمیت خیبر پختونخوا میں 23 اپریل سے 29 اپریل تک شدید بارشوں اور تیز ہوائیں چلنے کی پیش گوئی کی ہے، صوبائی حکومت نے شدید موسمی صورت حال کے پیش نظر صوبے کے 15 اضلاع میں موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کی ہے۔ حکومت نے ضلعی انتظامیہ اور اسپتالوں کے عملے کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کیے ہیں۔ پی ڈی ایم کے مطابق 9 اضلاع میں گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ بھی موجود ہے۔

    بارشوں سے گندم کی فصل پر اثرات

    شدید بارشوں کے باعث دریاؤں کے کنارے کھڑی فصلیں شدید متاثر ہوئی ہیں، بارش اور ژالہ باری سے باغات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ دریائے سوات، دریائے پنجکوڑی، اور دریائے کابل میں سیلابی صورت حال پیدا ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل متاثر ہوئی ہے۔

    صباق ایگری کلچر ریسرچ سینٹر

    حمید الرحمان پیر صباق ایگری کلچر ریسرچ سینٹر نوشہرہ میں ریسرچ آفیسر ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس وقت گندم کی فصل تیار ہے، خیبر پختونخوا میں عموماً مئی کے پہلے ہفتے میں گندم کی کٹائی شروع ہو جاتی ہے، لیکن اس سال بارشوں کی وجہ سے ابھی تک گندم کی فصل سبز ہے۔ بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سے فصل میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے یہ گر جاتا ہے، اس کو ایگریکلچر کی زبان میں لاجنگ کہا جاتا ہے۔ گندم کا پودا زمین پر گر جاتا ہے اور جب یہ گر جاتا ہے تو دوبارہ نہیں اٹھ سکتا۔ اس وجہ سے گندم کی پیدوار متاثر ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کٹائی میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔

    حمید الرحمان نے بتایا کہ اگر فصل پک چکی ہے اور خشک ہو اور اس دوران زیادہ بارشیں ہوں تو اس میں وقت گندم کا دانہ کالا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک فنگل ڈیزیز (fungal disease) ہے اور اس کو کرنال بنٹ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں گندم کا دانہ کالا ہو جاتا ہے، اس سے کوالٹی پر اثر پڑتا ہے۔ اگر اس کو کھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا تو کوالٹی خراب ہوگی اور اگر بہ طور سیڈ استعمال کرنا ہو تو بھی اس کی پیداوار متاثر ہوگی۔

    دریائے خیالی کے کنارے

    طیب احمد زئی کا تعلق چارسدہ ہے اور دریائے خیالی کے کنارے پر ان کی زمینیں ہیں، بارشوں اور سیلاب سے طیب احمد زئی کی 5 ایکڑ زمین پر محیط گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ طیب نے بتایا کہ دریائے خیالی میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے قریب علاقے زیر آب آتے ہیں، ایسے میں دریا کے کنارے کھیتوں میں فصلیں بھی سیلابی پانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔

    اس سوال پر کہ کیا پہلے بھی اپریل کے مہینے میں دریا میں پانی کی سطح اتنی بلند ہوئی ہے؟ طیب احمد زئی نے بتایا کہ اس کو نہیں یاد کہ اپریل میں سیلاب آیا ہو۔ غیر متوقع بارشیں اپریل کے مہینے میں ہوتی ہیں لیکن کبھی اس طرح سیلابی صورت حال پیدا نہیں ہوئی، جس طرح اس بار سیلاب آیا ہے۔ اپریل میں یہ صورت حال ہے تو مون سون میں اللہ خیر کرے۔

    سوات میں شدید بارشیں ہوتی ہیں تو دریائے پنجکوڑی اور دریائے سوات میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور پھر دونوں دریاؤں کا پانی سیلابی شکل اختیار کر کے منڈا ہیڈ ورکس اور پھر دریائے خیالی میں سیلاب کی صورت حال پیدا کرتی ہے۔ دریائے خیالی کا پانی دریائے کابل میں گر کر نوشہرہ میں سیلاب کا باعث بنتی ہے، جس کی وجہ سے دریا کے قریب کھیت اور آبادی اس کی زد میں آ جاتی ہے۔

  • کلاؤڈ سیڈنگ : غیرمعمولی بارشوں کا اصل سبب کیا ہے ؟

    کلاؤڈ سیڈنگ : غیرمعمولی بارشوں کا اصل سبب کیا ہے ؟

    گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی معمول سے زیادہ بارشوں کا عندیہ دیا جارہا ہے جس کی ایک جھلک صوبہ بلوچستان میں دیکھنے میں آرہی ہے۔

    دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بادل جم کر برسیں گے۔

    غیرمعمولی موسلادھار بارشیں کیوں ہوتی ہیں ایسے کون سے اقدامات ہیں جس کی اثرات کی وجہ سے موسمی حالات بدل جاتے ہیں۔ ،

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر حسن عباس نے مصنوعی بارشوں (کلاؤڈ سیڈنگ) سے متعلق تفصیلی آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ کلاؤڈ سیڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ایسے بادلوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو ممکنہ طور پر شدید بارش کا باعث بن سکیں۔

    مصنوعی بارشوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ کلاؤڈ سیڈنگ انرجی سسٹم میں تبدیلی سے بھی بارشیں بہت زیادہ ہورہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ انرجی سسٹم میں تبدیلی سے ہائیڈرو لوجیکل سائیکل متاثر ہوتا ہے کیوں کہ یہ پورا نظام ہے کہ سمندری پانی آبی بخارات بن کر بادلوں کی صورت میں سفر کرتا ہے اور ایک وقت پر بادل برس جاتے ہیں۔

    لیکن کلاؤڈ سیڈنگ سے اس کی رفتار اور انرجی میں تیزی آجاتی ہے اور بادل بھی بڑے اور طاقتور بنتے ہیں اور اپنی جگہ پر برسنے کے بجائے اس مقام سے آگے نکل جاتے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں متحدہ عرب امارات کی معاونت سے کلاؤڈ سیڈنگ کے تحت لاہور میں مصنوعی بارش کا پہلا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا۔

    خصوصی جہاز کی پرواز وہاں کی جاتی ہے جہاں بادلوں سے ٹربیلنس پیدا ہوتی ہے، وہاں پہنچ کر ایسے کیمیائی مادے خارج کیے جاتے ہیں جن سے چین ری ایکشن ہو۔ اس عمل سے بادل غیر مستحکم ہوتا ہے اور جہاز کو فوراً وہاں سے باہر نکالنا پڑتا ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان

    موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان

    دبئی: یو اے ای نے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یو اے ای نے کوپ 28 کلائمیٹ چینج کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 30 ارب ڈالر فنڈز کا اعلان ہوا ہے۔

    عالمی موسمیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید نے کلائمیٹ فنڈ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ فنڈ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کے حل کے لیے ہے۔

    شیخ محمد بن زاید النہیان کا کہنا تھا کلائمیٹ فنڈ ،کلائمیٹ فنانس گیپ کو بھرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے، فنڈ کا مقصد 2030 تک 250 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

    حیاتیاتی ایندھن ہماری زمین پر آگ برسارہے ہیں: یو این سیکریٹری جنرل

    یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کوپ 28 کلائمیٹ چینج کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، حیاتیاتی ایندھن ہماری زمین پر آگ برسارہے ہیں۔

    سیکریٹری جنزل نے کہا کہ دنیا کی بڑی کمپنیوں کو ماحول دوست کاروبار کی طرف آنا ہوگا، یاد رکھیں آپ کا کاروباری فائدہ اس انسانوں کی بقا میں پنہاں ہے۔

    پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک نتائج بھگتے: بادشاہ چارلس 

    دوسری جانب اس کانفرنس میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس نے بھی شرکت کی، انہوں نے خطاب میں کہا کہ امید ہے 28 کلائمیٹ چینج کانفرنس دنیا میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔

    بادشاہ چارلس نے کہا کہ دنیا تاریخ میں موسمیاتی تبدیلی کو لے کر اہم موڑ پر کھڑی ہے، شیخ زید اس زمانے میں موسمیاتی تبدیلی کی بات کرتے تھے جب یو اے ای وجود میں نہیں آیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کے رہنماؤں نے کردار ادا نہیں کیا، دنیا کے متعدد ممالک ماحولیاتی تبدیلی کا نشانہ بن رہے ہیں، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں تاریخ کے بدترین سیلاب آرہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک نتائج بھگتے ہیں، سیلاب کے باعث پاکستان کو شدید نقصانات اٹھانے پڑے، ہمیں قدرتی ماحول کو بچانے کیلئے فوری اقدامات کرنے ہونگے۔

    بادشاہ چارلس نے خطاب میں کہا کہ گرین ہاؤس گیسز پیدا کرنے والی تمام صنعتوں کا متبادل موجود ہے، دنیا بھر کے انجینئرز، سائنسدانوں اور خاص کر مقامی لوگوں کو بٹھا کرپائیدار دنیا کے قیام کیلئے راہیں تلاش کرنا ہونگی، ناصرف انسانوں بلکہ دنیا میں تمام حشرات کی بقا کا بندوبست کرنا ہوگا، ہمیں قدرتی ماحول میں زندگی گزارنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

  • ’’پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان کررہی ہے‘‘

    ’’پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان کررہی ہے‘‘

    اسلام آباد : آئی ایم ایف نے پاکستان میں پبلک انویسٹمنٹ سے متعلق رپورٹ جاری کردی جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی رسک والے ممالک میں شامل ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سال2022کے سیلاب سے پاکستان میں3کروڑ لوگ متاثر ہوئے جبکہ سال2000سے پاکستان میں ہرسال موسمیاتی تبدیلی2ارب ڈالر کا نقصان کررہی ہے۔

    اس کے علاوہ ہرسال500افراد قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہلاک ہو رہے ہیں، پاکستان میں ہر سال40لاکھ افراد موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

    آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں زراعت اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کررہی ہیں، سال2050تک پاکستان کی معیشت قدرتی آفات سے9فیصد تک متاثر ہوسکتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بجٹ انتہائی ناکافی ہے، پاکستان ترقیاتی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پروجیکٹس کو ترجیح دے۔

    آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں10ہزار ارب سے زائد کے ترقیاتی منصوبے ہیں، پاکستان کے ترقیاتی منصوبے بجٹ سے14گنا زیادہ ہیں، جاری تمام ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے14ترقیاتی بجٹ درکار ہیں۔

  • پاکستان کو آئندہ برسوں میں کن ماحولیاتی تباہیوں کا سامنا ہوگا؟ عالمی ماحولیاتی اداروں نے خبردار کر دیا

    پاکستان کو آئندہ برسوں میں کن ماحولیاتی تباہیوں کا سامنا ہوگا؟ عالمی ماحولیاتی اداروں نے خبردار کر دیا

    عالمی بینک اور ماحولیاتی اداروں نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، اور کہا ہے کہ پاکستان کو آیندہ برسوں میں شدید درجہ حرارت، قحط، خشک سالی اور سیلاب جیسے مسائل کا سامنا ہوگا۔

    ماحولیاتی تباہی کے باعث پاکستان کو شدید مسائل کا سامنا ہے، بین القوامی ماحولیاتی ادارے ’جرمن گلوبل کلائمٹ انڈیکس‘ نے پاکستان کو مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے پیش نظر دنیا کا آٹھواں متاثر ترین ملک قرار دے دیا ہے۔

    پاکستان کا آٹھواں نمبر

    جرمن تھنک ٹینک، گرین واچ کی گلوبل کلائمٹ انڈیکس 2020 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں نمبرپر ہے، اسی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 1999 سے 2019 کے درمیان موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں افراد بے گھر اور 3.8 بلین ڈالر کے اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیش آنے والے خطرات میں مزید اضافے کا خطرہ موجود ہے، ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں دنیا کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب 2022 کے سیلاب سے ساڑھے 3 کروڑ افراد بے گھر اور متاثر ہوئے جب کہ 10 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    پاکستان میں صرف 2011 /12 کے سیلاب میں ہزاروں گھر تباہ ہوئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، 200 ارب روپے کی معیشت کا نقصان ہوا، جب کہ پورے ملک میں کئی سالوں تک خشک سالی نے زرعی اجناس کی پیداوار کو نہ صرف بری طرح متاثر کیا، بلکہ اس خشک سالی سے مویشی بھی ہلاک ہوئے۔

    درجہ حرارت میں 50 ڈگری تک ریکارڈ اضافہ

    ڈبلیو ڈبلیو ایف ایف پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران خالد کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب ملک بھر میں پچھلے چند برسوں سے درجہ حرارت میں 50 ڈگری تک ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور ماہرین درجہ حرارت میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔

    اگرچہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان کو 8 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، پاکستان کو عالمی سطح پر پھیلائی جانے والی فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ بعض مقامی حالات بھی متاثر کر رہے ہیں۔ دیہی علاقوں کی بہ نسبت شہری علاقوں میں برقی آلات کا حد سے زیادہ استعمال گرمی کی شدت میں بڑے اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

    4 بڑے خطرات

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ نے بھی مستقبل میں پاکستان کو پیش آنے والے 4 بڑے خطرات سے متنبہ کیا ہے، جس میں سیلاب، خشک سالی، شدید قحط، شدید گرمی اور ٹراپیکل سائیکلون شامل ہیں۔

    ان حالات کی وجہ سے پاکستان کو مستقبل میں قحط، فاقہ کشی، مہنگائی، اور زراعت سے منسلک 45 فی صد افراد کا مستقبل تباہ ہونے سمیت دیگر مسائل کا سامنا رہے گا۔

    ’پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا، اگر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک بن جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شجر کاری پر پاکستان میں اب کافی مثبت رجحان دیکھا جا رہا ہے، اس سے ہمیں درجہ حرارت کو کم کرنے میں بہت مدد ملے گی، ایسے میں سولر پینل کا استعمال اور عوام میں ماحولیات کے بارے میں مثبت آگاہی گلوبل وارمنگ میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

  • یورپ میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات پر سائنسدان کیا کہتے ہیں؟

    یورپ میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات پر سائنسدان کیا کہتے ہیں؟

    دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے سبب امریکا چین اور یورپ کے کئی ممالک میں شدید گرمی نے عوام کو بے حال کر دیا ہے۔

    گزشتہ روز شائع ہونے والے سائنسدانوں کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس ماہ شمالی امریکہ، یورپ اور چین میں شدید گرمی کی لہروں نے کاروبار زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا۔

    رواں ماہ جولائی کے دوران انتہائی گرم موسم نے کرہ ارض پر تباہی مچا دی، چین، امریکا اور جنوبی یورپ میں درجہ حرارت اپنے عروج پر رہا، اس شدید گرمی کے باعث جنگلوں میں آتشزدگی کے واقعات اور ہیٹ ویوز کے پیش نظر اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ سامنے آیا ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے آخری ایام میں یونانی جزیرے روڈس سے ہزاروں سیاحوں کو نکال دیا گیا تاکہ وہ اس ریکارڈ توڑ گرمی کی وجہ سے جنگل میں لگنے والی آگ سے محفوظ رہ سکیں۔

    موسموں پر نظر رکھنے والی ایک عالمی تنظیم ’ورلڈ ویدر اٹریبیوشن‘ نے اندازہ لگایا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے ارتکاز نے یورپی ہیٹ ویو کو 2.5 سیلسیس (4.5 فارن ہائیٹ) سے زیادہ گرم بنا دیا ہے۔ ان گیسز نے شمالی امریکہ میں گرمی کی لہر کو ٹو سینٹی گریڈ اور چین میں ون سینٹی گریڈ تک بڑھا دیا۔

    جنگل

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی اس شدید اور جان لیوا گرمی نے انسانی صحت پر براہ راست اثر ڈالنے کے ساتھ ساتھ امریکا اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر مکئی اور سویا بین کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچایا اور لوگوں کے مویشی بھی بیمار ہوئے یا مرگئے۔

    گرمی

    سائنسدانوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بڑھتی ہوئی گرین ہاؤس گیسز سب سے بڑا عنصر تھیں اور اگر اس کے اخراج میں کمی نہ کی گئی تو گرمی کی لہروں میں اضافے کا امکان مزید بڑھ جائے گا۔